زندگی کے روشن و تاریک پھلو

انسان کی زندگی راحت و تکلیف سے عبارت ھے ۔ ان میں سے ھر ایک انسان کی کوتاہ و محدود زندگی پر سایہ فگن ھے ھر شخص اپنے مقسوم کے مطابق ان دونوں سے دو چار ھوتا ھے اور اسی تلخ حقیقت کے مطابق انسان راحت و الم کے درمیان اپنی پوری زندگی گزار دیتا ھے ۔

انسان کی زندگی راحت و تکلیف سے عبارت ھے ۔ ان میں سے ھر ایک انسان کی کوتاہ و محدود زندگی پر سایہ فگن ھے ھر شخص اپنے مقسوم کے مطابق ان دونوں سے دو چار ھوتا ھے اور اسی تلخ حقیقت کے مطابق انسان راحت و الم کے درمیان اپنی پوری زندگی گزار دیتا ھے ۔

 

یہ تو ھمارے امکان سے باھر کی بات ھے کہ اس ناموس ابدی میں کوئی تغیر کر دیں اور اپنی مرضی کے سانچہ میں اس کو ڈھال لیں ۔ لیکن یہ بھرحال ممکن ھے کہ زندگی کی حقیقت کو جان لینے کے بعد اس زندگی کے خوبصورت موجودات کی طرف اپنی نظروں کو موڑ دیں اور اس کے بد شکل موجودات کی طرف سے اپنی نظروں کو ھٹا لیں ۔ یا اس کے بر عکس اشیاء کے روشن و درخشندہ پھلوؤں کو بھول کر ان کے سیاہ و تیرہ و تار پھلوؤں کی طرف متوجہ ھو جائیں ۔ مختصر لفظوں میں یوں سمجھئے کہ ھر شخص کے پاس اتنی قدرت ھے کہ اپنی فکر کو ان دونوں میں سے کسی ایک طرف مرکوز کر دے ۔ اور اپنی دنیا کو اسی رنگ میں رنگ لے جس کی طرف اس کا میلان ھے ۔

 

ھمارے لئے یہ بھی ضروری ھے کہ ایسی نا ملائم چیزیں جو زندگی کے لئے سدّ راہ بنتی ھوں ان سے مقابلہ کرنے کے لئے اپنی برد باری کو محفوظ کر لیں ۔ ورنہ پھر ھم ایسی خسارتوں سے دو چار ھوں گے جن کا جبران ممکن نہ ھو گا ۔ اور یہ بھی ھو سکتا ھے کہ حادثات کے مقابلہ میں ھم سر نگوں ھو جائیں ۔

 

بعض لوگوں کا خیال ھے کہ اگر زندگی کے حادثات اس طرح نہ ھوتے جیسے کہ ھیں تو ھم سب سعید و نیک بخت ھوتے لیکن یہ تصور غلط ھے کیونکہ ھماری بد بختیوں کا ڈنڈا حادثات زندگی سے نھیں ملتا ۔ بلکہ ھماری شقاوت و بد بختی کا دار مدار حادثات سے کس طرح نمٹنے پر موقوف ھے کیونکہ یہ ممکن ھے کہ عوامل خارجی کے اثرات کو انسان اپنے دل و جان اوراپنی روح کی طاقت سے بدل دے اور اس طرح کسب توفیق کر لے ۔

 

