راہ خدا میں انفاق کے سبق آموز قصے(حصہ اول)

1رسول خدا سے سیکھیں

رسول خدا کا پیراہن پرانا ہوگیا تھا،ایک شخص نے آپ کی خدمت میںبارہ درہم ہدیہ کیا۔آپ نے وہ درہم حضرت علی (ع) کے حوالہ کیا تا کہ آپ کے لئے بازار سے ایک پیراہن لائیں۔حضرت علی (ع) نے اتنی ہی قیمت کا ایک لباس خریدا،جب آپ وہ پیراہن رسول خدا کی خدمت میں لائے توآپ نے فرمایا:یہ پیراہن بہت قیمتی ہے۔
اس سے کم قیمت کا پیراہن میرے لئے زیادہ بہتر ہوگا۔کیا تم سوچتے ہو کہ ودکاندار اسے واپس لے لے گا؟
حضرت علی (ع) نے عرض کی:نہیں معلوم۔
آپ نے فرمایا:اس کے پاس جاوٴ شاید راضی ہوجائے؟
حضرت علی (ع) اس دوکاندار کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:رسول خدا نے فرمایا ہے کہ یہ پیراہن میرے لئے زیادہ قیمتی ہے اور میں اس سے سستا اور کم قیمت کا لباس چاہتا ہوں۔دوکاندارراضی ہوگیا اوراس نے وہ بارہ درہم واپس کردیئے۔
حضرت علی (ع) فرماتے ہیں:میں درہم لے کر واپس آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوا توآپ خودمیرے ساتھ بازار تشریف لے گئے تاکہ پیراہن خریدیں۔آپ نے راستہ میں ایک کنیز کو دیکھا جوا یک گوشہ میں بیٹھی رو رہی تھی، آنحضرت(ع) اس کے قریب گئے اور رونے کا سبب دریافت فرمایا:کنیز نے کہا:یا رسول اللہ!میرے مالک نے کچھ سامان کی خریداری کے لئے مجھے بازار بھیجا تھا اور میرے پاس چار درہم تھے لیکن میں نے انھیں کھو دیا ہے۔
رسول خدا نے پیراہن کے بارہ درہم میں سے چار درہم اسے عطا فرمائے اور چار درہم کا ایک پیراہن بھی خریدا۔
واپسی میں ایک فقیر نے آپ سے لباس کا تقاضا کیا، آنحضرت نے وہ پیراہن اسے عطا کردیا اور پھر بازار واپس جاکر باقی چار درہم سے ایک دوسرا پیراہن خریدا۔جب اس جگہ پر پہنچے جہاں کنیز سے ملاقات ہوئی تھی تو دیکھا وہ ابھی تک رورہی ہے اس کے پاس گئے اور فرمایا:اب کیوںرورہی ہے؟
کنیز نے کہا مجھے گھر سے نکلے ہوئے بہت دیر ہوگئی ہے میں ڈر رہی ہوں کہ کہیں میرا مالک مجھے مارے نا !
آپ نے فرمایا:تو آگے آگے چلو اور مجھے اپنے مالک کاگھر بتا۔
رسول خداجیسے ہی گھر کے دروازہ پر پہنچے آپ نے صاحب خانہ کو سلام کیا ۔لیکن اس نے تیسری مرتبہ بھی جواب سلام نہ دیا۔رسول خدانے سلام کا جواب نہ دینے کے بارے میں سوال فرمایاتو مکان مالک نے عرض کیا:میں نے چاہا کہ آپ کا درودوسلام ہم پر زیادہ سے زیادہ ہو تاکہ نعمتوں میں اضافے اور ہماری سلامتی کا باعث بنے۔
آنحضرت نے کنیز کاواقعہ بیان فرمایااور اس سے فرمایا: کہ وہ کنیز کو معاف کردے ۔ کنیز کے مالک نے کہا:چونکہ آپ تشریف لائے ہیں اس لئے میں نے اسے آزاد کردیا۔اس وقت آپ نے فرمایا:میں اس قدر خیروبرکت والے بارہ درہم نہ دیکھے تھے۔جنہوں نے دو برہنہ شخص کو لباس اور ایک کنیز کو آزاد کرادیا۔(۱)

