سابقہ امتوں میں اوصیاء کا سلسلہ

 

اپنے بعد ولی امر کی تعیین کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات

اس باب کی ابتداء ہم انبیاء علہیم السلام کی عملی سیرت کے بیان سے کریں گے اور دیکھیں گے کہ انہوں نے اپنی امتوں کے واسطے اپنے بعد وصی اور ولی امر کی تعیین کے لیے کیااقدامات کئے ہیں۔

سابقہ امتوں میں اوصیاء کا سلسلہ

حضرت آدم سے لے کر خاتم النبین(صلوات اللہ علیہم اجمعین)تک انبیاء کے اوصیاء کاسلسلہ جاری رہا ہے مثال کے طور پر:

 حضرت آدم کے وصی حضرت ہبة اللہ تھے جنہیں عبرانی میں شیث کہتے ہیں۔

 حضرت ابراہیم کے وصی حضرت اسمعیل تھے۔

 حضرت یعقوب  کے وصی حضرت یوسف تھے۔

 حضرت موسی کے وصی یوشع بن نون بن افراہیم بن یوسف تھے۔ حضرت موسیکی زوجہ صفورا نے حضرت یوشعکے خلاف خروج کیاتھا۔

حضرت عیسی کے وصی حضرت شمعون تھے۔

 اور حضرت خاتم الانبیاء محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصی حضرت علی ابن ابی طالب(ع) اور اور آپ(ص) کی نسل سے گیارہ ائمہ تھے۔ ہم یہاں مذکورہ بالا اوصیاء علیہم السلام میں سے تین کے ذکر پر اکتفاء کرتے ہیں۔

حضرت شیث کے لیے آدم کی وصیت

شیث کے حق میں آدم کی وصیت کے بارے میں مورخین کا بیان ہے کہ جب آدم کی موت کا وقت قریب آیا توانہوں نے حضرت شیث کو اپنا وصی بنایا۔

بقول طبری ہبة اللہ کو عبرانی میں شیث کہتے ہیں۔ حضرت آدم نے انہی کے نام وصیت کی اور اپنی وصیت لکھی۔ کہتے ہیں کہ شیث  اپنے باپ آدم کے وصی تھے۔ شیث کے لیے حضرت آدم کی وصیت اور ان کی وفات کے بارے میں لکھا ہے :پھر جب آدم نے شیث کے نام اپنی وصیت کرلی تو شیث نے آدم کے اسرار کی خوب حفاظت کی اور ان کو اپنی ذات تک محدود رکھا۔پھر آدمکی وفات ہوئی۔

ابن اثیرلکھتے ہیں:شیث سے مراد ہبة اللہ ہیں جو آدم کے وصی تھے۔ جب آدم کی وفات قریب آئی تو شیث کے نام وصیت کی۔

ابن کثیر کہتے ہیں:حضرت آدم کی وفات اور ان کے بیٹے شیث کے حق میں ان کی وصیت کابیان۔

شیث سے مراد ھبة اللہ ہیں۔جب آدم کی موت قریب آئی تو انہوں نے شیث کو اپنا وصی بنایا۔۱

حضرت موسی کے وصی یوشع بن نون کا ذکرحضرت یوشع بن نون کا ذکر توراة میں

قاموس کتاب مقدس میں لفظ یوشع کے بیان میں توراة کی زبانی مذکور ہے:یوشع بن نون جو حضرت موسی کے ساتھ جبل سینا پر موجود تھے۔وہ حضرت ہارون کے دور میں بچھڑے کی عبادت میں ملوث نہیں ہوئے۔

توراة کتاب العدد اصحاح ۲۷ میں خداکی طرف سے ان کو موسی کا وصی معین کرنے کا تذکرہ ہے۔ ذیل میں اس کا متن دیاجاتاہے:

پس موسی نے رب سے یہ کہتے ہوئے گفتگو کی:اے رب، اے تمام انسانوں کی ارواح کے معبود (میری )قوم کے اوپر کسی مرد کو موکل فرما جو ان کے سامنے نکلتاہو اور اندر جاتا ہو۔ان کو خارج کرتا ہو اور داخل کرتاہو۔تاکہ اللہ تعالیٰ کی جماعت ان بھیڑ بکریوں کی مانند نہ ہوجائے جن کا کوئی چرواہا نہ رہا ہو۔ پس رب نے موسی  سے کہا یشوع بن نون کو لے لو وہ ایک مرد ہے جس میں ایک روح ہے اور اپنا ہاتھ اس پر رکھو۔ پھر اس کو العازار نامی کاہن اور پوری جماعت کے آگے کھڑا کرواور ان کی آنکھوں کے سامنے اسے وصیت کرو اور اپنی ہیبت سے کچھ اس کو دو۔تاکہ بنی اسرائیل کی پوری جماعت اس کی بات سنے۔ پس وہ کاہن العازار کے سامنے کھڑا ہوا کہ وہ اللہ کے سامنے اس کے لیے قوت اور ہیبت عطا کرنے کا سوال کرے۔ لوگ اس کے کہنے پر خارج ہوں گے اور اس کے کہنے پر داخل ہوں گے۔ وہ اور بنی اسرائیل کے تمام گروہ اس کے ساتھ ہیں۔ پس موسی نے رب کے حکم پر عمل کیا۔اس نے یشوع کو لیا اور اسے العازار کاہن اور پوری قوم کے سامنے رکھا۔ پھر اپنے دونوں ہاتھ اس پر رکھے اور اسے وصیت کی جس طرح رب نے ید موسی کے بارے میں گفتگو کی تھی۔

