ذکر علی (ع)

عالمی اُردو کانفرنس کے زیر اہتمام نئی دہلی میں اولین عالمی جشن مولود کعبہ کے موقع پرعلاّمہ کوثر نیازی ( سابق وزیر اطلاعات پاکستان ) کی تقریر
خواتینو حضرات

میں سب سے پہلے عالمی اُردو کانفرنس کے بانی جناب علی صدیقی کو اس بین الاقوامی جشن مولود کعبہ کا اہتمام کرنے پر ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں ۔ آپ کے ملک میں کتنے محبان علی علیہ السلام موجود تھے مگر انھیں ہی یہ شرف حاصل ہوا کہ پہلی بین الاقوامی کانفرنس اس موضوع پر انھوں نے منعقد کی ،مجھے یقین ہے کہ اس میں کچھ ادھر کابھی اشارہ شامل ہے جیسا کہ جگر نے کہا ہے:

مری طلب بھی کسی کے کرم کا صدقہ ہے قدم یہ اٹھتے نہیں ہیں اٹھائے جاتے ہیں لیکن آج کا جشن صرف عالمی اُردو کانفرنس کا جشن نہیں ہے یہ فقہ کلام ، ہندسہ حساب ، تصوف و طریقت کا جشن ہے ۔ آج فصاحت و بلاغت اور قانون و عدالت کا جشن ہے ۔ یہ نسب و شرافت اور جود و سخا کا جشن ہے ۔ ذہانت و ذکاوت اور تہذیب و ثقافت کا جشن ہے ۔مجھ سے پہلے مقریرین نے اپنے اپنے انداز و نظر سے اسے بیان کیا ہے ۔ لیکن میں اسے اور زاویہ نگاہ سے دیکھتا ہوں ۔میرے نزدیک جو خدا کا گھر تھا وہی حضرت علی ( علیہ السلام )کا گھر بنا ۔ وہ بیت اللہ بھی اور بیت حضرت علی ( علیہ السلام )بھی ۔ قیامت تک اربوں انسان جب اللہ کے گھر کا طواف کریں گے تو گویا حضرت علی ( علیہ السلام ) کی جائے پیدائش کا بھی طواف کریں گے ۔ آج اس کا جشن ہے جو پیدا بھی خدا کے گھر میں ہوا اور اسے شہادت کا پیام بھی خدا کے گھر میں ملا۔انسانی تاریخ کی ورق گردانی کر لو نہ حضرت علی ( علیہ السلام )سے پہلے کسی کو یہ مرتبہ ملا ،اور نہ حضرت علی ( علیہ السلام ) کے بعد یہ مقام کسی کو ملا ، کوئی ایسا شخص نہیں دکھا سکتے ہو جس کی زندگی کا آغاز و انجام اتنا حَسین ہو جتنا حَسین حضرت علی ( علیہ السلام ) کی زندگی کا آغاز و انجام ہے :

کسی را میسر نہ شد این سعادت

بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت

آج اس کا جشن ہے۔

میرے ایک پیش رو مقرر نے کہا کہ دو مکاتب فکر ہیں ایک مکتب فکر آپ کو علیہ السلام کہتا ہے ، دوسرا کرم اللہ وجہہ کہتا ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ وہ ایک تیسرے مکتب فکر کا تذکرہ کرنا بھول گئے ، تیسرا مکتب فکر وہ ہے اور جس میں میں بھی شامل ہوں ، کہ جو انھیں علیہ السلام بھی کہتا ہے اور کرم اللہ وجہہ بھی کہتا ہے ۔ مگر کرم اللہ وجہہ کیوں کہا جاتا ہے مفہوم یہ ہے کہ آپ کے چہرے کو اللہ نے شرف عطا کیا ،تکریم عطا کی ،دوسروں کو صرف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ، آپ کے لئے یہ بات کیوں خاص ہے ؟ حضرت علی ( علیہ السلام ) کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس بات کا ثبوت ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا ماتھا خدائے واحد کے سوائے کسی کے آگے نہیں جھکا ، ان کی سانس کبھی شرک سے آلودہ نہیں ہوئی۔

