ربّ العالمین کی مشیت

١- لغت اور قرآن کریم میں مشیت کے معنی

الف:مشیت کے لغوی معنی

مشیت کے لغوی معنی؛ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور اس معنی میں لوگ بھی ارادہ ومشیت کے مالک ہوتے ہیں ،خدا وند کریم نے قرآن کریم میںارشاد فرمایا:

(اِنّ ھذہ تذکرة فمن شاء اتّخذا الیٰ ربّہ سبیلاً ) (١)

یہ یاد دہانی ہے،لہٰذا جو چاہے اپنے پروردگار کی طرف راہ اختیار کرے۔

یعنی اگر انسان چاہے اور ارداہ کرے کہ خدا کی سمت راہ انتخاب کرے تو وہ مکمل آزادی اور اپنے ارادہ واختیار کے ساتھ اس بات پر قادر ہے،اسی آیت سے ملتا جلتا مضمون سورہ مدثر کی ٥٥ ویں آیت عبس کی بارہویں آیت تکویر کی اٹھائیسویں آیت اور کہف کی ٩٢ آیت ویں وغیرہ میں بھی ذکر ہوا ہے،خدا وند سبحان نے لغوی مشیت کی نسبت بھی اپنے طرف دیتے ہوئے فرمایا:

١۔(الم تر  اِلی ربّک کیف مدّ الظلّ و لو شاء لجعلہ ساکناً) (٢)

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کس طرح تمہارے ربّ نے سایہ کو دراز کردیا؟اوراگر چاہتا تو ساکن کر دیتا.

٢۔(فاما الذین شَقُوا  ففی النار لھم فیھا زفیر و شھیق)( خالدین فیھا ما دامت السموات و الأرض الا ما شاء  ربّک انّ ربّک فعال لما ےُرید)( وأما الذین سعدوا ففی الجنة خالدین فیھا ما دامت السموات و الأرض الا ماشاء ربک عطائً غیر مجذوذٍ)(٣)

لیکن جو بد بخت ہو چکے ہیں،تو وہ آتش جہنم میں ہیں اور ان لوگوں کے لئے وہاں زفیر اور شہیق( آہ و نالہ وہ فریاد) ہے اور جب تک زمین وآسمان کا قیام ہے وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے مگر جو تمہارا رب چاہے اور تمہارا رب جو چاہتاہے انجام دیتا ہے، رہے وہ لوگ جو نیک بخت اور خوش قسمت ہیں وہ جنت میں ہیں اور

(١) مزمل  ١٩ ؛ انسان  ٢٩ . (٢)فرقان ٤٦.(٣)ہود١٠٦ ١٠٨ .

جب تک زمین وآسما ن کا قیام ہے وہ اس میں رہیں گے جز اس کے جو تمہارا رب چاہے یہ ایک دائمی بخشش ہے۔

ان دو آیتوںکے مانند سورۂ اسراء کی ٨٦ ویںاور فرقان کی ٥١ ویںآیت میں بھی ذکر ہوا ہے۔

لیکن گزشتہ آیات کے معنی یہ ہیں:

١۔خدا وندعالم نیپہلی جگہ  فرمایا:

(الم تریٰ  الی ربک کیف مدّ الظل و لو شاء لجعلہ ساکناً)

یعنی خدا وند عالم نے کس طرح ظہر کے بعد ،سورج کے مغرب سے قریب ہو نے کے تناسب سے سایہ کو مشرق کی جانب پھیلا دیایہاں تک کہ ڈوب کر شب میں اپنی آخر ی حد داخل ہو گیا اوراگر”چاہتا”تو سایہ کو ہمیشہ ساکن ہی رہنے دیتا ، سایہ کا دراز ہونا اوراس کا حرکت کرنا خدا کی مشیت اور اس کے ارادہ پر ہے اور مرضی الٰہی سے باہر نہیں ہے۔

٢۔ خدا نے دوسرے مقام پر فرمایا: اہل جہنم ہمیشہ کیلئے آتش میں ہیں اور اہل بہشت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بہشت میں ہیںاور یہ خدا کی قدرت اور مشیت کے تحت ہے اور اس کی مرضی اور مشیت سے خارج نہیں ہے۔

ب:مشیت؛ قرآنی اصطلاح میں

قرآن مجید میںجب بھی کلمات رزق، ہدایت،عذاب،رحمت اور ان کے مشتقات کے بعد ”مشیت خدا کی” بحث ہو تی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ رزق وروزی ،ہدایت اور اس کے مانند دوسرے امور کا جاری ہونا ان سنتوں کی بنیاد پرہے جنہیں خدا وند عالم نے اپنی حکمت کے اقتضا ء سے معین فرمایا ہے اور خدا کی سنت ان امور میں نا قابل تبدیل ہے اور وہ اس آیت کے مصادیق و افراد میں سے ہیں جیسا کہ فرماتا ہے:

(سنة اﷲ …و لن تجد لسنة اﷲ تبدیلاً) (١)

یہ سنت الٰہی ہے…اور سنت الٰہی میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہو تی ہے۔

جیسا کہ سورہ فاطر میں بھی ارشاد فرماتا ہے:

( فلن تجد لسنة اﷲ تبدیلاً و لن تجد لسنة اﷲ تحویلاً)

سنت خدا وندی میں کبھی تبدیلی نہیں پاؤ گے اور سنت الٰہی میں کبھی تغیر نہیں پاؤ گے۔

(١)سورۂ احزاب ٦٢ اور فتح ٢٣.