یوشع کے بنی اسرائیل کی امارت سنبھالنے اور ان کی جنگوں کا تذکرہ سفر یوشع بن نون ”اصحاح ۲۳ “میں مذکور ہے۔

خاتم الانبیاء کے وصی اور حضرت موسی کے وصی میں مشابہت

یوشعبن نون حضرت موسی کے ساتھ کوہ سینا میں موجود تھے۔ انہوں نے بچھڑے کی پرستش نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے موسی کو حکم دیا کہ جناب یوشعکو اپنے بعد وصی مقرر کردیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی جماعت شتر بے مہار نہ بن جائے۔  اسی طرح حضرت علیعلیہ السلام غار حرا میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ(ص)نے کبھی کسی بت کو نہیں پوجا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب(ص) کو حجة الوداع سے واپسی پر حکم دیا کہ علی بن ابی طالب علیہما السلام کو حاجیوں کے سامنے اپنے بعد امت کا رہبر معین کردیجئے اور امت کو بے سرپرست نہ چھوڑیں۔ چنانچہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے غدیر خم میں اس کا اعلان کیا اوران کو اپنا ولی عہد بنایا جیسا کہ ہم بیان کریں گے۔ آنحضرتصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا:میری امت پر ضرور بہ ضرور وہی کچھ گزرے گا جو بنی اسرائیل پر گزراتھا۔ ہم نے اس حدیث کے ماخذ”ایک سو پچاس جعلی اصحاب “نامی کتاب کی دوسری جلد کی ابتدا میں دیے ہیں۔

یوشعکا ذکر قرآن میں اسلامی تعلیمات کے ماخذ میں

قرآن کریم میں حضرت یوشعکو” الیسع“ کہا گیاہے۔ 2  جب حضرت موسی علیہ السلام کی موت قریب آئی تو خدا نے انہیں حکم دیا کہ یوشع بن نون کو قبة الرمان3  میں داخل کرے اور اسے بابرکت بنائے(یاعشائے ربانی ادا کرے)اور اپنا مقدس ہاتھ ان کے بدن پر رکھے تاکہ اس کی برکت ان میں سرایت کرجائے اور ان کو وصیت کریں کہ وہ ان کے بعد بنی اسرائیل کی ذمہ داری سنبھالیں۔  4

حضرت عیسی کے وصی شمعونکا تذکرہ پہلا نکتہ: شمعونانجیل میں

قاموس کتاب مقدس میں اس نام کے دس افراد کا تذکرہ ہوا ہے۔ ان میں سے ایک شمعونبطرس ہیں۔توراة میں شمعونکا نام سمعون ہے۔ انجیل متی 5  میں ان کا یوں ذکر ہوا ہے :

پھر (عیسی نے)اپنے بارہ شاگردوں کو بلایا اور ان کو نجس ارواح پر تسلط عطا کیا تاکہ وہ ان کو نکال دیں اور ہر مرض اور کمزوری کو شفا دیں۔

ان بارہ افراد کے نام یہ ہیں: سمعان جسے پطرس کہتے ہیںالخ۔

انجیل یوحنا ۵ میں مذکور ہے کہ عیسی نے اس کے نام وصیت کی اور کہا:

میرے مویشی چراؤ۔ یہ کنایہ ہے عیسی پر ایمان لانے والوں کی نگہداری کے بارے میں۔

قاموس کتاب مقدس میں بھی ذکر ہوا ہے کہ عیسی نے انہیں کلیسا کی ہدایت کے لیے معین کیا۔

دوسرا نکتہ: شمعونکاذکر اسلامی تعلیمات کے ماخذ میں

یعقوبی نے ان کا ذکر کیا ہے اور ان کو سمعان الصفا کے نام سے یاد کیاہے۔مورخ مسعودی نے کہا ہے :

پطرس روم میں قتل ہوگئے۔

یونانی زبان میں ان کا نام شمعون ہے اور عرب انہیں سمعان کہتے ہیں۔ 6  معجم البلدان میں دیر سمعان کے ذکر میں کہا گیا ہے:

دیر سمعان دمشق کے مضافات میں واقع ہے۔یہ دیر (گرجا) سمعان سے منسوب ہے جو نصاریٰ کے ایک بڑے بزرگ تھے۔کہتے ہیں کہ اس سے مراد شمعون الصفاہیں۔