یہاں بھی بحثیں ہیں ، تاریخ اٹھاؤ وہاں بھی تمھیں بحثیں ملیں گی کہ سب سے پہلے اسلام کون لایا؟ میرے ایک دوست نے اس کی طرف اشارہ کیا اکثر علماء یہی کہتے ہیں کہ خواتین میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ ۻ ایمان لائیں۔ مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابو بکرصدیق ۻ، غلاموں میں سب سے پہلے حضرت زید اور بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی ( علیہ السلام ) ۔ مگر میں یہ کہتا ہوں کہ حضرت علی ( علیہ السلام ) کے باب میں یہ انصاف نہیں ہے ۔ اسلام لانے کا سوال تو اس کے باب میں پیدا ہوتا ہے جو کسی دوسرے مذہب کا ماننے والا ہو اور اب اسلام قبول کررہا ہو جو پہلے دن ہی سے اسلام کا ماننے والا ہو ، جس نے کعبہ میں جنم لیا ہو ، آغوش رسالت میں پرورش پائی ہو اس کے اسلام لانے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے ۔ بات یہ ہے کہ میں اگر تاریخ لکھنا چاہوں تو حضرت علی ( علیہ السلام ) کے اسلام کے باب میں یوں لکھوں گا کہ حضرت علی ( علیہ السلام ) تو پہلے ہی مسلمان تھے ۔ اور مورخوں اور تذکرہ نگاروں کی کیا بات کروں صرف اسی ضمن میں انھوں نے جناب امیرسے زیادتی نہیں ۔ بنو امیہ کی تھیلیوں کے منھ کھلے اور ایسے لوگوں کی ایک کرایہ دار فوج تیار ہوئی جنھوں نے زبان و قلم سے حضرت علی ( علیہ السلام ) اور آل علی (ع) کو گالیاں دینا اپنی زندگی کا مشن بنا لیا ۔ تو انھوں نے کس کس پہلو میں آپ سے زیادتی نہیں کی ۔ آپ سب تاریخ پڑھنے والے لوگ ہیں ، کتابیں اٹھا کر دیکھیں جناب علی مرتضیٰ (ع) کا جو حلیہ ان کتابوں میں لکھا ہے اسی سے وہ بغض آپ کو ٹپکتا نظر آئے گا کہ جو بنو امیہ کے پروپیگنڈے کا مرہون منت ہے ۔

دنیا کی ساری قوموں میں عرب سب سے بڑھ کر حسین قوم ہے ،عربوں میں قریش اور قریش میں بنو ہاشم اور بنو ہاشم میں جناب عبد المطلب کا گھرانہ اور یہ لوگ جناب عبد المطلب کے پوتے جناب علی (ع) کے بارے میں جو حلیہ بیان کرتے ہیں وہ کچھ یوں ہے کہ وہ پستہ قد تھے پیٹ ان کا بڑھا تھا ٹانگیں پتلی تھیں ، اور یہ آپ کو کم و بیش تاریخ کی سب کتابوں میں لکھا ہو ا ملے گا ۔ اس حلیے سے تصور میں ایک ایسا شخص آتا ہے جو خوبصورت تو کجا قبول صورت بھی نظر نہیں آتا ۔ مگر یہ لوگ بھول گئے کہ یہ جو سید نا علی (ع) کو ہر دور میں خوش نصیب خواب میں دیکھیں گے اور کچھ خوش نصیبوں کو تو وہ عالم بیداری میں بھی نظر آئیں گے ۔ ان کی شہادت کو کیسے نظر انداز کیا جائے گا میں دور کی بات نہیں کرتا اسی مجلس میں ہمارے دوست علی صدیقی موجود ہیں ، جنھیں جناب علی (ع) خواب میں نظر آئے اور ان کی زندگی بدل کر رہ گئی ۔ مولاعلی (ع) کا کرم عام رہا ہے ۔ پہلے بھی تھا ، اب بھی ہے میں کسی مسلمان کی بات نہیں کرتا ایک غیر مسلم پارسی کی بات کر رہاہوں ۔ کل جامعہ ملیہ کے وائس چانسلر نے ان کی کتاب کا ذکر کیا وہ معمولی آدمی نہیں ، کئی کتابوں کے مشہور مصنف اور انگلینڈ میں آکسفورڈ کے پہلے اور اب تک آخری ہندوستانی صدر ہیں ، ان کا نام مسٹر ایف ڈی کراکا ہے جن کی خود نوشت سوانح حیات کا نام ہے ”The came Hazrat Ali “ مولا علی (ع) نے اس شخص پر کیا کیا کرم کئے کیسے خواب میں آکر اس کی زندگی بنا دی ۔ اس کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں صرف اس خواب کا ذکر کر رہا ہوں جس میں مٹر کراکا نے جناب علی (ع) کی زیارت کی جب جناب امیر اس کے سامنے آئے تو کیسے لگ رہے تھے ۔ کوئی مسلم نہیں ایک غیر مسلم شہادت دے رہا ہے ۔ الفاظ پر غور کیجئے وہ لکھتے ہیں :

