سفیانی کا خروج علامات حتمیہ میں سے ہے؛ سفیانی کا مختصر تعارف

سفیانی کے بارے میں تفصیل کے ساتھ روایات شریفہ وارد ہوئی ہیں اور اس شخص نے امام زمانہ (ع) کے ظہور سے قبل یا آپ (عج) کے ظہور کے وقت ظاہر ہونے والے دیگر اشخاص سے زیادہ توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے اور اس کے بارے میں سمجھنے اور سمجھانے کی غرض سے بہت زیادہ اہتمام ہوا ہے اور شاید اتنے زیادہ اہتمام کا سبب یہ ہو کہ جس زمانے میں یہ شخص بازیگری دکھائے گا وہ زمانہ نہایت اہم اور قابل توجہ ہوگا اور ہم بھی یہاں اس کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کریں گے۔

سفیانی ملعون کا خروج حتمی ہے

بڑی تعداد میں روایات شریفہ میں تصریح ہوئی کہ سفیانی اور اس کا خروج اور اس کی تحریک امور محتومہ میں سے ہے اور امر محتوم وہ ہے جس کو زائل کرنا یا اس کا سد باب کرنا ممکن نہيں ہے اور وہ حتمی الوقوع ہے۔ اس شخص کے خروج کی حتمیت اس فضیل بن یسار کی روایت سے ثابت ہے؛ جو نقل کرتے ہیں: «عن أبي جعفر عليه السلام قال: «إن من الأمور أمورا موقوفة وأمورا محتومة، وإن السفياني من المحتوم الذي لابد منه» 

(كتاب الغيبة لمحمد بن إبراهيم النعماني: ص313).

بے شک امور میں سے بعض موقوفہ ہیں [یعنی خدا کی مرضی سے تغیر و تبدل پذیر ہیں اور اس کی مرضی پر منحصر ہیں] اور بعض دیگر حتمی ہیں اور سفیانی حتمیات میں سے ہے۔

وكذلك رواية حمران بن أعين انه قال للإمام أبي جعفر الباقر صلوات الله وسلامه عليه: «إني لأرجو أن يكون أجل السفياني من الموقوف فقال أبو جعفر عليه السلام: لا والله إنه لمن المحتوم» (راجع كتاب الغيبة لمحمد بن إبراهيم النعماني: ص312 ــ 313).

اور حمران کی روایت بھی ایسی ہی ہے جنہوں نے امام باقر علیہ السلام سے عرض کیا: مجھے امید ہے کہ سفیانی امور موقوفہ میں سے ہو تو امام علیہ السلام نے فرمایا: نہیں، خدا کی قسم! یہ شخص محتومات میں سے ہے۔ 

اور بعض روایات میں ہے کہ سفیانی کے خروج کی پیشین گوئی وعد الہی کے زمرے میں آتا ہے اور اللہ تعالی وعدہ خلافی نہیں کیا کرتا۔ اور بعض دیگر روایات میں تصریح ہوئی ہے کہ قائم (عج) سفیانی کے بغیر نہیں ہونگے۔ جیسا کہ امام علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام سے کی روایت دیکھئے:

عن الإمام علي بن الحسين صلوات الله وسلامه عليه قال: «إن أمر القائم حتم من الله، وأمر السفياني حتم من الله، ولا يكون قائم إلا بسفياني» 

(راجع قرب الإسناد للحميري القمي: ص374. بحار الأنوار للمجلسي: ج52، ص182. مسند الإمام الرضا للشيخ عزيز الله عطاردي: ج1، ص217).

