روز عاشورہ امام حسین علیہ السلام کا پہلا خطبہ

روزہ عاشورہ جب فوج آپ سے نزدیک ہونے لگی تو آپ نے اپنا ناقہ منگوایا اور اس پر سوار ہو کر لشکر میں آئے اور با آواز بلند اس طرح تقریر شروع کی جسے اکثر وبیشتر لوگ سن رہے تھے : ’’أیھا الناس ! اسمعو ا قولي ولاتعجلو ني حتی أعظکم بما یحق لکم عليّ وحتی

روزہ عاشورہ جب فوج آپ سے نزدیک ہونے لگی تو آپ نے اپنا ناقہ منگوایا اور اس پر سوار ہو کر لشکر میں آئے اور با آواز بلند اس طرح تقریر شروع کی جسے اکثر وبیشتر لوگ سن رہے تھے :

 ’’أیھا الناس ! اسمعو ا قولي ولاتعجلو ني حتی أعظکم بما یحق لکم عليّ وحتی أعتذر لکم من مقدمي الیکم ، فان قبلتم عذري وصدقتم قولي وأعطتیتمو ني النصف ، کنتم بذالک أسعد ولم یکن لکم عليّ سبیل ، وان لم تقبلوا منّي العذرولم تعطوا النصف من أنفسکم فَاَجْمَعْوْا أمْرَ کْمْ وَشْرَکَا ءَ کْمْ ثْمَّ لَا ےْکْنْ اَمْرَکْمْ عَلَےْکْمْ غْمَّۃ ثْمَّ اقْضْوْا اِلَيَّ وَلَا تُنْظِرُوْنَ[1] اِنَّ وَلِيَّ اللّہُ الَّذِیْ نَزّلَ الْکِتَابَ وَھْوْ ےَتَوَلََّی الصَّا لِحِےْنَ[2]‘‘ ایھا الناس ! میری بات، سنو جلدی نہ کرو !یہاں تک کہ میں تم کو اس حد تک نصیحت کردوں جو مجھ پر تمہارا حق ہے، یعنی تمہیں بے خبر نہ رہنے دوں اور حقیقت حال سے مطلع کر دوں تاکہ حجت تمام ہوجائے۔میں چاہتا ہوں کہ تمارے سامنے اپنا عذر پیش کردوں کہ میں کیوں آیا ہوں اور تمہارے شہر کا رخ کیوں کیا ۔ اگر تم نے میرے عذر کو قبول کرلیا اور میرے کہے کی تصدیق کر کے میری بات مان لی اور میرے ساتھ انصاف کیاتو یہ تمہارے لئے خوش قسمتی ہوگی اور اگر تم نے میرے عذرکو نہ مانااور انصاف کرنانہ چاہا تو مجھ کو کوئی پروا نہیں ہے۔