”But I could not see anything except a blind light. It was like looking the sun“مگر اس کے سوا کچھ نہیں دیکھ سکا کہ ایک نور چمکا ایک جلوہ سامنے آیا میری آنکھیں چند ھیا گئیں۔

” میں نے اس طرح اس کے اندر دیکھا جیسے سورج کے اندر دیکھا جاتا ہے “

مجھے شعر یاد آگیا :

نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں

تو یہ اس کا جشن ہے کہ جس کے چہرے پر نگاہ نہیں ٹھہرتی تھی جس کا روئے اقدس سورج کے مانند درخشاں تھا جس نے کبھی اپنی پیشانی ما سوائے اللہ کے کسی کے آگے نہیں چھکائی تھی ۔ جو اسلام پر پیدا ہوا جس نے اسلام پہ جان دی کرم اللہ وجہہ ، جس کے چہرے کو اللہ نے خصوصی فضیلت سے سر فراز فرمایا اور صرف انھیں ہی سرفراز نہیں فرمایا بلکہ ان کے تمام اباو اجداد کو بھی سرفراز فرمایا۔ میرے دوست علامہ قبلہ آغا روحی نے یہ بات تشنہ چھوڑ دی وہ اختلاف میں نہیں پڑنا چاہتے تھے مگر میں مہمان ہونے کا فائدہ اٹھا رہا ہوں اور ویسے بھی :

ہزار خوف ہوں لیکن زباں ہو دل کی رفیق

یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

تو صرف انھیں کو سرفراز نہیں فرمایا : ان کے تمام اباو اجداد کو بھی سر فراز فرمایا ۔

 یہ اس کا جشن ہے جس کے باپ دادا سب دین ابراہیمی کے پیرو تھے ۔ان میں کوئی بت پرست نہ تھا کوئی مشرک نہ تھا اور دوستو! ان تذکرہ نگاروں کا کیا پوچھتے ہو ۔ انھوں نے تو جناب ابو طالب (ع) کو بھی معاف نہیں کیا ۔ غضب خدا کا وہ تاریخ بھی آج اسلامی تاریخ کہلاتی ہے جو ابو سفیان کے ایمان کا تو یقین دلاتی ہے مگر محسن اسلام جناب ابو طالب کے ایمان کے بارے میں دلوں میں شکوک و شبہات کے کانٹے پیوست کر رہی ہے کہتے ہیں اس بارے میں ایک روایت ہے کہ یہ کہا گیا ہے کہ لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ ابو طالب (ع) نے آپ کی بہت امداد و نصرت کی ہے کیا اس کا کچھ صلہ بھی انھیں ملے گا ؟ (ہاں ذرا دل پر پتھر رکھ کر یہ الفاظ سن لیجئے ) ”ہاں انھیں جہنم میں ڈوبا ہوا پایا تو ہم انھیں اپنی شفاعت سے اس مقام پر لے آئیں گے ۔ جہاں جہنم کی آگ ان کے ٹخنوں تک ہوگی مگر اس سے دماغ ان کا کھولتا ہوگا “ اس کو جانے دیجئے قرآن کہتا ہے:

” و من یشفع عندہ الاباذنہ“

کوئی اس کی اجازت کے بغیر شفاعت نہیں کر سکے گا مگر جناب ابوطالب کے بارے میں شفاعت کی اجازت بھی ہوگی اور آنحضور (ص) شفاعت بھی فرمائیں گے مگر شفاعت کی قدر قیمت اللہ کے نزدیک یہ ہوگی کہ انھیں دوزخ سے نہیں نکالا جائے گا ۔ آگ سے ان کا دماغ کھولتا رہے گا اور اسلام اور پیغمبر اسلام پر احسانات کا یہ صلہ ملے گا ۔

