سیرت حسنین کی روشنی میں معراج انسانیت

جبکہ حضرت پیغمبر خدا کی واحد زندگی میں مختلف نمونے سامنے آ گئے جو بظاہر متضاد ہیں۔ حضرت علی بن ابی طالب کی واحد زندگی میں ایسی ہی مثالیں سامنے آ گئیں تو اب اگر دو شخصیتوں میں باقتضائے حالات اس طرح کی د ورنگی نظر آئے تو اس کو اختلاف طبیعت یا اختلاف رائے کا نتیجہ سمجھنا کیونکہ درست ہو سکتا ہے اور یہ کیوں کہا جائے کہ حسن مجتبیٰ طبعاً صلح پسند تھے اور امام حسین طبعاً جنگ پسند تھے بلکہ یہی سمجھنا چاہئے کہ اس وقت کے حالات کا تقاضا وہ تھا اور اس وقت کے حالات کا تقاضا یہ ہے کہ اس وقت حسن مجتبیٰ امام تھے ان کو فریضہٴ الٰہی وہ محسوس ہوا اور اس وقت حضرت حسین بن علی امام تھے، ان کو فریضہٴ ربانی اس وقت کے حالات میں یہ محسوس ہوا۔ اس میں جذبات کا کوئی دخل نہ تھا۔

یہی وہ حقیقت ہے جس کا حضرت پیغمبر خدا نے مختلف الفاظ میں پہلے سے اظہار فرما دیا تھا۔ کبھی ان الفاظ میں کہ: ابنای ھٰذان امامان قاما اوقعدا۔ “یہ میرے دونوں فرزند امام ہیں چاہے کھڑے ہوں اور چاہے بیٹھے ہوں۔”

اس وقت کی دنیا اس کو نہیں سمجھ سکتی تھی کہ امام کہنے کے ساتھ قاما اوقعدا۔ کس لئے کہا جا رہا ہے؟ امامت میں اٹھنے اور بیٹھنے کا کیا دخل۔ مگر جب مستقبل نے واقعات پر سے پردہ ہٹایا تو اب معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر ماضی کے آئینہ میں مستقبل کا نقشہ دیکھ رہے تھے ک ہایک صلح کرکے بیٹھ جائے گا اور ایک تلوار لے کر کھڑا ہو جائے گا۔ کچھ لوگ حسن کی صلح پر اعتراض کریں گے اور کچھ لوگ حسین کی جنگ پر۔ آپ نے اسی لئے ارشاد فرمایا کہ یہ دونوں امام ہیں چاہے کھڑے ہوں اور چاہے بیٹھے ہوں۔ یعنی حسن صلح کرکے بیٹھ جائے تو اعتراض نہ کرنا اور حسین تلوار لے کر کھڑا ہو جائے تو اعتراض نہ کرنا وہ بیٹھنا بھی حکم خدا سے ہے اور یہ کھڑا ہونا بھی حکم خدا سے ہے وہ اس وقت کے حالات کا تقاضا ہے اور یہ اس وقت کے حالات کا۔

اور کبھی اس طرح جسے علامہ ابن حجر نے لکھا ہے کہ سیدہ عالم اپنے والد بزرگوار حضرت رسول کے پاس دونوں شاہزادوں کو لے کر حاضر ہوئیں اور عرض کیا۔ یَا آیَتِ ھٰذَانِ ابْنَاک انحَلْھُمَا ابا جان یہ دونوں بچے آئے ہیں انہیں کچھ عطا فرمائیے۔” حضرت نے فرمایا: اَمَّاالْحُسْنُ فَلَہْ حِلمِی وَ سوُدَدِی واَمّالْحُسَیْنُ فَلَد‘ جُرأتِی وَجُودِی مطلب یہ ہوا کہ انہیں اور کسی عطیہ کی کیا ضرورت ہے ان میں تو میری صفتیں تقسیم ہو گئی ہیں حسن میں میرا حلم ہے اور میری شان سرداری اور حسین میں میری جرأت و ہمت ہے اور میری فیاضی…اب تقسیم پر غور کیجئے۔ معلوم ہوتا ہے۔ کہ ظرف زمانہ کے لحاظ سے جس کو جس صفت کا مظہر بننا تھا اسی صفت کو رسول نے اپنا قرار دیا۔ تاکہ اس صفت سے جو کارنامہ ظہور میں آئے وہ کسی مسلما ن کے نزدیک قابل اعتراض نہ ہو سکے۔

