راہ خدا میں انفاق کے سبق آموز قصے(حصہ دوم)

۶. خشک سالی

سید نعمة اللہ جزائری،جلیل القدر عالم دین اور مقدس اردبیلی کے شاگرد کہتے ہیںایک خشک سالی میں میرے استاد نے کھا نے کے لئے گیہوں وغیرہ جو کچھ بھی ان کے پاس ہوتاتھا فقیروں میں تقسیم کردیتے تھے اور اپنے گھر والوں کے لئے بھی فقیروں کی طرح ایک حصہ بچاتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک دن ان کی بیوی کافی غصہ ہوگئی اوراس نے استاد کے اس کام پر اعتراض کیاکہ آپ تو اپنے بچوں کا بھی خیال نہیں رکھتے اور جو کچھ بھی ہے فقیروں میں تقسیم کردیتے ہیں۔

استاد اس اعتراض کی وجہ سے گھر سے کنارہ کشی کر لیتے ہیں اور مسجد کوفہ میں اعتکاف کے لئے بیٹھ جاتے ہیں۔اعتکاف کے دوسرے دن ایک شخص ان کے دروازہ پر آتا ہے اور بہت اچھے قسم کے گیہوںاور آٹے کی چند بوریاں ان کے لئے لاتا ہے اور کہتا ہے اسے آقا نے بھیجا ہے۔

مقدس اردبیلی کی واپسی پر ان کی زوجہ نے کہا:جو گیہوں آپ نے بھیجا ہے بہت اچھا ہے۔استاد نے کہا:میں نے اس طرح کے مرد عربی کو کبھی نہیں دیکھا ہے اور مجھے اس کی کوئی خبر بھی نہیں ہے اور نہ ہی میں نے یہاں گیہوں بھیجا ہے!مقدس اردبیلی نے اس خدائی تحفہ پر اس کا شکر ادا کیا۔

۷. صدقہ دے کر بلائیں دور کیجئے

امام جعفر صادق(ع) فرماتے ہیں:ایک یہودی اس مقام سے گذر رہا تھا جہاں رسول خدا اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرماتھے اس یہودی نے کہا:”

السام علیک”

آنحضرت نے جواب دیا:”علیک”(تم پر ہو)

اصحاب نے عرض کیا:اس یہودی نے توکہا ہے کہ آپ کو موت آجائے۔(سام موت کے معنی میں ہے)

آپ نے فرمایا:میں نے بھی کہا کہ “تم پر ہو”

اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا:آج اس مرد کو ایک کالا سانپ ڈسےگا اور وہ مر جائے گا۔وہ یہودی وہاں سے چلا گیا اوربیابان سے لکڑیاں جمع کرکے ایک بڑا بوجھ بنایا اور زیادہ دیر نہ گذری کہ وہ واپس آگیا۔جب وہ رسول خدا کے پاس سے گذرنا چاہ رہا تھا تو آپ نے اس سے فرمایا:ذرااس لکڑیوںکے ڈھیر کو زمین پر رکھو۔ اس نے لکڑیوں کو زمین پر رکھ دیا۔اصحاب نے دیکھا کہ ایک کالا سانپ ایک لکڑی کو دانتوں سے پکڑے ہوئے ڈس رہا ہے۔

آنحضرت نے اس یہودی سے سوال کیا:آج تم نے کو ن سا نیک کام انجام دیا ہے؟اس نے کہا:میں نے کوئی خاص کام نہیں کیا ہے۔میں لکڑیاں جمع کررہا تھا اور میرے پاس دو روٹیاں تھیں ایک میں نے خود کھالی اور ایک فقیر کو دے دی۔آنحضرت نے فرمایا:آج تم نے اس صدقہ کے ذریعہ اپنی موت کو دور کیا ہے۔

اس کے بعد آپ نے ارشادفرمایا:”الصدقة ترفع میتة السوء عن الانسان” صدقہ انسان سے ناگہانی اور ناگوار موت کو پلٹا دیتا ہے۔ (1)

