رسول اسلام (ص) آیات وروایات کی روشنی میں

قرآن میں واضح طور پر بیان کیا گیا ھے کہ انبیاء کرام کمال انسانی کے آخری مرحلے پر فائز تھے، اسی طرح ان کے اور بالخصوص آنحضرت (ص) کے خصوصیا ت اور امتیا زات کا ذکر کیا گیا ھے، چنانچہ قرآن مجید کی جن آیا ت میں شناخت ِ نبوت سے متعلق خدا وند متعال نے رہنمائی فرمائی ھے ان میں سے ھم چند آیا ت کو ذیل میں قلمبند کرتے ھیں :

۱۔[1]

ترجمہ :۔” خدافرشتوں میں سے بعض کو اپنے احکام پهونچانے کے لئے منتخب کر لیتا ھے،اور اسی طرح آدمیوں میں سے بھی۔ “ اس آیت سے استفادہ هوتا ھے کہ انبیاء کرام (ع) صفوت و نجابت کے اعتبار سے تمام انسانوں سے برگزیدہ افراد ھیں اسی وجہ سے خدا نے انھیں عھدہٴ رسالت سے سرفراز فرماکر اپنے پیغام کا امین بنایا ھے۔

۲۔[2]

ترجمہ:۔اللہ زیادہ بہتر جانتا ھے کہ منصب ِ رسالت کھاں قرار دے۔

اس آیت سے استفادہ هوتا ھے کہ انبیاء کرام عظمت ، قوت روح ، صفائے نفس، شجاعت، معارف الھی، خدا شناسی ا ور تمام اخلاقی مسائل کے اعتبار سے اس قدر بلند تھے کہ خدا نے ان کو اپنی رسالت کی جائگاہ قرار دیا، اور انھیںسعادت ، انسانیت، ھدایت اورمعرفت کا مرجع بنایا۔

پس اگر انبیا ء کرام میں یہ لیاقت پھلے سے نہ پائی جاتی تو خدا ھرگز اپنی امانت ِ رسالت ، نبوت اور ھدایت ان کو سپرد نہ کرتا ،لہٰذا خدا کا ان حضرات کو تاج رسالت و نبوت سے سرفراز کرنا اس بات کی دلیل ھے کہ یہ پھلے سے رذائل و خباثت سے دور تھے ،چنانچہ قوم ثمود کی جناب صالح(ع) سے مندرجہ ذیل گفتگو ھماری اس بات کی تائید کرتی ھے:

۳۔[3]

ترجمہ :۔وہ لوگ کہنے لگے :اے صالح! اس کے پھلے تو تم سے ھماری امیدیں وابستہ تھیں۔ چونکہ قوم ثمود پھلے سے جناب صالح نبی (ع) کے رشد وکمال سے واقف تھی ، لہٰذا وہ انتظار اس بات کا کررھی تھی کہ جنا ب صالح آئندہ ان لوگوں کو شاھراہ ترقی پر گامزن کریں گے ، اور اجتماعی خدمت سے اپنی قوم کو آگے بڑھائیں گے ،اور ان کی رھبری کی باگ ڈور سنبھال لیں گے۔

پس یہ آیت بیّن دلیل ھے کہ انبیاء کرام قبل ِ بعثت اپنی اقوام و عشیرہ(قوم و قبیلہ) کے درمیان ایک خاص اخلاقی امتیا ز او ر محیط زندگی کے مالک تھے، اور ان کو لوگ ایک عاد ی فرد کی حیثیت سے نہ دیکھتے تھے، یھی شیوہ ٴاخلاقی وآمادگی یعنی پرستش و عبادت الٰھی سبب بنی کہ لوگ آپ سے کچھ زیادہ ھی انتظار رکھتے تھے، اور اپنی اس بات کا اظھار اس جملہ سے کیا: چنانچہ پھلے سے انبیاء کا منصب ِ نبوت کے لئے آمادہ اور شائستہ هونا سبب هوا کہ جب آپ کو دعوت ِ حق کا حکم ملاتو جو لوگ سرکش اور ضدی مزاج نہ تھے انهوں نے پھلی ھی مرتبہ میں آپ کی بات مان لی ،اور آپ کے حکم پر کمر بستہ هو کر میدان عمل میں آگئے( رسول اکرم(ص) کی زندگی کو اس کے لئے شاھد مثال کے طور پیش کیا جاسکتا ھے)۔