دوم ۔ رزق وروزی میں خدا کی مشیت

١۔خدا وند عالم سورۂ شوریٰ میں فرماتا ہے:

(لہ مقا لید السموات و الأرض  یبسط  الرّزق لمن یشائُ و یقدر اِ ّنہ  بکل شیء ٍ علیم)(١)

آسمانوں اور زمینوں کی کنجیاں اس سے مخصوص ہیں،جس کی روزی میں چاہتا ہے وسعت عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ا س کی روزی تنگ کر دیتا ہے وہ تمام چیزوں سے آگاہ ہے۔

سورئہ عنکبوت میںفرمایا ہے:

(وکأےّن من د ابةٍ لا تحمل رزقھا اﷲ یر زقھا و اِےّا کم و ھو السمیع العلیم۔ و لئِن سألتھم مَن خلق السموات والأرض و سخر الشمس و القمر لیقو لنّ اﷲ فأنّی  یوفکون اﷲ یبسط الرّزق لمَن  یشاء من عبادہ و یقدر لہ ِانّ اﷲ بکلّ شیٍئٍ علیم۔ ولئن سا لتھم من نزّل من السماء مائً فأ حیا بہ الٔارض من بعد موتھا لیقو لُنَّ اﷲ قل الحمد للہ بل أکثر ھم لا یعقلون)(٢)

کتنے چلنے والے ایسے ہیں جو اپنا رزق حمل کرنے کی قدرت نہیں رکھتے خداانھیں اور تمھیں روزی دیتا ہے وہ سننے اور جاننے والا ہے اور جب بھی ان سے سوال کرو گے : کس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا ہے اور سورج اور چاند کو مسخر کیا ہے ؟ توکہیں گے:”اﷲ” پھر اس حال میں وہ لوگ کیسے منحرف ہو تے ہیں؟خدا اپنے بندوں میں جس کی روزی میں چاہتا ہے وسعت بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس کی روزی تنگ کر دیتا ہے خداوند عالم تمام چیزوں سے آگاہ ہے اور اگر ان سے پوچھو کہ کس نے آسمان سے پانی نازل کیا اور اس کے ذریعہ مردہ زمین کو زندہ کیا؟ کہیں گے: ”اﷲ” کہو!حمد و ستائش خدا سے مخصوص ہے لیکن ان میں بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں۔

٣۔سورۂ سبا میں فرمایا:

(١)شوریٰ١٢(٢) عنکبوت٦٠تا٦٣.

(قل اِنَّ  ربّیِ یبسط الرّزق لمَن یشاء من عبادہ و یقد ر لہ و ما أنفقتم من شیئٍ فھو ےُخلفہُ وھوخیرالرّا زقین)(١)

کہو! خدا اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کے رزق میں وسعت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس کا رزق تنگ کر دیتا ہے اور تم جو بھی خرچ کرتے ہو اس کی جگہ پرْ کر دیتا ہے اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔

٤۔سورہ اسراء میں ارشاد ہو تا ہے:

( ولا تجعل یدک مغلو لةً اِلی عنفک ولاتبسطھا کلّ  البسطِ فتقعد ملوماً محسوراً)(اِنَّ ربّک یبسط الرّزق لمَن یشاء ویقدر اِنّہ کان بعبادہ خبیراً بصیراً)( ولا تقتلوا أولادکم خشےة اِملاقٍ نحن نر زقھم و اِےّاکم اِنَّ قتلھم کان خطئاً کبیرا)( و لا تقر بوا مال الیتیم اِلّا با لتی ھی أحسن  حتیٰ یبلغ أشدّ ہ و أو فو ا بالعھد  اِنّ العہدکان مسوؤ لاً)( و أوفوا الکیل اِذا کلتم و زنوا با لقسطاس المستقیم  ذلک خیر و أحسن تاویلاً)٢)