۲ اخلاص عمل حضرت علی – سے سیکھیں
صاحب کتاب”دررالمطالب”تحریر فرماتے ہیں:ایک دن حضرت علی (ع)نے راستہ میں ایک عورت کو دیکھا کہ جس کے بچے بھوک سے رو رہے تھے اور وہ انھیں بہلا رہی تھی۔ بچوں کو چپ کرانے کے لئے اس نے چند اینٹوں پر ایک دیگ رکھ رکھی تھی جس میں پانی کے علاوہ کچھ نہ تھا اور اس کے نیچے آگ جل رہی تھی تاکہ بچے یہ خیال کریں کہ وہ ان کے لئے کھانا پکارہی ہے اس طرح اس عورت نے ان بچوں کو سلا دیا۔
حضرت علی (ع) یہ ماجرا دیکھ کر قنبرۻ کے ساتھ تیزی سے گھر گئے ۔کھجور کا ایک برتن ، آٹے کی ایک بوری اور تیل،چاول اپنے کاندھے پر رکھ کر وہاں واپس آئے۔قنبرۻ نے آپ(ع) سے عرض کی کہ اجازت دیجئے تاکہ میں ان سامان کو اٹھالوںلیکن آپ(ع) راضی نہ ہوئے۔جب اس عورت کے گھر کے قریب پہنچے تو گھر میں داخل ہونے کی اجازت لے کر گھر میں داخل ہوگئے۔چاول اور تیل پتیلی میں ڈالا اور ایک اچھا کھانا تیار کردیا۔اس کے بعد بچوں کو جگایا اور اپنے ہاتھوں سے انھیں کھانا کھلایا یہاں تک کہ وہ سیر ہو گئے۔ اس کے بعد تھوڑی دیر تک ان کے ساتھ کھیلتے رہے جس سے بچے پہلے والی تکلیف بھول گئے اس کے بعد آپ(ع) گھر سے باہر تشریف لائے۔
قنبرۻ نے عرض کی :اے میرے آقا ومولا!آج میں نے آپ سے دہ چیز مشاہدہ کیا ہے جن میں سے ایک کی علت تو جانتا ہوں لیکن دوسری کا سبب میرے لئے واضح نہیں ہے وہ یہ کہ یتیم بچوں کے سامان کو آپ(ع) نے خود اٹھایا اور اجازت نہ دی کہ میں بھی اس میں شریک ہوتا یہ کام اجرو ثواب کے حصول کے لئے تھا۔لیکن بچوں کے ساتھ کھیل کر ان کو بہلاناکس لئے تھا؟آپ(ع) نے فرمایا:میں جب ان بچوں کے پاس گیا تھا تو وہ بھوک سے رو رہے تھے ،میں نے چاہا کہ جب ان کے پا س سے واپس آوٴں تو وہ سیر بھی ہوچکے ہوں اور ہنس بھی رہے ہوں۔ (2)
۳ شفاعت کی سند
خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا کی شہادت کے وقت امیرالمومنین حضرت علی (ع) نے آپ کے بستر کے پاس ایک صندوقچہ دیکھا تو آپ نے سوال فرمایایہ کیا ہے؟
جناب فاطمہ زہرا نے عرض کیا:اس صندوقچہ میں ایک سبز حریر ہے اور اس حریر کے درمیان ایک سفید صفحہ ہے اور اس صفحہ میں چند سطریں تحریر ہیں۔
حضرت علی (ع) نے فرمایا: اس کا مضمون کیا ہے؟بنت رسول نے جواب دیا:شادی کی رات میں اپنے مصلے پر بیٹھی ہوئی تھی کہ ایک فقیر آیا اور اس نے لباس کا تقاضا کیا۔میرے پاس صرف دو لباس تھے ایک نیا جو اس رات زیب تن کیا تھا اور ایک پرانا جوڑا تھا۔میں نے نئے لباس کو فقیر کو دے دیا۔