نبوت کے ساتھ عصمت ضروری ھے:

قرآن کریم کی متعدد آیات سے استفادہ هوتا ھے کہ انبیاء کرام ھر گناہ ، خطا و لغزش سے معصوم (محفوظ) هوتے ھیں، چنانچہ ذیل میں ھم چند آیات بعنوان نمونہ پیش کرتے ھیں :

۱۔[4]

ترجمہ:۔ اور یہ اگلے پیغمبر وہ لوگ تھے جن کی خدا نے ھدایت کی، اے میرے رسول(ص) ! آپ بھی ان کی ھدایت کی پیروی کریں۔

اس آیہٴ شریفہ سے پھلے خداوند متعال نے اٹھارہ انبیا ء کرام کے اسماء کا ذکر کیا ھے، اس کے بعد ارشاد هوتا ھے : ”میں نے ان کے آباء و اولاد میں سے بھی بعض کو رسول بنایا، اور یہ وہ لوگ ھیںجن کی خود خدا نے ھدایت کی“جملہ ٴ” فَبِہُداہُمُ اقْتَدِہْ“سے معلوم هوتا ھے کہ یہ عمومی ھدایت نھیں ھے ،بلکہ ایک ایسی ھدایت ھے جو صرف انبیاء سے مخصوص ھے، لہٰذا اس ھدایت اور امتیاز کے هوتے هوئے کوئی نبی گناہ نھیں کرسکتا ،اور نہ وہ ھدایت کے راستے سے گمراہ هوسکتا ھے، چنانچہ دوسری آیت میں صراحت کے ساتھ ارشاد هوا :

[5]

ترجمہ :۔اور جس کی خدا ھدایت کرے اسے کون گمراہ کرسکتا ھے؟

مذکورہ دونوں آیتوں کا مفهوم یہ هوتا ھے کہ تمام انبیاء و مرسلین کی ھدایت و راہنمائی خدا نے کی ھے، اور ھدایت بھی ایسی کی ھے کہ گناہ صغیرہ کا بھی کوئی نبی و رسول ارتکاب نھیں کرسکتا،لہٰذا جب ضلالت ،گمراھی اور گناہ ان سے سرزد نھیں هو سکتا تو اب دوسرے لوگوں کے لئے ضروری ھے کہ ان بر گزیدہ افراد کی پیروی کریں،اب رھا ضلالت ، گمراھی ، معصیت ا ور نافرمانی کسے کہتے ھیں ،تو قرآن میں اس کی بھی نشان دھی کی گئی ھے، ارشاد هوتا ھے:

[6]

ترجمہ :۔اے فرزندان آدم!آیا تمھارے ساتھ یہ پیمان نھیں باندھا گیا تھا کہ تم شیطان کی پیروی نھیں کرو گے؟ بیشک وہ تمھارا کھلا دشمن ھے (اورتمھارے جیسے بہت سے افراد کو اس نے گمراہ کر دیا)۔

اس آیت میں شیطان کی پرستش اور پیروی کو گمراھی کھا گیا ھے، یعنی ھر وہ گمراھی اور معصیت جو شیطان کی وجہ سے وجود میں آئے اسے قرآن کی زبان میں اضلال و گمراھی کھا جاتاھے، لہٰذا تینوں آیتوں کا مفهوم یہ هوگا :انبیاء و مرسلین ھر اس گمراھی اور معصیت سے محفوظ هوتے ھیں جسے ضلالت کھا گیا ھے ، پس خلاصہ یہ هوا :

۱۔ انبیاء و رسول انھیں کو منتخب کیا جاتا ھے جن کو خدا نے اپنی خاص ھدایت سے نوازہ هو۔