۸. اولیائے خدا سے محبت کا نتیجہ

شہر ربیعہ میں یوسف بن یعقوب نامی ایک مالدار زندگی بسر کرتا تھا ۔کسی نے متوکّل عباسی سے کی چغلخوری کردی۔متوکّل نے اسےسامرہ بلا لیاتاکہ اسے سزا دے۔یوسف سامرہ آتے وقت راستہ میں بہت پریشان تھا۔جب سامرہ کے قریب پہنچا تو اس نے اپنے آپ سے کہا کہ میں اپنے آپ کو سو اشرفی میں خدا سے خریدتا ہوں اگر مجھے متوکّل سے کوئی تکلیف نہ پہنچی تو میں ان اشرفیوں کو”ابن الرض(ع)”(امام محمد تقی)(ع) کی خدمت میں پیش کروں گا ۔جن کو خلیفہ نے مدینہ سے سامرہ بلاکر خانہ نشین کردیا ہے اور میں نے سنا ہے کہ وہ اقتصادی اعتبار سے بہت زیادہ سختی میں ہےں۔

وہ جیسے ہی سامرہ کے دروازہ پر پہنچااس نے اپنے آپ سے کہا بہتر ہے کہ متوکّل کے پاس جانے سے پہلے سو دینار مول(ع)کی خدمت میں لے جاوٴں لیکن وہ آپ (ع) کا گھر ہی نہیں جانتاتھا،سوچا اگر کسی سے آپ(ع) گھر کا پتہ معلوم کرتا ہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بات متوکّل کو معلوم ہوجائے کہ میں “ابن الرض(ع)” کے گھر کی تلاش میں تھا تو وہ اور زیادہ غضبناک ہوجائے گا۔

وہ کہتا ہے کہ اچانک میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ میں اپنی سواری کو آزاد چھوڑدوں ممکن ہے خدا کے لطف وکرم سے بغیر کسی سے معلوم کئے امام کے گھر پہنچ جاوٴں۔وہ کہتا ہے کہ میں نے اپنی سواری کو آزاد چھوڑدیا وہ گلیوں اور بازاروں سے گذرتی ہوئی ایک گھر کے دروازے پر جاکر رک گئی میں نے بہت کوشش کی لیکن وہ وہاں سے آگے نہ بڑھی۔میں نے ایک شخص سے پوچھا یہ کس کا گھر ہے؟اس نے جواب دیا یہ”ابن الرض(ع)” رافضیوں کے امام کا گھر ہے۔میں نے کہا کہ ان کی عظمت وشرافت کے لئے یہی کافی ہے کہ انھوں نے بغیر سوال کے میری سواری کو اپنے دروازے پر لاکر کھڑا کردیا۔

میں اسی فکر میں تھا کہ ایک سیاہ پوست غلام گھر سے باہر آیا اور کہا: تم ہی یوسف بن یعقوب ہو؟میں نے جواب دیا: ہاں۔غلام نے کہا:سواری سے اترو:وہ مجھے گھر کے اندر لے گیا اور خود ایک کمرہ میں چلا گیا۔میں نے اپنے آپ سے کہاکہ یہ دوسری دلیل ہے کہ جس غلام نے مجھے آج تک دیکھا ہی نہیں وہ کیونکر میرے نام سے آگاہ تھا۔ میں تو ابھی تک اس شہر میںبھی نہیں آیا تھا؟!

غلام دوبارہ آیا اور اس نے کہا:جن سو اشرفیوں کو تونے اپنی آستین میں چھپا رکھا ہے لاوٴاسے دے دو۔میںنے اپنے آپ سے کہا:یہ ہوئی تیسری دلیل۔غلام گیا اور فوراً پلٹ آیا اور اس نے مجھ سے گھر کے اندرونی حصہ کی طرف جانے کو کہا۔ میں نے اپنے خچر کووہیں باندھا اور گھر میں داخل ہوگیا۔میں نے دیکھا کہ ایک شریف اور با عظمت شخص تشریف فرما ہیں۔انہوں نے فرمایا:اے یوسف! کیا تونے اتنی دلیلیں نہیں دیکھیںکہ اسلام لے آوٴ؟میں نے کہا: میں نے یہ اندازہ کافی مشاہدہ کیا ہے۔آپ(ع) نے فرمایا:افسوس کہ تو مسلمان نہ ہوگا لیکن تیرا بیٹا اسحاق مسلمان ہوجائے گا اور وہ میرے شیعوں میں سے ہو گا۔اے یوسف! بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہماری محبت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔خدا کی قسم ایسا نہیںہے بلکہ جو بھی ہم سے محبت کرے گا وہ اس کا فائدہ دیکھے گا۔چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم! اب تم مطمئن ہو کر متوکّل کے پاس جاوٴ اور ذرا بھی نہ گھبراوٴ،تمہیں اس سے کوئی تکلیف نہ پہنچے گی۔جب تم شہر میں داخل ہوئے تو خداوندعالم نے تمہارے لئے ایک ملک کو معین کیا جوتمہارے خچر کی راہنمائی کررہا تھا اور اسے میرے گھر تک لے آیا۔