ایک مشھور رائٹر لکھتا ھے : ھمارے افکار کا دار مدار نا راضگی پر ھے ۔ ھم چاھے جس حالت میں ھوں چاھے جس صورت میں ھوں ناراض رھتے ھیں ۔ اور شکوہ بر لب رھتے ھیں ۔ یہ گریہ و رازی شکوہ و شکایت ھمارے خمیر میں ھے ۔ انسانی وجود کی تخلیق کچھ اس طرح ھوئی ھے کہ ھمیشہ روحانی و جسمانی نا مناسب چیزوں سے رنج و عذاب میں گرفتار رھتا ھے ھر روز ایک نئی آرزو کا اسیر رھتا ھے ۔ بلکہ بسا اوقات تو اس کو یہ بھی نھیں معلوم ھوتا کہ کیا چاھتا ھے ؟ اور کس چیز کی تمنا رکھتا ھے انسان خیال کرتا ھے کہ خوش بختی تو دوسروں کے پاس ھے ( میں تو بھت ھی بد بخت ھوں ) لھذا ان سے رشک کرتا ھے اور اپنے کو تکلیف میں مبتلا کرتا ھے ۔ انسانی وجود ایک ایسے بچہ کے مانند ھے جو ھمیشہ سوز و گذار میں مبتلا رھتے ھیں ۔ ھماری آزادی و آسائش صرف اسی صورت میں ممکن ھے جب اس بچہ کو حقیقت کے دیکھنے پر آمادہ کریں ۔ اور اس قسم کی بیھودہ خواھشات سے اس کو روک دیں ۔ اس بچہ کی آنکھیں جو بے حساب خواھشات کی وجہ سے برائی کے علاوہ کچھ بھی نھیں دیکہ پاتیں انکو اچھائیوں کے دیکھنے پرمجبور کریں ۔ اس بچہ کو یہ سمجھ لینا چاھئے کہ اس باغ زندگی میں ھر آنکہ والا اپنے دامن کو پھولوں سے بھر لیتا ھے اور اندھا سوائے کانٹوں کے کچھ بھی نھیں حاصل کر پاتا ۔ اگر ھم اپنی کم حوصلگی و بد گمانی ھی کے راستہ پر نہ چلیں اور نگاہ  تحقیق سے دیکھیں تو ھم کو معلوم ھو گا کہ ھر زمانہ اور ھر عھد میں بلکہ اس زمانہ میں بھی جب کہ دنیا ھولناک گرداب میں پھنس چکی ھے اور ھماری زندگی ھر وقت زیر و زبر رھتی ھے اور ھر وقت اچھائی و برائی سے دو چار ھونا پڑتا ھے ھم باغ زندگی میں ھر جگہ گلھائے زیبا کو چشم بینا سے دیکہ سکتے ھیں ۔

 

انسان کی سعادت و نیک بختی میں اس کے افکار کو کافی دخل ھے بلکہ انسانی سعادت کا اکیلا موٴثر صرف اس کی عقل اور فکر ھے ۔بد گمان شخص کی نظر میں غیر معمولی حادثہ بھت ھی عظیم ھوتا ھے اس کی کمر کو توڑ دیتا ھے بد گمان شخص اس کو برداشت نھیں کر پاتا ۔ لیکن حسن ظن رکھنے والا شخص جو صرف زندگی کے روشن پھلوؤں کو دیکھنے کا عادی ھے اور بدی کی جگہ ھمیشہ نیکی پر عقیدہ رکھتا ھے وہ ان مصائب و آلام کے مقابلہ میں جن سے زندگی میں اجتناب ممکن نھیں ھے سر تسلیم خم کر دیتا ھے ۔ انتھا یہ ھے کہ دشوار ترین مصائب کے وقت بھی وہ مقاومت کرتا ھے اور متانت و برد باری کے راستہ سے خارج نھیں ھوتا ۔

 

جو لوگ یہ خیال کرتے ھیں کہ ان ھی کی ذات بد بختی کا محور ھے وہ اپنی زندگی شکنجوں سے بھری ھوئی اور تاریک گزارتے ھیں ۔ اور ضرورت سے زیادہ حساسیت کی بنا پر مصائب و آلام کے مقابلہ میں اپنی طاقت کو بیکار خرچ کر کے تباہ کر دیتے ھیں ۔ اور دنیا کی ان نعمتوں اور برکتوں سے جو لوگوں کا احاطہ کئے ھوئے ھیں بے خبر و غافل رھتے ھیں۔

 