ہم نے ان تین اوصیاء کے بارے میں مختصر سا تذکرہ بطور مثال پیش کیا تاکہ دیگر ابنیاء علہیم السلام کے اوصیاء کا حال بھی واضح ہوجائے۔ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان رسولوں سے مختلف تو نہیں تھے جو آپ اپنی امت کو اپنے بعد آنے والے ولی امر کی نشاندہی کے بغیر چھوڑ دیتے جبکہ آپ(ص) چھوٹی سی اسلامی سرزمین یعنی شہر مدینہ کو جنگوں کے دوران چند گھنٹوں کی غیر حاضری کی صورت میں بغیر کسی جانشین کے نہیں چھوڑتے تھے۔ خاتم الانبیاء والمرسلین نے عالم اسلام کو اپنے بعد ہمیشہ کے لیے کسی ولی امر کی تعیین کے بغیر نہیں چھوڑا بلکہ آپ نے مختلف الفاظ میں متعدد مقامات پر وصی کی تعیین فرمائی۔بعض موقعوں پر صرف اپنے بعد والے پہلے امام کا ذکر کیا اور بعض موقعوں پر تمام ائمہ کا تذکرہ کیا۔جن احادیث میں صرف حضرت علی ابن ابی طالب کا تذکرہ فرمایاان میں سے کچھ کا ذکر یہاں کیا جارہاہے۔

حضرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےبعد آپ(ص) کا وزیر، ولی عہد اور خلیفہ

احادیث رسول(ص) میں وصی کا ذکر

 ہم نے اس بحث کی ابتدا میں دعوت ذوالعشیرہ کا ذکر کیا ہے۔اس دن بنی ہاشم کے قریبا چالیس مردوں کے سامنے رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:

ان ھذا اخی ووصی وخلیفتی فیکم فاسمعوا لہ واطیعوا،

یہ شخص میرا بھائی، میرا وصی اورتمہارے درمیان میرا خلیفہ ہے۔ پس اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔

اس حدیث کے ذریعے آپ(ص) نے ان لوگوں کے درمیان اپنے وصی اور خلیفہ کو معین کیا اور انہیں اس کی اطاعت کا حکم دیاہے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔

وَمَآ اٰتٰاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ 7

اور رسول جو تمہیں دے دیں وہ لے لو۔

طبرانی نے حضرت سلمان فارسی سے نقل کیا ہے کہ سلمان نے کہا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا:

اے اللہ کے رسول(ص)ہرنبی کا ایک وصی ہوتاہے۔آپ(ص) کا وصی کون ہے؟

آپ(ص) خاموش رہے۔بعد میں جب مجھے دیکھا تو کہا:

اے سلمان !

یہ سن کر میں جلدی سے آپ(ص)کی طرف بڑھا اور عرض کیا۔

لبیک۔

فرمایا:کیاموسی کے وصی کو جانتے ہو؟

میں نے عرض کیا:

ہاں وہ یوشع بن نون تھے۔

فرمایا :کیوں ؟

میں نے عرض کیا:کیونکہ وہ اس وقت سب سے زیادہ عالم تھے۔

فرمایا:پس میرا وصی میرے اسرارکا محافظ،میرے بعد سب سے بہترین فرد، میرے وعدوں پر پورا اترنے والا اور میرے قرضوں کو ادا کرنے والا علی ابن ابی طالب(ع)ہے۔ 8

حضرت ابو ایوبسے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹی سے فرمایا:کیاتجھے علم نہیں کہ اللہ عزوجل نے اہل زمین پر نظر کی اور ان میں سے تیرے باپ کو چن کر نبی بنایا اور اس کے بعد دوبارہ نظر کی تو تیرے شوہرعلی(ع)کو چن لیا ہے؟پھر میرے اوپر وحی کی تومیں نے ان کے ساتھ تیرا نکاح کردیااور اسے اپنا وصی بنالیا؟ 9

حضرت ابو سعیدخدریسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:بتحقیق میرا وصی میرے اسرار کا محافظ،میرے بعد لوگوں میں سب سے بہترین ہستی، میرے وعدوں کو پورا کرنے والا اور میرے قرضوں کو ادا کرنے والا علی ابن ابی طالب(ع)ہے۔ 10

حضرت انسبن مالک سے روایت ہے :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو کیا،دو رکعت نماز پڑھی اور اس سے فرمایا:

اس دروازے سے جو شخص سب سے پہلے داخل ہوگا وہ امام المتقین، سید المسلمین، یعسوب الدین، خاتم الوصیین ہوگا۔

پس حضرت علی(ع) آئے اور آپ(ص) نے فرمایا:

اے انس کون آیاہے ؟

میں نے عرض کیا:

علی(ع)۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی(ع) کو دیکھ کر خوشی خوشی کھڑے ہوگئے اور انہیں گلے سے لگالیا۔ 11

صحابی رسول(ص) حضرت بریدہسے منقول ہے کہ نبیصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:ہر نبی کا ایک وصی اور وارث ہوتاہے۔ میرا وصی اور وارث علی(ع) ہے۔

بیہقی کی کتاب المحاسن والمساوی میں ایک حدیث ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:بے شک جبرائیل خداکی طرف سے ایک تحفہ لے کر آئے تاکہ رسو ل صلی اللہ علیہ والہ وسلم اسے اپنے ابن عم اور وصی ابن ابی طالب(ع) کو بطور تحفہ دیں۔  12