۲۔ انبیاء و مرسلین میں ضلالت و گمراھی کا شائبہ بھی نھیں پایا جاسکتا،کیونکہ وہ خاص ھدایت سے نوازے گئے ھیں ۔

۳۔ قرآن مجید کی اصطلاح میں ھر وہ معصیت اور انحراف جو خدا وند متعال کے حکم کے مقابلہ میں هو اسے ضلالت اور گمراھی کھا جاتا ھے ۔

نتیجہ :۔مذکورہ تینوں مطالب کی روشنی میں نتیجہ یہ نکلتا ھے کہ تمام انبیاء و مرسلین پاک و پاکیزہ اور معصوم هوتے ھیں،اوران سے کوئی خطا اور گناہ سزد نھیںهو سکتا ۔

۲۔[7]

ترجمہ : ۔اور ھم نے کوئی رسول نھیں بھیجا مگر اس لئے کہ اس کی ھماری اجازت سے اطاعت کی جائے۔

اس آیت سے استفادہ هوتا ھے کہ کوئی رسول اس وقت تک مبعوث بہ رسالت نھیں هوتاجب تک کہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری نہ کی جائے، یعنی اللہ کا منشاء یہ ھے کہ انبیاء ھر حال میں ُمطاع قرار پائیں گویا گفتار و کردار دونوں کے اعتبار سے ان کی اطاعت کی جائے، کیونکہ جس طرح انبیاء کرام کی گفتار ذریعہ ٴ تبلیغ ھے اسی طرح آپ(ص) لوگوں کا کردار بھی وسیلہ ٴ تبلیغ هوتا ھے۔

پس آیت کے مطابق انبیاء و مرسلین کے کردار و گفتار دونوں کی اطاعت کرنا چاھیئے لہٰذا اگر انبیاء سے خطا او رگناہ صادر هو تو اس کا لازمہ یہ هوگا کہ یہ گناہ اور خطا محبوب ا ور خواستہٴ خدا ھے، اور چونکہ خدا نے انبیاء کی پیروی لوگوں پہ فرض کی ھے، لہٰذا جیسے افعال بھی انبیاء کرام سے صادر هوںگے چاھے برے افعال هو ں یا اچھے ،ان کی اطاعت ھر حال میںھمارے اوپر ِمن ْ جانب ِ الله لازم قرار پائے گی حالانکہ خدا وند متعال نے اس سے منع فرمایا ھے۔

پس تسلیم کرنا پڑے گا کہ انبیاء کو معصوم هونا چاہئے تاکہ خدا کی ذات پر حرف نہ آئے، بالفاظ دیگر اگر انبیاء معصوم نہ هوں تو لازم آئے گا کہ جس چےز کے بارے میں خدا نے نھی کی ھے اسی کوبجالانے کا امر بھی فرمایا ھے!! یعنی جو چےز محبوب ِخدا ھے وھی چیز مبغوض خدا بھی ھے، اور ذات پروردگار کیلئے ایسا تصور کرنا واضح الفساد ھے۔

۳ ۔[8]

ترجمہ:۔ وہ (شیطان) بولا تیرے ھی عزت و جلال کی قسم ان میں سے تیرے خالص بندوں کے سوا سب کے سب کو گمراہ کروں گا۔

اس آیت میں شیطان کے قول کو نقل کیا گیا ھے کہ وہ سوائے مخلص بندوں کے تمام لوگوں کو بھکائے گا لہٰذا اگرانبیاء ٪سے کوئی چھوٹے سے چھوٹا گناہ سرزد هوا تو گویا وہ شیطان کے بھکاوے میں آگئے!اور جب انبیاء پر شےطان اپنا پھندہ ڈال سکتا ھے تو پھر وہ مخلصین عباد اللہ میں نہ رھیں گے حالا نکہ خداوند متعال انبیاء کو اپنے برگزیدہ اور مخلصین بندوں میں سے شمار کرتا ھے جیسا کہ مذکورہ آیت سے پھلے چند آیا ت کے اندر خدا وند متعا ل نے انبیا ء کو مخلصین بندوں میں سے قراردیا ھے :