ایک دانشمند کھتا ھے: دنیا لوگوں کے داتھ وھی برتاؤ کرتی ھے جو لوگ اس کے داتھ کرتے ھیں وہ بالکل برابر کا معاملہ کرتی ھے اگر آپ اس کے سامنے ھنسیں گے تو وہ بھی ھنسے گی ۔ اور اگر آپ اس کے سامنے چیں بہ جبیں ھونگے تو وہ بھی ترش روئی سے پیش آئے گی ۔ اگر آپ فکر کریں گے تو وہ آپ کو مفکرین کی فھرست میں شامل کر دیگی ۔ اگر آپ سچے و رحم دل ھوں گے تو آپ اپنے ارد گرد ایسے لوگوں کو دیکھیں گے جو آپ سے خلوص رکھتے ھونگے آپ سے محبت کرتے ھونگے ۔ آلام و مصائب بظاھر چاھے جتنے تلخ و ناگوار ھوں لیکن روح کو اپنے مخصوص ثمرات دیتے رھتے ھیں ۔ کیونکہ روحانی طاقتیں آلام کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں مزید روشن و متجلی ھوتی ھیں ۔ اور انھیں دار و گیر ، مصائب و آلام فدا کاری و قربانی کے مراحل سے گزرتی ھوئی انسانی کمالات کی چوٹی پر پھونچ جاتی ھیں 

 

رز زرد

بد گمانى کے نقصانات

بد گمانى ايک بھت ھى خطرناک قسم کى روحاني بيمارى ھے اور بھت سى ناکاميابيوں اور ما يوسيوں کا سر چشمہ ھے ۔ يہ ايک ايسي بيمارى ھے جو انسان کى روح کو عذاب و الم ميں مبتلا کر ديتى ھے اور اسکے برے اثرات انسانى شخصيت سے نا قابل محو ھوا کرتے ھيں ۔رنج و غم ھى وہ مرکز احساس ھے جھاں سے ممکن ھے بد گمانى کا آغاز ھوتا ھو اور احساسات و جذبات ميں ايک شديد انقلاب و طوفان کا سبب  بنتا ھو ، بد گمانى کا بيج جو اس راہ گزر سے مزرعھٴ قلب ميں بويا جاتا ھے وہ انسانى افکار و انديشوں پر ناگوار و تلخ اثرات مرتب کرتا ھے ۔جس کا آئينہ روح بد گمانى کے غبار سے کثيف و تاريک ھو چکا ھو اس ميں محض يھى نھيں کہ آفرينش کى خوبياں و زيبا ئياں اجاگر نھيں ھو سکتيں بلکہ سعادت و خوش بختى اپنى صورت بدل کر ملال و نکبت بن کر ظاھر ھوتى ھے اور ايسا شخص کسى بھى شخص کے کردار و افکار کو بے غرض تصور نھيں کر سکتا ۔ اس قسم کے اشخاص کى روحانيت چونکہ منفى ھے اس لئے ان ميں مثبت قوت مقصود ھوتى ھے ۔ اور ايسے لوگ اپنے افکار بد سے اپنے لئے مشکلات پيدا کر ليتے ھيں ۔ اور اپنى طاقت کو ايسے حادثات ميں غور و فکر کر کے بتاہ و بر باد کر ليتے ھيں جن سے شايد ان کا زندگي ميں کبھى سابقہ بھى نہ پڑے ۔

جس طرح حسن ِظن رکھنے والے شخص کى طاقت اس کے اطرافيوں ميں اثر انداز ھوتى ھے اور وہ شخص اپنے آس پاس کے لوگوں کى روح اميد کو طاقت بخشتا ھے اسى طرح بد گمان شخص اپنے آس پاس کے لوگوں کے دلوں ميں رنج و غم کى کاشت کرتا ھے اور لوگوں کے اس چراغ اميد کو خاموش کر ديتا ھے جو زندگى کے پيچ و خم ميں ضو فشاں رھتا ھے ۔

بد گمانى کے برے اثرات صرف روح تک ھى محدود نھيں رھتے بلکہ جسم پر بھى اس کے اثرات مرتب ھوتے ھيں ۔ اس کي بيماريوں کا علاج مشکل ھو جاتا ھے ۔ ايک عظيم طبيب کھتا ھے : جو شخص ھر ايک سے بد گمانى رکھتا ھو اورھر چيز کے بارے ميں غلط نظر يہ رکھتا ھو اس کا علاج کرنا اس سے کھيں زيادہ مشکل ھے جتنا دريا ميں خود کشى کي نيت سے چھلانگ لگانے والے کو بچانا مشکل ھے ۔ جو شخص ناراضگيوں اور ھيجان کے درميان زندگى بسر کرتا ھو اس کو دوا دينا ايسا ھى ھے جيسے کھولتے ھوئے روغن زيتون ميں پانى ڈالنا اس لئے کہ دوا کا اثر مرتب ھونے کے لئے يہ بھي ضرورى ھے کہ روح اعتمادکى مالک ھو اور وہ اپنے سکون فکر کي حفاظت کر سکتا ھو ۔

