راہ کوفہ و شام کے درمیان راہب کا دیر

 

سیّد ابن طاووس [1] ،علامہ مجلسی [2] ،شیخ عباس قمّی وغیرہ  نے آل رسول  کے شام میں وارد ہونے کے واقعہ کو  اس طرح بیان کیاہے ہم اس کو اختصار کے ساتھ بیان کر رہے ہیں

اہل بیت کرام کے قافلہ کو کوفہ سے شام ان راستوں سے لے جایاگیاجن پر غیر مسلم شہر آباد تھے اور حکومت کے فرمان کے مطابق ہر شہر میں داخل ہونے سے پہلے اس کو سجایاجاتا تھااور تمام لوگوں میں یہ اعلان عام کیاجاتاتھا کہ اے لوگوں آؤ !اور اس باغی کا انجام دیکھو!  جس نے یزید بن معاویہ کے خلاف علم بغاوت بلند کیاتھا [3]

ان حوادث میں سے کہ جو راہ کوفہ و شام میں پیش آئے  ایک اہم واقعہ دیر راہب کا ہے  ۔کتب مقاتل میں نقل ہوا ہے :ایک رات یزید کالشکر عسائیوں کے ایک دیر کے قریب پہونچا جہاں ایک راہب عرصے سے عبادت خدا  میں مشغول  تھا   سب لشکر والے اپنے مرکبوں سے آرام کرنے کی غرض سے اترے اور امام حسین  کے سر اقدس کو ایک صندوق میں رکھ کر وہیں کھانا کھانے اور شراب پینے میں مشغول ہو گئے اچانک ہاتف غیبی کی آواز آئی ؛

ا تر جوا امّۃ قتلت حسیناً

شفاعۃ جدّہ یوم الحساب

و قد غضب اللہ و خالفوہ

و لم یخشہ فی یوم مآب

الالعن اللہ بنی زیاد

و اسکنہم جھنم فی العذاب

کیا وہ امت  جس نے حسین  کو قتل کیا  آپ  کے جد رسول اکرم سے  شفاعت کی امید رکھتی ہے  ، خدا وند عالم ان سے ناراض ہوگیا  چونکہ ان لوگوں نے اللہ کی مخالفت کی  اور یہ لوگ قیامت میں ہو نے والے اس کے عذاب سے بھی نہیں ڈرتے ، خدا  زیاد کی اولاد پر لعنت کرے اور انہیں جہنم میں اپنے عذاب کامزا چکھائے ۔

وہ رات ان لوگوں کے لئے بڑی ناگوار ثابت ہوئی اور وہ لوگ خوف و ہراس کے عالم میں لرزہ بر اندام ہو کر  سو گئے   جب رات کاکچھ حصّہ گذرا راہب نے  بجلی کی کڑک کو محسوس کیااور ایک ہلکی ہلکی آواز اس کے کانوں سے ٹکرانے لگی  اس نے جو غور سے سنا تو یہ کسی کی  تسبیح و تقدیس کی آواز تھی وہ  اپنی جگہ سے اٹھا اور دیر سے سر کو باہر نکالاتو دیکھا ایک صندوق ہے جو دیر کی دیوار سے متصل  رکھاہوا ہے اور ایک نور ہے جو اس سے ساطع ہو کر   آسمان کی جانب بلند ہو رہا ہے ، اور فرشتے گروہ گروہ آتے ہیں اور صندوق کے    پاس بیٹھ کراس طرح سلام کر رہے   ہیں ؛”السّلام علیک یابن رسول اللہ ، السّلام علیک یا اباعبداللہ ، صلوات اللہ وسلامہ علیک”