اب اس کا مطلب یہ ہوا کہ حسن کی صلح کو حسن کی طبیعت کا تقاضا نہ سمجھنا بلکہ وہ میرے حلم کا نتیجہ ہے اس کا مطلب صاف یہ ہے کہ اس موقع پر میں ہوتا تو وہی کرتا جو حسن کرے گا اور حسین کی جنگ کو حسین کی طبیعت کا تقاضا نہ سمجھنا بلکہ وہ میری جرأت کا نتیجہ ہے اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس موقع پر میں ہوتا تو وہی کرتا جو حسین کرے گا۔

اب حسن کی صلح پر اعتراض رسول کے حلم پر اعتراض ہے اور حسین کی جنگ پر اعتراض رسول کی جرأت پر اعتراض ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ حسن نے صلح کرکے جہاد حسین کے لئے زمین ہموار کر دی۔ وہ صلح اس وقت نہ ہوتی تو اس کے بعد جہاد کا یہ ہنگام نہ آ سکتا۔ کیونکہ اسلام میں جنگ بہ مجبوری ہوتی ہے عدم امکانِ صلح کی بنا پر جب تک اصول کے تحفظ کے ساتھ صلح کا امکان ہو اس وقت تک جنگ کرنا غلط ہے جب کہ آئین اسلام میں صلح کا درجہ جنگ پر مقدم ہے تو اگر امام حسن صلح نہ کر چکے ہوتے تو اتمام حجت نہ ہوتی اور حضرت امام حسین کے لئے جنگ کا موقع پیدا نہ ہوتا۔

امام حسن کے شرائط صلح پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ اس صلح کے شرائط میں ان مقاصد کا پورا پورا تحفظ کیا گیا تھا جن کے لئے پھر کربلا کی جنگ ہوئی۔ یہ نہ دیکھئے کہ بعد میں شرائط پر عمل نہیں ہوا۔ بعد میں عمل تو حدیبیہ کی صلح کے شرائط پر بھی نہ ہوا تھا مگر یہ تو ایک معاہدہ صلح کا وقوع میں آیا جب ہی فریق مخالف پر الزام عائد ہو سکا کہ اس نے ان شرائط پر عمل نہیں کیا اور اگر کوئی ایسا معاہدہ ہوا ہی نہ ہوتا تو یہ خلاف ورزی کا الزام فریق مخالف پر کہاں عائد ہو سکتا تھا۔ جب حدیبیہ کے شرائط پر عمل نہ ہوا تو فتح مکہ ہوئی اسی طرح اس صلح پر عمل نہ ہوا۔ تو معرکہٴ کربلا ہوا۔

معلوم ہوا کہ یہ تاریخی واقعات کی رفتار کا لازمی اقتضاء تھا کہ اس وقت صلح ہو اور اس وقت جنگ ہو۔ اور وہ حصہ وقت کا امام حسن کے حصہ میں آیا اور یہ ہنگام امام حسین کے حصہ میں آیا۔ اگر معاملہ بالعکس ہوتا یعنی ۴۱ھ میں امام وقت امام حسین ہوتے تو وہ صلح امام حسین کرتے اور اگر ۶۱ھ میں امام حسن موجود ہوتے تو یہ جہاد امام حسن فرماتے۔