اپنے ہاتھوں کو پس گردن بندھاہوا قرار نہ دو ( تاکہ انفاق سے رک جاؤ) اور نہ ہی اتنا پھیلادو کہ سرزنش کے مستحق قرار پاؤ اور حسرت کا نشانہ بن جاؤ ،یقینا ًخدا جس کے رزق میں چاہتا ہے وسعت دیتا ہے اور جس   کے رزق میں چاہتا ہے تنگی کر دیتا ہے،اپنے فرزندوں کو فقر و فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرو ہم انھیں اور تمھیں روزی عنایت کرتے ہیںیقینا ً ان کا قتل کرنا ایک عظیم گناہ ہے…اور یتیم کے مال سے بہترین طریقہ کے علاوہ قر یب نہ ہو نا جب تک کہ بلوغ کونہ پہنچ جائے اور اپنے عہد وپیمان کو وفا کرو کہ عہد وپیمان کے متعلق سوال ہوگا! اور جب کسی چیز کو تولو تو تو لنے کا حق ادا کرو  اور صحیح ترازو سے وزن کرو کہ یہ بہتر اور نیک انجام کاذریعہ ہے۔

٥۔سورۂ آل عمران میں فرمایا:

( قل أللّھم مالک الملک  تؤتیِ الملک من تشائُ و تنزع الملک ممّن تشاء و تعزّ مَن تشاء و تذّل مَن تشاء  بیدک الخیر اِنّک  علیٰ کلّ شیئٍ قدیر۔ تولج اللیل فی النھار و تو لج النھار فی اللّیل و تخرج الحیَِّ من المےّت و تخرج المےّت من الحیِّ و تر زق مَن تشاء بغیرحسابٍ)(٣)

کہو!: خدا وندا! تو ہی حکو متوں کا مالک ہے جسے چاہتا ہے حکومت دیتاہے اور جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتا ہے جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل ورسوا کر دیتاہے تما م خوبیاں تیر ے ہاتھ میں

(١)سبا٣٩(٢)اسراء  ٢٩ تا ٣٥

ہیں اورتو ہر چیز پر قادر ہے ،رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو شب میں، اور مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ نکالتا ہے اور جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔

خدا کی مشیت کیسی اور کس طرح ہے؟

اعمال کی جز ا کی بحث میںہم نے ذکر کیا کہ خدا وند عالم نے رزق کی وسعت ”صلہ رحم” میں قرار دی ہے یعنی کوئی اپنے اعزاء و اقرباء سے صلہ رحم کرتا ہے تو اس کے رزق میں اضافہ ہو تا ہے اور انسان اپنے باپ کی صلاح و درستی کے آثار بعنوان میراث پاتا ہے ،جیسا کہ حضرت موسی اور بندہ ٔخدا حضرت خضر کی داستان  میں گزر چکا ہے کہ گر تی ہوئی دیوار کو گر نے سے بچایا تا کہ اس کے نیچے دو یتیموں کا،کہ جن کا باپ صالح انسان تھا ،مد فون خزانہ بر باد نہ ہو جائے اور وہ دونوں بالغ ہو نے اور سن شعور تک پہنچنے کے بعداسے باہر نکالیں! یہ خدا کی مشیت و ارادہ کے دو نمو نے روزی عطا کرنے کے سلسلہ میں ہیں جو ثابت اور ناقابل تبدیل الٰہی سنت کی بنیاد پر جاری ہوتے ہیں ۔

(١) آل عمران ٢٦، ٢٧

سوم :مشیت خداوندی ہدایت اور راہنمائی میں

انسان کی ہدایت قرآن کریم کی رو سے دو قسم کی ہے:

١۔ہدا یت اسلامی احکام اور عقائد کی تعلیم کے معنی میں.

٢۔ ہدایت ایمان اور عمل صالح کی تو فیق کے معنی میں.

قرآن کریم پہلی قسم کی ہدایت کی زیادہ تر پیغمبروں کی طرف نسبت دیتا ہے جنھیں خدا وند عالم نے   اسلامی عقائدو احکام کی تبلیغ اور ا پنی پیغام رسا نی کے لئے انسانوں کی طرف بھیجا ہے اور کبھی خود خدا کی طرف نسبت دیتاہے کہ اس نے پیغمبروں کو دین اسلام کے ساتھ بھیجا ہے۔

قرآن کریم دوسری نوع ہد ایت کی نسبت خدا وند عالم کی طرف دیتا ہے اور کبھی مشیت کے ذکر کے ساتھ کہ ہدایت خدا کی مرضی اور اس کی خواہش ہے اور کبھی”مشیت” کے ذکرکے بغیر۔

خدا وند عالم نے ہدایت کی دونوں قسموں سے بہرہ ور ہونے کی شرط لوگوں کا انتخاب اور پسندیدگی نیزاس کو حاصل کرنے کے لئے ان کے عملی اقدام کو قرار دیا ہے، اس کا بیان درجہ ذیل سہ گانہ مباحث میں کیاجارہا ہے:

الف: تعلیمی ہدایت

قرآن کریم لوگوں کی تعلیمی ہدایت کی تبلیغ اسلام کے معنی میں کبھی انبیاء کی طرف نسبت دیتے ہوئے فرماتا ہے:

(و اِنّک لتھدی اِلیٰ صراط مستقیم ، صراط اﷲ الذی لہ ما فی السموات و ما فیِ الأرض اِلَا اِلیٰ اﷲ تصیر الأ مور)

