سورۂ رعد کي آيت نمبر 14 کي تفسير

” لہ دعوت الحقّ و الّذين يدعون من دونہ لايستجيبون لہم بشيء الّا کباسط کفيّہ الي الماء ليبلغ فاہ و ما ہو ببالغہ و ما دعاء الکافرين الّا في ضلال “پکارے جانے کا حق (صرف) اس ( اللہ ) کے پکارے جانے سے مخصوص ہے اور لوگ اس کے علاوہ جن اوروں کو پکارتے ہيں وہ ان کو کوئي جواب نہيں ديتے ، يہ لوگ ان لوگوں کي مانند ہيں جو اپني ہتھيلي پاني کي طرف پھيلائے ہوئے ہوں کہ وہ ان کے دہانے تک پہنچ جائے جبکہ وہ ( اس طرح) منہ تک کبھي نہيں پہنچے گا اور (غير اللہ سے ) کفار کي دعا گمراہي کے سوا کچھ نہيں ہے –

زمين اور آسمانوں ميں خدا کي تخليق اور اس کي عظمتوں کا ذ کر کرنے کے بعد کہ کس طرح پوري کائنات خدا کي حمد و ستائش ميں مشغول ہے حتي بادلوں کي گرج اور بجليوں کي کڑک بھي حکم خدا کے تحت خدا کي تعريف و تسبيح کے لئے ہے – ايک بار پھر اللہ نے انسانوں کي ناشکري اور کفر و سرکشي کي طرف اشارہ کيا ہے کہ اپنے خالق و پروردگار سے کفار و مشرکين کا انحراف ان کو کوئي فائدہ نہيں پہنچا سکتا ! يہ لوگ اپني ضرورتوں کے لئے خدا کو چھوڑ کر جن معبودوں کو پکارتے اور آوازيں لگاتے ہيں خود ان ہي کي طرح وہ بھي محتاج و ضرورتمند ہيں نہ تو وہ ان کي صدا ؤں کا جواب دے سکتے نہ ہي وہ ان کي ضرورتوں کو پورا کرسکتے – ان کي مثال ان لوگوں کے جيسي ہے جو لب دريا پاني کي طرف اپني ہتھيلياں پھيلائے کھڑے ہوں کہ پاني آکر ان کي تشنگي دور کردے جبکہ نہ پاني ان کے دہن تک آسکتا اور نہ ہي اس طرح ان کي تشنگي دور ہوسکتي – ظاہر ہے تمام انسان وہ چاہے مومن ہوں يا کافر تشنۂ حق و حقيقت ہيں -ليکن چونکہ کفار و مشرکين نے حق و حقيقت تک پہنچنے کي راہ گم کردي ہے اور خدا و رسول (ص) پر ايمان لانے اور خدائے واحد کي عبادت و پرستش کرنے کے بجائے وہ خودساختہ خيالي معبودوں کو اپنے دل و دماغ ميں جگہ ديکر اپني ضرورتوں کے وقت ان ہي کو بلاتے اور ان ہي سے اپني اميديں وابستہ رکھتے ہيں ان کو اپنے جھوٹے خدا‌ ؤں سے کچھ حاصل نہيں ہوتا گويا وہ ، قرآن کے الفاظ ميں آب کے بجائے سراب کے پيچھے بھاگ رہے ہوں ، جو نہ سيراب کرسکتا اور نہ ہي ان کي آواز پر لبيک کہہ سکتا – اس کے برخلاف صاحبان ايمان، خدائے واحد و يگانہ کو پکارتے اور اسي کي عبادت کرتے ہيں :” ايّاک نعبد و ايّاک نستعين” خدايا ہم صرف اور صرف تيري عبادت کرتے اور تجھ سے ہي مدد چاہتے ہيں ؛ کيونکہ تمام قدرت و اختيار تيرے ہاتھ ميں ہے ” ان اللہ علي کل شيء قدير” اللہ قادر مطلق ہے البتہ اگر اللہ کے وليوں کو پکارتے اور ان کا احترام کرتے ہيں تو صرف توسل کےلئے اور وہ بھي اس لئے کہ اللہ نے ان کو وسيلہ قرار دينے کا حکم ديا ہے ” و ابتغوا اليہ الوسيلہ” – ورنہ اگر خدا کي رضا نہ ہو تو کوئي کچھ بھي نہيں کرسکتا-“خدا کو پکارنا حق ہے” اسي معني ميں ہے کہ پکارتے وقت اس کو پکارا جائے جو آپ کي پکار کو سن سکتا اور جواب بھي دے سکتا ہو جيسا کہ سورۂ بقرہ کي آيت 186 ميں خدا فرماتا ہے : ” اجيب دعوۃ الدّاع اذا دعان” جب پکارنے والا مجھے پکارتا ہے ميں اس کي دعا کا جواب ديتا ہوں، يا سورۂ مومن کي آيت 60 ميں کہتا ہے ” ادعوني استجب لکم ” مجھے پکارو ميں تمہاري دعا کو مستجاب کرتا ہوں – گويا آيت گزشتہ آيات ميں جاري سلسلۂ گفتگو کے ساتھ ہي مربوط ہے کہ اللہ نہ صرف ہر بات کا عالم اور ہر شيء پر قادر ہے بلکہ وہ برحق طور پر ہر ايک کي دعا سنتا اور جواب ديتا ہے اور يہ تمام خصوصيات صرف اسي کي ذات سے مخصوص ہيں، مشرکين جن معبودوں کو پکارتے ہيں وہ جواب دينے کي قوت و صلاحيت نہيں رکھتے وہ سب شعور اور ارادہ ؤ فيصلے سے عاري ہيں يہ بت جب خود اپنے نفع و نقصان کو سمجھنے پر قادر نہيں ہيں وہ دوسروں کے نفع و نقصان کو کيا سمجھيں گے – اور اب سورۂ رعد کي پندرہويں آيت / خدا فرماتا ہے :
” وللہ يسجد من في السّموات و الارض طوعا وّ کرھا وّ ظلالہم بالغدوّ و الاصال” يعني ( وہ تمام موجودات) جو زمين اور آسمانوں ميں ہيں پوري چاہت سے اور دل نہ چاہتے ہوئے بھي صبح و شام اللہ کا ہي سجدہ کرتي ہيں اور ان کے سائے بھي ان کے ساتھ سجدہ کناں ہيں-