[9]

ترجمہ:۔بیشک ھم نے ان لوگوں کو ایک خاص صفت (آخرت کی یاد) سے ممتاز کیا ھے (یعنی موٴمنین وہ ھیں جن کو خدا نے ذکر آخرت کی بنا پر مخلص قرار دیا )

قارئین کرام ! آپ نے ملا حظہ فرمایا کہ خود شےطان اس بات کا اقرار و اعتراف کرتا ھے کہ وہ ان لوگوں کو نھیں بھکا سکتا جو مخلص ھیںاور(یھی نھیں بلکہ)خدا نے بھی انبیاء کرام کے مخلص هونے کی گواھی دی ھے، اور ان کے مرتبہ ٴاخلاص کی اپنی طرف سے تضمین اور تائید فرما ئی ھے، لہٰذا اس بات سے ثابت هو تا ھے کہ شےطان کے وسوسہ کی پہنچ اور اس کے فریب دھی کے کمند کی رسائی انبیاء کے دامن تک نھیں هو سکتی، اوریھاں سے ھمیں اس بات کا بھی یقین کامل حاصل هو جاتا ھے کہ انبیا ء سے کسی گناہ و معصیت کا صادر هونا ممکن نھیںھے۔ البتہ بعض آیات میں گناہ کی نسبت ظاھراً انبیاء علیھم السلام کی طرف دی گئی ھے، لیکن اِن آیتوںکامضمون چونکہ اُن صریح آیتوں سے متعارض اور متضاد ھے جن میںانبیا ء کی عصمت بیان کی گئی ھے لہٰذااس تنا قض اور تضاد سے بچنے کے لئے ھم اِن آیا ت کے ظاھری مفهوم کوصریح آیات کے سامنے ترک کرتے هوئے اُن معانی پرحمل کریںگے جن کااستفادہ روایا ت اوران کتابوںسے هوتاھے جواس بارے میں لکھی یھی معانی گئیںھیں،کیونکہ آیا ت سے ھم آہنگی اورارتباط رکھتے ھیں۔[10]

رسول اسلام (ص) آیات وروایات کی روشنی میں

بعض آیات ِکریمہ سے صراحت کے ساتھ ثابت هوتا ھے کہ رسول اکرم (ص) قبل ِ بعثت ایمان ،عقیدہ ،اخلاقی شائستگی اور صداقت کے اعتبار سے تمام لوگوں سے افضل و برتر تھے ،حتیٰ کہ آپ کفارکے درمیان بھی امین و صادق جیسے لقب سے مشهور و معروف تھے ،اور اسی طرح آپ کے آباء واجداد سب موحد ، خدا پرست ،شرک سے دوراور پیمبران ِ خدا میں سے تھے ،چنانچہ اس بارے میں ذیل میں ھم چند آیا ت کو بطور نمونہ پیش کرتے ھیں:

۱۔[11]

ترجمہ : ۔جب تم نماز تھجد میں کھڑے هوتے هو اور سجدہ کرنے والوں کی جماعت میں تمھارا پھرنا(خدا ) دیکھتا ھے۔“ ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ھیں:وَ تَقَلُّبَکَ فِی السَّاْجِدِیْن سے مراد یہ ھے: اے رسول!خدا نے آپ کو نبیوں کے صلب سے منتقل کرتے هوئے (صلب عبد اللہ سے) خلق کیا اور پھر آپ کو مبعوث برسالت فرمایا۔[12]

پس اس آیہ ٴ شریفہ سے ظاھر هوتا ھے کہ آنحضرت(ص) کا پاک نطفہ حضرت آدم(ع) سے لے کر عبد الله تک پاک صلبوں میں رھا ھے جو سب کے سب ساجدین (خدا پرست) تھے، چنانچہ یہ کہنا غلط ھے کہ آپ کے اندر منصب ِ رسالت کی لیاقت بچپنے سے پیدا هوئی ،بلکہ حقیقت یہ ھے کہ آپ عھدہ ٴرسالت کے لئے خلقت آدم سے ھی آمادگی رکھتے تھے، اسی لئے آپ کا نطفہ پاک صلبوں سے منتقل هوتا هوا صلب عبد اللہ میں پهونچا۔