حضرت امام حسن جانتے تھے کہ میرا جہاد ہے صلح کرنا۔ ان کی صلح مقتضائے شجاعت تھی اور امام حسین کا جہاد تھا یزید کے مقابلہ میں تلوار کھینچنا۔ یہ ان کی شجاعت کا مظاہرہ تھا۔ کیونکہ جس طرح علمائے اخلاق نے بیان کیا ہے شجاعت ہر موقع پر تلوار لے کر بڑھ جانے کا نام نہیں ہے۔ بلکہ شجاعت قوت غضب کے تابع حکم عقل ہون یکا نام ہے اور یہ قوت غضبیہ کے اعتدال کا درجہ ہے اگر انسان نے بے موقع غصہ سے کام لیا اور قدم آگے بڑھا دیا تو یہ “تہوُّ” ہو گا اور اگر موقع آنے پر بھی اس سے کام نہ لیا اور بے محل کمزوری دکھائی تو اس کا نام “جُبن” ہو گا یہ دونوں چیزیں شجاعت کے خلاف ہیں۔ شجاعت یہ ہے کہ بے محل قدم آگے نہ بڑھے اور محل آنے پر خاموشی نہ ہو۔ ان دونوں رخوں کو حسن و حسین نے پیش کیا اور اس طرح دونوں نے مل کر شجاعت کی مکمل تصویر کھینچ دی۔

آئندہ آئے گا کہ حضرت امام حسین نے بھی صلح کی کوشش میں کوئی کمی نہیں کی یہ تو فریق مخالف کا طرز عمل تھا کہ اس نے وہ تمام شرائط مسترد کر دیئے۔ اگر دشمن ِشرائط کو منظور کر لیتا تو کارنامہ کربلا بھی صلح پر ختم ہوتا۔ اس کے بعد کسی کو یہ کہنے کا کیا حق ہے کہ امام حسن طبعاً صلح پسند تھے اور امام حسین نسبتاً جنگ پسند تھے۔

اس کا بھی بیان ابھی آئے گا کہ وہاں حاکم شام نے سادہ کاغذ بھیج دیا تھا کہ حسن مجتبیٰ جو چاہیں وہ شرائط لکھ دیں۔ امام نے شرائط لکھے اور حاکم شام نے ان کو منظور کیا دنیا غلط کہتی ہے کہ امام حسن نے حاکم شام کی بیعت کر لی۔ بیعت تو حقیقتاً اس نے کی جس نے شرائط مانے۔ انہوں نے تو بیعت لے لی۔ بیعت کی نہیں۔ اور امام حسین کے سامنے تھا یزید ایسے شخص سے بیعت کا سوال جسے آلِ محمد میں سے کوئی بھی منظور نہیں کر سکتا تھا۔

امام حسین زندگی کے اس ایک دن یعنی عاشور کو ہی حسین نہ تھے وہ اپنی زندگی کے ۵۷ برس میں ہر دن حسین تھے۔ پھر آخر صرف ایک دن کے کردار کو سامنے رکھ کر کیوں رائے قائم کی جاتی ہے۔ آخر اس ایک دن کو نکال کر جو ۵۷ برس ہیں وہ ان کی فہرست حیات سے کیونکر خارج ہو سکتے ہیں اسی طرح حضرت امام حسن صرف اس دن جب صلح نامہ پر دستخط کئے ہیں اسی وقت امام حسن نہ تھے۔ حسن نام تو اس پوری زندگی کا تھا لہٰذا آپ کی پوری زندگی کو سامنے رکھ کر رائے قائم کرنا درست ہو گا اور اگر صرف ایک حصہ حیات سامنے رکھ کر مخالفین اسلام نے آپ کی یہ تصویر کھینچی کہ آپ کے ایک ہاتھ میں تلوار ہے اور ایک ہاتھ میں قرآن جس طرح یہ تصویر نامکمل اور غلط ہے اسی طرح امام حسن کے متعلق جو تصویر کھینچی جاتی ہے یا امام حسین کی جو تصویر کھینچی جاتی ہے وہ بھی غلط ہے اور یہ غلطی اتنی عام ہے کہ ان کے نام لیوا تک اور سیرت و کردار کی پیروی پر زور دینے والے بھی ان کا وہی صرف ایک دن کا کردار جانتے اور اسی کو پیش کرتے ہیں اس لئے تقریروں میں گرمی پیدا کرنے کے لئے اور کسی بڑے معرکہ میں قدم بڑھانے کے واسطے خون میں جوش پیدا کرنے کے لئے حضرت امام حسین کا نام لیتے اور ان کے کارنامہ کو یاد دلاتے ہیں چاہے مقصد صحیح ہو یا غلط اور وہ جو اپنی تمام عمر شہادت سے ایک دن پہلے تک معرکہ آرائی کو ٹالتے رہے وہ حسین کا کردار گویا نہیں ہے کسی اور کا ہے پوری تصویر تو اسی وقت ہو گی جب پوری سیرت سامنے رکھ کر تصویر کھینچی جائے گی۔