صبح میرے والد بزرگوار مجھ سے ملاقات کے لئے تشریف لائے آپ نے فرمایا: فاطمہ تمہارے پاس تو نیا کپڑا تھا اسے کیوں نہیں پہنا۔میں نے عرض کیا: کیا آپ نے نہیں فرمایا ہے کہ انسان جو کچھ بھی صدقہ میں دے گا اور اس سے غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرے گا وہ اس کے لئے باقی رہے گا۔ میں نے بھی اس نئے کپڑے کو ایک فقیر کو دے دیا۔
آپ نے فرمایا:اگر تم نیاکپڑا پہنتی اور پرانے کپڑے کو فقیر کو دے دیتی تو یہ تمہارے شوہر کے لئے بھی بہتر ہوتا اور وہ فقیر بھی لباس پاجاتا۔
میں نے عرض کیاکہ اس کام میں بھی میں نے آپہی کی پیروی کی ہے اس لئے کہ میری ماں خدیجہ نے جب آپ کی خدمت کا شرف حاصل کیا اور اپنی ساری دولت آپ کے حوالہ کردیا اور آپ نے ساری دولت راہِ خدا میں عطا کردی یہاں تک کہ ایک سائل نے آپ سے ایک لباس کا مطالبہ کیا تو آپ نے اپنا لباس اسے دے دیااور ان کاموں میں آپ کے مثل کوئی نہیں ہے۔(یہ سن کر)میرے والدرو دیئے اور مجھے سینہ سے لگا لیا۔ اس وقت آپ نے فرمایا:(ابھی)جبرئیل نازل ہوئے تھے اور خدا کی جانب سے تمہیں سلام عرض کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے(کہ خداوندعالم فرماتا ہے)فاطمہ سے کہہ دیجئے وہ کہ جو کچھ بھی مجھ سے چاہتی ہیں طلب کرلیںکہ میں ان کو دوست رکھتا ہوں۔میں نے عرض کی:”یا ابتاہ شغلتنی عن المسئلة لذة خدمتہ لاحاجة لی غیر لقاء ربی الکریم فی دار السلام”بابا جان! خدا کی خدمت کی لذت اور شیرینی نے مجھے کسی دوسری چیز کے مطالبہ سے روک رکھا ہے اور خدا سے ملاقات کے علاوہ میری دوسری کوئی آرزو نہیں ہے۔
میرے والد ماجد نے اپنے دست مبارک کو آسمان کی طرف بلند کیا اورمجھے بھی حکم دیا کہ میں بھی اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کروں ۔اس کے بعد فرمایا:”اللھم اغفرلامتی” خدایا! میری امت کو بخش دے۔
(
اسی وقت)جبرئیل نازل ہوئے اور آپ کی خدمت میں عرض کی: خداوندعالم فرمارہا ہے: تمہاری امت میں سے جو لوگ فاطمہان کے شوہر اور ان کی اولاد سے محبت کریں گے میں انھیں بخش دوں گا۔
میں نے اس بات کے لئے ایک سند اور نوشتہ کا بھی مطالبہ کیا تو جبرئیل یہ سبز حریر لے کر آئے اس میں یہ لکھا ہوا ہے:”کتب ربکم علی نفسہ الرحمة” جبرئیل ومکائیل نے بھی اس کی گواہی دی ہے۔میرے والد بزرگوار نے فرمایا:اس سبز حریر کو حفاظت سے رکھو اور وفات کے وقت وصیت کرو کہ اسے تمہارے ساتھ قبر میں دفن کر دیں۔ میں چاہتی ہوں کہ قیامت کے دن جب آتش جہنم کے شعلے بھڑک رہے ہوں گے تو تم میری امت کی بخشش کی دعاکرو۔ (3)