تم اور جس جس کو چاہو تمام جماعت کو اپنے ساتھ متفق کرلو اور میری مخالفت پر ہم آہنگ ہوجاؤ پھر دیکھو کوئی حسرت تمہارے دل میں نہ رہ جائے اور پوری طاقت سے میرا خاتمہ کردو، مجھے ایک لحظہ کے لئے بھی مہلت نہ دو۔میرا بھروسہ تو بس خدا پر ہے جس نے کتاب نازل فرمائی ہے اور وہی صالحین کا مددگار ہے ۔ یہ وہ دلسوز تقریر تھی جسے سن کر مخدرات کا دامن صبر لبریز ہوگیا اور آپ کی بہنیں نالہ و شیون کرنے لگیں ؛اسی طرح آپ کی صاحبزادیاں بھی آنسوبہانے لگیں۔جب رونے کی آواز آئی تو آپ نے اپنے بھائی عباس بن علی علیھما السلام اور اپنے فرزند جناب علی اکبر کو ان لوگوں کے پاس روانہ کیا اور ان دونوں سے فرمایا : جاؤ ان لوگوں کو چپ کراؤ!قسم ہے میری جان کی انھیں ابھی بہت زیادہ آنسوبہاناہے ۔ جب وہ مخدرات خاموش ہوگئیں تو آپ نے حمد و ثنائے الہٰی اور خدا کا تذکرہ اسطرح کیا جس کا وہ اہل تھا پھر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود و سلام بھیجا ، خدا کے ملائکہ اور اس کے پیغمبر وں پر بھی درود و سلام بھیجا۔ ( اس کے بعد بحر ذخار فصاحت و بلاغت میں ایسا تموج آیا کہ راوی کہتا ہے ) خدا کی قسم !اس دن سے پہلے اور اس دن کے بعد میں نے حضرت کے مانند فصیح البیان مقرر نہیں دیکھا ۔ اس کے بعد امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : ’’ اما بعد : فانسبونی فا نظر وا من أنا ؟ ثم ارجعو ا الی أنفسکم وعا تبوھا فأ نظروا ھل یحل لکم قتلي وانتھاک حرمتي؟ ألست ابن بنت نبیکم صلی اللّہ علیہ (و آلہ ) وسلّم وابن وصیّہ وابن عمّہ وأوّل المؤمنین باللّہ والمصدّق لرسولہ بما جاء بہ من عند ربہ ، أو لیس حمزۃ سید الشھداء عم ابي ؟ أو لیس جعفر الشھید الطیار ذوالجناحین عمي ؟! أولم یبلغکم قول مستفیض فیکم : أن رسول اللّہ صلّی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم قال لی و أخی : ’’ ھذان سیّدا شباب أھل الجنّۃ ‘‘ ؟ فان صدّقتمونی بماأقول ، فھو الحق فو اللّٰہ ما تعمّدت کذباً مذعلمت أن اللّٰہ یمقت علیہ أھلہ و یضر بہ من ا ختلقہ… وان کذبتمونی فانّ فیکم من ان سالتموہ عن ذالک أخبرکم سلوا جابر بن عبداللّہ الانصاری[3] أو ابا سعید الخدری[4] أو سھل بن سعد الساعدی[5] أو زید بن ارقم[6] أوانس بن مالک[7] یخبروکم : انھم سمعوا ھٰذہ المقالۃ من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم لي ولا خي ، أفما فی ھٰذا حاجز لکم عن سفک دمي ؟‘‘

تم ذرا میرا نسب بیان کرو اوریکھو کہ میں کون ہوں ؟ پھر خود اپنے نفسوں کی طرف رجوع کرو، اپنے گریبان میں منہ ڈالوا ور خود اپنے آپ سے جواب طلب کرو اور غور کرو کہ تمہارے لئے میرا خون بہانا اور میری ہتک حرمت کرناکہاں تک جائز ہے ؟ کیا میں تمہارے نبی کا نواسہ نہیں ہوں ؟ اور آپ کے وصی ، آپ کے چچا زاد بھائی ، ان پر سب سے پہلے ایمان لانے والے اور ہر اس چیز کی تصدیق کرنے والے جو خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے کا فرزند نہیں ہوں ؟ کیا حمزہ سید الشہداء میرے باپ کے چچا نہیں ہیں ؟ کیا جعفر طیار جنہیں شہادت کے بعدخدا نے دو پر پرواز عطا کئے ،میرے چچا نہیں ہیں ؟ کیا یہ حدیث تمہارے گوش زد نہیں ہوئی جو زبان زد خلائق ہے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا : یہ دونوں جوانان جنت کے سردار ہیں۔