حسنِ مجتبیٰ

امام حسن کی ولادت ۲ یا ۳ ہجری میں ہوئی۔ رسول کی وفات کے وقت ساتواں یا آٹھواں برس تھا اور ان کی یہ عمر پوری پیغمبر خدا کے غزوات کی عمر ہے۔ ۲ ھ میں جنگ بدر ہوئی اور اس کے بعد ان کی عمر کے ساتھ غزوات کی فہرست آگے بڑھی۔ جس طرح علی کی پرورش پیغمبر کی گود میں تبلغ اسلام کے ساتھ ویسے ہی حسن مجتبیٰ کی پرورش رسول کی گود میں رسول کے غزوات اور اپنے والد (حضرت علی مرتضیٰ) کے فتوحات کے ساتھ۔ ان کے بچپن کی کہانیاں اور سوتے وقت کی لوریاں گویا یہی تھیں کہ علی کسی جہاد سے واپس آئے ہیں۔ حضرت فاطمہ زرا سے تذکرہ ہو رہا ہے خندق میں یہ ہوا۔ یہ تذکرے کانوں میں پڑ رہے ہیں اور آنکھیں جو دیکھ رہی ہیں وہ یہ کہ دشمنوں کے خون میں بھری ہوئی تلوار ہے اور سیدہٴ عالم اسے صاف کر رہی ہیں۔ پیغمبر کے ارشادات بھی گوش زد ہو رہے ہیں کبھی معلوم ہوا کہ آج نانا نے والد بزرگوار کے لئے کہا:

ضرْبۃ علٍیّ یَوْمَ الْخَنْدقٍ اَفْضَلُ مِنْ عِبَادَة الثَقَلین۔ کبھی سنا فرمایا: لَاُعْطَیّن اَرَّایۃً غدًا رَجُلاً غَیر فّرارٍ یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ‘… کبھی ملک کی صدا گوش زد ہوئی: لَا فَتٰی اِلَّا علّی لَا سَیف الّا ذوالفقار۔ ان تذکروں کے علاوہ بس ہے تو عبادت اور سخاوت کی مثالوں کا مشاہدہ۔ یہ ہے سات آٹھ برس کا حسن کا رسول کی زندگی میں دور حیات۔

سات آٹھ برس کی عمر کے بچے چاہے معاملات میں عملی حصہ نہ لیں اور ادب و حفظِ مراتب کی بنا پر بزرگوں کے سامنے گفتگو میں بھی شرکت نہ کریں مگر وہ احساسات و تاثرات، جذبات اور قلبی واردات میں بالکل بزرگوں کے ساتھ شریک رہتے ہیں اور ان کے دلوں کے اندر ولولوں کا طوفان بھی اٹھتا ہے۔ اور منصوبوں کی عمارتیں بھی کھڑی ہوتی ہیں اور اس وقت کے تاثرات و تصورات کے نقوش اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ وہ مٹا نہیں کرتے۔