۲۔اور جو آیت اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ھے اور آپ کی منصب رسالت کے لئے آمادگی کو بیان کرتی ھے، وہ وھی آیت ھے جو آپ کی مکی زندگی کے وسط میں نازل هوئی جب کہ صنادیدہٴ کفار قرےش نے آپ پر اعتراض کیااور یہ کہنے لگے :

۲۔[13]

ترجمہ: ۔(اور جب ان کے پاس کوئی نشانی دین کی تصدیق کے لئے آتی ھے توکہتے ھیں:) جب تک ھم کو خود ویسی چیز (وحی وغیرہ) نہ دی جائے گی جو پیغمبران خدا کو دی گئی ھے اس وقت تک ھم ایمان نھیں لائیں گے(یعنی ھم بھی مقام نبوت پر فائز هوں )۔

ان کے جواب میں خدا نے ارشاد فرمایا :[14]خدا زیادہ بہتر جانتا ھے کہ رسالت کو کس جگہ ودیعت کرے۔

یہ آیت انبیاء کرام کے منتخب هونے کی حکمت کو بطور عموم اور آنحضرت (ص) کے انتخاب کرنے کی علت کو بطور خصوص کو بیان کرتی ھے یعنی مقام رسالت ایسا نھیں ھے کہ بغیر پھلے سے آمادگی اور شرائط کے ھر کس و ناکس کو خدا عنآیت کردے، بلکہ یہ منصب اس کو ملتا ھے جو اپنے وجود میں پھلے سے اس کے تمام لازمی شرائط اور مقدمات کو آمادہ رکھتا هو، خدا وند متعال ایسے داناترین افراد کو مقام رسالت سے سرفراز کرتا ھے ،یعنی اس پاک منصب کیلئے ضروری ھے کہ انسان پھلے ایمان ، صداقت اوراخلاقی ارزش میں کامل اور تمام رذائل اور خبائث سے پاک هو تب خدا کھیں اپنا خاص عھدہ عنایت کرتا ھے ۔

۳۔

اکثر مفسرین کے مطابق یہ آیت بعثت ِ رسول(ص) کے اولین روز نازل هوئی۔[16]

یہ آیت تمام اعتبار سے حضرت رسالتمآب کی روحانی زندگی کی طرف اشارہ کرتی ھے، اور صراحت کے ساتھ لفظ خلق عظیم کے ذریعہ آپ کی رسالت سے قبل لیاقت ا ور استعداد پر بطور عموم دلالت کرتی ھے (کیونکہ یہ آیت بعثت کے روز نازل هوئی، اگرچند ایام گذر جانے کے بعد نازل هوتی تو سمجھا جاسکتا تھا کہ خلق سے مراد نبوت و رسالت ھے یا وہ اوصاف جو رسالت و نبوت ملنے کے بعد آنحضرت(ص) میں پیدا هوئے لہٰذا ماننا پڑیگا کہ) خلق عظیم سے مراد آپ کے وہ کمالات ھیں جو آپ کے وجود میں مبعوث برسالت هو نے سے پھلے نمایاںتھے۔ اور اس میں کوئی شک نھیں کہ آپ (ص) کی مدح کے لئے اس آیت سے بہتر اور کوئی جامع اور وسیع جملہ نھیں هو سکتا،اور اس جملہ میں جو مفهوم اور معنویت پائی جاتی ھے وہ کسی اور جملے میں نھیں ھے، کیو نکہ لفظ خلق تمام اچھے اعمال ،امتیاز اور عبادت کو شامل ھے،یعنی صفت ِ خلق وہ صفت ھے جوتمام شخصی،اجتماعی ،انسانی، خانوادگی اور مذھبی اوصاف کی مظھر ھے ،اور خدا وند متعال نے ایسی صفت کے بارے میںفرمایا کہ رسول اس صفت کے عالی اور عظیم مرحلہ پر فائز ھیں،کیونکہ آیت میںصرف خلق کا ھی لفظ نھیں ھے بلکہ عظیم بھی آیا ھے ، اور پھر اس آیت کے ذریعہ خدا نے آپ کے امتیا زی اخلاق کی دوبارہ تصدیق بھی فرما دی ھے :

