دین اسلام کی خاتمیت کی حقیقت کیا ھے۔ اور جناب سروش کے نظریھ پر کونسا اشکال لازم آتا ھے؟

وه سوال جو جناب سروش کے خاتمیت کے نظریھ کے بارے میں بعض جوانوں کے ذھنوں میں موجود ھے۔ ھم اس سوال کا جواب چاھتے ھیں۔ سوال کا خلاصھ یوں ھے:
الھی ادیان میں زمانے کے گزرنے کے ساتھه ساتھه ترقی کی جانب تبدیلیاں ھوئی ھیں، اور اس کی وجھ انسان کی علمی بالیدگی ھے۔ دین اسلام کو ھم اس قانون سے کیسے الگ کرسکتے ھیں جب کھ انسان کی ترقی نھ صرف ختم نھیں ھوئی ھے، بلکھ اس کی ترقی مین زیاده تیزی آئی ھے۔ اس لحاظ سے آج کا انسانی سماج اور فرد رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے زمانے کے ساتھه قابل قیاس نھیں ھے۔ عبادات اور احکام ثابت اور پایدار ھوسکتے ھیں ، کیوں کھ ان کا فلسفھ خدا کے ھاتھه میں ھے ۔ اس کا انسان کی علمی صلاحیتوں میں تبدیلی کے ساتھه کوئی واسطھ نھیں ھے۔ لیکن اسلام کے حکومتی اور سماجی احکام زمانے کے مطابق چلنے چاھئیں۔ جیسے ، حدوداور دیات۔ دین اسلام کی خاتمیت کا سبب یھ نھیں کھ اس کے احکام ابدی ھیں،بلکھ اس کا سبب انسان کا آسمانی ادیان کے نزول سے بے نیاز اور مستغنی ھونا ھے۔ یھ دین احکام کو بھتر کشف کرنے میں انسان کو خودمکتفی ھونے کی منزل کی جانب ھدایت کرسکتا ھے، اور خاتمیت کے معنی بھی ھیں۔
مھربانی کرکے اس سوال کے جواب کیلئے مناسب کتابوں کی طرف میری راھنمائی کریں جو اس کے جواب پر مشتمل ھوں۔

ایک مختصر

مندرجھ ذیل نکات کی جانب توجھ کرنا مناسب ھوگا:

۱۔ پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ کا خاتم نبی ھونا اور اس پیروی میں دین اسلام کا خاتم دین ھونا ، قرآن مجید کے مبارک سوره احزاب کی آیت نمبر ۴۰ میں ذکر ھوا ھے۔ جس کا مطلب یھ ھے کھ پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے ذریعے نبوت اپنے اختتام کو پھنچ گئی اور آنحضرت (ص) کے بعد کسی طرح کی نبوت کا کوئی امکان وجود نھیں رکھتا ھے۔

۲۔ خاتمیت کا راز ایک طرف مندرجھ ذیل نکات کی طرف پلٹتا ھے۔

الف) دین اسلام کا مکمل ھونا ، کیونکھ نھ پیغام لانے والے (پیغمبر (ص)) کی طرف سے کوئی حد بندی  تھی۔ اور نا ھی اس کے مخاطبین کی جانب سے کسی طرح کی حد بندی تھی،لھذا اسلام نے اپنا پورا پیغام بیان کیا ھے۔

ب) دین اسلام ھر طرح کی تحریف اور تغییر سے پاک ھے۔

۳۔ دین اسلام ثابت اور متغیر عناصر پر مشتمل ھے ، ان ثاب اور متغیر عناصر کی کھوج ، اور انسانی ھدایت کی ضرورتوں کوپورا کرنا اجتھاد کے ذریعے ممکن ھے، جس کی بنیاد اھلبیت علیھم السلام نے اپنے اسلوب کے مطابق رکھی ھے۔ اس اسلوب کے مطابق چلنا اور قرآن (جو کھ دین کا اصلی سرچشمھ ھے ) کا تحریف سے پاک ھونا، خاتم دین کو تحریف سے پاک رکھنے کا ضامن ھے۔