اوریقیناً تم راہ راست کی طرف ہدایت کرتے ہواس خدا وند عالم کے راستے کی جانب کہ جو کچھ زمین وآسمان کے درمیان ہے سب اسی کا ہے ،آگاہ ہو جاؤ !تمام امور کی بازگشت خدا کی طرف ہے۔(١)

اور کبھی انبیاء کے ہدایت کرنے کی خدا کی طرف نسبت دیتے ہوئے فرماتا ہے :

١۔(و جعلنا ھم أئمة یھدون بأمرنا)(٢)

اورہم نے انھیں پیشوا قرار دیا جو ہمارے فرمان کی ہدایت کرتے ہیں۔

٢۔( ھوالذِی أرسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحقّ لیظھرہ علیٰ الدین کلّہ)(٣)

وہ ایسی ذات ہے جس نے اپنے پیغمبرۖ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث کیا تا کہ اسے تمام ادیان پر غالب اورکامیاب کرے۔

اسی معنی میں آسمانی کتابوں کی طرف بھی ہدایت کی نسبت دیتے ہوئے فرماتا ہے:

١۔( شھررمضان الذی انزل فیہ القرآن ھُدیً للناس وبےّناتٍ مِن الھدیٰ والفُرقانِِ)(٤)

ماہ رمضان ایک ایسا مہینہ ہے جس میں لوگوں کی ہدایت کرنے والا قرآن نازل کیا گیا اس میں ہدایت کی نشا نیاں اور حق و باطل کے درمیان جدائی ہے۔

٢۔( و أنزل التّوراة و الٔانجیل من قبل ھدیً للناس)(٥)

لوگوں کی ہد ایت کے لئے پہلے توریت اور انجیل نازل فرمائی ہے۔

کبھی تعلیمی ہد ایت کی نسبت بلا واسطہ خدا کی طرف دیتے ہوئے فرمایا:

١۔( ألم نجعل لہ عینین و لساناًو شفتین۔ و ھدیناہ النّجد ین)(٦)

کیا ہم نے انسان کو دو آنکھیں نہیں دیں؟ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دئے؟ اور اسے راہ خیر وشر کی طرف ہدایت نہیں کی؟!

٢۔( و أمّا ثمود فھد ینا ھم فا ستحبّوا العمیٰ علی الھدیٰ)(٧)

اور ہم نے قوم ثمود کی ہدایت کی لیکن انھوں نے ضلا لت اور نا بینائی کو ہدایت پر تر جیح دی۔

بنا براین خدا کبھی تعلیمی ہدایت اور آموزش اسلام کی نسبت پیغمبروں اور اپنی کتابوں کی طرف دیتا ہے اور کبھی اپنی پاک و پاکیزہ ذات کی طرف !اور یہ اس اعتبار سے ہے کہ خوداسی نے ان کتابوں کے ہمراہ لوگوں کی تعلیم کے لئے پیغمبروں کو بھیجا ہے۔

(١)شوریٰ ٥٢،٥٣ (٢)انبیاء  ٧٣(٣)توبہ ٣٣(٤) بقرہ   ١٨٥ (٥)آ ل عمراان٢،٣ (٦) بلد٨،١٠ (٧) فصلت ١٧

انشاء ا…آئندہ بحث میں انسا ن کی ہدایت قبول کرنے یا نہ کرنے کی کیفیت تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے۔

ب:انسان اور ہدایت یا گمراہی کاانتخاب

قرآنی آیات میں غور و خوض کر نے سے ہم درک کرتے ہیں کہ لوگ ہمیشہ انبیاء کے مبعوث ہونے اور آسمانی کتاب کے نازل ہو نے کے بعد دو گروہ میں تقسیم ہوئے ہیں: ایک گروہ ہدایت کو گمرا ہی پر ترجیح دیتا ہے اور اس کا انتخاب کرتا ہے اور دوسرا گروہ ضلالت و گمراہی کو ہدایت پر ترجیح و فوقیت دیتا ہے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل آیات پر توجہ فرما ئیں:

١ ۔( اِنّما أمرت أن اعبد ربّ ھذہ البلدة)(… و أن أتلوا القرآن فمَن أھتدیٰ فِاّنما یھتدیِ لنفسہ و مَن ضلَّ فقل اِنّما أنا من المنذ رین)(١)

مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے ربّ کی عبادت کر وں… اور قرآن کی تلاوت کروںلہٰذا جس نے ہدایت پائی اسنے اپنے فائدہ میں ہدایت پائی اور جو گمراہ ہو ا تو اس سے کہو ہم تو صرف ڈرانے والے ہیں۔

٢۔ ( قل یا أےّھا الناس قد جاء کم الحقّ من ربّکم فمَن  اھتدیٰ فاِنّما یھتدیِ لنفسہ و مَن ضلَّ فِا ّنما یضلُّ علیھا و ما أنا علیکم بوکیلٍ)(٢)