[17]

ترجمہ :۔ خدا زیادہ بہتر جانتا ھے کہ رسالت کو کس جگہ ودیعت کرے۔

چنانچہ مذکورہ مطلب کی تائید میں ھمارے چھٹے اما م حضرت جعفر صادق (ع) بھی اشارہ فرماتے ھیں:”اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ اَدَّبَ نَبِیَّہُ فَاَحْسَنَ اَدَبِہٖ فَلَمَا اَکمَلَ لَہُ الاَدَبَ قَال: [18]

ترجمہ:۔ خدا نے اپنے رسول(ص) کی تربیت کی ذمہ داری خود اپنے ھاتھ میں رکھی اور بہترین واحسن طریقہ سے رسول(ص) کو تربیت دی، اورجب تربیت کامل هوگئی تو فرمایا:

۴۔[19]

ترجمہ:۔بیشک اللہ کا ارادہ ھے کہ اپنے اھل بیت سے ھر قسم کے رجس کو دور رکھے اور انھیں پاک رکھے اس طرح سے جو پاک رکھنے کا حق ھے۔

یہ آیت رسول(ص) اور آپ(ص) کے خاندان کی شان میں نازل هوئی ھے، جو آپ اور آپ کے خاندان کی طھارت پر دلالت کرتی ھے ، یعنی رسول اور آپ کے اھل بیت ھر قسم کے شرک ، کفر ، گناہ ، معصیت ،آلودگی ، نجاست اور رذائل سے دور ھیں، کےونکہ رجس کا اطلاق اِن تمام چیزوں پر هوتا ھے، پس آیت کی رو سے آنحضرت (ص) اور خاندان عصمت و طھارت ھر قسم کے رجس سے پاک و پاکےزہ ھیں ۔

چنانچہ جناب طبری اپنی تفسیر میں اس آیت کے ضمن میں رسول خدا سے نقل کرتے ھیں :

یہ آیت پانچ افراد یعنی میری( محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) علی (ع) ، فاطمہ(ع) ، حسن (ع) اور حسین (ع) کی شان میں نازل هوئی ھے:

”نزلت ہٰذہ الآیة فی خمسةفیّ وعلی وحسن وحسین و فاطمہ “[20]

یھی قول جناب محب الدین طبری اور جلال الدین سیوطی کا ھے۔[21]

راغب اصفھانی کہتے ھیں : ارادہٴ خدا کے معنی یہ ھیں کہ خدا کسی امر کے واقع هونے کا یا واقع نہ هونے کا حکم کرے جیسے ”اراد بکم سواٴًًاو اراد بکم رحمة“[22]

اس کے بعد آپ کہتے ھیں : ھر نجس شی ٴ کو رجس کھا جاتاھے، اور نجاست وپلیدی چار طریقے کی هوتی ھے:

۱۔کبھی رجس (نجاست )خود انسان کی طبیعت کی وجہ سے هوتا ھے، یعنی انسان کی طبیعت رجس کا حکم لگاتی ھے۔

۲۔ اور کبھی رجس(نجاست) انسان کے عقل و دانش کی بنا پر هوتا ھے، یعنی ھماری عقل حکم لگاتی ھے کہ فلاں چیز رجس ھے۔

۳۔ اور کبھی رجس شریعت کے دستور کے جانب سے وجود میں آتی ھے، یعنی شریعت نے جس کےلئے رجس کھا ھے وہ رجس ھے۔