قائم علیہ السلام کا امر اللہ کی جانب سے حتمی ہے اور سفیانی کا امر اللہ کی جانب سے حتمی ہے اور قائم علیہ السلام کا حضور سفیانی کے بغیر نہیں ہوگا۔ 

سفیانی کا نسب، مقام خروج اور خصوصیات

روایات شریفہ میں ہے کہ سفیانی اموی نسل اور معاویہ کے باپ، ہند جگرخوار کے شوہر اور یزید پلید کے داد ابوسفیان کی اولاد سے ہوگا اور بعض روایات میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ ہند جگر خوار اس کی دادی ہے۔ اور شام کی سرزمین میں واقع “وادی الیابس” سے خروج کرے گا۔ 

جسمانی خصوصیات اور فیزیکی حوالے سے بھی روایات نے بیان کیا ہے کہ وہ نہ بہت طویل القامت ہوگا اور نہ ہی چھوٹے قد کا ہوگا بلکہ متوسط قد کا مالک ہوگا اور اس کا چہرہ شیطانی اور بھوتوں جیسا ہوگا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بدشکل اور قبیح المنظر ہوگا۔ اور ممکن ہے کہ مذکورہ اوصاف کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وحشی پن اور قساوت قلبی اور سنگدلی کے اثرات اس کے چہرے سے واضح ہونگے اور ہر دیکھنے والا ان خصوصیات کو اس کے چہرے سے ہی بھانپ سکے گا اور اس کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کو دیکھنے والا ہر شخص خوف و وحشت سے دوچار ہوجائے گا۔ 

اس کے دیگر اوصاف میں سے ایک یہ ہے کہ اس کا چہرہ معمول سے بڑآ ہوگا اور اس کے چہرے پر چیچک کے اثرات ہونگے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے خروج سے قبل ہی چیچک کی بیماری میں مبتلا ہوجائے گا یا شاید یہ اثرات پیدائشی ہوں اور خلقت میں نقص کا نتیجہ ہوں یا ولادت کے وقت یا اس کے بعد عارض ہوئے ہوں۔ 

سفیانی کی ایک جسمانی خصوصیت کہ ہے کہ اس کی ایک آنکھ میں خلل ہے اور دیکھنے والوں کو کانا لگتا ہے۔ اور امام ابی عبداللہ جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ: «قال أبي صلوات الله وسلامه عليه قال أمير المؤمنين صلوات الله وسلامه عليه: يخرج ابن آكلة الأكباد من الوادي اليابس وهو رجل ربعة، وحش الوجه، ضخم الهامة، بوجهه أثر جدري إذا رأيته حسبته أعور، اسمه عثمان وأبوه عنبسة، وهو من ولد أبي سفيان»۔ وعن عثمان عن عمر بن يزيد قال: قال لي أبو عبد الله الصادق صلوات الله وسلامه عليه: «إنك لو رأيت السفياني لرأيت أخبث الناس»

 

(راجع كمال الدين وتمام النعمة للشيخ الصدوق: ص651).

میرے والد امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ امام امیرالمؤمنین صلوات اللہ و سلامہ علیہ نے فرمایا: ہند جگر خوار کا بیٹا وادی یابس سے خروج کرے گا جو متوسط قد اور بڑے چہرے کا مالی ہے اور اس کے چہرے پر چیچک کا نشان ہے، اسے دیکھوگے تو کانا سمجھوگے اس کا نام عثمان اور اس کے باپ کا نام عنبسہ ہے اور وہ ابو سفیان کی اولاد سے ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ بے شک جب تم سفیانی کو دیکھوگے تو گویا تم نے خبیث ترین شخص کو دیکھا ہے۔ 

اس کا نام اور اس کی منحوس حکومت کی مدت

بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ اس کا نام عثمان بن عنبسہ ہے جیسا کہ مندرجہ بالا روایت میں بھی عرض ہوا لیکن ہم کچھ دوسری روایات میں دیکھتے ہیں کہ امام علیہ السلام سے جب اس کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو امام (ع) اس کے نام کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور سائل کو ہدایت کرتے ہيں کہ اس شخص کی دیگر اوصاف کو توجہ دے اور دوسرے معیارات کو مد نظر رکھے جو اس کی شخصیت کو واضح کرتے ہيں اور ممکن ہے کہ امام علیہ السلام کی طرف سے سفیانی کے نام کی عدم اہمیت کی وجہ یہ ہو کہ وہ شاید خروج کے بعد دوسرا نام اختیار کرے اور اس نام کے پس پردہ اپنے اصل تشخص کو چھپانا چاہے چنانچہ اس کے نام پر توجہ مرکوز کرنا بے فائدہ عمل ہے۔