بد گمان شخص کے اندر کنارہ کشى دوسروں کے داتھ مل جل کر رھنے سے اجتناب کے اثرات با قاعدہ مشاھدہ کئے جا سکتے ھيں اور اسى نا پسنديدہ عادت کے تحت وہ شخص اپنے اندر استعداد ترقى کو کھو بيٹھتا ھے اور اس کا نتيجہ يہ ھوتا ھے کہ وہ ناپسنديدہ زندگى بسر کرنے پر مجبور ھو جاتا ھے ۔ خود کشى کى ايک علت فکر و روح پر بد گمانى کا مسلط ھو جانا بھى ھے اور اس قسم کے نا قابل بخشائش گناہ کا ارتکاب اسى وجہ سے کيا جاتا ھے ۔

اگر آپ اپنے معاشرہ پر نظر ڈاليں تو معلوم ھو گا کہ لوگ جو ايک دوسرے کے بارے ميں گفتگو کيا کرتے ھيں وہ سب بغير مطالعہ بغير غور و فکر اور بد گمانى کى وجہ سے ھوتى ھے ۔ اور اسى کے داتھ داتھ ان کى قوت فيصلہ بھى کمزور ھوتى ھے ليکن پھر بھى صحيح و اطمينان بخش تشخيص سے پھلے اپنا حتمى فيصلہ دے ديتے ھيں ۔  ايسے لوگ بلا تصور کى تصديق کے قائل ھوتے ھيں ۔ کبھى ان کى گفتگو ميں شخصى غرض بھي نماياں ھوتى ھے اور يھى سب سے بڑا وہ عيب ھے جس کى وجہ سے رشتہ الفت و محبت ٹوٹ جاتا ھے ۔ اتحاد قلبى ختم ھو جاتا ايک دوسرے پر اعتماد کا سلسلہ نابود ھو جاتا ھے اوران کے اخلاقيات تباہ و بر باد ھو جاتے ھيں ۔

بھت سى ايسى عداوتيں اور دشمنياں جن کا نقصان افراد و اجتماع کے لئے نا قابل جبران ھوتا ھے وہ ان خلاف واقع بد گمانيوں کي پيدا وار ھوتى ھيں ۔ معاشرے کے مختلف طبقات ميں بد گمانى رخنہ اندازى کرتى ھے ۔ انتھا يہ ھے کہ يہ بد گمانى دانشمندوں اور فلسفيوں کو بھى متاثر کر ديتى ھے ھر قوم و ملت کے مختلف ادوار ميں ايسے دانشمند پيدا ھوئے ھيں کہ اسى بد گمانى کى وجہ سے ان کے طرز تفکر ميں گھرى تاريکى پائى جاتى ھے اور يہ حضرات علم و دانش کے سھارے ھميشہ جامعہ ٴ بشريت کى خدمت کرنے کے بجائے نظام آفرينش ميں نقد و تبصرہ کر کے اسي کى عيب جوئى کرتے رھے ھيں اور اس طرح ان لوگوں نے اپنے مسموم افکار غلط منطق کے ذريعہ معاشرے کى روح کو مسموم بنا ديا ۔ مبادى اخلاق بلکہ مباديٴ عقائد کو بھى مورد ِ استھزا قرار ديا ۔ بعض فلسفيوں ميں بد گماني اتنى شديد ھو گئى تھى کہ انھوں نے انساني آبادى کى بڑھتى ھوئى تعداد اور فقر و فاقہ کے خوف سے وحشت زدہ ھو کر انسانى نسل کو محدود کرنے کے لئے ھر چيز کو جائز قرار دے ديا يھاں تک کہ انسانى آبادى کو کم کرنے کے لئے وحشيانہ قتل و غارتگرى خونريزى کو بھى جائز قرار دے ديا تھا ۔ ظاھر سى بات ھے کہ اگر دنياکے لوگ ان کے زھريلے خيالات پر عمل کرتے تو آج اس روئے زمين پر علم و تمدن کا کوئى وجود بھى نہ ھوتا ۔

