سب سے بڑا گنا ہ عاق والدین

شریعت اسلام میں دو قسم کے گنا ہ کا ذکر کیا گیا ہے : ١۔ کبیرہ ۔٢۔ صغیرہ ۔

گنا ہ کبیرہ ان گناہوں کو کہا جاتا ہے کہ جن کو انجام دینے کی صورت میں خدا کی طرف سے عقاب مقرر کیا گیاہے لہٰذا اگر آپ گناہ کبیر ہ کی حقیقت اور تعداد سے باخبر ہو نا چا ہتے ہیں تو جناب مرحوم آیت ١للہ شہید محراب دستغیب کی ارزش مند کتاب گناہان کبیر ہ اور تفسیر کی کتابوں کی طرف رجوع فرمائیں لیکن گناہ کبیر ہ میں کچھ ایسے گناہ ہے کہ جن کو اکبر الکبا ئر سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ جن میں سر فہر ست عاق والدین ہے یعنی عاق والدین تمام گنا ہان کبیر ہ میں سب سے بڑا گنا ہ ہے کہ اس مطلب کی طرف پیغمبر اکرم (ص) نے یوں اشارہ فرمایا ہے:

” اکبر الکبائر الشرک بااللّٰہ وقتل النفس وعقوق الوالدین وشہا دۃ الزور”(١)

” گناہ کبیر ہ میں سے سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ خدا کے ساتھ شریک ٹھرانا اور کسی کو قتل کرنا ،ما ں ،باپ کے ساتھ برے سلوک سے پیش آنا اور جھوٹی شہا دت دینا ہے ۔ ”

نیز دوسری روایت میں آنحضرت نے یوں ارشاد فرمایا ہے:

” قال رسول اللّٰہ (ص) : خمس من الکبا ئر: الشر ک بااللّٰہ وعقوق الوالدین والفرار من الز حف وقتل النفس بغیر حق والیمین الفاجرۃ تذعہ الدیار بلاقع”(2)

پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا پانچ چیزیں گناہ کبیرہ میں سے ہیں :

١ ۔خدا کے ساتھ کسی کو شریک قرار دینا ۔

٢۔ ماں پاب کے ساتھ برا سلوک کرنا، عاق والدین۔

٣۔ جہاد کے مو قع پر بھا گنا ۔

٤۔ کسی کو نا حق قتل کرنا ۔

٥۔ جھوٹی قسم کھا کر اپنے آپ کو نابود کرنا ۔

نیز اور ایک روایت میں امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:

”ان اکبر الکبا ئر عند اللّٰہ یوم القیا مۃ الشر ک با اللّٰہ وقتل نفس المؤمن بغیر الحق والفرار من سبیل اللّٰہ یوم الز حف وعقوق الوالدین”(3)

بے شک روز ہ قیامت خدا کی نظر میں سب سے بڑا گناہ کبیرہ میں سے یہ ہے کہ خدا کے ساتھ شریک ٹھرانا اور کسی مؤ من کو مار ڈالنا جنگ کے مو قع پر راہ خدا سے بھاگنا اور ماں باپ کو ناراض کرنا اسی طرح اخباری کتابوں میں عاق والدین کاگناہ کبیر ہ میں سے یا تمام گنا ہوں سے بڑا گناہ ہو نے پر بہت ساری روایات پائی جاتی ہیں۔

چنا نچہ امام جعفر الصادق علیہ السلام نے فرمایا:

” الذ نوب التی تظلم الھواء عقوق الوالدین”(4)

گناہوں میں سے جو فضاء کو تاریک اور آلودہ کرتا ہے وہ عاق والدین کا گناہ ہے ۔

ان مذ کو رہ احادیث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ والدین کو ناراض کرنا سب سے بڑا گناہ ہے اس گنا ہ کے نتیجہ میں اولاد کی زندگی برباد ہو نے کے علاوہ رب العزت کے فیض وکرم سے محروم ہو جاتا ہے لہٰذا حضرت امام علی علیہ السلام کے دور میںآپ ایک دفعہ رات کے آخری وقت اپنے فرزند بزرگوار امام حسن علیہ السلام کو لے کر کنار خانہ کعبہ خدا سے مناجات کے لئے نکلے تو دیکھا کہ ایک مسکین خانہ کعبہ میں خدا سے راز ونیاز کرتے ہو ئے آنسو بہارہا ہے ۔

