زمانۂ غیبت میں وجودِ امام كا فائدہ

حضرت مھدی عجل اللہ فرجہ كی غیبت كا جب تذكرہ ھوتا  ہے تو یہ سوال ذھنوں میں كروٹیں لینے لگتا  ہے كہ امام یا رھبر كا وجود اسی صورت میں مفید اور قابل استفادہ  ہے جب وہ نگا ہوں كے سامنے ھو اور اس سے رابطہ برقرار ھو سكتا ہے لیكن اگر امام نظروں سے غائب ھو، اس تك پہونچنا ممكن نہ ھو، ایسی صورت میں وجود امام سے كیا حاصل …؟

بعض كے لئے ھو سكتا  ہے كہ یہ سوال نیا معلوم ھو اور كسی “دانشمند” ذھن كی اُپج معلوم ھو مگر خوش قسمتی یا بد قسمتی سے یہ سوال بہت پرانا  ہے۔ یہ سوال حضرت مھدی (عج) كی ولادت سے پہلے كیا جا چكا ہے كیونكہ جب حضرت مھدی (عج) اور ان كی غیبت كے بارے میں رسول خدا (ص) یا ائمہ علیہم السلام بیان فرماتے تهے اس وقت بعض لوگ یہی سوال كرتے تهے۔

احادیث میں اس سوال كا جواب متعدد انداز سے دیا گیا  ہے۔ اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم كی ایك حدیث قابلِ غور  ہے۔ آنحضرت (ص) نے زمانہ غیبت میں حضرت مھدی (عج) كے وجود كا فائدہ بیان كرتے ھوئے ارشاد فرمایا:

ای والذی بعثنی بالنبوة انھم ینتفعون بنور ولایتہ فی غیبتہ كانتفاع الناس بالشمس وان جللھا السحاب”

قسم  ہے اس ذات اقدس كی جس نے مج ہے نبوت پر مبعوث فرمایا، لوگ ان كے نورِ ولایت سے اس طرح فائدہ اٹھائیں گے جس طرح لوگ سورج سے اس وقت استفادہ كرتے  ہیں  جب وہ بادلوں كی اوٹ میں ھوتا  ہے۔”

اس حدیث كو بہتر طریقے سے سمجھنے كے لئے یہ ضروری  ہے كہ ھم پہلے یہ سمج ہیں  كہ نظام كائنات میں آفتاب كیا كردار ادا كرتا  ہے۔

آفتاب دو طرح اپنا نور پھیلاتا  ہے ایك بلا واسطہ اور دوسرے بالواسطہ۔ دوسرے لفظوں میں ایك واضح اور دوسرے پوشیدہ۔

جس وقت آفتاب بلا واسطہ اور واضح نور پھیلاتا  ہے، اس وقت اس كی شعاعیں دكھائی دیتی  ہیں ۔ یہ درست ہے كہ زمین كے گرد ھوا كی دبیز چادر شعاعوں كی حرارت میں كمی كر دیتی  ہے اور ان كے زھریلے اثرات كو ختم كرتی ہے۔ لیكن ھوا كی یہ دبیز چادر آفتاب كو بلا واسطہ نور پھیلانے سے نہیں روكتی۔

لیكن بالواسطہ اور بطور مخفی نور افشانی كی صورت میں بادل آفتاب كے چہرے كو چھپا لیتا  ہے اس صورت میں روشنی تو ضرور نظر آتی  ہے مگر آفتاب دكھائی نہیں دیتا۔

اس كے علاوہ آفتاب كا نور اور اس كی شعاعیں نظام كائنات میں اھم كردار ادا كرتی  ہیں  یہ نور اور شعاعیں، زندہ چیزوں كا رشد و نمو، غذا اور بقائے نسل، حس و حركت، خشك زمینوں كی آبیاری، دریا كی موجوں كا جوش و خروش، نسیم سحر كی اٹكھیلیاں، پژمردگی كو حیات نو عطا كرنے والی بارش، آبشاروں كے نغمے، مرغانِ چمن كی خوش الحانیاں، پھولوں كی نزاكت اور طراوٹ، انسان كی رگوں میں خون كی گردش اور دل كی دھڑكن، ذھنِ بشر میں فكر كی جولانیاں،

طفلِ شیر خوار كی طرح كیوں كی مسكراھٹ۔

یہ ساری كرشمہ سازی آفتاب كے نور اور اس كی شعاعوں كی بدولت  ہے۔ اگر لمحہ بھر بھی زمین كا رشتہ آفتاب سے منقطع ھو جائے تو پھر نور پر ظلمتوں كا راج ھوجائے اور نظام كائنات درھم برھم ھو جائے۔

ہاں ایك سوال كیا جا سكتا  ہے۔ یہ ساری باتیں صرف اس صورت میں  ہیں  جب آفتاب بلا واسطہ نور پھیلا رھا ھو۔؟

ھر شخص نفی میں جواب دے گا۔ جب آفتاب كا نور بالواسطہ زمین تك پہونچ رھا ھو اس وقت بھی آثار حیات باقی رھتے  ہیں۔ بالواسطہ نور افشانی كی صورت میں صرف وھی آثار ختم ھوتے  ہیں  جن كا تعلق بلا واسطہ نور افشانی سے ھوتا ہے، بالواسطہ نور افشانی میں وہ جراثیم ضرور پھیل جاتے  ہیں  جن كے حق میں بلا واسطہ نور افشانی زھر ھلاھل  ہے۔

اب تك بادلوں كی اوٹ میں آفتاب كے اثرات كا تذكرہ تھا۔ اب ذرا یہ دیك ہیں، كہ غیبت كے زمانے میں دینی رھبروں كے فوائد كیا  ہیں  اور اس كے اثرات كیا  ہیں ۔

تبصرے
Loading...