یقیناً یہ اتنا زندگی کا دور امام حسن کے دل و دماغ میں عام انسانی فطرت کے لحاظ سے ولولہ و ہمت کی لہروں میں تموج ہی پیدا کرنے والا تھا سکون پیدا کرنے والا نہیں مگر اس سات آٹھ سال کے بعد ایک دم ورق الٹتا ہے۔ اب یہ منظر سامنے ہے کہ باپ گوشہ نشیں ہیں۔ اور ماں گریہ کناں۔ وہ تمام ناگوار حالات سامنے ہیں جن کا اظہار کسی کے لئے پسندیدہ ہے یا ناپسند۔ بہرحال تاریخ کے اندر وہ موجود اور ہمیشہ کے لئے محفوظ ہیں۔ یقیناً اگر حضرت علی بن ابی طالب کا دس برس کی عمر کے بعد ۱۳ برس رسول کے ساتھ رہ کر مکہ کی خاموش زندگی میں خاموشی کے راستے پر قائم رہنا ایک جہادِ نفس تھا تو محسن مجتبیٰ کا بھی ۸ برس کی عمر کے بعد پچیس سال باپ کے صبر و استقلال کے ساتھ ہم آہنگ رہنا ان کا ایک عظیم جہاد تھا۔ وہاں علی کے سامنے ان کے مربی رسول کے جسم پر پتھر پھینکے جاتے تھے اور وہ خاموش تھے اور یہاں حسن کے سامنے ان کے باپ علی بن ابی طالب کے گلے میں رسی باندھی جاتی ہے اور مادر گرامی کے دروازے پر آگے لگانے کے لئے لکڑیاں جمع کی جاتی ہیں اور انہیں ہر طرح کی ایذائیں پہنچائی جاتی ہیں اور حسن مجتبیٰ خاموش ہیں۔ اسی خاموشی میں آٹھ برس سے اٹھارہ برس اور اٹھارہ برس سے اٹھائیس برس بلکہ سات آٹھ برس کی عمر کے بعد ۲۵ سال میں ۳۳ برس کے ہوئے مگر وہ جس طرح ساتھ آٹھ برس کے بچپن کے دور میں حضرت علی بن ابی طالب کے ساتھ ایک کم عمر بچہ کی طرح تھے بالکل اسی شان سے اٹھارہ اور اٹھائیس اور تیس بتیس برس کی عمر کے جوان ہو کر بھی ہیں۔ مسلک ہے تو باپ کا طریقہٴ کار ہے تو باپ کا۔ نہ ان کے بچپن میں کوئی نادانی کا قدم اٹھتا ہے نہ جوانی میں کوئی جوش کا اقدام اٹھتا ہے پھر حضرت علی نے خاموشی کے ماحول میں آنکھ ہی کھولی تھی اور امام حسن تو آٹھ برس کی عمر اس جنگ کے ماحول میں گزار چکے تھے جس سے شجاعانہ اقدامات کو طبیعت میں رس بس جانا چاہئے اس کے بعد ۲۵ سال اس طرح گزار رہے ہیں۔ اتنی طولانی مدت کے اندر کبھی جوش میں نہ آنا۔ اپنے ہم عمروں سے کبھی تصادم نہ ہونا کسی دفعہ بھی ایسی کوئی بات نہ ہونا جو مصلحتِ علی کے خلاف ہو۔ یہ ان کی زندگی کا کارنامہ ہے۔ یہ اور بات ہے کہ تاریخ کی دھندلی نگاہ حرکت کو دیکھتی ہے سکون کو نہیں۔ آندھیوں کو دیکھتی ہے سناٹے کو نہیں۔ شورش طوفان دیکھتی ہے سمندر کے سکون پر نظر نہیں ڈالتی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس دور کے فتوحات جو اکثریتی طاقت نے کئے جزو تاریخ بن گئے اور اسلام کی جو خدمت خاموش رہ کر کی گئی اور اس کے جو نتائج ہوئے وہ تاریخ میں کہیں نظر نہ آئیں گے بہرحال اب یہ ۲۵ سال گزرے اور وہ وقت آیا جب حضرت علی بن ابی طالب برسراقتدار ہیں اس کے بعد جمل صفین اور نہروان کے معرکے ہیں اور حضرت امام حسن ان میں اپنے والد بزرگوار حیدرِ کرار کے ساتھ ساتھ ہیں۔