راہب اس منظر کو دیکھ کر مبہوت رہ گیا اور ایک عجیب و غریب خوف اس کے دل ودماغ پر حکم فرما ہو ا  اس نے کچھ دیر صبر کیایہاں تک کہ صبح صادق کا وقت  قریب ہو گیا اپنے دیر سے باہر آیااور لشکر والوں سے پوچھا کہ: اس لشکر کاسردار کون ہے؟جواب ملا: اس کاسردار خولی ہے ، راہب خولی کے پاس پہونچااور اس سے کہا ؛اس صندوق میں کیاہے ؟ اس نے جواب دیاکہ اس میں اس باغی کاسر ہے  جس نےیزید  کے خلاف بغاوت کی تھی اور ابن زیاد نے اس کو عراق کی سر زمین پر قتل کیا ہے ،راہب نے پوچھا اس کانام کیاتھا؟ اس بےغیرت نے کہا کہ: حسین ابن علی ابن ابی طالب۔  راہب نے پھر ایک اور سوال کیا : اس کی ماں کانام کیا ہے؟ خولی بولا:اس کی ماں فاطمہ زہرابنت محمد مصطفی(ص) ہیں ۔راہب نے اپنا سر پیٹ لیا اور کہاکہ خداتمہیں غارت کرے  ہمارے علماء کہتے ہیں :”انہ اذا قتل ھذا الرّجل تمطر السماء دماً عبیطاً”  جب بھی کوئی صاحب  منصب انسان قتل ہوگا تو آسمان سے تازے خون کی بارش ہوگی۔ اور آسمان سے تازے خون کی بارش اسی وقت ہوتی ہے  جب کوئی پیغمبر قتل کیاجاتاہے یا کسی پیغمبر کاجانشین قتل کیاجاتاہے ،

خولی اگر ہو سکے تو کچھ دیر کے لئے اس سر کو مجھے دیدے خولی نے کہا :ہم اس وقت تک اس سر کو صندوق سے نہیں نکال سکتے جب تک اس کو یزید کے سپرد نہ کر دیں اور اس سے اپنا انعام نہ لے  لیں  راہب نے کہا :یزید اس سر کے عوض تمہیں کتنا انعام دے گا خولی نے بتایاکہ یزید ہم کو دس ہزار درہم سے بھری ایک تھیلی دے گا  راہب نے کہامیں تجھے ایک ایسی ہی تھلی دوں گا تو یہ سر مجھے دیدے خولی نے کہا :کہ پہلے درہم سے بھری ہوئی تھیلی حاضر کرو  تب میں یہ سر دوں گا راہب نے ایک تھیلی لاکر خولی کو دے دی اوروہ  سر اقدس کو لے کر دیر میں چلاگیااس نے سب سے پہلے سراقدّس کو مشک و  عنبر سے دھویااور اپنے سامنے رکھ کر رونے لگااور فریاد کی :”واللہ یعز علی یااباعبد اللہ ان لااوصیک  بنفسی ” خداکی قسم !میرے لئے بہت سخت ہے کہ میں کربلا میں  آپ کے ہمراہ نہیں تھاتاکہ اپنی جان آپ پر فداکرتا “و لکن یاابا عبد اللہ اذا لقیت جدّک محمدالمصطفیسیّد ابن طاووس [1] ،علامہ مجلسی [2] ،شیخ عباس قمّی وغیرہ  نے آل رسول  کے شام میں وارد ہونے کے واقعہ کو  اس طرح بیان کیاہے ہم اس کو اختصار کے ساتھ بیان کر رہے ہیں

 اہل بیت کرام کے قافلہ کو کوفہ سے شام ان راستوں سے لے جایاگیاجن پر غیر مسلم شہر آباد تھے اور حکومت کے فرمان کے مطابق ہر شہر میں داخل ہونے سے پہلے اس کو سجایاجاتا تھااور تمام لوگوں میں یہ اعلان عام کیاجاتاتھا کہ اے لوگوں آؤ !اور اس باغی کا انجام دیکھو!  جس نے یزید بن معاویہ کے خلاف علم بغاوت بلند کیاتھا [3]

ان حوادث میں سے کہ جو راہ کوفہ و شام میں پیش آئے  ایک اہم واقعہ دیر راہب کا ہے  ۔کتب مقاتل میں نقل ہوا ہے :ایک رات یزید کالشکر عسائیوں کے ایک دیر کے قریب پہونچا جہاں ایک راہب عرصے سے عبادت خدا  میں مشغول  تھا   سب لشکر والے اپنے مرکبوں سے آرام کرنے کی غرض سے اترے اور امام حسین  کے سر اقدس کو ایک صندوق میں رکھ کر وہیں کھانا کھانے اور شراب پینے میں مشغول ہو گئے اچانک ہاتف غیبی کی آواز آئی ؛