مذکورہ احادیث وہ تھیں جو ہمیں وصیت سے مربوط احادیث رسول(ص) میں نظر آئیں۔

سابقہ امتوں کی کتابوں میں وصایت کا تذکرہ

صفین کے راستے میں حضرت علی(ع)کے لشکر کو ایک صحرا میں پیاس نے ستایا۔ آپ(ص) ان کے ساتھ چلے اور ایک پتھر کے پاس پہنچ گئے۔آپ(ص) کی مدد سے انہوں نے اس پتھر کو اکھیڑا۔ یوں لشکر نے سیر ہوکر پانی پیا۔نزدیک ہی ایک گرجاتھا۔جب اس گرجے کے مالک عیسائی عالم کو اس واقعے کی خبر ملی تو اس نے کہا:یہ گرجا اسی پانی سے تعمیر کیاگیاتھا اور اس پانی کو نہیں نکالامگر کسی نبی نے یاکسی نبی کے وصی نے۔13

مذکورہ حدیث کی موید ایک اور حدیث

نصر بن مزاحم کی کتاب وقعہ الصفین اور تاریخ ابن کثیر میں ایک اور روایت مذکور ہے جو واقعہ صفین میں یوں درج ہے :جب علیعلیہ السلام رقہ میں فرات کی جانب بلیخ کے مقام پر اترے تو وہاں موجود ایک گرجے سے ایک راہب آیا اور اس نے حضرت علی(ع) سے کہا:

ہمارے پاس ایک تحریر ہے جو ہمارے آباؤ اجدادسے ہمیں ملی ہے۔یہ تحریر عیسیٰ ابن مریم (س) کے اصحاب نے لکھی ہے۔ اسے میں آپ کے سامنے پیش کرتاہوں۔

حضرت علی نے فرمایا:

ٹھیک ہے دکھاؤ وہ کیاہے؟

راہب نے تحریر کو پڑھا:

شروع کرتاہوں اس اللہ کے نام سے جو رحمان بھی ہے اور رحیم بھی۔ جس نے جہاں فیصلہ کرنا تھا فیصلہ کیااور جہاں لکھناتھا لکھا کہ وہ امی لوگوں کے درمیان انہی میں سے ایک نبی بھیجنے والا ہے جو ان کو کتاب و حکمت سکھائے اور اللہ کے راستے کی رہنمائی کرے۔ وہ نہ بدخلق ہے، نہ تندخو اور نہ ہی بازاروں میں شور مچانے والا ہے۔ وہ برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتا بلکہ عفو و درگزر سے کام لیتا ہے۔ اس کی امت کے لوگ بہت زیادہ حمد کرنے والے ہیں جو ہر اونچی جگہ اور ہر پست و بلند مقام پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے ہیں۔ ان کی زبان پر ہمیشہ تہلیل و تکبیر اور تسبیح کا ورد ہوتاہے۔ اللہ اسے ہر دشمن پر فتح دے گا۔ جب اس کی وفات ہوگی تو اس کی امت میں پہلے اختلاف ہو گا اور پھر وہ متحد ہوجائیں گے۔  وہ اس حالت میں رہیں گے جب تک اللہ چاہے۔ اس کے بعد پھر اختلاف کا شکار ہوں گے۔ پس اس امت کا ایک مرد اس فرات کے کنارے سے گزرے گا جبکہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کر رہا ہو گا۔ وہ حق کے ساتھ فیصلہ کرے گا۔ وہ فیصلے کی خاطر رشوت نہ لے گا۔ دنیا اس کے آگے اس راکھ سے بھی زیادہ بے قیمت ہوگی جسے طوفانی ہوائیں اڑاتی ہیں۔  موت اس کے لیے پیاس کی حالت میں پانی پینے سے بھی زیادہ آسان تر ہو گی۔وہ تنہائی میں اللہ سے ڈرے گا اور لوگوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کے لیے اس کی محبت خالص ہوگی۔ وہ راہ خدا میں کسی کی ملامت سے نہیں ڈرے گا۔اس علاقے کے جولوگ اس نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو پالیں اور اس پر ایمان لائیں تو ان کا اجر اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت ہو گی۔ جو شخص اس عبد صالح کو پائے وہ اس کی مدد کرے، کیونکہ اس کی محبت میں قتل ہونا شہادت ہے۔

اس کے بعد راہب نے امام سے کہا:

پس میں آپ کے ساتھ رہوں گا اور آپ سے جدا نہ ہوں گا۔ یہاں تک کہ جن مشکلات سے آپ دوچار ہوں ان سے میں بھی دوچار ہوں۔

پس حضرت علی(ع) روئے اور فرمایا:

حمد اس اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے نہیں بھلایا۔ حمد ہے اس اللہ کی جس نے میرا ذکر ابرار کی کتابوں میں کیا ہے۔

اس کے بعد راہب آپکے ساتھ گیا۔ وہ دن اور رات کا کھانا حضرت علی(ع) کے ساتھ کھاتارہا یہاں تک کہ جنگ صفین میں شہید ہو گیا۔جب لوگ اپنے مقتولین کو دفن کرنے کے لیے نکلے تو علی(ع)نے فرمایا:

اسے ڈھونڈو۔

جب لوگ اسے ڈھونڈ کرلائے تو آپنے اس پر نماز پڑھی اور اسے دفن کر دیا اور فرمایا:

یہ ہم اہل بیت سے ہے۔ پھر آپنے کئی بار اس کے لیے مغفرت طلب کی۔  حضرت علی(ع)کی بیعت کے وقت مالک اشتر  کی گفتگو میں وصایت کا تذکرہ

جب امیرالمومنین(ع)کی بیعت ہوئی تو مالکبن حارث شتر نے کہا:

لوگو یہ وصی الاوصیاء ہیں۔ یہ علم انبیاء کا وارث ہے، یہ عظیم مشکلات سے ٹکراتا ہے اور ان سے عہدہ برآہوتاہے۔اللہ تعالیٰ کی کتاب نے اس کے ایمان کی شہادت دی ہے اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم خدا نے جنت رضوان کی۔ وہ تمام فضیلتوں کے جامع ہیں۔ اسلام میں آپ کی سبقت، آپ کے علم اور آپ کے فضل میں نہ بعد والوں کو شک ہے نہ سابقین کو۔ 14

محمدبن ابوبکر نے اپنے ایک خط میں معاویہ بن ابی سفیان کو لکھا:

 بے شک اللہ تعالیٰ نے محمدصلی اللہ علیہ والہ وسلمکو منتخب کیا اور اپنی رسالت آپ(ص) سے مختص کر دی، اپنی وحی کے لیے آپ کو چنا، اپنے مشن کا آپ کو امین سمجھا اور آپ کو ایسا رسول بنایاجوسابقہ کتب کی تصدیق کرتاہو اور شریعتوں کی طرف رہنمائی کرتاہو۔پس آپ(ص) نے اسے رب کے راستے کی طرف دعوت دی حکمت اور موغطہ حسنہ کے ذریعے۔ سب سے پہلے جواب دینے اور لبیک کہنے والا، سب سے قبل ان کی تصدیق اور موافقت کرنے والا، سب سے پہلے اسلام قبول کرنے اور اطاعت قبول کرنے والا حضور(ص) کا بھائی اور ابن عم علی ابن ابی طالب(ع) تھے۔علی(ع) نے چھپے ہوئے غیب کی تصدیق کی، انہیں ہر عزیز پر ترجیح دی اور انہیں ہر خطرے سے بچایا اور خوف کے ہرموقع پر اپنی جان کے ذریعے ان کی دلداری کی۔ جنگ اور صلح میں ان کا ساتھ دیا۔اس نے سختی و تنگی کی گھڑیوں میں اور خوف و ہراس کے موقعوں پر ذلت و خواری کا ثبوت نہیں دیا یہاں تک کہ وہ میدان جہاد میں سب پر سبقت لے گیا۔ان کا کوئی نظیر نہ بن سکا نیز عمل میں کوئی اس کی برابری نہ کرسکا۔  اب تم اس کی برابری کرنے لگے ہو جبکہ تم وہی ہو جو ہو۔ تیرے برعکس وہ ہر نیک کام میں ممتاز اور سبقت کرنے والا ہے۔ قبول اسلام میں اسے تمام لوگوں پر سبقت حاصل ہے۔ نیت کے لحاظ سے وہ تمام لوگوں سے زیادہ سچاہے۔ ان کی نسل سب سے

زیادہ پاک وپاکیزہ ہے۔ زوجیت میں اسے تمام لوگوں پر برتری حاصل ہے۔سب سے بہترین ابن عم اس کا ہے۔

پھر تم اور تمہارا باپ ہمیشہ دین خدا کی تباہی و بربادی کے خواہاں رہے ہواور نور الہٰی کو بجھانے کی کوشش میں مشغول رہے ہو۔ اس مقصد کے لیے لوگوں کو جمع کرتے،  مال خرچ کرتے اور قبائل سے مخالفت کرتے رہے ہو۔ تیرا باپ اسی روش پر مرگیااور یہ روش تجھے ورثے میں ملی ہے۔ تیرے ان اعمال کا گواہ وہ ہے جو تیری حفاظت اور پناہ میں ہے۔ وہ احزاب کی باقی ماندہ یادگارہے وہ بڑے بڑے منافقین اور دشمنان رسول(ص) کی یادگار ہے جبکہ حضرت علی کے اعمال کے گواہ ان کے واضح فضائل اور قدیم کارناموں کے علاوہ مہاجرین و انصار پر مشتمل ان کے وہ مدد گار ہیں جن کی فضیلت کا تذکرہ قرآن میں ہوا ہے اور خدا نے ان کی تعریف کی ہے۔ یہ لوگ اس کے ساتھ موجود گروہ اورفوجی دستے ہیں جو اپنی تلوار سے پے درپے وار کرتے ہیں اور ان کے آگے اپنا خون بہاتے ہیں۔ وہ علی(ع) کی پیروی میں بزرگی پاتے ہیں اور ان کی مخالفت کو باعث بدبختی سمجھتے ہیں۔وائے ہوتم پر کہ تم کس طرح ان کی برابری کرسکتے ہو۔ وھو وارث رسول الله صلی الله علیہ والہ وسلم ووصیّہ و ابو ولدہ و اول الناس لہ اتباعاً وآخرھم بہ عھداً یخبرہ بسرِویشرکہ فی امرہجبکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وارث، آپ کا وصی، آپ کی اولاد کا باپ، لوگوں میں نبی کا اولین پیروکار اور سب سے آخری ساتھی ہے۔رسول(ص)، علی(ع) کو راز کی باتیں بتاتے تھے اور اپنے امور میں ان کو شریک رکھتے تھے۔