کہو: اے لوگو! تمہارے ربّ کی جانب سے حق تمہاری طرف آچکا ہے ،لہٰذا جو ہدایت پائے وہ اپنے نفع میں ہدایت یا فتہ ہوا ہے اور جو گمراہ ہو جائے تنہا اپنے ضرر میں گمراہ  ہوا ہے اور میں تم پر وکیل نہیں ہوں۔

٣۔(مَن اھتدیٰ فاِنّما یتھدی لنفسہ و مَن ضلَّ فاِ نّما یضلّ علیھا ولا تزر واز رة وزرأخریٰ و ما کنّا معذّ بین حتیٰ نبعث رسولاً )(٣)

جو ہدایت پائے وہ اپنے فائدہ میں ہدایت یافتہ ہوا ہے اور جو گمراہ ہو جائے ا پنے ضرر اورنقصان میں گمراہ ہوا ہے اورکوئی بھی کسی دوسرے کے گناہ کا بار نہیں اٹھا ئے گا اور ہم اس وقت تک کسی کومعذب نہیں کرتے جب تک کہ کوئی پیغمبر مبعوث نہ کردیں۔

(١)نمل  ٩١ ، ٩٢ (٢)یونس ١٠٨

(٣)اسراء  ١٥

ہدایت طلب انسان اور اﷲ کی امدا د(توفیق)

خدا وند عالم سورۂ مریم میں ہدایت طلب انسان کی ہدایت خواہی کے بارے میں فرماتا ہے:

(و یزید اﷲ الذین اھتدوا ھُدیً)(١)

اور وہ لوگ جو راہ ہدایت گامزن ہیں خدا ان کی ہدا یت میں اضافہ کردیتا ہے۔

سورۂ محمد میں ارشاد ہوتا ہے:

(والذین اھتدوازادھم ھدیً واتا ھم تقواھم)(٢)

وہ لوگ جو ہدایت یافتہ ہیں ،خدا وند عالم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کیا اور انھیں روح تقوی عطا کی۔

جو لوگ اﷲ کے رسولوں کی آمد کے بعد ہدایت کا انتخاب کرتے ہوئے راہ خدا میںمجاہدت کرتے ہیں وہ لوگ توفیق الٰہی کے سزاوار ہوتے ہیں لیکن جن لوگوں نے پیغمبروں کی تکذیب کی اور اپنی نفسا نی خواہشات کا اتبا ع کیا ، ان کی گمرا ہی یقینی ہے۔

خدا دونوں گروہ کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

(والذین جاھدوا فینا لنھد ینّھم سُبُلنا واِنَّ اﷲ لمع المُحسنینَ) (٣)

جو لوگ ہماری راہ میںمجاہدہ کرتے ہیں یقینا ہم انھیں اپنی راہوں کی ہدایت کرتے ہیں اور خدا وند عالم نیکو کاروں کے ہمراہ ہے ۔

٢۔(ولقد بعثنا فی کل أمةٍ رسولاً ان اْعبدوااﷲ واْجتنبواالطاغوت فمنھم من ھدی اﷲ ومنھم من حقت علیہ الضلا لة فسیروا فی الأرض فانظر وا کیف کان عا قبة المکذ بین۔ ان تحرص علی ھدا ھم فان اﷲ لا یھدی من یضلُّ ومالھم من ناصرین)(٤)

ہم نے ہر امت کے درمیان ایک رسول مبعوث کیا تا کہ اﷲ کی عبادت کرو اور طاغوت سے دوری اختیار کرو !بعض کی خدا نے ہدایت کی اور بعض کی گمرا ہی ثابت ہوئی لہٰذا روئے زمین کی سیر کرو اوردیکھو کہ تکذیب کر نے والوں کا ا نجام کیا ہوا ؟ اگر ان کی ہدایت پر اصرار کرو گے تو (جان لو کہ) خدا جسے گمراہ کر دے

(١) مریم،  ٧٦(٢)محمد١٧ (٣) عنکبوت ٦٩ (٤)نحل ٣٦، ٣٧

کبھی اس کی ہدایت نہیں کرتا اورایسے لوگوں کا کوئی ناصر ومد د گار نہیں ہے۔

٣۔  ( فر یقاً ھدیٰ و فر یقاً حقّ علیھم الضلا لة اِنّھم اتّخذ واالشیاطین أولیاء  من دون اﷲ و یحسبون أنّھم مھتدون) (١)

خدا نے بعض گروہ کی ہدایت کی اور بعض گروہ کی گمرا ہی ان پرمسلط اور ثابت ہوگئی ہے کہ ان لوگوں نے شیاطین کو خدا کی جگہ اپنا  ولی قرار دیا ہے اور خیال یہ کرتے ہیں کہ ہدایت یا فتہ ہیں۔

اس طرح کی ہدایت ”مشیت الٰہی” کے ساتھ ہدایت ہے اسکی شرح آگے بیان کی جا رہی ہے۔

ج:  ہدایت یعنی مشیت الٰہی سے ایمان و عمل کی توفیق

ہد ایت؛ ایمان وعمل میں مشیت الٰہی کے اشارے پرتوفیق الٰہی کے معنی میں پر سورہ بقرہ ، نور اور یونس کی درج ذیل آیات میں اس طرح وارد ہوئی ہے:

(واﷲ یھدی من یشاء اِلیٰ صراط مستقیم(٢)

خدا جسے چاہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے۔

سورۂ انعام میںآیا ہے :

(من یشأ اﷲ یضللہ و من یشأ یجعلہ علی صراط مستقیم)(٣)

خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے صراط مستقیم پر قرا ر دیتا ہے ۔

سورۂ قصص میں آیاہے:

( اِنّک لا تھدی مَن أحببت و لکنّ اﷲ یھدی مَن یشاء  و ھوأعلم با لمھتدین)(٤)

جسے تم چاہو اسے ہدایت نہیں کر سکتے لیکن خدا جسے چاہے اس کی ہد ایت کرتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں سے زیادہ آگاہ ہے۔

کلمات کی تشریح

١۔”صراط مستقیم”: صراط،آشکار اور واضح راستہ،مستقیم ایسا سیدھا جس میں کوئی کجی نہ ہو۔

(١)اعراف  ٣٠(٢) بقرہ١٤٢،٢١٣؛نور٤٦؛یونس٢٥ .(٣)انعام ٣٩(٤)قصص ٥٦.

دین کے صراط مستقیم کوخداوند سبحان نے سورۂ حمد میں اس طرح بیان کیا ہے:

(صراط الذین أنعمت علیھم غیرالمغضوب علیھم ولاالضّا لین)(١)

ان لوگوں کی واضح اور آشکار راہ جنھیں تونے نعمت دی ہے ،نہ ان لوگوںکی جن پر تو نے اپنا غضب نازل کیا ہے اور نہ ہی گمرا ہوں کی۔

خدا وند عالم نے سورۂ مریم میں جن لوگوں پر اپنی نعمت نازل کی ہے ان کو بیان کیا ہے اور زکریا،یحییٰ، مریم اور عیسیٰ علیہم السلام کی داستان نقل کر نے کے بعد فرماتاہے :و اذکر فی الکتاب ابراہیم… اس کتاب( قرآن ) میں ابراہیم  کو یاد کرو …واذکر فی الکتاب موسیٰ …اس کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو…واذکر فی الکتاب اسماعیل …اس کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو …اذکر فی الکتاب  ادریس… اس کتاب میں ادریس کو یاد کرو۔

اس کے بعد فرماتاہے :

( أولآء ک الذین أنعم اﷲ علیھم من النّبےّین من ذرّےة آدم)(و ممّن ھدینا و اجتبینا اِذا تتلی علیھم آیات الرحمن خرّوا سجّداً و بکّیاً)(٢)

یہ وہ انبیاء ہیں آدم کی ذریت سے، جن پر خداوند سبحان نے نعمت نازل کی ہے اور ان لوگوں میں سے جنھیں ہم نے ہدایت کی اور انتخاب کیا جب ان پرآیات الٰہی کی تلاوت ہوتی ہے تو سجدہ کرتے ہوئے اوراشک بہاتے ہوئے خاک پر گر پڑتے ہیں۔

ان لوگوں کی صراط اور راہ دین اسلام ہے اور ان کی سیرت اور روشِ زندگی اس پر عمل ،وہی جس کی لوگوں کووہ دعوت دیتے تھے۔

٢۔”مغضوب علیھم”: جن لوگوں پر غضب نازل ہوا ،اس کی مصداق صرف قوم یہود تھی جس کا خداوند متعال نے سورۂ بقرہ میں تعارف کراتے ہوئے فرمایاہے:

(وضربت علیھم الذلّة و المسکنة و باء وا بغضبٍٍ مِن اﷲ ذلک بأ نّھم کانوا یکفرون بآ یات اﷲ و یقتلون النّبےّین بغیر الحقّ ذلک بما عصوا وکانوا یعتدون)(٣)

ان کے لئے ذلت و خواری ، رسوائی اوربیچار گی معین ہوئی اور خدا کے غیظ و غضب کے مستحق قرار

(١)سورہ فاتحہ ٧(٢)مریم  ٥٨.(٣)سورہ بقرہ  ٦١.