اور قرآن جو کہتا ہے :” ھل جزاء الاحسان الا الاحسان“

اور اسلام اور پیغمبر اسلام (ص) سے احسان کا یہ صلہ کون دے گا جو قرآن میں کہتا ہے ” ھل جزاء الاحسان الا الاحسان “ احسان کا صلہ احسان کے سوا کچھ نہیں ہے اور سبحان اللہ حضرت ابو طالب (ع) کے احسانات کا کیا اچھوتا بدلہ ہے جو ہم لوگوں نے آپ کو عطا کیا ہے ۔ حضرت ابو طالب (ع) کی نیکیاں تو اتنی بھاری ہیں کہ خدا کی قسم ساری دنیا کے انسانوں میں تقسیم کر دی جائیں تو کوئی دوزخی نہ رہے ۔ سنی شیعہ سب کتابوں میں لکھا ہے ۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے حضرت ابو طالب (ع) کی زوجہ محترمہ اور جناب علی (ع) کی والدہ معظمہ ، جن کا ذکر ابھی مولانا عباس رضوی نے فرمایا ، فاطمہ ابنت اسد ان مومنہ خواتین میں سے تھیں جو سب سے پہلے اسلام لائیں ۔ حضور (ص) کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا تو انھیں کی گود میں آپ نے پرورش پائی ۔ آپ کو ان سے اتنی محبت تھی کہ ان کی وفات پر اپنا کرتہ ان کا کفن بنانے کے لئے عطا کیا ۔ ان کی قبر میں تدفین سے پہلے آپ خود لیٹ گئے ۔ حضرت فاطمہ بنت اسد کے اسلام لانے کے آٹھ سال بعد حضرت ابو طالب (ع) کی وفات ہوئی ۔ اب یہ مسئلہ سب کو معلوم ہے کہ ایک غیر مسلم اور مشرک مرد کا ایک مومنہ عورت سے نکاح نہیں ہو سکتا ۔ نکاح ہو جائے تو ٹوٹ جاتا ہے ۔ مگر جناب ابو طالب آٹھ سال تک ایک مومنہ بیوی کے ساتھ رہتے ہیں ۔آنحضور (ص)نے علیحدہ نہیں کیا اسی طرح شعب ابو طالب میں شفیق چچا کی آغوش میں ہوتے ہیں ،چچا رات کو اٹھ کر ان کی جگہ اپنے بیٹوں کو لا کر سلاتے ہیں کہ کہیں سوتے میں بھتیجے پر حملہ نہ ہو جائے کہیں ان کی جگہ لوکیٹ ( Locate)نہ ہو جائے کہ وہ کہاں استراحت فرما رہے ہیں ۔قرآن کے احکام یہ ہیں کہ اسلام کے دشمنوں سے دوستی نہ رکھو مگر آپ خاکم بدہن ان آیات قرآنی کو بھول جاتے ہیں اور قدم قدم پر اپنے غیر مسلم چچا کی امداد و نصرت حاصل کرتے ہیں۔

اور آگے بڑھئے حضرت خدیجہ سے آپ کا نکاح ہوتا ہے تو آپ جانتے ہیں کہ نکاح خواں کون ہے ؟ خطبہ نکاح کون پڑھاتا ہے ؟ جس کو شک ہو وہ مولانا شبلی نعمانی کی سیرت النبی اٹھا کر دیکھ لے ۔ اس میں کسی موٴرخ نے اختلاف نہیں کیا کہ خطبہ نکاح جناب ابو طالب نے پڑھا یا ۔ حضرت ابو طالب (ع) وصال پاتے ہیں تو اس سال کو آپ عام الحزن قرار دیتے ہیں ان سارے حقائق کے باوجود جناب ابو طالب کا جرم یہ بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے اسلام کا اعلان نہیں کیا میں کہتا ہوں دوستو انصاف سے کا لو ، اصحاب کہف اپنا مذہب چھپائیں تو دہرے اجر کے مستحق ٹھہریں اور ابو طالب اپنی مصلحتوں کی وجہ سے اسلام کا اعلان نہ کریں تو کافر و مشرق قرار دیئے جائیں یہ تو وہی بات ہوگی:تمھاری زلف میں آئی تو حسن کہلائی

وہ تیر گی جو مرے نامہ ٴ سیاہ میں ہےتو آج کا جشن اس کی ولادت کا جشن ہے جو خود بھی بت پرستی اور شرک کے ہر شائبے سے پاک رہا اور جس کے اباو اجداد بھی ہر طرح طاہر و مطہر رہے آج اس کا جشن ہے جس نے اسلامی سیاست اور غیر اسلامی نظام سیاست میں فرق واضح کیا جس نے خلافت اور ملوکیت کے درمیان حد فاصل کھینچ دی ، جس نے بتایا کہ عارضی کامیابی کے لئے اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرو ،بھائی دشمن کے پاس جا رہا ہے تو جانے دو مگر بیت المال سے اس کا وظیفہ نہ بڑھاؤ۔