ا تر جوا امّۃ قتلت حسیناً

شفاعۃ جدّہ یوم الحساب

و قد غضب اللہ و خالفوہ

و لم یخشہ فی یوم مآب

الالعن اللہ بنی زیاد

و اسکنہم جھنم فی العذاب

کیا وہ امت جس نے حسین (ع) کو قتل کیا  آپ  کے جد رسول اکرم (ص)سے  شفاعت کی امید رکھتی ہے  ، خدا وند عالم ان سے ناراض ہوگیا  چونکہ ان لوگوں نے اللہ کی مخالفت کی  اور یہ لوگ قیامت میں ہو نے والے اس کے عذاب سے بھی نہیں ڈرتے ، خدا  زیاد کی اولاد پر لعنت کرے اور انہیں جہنم میں اپنے عذاب کامزا چکھائے ۔

وہ رات ان لوگوں کے لئے بڑی ناگوار ثابت ہوئی اور وہ لوگ خوف و ہراس کے عالم میں لرزہ بر اندام ہو کر  سو گئے   جب رات کاکچھ حصّہ گذرا راہب نے  بجلی کی کڑک کو محسوس کیااور ایک ہلکی ہلکی آواز اس کے کانوں سے ٹکرانے لگی  اس نے جو غور سے سنا تو یہ کسی کی  تسبیح و تقدیس کی آواز تھی وہ  اپنی جگہ سے اٹھا اور دیر سے سر کو باہر نکالاتو دیکھا ایک صندوق ہے جو دیر کی دیوار سے متصل  رکھاہوا ہے اور ایک نور ہے جو اس سے ساطع ہو کر   آسمان کی جانب بلند ہو رہا ہے ، اور فرشتے گروہ گروہ آتے ہیں اور صندوق کے    پاس بیٹھ کراس طرح سلام کر رہے   ہیں ؛”السّلام علیک یابن رسول اللہ ، السّلام علیک یا اباعبداللہ ، صلوات اللہ وسلامہ علیک”

راہب اس منظر کو دیکھ کر مبہوت رہ گیا اور ایک عجیب و غریب خوف اس کے دل ودماغ پر حکم فرما ہو ا  اس نے کچھ دیر صبر کیایہاں تک کہ صبح صادق کا وقت  قریب ہو گیا اپنے دیر سے باہر آیااور لشکر والوں سے پوچھا کہ: اس لشکر کاسردار کون ہے؟جواب ملا: اس کاسردار خولی ہے ، راہب خولی کے پاس پہونچااور اس سے کہا ؛اس صندوق میں کیاہے ؟ اس نے جواب دیاکہ اس میں اس باغی کاسر ہے  جس نےیزید  کے خلاف بغاوت کی تھی اور ابن زیاد نے اس کو عراق کی سر زمین پر قتل کیا ہے ،راہب نے پوچھا اس کانام کیاتھا؟ اس بےغیرت نے کہا کہ: حسین ابن علی ابن ابی طالب۔  راہب نے پھر ایک اور سوال کیا : اس کی ماں کانام کیا ہے؟ خولی بولا:اس کی ماں فاطمہ زہرابنت محمد مصطفی (ص)ہیں  ۔راہب نے اپنا سر پیٹ لیا اور کہاکہ خداتمہیں غارت کرے  ۔   ہمارے علماء کہتے ہیں :”انہ اذا قتل ھذا الرّجل تمطر السماء دماً عبیطاً”  جب بھی کوئی صاحب  منصب انسان  قتل ہوگا تو آسمان سے تازے خون کی بارش ہوگی۔ اور آسمان سے تازے خون کی بارش اسی وقت ہوتی ہے  جب کوئی پیغمبر قتل کیاجاتاہے یا کسی پیغمبر کاجانشین قتل کیاجاتاہے ،