۴۔ کلی عناصر کا استنباط کرنا اور اسلامی نظام اور اس دین کے فلسفے تک پھنچنا ، فقھی اور تجزیاتی طریقے سے صورت پاتا ھے، اور انسانی علوم جیسے سائنس ، سماجیات وغیر کی ترقی اس پر اثر انداز نھیں ھوتی۔ البتھ کسی طریقھ کار یا اسلوب کو بنانے میں جو وقتی عناصر پر مشتمل ھوتے ھیں انسانی علوم کی ضرورت نمایاں ھے۔ اور علوم کی ترقی بھی کسی اسلوب کو بھتر اور گهرا بنانے میں مؤثر ھے۔ لیکن ایسا نھیں ھے کھ علوم بشری ، ثابت اور کلی عناصر میں تبدیلی لا سکیں اور انھیں وقتی اور متغیر عناصر میں تبدیل کر سکیں۔ کیونکھ اسلام کے سماجی اور سیاسی احکام کلی عناصر سے تشکیل پاتے ھیں۔

۵۔ آپ نے جو کچھه جناب سروش کے نظریھ کے عنوان سے ذکر کیا ھے ، ایک طرف یھ  دعویٰ بے دلیل ھے اور دوسری جانب اس نظریھ کی بنیادوں پرمستحکم اشکالات وارد ھیں ۔ اس نظریھ کی بنیادیں اسلام کے سماجی احکام کو وقتی اور سیکولر جاننے پر مبنی ھیں جو کھ اسلام کے حوالے سے سراسر غلط تفسیر ھے۔

۶۔ جیسا کھ بیان کیا جا چکا ھے خاتم دین مخاطب کی جانب سے محدود نھیں ھے۔ لیکن اس کا ھرگز یھ مطلب نھیں ھے کھ سب لوگ معرفت کی اس حد تک پھنچ گئے ھیں جو پوری حقیقت کو بعینھ ادراک کرسکیں۔ بلکھ اس کا مطلب یھ ھے کھ دین کے ظھور کے زمانےکے سب لوگوں میں دین کی میراث محفوظ رکھنے کی صلاحیت موجود ھے۔

تفصیلی جوابات

سب سے پھلے یھ کھنا ضروری ھے کھ:

۱۔ دین اسلام کی خاتمیت، اس دین کے مسلّم عقاید میں سے ھے۔ اس عقیدے مین اسلام کے سب مذاھب متفق الرای ھیں۔ قرآن کریم میں خداوند تبارک و تعالی کا ارشاد گرامی ھے : (ما کان محمد ابا احد من رجالکم و لکن رسول اللھ و خاتم النبیین و کان اللھ بکل شیء علیما ) “محمد ، تمھارے مردوں میں سے کسی ایک کے باپ نھیں ھیں لیکن وه اللھ کے رسول اور سلسلھ انبیاء کے خاتم ھیں اور اللھ ھر شیء کا خوب جاننے والا ھے۔”[1]

خَاتَم ( حاتَم کے وزن پر ) اس چیز کو کھتے ھیں جس کے ذریعھ کسی شیء کومکمل کیا جاتا ھے[2]۔ اس کے علاوه اس چیز کو بھی کھتے ھیں ، جس کے ذریعے اوراق اور خطوط کو مھر کرتے ھیں۔ چونکھ یھ کام (مھر لگانا) آخر مین انجام پاتا ھے اس لئے اسے خاتم کا نام دیا جاتا ھے۔ خاتم کے ایک معنی ھیں انگوٹھی۔ وه بھی اس لئے کھ قدیم زمانے میں مھر کا نقش عام طور پر اپنی انگوٹھیوں پر کھینچتے تھے اور انگوٹھی کے ذریعے سے ھی خط کو مھر لگاتے تھے [3]

پس پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے خاتم ھونے کا مطلب یھ ھے کھ نبوت کا سلسلھ ان کے ذریعے اپنے اختتام کو پھنچا اور آنحضرت (ص) کے بعد دوسرا کوئی نبی مبعوث نھیں ھوگا۔ [4] بعض علمائے اسلام نے خاتم اور خاتمیت کا معنی بیان کئے ھیں ” الخاتم من ختم المراتب باسرھا” یعنی پیغمبر خاتم صلی اللھ علیھ و آالھ وسلم وه پیغمبر ھے جس نے سب مراتب طے کرلئے ، اور اب ان کی نظر میں اور ان کے کام (تبلیغ) کی نظر سے طے ھونے کے قابل کوئی مرتبھ موجود نھیں۔[5]