یوسف بن یعقوب کے بیٹے اسحاق نے جب اپنے باپ کی واپسی پر ماجرا سنا تو وہ مسلمان ہوگیا۔لوگوں نے امام (ع) سے اس کے باپ کے بارے میں سوال کیا توآپ(ع) نے فرمایا:اگر چہ وہ مسلمان نہیں ہوا اور جنت میں نہ جا سکے گالیکن وہ ہم سے محبت کا نتیجہ اور فائدہ ضرور دیکھے گا- (2)

۹. عالم اور محتاج پڑوسی

عظیم الشان عالم دین اور فقیہ علامہ سید جواد عاملی نجفی صاحب کتاب”مفتاح الکرامہ” بیان کرتے ہیں:

ایک رات میں کھانا کھا رہا تھا کہ یکایک کسی نے دق الباب کیامیں سمجھ گیا کہ وہ جناب علامہ سید بحرالعلوم کا خادم ہے۔ میں نے جلدی سے دروازہ کھولا،سید کے خادم نے کہا:آقا کا رات کا کھانا تیار ہے اور میں نے ان کے سامنے کھانا لگادیا ہے،اور وہ آپ کے منتظر ہیں۔ جلدی چلئے ۔میں خادم کے ساتھ ساتھ سیدعلامہ بحرالعلوم کے گھر گیا ۔جیسے ہی سید کی خدمت میں پہنچا اور ان کی نگاہ مجھ پر پڑی تو انھوں نے فرمایا:تم خدا سے نہیںڈرتے کہ اس کی دیکھ بھال نہیں کرتے؟

میں نے سوال کیا:کیا ہوا ہے؟انہوں نے کہا:تمہارا ایک بھائی ہر رات اپنے گھر والوں کے لئے کم قیمت والا کھجور قرض پر لیتا تھا اور اس کی مالی حالت اتنی خراب ہے کہ وہ کوئی دوسری چیز نہیں خرید سکتا۔آج سات دن گذر چکے ہیں اور انھوں نے کم قیمتی کھجور کے علاوہ کچھ نہیں کھایا ہے۔وہ آج بھی دوکاندار کے پاس گیا تاکہ وہی کھجور خرید ے لیکن دوکاندار نے کہا کہ تمہارا قرض بہت زیادہ ہوچکا ہے۔وہ شخص شرما گیا اور بغیر کچھ خریدے گھر واپس آگیا،آج اس نے اور اس کے خانوادہ نے بغیرکچھ کھانے کے رات گذاری ہے لیکن تم اچھے اچھے کھانے کھا رہے ہو۔میں تمہارے ایک پڑوسی کی بات کررہا ہوں۔اس کے بعد انہوں نے اس کا نام لیا۔

میں نے عرض کیا:مجھے اس کی حالت کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔سید بحر العلوم نے فرمایا:اگر تمہیں خبر ہوتی اورتم اس کی مدد نہ کرتے تو تم یہودی بلکہ کافر ہوتے۔میرا غصہ اس بات پر ہے کہ تم اپنے دینی بھائیوں کے حالات کیوں نہیں معلوم کرتے اور اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری کیوں نہیں کرتے؟

ابھی میرا خادم کھانے کے ان برتنوں کو اٹھاتا ہے اور تم اس کے ساتھ اس شخص کے گھر جاوٴ اور اس سے کہومیں چاہتا ہوں کہ آج رات ہم ایک ساتھ کھانا کھائیں۔اور اس تھیلی میں ایک مقدار پیسہ ہے اسے اس کے چٹائی کے نیچے رکھ دینا اور برتنوں کو واپس نہ لانا۔خادم نے برتنوں کو ایک بڑی سی سینی میں رکھ کر اٹھایا اور اس کے گھر کے دروازہ تک لے گیا اور وہیں سے واپس ہوگیا۔میں نے دق الباب کیا پڑوسی نے دروازہ کھولا میں گھر میں داخل ہوا اورمیں نے کہا میں چاہتا ہوں کہ آج رات ہم سب ایک ساتھ کھانا کھائیں۔اس نے بھی قبول کرلیا۔جب اس نے سینی کو اپنی طرف کھینچا تودیکھا کہ کھانے کی بہت ہی اچھی خوشبو آرہی ہے اور یہ مالداروں کا کھانا لگ رہا ہے۔