امام علیہ السلام نے اس کی اس حالت کو دیکھ کر امام حسن علیہ السلام سے فرمایا اے بیٹا حسن اس مسکین کو میرے پاس لے کر آنا اما م حسن مسکین کے پاس پہونچے تو دیکھا کہ مسکین بہت غمگین حالت میں پڑا ہے لہٰذا کہنے لگے اے خدا کے بند ے تجھے حضرت پیغمبر (ص) کے چچا زاد بھائی کی دعوت ہے لہٰذا اٹھ ۔

جب مسکین نے امام علی ؑک دعوت کو امام حسن کی زبان سے سنا تودوڑتا ہوا امام علی کی خدمت میں پہنچا تو امام نے اس سے پو چھا اے مسکین تیری کیا حاجت ہے ؟

مسکین نے کہا: اے میرے مو لاحقیقت یہ ہے کہ میں نے اپنے باپ کو اذیت پہنچائی ہے کہ جس کی بنا ء پر میرے والد نے مجھے عاق کردیا ہے اس کے نتیجہ میںمیرے بدن کا نصف حصہ فالج کی بیماری میں مبتلا ہے۔

امام (ع)نے فرمایا: یہ بتاؤ تم نے باپ کو کیا اذیت پہنچا ئی تھی؟

وہ کہنے لگا کہ میں ایک جوان اور عیاش بندہ تھا کہ ہر قسم کے گناہ میں مرتکب ہو تا تھا باپ مجھے گناہ کرنے سے منع کرتے تھے لیکن میں ان کی نصیحت پر عمل نہ کرنے کے علاوہ دوسرے گنا ہوں کا زیادہ مرتکب ہوا کہ حتی ایک دن میں کسی گناہ کا مرتکب تھا اس وقت میرے باپ نے مجھے منع کیا تو میں نے اس کے جواب میں ایک لاٹھی لے کر باپ کو مارنے لگا تو باپ نے ایک لمبی سانس لی اور اسکے بعدمجھ سے کہنے لگے کہ آج ہی میں خانہ کعبہ جاکر تجھے عاق اور نفرت کروں گا ۔

باپ نے مجھے عاق کیا جس کے نتیجہ میں میرے بدن کا نصف حصہ فالج کی بیماری سے دو چار ہوا ہے اس وقت اس مسکین نے بدن کے مفلوج حصے کو امام علی علیہ السلام کو دکھایا،لیکن جب میں پشیمان ہوا تو میں باپ کے پاس گیا اور معذرت خواہی کی اورباپ سے در خواست کی کہ میرے حق میں دعا کریں باپ راضی ہو گئے اور خانہ کعبہ کی جس جگہ سے مجھے عاق کیا تھا اس جگہ میرے حق میں دعا کرنے کے بعد شہر مکہ کی طر ف جانے کی خاطر اونٹ پر سوار ہوئے جب کسی صحر ا میں میںپہونچے تو ایک پر ندہ آسمان کی طرف سے آنے لگا اور عجیب سے کوئی پتھر باپ کے اونٹ کی طرف پھینکا کہ جس کے نتیجہ میں باپ اونٹ سے گر کر دنیا سے چل بسے اور میں نے وہیں پر ہی دفن کیا ۔

لہٰذا ابھی انھیں کی یاد میں رات کے وقت تنہا ئی کے حالت میں خدا سے رازونیا ز کررہا ہوں لیکن میرے باپ نے اظہاررضایت کی مگر میرے بدن کا مفلوج حصہ ٹھیک نہیں ہوا ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:

اے مسکین اگر تیر ا باپ تم سے راضی ہوا ہے تو تیری سلامتی کے لئے میں دعا کرتا ہوں امام نے دعا فرمائی کہ اس کے نتیجے میں مفلوج حصہ ٹھیک ہوا پھر امام اپنے فرزند بزر گوار کے پاس آئے اور فرمایا:

” علیکم ببرالوالدین ”(5) تم پر والدین کے ساتھ نیکی کرنا فرض ہے لہٰذا کوئی ایسا عمل انجام نہ دیں جس سے تمہارے والدین تمہارے ساتھ نفرت کرنے لگیں ۔

١۔ نہج الفصاحتہ، ص٨٢ .

(2) جامع الا خبار، ص٨٤ ، نقل از ارزش پدر ومادر .

(3) میزان الحکمتہ باب العقوق .

(4) بحارالانوار، ج٨٤ ، نقل از کتاب ارزش پدر ومادر .

(5)کتاب ارزش پدر ومادر ،ص٣٨٩.

 

 

تبصرے
Loading...