پس اہم بات یہ ہے کہ ہم اس کی دیگر خصوصیات کو جان لیں اور سمجھ لیں جن سے اس کی تشخیص ممکن ہوسکے گی۔ ان خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ سفیانی پانچ علاقوں پر حکومت کرے گا اور ان علاقوں کو روایات میں “کور الخمس” کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے؛ اور یہ کہ اس کی حکومت کی مدت آٹھ مہینے ہوگی اور اتنا ہی عرصہ سلطنت میں رہے گا اور حتی آٹھ مہینوں سے ای دن بھی اس کی حکمرانی زیادہ نہ ہوگی۔ 

عن عبد الله بن أبي منصور البجلي قال: سألت أبا عبد الله صلوات الله وسلامه عليه عن اسم السفياني فقال: «وما تصنع باسمه، إذا ملك كور الشام الخمس دمشق، وحمص، وفلسطين، و الأردن، وقنسرين فتوقعوا عند ذلك الفرج، قلت: يملك تسعة أشهر؟ قال: لا ولكن يملك ثمانية أشهر لا يزيد يوما» 

(راجع كمال الدين وتمام النعمة للشيخ الصدوق:ص651 -652).

عبداللہ بن ابی منصور البجلی سے روایت ہے: میں نے امام صادق علیہ السلام سے سفیانی کا نام پوچھا تو آپ (ع) نے فرمایا: تم اس کے نام کا کیا کروگے؟ بس جب وہ شام کے پانچ علاقوں “دمشق، حمص، فلسطین، اردن اور فنسرین پر حکومت کرے گا تو اس زمانے میں فَرَج اور فراخی کی توقع کرو۔ 

میں نے عرض کیا: کیا وہ نو مہینوں تک حکومت کرے گا؟ 

امام علیہ السلام نے فرمایا: نہیں! بلکہ آٹھ مہینے حکومت کرے گا اور اس مدت میں ایک دن کا بھی اضافہ نہ ہوگا۔

دوسری روایت کچھ تفصیل سے وارد ہوئی اور اس میں سفیانی کی مدت حکومت کچھ زیادہ بتائی گئی ہے:

عن عيسى بن أعين عن أبي عبد الله الصادق صلوات الله وسلامه عليه أنه قال: «… ومن أول خروجه إلى آخره خمسة عشر شهرا، ستة أشهر يقاتل فيها، فإذا ملك الكور الخمس ملك تسعة أشهر ولم يزد عليها يوما» 

(كتاب الغيبة لمحمد بن إبراهيم النعماني: ص310).

عیسی بن اعین نے امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ “آپ” نے فرمایا: … اور سفیانی کے خروج سے اس کے زوال تک کا عرصہ پندرہ مہینوں پر محیط ہوگا جن میں سے وہ چھ مہینوں تک مسلسل لڑتا رہے گا اور جب پانچ علاقوں پر مسلط ہوکر حکمرانی کرنا شروع کرے گا اس کے ٹھیک نو مہینے بعد اس کی حکومت زوال پذیر ہوگی اور اس پر ایک دن کا اضافہ بھی نہ ہوگا۔

اور ہاں ان دو روایات میں تضاد نہیں پایا جاتا بلکہ پہلی روایت اس کی اصل حکومت کی مدت بیان کرتی ہور جبکہ دوسری روایت اس آٹھ مہینوں کی بات کررہی ہے جب وہ حکومت کرے گا اور ایک مہینہ وہ دور ہے جب اس کے زوال کے بعد اسی کے ہاتھوں پھیلے ہوئے فتنے جاری رہیں گے۔  یہ حکومت دوسری حکومتوں کی مانند ہوگی اور اس کے اثرات زوال کے بعد بھی قلیل یا حتی طویل مدت تک باقی رہیں گے۔ امید ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام کی آنے والی حدیث اس مسئلے کو بہتر انداز سے واضح کردے جو ان روایات کو جمع کرکے ان کی وضاحت کرتی ہے۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: «… وإنما فتنته حمل امرأة تسعة أشهر ولا يجوزها إن شاء الله»۔ 

(سابقہ حوالہ ص312). 