اس شخص نے مجھ سے کہایہ کھانا کسی معمولی آدمی کے یہاں کا نہیں ہے بلکہ کسی مالدار آدمی کے گھر کا معلوم ہوتا ہے۔پہلے اس کا قصہ بیان کرو۔پھر میں کھاوٴں گا۔اس نے اتنا اصرار کیا کہ مجھے ماجرا بیان کرنا پڑا۔اس نے قسم کھائی اور کہا:خدا کے علاوہ ابھی تک کوئی دوسرامیرے حال سے واقف نہیں تھا۔یہاں تک کہ قریبی پڑوسی بھی نہیں جانتے تو دوسروں کی کیا بات اوراس نے اس واقعہ کو سید بحرالعلومۺ کی ایک کرامت شمار کیا۔

۱۰ . یتیموں کے ساتھ نوازش

شیخ بہائیۺ نے اپنی کتاب کشکول میںیہ واقعہ تحریر کیا ہے :بصرہ کے اطراف میں ایک شخص اس دار فانی سے کوچ کر گیاتھا اور چونکہ وہ گناہوں میںاتنا زیادہ ملوث تھا کہ کوئی بھی اس کی تشییع جنازہ کے لئے تیار نہ ہوا۔اس کی بیوی نے کچھ لوگوں کوکرایہ پر لیا اور وہ جنازہ کو نماز جنازہ کے مقام تک لے گئے لیکن کسی نے اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھی آخر کار اسے دفن کرنے کے لئے شہر سے باہر لے گئے۔

اسی اطراف میں ایک مرد زاہدبھی رہتا تھا اور وہ بہت مشہور تھا لوگ اس کی سچائی اور پاکدامنی پر بھروسہ کرتے تھے۔لوگوں نے دیکھا کہ وہ مرد زاہد اس جنازہ کا منتظر ہے۔جیسے ہی جنازہ کو زمین پر رکھا ،وہ قریب آیا اور اس نے کہا کہ نماز جنازہ کے لئے تیار ہو جاوٴ اور اس نے خود نماز جنازہ پڑھائی۔زیادہ دیر نہ گذری تھی کہ یہ خبر شہر میں پہنچ گئی۔لوگ ماجرا معلوم کرنے اور زاہد سے عقیدت کی بنا پر ثواب حاصل کرنے کی غرض سے گروہ گروہ آتے تھے اور اس جنازہ پر نما زپڑھتے تھے۔سب اس واقعہ سے حیرت زدہ تھے۔آخر کار لوگوں نے اس زاہد سے پوچھا کہ آپ نے کیسے اس جنازہ کے آنے کے بارے میں اطلاع حاصل کی؟

مر دزاہد نے کہا:میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھ سے کہا جارہا ہے کہ جاوٴ اور فلاں جگہ پر کھڑے ہوجاوٴ وہاں ایک جنازہ لائیں گے جس کے ساتھ صرف ایک عورت ہو گی ۔اس جنازہ پر نماز پڑھو کہ اسے بخش دیا گیا ہے۔زاہد نے اس عورت سے دریافت کیا کہ تمہارا شوہر کون سا نیک عمل انجام دیتا تھا جس کی وجہ سے اسے معاف کردیا گیا ہے؟

عورت نے کہا:وہ تو رات ودن گناہوں میں ملوث رہتا تھا۔زاہد نے پوچھا کہ کیا کوئی نیک کام بھی کرتا تھا؟اس نے جواب دیا:ہاں ! وہ تین نیک کام انجام دیتا تھا:

۱۔رات میں جب بھی مستی سے ہوش میں آتا تھا تو گریہ کرتا تھا اور کہتا تھا:خدا تو مجھے جہنم کے کس گوشہ میں جگہ دے گا؟!

۲۔جب صبح ہوتی تھی تو کپڑا بدلتا، غسل کرتا اور وضو کرکے نماز ادا کرتا تھا۔

۳۔اس کا گھر کھبی بھی دو تین یتیموں سے خالی نہیں رہتا تھاوہ یتیموں سے اتنی محبت اور شفقت کرتا تھا کہ جتنی اپنے بچوں سے بھی نہیں کرتا تھا۔ (3)

______________________________________

(1)فروع کافی/ج/۴،ص/۵

(2)مجمع النورین نقل از خرائج وبحار الانوار/ج/۱۲))

(3)شجرہٴ طوبیٰ/ج/۲،ص/۲۷۸

 

 

تبصرے
Loading...