اب اگر تم مجھے سچا سمجھتے ہو اور میری بات کو سچ جانتے ہو کہ حقیقتاًیہ بات سچی ہے کیونکہ خدا کی قسم جب سے مجھے معلوم ہوا کہ جھوٹ بولنے پر اللہ عذاب نازل کرتاہے اور ساختہ اور پرداختہ باتیں کرنے والا ضرر و نقصان اٹھاتا ہے اسی وقت سے میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا؛اور اگر تم مجھے جھٹلاتے ہو تو اسلامی دنیا میں ابھی ایسے افراد موجود ہیں کہ اگر تم ان سے دریافت کرو تو وہ تم کو بتلائیں گے؛تم جابر بن عبداللہ انصاری ، ابو سعید خدری، سہل بن سعد ساعدی، زید بن ارقم ، یا انس بن مالک سے پوچھ لو، وہ تمہیں بتائیں گے کہ انھوں نے اس حدیث کو رسول اللہؐ سے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں سنا ہے۔کیا رسالتمآبؐ کی یہ حدیث تم کو میری خونریزی سے روکنے کے لئے کافی نہیں ہے؟ جب تقریر یہاں تک پہنچی تو شمر بن ذی الجوشن بیچ میں بول پڑا :’’ ھو یعبد اللّٰہ علی حرف ان کان یدري ما تقول[8]!‘‘ اگر کوئی یہ درک کرلے کہ تم کیا کہہ ر ہے تو اس نے خدا کی ایک پہلو میں عبادت کی ہے ۔شمر کے یہ جسارت آمیز کلمات سن کر حبیب بن مظاہر رطب اللسان ہوئے : ’’واللّٰہ اني لاراک تعبد اللہ علی سبعین حرفا و أنا أشھد أنک صادق ما تدري ما یقول قد طبع اللّٰہ علی قلبک‘‘خدا کی قسم میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ تو خدا کی ستر(۷۰) حرفوں اور تمام جوانب میں عبادت کرتا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تو سچ کہہ رہاہے کہ تو نہیں سمجھ پارہاہے وہ کیا کہہ رہے ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ خدانے تیرے قلب پر مہر لگادی ہے ۔ اس کے بعد امام حسین علیہ السلام نے اپنی تقریر پھر شروع کی :’’ فان کنتم في شک من ھٰذا القول أفتشکون أثراً بعد؟ أما اني ابن بنت نبیکم فواللّٰہ مابین المشرق والمغرب ابن بنت نبّي غیري منکم ولا من غیرکم ، انا ابن بنت نبیکم خا صۃ۔‘‘’ أاخبروني أتطلبوني بقتیل منکم قتلتہ ؟ أو مال استھلکتہ أو بقصاص من جراحۃ ؟ فأ خذوا لا یکلّمونہ … ‘‘فنادی : یا شبث بن رِبعی ویا حجّار بن ابجَر و یا قیس بن الاشعث ویا یزید بن الحارث[9] ألم تکتبوا اِليَّ : أن قد أینعت الثمار و اخضرّ الجناب و طمّت الجمام وانما تقدم علی جند لک مجند فا قبل ؟!قالوا لہ : لم نفعل [10]! فقال : سبحان اللّٰہ !بلیٰ واللّہ لقد فعلتم،ثم قال : ایھاالناس ! اذاکرھتموني فد عونيأنصرف عنکم الیٰ مامنيمن الارض۔ فقال لہ قیس بن اشعث : أولا تنزل علی حکم بني عمّک ! فانھم لن یروک الاما تحب ولن یصل الیک منھم مکروہ! فقال الحسین علیہ السلام :أنت اخوأخیک[محمد بن اشعث ] أتریدأن یطلبک بنو ھاشم بأکثر من دم مسلم بن عقیل ؟ لا واللّٰہ لا أعطیھم بیدياعطاءالذلیل ولا أقرّ ا قرار العبید[11]! عباداللّہ ’’وَاِنِّيْ عْذْتْ بِرَبِّیْ وَ رَبِّکُمْ اَنْ تَرْجُمُوْنَ[12] أعُوذُبِرَبِّی وَرَبِّکُمْ مِنْ کُلِّ مُتَکَبِّرٍ لا ےُوْمِنُ بِےَوْمِ الْحِسَاب‘‘اور اگر تمہیں رسول ؐکی حدیث میں شک ہے تو کیا اس میں بھی شک ہے کہ میں تمہارے نبی کا نوسہ ہوں ؟ خدا کی قسم مشرق و مغرب میں میرے سوا کوئی نبی کا نواسہ نہیں ہے،فقط میں ہی ہوں جو تمہارے نبی کا نواسہ ہوں۔ذرا بتاؤ تو سہی میرے قتل پر کیوں آمادہ ہو ؟ کیا اپنے کسی مقتول کا بدلہ لے رہے ہو جو میرے ہاتھوں قتل ہوا ہے یا اپنے کسی مال کا مطالبہ رکھتے ہو جسے میں نے تلف کردیا ہے ؟ یا کسی زخم کا قصاص چاہتے ہو ؟لشکر پر خا موشی چھائی تھی، کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، پھر حضرت نے خاص طور پر لوگوں کو آواز دی : اے شبث بن ربعی ، اے حجار بن ابجر ، اے قیس بن اشعث اور اے یزید بن حارث کیا تم لوگوں نے مجھے یہ نہیں لکھا تھا کہ میوے پختہ اور رسیدہ ہیں ، کھیتیاں لہلہارہی ہیں ، چشمے پُر آب اور لشکر آپ کی مدد کے لئے تیار ہیں، آپ چلے آئیے ؟ ان سب نے امام علیہ السلام کو جواب دیا : ہم نے تو ایسا کچھ بھی نہیں لکھا تھا ، توامام علیہ السلام نے فرمایا : سبحان اللہ ! کیوں نہیں خدا کی قسم تم لوگوں نے لکھا تھا اور ضرور لکھا تھا؛پھر عام لشکر کی طرف مخاطب ہوکر گویا ہوئے : جب تمہیں میرا آنا ناگوار ہے تو مجھے واپس ایسی جگہ چلے جانے دو جہاں امن وامان کے ساتھ زندگی گذار سکوں ۔ یہ سن کر قیس بن اشعث بولا : آپ اپنے چچا زادبھائیوں کے حکم کے آ گے سر تسلیم کیوں خم نہیں کردیتے ۔وہ لوگ ہرگز آپ کے ساتھ کچھ بھی نہیں کریں گے مگر یہ کہ وہی جو آپ کوپسند ہوگا اور ان کی جانب سے آپ کو کوئی ناپسندامر نہیں دکھائی دے گا ۔

امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا : تو اپنے بھائی ( محمد بن اشعث ) کا بھائی ہے ؛کیا توچاہتا ہے کہ بنی ہاشم ،مسلم بن عقیل کے علاوہ مزید خون کے تجھ سے طلبگار ہوں ؟ خدا کی قسم ایسا تو نہ ہوگا کہ میں ذلت کے ساتھ خود کو اس کے سپرد کردوں اور غلامانہ زندگی کااپنے لئے اقرار کرلوں۔ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میرے دامن پر کوئی دھبہ رہے۔ میں پناہ مانگتا ہوں اس جابر و سرکش سے جو روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتا ۔ اس کے بعد آپ پلٹ آئے اور اپنے ناقہ کو بٹھادیا اور عقبہ بن سمعان کو حکم دیا کہ اسے زانو بند لگادے[13]۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] سورہ یونس ،آیت ۷۱

[2] سورہ اعراف، آیت ۱۹۶

[3] امیرا لمومنین علیہ السلام کی شہادت سے پہلے ۴۰ ھ ؁ میں بسر بن ارطاۃ کے ہاتھوں پر معاویہ کی بیعت کرنے سے آپ نے انکار کردیا تھا اور کہا تھاکہ یہ گمراہی کی بیعت ہے۔ یہاں تک کہ بسر بن ارطاہ نے آپ کو بیعت کرنے پر مجبورکیا تو جان کے خوف سے آپ نے بیعت کر لی۔ ( طبری ، ج۵، ص ۱۳۹ ) ۵۰ھ ؁ میں جب معاویہ نے حج کی انجام دہی کے بعدرسول کا منبر اور عصا مدینہ سے شام منتقل کرنا چاہا تو آپ نے اسے اس فعل سے روکا اور وہ رک گیا۔ ( طبری، ج۵،ص ۲۳۹ ) ۷۴ھ ؁ میں جب عبدا لملک کی جانب سے ’’حجاج‘‘ مدینہ آیا تواس نے اصحاب رسول کی توہین اور سر کوبی کرناشروع کردی اور انھیں زنجیروں میں جکڑ دیا۔ انہیں میں سے ایک جابر بھی تھے ۔

[4] رسوالخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ احد میں اپنے اصحاب کو میدان جنگ کی طرف لے جاتے وقت آپ کو بچپنے کی وجہ سے لوٹادیا تھا۔ (طبری، ج۲، ص ۵۰۵ ) آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت علی علیہ السلام کی شان میں حدیثیں نقل کیا کرتے تھے ( طبری،ج۳ ،ص ۱۴۹)لیکن عثمان کے قتل کے بعد ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے حضرت علی علیہ السلام کی بیعت سے انکار کیا تھا۔ یہ عثمانی مذہب تھے۔ (طبری ، ج۴،ص ۴۳۰)

[5] یہ بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت علی علیہ السلام کی شان میں حدیثیں نقل کیا کرتے تھے۔ ( طبری ج ،۳،ص ۴۱۹) انھوں نے ہی روایت کی ہے کہ بصرہ کے فتنہ میں عایشہ نے پہلے عثمان بن حنیف کے قتل کا حکم دیا پھر قید کرنے کا حکم دیا ۔( طبری، ج ۴،ص ۴۶۸) یہ علی علیہ السلام کی ر وایتوں کو بیان کر تے ہیں۔ ( طبری ،ج۴ ،ص ۵۴۷) ۷۴ھ ؁ میں عبدالملک کی جانب سے ’’حجاج‘‘ جب مدینہ میں وارد ہوا تو اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین اور سر کوبی کی اور انہیں زنجیروں میں جکڑ دیا ۔ ان بلا وں اور مصیبتوں میں گرفتار ہونے والوں میں ایک سھل بن سعد بھی تھے۔ ان لوگوں پر حجاج نے عثمان کا ساتھ نہ دینے کی تہمت لگائی تھی ۔( طبری ،ج ۶،ص ۱۹۵)