اور بے شک اس کا فتنہ عورت کے حمل کے برابر (9 مہینے) جاری رہے گا اور ان شاء اللہ اس مدت میں کوئی اضافہ نہ ہوگا۔

اس ارشاد امامت میں “وإنما فتنته” میں اس بات کی واضح دلالت ہے کہ اس کی حکومت 9 مہینوں کا یہ دور سفیانی حکومت اور اس کے بعد برے اثرات کی مدت کی مجموعی مدت ہے۔  اور پھر امام علیہ السلام نے “لا يجوزها إن شاء الله” فرما کر سفیانی کی حکومت کی مدت کو اللہ کی مشیت کے حوالے فرمایا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ 9 مہینے کی مدت بھی حتمی اور جزمی نہيں ہے چنانچہ ہو سکتا ہے کہ اس کی حکومت کی مدت 9 مہینے کی مدت سے زیادہ طول پکڑے یا پھر یہ مدت بھی کم ہوجائے۔ مدت حکومت میں یہ کمی یا زیادتی سفیانی کی تحریک کے موضوعی اور معروضی حالات پر منحصر ہے اور “لوح محو و اثبات” (اور تقدیر الہی) کے ذریعے اس مدت کا صحیح اور دقیق تعین ہوگا جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: “يَمْحُو اللّهُ مَا يَشَاء وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ” 

(سورة الرعد، الآية: 39). 

اﷲ جس (لکھے ہوئے) کو چاہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہے) ثبت فرما دیتا ہے، اور اسی کے پاس ام الکتاب (اصل کتاب یا لوحِ محفوظ یا لوح محو و اثبات) ہے۔

چنانچہ امام علیہ السلام نے خروج سفیانی کو حتمی الوقوع قرار دیا ہے لیکن اس کی حکومت کو کمی یا زیادتی کا قابل قرار دیا ہے اور اس کمی یا زیادتی کو اللہ کی مشیت سے متعلق قرار دیا ہے۔

سفیانی کا دین

روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شخص مسلمان نہيں ہے یا پھر مسلمان ہے لیکن اس کے رجحانات صلیبی ہیں جو اسلام کے ساتھ جوڑ نہیں کھاتے اور یہ بات حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے اس ارشاد سے واضح ہوتی ہے جہاں آپ (ع) فرماتے ہیں: قال أميرالمؤمنين صلوات الله وسلامه عليه: «وخروج السفياني براية خضراء وصليب من ذهب» 

(مختصر بصائر الدرجات للحسن بن سليمان الحلي: ص199).

“اور سفیانی کا خروج سبز جھنڈے اور سونے کی صلیب کے ہمراہ ہوگا۔ 

اور بشیر [یا بشر] بن غالب سے روایت ہے کہ: يقبل السفياني من بلاد الروم منتصرا في عنقه صليب وهو صاحب القوم۔ 

(كتاب الغيبة للشيخ الطوسي: ص463).

سفیانی بلاد روم سے صلیب گردن میں لٹکائے فاتحانہ انداز سے آگے بڑھے گا جبکہ اس کے ساتھ اس کا گروہ بھی ہوگا۔ 

چنانچہ اگر ہم سفیانی کی مسلمانی کے قائل ہو بھی جائیں تو اس کا اسلام بالکل ظاہری اور نمائشی ہوگا کیونکہ وہ ان لوگوں میں سے ہوگا جو اسلام کے احکام کو تسلیم نہیں کرتے اور اللہ کے واجبات اور فروض ادا نہیں کرتے جس طرح کہ امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: «السفياني… لم يعبد الله قط ولم ير مكة ولا المدينة قط» 

(بحار الأنوار للعلامة المجلسي: ج52، ص254).