۲۔ خاتمیت کے راز کے بارے مین گذشتھ زمانے سے ھی مفکروں کے درمیان بھت سی بحثیں چھیڑی گئی ھیں [6]۔ ھمارا یھ عقیده ھے کھ انسان اپنی فطرت سے ھی خدا پرست ھے۔ لیکن اس کا مطلب نھیں کھ جس دین کو انسان انتخاب کرے وه حق ھے۔ بلکھ فطرت انسان کے اندر ایک خاص کشش ھے جس سے بصیرت اور آگاھی کے ساتھه راه راست کی طرف ھدایت ھونا چاھیئے۔خدا نے عقل جو اندرونی پیغمبر ھے ، کے علاوه بیرونی پیغمبروں کو ھماری ھدایت کے لئے بھیجا ھے تا کھ عقل جسے ادراک نھیں کرسکتی ھے اسے ھمارے لئے بیان کریں۔ ۔ پھ پیغمبر اس لئے آئے تا کھ ھدایت کا روشن راستھ ھمیں دکھائیں۔ ان پیغمبروں میں ھر ایک دو لحاظ سے محدود رھا ھے ( وحی کو دریافت کرنے کے لحاظ سے ، مخاطب کو حقیقت کے سمجھنے کے لحاظ سے) اسی طرح ھر پیغمبر کو ایک لحاظ سے خطره رھا ھے ( دین میں تحریف اور تغییر کے لحاظ سے)۔ لھذا ھر دین اپنے ما قبل دین کی بھ نسبت ایک طرف کامل کرنے والا اور دوسری جانب اسے صحیح کرنے والا ھوتا ھے۔ یھ سلسلھ دین خاتم یعنی اسلام تک جاری تھا۔ دین خاتم ( اسلام ) میں نھ پیغمبر کسی لحاظ سے محدود تھے۔ اور نھ ھی مخاطبوں کسی طرح کی محدودیت تھی۔ اس کے علاوه دین تحریف اور تغییر کے خطره سے بھی محفوظ تھا۔ یعنی ایک طرف ایسا پیغمبر صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم بھیجا گیا جو معرفت کی بلندیوں پر تھا اور دوسری جانب لوگوں میں فھم اور ادراک کی راه بھی ھموار تھی۔ یعنی کم سے کم بعض لوگوں میں یھ صلاحیت پیدا ھوگئی تھی کھ وه بلند الھی معارف کو معرفت کے آفاق سے حاصل کرسکیں۔[7] ان دو محدودیتوں کے ختم ھونے سے اسلام نے اپنا پورا پیغام یعنی مکمل الھی ھدایت جن کے بعض گوشوں کو گذشتھ ادیان نے بیان کیا تھا ، کو لوگوں تک پھنچا دیا۔ اور اس طرح اسلام ایک مکمل اور خاتم دین قرار پایا۔

دوسری جانب دین خاتم ھر طرح کی تحریف اور تغییر سے محفوظ رھنا چاھئے اور اسلام میں یھ امر دو طریقوں سے تحقق پذیر ھوا ھے۔

الف) دین کے اصلی سرچشمے یعنی قرآن مجید کا تحریف سے پاک ھونا۔[8]

ب) ایک ایسی روش کی تشکیل، جس کے ذریعے اصلی دین کے سمجھنے کا امکان موجود ھے۔ جو بھی اس روش پر چلے اور اس روش کے مطابق دین کے اصلی منابع کی طرف رجوع کرے ، اس کیلئے ھر زمانے میں اصلی دین کو سمجھنے کا امکان فراھم رھتا ھے۔ [9]

شھید مطری (رح) کے قول کے مطابق الھی ادیان دو حصوں سے تشکیل پائے ھیں۔ ایک حصھ ثابت دینی عناصر کا ھے اور دوسرا حصھ متغیر عناصر[10] پر مشتمل ھے۔ادیان الھی کا وه حصھ جو ثابت اور آفاقی (کلی) عناصر پر مشتمل ھوتا ھے وه انسان کی شخصیت کے اس حصے سے متعلق ھے جو ھمیشھ ثابت ھے۔ ادیان الھی میں انسانی کے تغییری پھلو کو بھی مد نظر رکھا گیا ھے اور یھ پھلو متغیر احکام اور عناصر ( احکام دینی کا وه حصھ جو زمان اور مکان سے وابستھ ھے ) کی صورت مین ظاھر ھوتا ھے۔