انھيں بد گمان فلسفيوں ميں ايک شخص بنام ابو العلاء معرى تھا کہ جس کے تمام تر افکار اسى بد گمانى کے محور پر گھوما کرتے تھے اور وہ زندگى کو عذاب سمجھتا تھا ۔ نسل بشر کو ختم کرنے کے لئے اس نے شادى بياہ پيدائش اولاد کو حرام قرار دے ديا تھا ۔ کھا جاتا ھے کہ جب اس کے مرنے کا وقت قريب آيا تو اس نے وصيت کى کہ ميرے لوح مزار پريہ جملہ کندہ کر ديا جائے :

”يہ قبر ميرے باپ کے ان جرائم ميں سے جو اس نے مجھ پر کئے ھيں ايک نشانى ھے ليکن ميں نے کسى پر کوئى جرم نھيں کيا ھے “۔

 

یاس

 

بد گمانى سے اسلام کا مقابلہ

قرآن مجيد نے بد گمانى کو بھت بڑا شمار کيا ھے اور مسلمانوں کو اس بات سے روکا ھے کہ ايک دوسرے کے بارے ميں بدگمانى کريں ۔ چنانچہ ارشاد ھے : ” ياا يّھا الذين اٰمنوا اجتنبوا کثيرا من الظن ان بعض الظن اثم “ اے ايماندار و! بھت سے گمان (بد ) سے بچے رھو کيونکہ بعض بد گمانى گناہ ھے (۱)

دين اسلام نے لوگوں کو بغير کسى قطعى دليل کے بد گماني کرنے سے روکا ھے ۔ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کا ارشاد ھے : مسلمانوں کى تين چيزيں تم پر حرام ھيں ۱۔خون ۲۔ مال ۳۔ بد گماني۔(۲) جس طرح کسى مدرک و دليل کے بغير کسى کے مال کو دوسرے کى طرف منتقل کرنا غير شرعى ھے اسى طرح لوگوں کے بارے ميں بد گمانى کرنا بھى حرام اور غير شرعى فعل ھے اور اصل قضيہ کے ثابت ھونے سے پھلے کسي کو متھم کرنا جائز نھيں ھے ۔ حضرت على عليہ السلام کا ارشاد ھے :

صرف بد گمانى کى بنا پر کسى کے خلاف حکم لگا دينا نا انصافى ھے ( ۳) حضرت على عليہ السلام نے بد گماني کے نقصانات ، نفسياتى بيمارياں روحانى مفاسد کو بھت جامع و بديع انداز ميں بيان فرمايا ھے :

خبر دار کسى سے بد گمانى نہ کرو کيونکہ بد گمانى عبادت کو فاسد اور گناہ کے بوجہ کو زيادہ کرتى ھے ( ۴)نيک لوگوں سے بد گمانى ان کے حق ميں ظلم و بے انصافى ھے چنانچہ ارشاد مولائے کائنات ھے :

نيک شخص کے بارے ميں بد گمانى بد ترين گناہ اور قبيح ترين ظلم ھے ( ۵) دوستوں سے بد گمانى قطع روابط اور دوستي و الفت کے ختم ھونے کا سبب ھے چنانچہ ارشاد ھے : جس کے دل پر بد گمانى کا غلبہ ھو جاتا ھے اس کے اور اس کے دوستوں کے درميان صفائى کي گنجائش باقى نھيں رھتى ۔( ۶)

بد گماني جس طرح انسان کے اخلاق و زندگى کو بر باد کرتى ھے اسى طرح دوسروں کے اخلاقيات و روح کو خراب کر ديتى ھے ۔ اور يہ بھى ممکن ھے کہ جن لوگوں کے بارے ميں بد گماني کى جائے ان کے اخلاقيات صراط مستقيم سے منحرف ھو جائيں اور وہ لوگ فساد و رذائل ميں مبتلا ھو جائيں جيسا کہ حضرت على عليہ السلام نے فرمايا : بد گمانى بھت سے امور کو فاسد کر ديتى ھے اور برائيوں پر آمادہ کرتى ھے ۔(۷)