سفیانی وہ ہے جس نے کبھی بھی اللہ کی بندگی نہیں کی اور اس نے کبھی بھی مکہ اور مدینہ کبھی بھی نہیں دیکھا۔

سفیانی امام مہدی علیہ السلام کے ظہور پرنور سے چھ مہینے قبل خروج کرے گا

سفیانی کے نحوست آمیز خروج کا وقت روایات شریفہ میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ سفیانی کا خروج رجب المرجب کے مہینے میں ہوگا۔

عن المعلى بن خنيس، عن أبي عبد الله الصادق صلوات الله وسلامه عليه قال: «إن أمر السفياني من الأمر المحتوم وخروجه في رجب» 

(كمال الدين وتمام النعمة للشيخ الصدوق: ص650).

معلی بن خنیس نے امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ: بے شک سفیانی کا خروج حتمی ہے اور اس کا خروج رجب کے مہینے میں ہوگا۔ 

بعض دیگر روایات میں تاکید ہوئی ہے کہ سفیانی اسی سال کے دوران خروج کرے گا جب امام مہدی علیہ السلام بھی ظہور فرمائیں گے۔ 

محمد بن مسلم امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہيں کہ آپ (ع) نے فرمایا: «السفياني والقائم في سنة واحدة»۔ 

(كتاب الغيبة لمحمد بن إبراهيم النعماني: ص275).

سفیانی کا خروج اور امام قائم (ع) کا ظہور ایک ہی سال میں ہوگا۔

جیسا کہ ہم نے عرض کیا سفیانی کا خروج ماہ رجب میں ہوگا اور امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ماہ محرم الحرام میں ہوگا۔

ابوبصیر سے روایت کہ امام ابوجعفر محمد الباقر علیہ السلام نے فرمایا: «قال أبو جعفر صلوات الله وسلامه عليه: «يخرج القائم عليه السلام يوم السبت يوم عاشورا اليوم الذي قتل فيه الحسين عليه السلام» 

(كمال الدين وتمام النعمة، الشيخ الصدوق: ص654).

قائم علیہ السلام سنیچر کے دن یوم عاشور کو ہوگا اسی دن جب امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا گیا تھا۔

اس قول شریف کا واضح مفہوم یہ ہے کہ سفیانی کے خروج اور امام (ع) کے ظہور میں چھ مہینوں کا فاصلہ ہوگا۔

سفیانی کی جنگیں اور شیعیان آل محمد (ص) سے اس کی دشمنی کی حدیں

سفیانی ابتدائے امر میں پانچ علاقوں (الكور الخمس) پر تسلط پانے کے لئے خونریز جنگوں میں مصروف ہوگا جن کی طرف پہلے کی اشارہ ہوچکا ہے۔ پس خروج سے ایک یا دو مہینوں کی مدت تک اس کی توجہ اہل بیت صلوات اللہ و سلامہ علیہم اجمعین، سے دوسروں پر مرکوز ہوگی اور تسلط پانے کے لئے بے شمار غیر شیعہ افراد کا قتل عام کرے گا لیکن جب اس کی حکومت مستحکم ہوگی اور پانچ علاقوں پر اپنی حاکمیت کو استحکام بخشے گا تو شیعیان آل محمد (ص) کو فنا اور نابود کرنے کی نیت سے ان کی جانب متوجہ ہوجائے گا حتی کہ شیعیان اہل بیت (ع) کے قتل کے سوا اس کی سوچ کسی اور جانب نہیں ہٹے گی۔ 