۴۔اور کبھی حکم شرع و عقل دونوں کے مطابق رجس کا اطلاق کسی شی ٴ پر هوتا ھے، جیسے جوا کھیلنا ، مردار کھانا، خدا کا شریک قرار دینا۔[23]

پس مذکورہ وضاحت کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیا ں هوگئی کہ پیغمبر اسلام اور آپ کے اھل بیت تمام اخلاقی مفاسد اور صفات ِ رذیلہ سے پاک اور منزہ تھے، کیونکہ تمام وہ اوصاف جو خداوند عالم کے نزدیک ناپسند ھیں، وہ رجس میں داخل ھیں، اور رجس بحکم خدا اھل بیت کے قریب جانھیں سکتا ،لہٰذا ان اوصاف سے اھل بیت ِطھارت کا آلودہ هونا ممکن نھیں ھے ، اور اس آیت سے اس بات کا بھی استفادہ هوتا ھے کہ اھل بیت علیھم السلام محرمات کو انجام نھیں دے سکتے،چاھے سھواًھی کیوں نہ هو، کیونکہ (شیعہ اور معتزلہ عقیدہ کی بناء پر) فعل ِ حرام مفسدہ رکھتا ھے، جس کی وجہ سے یہ فعل منھی عنہ (ولہ) قرار دیا گیا ھے، اگر چہ سھوو نسیان تکلیف کو ساقط کر دیتا ھے، کیونکہ تکلیف قدرت، تمکن اور ارادہ سے مشروط ھے یعنی سھو و نسیان، عقاب ِ خدا کو رفع تو کردیتاھے، مگر اس فعل کا وضعی اثر(ذاتی اثر) جو قبح اور رجس ھے اس کو سهو ونسیا ن ختم نھیں کرسکتا ھے، لہٰذا اھل بیت (ع) سھواًبھی فعل ِ حرام انجام نھیں دے سکتے تاکہ ثابت هو سکے کہ ان سے رجس ھر معنی میں دور ھے۔

۵۔[24]

ترجمہ:۔ بھلا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جو ایک بندہ کو جب نماز پڑھتا ھے تو روکتا ھے؟! یہ آیت آنحضرت (ص) کی تعرےف اور ایک مغرور اور سر کش شخص کی مذمت میں نازل هوئی ھے ،جو آپ کو ھمیشہ خدا کی عبادت سے منع کرتا تھا ،بھر کیف اس آیت سے دو نکتوں کی طرف اشارہ هوتا ھے :

۱۔ حضرت رسالتمآب (ص) بعثت سے قبل نہ تنھا موحد تھے بلکہ آپ ھمیشہ خدا کی پرستش و عبادت میں مشغول رہتے تھے، کیو نکہ یہ سورہ ٴ علق کی آیت ھے کہ جو ائمہ ھدیٰ کی کثیر روایات اور مفسرین کے نظریہ کے مطابق سب سے پھلے نازل هوا ،لہٰذا یھاں عبادت کا تذکرہ بعثت سے قبل کی زندگی کی جانب ھے۔[25]

۲۔ یہ عبادت جزیرة العرب کے رہنے والوں کی عبادت کے خلاف تھی اسی وجہ سے وہ اس کی مخالفت کرتے تھے، اور اس مطلب کا استفادہ متعدد روایا ت سے بھی هو تا ھے کہ رسو ل اسلام بعثت سے پھلے کبھی مخفی طور پر اور کبھی سب کے سامنے اپنے خدا کی عبادت کرتے تھے ،چنانچہ صاحب ”سرائر “ جامع بزنطی سے اور آپ زرارہ سے نقل کرتے ھیں :

”۔السرائر من جامع البزنطی عن زرارة؛ قال : سمعت اباجعفر و ابا عبد الله یقولان:حج رسول الله عشرین حجة مستترا منھا عشرة حجج اوقال:تسعة ( الوھم من الراوی )قبل النبوةوقد کان صلی قبل ذالک وهو ابن اربع سنین وهو مع ابی طالب فی ارض بصری “[26]