ڈاکٹر ماردن کھتا ھے : بھت سے ايسے نوکر ھيں جن کے مالک ان سے ھميشہ بد گمان رھتے ھيں اور خيال کرتے ھيں کہ يہ ملازمين چور ھيں ايسے نوکر آخر کار چورى کرنے لگتے ھيں اور اس قسم کى بد گمانى کا چاھے ھاتہ و زبان سے اظھار بھى نہ کيا جائے پھر بھى وہ اپنى برى تاثير چھوڑتي ھيں اور اس کى روح مسموم ھو جاتى ھے اور اس کو چورى پر ورغلانے لگتى ھے ۔ (۸)

حضرت على عليہ السلام اسى سلسلہ ميں فرماتے ھيں : کھيں تم ( اپنى بيوى سے بد گمانى کى بنا پر ) اپنى غيرت کا اظھار نہ کر بيٹھو کيونکہ يہ بات صحيح آدمى کو برائى پر اور بے گناہ کو گناہ پر آمادہ کرتى ھے ۔ ( ۹)

بد گمانى کرنے والا شخص کبھى اپنے جسم و روح کى سلامتى سے بھى ھاتہ دھو بيٹھتا ھے ۔ جيسا کہ حضرت علي عليہ السلام نے فرمايا : بد گمان شخص کو تندرستى و آرام نصيب نھيں ھوتا ۔ ( ۱۰)

ڈاکٹر مارل اس سلسلہ ميں کھتا ھے : ( انسان کى ) بعض عادتيں اس کى عمر کو کم کر ديتى ھيں مثلا ھر چيز پر تنقيد کى عادت ھر شئى سے بد گمانى کى عادت ! ( عمر کو کم کر ديتى ھے ) کيونکہ يہ منفي نفسياتى عادت ،اعصاب اور داخلى غدود کو متاثر کر ديتى ھے ۔ اور اس کا نتيجہ کبھى عملى اختلال کى صورت ميں اور کبھى جسمانى نقصان کى صورت ميں ظاھر ھوتا ھے ۔ (۱۱) 

ڈاکٹر ماردن کا کھنا ھے: بد گمانى صحت کو خراب کر ديتى ھے ۔ پيدائشى قوتوں کو کمزور کر ديتى ھے اور ايک متوازن روح کسى برائى کا کبھى انتظار نھيں کرتى ۔ مثلا ھميشہ اس کى يھى آرزو رھتى ھے کہ نيکيوں سے روبرو رھے کيونکہ اسے معلوم ھے نيکي ايک حقيقت ابدى ھے اور بد گمانى اچھى طاقتوں کے کمزور کر دينے کے سوا کچھ بھى نھيں ھے ۔ جيسے تاريکى فى نفسہ کوئى مستقل چيز نھيں ھے بلکہ عدم نور کا نام تاريکى ھے ۔ لھذا نور کى تلاش ميں دوڑ و ! نور دل سے تاريکى کو ختم کر ديتا ھے (۱۲)

بد گمان شخص لوگوں سے وحشت کرتا ھے جيسا کہ حضرت على عليہ السلام نے فرمايا : جو حسن ظن نھيں رکھتا وہ ھر ايک سے وحشت کرتا ھے ۔ (۱۳)

ڈاکٹر فارمر کھتا ھے : جس مجلس ميں ھر شخص اپنى راى اور اپنے نظر يہ کو بيان کر رھا ھو اس ميں اگر کوئى شخص صريحى طور سے اپنى فکر و نظر کے اظھار سے ڈرتا ھو اور جو شخص وسيع و چوڑى سڑکوں کو چھوڑ کر تنگ و تاريک گليوں ميں اس خوف سے راستہ چلتا ھو کہ کھيں چوڑى سڑکوں پر يا عمومى تفريح گاھوں ميں اپنے کسى رشتہ دار سے ملاقات نہ ھو جائے ،يہ سب لوگ يا تو واھمہ کے شکار ھيں يا پھر ان کى روح پر بد گمانى مسلط ھے ۔ (۱۴)

بد گمانى کى علتوں ميں سے ايک علت ماضى کى تلخ ياديں بھى ھيں جو انسان کے اندر چھپى ھوتي ھيں اور انسان کو بد گمانى پر آمادہ کرتى ھيں ۔ ايک اردو کا شاعر کھتا ھے 