معاویہ کاجوابی خط

معاویہ بن ابوسفیان کی طرف سے محمد ابن ابوبکر کے نام واضح ہو کہ تیرا خط مجھے ملا۔اس میں تو نے ذکر کیا ہے اس چیز کا جس کا خداوند اپنے دائرہ قدرت و سلطنت میں اہل ہے نیز اس میں اللہ کی طرف سے اپنے نبی کو خاص چیزوں سے سرفراز کرنے کا بھی ذکر ہے۔ ساتھ ہی تو نے ایسی خود ساختہ باتوں کا ذکر کیاہے جنہیں تو نے وضع کیاہے۔اس سے تیری رائے کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے اور تیرے باپ کی توہین ہوتی ہے۔تو نے ابوطالب کے بیٹے کے حق کا ذکر کیاہے ان کے قدیم کارناموں، رسول خداصلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ان کی قرابت اور ان کی طرف سے ہر خوف و خطر میں نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مدد و دلجوئی کا تذکرہ کیا ہے۔تو نے اس میں میرے خلاف دوسروں کے فضائل کے سہارے سے استدلال کیاہے نہ کہ اپنے فضائل سے۔ہم لوگ اور ہمارے ساتھ تیراباپ بھی رسول اللہ(ص) کی زندگی میں علی ابن ابی طالب(ع) کے حق کی رعایت اپنے اوپر واجب اور ہمارے اوپر اس کی فضیلت کو واضح سمجھتے تھے۔جب اللہ نے اپنے نبیصلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے ہاں موجود نعمتوں کے لیے چنا،ان کے ساتھ اپنے وعدے کو پورا، ان کی دعوت کو کامیاب اور ان کی حجت کو آشکار کیا۔پھر انہیں اپنی طرف بلالیاتو تیرے باپ اور فاروق نے سب سے پہلے اس کا حق چھینا اور اس کی مخالفت کی۔ان دونوں نے اس پر اتفاق و اتحاد کرلیا۔پھر ان دونوں نے اسے اپنی اطاعت کی دعوت دی۔ لیکن انہوں نے قبول نہ کیا۔ پس ان دونوں نے ان کے خلاف کافی کچھ ٹھان لیااور خطرناک ارادہ کیا۔وہ دونوں انہیں اپنی حکومت میں شریک نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی انہیں اپنے اسرار سے آگاہ کرتے تھے یہاں تک کہ وہ دونوں دنیا سے چلے گئے اور ان کی حکومت ختم ہوگئی۔ پھر ان دونوں کے بعد عثمانبن عفان نے ان کی جگہ لی جو ان دونوں کے نقش قدم پر چلتے تھےالخ۔  15

یہاں ہم نے معاویہ کے خط کا تذکرہ اس لیے کیاہے کیونکہ اس میں محمد بن ابوبکر کی باتوں کا اعتراف موجودہے۔ان دونوں خطوں کو نصر بن مزاحم نے اپنی کتاب وقعة الصفین میں اورمشہور مورخ مسعودی نے مروج الذہب میں مکمل طور پر نقل کیاہے۔طبری اور ابن اثیر نے ۳۶ ھء کے واقعات میں ان کا تذکرہ کیاہے۔مورخ طبری یزید بن ظبیان سے نقل کرتے ہیں کہ محمدبن ابوبکر نے معاویہ بن ابوسفیان کو والی بننے کے بعد خط لکھا۔ان دونوں کے درمیان خط و کتابت کا تذکرہ کیا گیاہے جس کا ذکر کرنا مجھے ناگوار ہے کیونکہ ان میں ایسی باتیں ہیں جن کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے۔

عمرو بن عاص کےخط میں وصایت کا تذکرہ

اسلامی تاریخ میں معاویہ کے نام عمرو بن عاص کے ایک خط کا تذکرہ موجودہے جس میں عمرو بن عاص نے لکھاہے :

فاما مادعوتنی الیہ وعاننی ایّاک علیٰ الباطل و اختراط السیف فی وجہ علیوھوا خو رسول الله ووصیہ و وارثہ وقاضی دینہ و منجز وعدہ وزوج ابنتہالخ۔ 16

رہی وہ بات جس کی تو نے مجھے دعوت دی ہےاور باطل پر تیری حمایت کرنے کی نیز علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں تلوار اٹھانے کی حالانکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلمکا بھائی، وصی، وارث، آپ(ص)کا قرض ادا کرنے والا، آپ(ص) کے وعدوں کو نبھانے والا اور آپ کی بیٹی کا شوہر ہے۔

وصی کا تذکرہ امام علی کے کلام اور استدلال میں

حضرت علی(ع) کا یہ کلام نقل ہواہے :

میں رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھائی اور ان کا وصی ہوں

اہل مصر کے نام حضرت علیعلیہ السلام کے ایک خط کے ضمن میں تحریر ہے :