پائے اور یہ اس وجہ سے ہوا کہ وہ آیات الٰہی کا انکار کرتے تھے اور پیغمبروں کو نا روا قتل کرتے تھے اوریہ ان کی  نافر مانی اور تجاوز کی وجہ سے تھا۔

انھیں تعبیرات کے مانند ان کے بارے میں سورۂ آل عمران( آیت:١١٢) میں بھی آیاہے۔

٣۔”ولاالضالین”: ضالین؛ گمراہ افراد ، وہ تمام لوگ جو اسلام سے منحرف اوررو گرداں ہیں ، جیسا کہ سورۂ آل عمران کی ٨٥- ٩٠ ویںآیت میںصراحت کے ساتھ فرماتاہے:

( و مَن  یبتغ غیر الِاسلام دیناً فلن یقبل منہ)( و أولئک ھم الضّالّون)

جو بھی دین اسلام کے علاوہ کسی اور دین کا انتخاب کرے تو اس سے قبول نہیں کیا جائے گا …وہی گمراہ لوگ ہیں۔

٤۔”یھدی” : ہدایت کرتا ہے، اس کی شرح”ربّ العالمین” کی بحث میں ملاحظہ کیجیے۔

 چہارم :  اﷲ کی مشیت عذاب اور رحمت میں

عذاب ورحمت کے سلسلہ میں مشیت الٰہی کا بیان قرآن کریم میں چند مقا مات پر منجملہ ان کے سورہ اعراف میں ہوا ہے ،خدا وند عالم موسیٰ  کی دعا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:

(و اکتب لنا فِی ھذہ الدّنیا حسنة و فِی الٔاخرة اِنّا ھد نا اِلیک قال عذابِی اصیب بہ مَن أشاء و رحمتِی وسعت کل شیئٍ فسأ کتبھا للذین یتّقون و یؤ تون الزّکاة و الذین ھم بآ یا تنا یؤ منون۔ الذین یتّبعون الر سول النّبیِ الأ میِ الذی یجد ونہ مکتوباً عند ھم فی التوراة و الأِنجیل یأ مر ھم با لمعروف و ینھا ھم عن المنکر و یحلَ لھم الطیبات و یحرّم علیھم الخبائث و یضع عنھم  اِصر ھم و الأغلا ل التیِ کانت علیھم فالذ ین آمنوا بہ و عزّروہ ونصروہ و اتّبعوا النور الذِی أنزل معہ أ ولئک ھم المفلحون)(١)

(موسیٰ نے کہا:) اور ہمارے لئے اس دنیا اور آخرت میں نیکی معین کردے ہم تیری طرف لوٹ چکے ہیں، فرمایا : اپنا عذاب جس تک چاہوں گا پہنچا دوں گا اور میری رحمت تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے اس کو ان لوگوں کے لئے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں ، زکاة دیتے ہیں اور وہ لوگ جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں مقرر کروںگا، وہ لوگ اس پیغمبرۖ اور نبی امی کا اتباع کرتے ہیں ایسا پیغمبر جس کے صفات اپنے پاس موجود توریت و انجیل میں لکھاہوا پاتے ہیں ،جوان لوگوں کو نیکی کا حکم دیتا ہے اور منکر(برائی) سے روکتا ہے ان کے لئے پا کیزہ چیزوں کو حلال کرتا ہے اور نا پاک چیزوں کو حرام کرتا ہے اور سنگین اور وزنی بار (بوجھ) نیز وہ زنجیریں جس میں وہ جکڑ ے ہوئے تھے انھیں ان سے آزاد کرتا ہے ،پس ، جو لوگ اس پرایمان لائے اوراس کی عزت و توقیر کی اور اس کی نصرت فرمائی اور اس نور کی جو اس کے ساتھ نازل ہوا اس کی پیروی کی، وہی لوگ کا میاب ہیں۔

(١)اعراف  ١٥٦،١٥٧

سورۂ انبیاء میں فرماتا ہے:

( اِقترب للناس حسابھم و ھم فی غفلة ٍ معرضون)( ما یأتیھم من ذکرٍ من ربھم محدث  اِلّااستمعوہ و ھم یلعبون)(لا ھےة قلو بھم  و أسرّ وا النّجویٰ الذین ظلموا ھل  ھذا اِلّا بشر  مثلکم  أفتا تون  السحر  و أنتم  تبصرون)( قال ربّیِ یعلم القول  فی السماء  و الأرض  و ھو السمیع العلیم)( بل قالو ا أضغاث أحلا مٍ ٍ  بل افتراہ  بل ھو  شاعر  فلیا تنا بآےةٍ کما أرسل الأوّلون)( ما آمنت قبلھم من قرےةٍ أھلکنا ھا أفھُم یؤمنون)( و ما أر سلنا قبلک  ألّا ر جالاً نو حیِ اِلیھم فسئلوا  أھل الذِّکر أن کنتم لاتعلمون)( وما جعلنا  ھم جسداً لا یأ کلون الطعام و ما کانوا خالد ین)( ثَّم  صد قنا ھم الو عد  فأ نجینا ھم و مَن  نشائُ و أھلکنا المسر فین)( لقد أنزلنا اِلیکم  کتا باً فیہ  ذکر کم أفلا تعقلون)(١)