حسن کے ہاتھ میں جمل کی لڑائی میں تلوار اسی طرح پہلی بار ہے جس طرح بدر میں علی کے ہاتھ میں پہلی بار۔ مگر جیسے انہوں نے پہلی ہی لڑائی میں شجاعان آزمودہ کار پر اپنی فوقیت ثابت کر دی ویسے ہی جمل میں جو کارنامہ دوسروں سے نہیں ہوتا وہ حسن مجتبیٰ اپنی تلوار سے کرکے دکھا دیتے ہیں۔

اسی طرح صفین میں ایسا معیاری نمونہ پیش کرتے ہیں کہ حضرت امیر اپنے فرزند محمد حنیفہ کے لئے اسے مثال قرار دیتے ہیں او جیسا کہ دینوی نے ’الاخبارالطوال” میں لکھا ہے ایک ایسے موقع پر جب لشکر امیرالمومنین کے ایک بڑے حصہ نے شکست کھائی تھی، یہ اپنے باپ کے سامنے اس طرح تھے کہ انہیں تیروں سے بچا رہے تھے اور خود اپنے کو تیروں کے سامنے پیش کئے دیتے تھے۔

مخالف حکومت کا پروپیگنڈا بھی کیا چیز ہے؟ اس نے حکایتیں تصنیف کی ہیں کہ حسن مجتبیٰ تو طبعاً صلح پسند تھے۔ مگر ان کی بے جگری کے ساتھ ان نبردآزمائیوں میں عملی شرکت ان تصورات کو غلط ثابت کر دیتی ہے۔

جنگ جمل میں کوفہ والوں کو ابو موسیٰ اشعری نے جو وہاں حاکم تھے نصرت امیرالمومنین سے روک دیا تھا۔ یہ حسن مجتبیٰ ہی تھے جنہوں نے جا کر تقریر کی اور پورے کوفہ کو جناب امیر کی نصرت کے لئے آمادہ کر دیا۔

ہاں جب صفین میں نیزوں پر قرآن اٹھائے گئے اور امیرالمومنین نے حالات سے مجبور ہو کر معاہدہ تحکیم پر دستخط کئے تو جوان سال بیٹے حسن و حسین دونوں باپ کے ساتھ اس معاہدہ میں بھی شریک تھے بالکل جس طرح حضرت امیر پیغمبر خدا کے ساتھ ساتھ تھے جنگ اور صلح دونوں میں۔ اسی طرح حسن و حسین اپنے والد بزرگوار کے ساتھ ہر منزل میں شریک نظر آتے ہیں۔

جب ۲۱ ماہ رمضان ۴۰ ھ کو جناب امیر کی وفات ہو گئی اور حضرت امام حسن خلیفہ تسلیم کئے گئے تو آپ نے خود بھی حاکم شام کے خلاف فوج کشی کی۔ اور فوجوں کو لے کر روانہ بھی ہوئے اور اس طرح بھی ثابت کر دیا کہ راستہ آپ کا وہی ہے جو آپ کے والد بزرگوار کا راستہ تھا۔

اب اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ حالات کی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اہل کوفہ کی اکثریت جنگِ نہروان کے بعد سے جناب امیر کے ساتھ ہی سردمہری برتنے لگی تھی اور جنگ سے عاجز آچکی تھی جس پر خود حضرت علی بن ابی طالب کے اقوال جو نہج البلاغ میں مذکور ہیں، گواہ ہیں اس کا علم حاکم شام کو بھی اپنے آدمیوں کے ذریعہ سے ہو گیا تھا چنانچہ حضرت امیر کے بعد انہوں نے اپنے آدمیوں کے ذریعہ سے بہت سے روسائے کوفہ کو اپنے ساتھ ملا لیا اور ان لوگوں نے خطوط بھیجے کہ آپ عراق پر حملہ کیجئے اور ہم یہاں ایسی تدبیر کریں گے کہ حضرت امام حسن کو قید کرکے آپ کے سپرد کر دیں۔