امام باقر علیہ السلام فرماتے ہيں: «و كفي بالسفياني نقمة لكم من عدوكم، و هو من العلامات لكم مع أن الفاسق لوقد خرج، لمكثتم شهرا أو شهرين بعد خروجه، لم يكن عليكم بأس حتي يقتل خلقا كثيرا دونكم، فقال له بعض أصحابه: فكيف يصنع بالعيان إذا كان ذلك؟ قال: يتغيب الرجل منكم عنه فإن حنقه و شرهه فإنما هو علي شيعتنا، و أما النساء، فليس عليهن بأس إن شاء الله تعالي، قيل: فإلي أين يخرج الرجال و يهربون منه/ من أراد منهم أن يخرج إلي المدينة أو إلي مكة أو إلي بعض البلدان، ثم قال: ما تصعنون بالمدينة، و إنما يقصد جيش الفاسق إليها، ولكن عليكم بمكة فأنها مجمعكم، و إنما فتنته، حمل امرأة تسعة أشهر، و لا يجوزها إن شاء الله»۔

(كتاب الغيبة لمحمد بن إبراهيم النعماني: صص311و 203؛ السفياني، ص 122.)

سفياني تمہارے دشمنوں کو آزار و اذیت دینے کے لئے کافی ہے اور تمہارے لئے نشانیوں میں سے ہے اس کے باوجود کہ یہ فاسق بغاوت کرے گا لیکن تم ایک یا دو مہینے اپنے مقام سے حرکت نہ کرو حتی کہ وہ غیر شیعہ افراد میں سے ایک بڑی آبادی کا قتل عام کرے۔ (قرقیسیا کی جنگ کی طرف اشارہ)۔ 

بعض اصحاب نے کہا: ہم اس وقت اپنے بیوی بچوں کے لئے کیا چارہ کریں؟

فرمایا: اپنے مَردوں کو سفیانی سے چھپا کر رکھو کیونکہ وہ شیعیان اہل بیت (ع) کے ساتھ شدید عداوت رکھتا ہے لیکن آپ کی عورتوں کو انشاء اللہ کوئی تکلیف نہيں پہنچے گی۔

پوچھا گیا: پس مرد اس کے ظلم سے کہاں بھاگیں؟

فرمایا: تم مدینہ میں کرہی کیا سکتے ہو جبکہ اس فاسق کی افواج مدینہ پر بھی حملہ آور ہونگے لیکن تم اس وقت مکہ کا رخ کرو کہ تمہارے اجتماع کا مقام مکہ ہے اور اس کا فتنہ ایک عورت کی مدت حمل جتنا ہوگا اور انشاء اللہ اس سے زیادہ اس کو فتنہ انگیزی کی فرصت نہیں دی جائے گی۔ 

اور یہ جو امام علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ «وكفى بالسفياني نقمة لكم من عدوكم» اور سفیانی تمہارے دشمنوں کو سزا دینے کے لئے کافی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ سفیانی اور اس کے غیر شیعہ دشمنوں کے درمیان ایسی جنگیں واقع ہونگی جو اہل بیت (ع) کے حبداروں کے فائدے میں ہونگی کیونکہ ان میں واقع ہونے والا ہر قسم کا مالی اور جانی ضرر و زياں فائدہ مند ہوگا اور ان کا اختلاف حق اور اہل حق کے خلاف ان کے اجتماع اور اتحاد سے بہتر ہے۔ 

اور یہ جو امام علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: «وهو من العلامات لكم» یعنی یہ تمہارے لئے علامات اور نشانیوں میں سے ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا خروج قرب ظہور کی علامت ہے اور اس کا خروج دیکھ کر تم جان لوگے کہ ظہور پرنور نزدیک ہے۔ 

وعن أبي عبد الله الصادق صلوات الله وسلامه عليه قال: « كأني بالسفياني قد طرح رحله في رحبتكم بالكوفة فينادي مناديه: من جاء برأس شيعة علي فله ألف درهم، فيثب الجار علي جاره و يقول هذا منهم فيضرب عنقه و يأخذ ألف درهم، أما إمارتكم يومئذ لاتكون إلا لأولاد البغايا كأني أنظر إلي صاحب البرقع؟ قلت و من صاحب البرقع، قال: رجل منكم يقول بقولكم يلبس البرقع فيحوشكم فيعرفكم و لا تعرفونه فيغمز بكم رجلاً أما أنه لايكون إلا ابن بغي. » 

(الغيبة للشيخ الطوسي: ص450- و ص 273؛ بشارة الاسلام، ص 124؛ ص 703؛ بيان الائمه، ج2، ص612.)