لوگوں کا یوم حساب ان سے نز دیک ہو گیا اوروہ لوگ اسی طرح غفلت اور بے خبری کے عالم میں پڑے منحرف اور رو گرداں ہیں، جب بھی ان کے ربّ کی جانب سے ان کے لئے کوئی نئی یاد دہانی ان کے پاس آتی ہے تو اسے سنکر کھلواڑ بناتے اور استہزا ء کرتے ہیں،ان کے دل لہو ولعب اور بے خبری میں مشغول ہیں اور ظالموں نے سر گوشی میں کہا : کیا یہ تمھارے جیسے انسان کے علاوہ کچھ اور ہے ؟ کیادیکھنے کے با وجود سحر و جادو کے پیچھے دوڑتے ہو؟ پیغمبرۖ نے کہا : میرا رب زمین و آسمان کی تمام گفتگو کو جانتا ہے وہ سننے والا اور دانا ہے ، بلکہ ان لوگوں نے کہا: ( یہ سب وحی نہیں ہے) بلکہ یہ سب خوابِ پریشان کا مجموعہ ہے، یاخدا کی طرف اس کی جھوٹی نسبت دی گئی ہے، نہیں بلکہ وہ ایک شاعر ہے !اسے ہمارے لئے کوئی معجزہ پیش کر نا چاہیے جس طرح گز شتہ انبیا ء بھیجے گئے تھے ، ان سے پہلے کی آبادیوں میں سے جن کو ہم نے نابود کر دیا ہے کوئی بھی ایمان نہیں لایا آیا یہ لوگ ایمان لائیں گے ؟ ہم نے تم سے پہلے ،جز ان مردوںکے جن پر ہم نے وحی کی کسی کو نہیں بھیجا ، پس تم لوگ اگر نہیں جانتے توجاننے والوں سے دریافت کر لو ۔ہم نے پیغمبروں کو ایسے اجسام میں قرار نہیں دیا ،جنہیںغذا کی ضرورت نہ ہو ، وہ لوگ عمر جاوداں بھی نہیں رکھتے تھے! پھر ہم نے ان سے جو وعدہ کیا  تھااسے سچ کر دکھایا ،پس ان کو اور جنھیں ہم نے چاہا نجات دی اور زیادتی کرنے وا لوں کو ہلاک کر ڈالا ، ہم نے تم پر ایک کتاب نازل کی جس میںتمہاری یاد آوری اور بلندی کا سر مایہ ہے کیاتم درک نہیں کرتے ؟

(١)انبیاء  ١۔١٠

سورۂ اسراء میں فرمایا :

( من کان یر ید العا جلة عجّلنا لہ فیھا ما نشاء لمن نر ید ثمّ جعلنا  لہ جھنم یصلا ھا مذمو ماً مد حو راً )( و من اراد  الآخر ة و سعی لھا  سعیھا و ھو مؤمن فاولائک کان سعیھم مشکورا ً ) کلا نمد ھو لا ء ھولائِ من عطا ء ر  بّک و ما کان عطائُ ربک محظورا ً)(١)

جو شخص زود گزر دنیا کی زند گی چاہے، تو ہم جو چا ہیں گے جسے چاہیں گے اس دنیا میںاسے دیدیں گے ،پھر جہنم اس کے لئے معین کریں گے تا کہ مردود بار گاہ اور راندہ درگاہ ہوکر اس کا جز ء لازم ہو جا ئے اور جو کوئی آخرت کاطلب گار ہو اوراس کے لئے کوشاں ر ہے، درانحالیکہ مومن ہو ،اس کی کوشش و تلاش کی جزا دی جائے گی ، ان دو گروہوں میں سے ہر ایک گروہ کی امداد کریں گے ،یہ تمہارے پر وردگار کی عطا ہے اور تمہارے رب کی عطاکسی پر بند نہیںہے ۔

سورۂ انسان میں فرماتا ہے:

(انَّ ھٰئو لا ئِ ےُحبّون العا جلة و یذ رون وراء ھم یوما ً ثقیلا ً … انََّ ھذ ہ تذ کرة فمن شائَ اتّخذ الیٰ ربّہ سبیلا ً ۔ و ما تشا ء ون اِلّا أن یشاء اﷲ  اِنَّ اﷲ کان علیما ً حکیما۔ ید خل من یشاء فی رحمتہ والظا لمین أعدّ لھم  عذا باً ألیماً ) (٢)

یہ لوگ دنیا کی زود گزر زند گی چاہتے ہیں اور سخت دن کو پس پشت ڈال دیتے ہیں، یہ ایک یاد آوری ہے، پس جو چاہے اپنے رب کی طرف ایک راہ انتخاب کرے اور تم لوگ وہی چاہتے ہو جو خداچاہتا ہے ،خدا دانا اور حکیم ہے ،وہ جس کو چا ہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کر لیتا ہے اور اس نے ستمگروں کے لئے درد ناک عذاب مہیا کر رکھا ہے۔یہ” رب العا لمین ”کے” ارادہ” اور ”مشیت” کے معنی تھے،خدا وند متعال کے جملہ صفات میں سے ایک یہ ہے کہ جس چیز کو چاہتا ہے” محو یا اثبات” کرتا ہے اس کے معنی انشاء اﷲآئندہ بحث میں بیان کریں گے۔

تبصرے
Loading...