معاویہ نے یہ خطوط بجنسہ حضرت امام حسن کے پاس بھیج دیئے۔ پھر بھی وہ جانتے تھے کہ حضرت امام حسن کوئی ایسی صلح کبھی نہ کریں گے جس میں ان کے نقطہٴ نظر سے حق کا تحفظ نہ ہو۔ اس لئے انہوں نے اس کے ساتھ ایک سادہ کاغذ بھیج دیا کہ جو شرائط آپ چاہیں اس پر لکھ دیں میں انہیں منظور کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ان حالات میں جب کہ اپنوں کا حال وہ تھا اور مخالف یہ رویہ اختیار کر رہا تھا جنگ پر قائم رہنا ایک بلاوجہ کی ضد ہوتی جو آلِ رسول کی شان کے خلاف تھی۔

حضرت پیغمبر خدا نے تو حدیبیہ میں امن وامان کی خاطر مشرکین کے پیش کردہ شرائط پر صلح کی جسے سطحی نگاہ والے مسلمان سمجھ رہے تھے کہ یہ دب کر صلح ہے اور امام حسن نے جو صلح کی وہ ان شرائط پر جو خود آپ نے پیش کئے تھے اور جنہیں فریق مخالف سے منظور کرایا۔

ذرا اس صلح نامہ کے شرائط میں نظر ڈالئے۔ اس کی مکمل عبارت علامہ ابن حجر مکی نے صوائق محرقہ میں درج کی ہے۔

اس میں شرط اول یہ ہے کہ حاکم شام کتاب و سنت پر عمل کریں گے اس شرط کو منظورکراکے حضرت امام حسن نے وہ اصولی فتح حاصل کی ہے جو جنگ سے حاصل ہونا ممکن نہ تھی۔

ظاہر ہے کہ صلح نامہ کے شرائط میں بنیادی طور پر ایسی ہی چیز درج ہوتی ہے جو بنائے مخاصمت ہو۔ حضرت امام حسن نے یہ شرط لگا کر ثابت کر دیا کہ ہماری بنائے مخاصمت معاویہ سے کوئی ذاتی یا خاندانی نہیں ہے بلکہ وہ صرف یہ ہے کہ ہم کتاب اور سنت رسول پر عمل کے طلب گار ہیں اور یہ اس سے اب تک منحرف رہے ہیں۔ پھر صلح نامہ کی دستاویز تو فریقین میں متفق علیہ ہوا کرتی ہے۔ وہ دونوں فریق اس کے کاتب ہوتے ہیں۔ یہ شرط درج کرکے امام حسن نے حاکم شام سے تسلیم کرا لیا کہ اب تک حکومت شام کا جو کچھ رویہ رہا ہے وہ کتاب و سنت کے خلاف ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس شرط کی کیا ضرورت تھی؟

غلط اندیش دنیا کہتی ہے کہ امام حسن نے بیعت کر لی۔ میں کہتا ہوں۔ اگر حقیقت پر غور کیجئے تو جب امام حسن شریعت اسلام کے محافظ ہیں اور آپ نے اس کا اقرار حاصل کیا ہے کہ حاکم شام کتاب اور سنت کے مطابق عمل کریں گے تو اب یہ فیصلہ آسان ہے کہ جس نے شرائط مانے اس نے بیعت کی یا جس نے شرائط منوائے اس نے بیعت کی۔ حقیقت میں حضرت امام حسن نے تو بیعت لے لی۔ خود بیعت نہیں کی۔

دوسری شرط یہ تھی کہ تمہیں کسی کو اپنے بعد نامزد کرنے کا اختیار نہ ہو گا اس طرح حضرت امام حسن نے برفرض مخالفت شرط اول اس ضرر کو جو حاکم شام کی ذات سے مذہب کو پہنچتا محدود بنایا اور آئندہ کے لئے یزید ایسے اشخاص کا سدباب کر دیا۔