  خولی اگر ہو سکے تو کچھ دیر کے لئے اس سر کو مجھے دیدے خولی نے کہا :ہم اس وقت تک اس سر کو صندوق سے نہیں نکال سکتے جب تک اس کو یزید کے سپرد نہ کر دیں اور اس سے اپنا انعام نہ لے  لیں  راہب نے کہا :یزید اس سر کے عوض تمہیں کتنا انعام دے گا خولی نے بتایاکہ یزید ہم کو دس ہزار درہم سے بھری ایک تھیلی دے گا  راہب نے کہامیں تجھے ایک ایسی ہی تھلی دوں گا تو یہ سر مجھے دیدے خولی نے کہا :کہ پہلے درہم سے بھری ہوئی تھیلی حاضر کرو  تب میں یہ سر دوں گا راہب نے ایک تھیلی لاکر خولی کو دے دی اوروہ  سر اقدس کو لے کر دیر میں چلاگیااس نے سب سے پہلے سراقدّس کو مشک و  عنبر سے دھویااور اپنے سامنے رکھ کر رونے لگااور فریاد کی :”واللہ یعز علی یااباعبد اللہ ان لااوصیک  بنفسی ” خداکی قسم !میرے لئے بہت سخت ہے کہ میں کربلا میں  آپ کے ہمراہ نہیں تھاتاکہ اپنی جان آپ پر فداکرتا “و لکن یاابا عبد اللہ اذا لقیت جدّک محمدالمصطفی فاشہد لی ” جب روز قیامت اپنے جد رسول خداسے ملاقات کرو  تو ان کے سامنے میرے گواہ رہنا  میں آپ کے سر کے سامنے یہ اقرار کرتا ہوں :” اشہد ان لاالہ الّا اللہ وحدہ لاشریک لہ و اشہد ان محمداً رسول اللہ و اشہد ان علیاً ولی اللہ اسلمت علی یدک ” میں آپ کے دست حق پرست  پر ایمان لایااور آپ کاغلام ہوں اس کے بعد امام مظلوم  کے کٹے ہوئے سر نے راہب سے  بات چیت کی اور قیامت میں اس کی شفاعت کی ذمہ داری لی اور نجات کاوعدہ کیا[4]

[1] الملہوف،علی قتلی الطفوف،سیّد ابن طاووس،ص۲۱۰

[2] بحار الانوار،ج۴۵ ،ص۱۲۷ ،باب۳۹

[3] منتھی الآمال ،ج۲ ص۹۷۲

[4] الملہوف علی قتلی الطفوف ،سیّد بن طاووس ،ص۱۴۲۔ ۱۴۳ الخرائج والجرائج ،الراوندی،ج۲ ص۵۷۸۔ ۵۸۰ ،ح ۲،تذکرۃ الخواص،ابن سبط الجوزی،ج۲،ص۲۰۱۔۲۰۲ فاشہد لی ” جب روز قیامت اپنے جد رسول خداسے ملاقات کرو  تو ان کے سامنے میرے گواہ رہنا  میں آپ کے سر کے سامنے یہ اقرار کرتا ہوں :” اشہد ان لاالہ الّا اللہ وحدہ لاشریک لہ و اشہد ان محمداً رسول اللہ و اشہد ان علیاً ولی اللہ اسلمت علی یدک ” میں آپ کے دست حق پرست  پر ایمان لایااور آپ کاغلام ہوں اس کے بعد امام مظلوم  کے کٹے ہوئے سر نے راہب سے  بات چیت کی اور قیامت میں اس کی شفاعت کی ذمہ داری لی اور نجات کاوعدہ کیا[4]

[1] الملہوف،علی قتلی الطفوف،سیّد ابن طاووس،ص۲۱۰

[2] بحار الانوار،ج۴۵ ،ص۱۲۷ ،باب۳۹

[3] منتھی الآمال ،ج۲ ص۹۷۲

[4] الملہوف علی قتلی الطفوف ،سیّد بن طاووس ،ص۱۴۲۔ ۱۴۳ الخرائج والجرائج ،الراوندی،ج۲ ص۵۷۸۔ ۵۸۰ ،ح ۲،تذکرۃ الخواص،ابن سبط الجوزی،ج۲،ص۲۰۱۔۲۰۲

 

تبصرے
Loading...