دین کے ثابت اور متغیر عناصر کو اس روش کے ذریعھ استنباط کیا جاتا ھے جس کی بنیاد اھلبیت علیھم السلام نے ڈالی ھے، اور اس کا نام اجتھاد رکھا گیا ھے۔[11] یھی طریقه انسان کی ھدایت کے لئے سب ضرورتوں کا جواب ده ھے۔

یھ بات واضح ھے کھ آجکل کے زمانے فقھی مباحث کی وسعت اور گذشتھ زمانوں میں ان بحثوں کے محدود ھونے کا سبب آج کی انسانی ضرورتوں کا پھیلاؤ ھے۔ لیکن اس کا مطلب ھر گز یھ نھیں کھ انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے ھمیں اسلام کے دائمی احکام سے ھاتھه کھینچ لینا چاھئے۔ کیونکھ یھ اس بات کی دلیل ھوگی کھ ھمیں انبیاء کی تعلیمات کی ضرورت نھیں ھے۔ بلکھ یھ سب ترقیاں انبیاء کی تعلیمات کی روشنی میں اس روش کے مطابق جس کی بنیاد اھلبیت علیھم السلام نے ڈالی ھے (اجتھاد) کے ذریعھ ممکن ھیں۔

فرض کیجئے کھ کچھه طالب علموں کے لئے حساب کے کچھه استادوں کو رکھا گیا ھے تا کھ ترتیب سے انھیں حساب سکھائیں۔ ان طالب علموں میں سے ھر کسی نے تھوڑا بھت حساب اور اس کے کلی قوانین سیکھه لئے ، جب آخری استاد کی باری آئی تو اس کے کچھه کلی قواعد کے علاوه اُنھیں چار اصلی عمل ( جمع ، تفریق ، ضرب اور تقسیم ) بھی سیکھائے۔ اور ان سے متعلق کلی قواعد کو بھی سکھایا ، مثلا جس عدد کو بھی صفر سے ضرب کریں گے اس کا جواب صفر ھوگا، یا دو مساوی اعداد کی حاصل جمع ان اعداد کی تفریق کے حاصل شده عدد سے ھمیشھ زیاده ھوتی ھے۔ اسی طرح دسیوں ، سیکڑوں قاعدے سکھائے۔ اس کے بعد طالب علم جتنی ترقی کریں گے اِنھی چار اصلی عمل کے ذریعے ممکن ھوگی اور وه حساب کے نئے موضوعات کو دریافت کرسکیں گے۔ ان نئے قواعد مین اساد کے اصلی اور کلی قوانین کا خیال رکھنا چاھئے تا کھ بھتر نتائج مل سکیں۔

اس حالت مین ھم صرف کهه سکتے ھیں کھ اس نے کام پورا کردیا، اور دوسری جانب کوئی شاگرد یھ نھیں کهه سکتا کھ ھم اب استاد کی تعلیمات سے بے نیاز ھوگئے ھیں ۔ اور حساب کے نئے احکام کو دریافت کرتے ھیں۔ کیوں کھ انکی ترقی کی بنیاد وھی اصلی چار عمل ھیں اور دوسری جانب جو نئے قوانین دریافت کئے ھیں ، ان کی کلی قوانین کے ساتھه مطابقت ان کے صحیح ھونے کی ضمانت ھے۔

۳۔ خاتمیت کے باب مین جو کچھه ڈاکٹر سروش نے اپنے نظریھ کے طورپر پیش کیا ھے۔ وه کوئی نیا نظریھ نھیں ھے بلکھ وه نئے سانچے میں ڈھالا گیا ھے۔ حقیقت مین وه نظریھ اس سوال کا جواب ھے کھ کیا کسی دین کی خاتمیت ، انسان کے ثقافتی ، علمی اور سماجی شرائط ، اس دین کے نازل ھونے کے زمانے اور اس کے بعد والے زمانے کے درمیان کوئی رابطھ موجود ھے یا نھیں؟