” میں( زرارہ) نے امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیھما السلام سے ا س بارے میں سنا کہ آپ(ع) نے فرمایا : رسول(ص) خدا نے ۲۰ /مرتبہ اعمال حج بجا لائے مگر یہ سارے حج مخفی طور پر تھے، ان میں ۹/یا ۱۰/ ( تردید راوی کی جانب سے ھے ) تو آپ نے بعثت کے اعلان سے قبل کئے اور نماز تو بہت پھلے سے پڑھتے تھے، کیونکہ جب آپ چار سال کے تھے، اور جناب ابو طالب (ع) کے ساتھ بصرہ سفر کیاتوآپ نماز پرھتے تھے

[1]سورہ ٴحج،آیہٴ ۷۵،پ۱۷۔

[2]سورہ انعام ،۱۲۴،پ۷۔

[3]سورہ ٴ هود، آیت۶۲،پ۱۲۔

[4]سورہ انعام ،آیت ۹۰،پ۷۔

[5]سورہٴ زمر،آیت ۳۷، پ۲۴۔

[6]سورہ ٴیٰس، آیت۶۰،پ۲۳۔

[7]سورہ نسآء،آیت۶۴،پ۵۔

[8]سورہٴ صٓ،آیت۸۲،۸۳، پ۲۳۔

[9]سورہٴ صٓ،آیت۴۶،پ۲۳۔

[10]اس سلسلے میں مزید معلومات کے لئے علم کلام کی کتابیں اور شیعہ تفاسیر ملاحظہ فرمائیں:منشور جاوید مصنفہ جعفر سبحانی، تفسیر نمونہ و تفسیر میزان وغیرہ ۔مترجم۔

[11]سورہ شعراء، آیت ۲۱۸ ،۲۱۹پ۱۹ ۔

[12]طبقات ابن سعد جلد۱،صفحہ ۵۔ تفسیرابن کثیرجلد۳، صفحہ ۳۵۲۔ کنز العمال،ص۱۰۶۔

[13]سورہ انعام، آیت۴ ۱۲،پ۷۔

[14]سورہٴ انعام، آیت ۱۲۴،پ۷۔

[15]سورہ قلم ،آیت۴ ،پ۲۹۔

[16]علامہ جلال الدین سیوطی (الاتقان جلد ۷۔ نوع ۵ ، نقل از جابر) اور دیاربکری مصنف تاریخ خمیس جلد۱،ص۱۰، کے نظریہ کے مطابق سورہٴ نٓ والقلم نزول کے اعتبار سے دوسرا سورہ ھے ، اسی نظریہ کو علامہ طباطبائی نے تفسیر المیزان جلد ۱۳ ص ۲۵۰ پر بیھقی سے اور انھوں نے ابن عباس سے نقل کیا ھے ۔

[17]سورہٴ انعام، آیت ۱۲۴، پ ۸ ۔

[18]تفسیر نور الثقلین، جلد ۵، صفحہ ۳۸۹۔۳۸۹۔

[19]سورہ احزاب، آیت۳۳،پ۲۲۔

[20]تفسیرطبری،جلد۲۲،صفحہ ۵

[21]ذخائرالعقبیٰ صفحہ۲۴۔ تفسیردرمنثورجلد۵،ص ۱۹۸۔

[22]مفردات راغب مادہ رود۔

[23]مفردات راغب ،مادہٴ رجس۔

[24]سورہٴ علق، آیت۱۰،۱۱،پ۳۰۔

[25]روایات کے سلسلہ میں دیکھئے : تفسیر در منثور ، تفسیرنور الثقلین، تفسیر برھان،مفسرین کے نظریہ کے بارے میں دیکھئے : تفسیرتبیان، تفسیرمجمع البیان، تفسیرالمیزان، تفسیرمراغی محاسن التاویل، تفسیرخازن و تفسیربغوی۔ اس نکتہ کی تائید علامہ طباطبائی نے مفسرین سے فرمائی ھے ۔

[26]بحار الانوار جلد ۱۵، صفحہ ۳۶۱۔

 

تبصرے
Loading...