جان لوکہ ہدایت کا علمبردار امام اورہلاکت و گمراہی کا پرچم دار رہبر برابر نہیں ہوسکتے،  وصی رسول(ص) اور دشمن رسول بھی مساوی نہیں ہوسکتے۔ 17 

حضرت علی(ع) کے خلاف خوارج نے جو استدلال کیاہے اس میں یہ بھی کہاگیاہے:

اس نے وصیت کو ضائع کیا۔

حضرت علی(ع) کے جواب کا ایک حصہ یہ ہے:

رہاتمہارا یہ کہناکہ میں وصی تھالیکن میں نے وصیت کو ضائع کر دیاتو اس کا جواب اللہ کا یہ قول ہے:

وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیَْلًا وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ 18

لوگوں پر لاز م ہے کہ اللہ کے لیے حج بیت اللہ انجام دیں بشرطیکہ ان میں حج پر جانے کی استطاعت ہو اور جو شخص کافر ہوجائے تو جان لے کہ بے شک اللہ تمام عالمین سے بے نیازہے۔

کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ کے اس گھر کی زیارت کے لیے نہ آئے تو یہ گھر کافر ہوجائے گا؟جو شخص اس گھر تک جانے کی استطاعت رکھنے کے باوجود اسے چھوڑ د ے وہ خود کافر ہوجاتاہے۔ پس مجھے چھوڑ کر تم نے کفر اختیار کیا ہے نہ کہ تمہیں چھوڑ کر میں نےالخ۔ 19

وصی کا ذکر حضرت علی(ع)کے خطبات میں

نہج البلاغہ کے خطبہ میں امام(ع) فرماتے ہیں:ا

اے لوگو !گزشتہ انبیاء نے اپنی امتوں کے لیے جو نصیحتیں کی تھیں میں نے تمہارے لیے ان نصیحتوں کے موتی بکھیر دیے ہیں اور (سابقہ) اوصیاء نے بعد والوں کو جو کچھ پہنچایا تھا، میں نے اسے تم تک پہنچایاہے۔

آپ نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایاہے:

مجھے حیرت کیوں نہ ہو ان فرقوں کی خطاؤں پر جنہوں نے اپنے دین کی حجتوں میں اختلاف پیدا کررکھا ہے جو نہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہیں اور نہ وصی کی پیروی کرتے ہیں۔

ایک دوسرے خطبے میں فرماتے ہیں:

اس امت کے کسی فرد کا قیاس آل محمد(ص) پر نہیں کیاجاسکتا۔جن لوگوں پر آل محمد(ص)کے احسانات ہمیشہ جاری رہے ہوں وہ ان کے برابر نہیں ہوسکتے۔ وہ دین کی بنیاد ہیں۔ حق ولایت کی خصوصیات انہی کے لیے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت اور وراثت انہی سے مختص ہے۔ 20

حضرت امام حسن کا خطبہ اور وصی کا ذکر

امام حسن علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار کے قتل کے بعد ایک خطبہ دیا جس میں فرمایا:

میں حسن ابن علی ہوں۔میں وصی کا بیٹاہوں الخ۔ 21

وصیت کا ذکر امام حسین کے خطبے میں

امام حسین نے عاشورہ کے دن یزیدبن معاویہ کے لشکر سے خطاب کیااور اس خطبے میں ان کے خلاف استدلال کرتے ہوئے فرمایا:

میرے نسب کوپہچانو اور دیکھو کہ میں کون ہوں ؟پھر اپنے اندر جھانکو اور اپنی ملامت خود کرو۔ کیاتم لوگوں کے لیے جائز ہے کہ مجھے قتل کرو اور میری حرمت کو پامال کرو؟ کیامیں تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی کا بیٹا نہیں ہوں؟ کیامیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصی کا بیٹانہیں ہوں؟کیامیں اس کے ابن عم، مسلم اول، سب سے پہلے اللہ پر ایمان لانے والے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خدائی پیغام کی سب سے پہلے تصدیق کرنے والے کا بیٹا نہیں ہوں؟کیا سید الشہداء حمزہمیرے باپ کے چچا نہیں تھے؟کیا شہید جعفر طیارذوالجناحین میرے چچا نہیں تھے؟ 22 

اس خطبے سے معلوم ہوا کہ حضرت حسین نے اپنے بابا امام علی(ع)کی جو صفت بیان فرمائی یعنی ان کا وصی رسول(ص) ہونا وہ ان لوگوں کے نزدیک مشہور و معروف تھی جس طرح آپ کے نانا کی نبوت معروف تھی اور جس طرح یہ بات معروف تھی کہ حضرت حمزہ سید الشہداء آپ کے بابا کے چچا تھے اور حضرت جعفر طیار ذوالجناحین آپ کے چچا تھے۔ اسی لیے امام حسین نے اس (وصی ہونے) کا ذکر اپنے نسب کے بیان کے دوران کیااور کسی نے اس بات کو رد نہیں کیا۔