ڈاکٹر سروش کا جواب نئے قالب میں وھی علامھ اقبال کا جواب ھے۔ وه کھتے ھیں کھ خاتمیت کے معنی یھ ھیں کھ لوگ اس بالیدگی تک پھنچ جاتے ھیں اور وه دین سے بے نیاز ھوجاتے ھیں[12] یا نبی کی تعلیمات اتنی وسیع ھوئی ھیں کھ اب لوگوں کو نئے نبی کی تعلیمات کی ضرورت نھیں ھے۔ بالکل جس طرح شاگرد اپنے استاد سے بے نیاز ھوتا ھے جب وه استادی کے مقام تک پھنچتا ھے۔ [13]

لیکن علامھ اقبال بیان کرتے ھیں کھ جس طرح مخلوقات اپنے ابتدائی مراحل میں فطرت اورجبلت کے محتاج ھیں اور آھستھ آھستھ جب ان میں فکر و خیال کی قوت بالیده ھوتی ھے تو ان کی فطری ھدایت میں کمی واقع ھوتی ھے۔

آجکل انسانیت نے بچپنے کا دور پیچھے چھوڑدی ا ھے اب اسے وحی کی ضرورت نھیں ھے۔ [14]

اقبال کا نظریھ یھ ھے کھ اسلام میں خاتمیت کا فلسفھ یھ ھے کھ انسان اسلام کی ھدایت کے ذریعے ایک ایسے دور سے گزرے گا جس دور میں دین کی ضرورت محسوس نھیں ھوگی۔[15]

مارکسیسٹوں (جو کھ ایک ملحد قوم ھے) ان کا نظریھ بھی اس نظریھ سے ملتا جلتا ھے ، یعنی وه بھی ظھور اسلام کے دور اور اس کے بعد آنے والے دور کے لوگوں کی خصوصیات کو اسلام کی خاتمیت کا معیار قرار دیتے تھے اور کھتے تھے، کھ پیغمبر کی طرف سے خاتمیت کے اعلان کی دلیل آنحضرت مین موجود فطانت اور ان کی استعداد تھی ، جس کے ذریعے آنحضرت صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم نے سمجھه لیا تھا کھ جلدی ھی انسان ایک نئی معرفت حاصل کرے گا جس کے بعد دین اور دینداری کی بساط سمیٹ لی جائے گی۔[16]

۴۔ یھ واضح ھے کھ ان نظریات پر علامھ مطھری (رح) کا مشھور اشکال وارد ھے ، فرماتے ھں : ختم نبوت کا اس طرح بیان کرنا، ختم دین ھے ، نھ کھ ختم نبوت ، اس کے علاوه اگر ڈٓاکٹر سروش کی بات کو مان لیا جائے اور خاتمیت کے راز کو وھی جانیں جو انھوں نے بیان کیا ھے اس کا لازمھ یھ ھے کھ:

الف) لوگوں کی اکثریت مرور ایام کے ساتھه ساتھه اسلام وه بھی اصلی اسلام کی طرف مائل ھوجائیں ، جب کھ اس طرح نھیں ھے۔ [17]

ثانیاً: دین کے مبنا اور خاتمیت کے اصول جیسے دین کی تعریف [18] دین کی کارکردگی[19]، انبیاء کی بعثت کا مقصد [20] دین کا جامع ھونا [21] سماج کے مختلف میدانوں مین دین کی موجودگی [22] انفرادی اور سماجی مسائل مین دین کا جوابده ھونا[23] ، وغیره کو سرے سے ھی بدل دیا جائے۔ اور کھا جائے کھ قرآنی ، روایاتی اور عقلی شواھد اور تاریخی قرائن کے بر عکس انبیاء کی بعثت کا مقصد صرف آخرت کے متعلق جاننا چاهئے نھ کھ لوگوں کے دین اور دنیا کے متعلق بھی۔ سیکولر نظریات کا قائل ھونا چاھئے۔ دین کے جامع اور کامل ھونے سے انکار کرنا چاھئے، اسلامی احکام کو وقتی اور غیر ابدی جاننا چاھئے۔ یا اس بات کا قائل ھونا چاھئے کھ انسانی معرفت میں ترقی ساتھه ساتھه احکام بھی مختلف ھوتے ھیں ، جن کو ڈاکٹر سروش کی اصطلاح میں قبض و بسط شریعت سے تعبیر کیا جاتا ھے۔ [24] جبکھ اس نظریھ کی بنیاد پر مستحکم اشکالات وارد ھین، [25] خاتمیت کی بحث کے مبنا کے مخدوش ھونے کے ساتھه ساتھه ڈاکٹر سروش کی خاتمیت کی بحث بھی مخدوش ھوجاتی ھے۔