اسلام کے پہلے دو خلفاء کا دور تھا کہ اس میں واسطہ دشمنوں سے تھا مرتدوں سے تھا منکرین دعوت سے تھا ۔ مگر حضرت علی (ع) کے مقابلے میں خود مسلمان کہلانے والے بزرگ تھے ۔ آپ نے خود اپنے عمل سے سبق دیا کہ جب کلمہ گو مسلمان بھی اسلامی نظام کے خلاف بغاوت کردیں تو ان کے خلاف تلوار اٹھانا بھی عین شریعت کے مطابق ہے۔

اور ہاں آج اس کا جشن ہے جس نے ساری دنیا میں اسلام کی فتوحات کا راستہ ہموار کیا کچھ لوگ کہتے ہیں اور معلوم نہیں نادانی سے کہتے ہیں یا شرارت سے مگر کہتے ہیں کہ حضرت علی کے عہد میں فتوحات نہیں ہوئیں قیصر و کسریٰ کی تخت نہیں الٹے میں کہتا ہوں کہ انصاف شرط ہے خود ہی بتاؤ اگر بنیاد رکھنے والے نے اس کی بنیاد نہ رکھی ہوتی تو کیا تاج محل بن سکتا تھا ؟بیج بونے والے نے بیج نہ بوئے ہوتے تو فضل کٹ سکتی تھی ۔ اگر بدر و احد ،خیبر و خندق کے معرکے سر نہ ہوئے ہوتے تو ذوالفقار حیدری نے عبدود اور مرحب کے ٹکڑے نہ کئے ہوتے اور بدر و احد کے معرکوں میں بڑے بڑے دلاوروں کو موت کے گھاٹ نہ اتارا ہوتا تو ایران اور روم تک پہنچنے کی نوبت آسکتی تھی؟ ضرب یداللہی کو اسلام کی تاریخ سے نکال دوگے تو باقی ہی کی بچے گا ۔اور یہ جشن اس کی ولادت کا جشن ہے اس کا جشن ہے جسے سرکار رسالت مآب سے ابو تراب کا لقب عطا ہوا ۔ ابو تراب کے لفظی معنی مٹی کے باپ کے ہیں کہتے ہیں جناب امیر مسجد نبوی میں ننگے بدن لیٹے ہوئے تھے آپ کا جسم اقدس خاک آلودتھا ۔ سرکار رسالت امآب تشریف لائے اور آپ نے فرمایا : اے مٹی کے باپ ،ابو تراب اٹھ بیٹھے ، بارگاہ رسالت مآب سے اس ملنے والے خطاب سے سرسری نہ گزر جائیے تھوڑا غور کیجئے ۔ انسان کیا ہے ،مٹی ہے مٹی ہی انا ہے ایگو ہے ،نفس ہے ،شریر ہے ۔ لوگ ابن تراب ہیں، مٹی کے بیٹے ہیں نفس کے غلام ہیں انا کے مریض ہیں شریر کی خواہشوں پر چلنے والے ہیں ۔ مگر حضرت علی علیہ السلام ابو تراب ہیں یعنی مٹی کے باپ ہیں نفس کی باگیں ان کے ہاتھ میں ہیں اپنی اناپر اپنے شریر پر ان کا حکم چلتا ہے اور جب ایسا ہو جائے تو اس جہان اکبر پر دل کی دنیا پر روح کی راجدھانی میں کوئی حکمراں بن جائے تو پھر باہر کی دنیاجو اصغر ہے ۔ آپ سے آپ اس کے تابع فرمان بن جاتی ہے پھر وہ اشارہ کرتا ہے اور ڈوبا ہو آفتاب پھر سامنے آجاتا ۔ اقبال نے اسی بات کو اپنے شعر میں یوں ادا کیا ہے:

ہر کہ در آفاق گردد بو تراب

 باز گرد اند ز مغرب افتاب

اور آج کا جشن اس کا جشن ہے جس کی اولاد جیسی اولاد چشم فلک نے نہیں دیکھی ۔ تاریخ کسی ایسے دوسرے خاندان کو پیش نہیں کر سکتی جو حکومت میں نہ ہو مگر پھر بھی دلوں پر حکمران ہو جس نے ظلم و ستم اور آمریت اور استبداد کے ہر دور میں لگاتار قربانیاں پیش کیں ۔ حضرت علی (ع) کا نام ایک ایسا پرچم ہے جس کے نیچے ہر مظلوم آکر گھڑا ہو جاتا ہے ۔ تاریخ سے پوچھو تاریخ گواہی دے گی کہ امام حسین شہید ہوئے مگر حق و باطل میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایسا فرق پیدا کر گئے کہ بعد کے کسی دور میں باطل کو حق سے بیعت طلب کرنے کی جراٴت نہیں ہو سکی ، باطل نے حق سے پھر کبھی بیعت طلب نہ کی پھر کوئی کربلا نہ ہوئی کربلا کے بعد جب بنو امیہ اور بنو عباس کے حکمرانوں نے ظلم کا بازار گرم کر رکھا تھا تو یہ خانوادہٴ رسول اور علوی خاندان کے چشم و چراغ ہی تھے جو اپنے گریبانوں کا پرچم لے کر اٹھے اور مظلوم کی آواز بن گئے امام حسین علیہ السلام کے پوتے جناب زید نے ہشام کے جور کے خلاف تحریک منظم کی اور حضرت امام حسن کے پوتے جناب نفس زکیہ نے منصور عباسی کے بالمقابل جان کی بازی لگا دی ۔ اور دور کیوں جاتے ہو امام خمینی کو دیکھ لو ایک شہنشاہ وقت کو اس بوریہ نشین درویش نے جس طرح شکست فاش دی ہے وہ تاریخ کا کوئی کم عجوبہ ہے ؟

اس طرح جب جب تاریکی بڑھی خاندان رسالت سے خانوادہٴ سادات کے افق سے ایک نہ ایک ستارہ ٹوٹا اور اس نے اپنی روشنی سے روحوں کی نگری میں اجالا کر دیا :

سلام اس پر کہ جس کے نام لیوا ہر زمانے میں بڑھا دیتے ہیں ٹکڑا سر فروشی کے فسانے میں تاریخ اسلام میں جتنے مشاہیر ہیں سب ہمارے سروں کے کے تاج ہیں صحابہ کرام ہماری آنکھوں کا نور اور دلوں کا سرور ہیں ، مگر ان میں سے کون ہے جس کی دوسری یا تیسری نسل کے فرد کا نام بھی ہم جانتے ہوں مگر خانوادہ نبی و علی (ع) کو دیکھو کہ کس طرح صدیوں سے اب تک چراغ سے چراغ جلتا چلا آرہا ہے امام حسن (ع) و امام حسین (ع) سے امام جعفر صادق (ع) تک اور امام جعفر صادق سے ہوتے ہوئے امام موسیٰ کاظم (ع) اور امام رضا (ع) تک اور امام رضا (ع) سے لے کر امام مہدی آخر الزمان (ع) تک کتنے چاند ستارہ ہیں جو آسمان اہل بیت پر جگمگ جگمگ کر رہے ہیں۔

شگفتہ گلشن زہرا کا ہر گل تر ہے

کسی میں رنگ علی (ع) ہے کسی میں بوئے رسول

اور آج اس کی ولادت کا جشن ہے جس کے بارے میں میرے مرحوم دوست حضرت جوش  ملیح آبادی نے کہا اور کیا خوب کہا جب جناب علی مرتضیٰ (ع) کی ولادت ہوئی تو کیا منظر تھا میں جناب جوش کی نظم کے چند بند پیش کرتا ہوں:

گل ہو گیا زمین پہ اوہام کا چراغ

تشکیک سے یقین کو حاصل ہوا فراغ

چھوما نسیم عقل سے نوع بشر کا باغ

اترا دماغ دل میں تو دل بن گیا دماغ

اوج خرد پہ صبح کی سرخی عیاں ہوئی

یہ آئے تو حریم نظر میں اذاں ہوئی

سلمائے روز گار کو زریں قباملی

انسانیت کو دولت صد ارتقاء ملی

ہنستی ہوئی قدر کے گلے سے قضا ملی

آغوش میں رسول کو اپنی دعا ملی

جیسے ہی نصف نور ملا نصف نور سے

اپنے کو کردگار نے دیکھا غرور سے

منبر پہ آفتاب تکلم عیاں ہوا

موج مئے غدیر لئے خم عیاں ہوا

دریائے مرحمت میں تلاطم عیاں ہوا

انصاف کے لبوں پہ تبسم عیاں ہوا

ڈالی نگاہ فخر سے دنیا نے دین پر

قرآن آسمان سے اترا زمین پر

( رسالہ الغدیر ص/۱۹ سے ۲۳)

تبصرے
Loading...