عباسی خلیفہ سفاح کے چچا

عبداللہ بن علی کا وصایت سے استدلال

عباسیوں نے شروع شروع میں آل محمد(ص) کے نام پر امویوں کے خلاف لوگوں کو خروج کی دعوت دی چنانچہ لوگ ابومسلم خراسانی کو امیر آل محمد(ص) کے نام سے پکارتے تھے۔ 23  وہ اپنے دشمنوں کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان احادیث سے استدلال کرتے تھے جن میں حکومت کو آل محمد(ص)کا حق قرار دیاگیاہے لیکن جب حکومت پر ان کا مکمل قبضہ ہوگیا تو انہوں نے آل محمد(ص) سے منہ پھیر لیا۔

جن لوگوں نے وصیت کے ذریعے استدلال کیا ان میں سے ایک پہلے عباسی خلیفہ سفاح کا چچا عبداللہ بن علی ہے۔ اس سلسلے میں علامہ ذہبی نے ابو عمرو اوزاعی سے جو روایت نقل کی ہے اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے :

جب سفاح کا چچا عبداللہ بن علی شام آیا اور اس نے بنی امیہ کو قتل کیا تو اس نے مجھے بلا بھیجا اور کہا:وائے ہوتجھ پر کیایہ حکومت ہمارا شرعی حق نہیں ہے ؟ میں نے کہا:وہ کیسے ؟بولا:کیارسولصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ نے علی(ع) کے لیے وصیت نہیں کی تھی ؟ 24

 حوالہ جات

۱تحقیق کے لئے تاریخ طبری، تاریخ کامل ابن اثیر، البدایہ و النہایہ کی طرف رجوع فرمائیں۔

2 سورة الانعام آیت ۸۶اور سورة ص آیت۴۸

3 قبة الرمان یہودیوں کے ہاں اس خیمے کو کہا جاتا ہے کہ جس میں تاریخی تابوت کو ڈھانپتے ہیں۔

4  تاریخ یعقوبی ج۱ صفحہ ۴۶ طبع بیروت       

5اصحاح۱۰    اصحاح ۲۱آیت ۱۵،۱۸

6 مروج الذہب ج۱ صفحہ ۳۴۳

7 سورہ حشر آیت۷

8 المعجم الکبیر طبرانی ج۶ صفحہ ۱۲۲، مجمع الزوائد ج۹ صفحہ۲۲۳، الریاض النضرة ج۲ صفحہ ۲۳۴

9 مجمع الزوائد ج۸ صفحہ ۲۵۳، ج۹ صفحہ ۱۶۵، کنزالعمال ج۱۲ صفحہ۲۰۴ حدیث نمبر ۱۱۲۳، جمع الجوامع للسیوطی حدیث نمبر ۴۲۶۱ طبع بیروت

10 کنز العمال فصل ثانی فضائل علی بن ابی طالب حدیث نمبر ۱۱۹۲ ج۲ صفحہ۲۰۹۔

11 حلیة الاولیاء ج۱ صفحہ ۶۳

12 الریاض النضرہ ج۲ صفحہ ۲۳۴، تاریخ دمشق ج۱۳ صفحہ ۱۲۳، المحاس و المساوی ج۱ صفحہ ۶۴ مطبوعہ قاہرہ ۱۳۸۰ھ۔

13 کتاب الصیطن نصر بن مزاحم صفحہ ۱۴۵طبع المطبعة المدنی مصر ۱۳۸۲ھ، تاریخ بغداد ج۱۲ صفحہ ۳۰۵ طبع سعودیہ۔

14 تاریخ بعقوبی ج ۲ص۱۷۸

15  وقعة الصفین صفحہ ۱۱۸، ۱۱۹ مطبوعہ قاہرہ، مروج الذہب ج۳ صفحہ ۱۱ طبع بیروت، تاریخ طبری ج۱ صفحہ ۳۲۴۸ طبع یورپ، تاریخ کامل ابن اثیر ج۳ صفحہ ۱۰۸۔

16 مناقب الامام الخوارزمی صفحہ ۱۲۵۔

17 مناقب الامام الخوارزمی صفحہ ۱۴۳، شرح ابن ابی الحدید ج۲ صفحہ ۲۸۔

18 سورہ آل عمران آیت ۹۷    

19تاریخ یعقوبی ج۲ صفحہ ۱۹۶

20 ملاحظہ فرمائیں نہج البلاغہ مع شرح شیخ محمد عبدہ مصری خطبہ نمبر ۸۸، ۱۸۲

21 مستدرک حاکم ج۳ صفحہ ۱۷۲، ذخائر العقبیٰ صفحہ ۱۳۸، مجمع الزوائد ج۹ صفحہ ۱۴۶۔

22 تاریخ طبری ج۲ صفحہ۲ صفحہ ۳۲۹، کامل ابن اثیر ج۴ صفحہ ۵۶، البدایہ والنہایہ ج۸ صفحہ ۱۷۹۔

23 تاریخ یعقوبی ج۲ صفحہ ۳۵۲، التبنیہ والاشراف صفحہ ۲۹۳، تاریخ کامل ابن اثیر ج۵ صفحہ ۱۳۹،۱۴۲،۱۹۴ حوادث سنة ۱۲۹ و ۱۳۰۔

24 تذکرة الحفاظ ج۱ صفحہ ۱۸۱        

 

تبصرے
Loading...