خواہانِ حاکم شام زیادہ نمایاں طور پر یہ شرط پیش کرتے ہیں کہ حضرت امام حسن نے سالانہ ایک رقم مقرر کی تھی کہ یہ تمہیں ادا کرنا ہو گی میں کہتا ہوں کہ یہ شرط اگرچہ مسلم نہیں ہے پھر بھی اگر یہ شرط رکھی ہو تو یہ آئینی حیثیت سے اپنے اصلی حقدار حکومت ہونے کے اعتراف کا فریق مخالف کے عمل سے قائم رکھنا ہے اور اگر زیادہ گہری نظر سے دیکھا جائے تو حضرت رسول خدا کا نصاریٰ سے جزیہ لے کرجنگ کو ختم کر دینا درست ہے تو حضرت امام حسن کا حاکم شام پر سالانہ ایک ٹیکس عائد کرنا بھی بالکل صحیح ہے۔ یہ عملی مظاہرہ ہے اس کا کہ ہم نے دب کر صلح نہیں کی ہے بلکہ خونریزی سے بچنے کی ممکن کوشش کی ہے۔

حضرت امام حسن کو اس صلح پر برقرار رہنے میں بھی کتنے شدائداور زخم ہائے زبان کا مقابلہ کرنا پڑا ہے مگر مفادِ دینی کے لئے یہ صلح ضروری تھی تو پُرجگری کے ساتھ حضرت تمام ایذاء و اہانت کے صدموں کو برداشت کرتے رہے۔ اور دس برس مسلسل پھر گوشہ نشینی کے ساتھ زندگی گزار کر حضرت علی بن ابی طالب کے ۲۵ سال کے دور گوشہٴ نشینی کا مکمل نمونہ پیش کر دیا۔

اموی ذہنیت والوں کا یہ پروپیگنڈا کہ حسن مجتبیٰ اپنے والد بزرگوار حضرت علی بن ابی طالب اور اپنے چھوٹے بھائی حضرت امام حسین سے مختلف ذہنیت رکھتے تھے اور وہ صلح ان کی انفرادی افتاد طبع کا نتیجہ تھی۔ خود اموی حاکم شامی کے عمل سے بھی غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ اس طرح کہ اگر یہ بعد والا پروپیگنڈا صحیح ہوتا تو اس مصالحت کے بعد حاکم شام کو حضرت امام حسن سے بالکل مطمئن ہو جانا چاہئے تھا بلکہ حاکم شام کی طرف سے واقعی پھر امام حسن کی قدرومنزلت کے مسلمانوں میں بڑھانے اور نمایاں کرنے کی کوشش کی جاتی۔ بلاتشبیہ جس طرح مشہور روایات کی بنا پر جناب عقیل کو حضرت علی بن ابی طالب سے بظاہر جدا کرنے کے بعد ان کی خاطرداریوں میں کوئی وقیقہ فروگزاشت نہ کیا جاتا تھا۔ یہی بلکہ اس سے زیادہ حضرت امام حسن کے ساتھ ہوتا مگر ایسا نہیں ہوا۔ صلح کرنے کے بعد بھی امام حسن کو آرام اور چین نہیں لینے دیا گیا اور بالآخر زہر دغا سے آپ کو شہید کر دیا گیا۔ اسی سے ظاہر ہے کہ حاکم شام بھی جانتے تھے۔ کہ یہ رائے، مسلک، خیال اور طبیعت کسی اعتبار سے بھی اپنے باپ بھائی سے جدا نہیں ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس وقت انہیں فرض کا تقاضا یہی محسوس ہوا لیکن اگر مصلحت دینی میں تبدیلی ہو تو یہی کوئی نیا صفین کا معرکہ پھر آراستہ کر سکتے ہیں اور انہی کے ہاتھ سے کربلا بھی سامنے آ سکتی ہے اسی لئے ان کی زندگی اس کے بعد بھی ان کے سیاسی مقاصد کے لئے خطرہ بنی رہی اور جب ان کی شہادت کی خبر ملی تو انہوں نے اطمینان کی سانس ہی نہیں لی بلکہ اپنے سیاسی ضبط و تحمل کے دائرہ سے بھی تجاوز کرکے بالاعلان انہوں نے مسرت سے نعرہٴ تکبیر بلند کیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حسن مجتبیٰ کی صلح کسی مخصوص ذہنیت یا طبیعت کا نتیجہ نہیں تھی۔ وہ صرف فرض کے اس احساس کا تقاضا تھی جو انسانی بلندی کی معراج ہے۔

تبصرے
Loading...