يادِ ماضى عذاب ھے يا رب

چھين لے مجھ سے حافظہ ميرا

انھيں ماضى کى تلخ يادوں نے شاعر کو اس شعر پر آمادہ کر ديا ۔ حضرت على عليہ السلام کا ارشاد ھے : انسان کے دل کى گھرائيوں ميں ايسى تلخ ياديں اور برائياں پوشيدہ ھيں جن سے عقل فرار کرتى ھے ۔( ۱۵)

ڈاکٹر ھيلن شاختر کھتا ھے : جن لوگوں کو اپنى ذات پر اطمينان و بھروسہ نھيں ھوتا وہ معمولى سے رنج سے متاثر ھو جاتے ھيں اور ان تکليفوں کى ياديں ان کے دلوں ميں غير شعورى طور سے باقى رہ جاتى ھيں جو ان کے افعال و اقوال ، اعمال و افکار کو متاثر کر ديتى ھيں ۔ جس کى وجہ سے وہ لوگ سخت مزاج ، غمگين اور بد گمان ھو جاتے ھيں اور ان کو پتہ نھيں چل پاتا کہ آخر وہ ان روحانى امراض کے کيونکر شکار ھو گئے ۔ کيونکہ تلخ ياديں ھمارے تحت الشعور ميں مخفى رہ جاتى ھيں اور آسانى سے ظاھر نھيں ھوتيں ۔

دوسرے الفاظ ميں يہ عرض کروں کہ انسان فطرتاً اپنى تلخ يادوں سے فرارکرتا ھے ۔ اس کو قطعاً يہ بات پسند نھيں ھوتى کہ ان يادوں کو خزانہ حافظہ سے نکال کر نظروں کے سامنے رکھے ليکن يہ پوشيدہ دشمن اپنى کينہ توزى سے دست کش نھيں ھوتا ۔ ھمارے اخلاق ارواح اعمال کو اپنے حسب منشاء ابھارتا رھتا ھے چنانچہ کبھى ايسا بھى ھوتا ھے کہ اپنے سے اور دوسروں سے ايسے اعمال سر زد ھو جاتے ھيں يا ايسى گفتگوئيں سننے ميں آتى ھيں جو بظاھر بے سبب اور باعث کمال تعجب ھوتى ھيں ليکن اگر ھم ان کى کھوج ميں لگ جائيں تو پتہ چلے گا کہ يہ انھيں تلخ يادوں کى دين ھے جو ھمارے تحت الشعور ميں پوشيدہ تھيں ۔ (۱۶)

پست فطرت لوگ اپنى ذات کو دوسروں کى طبيعتوں کا پيمانہ سمجھتے ھيں اور اپنى برائيوں کاعکس دوسروں ميں ديکھتے ھيں ۔ چنانچہ حضرت على عليہ السلام نے اس سلسلہ ميں نھايت عمدہ بات فرمائى ھے۔آپ ارشاد فرماتے ھيں : بد طينت شخص کسى کے بارے ميں حسن ظن نھيں رکھتاکيونکہ وہ دوسروں کا قياس اپنى ذات پر کرتا ھے ۔ ( ۱۷)

ڈاکٹر مان اپنى کتاب ” اصول علم نفسيات “ ميں کھتا ھے : اپني ذات کے دفاع ميں رد عمل کى ايک قسم يہ بھى ھے کہ سارى برائيوںاور برے خيالات کو دوسروں کے سرتھوپ ديا جائے تاکہ اپنا نفس جو قلق و اضطراب ميں مبتلا ھے اس سے چھٹکارا حاصل کر لے ۔ قياس بر نفس يہ بد ترين قسم ھے اور جب اس قسم کا دفاع اپنے آخرى مرحلہ پر پھونچ جاتا ھے تو پھر وہ شخص نفسياتي مريض ھو جاتا ھے ۔ اس قسم کا دفاع کبھى کسى جرم کا نتيجہ ھوتا ھے ۔ مثلا جب ھم کسى جرم کا ارتکاب کرتے ھيں تو ھمارے اندر يہ احساس جاگ اٹھتا ھے اور ھم اپنے نفس سے دفاع کے لئے اسى قسم کا جرم دوسروں کے لئے ثابت کرنے لگتے ھيں ۔ (۱۸)