اس آيت ميں خداوند عالم نے عالم ہستي کي تمام موجودات کے سجدہ گزار ہونے کي طرف اشارہ کيا ہے کہ سبھي مخلوقات اختياري يا غير اختياري طور پر خدا کے سامنے سجدہ کناں ہيں البتہ ممکن ہے اللہ نے جن موجودات کو ارادہ و اختيار سے نوازا ہے ان ميں بعض انسان خوشي خوشي سجدہ کرتے اور بعض انسان مختلف خواہشات ميں ٹکراؤ اور کھينچا تاني کے سبب نہ چاہتے ہوئے خوف و وحشت کے تحت منہ بناکر سہي بہرحال اللہ کي ہي بندگي اور سجدہ کرتے ہيں حتي ان تمام موجودات کے سائے بھي خدا کے سامنے خاضع اور سجدہ گزار ہيں يہ گويا کفار و مشرکين کو غيرت دلانے کے لئے ہے کہ تمام عالم ہستي تو خدا کے سامنے سجدہ کناں ہے تم کيسے انسان ہو جو خدا کے سجدے سے گريز اختيار کرکے غير اللہ کو اپنا معبود قرار دينے پر مصر ہوجبکہ تمہارے سائے بھي اللہ کا سجدہ کرتے ہيں ، جيسا کہ سورہ نحل کي آيت 48 ميں خدا فرماتا ہے : ” اولم يروا الي ما خلق اللہ من شيء يّتغيّؤا ظلالہ عن اليمين و الشّمائل سجّدا للہ و ہم داخرون ” يعني کيا ان لوگوں نے ديکھا نہيں کہ جو کچھ بھي اللہ نے پيدا کيا ہے ان کے سائے دائيں اور بائيں سے اللہ کا سجدہ کرتے ہيں ڈھلتے اور عاجزي کا اظہار کرتے ہيں اور اس کے بعد کي آيت ميں خدا فرماتا ہے : ” و للہ يسجد ما في السّموات و ما في الارض ” آسمانوں اور زمين ميں جو کچھ بھي ہے سب خدا کا ہي سجدہ کرتے ہيں ( نحل / 49)- البتہ انسانوں کا سجدہ حقيقي معني ميں سجدہ ہے کيونکہ انسان خدا کے سامنے اس کي عظمت و جلالت کے پيش نظر اپني ذلت و کم مائگي کے احساس کے ساتھ سجدہ کرتا ہے جبکہ دوسري مخلوقات جو عقل و اختيار سے عاري ہيں ان کا سجدہ اور تواضع اپني وضع و کيفيت کے اعتبار سے ہے -اور اب زير بحث آيات سے جو سبق ملتے ہيں ان کا ايک خلاصہ: بارگاہ الہي ميں دعا و استغفار اگر اخلاص کے ساتھ ہو اور نيت صحيح ہوتو ضرور مستجاب ہوتي ہے جبکہ غير اللہ کو پکارنا اور اپني جاحتيں طلب کرنا صحيح نہيں ہے اس لئے کہ جو خود محتاج ہوں دوسروں کي محتاجي کو کيا ختم کريں گے – البتہ وسيلے کے طور پر خاصان خدا کا احترام اور توسل ميں کوئي حرج نہيں ہے – کفر و شرک کي جڑيں ، باطل تصورات و خيالات ميں پيوست ہيں جو انسان کو حق و حقيقت تک پہنچنے نہيں ديتيں اور وہ سراب کے درميان دوڑ لگاتے ہيں جس کا ان کو کوئي فائدہ حاصل نہيں ہوتا – خداوند جليل و عظيم کے سامنے مومنين کے سجدہ بھي دو نوعيت کے حامل ہيں کچھ وہ ہيں جو پورے ميلان و رغبت کے ساتھ خدا کو خدا سمجھ کر سجدہ کرتے ہيں اور کچھ وہ ہيں جو ناگوار حادثوں ميں پھنس کر مشکلات سے نجات کے لئے مجبوري و لاچاري کے تحت خضوع و خشوع کے ساتھ روتے اور گڑگڑاتے ہيں – اللہ کا سجدہ، صرف اہل زمين ہي نہيں فرشتوں کي مانند اہل آسمان بھي کرتے ہيں حتي موجودات عالم کے وہ سائے جو دائيں بائيں پڑتے ہيں وہ بھي خدا کے سامنے سجدہ کناں ہيں –
بشکريہ آئي آر آئي بي

 

تبصرے
Loading...