 

گویا میں سفیانی کے ساتھ ہوں اور اس کے اعمال دیکھ رہا ہوں جس نے اپنا سامان تمہارے میدانوں میں اتارا ہے اور اس کی طرف سے منادی ندا دے رہا ہے کہ جو بھی شیعیان علی (ع) میں سے کسی ایک کا سر لائے گا اس کو پانچ ہزار درہم انعام دیا جائے گا۔ پس پڑوسی پڑوسی پر حملہ آور ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ “یہ شیعیان علی (ع) میں سے ہے” اور یوں اس کا سر قلم کرتا ہے [تاہم] اس کو [پانچ ہزار کی بجائے] ایک ہزار درہم ادا کئے جاتے ہیں۔ اس زمانے میں تمہارا اپنا حکمران بھی ان ہی حرامزادوں میں سے ہے۔ گویا میں اس چیچک زدہ چہرے والے مرد کو دیکھ رہا ہوں۔

پوچھا گیا: وہ مرد کون ہے؟

امام (ع) نے فرمایا: یہ وہ مرد ہے جو ایسے شخص کی حیثیت سے میدان میں اترے گا جو گویا تم ہی میں سے ایک ہے اور تمہارا ہمکیش اور ہم عقیدہ ہے (عرب بھی ہے اور مسلمان بھی) وہ تمہیں بخوبی جانتا اور پہچانتا ہے لیکن تم اس کو نہیں جانتے ہو۔ یہاں تک کہ وہ تمہیں گھیرے میں لیتا اور ایک ایک کرکے گرفتار کرتا ہے اور قتل کرتا ہے۔ اور خود ایک زنا زادہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ 

خراسانی اور یمانی اسی سال اور اسی مہینے اور اسی دن خروج کریں گے

اور سفیانی خروج نہيں کرتا مگر یہ کہ دو دیگر افراد اسی وقت قیام نہيں کریں گے:

أولا: اليماني 

وہ ارض یمن اور شہر صنعاء سے ہے۔ عبید بن زرارہ سے مروی ہے: «ذكر عند أبي عبد الله عليه السلام السفياني فقال: أنى يخرج ذلك ولما يخرج كاسر عينيه بصنعاء» 

(راجع كتاب الغيبة للشيخ النعماني: ص286، الباب 14، الحديث رقم 60).

امام صادق علیہ السلام کی مجلس میں سفیانی کا ذکر آیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ کیسے ممکن ہے کہ سفیانی نے خروج کیا ہو جبکہ ابھی صنعاء سے اس کی آنکھیں توڑ کر رکھنے والے نے خروج نہیں کیا؟

ثانيا: الخراساني 

خراسانی کا تعلق ایران کے خراسان سے ہے چنانچہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہيں: «خروج الثلاثة الخراساني والسفياني واليماني في سنة واحدة في شهر واحد في يوم واحد وليس فيها راية بأهدى من راية اليماني يهدي إلى الحق» 

(المصدر السابق: ص446).

خراسانی، سفیانی اور یمانی ایک ہی سال، ایک ہی مہینے اور ایک ہی دن میں خروج کریں گے اور ان میں کوئی بھی پرچم بھی یمانی کے پرچم سے زیادہ ہدایت یافتہ نہیں ہے جو حق کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔

وعن الإمام الباقر صلوات الله وسلامه عليه قال: «خروج السفیانی و الیمانی و الخراسانی فی سنة واحدة و فی شهر واحد فی یوم واحد و نظام کنظام الخرز یتبع بعضه بعضا فیکون البأس من کل وجه ، ویل لمن ناواهم . و لیس فی الرایات أهدى من رایة الیمانی هی رایة هدى لأنه یدعو إلى صاحبکم» (بحار الأنوار للعلامة المجلسي: ج52، ص232).