حضور سرور کائنات صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم جب مدينہ منورہ پھونچے تو مدينہ  والوں ميں سے ايک شخص پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کى خدمت ميں مشرف ھو کر بولا: اے رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم !يھاں کے لوگ بھت اچھے اور بھت نيک ھيں يہ کتني اچھى اور مناسب بات ھے کہ سرکار يھاں قيام پذير ھوئے ! پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے اس سے فرمايا : تم نے صحيح بات کھى ھے ۔

تھوڑي ھى دير کے بعد ايک دوسرا شخص ( وہ بھى مدينہ ھى کا تھا ) آيا اور اس نے کھا : اے خدا کے رسول صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم !يھاں کے لوگ بھت ھى پست و فرو مايہ ھيں ۔ بڑے افسوس کى بات ھے کہ آپ جيسى عظيم شخصيت ان لوگوں کے درميان ميں سکونت اختيار کرے رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے اس سے بھى فرمايا : تم سچ کھتے ھو !

ايک صحابى بھى وھاں پر تشريف فرماتھے آنحضرت صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کے دو متضاد قولوں پر تصديق کرنے سے بھت متعجب ھوئے اور ان سے رھا نہ گيا پوچہ ھي ليا : حضور صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم آپ نے دونوں کى تصديق کر دى حالانکہ دونوں کے قول متضاد تھے ؟

رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے فرمايا : ان دونوں نے اپنى اپنى ذات پر قياس کرتے ھوئے کھا تھا ۔ جس کے اندر جو صفتيں تھيں اس نے اسى کے مطابق بات کى انھوں نے جيسا تصور کيا ويسا کھا ۔ يعنى ھر ايک کى بات اس کے اعتبار سے سچ تھى ۔

البتہ يہ بات ضرور ذھن ميں رکھنى چاھئے کہ جس بد گمانى سے روکا گيا ھے  وہ انحراف فکرى اور برائى کى طرف ميلان نفس اور اس پر اصرار ھے ۔ اور جو چيز حرام ھے وہ بد گمانى پر اثر مرتب کرنا ھے ۔ ورنہ ھزاروں خيالات جو دل ميں پيدا ھوتے رھتے ھيں اور قلب سے عبور کرتے ھيںاور ان پر کوئى اثر مرتب نھيں کيا جاتا کيونکہ وہ سب غير اختياري ھيں اور ان کو روکنا انسان کى طاقت سے باھر کى چيز ھے لھذا اس کو مورد تکليف نھيں قرار ديا جا سکتا يعني ان سے ممانعت نھيں کى جا سکتى ۔

بھرحال چونکہ بد گمانى کرنے والوں کى تلخ زندگى کا سر چشمہ يھى بد گمانى ھے اس لئے اس بات کى تلاش و جستجو کرنى چاھئے کہ آخر يہ بيمارى کيسے پيدا ھوتى ھے ؟ اور بيمارى کى تشخيص کے بعد اس کے علاج و معالجہ کى طرف توجہ کرنى چاھئے !۔

حوالے

۱۔سورہ حجرات /۱۲

۲۔ترمذى کتاب البرّ باب ۱۸ ، ابن ماجہ کتاب الفتن باب ۲ ، صحيح مسلم کتاب البرّ باب ۳۲ ، مسند احمد ج۲ ص ۲۷۷ و ج ۳ ص ۴۹۱

۳۔نھج البلاغہ مترجم ص ۱۷۴

۴۔غرر الحکم ص ۱۵۴

۵۔غرر الحکم ص ۴۳۶

۶۔غرر الحکم ص ۶۹۸

۷۔غرر الحکم ص ۴۳۳

۸۔پيروزى فکر

۹۔غرر الحکم ص ۱۵۲

۱۰۔غر ر الحکم ص ۸۳۵

۱۱۔راہ رسم زندگى

۱۲۔پيروزى فکر

۱۳۔غرر الحکم ص ۷۱۲

۱۴۔راز خوش بختى

۱۵۔غرر الحکم ص ۲۹

۱۶۔رشد شخصيت

۱۷۔غر ر الحکم ص ۸۰

۱۸۔ اصول روانشناسى

تبصرے
Loading...