[6] یہ بھی علی علیہ السلام کے فضائل میں روایتیں نقل کیا کرتے تھے۔ ( طبری، ج۲،ص۳۱) آپ ہی وہ ہیں جنہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عبداللہ بن ابی بن سلول منافق کی باتوں کی خبر دی تھی ۔(طبری ،ج۲،ص۶۰۵ ) زید بن ارقم ہی نے ابن زیاد پر اعتراض کیا تھا اور ابو عبداللہ علیہ السلام کے دو لبوں پر چھڑی مارنے سے منع کیا تھا۔ ( طبری ،ج ۵ ،ص ۴۵۶ ) الاعلام ،ج ۴، ص ۱۸۸ کے بیان کے مطابق ۶۸ھ ؁ میں وفات پائی ۔

[7] جب ۱۷ھ ؁میں عمر نے ابو موسی اشعری کو بصرہ کا گورنر بنایا تو انس بن مالک سے مدد طلب کی (طبری ج۴ ص ۷۱ ) اور شوستر کی فتح میں اس کو شریک کیا ۔(طبری ،ج۴، ص ۸۶ ) ۳۵ھ ؁ میں یہ بصرہ میں لوگوں کو عثمان کی مدد کے لئے بر انگیختہ کررہے تھے۔( طبری، ج۴ ،ص ۳۵۲) ان کا شمار انہی لوگوں میں ہوتاہے جن سے ۴۵ھ ؁ میں زیاد بن ابیہ نے بصرہ میں مدد طلب کی تھی۔ (طبری ،ج ۵، ص ۲۲۴) عاشورا کے دن یہ بصرہ میں تھے۔ . ۶۴ھ ؁ میں ابن زیاد کی ہلاکت کے بعد ابن زبیر نے ان کو بصرہ کاامیر بنادیا تو انہوں نے ۴۰؍ دنوں تک نماز پڑھائی (طبری ،ج۵،ص ۵۲۸) اور ۶۴ ھ ؁میں جب عبد الملک کی جانب سے ’’حجاج ‘‘مدینہ آیا اور اصحاب رسول خدا کی سر کوبی اور توہین کرنے لگا اور انہیں زنجیروں میں جکڑنے لگا تو انس کی گردن میں زنجیر ڈالی، اس طرح وہ چاہتا تھا کہ ان کو ذلیل کرے اور اس کا انتقام لے کہ اس نے ابن زبیر کی ولایت کیوں قبول کی تھی۔ ( طبری ،ج ۶، ص ۱۹۵ )

[8] سبط بن جوزی نے ص ۲۵۲ ،طبع نجف میں اس روایت کو نقل کیا ہے۔

[9]ان لوگوں کے حالات وہاں گزر چکے ہیں جہاں یہ بیان کیا گیا کہ اہل کوفہ نے امام کو خط لکھا اور یہ اس گروہ کے منافقین میں سے تھے ۔

[10] شیخ مفیدؒ نے ارشاد کے ص ۲۳۵ پرا ور ابن نما نے مثیرالاحزا ن کے ص ۲۶ پر’’ ولا افرفرار العبید‘‘ لکھا ہے ۔مقرم نے اپنے مقتل ص ۲۸۰ پر اسی کو ترجیح دی ہے لیکن ابن اشعث کے جواب میں اقرار زیادہ مناسب ہے، نہ کہ فرار کیونکہ ابن اشعث نے آپ کے سامنے فرار کی پیشکش نہیں کی تھی بلکہ اقرار کی گزارش کررہا تھا۔مقرم نے اپنے قول کی دلیل کے لئے’’ مصقلہ بن ہبیرہ‘‘ کے سلسلے میں امیرالمومنین کا جملہ : وفرّ فرار العبد ( وہ غلام کی طرح بھاگ گیا ) پیش کیا ہے لیکن مصقلہ کا فعل امام حسین علیہ السلام کے احوال سے متناسب نہیں ہے جیسا کہ یہ واضح ہے۔

[11] دخان ؍ آیت ۲۰

[12] سورۂ مومن آیت۲۷

[13] طبری ،ج۵ ،ص ۴۲۳، ۴۲۶،ابومخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے عبداللہ بن عاصم نے یہ روایت نقل کی ہے اور ابن عا صم کا بیان ہے کہ مجھ سے ضحاک مشرقی نے یہ روایت بیان کی ہے ۔

تبصرے
Loading...