خروج سفیانی و یمانی و خراسانی در یک سال و یک ماه و یک روز است که ترتیب آن ها به سان رشته ای از مهره است که پی در پی واقع شده باشد. پریشانی و سختی از هر سو سر بر می دارد. وای بر کسی که با آن ها به مخالفت برخیزد. در میان درفش ها درفشی هدایت کننده تر از درفش یمانی یافت نمی شود؛ چرا که درفش حق است و شما را به سوی صاحبتان هدایت می کند.

اور امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: سفیانی، یمانی اور خراسانی کا خروج ایک ہی سال، ایک ہی مہینے اور ایک ہی دن ہوگا اور ان کے خروج کی ترتیب موتیوں کی مالا کی مانند ہوگی جو ایک دوسرے کے پیچھے آتی ہیں۔ پریشانیاں اور سختیاں ہر سمت سے سر اٹھاتی ہيں ہائے ان لوگوں پر جو ان پرچموں کی مخالفت کے لئے اٹھے، ان پرچموں کے درمیان کوئی بھی پرچم یمانی کے پرچم سے زیادہ ہدایت دہندہ نہیں ہے؛ کیونکہ وہ حق کا پرچم ہے اور وہ تمہیں تمہارے صاحب کی جانب راہنمائی کرتا ہے۔  

ان حدیثوں کے مطابق یمانی اور خراسانی کا خروج سفیانی کے خروج کے ساتھ ساتھ ہے اور اس زمانے میں کوئی بھی پرچم یمانی اور خراسانی کے نام سے اٹھے گا تو اس کے لئے سفیانی کا خروج ضروری ہے ورنہ ان کی تصدیق نہیں ہوسکے گی۔ 

سفیانی فتنے سے بچاؤ کی ترکیبیں

سفیانی دشمن اہل بیت (ع) ہے اور پیروان اہل بیت (ع) کے خون کا پیاسا ہے چنانچہ اس سے بچاؤ کے لئے ائمہ معصومین علیہم السلام ہی کے فرامین کی تعمیل کو مطمع نظر قرار دینا چاہئے۔ 

مثلا مذکورہ بالا روایات میں سے ایک روایت میں امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: سفیانی کے خروج سے ایک یا دو مہینوں تک اپنی جگہ سے کہیں حرکت مت کرو جبکہ وہ غیر شیعہ افراد کے قتل میں مصروف ہوگا۔ 

اپنے مردوں کو بچائے رکھو عورتوں اور بچوں تک اس کا ہاتھ نہیں پہنچـے گا

مکہ کی طرف ہجرت کرو کیونکہ مکہ تمہارے اجتماع کا مقام ہے [ہم جانتے ہيں کہ امام علیہ السلام کا ظہور بھی مکہ سے ہی ہوگا]۔ 

عورت کے حمل کی مدت کے بعد سفیانی کا زوال ہوگا اور آل محمد (ص) اور شیعیان آل محمد (ص) کو فراخی حاصل ہوگی۔ 

ایک یا دو مہینوں کی مدت میں وہ لوگ بھی سفیانی کو پہچان لیں کے اور اس کے کرتوتوں سے آگہی حاصل کرسکیں گے۔ 

یہ وہی سفیانی ہے جو امام علیہ السلام کے ظہور سے قبل ظآہر ہوگا اور عراق و حجاز تک حملے کرے گا اور ہزاروں یا شاید لاکھوں افراد کو قتل کرے گا لیکن آخرکار اصحاب حضرت مہدی علیہ السلام کے ہاتھوں مارا جائے گا۔

و صلی اللہ علی محمد و آلہ الطیبین الطاہرین المعصومین۔

 

تبصرے
Loading...