رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی مظلومیت

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | جب  ذات واجب نے چاہا کہ اسے پہچانا جاے تو اس نے اپنے نور سے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ کے نور کو خلق کیا، اور اپنے حبیب کی محبت میں جملہ ممکنات کو لباس وجود عطا فرمایا اگرچہ خود حبیب کا وجود ممکن تھا لیکن یہ ممکن الوجود اس ذات واجب کے کمالات و فضائل کا مظہر ہے کہ آپ کی رحمت رحمت رحمن کی طرح عالمین پر محیط اور آپ کی شفاعت حتی انبیاء ومرسلین (علیھم السلام) کو بھی شامل ہے کہ جس طرح آپ کی رسالت و نبوت کے اقرار کے بغیر انکو رسالت و نبوت نہ ملی اسی طرح آخرت میں وہ آپ کی شفاعت کے نیاز مند ہوں گے۔ اللہ تبارک و تعالی نے تمام فضائل و کمالات نہ فقط آپ کو عطا فرمائے بلکہ آپ کے اہلبیت علیھم السلام کو بھی انہیں فضائل و کمالات سے آراستہ کیا کہ کائنات میں نہ آپ کی کوئی نظیر ہے اور نہ آپ کے اہلبیت کی کوئی مثال ہے۔ “لا یقاس بہ احد”

نہ صرف آپ کی ذات بلکہ آپ کے ذکر کو بھی اللہ نے وہ رفعت عطا فرمائی کہ شہادت کی چودہ سو برس گذرنے کے بعد بھی آج آپ کا ذکر افلاک پر چھایا ہے کہ اہل نظر کے مطابق 24 گھنٹے میں کوئی ایسا لمحہ نہیں جب اس کرہ خاکی پر کہیں نہ کہیں اذان نہ ہو۔ اور اذان میں جہاں اللہ کی کبریائی اور اسکی توحید کی گواہی ہے وہیں آپ کی رسالت کی شہادت ہے۔ 

مشہور دانشور “بو علی سینا” اپنے شاگرد کے ہمراہ موسم سرما میں ایک بند کمرے میں انگیٹھی کے پاس لیٹے ہیں۔ یہ خاص شاگرد جو استاد کے علم و کمال کا معترف و مقر ہے استاد کی خدمت میں عرض کرتا ہے کہ آپ رسالت کا دعوی کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ شاگرد کے کلام کو سن کر بو علی سینا نے کہا کہ مجھےپیاس لگی ہے پانی لاو تو شاگرد نے یہ کہتے  ہوئے عذر کیا کہ  ’’استاد باہر شدید برف باری  ہو رہی ہے اس وقت پانی لا نا ممکن نہیں۔‘‘  تھوڑی دیر نہ گذری تھی کہ اذان کا وقت ہوا موذن کی صداے اذان سے فضا گونج اٹھی تو بو علی سینا نے اپنے شاگرد سے کہا کہ “رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کو گذرے صدیاں بیت گئیں لیکن آپ کے حکم کے مطابق آج بھی اذان دی جارہی ہے۔ جب کہ میں ابھی تمہارے سامنے موجود ہوں اور تمہیں پانی لانے کا حکم دیا تو تم نے موسم کا بہانہ کر دیا تو میں کیسے اتنا بڑا دعوی کر سکتا ہوں۔ بو علی سینا جیسے عظیم دانشور و حکیم کی اس بات سے جہاں انکی عاجزی ظاہر ہوئی وہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی عظمت بھی عیاں ہوئی۔ 

ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ اس عظیم ذات کی سنت و سیرت کہ جس میں دو جہاں کی سعادت ہے کم از کم عالم اسلام اس پرعمل پیرا ہوتا اور اسے دنیا کے سامنے پیش کرتا تا کہ غیر مسلم کو آپ کی شخصیت کے سلسلہ میں کوئی شکوہ شکایت اور شبھہ نہ رہ جاتا لیکن افسوس صد افسوس دنیوی بادشاہوں، کشور کشاووں اور دین کے نام نہاد ٹھیکہ داروں کی سیاہ تاریخ کہ جس پر انسانیت گریہ کناں اور آدمیت نوحہ گر ہے اسے آپ کی سنت و سیرت بتا کر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ صحیح علم نہ ہونے کے باعث اکثر توہین آمیز حرکتیں انجام پا رہی ہیں۔ جیسے دور حاضر میں فرانس میں توہین آمیز کارٹون بنایا گیا۔

لیکن اگر حقیقی سنت و سیرت پیش کی جاتی تو شاید یہ شرمناک حرکتیں رو نما نہ ہوتیں۔ آج دیڑھ سے دو ارب مسلمان اس دنیا میں رہتے ہیں اور دنیا کے ۵۷ سے ۶۰ ممالک میں مسلمانوں کی حکومت ہے لیکن اس کےباوجود نہ تو آپ کے صحیح فضائل و کمالات دنیا کے سامنے پیش ہو ئے اور نہ ہی حقیقی سنت و سیرت۔ حد تو یہ ہے کہ آپ کے مصائب ومظلومیت بھی نہیں بیان ہو سکتی خصوصا آپ کی حیات طیبہ کے آخری ایام میں آپ کو جن مشکلات سے گذرنا پڑا اور جن نافرمانیوں کو برداشت کرتے ہوئے آپ اس دنیا سے رخصت ہو گئے اسے بھی بیان کرنے میں ایک مسلمان مصلحت نہیں سمجھتا اگر چہ وہ تمام باتیں بلا تفریق فرق و مذاہب کتابوں میں موجود ہےحتی اہل سنت نے صحاح ستہ اور اہل تشیع نے کتب اربعہ میں نقل کیا لیکن اس کے باوجود ان مصائب کا بیان کرنا ایک نئے محاذ کو تیار کرنے کے مترادف ہے ۔  

کیا یہ بیان کرنا ممکن ہے کہ آپ نے اپنے آخری ایام میں ایک جوان کی سرداری میں لشکر روانہ کیا اور بزم میں بیٹھے تمام پروانوں سے کہا کہ تم لوگ اس کے ہمراہ جاو لیکن اکثر نہیں گئے۔ نہ جانا تو اپنی جگہ ہے بلکہ ڈھٹائی سے سامنے ہی بیٹھے رہے۔اسی طرح حدیث قرطاس ہے کہ جس کے نتیجہ میں آپ پر ہذیان کا الزام لگا یا گیا کہ جس کا مطلب رسالت و نبوت و عصمت کا انکار ہے۔ 

آپ نے فرمایا میرے محبوب بھائی کو بلاو تواس پر بھی تیسری بار میں عمل ہوا۔ 

آپ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ پورا عالم اسلام سوگوار ہو جاتا اور آپ کے غم میں غمگین لیکن بقول مولانا روم:

اہل دنیا کار دنیا ساختند

مصطفی را بی کفن انداختند

صلی اللہ علیہ یا رسول اللہ  و اہل بیتک

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے
Loading...