۴ دوست و دشمن پر انفاق
معلی بن خنیس کا بیان ہے کہ برسات کی ایک رات میں نے امام جعفر صادق(ع) کو دیکھا کہ اپنے گھر سے نکل کر “ظلہ بنی ساعدہ” (ایک سائبان جس میں بے گھر افراد گرمی اور سردی سے بچنے کے لئے پناہ لیتے تھے)کی طرف تشریف لے جا رہے ہیں۔میںخاموشی سے آپ(ع) کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔راستہ میں آپ(ع) کے دست مبارک سے کوئی چیز زمین پر گر پڑی آپ(ع) نے فرمایا:”بسم اللّٰہ اللّٰھم ردّ علینا”خدا میری گمشدہ چیز کو پلٹا دے۔اس وقت میں امام(ع) کے قریب گیا اورآپ(ع) کو سلام کیا آپ(ع) نے فرمایا:-معلّیٰ تم ہو؟میں نے عرض کیا:ہاں،میں آپ(ع) پر قربان ہوجاوٴں۔آپ(ع) نے فرمایا:تلاش کرو اور جو کچھ بھی پاوٴ مجھے دے دو۔میں نے زمین پر ہاتھ پھیرا،معلوم ہوا کہ بہت زیادہ روٹیاں زمین پربکھری ہوئی ہیں میں جتنی بھی پا سکااسے آنحضرت(ع) کی خدمت میں پیش کردیا۔میں نے دیکھا کہ روٹیوں سے بھرا ہوا ایک بہت بڑا تھیلا ہے جواتنا وزنی ہے کہ اس کا اٹھانا میرے لئے دشوار ہے۔
میں نے عرض کیا:اجازت دیجئے میں اٹھا لوں!آپ(ع) نے فرمایا:میں اس کے اٹھانے کا زیادہ حقدار ہوں۔لیکن تم میرے ساتھ آوٴ تاکہ ایک ساتھ ظلہٴ بنی ساعدہ چلیں۔جب ہم لوگ
وہاں پہنچے تو میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا جو وہاں سو رہے تھے۔امام جعفر صادق(ع) ہر ایک کے پاس ایک ایک یا دو دو روٹی رکھتے جاتے تھے۔اس طرح سے آپ(ع) نے سب پر روٹی تقسیم کر،(اس کے بعد)ہم لوگ ظلہٴ بنی ساعدہ سے باہر آئے۔میں نے عرض کیا:کیا یہ لوگ حق کو پہچانتے ہیں(اور شیعہ ہیں؟)آپ(ع) نے فرمایا:اگر حق کو پہچاننے والے ہوتے تو میں انھیں اپنے گھر کے نمک میں بھی شریک کرتا۔(اے معلی!)جان لوکہ خداوندعالم نے کسی چیز کو بھی خلق نہیں کیا ہے ۔جو اس کا محافظ اور نگہبان ہے۔میرے والد ماجد(امام محمد باقر(ع))جب بھی صدقہ دیتے تھے اورکوئی چیز بھی سائل کے ہاتھ میں رکھتے تھے تو اسے واپس اٹھالیتے تھے اسے چومتے اور سونگھتے تھے اس کے بعد دوبارہ سائل کے ہاتھ میںدے دیتے تھے۔رات میں صدقہ دینا خد اکے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے،گناہوں کو محوکردیتا ہے۔روز قیامت کے حساب وکتاب کو آسان بنا دیتا ہے اور دن میں صدقہ دینا مال اور عمر میں اضافے کا باعث ہے۔حضرت عیسیٰ بن مریم(ع) دریا کے کنارے سے گذرتے تھے تو اپنے کھانے میں سے ایک روٹی دریا میں ڈال دیتے تھے۔ایک حواری نے آپ(ع) سے عرض کی :آپ(ع) نے ایسا کیوں کرتے ہیں جبکہ روٹی آپ(ع) کا کھانا ہے؟آپ(ع) نے فرمایا:میں نے یہ روٹی دریا میں اس لئے ڈالی ہے وہ کسی دریائی جانور کا حصہ بنے۔خدا کے نزدیک اس کام کا بہت بڑا اجر وثواب ہے۔ (4)
۵ بھوکے جانور پر انفاق
ایک سال قحط میں جبکہ لوگ بہت زیادہ سختی اور پریشانی میں مبتلا تھے ایک دینی طالب علم نے دیکھا کہ ایک کتیا زمین پرلیٹی ہے اور اس کے بچے اس کے دودھ سے چپکے ہوئے ہیں۔کتیا زمین سے اٹھنا چاہتی ہے لیکن کمزوری کی وجہ سے نہیں اٹھ پاتی وہ اپنی طاقت وقوت کو کھو بیٹھی ہے۔طالب علم کو اس جانور کی یہ حالت دیکھ کر بہت رحم آیا۔اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہ تھی جو اس جانور کو دیتا مجبوراً اپنی کتاب کو بیچا اور اس کے پیسہ سے روٹی خرید کر کتیا کے سامنے رکھ دیا۔
کتیا نے آسمان کا رخ کیا اس کی آنکھوں سے آنسو کا قطرہ ٹپکا گویا وہ طالب علم کے لئے دعا کر رہی تھی۔رات میں اس طالب علم نے خواب میں دیکھا کہ اس سے کوئی کہہ رہا ہے:”انا اعطیناک من لدنا علماً” میں نے تمہیں اپنے پاس سے علم عطا کیا۔اس طالب علم نے بھی اپنے اندر بہت زیادہ علم کا احساس کیا جس کے نتیجہ میں اسے زیادہ پڑھنے اور مطالعہ کرنے کے رنج و مشقت کی ضرورت نہ تھی (۔5 )
_____________________________________
(1)
حیات القلوب/ج/۲،ص/۱۱۶

2)شجرہٴ طوبیٰ

3)ریاحین الشریعہ نقل از ابن جوزی ،ص/۱۰۶

 4)فروع کافی جلد/۴ ،ص/۹

 5)مجمع النورین/ص/۲۷

 

 

 

تبصرے
Loading...