اس بنا پر دین خاتم کا مخاطب کی جانب سے محدود نھ ھونے کا مطلب یھ نھیں ھے کھ سب لوگ معرفت ( پھچان) کے اس درجے تک پھنچ چکے ھین جھاں وه پوری حقیقت کو بعینه ادراک کرسکین ، بلکھ اس کا مطلب یھ ھے کھ ظھور دین کے دور میں لوگوں میں دین کی میراث کو محفوظ کرنے کی صلاحیت موجود ھے۔

دوسرے الفاظ میں یوں کھیں کھ دین خاتم اپنے زمانے کے لوگوں کے سماجی ، ثقافتی ، اور علمی شرائط اور اس کے بعد کے دور کے لئے پل مانند ھے۔ یعنی اس زمانے کے لوگوں میں دین کی حفاظت ، اس کی بقا اور حفاظت کی صلاحیت موجود ھے اور یھ ان افراد کے ذریعے مھیا ھے جو اپنے آپ کو دین کی حقیقت تک پھنچا سکتے ھیں اور اسے دوسرے لوگوں کے اختیار میں بھی قرار دیتے ھیں۔ بلکھ اس کا مطلب ھر گز نھیں کھ دین کی تعلیمات اتنی عام ھوگئی ھیں کھ لوگ خود ھی دین کی ضرورت کے بغیر ھی ان تعلیمات کی طرف رجوع کرکے دین کی حفاظت کرسکیں یھاں تک کھ خود بھی آگاه نھ ھوں۔

۵۔ جیسا کھ بیان ھوا دین اسلام دو عناصر، ثابت ( کلی ، آفاقی) اور متغیر ( جزئی ، وقتی) سے تشکیل پایا ھے ، علوم کی نسبت ھماری ضرورت صرف طریقھ کار کی تشیکیل کی حد تک ھے اور ان علوم میں ترقی اس طریقھ کار کو بھتر اور گھرا بنانے میں ھماری معاون ھے ، جب کھ کلی عناصر کا استنباط کرنا اور اسلامی نظام کے فلسفھ تک پھنچنا فقھی اور تجزیاتی روش کے ذریعھ ممکن ھے[26] اور جس چیز کو عصری ھونے کی ضرورت ھے وه وھی طریقھ کار ھے نھ ثابت عنصر، کیونکھ ثابت عناصر صرف عبادی احکام سے مخصوص نھیں ھیں بلکھ وه اسلام کے سماجی اور حکومتی مسائل کو بھی شامل ھیں ، یعنی اسلام کے سب سماجی اور حکومتی احکام وقتی عناصر کی صورت میں نھیں ھیں بلکھ اس میں بھت سارے کلی عناصر بھی پائے جاتے ھیں کھ جن کو کشف کرنے سے اسلام کے مختلف شعبوں جیسے اقتصاد ، سیاست ،قانون کے فلسفھ تک پھنچا جا سکتا ھے۔ [27]

 

[1]  “۔۔۔ لکن خاتم النبیین۔۔۔۔” سوره احزاب آیت نمبر ۴۰۔

[2]  “مجمع البحرین “، ج ۶ ، ص ۵۳۔

[3]  “تفسیر نمونھ”، ج ۱۷، ص ۳۳۹۔ “ترجمھ تفسیر المیزان” ج ۱۶، ص ۴۷۸۔ “آموزس عقاید” ، استاد مصباح یزدی ، ص ۳۸۸ ، انتشارات بین الملل ، ایک جلدی۔

[4]  “ترجمھ تفسیر المیزان “، ج ۱۶ ، ص ۴۸۷۔

[5]  “خاتمیت” ، شھید مطھری (رح) ص ۷۰۔

[6]  جیسے کھ ملا صدرا شیرازی دین اسلام کی خاتمیت کی دلیل کو انسان کے عقل کا کامل ھونا چانتے ھین ، صاحب جواھر اس نظریھ پر تنقید کرکے کھتے ھیں کھ دین اسلام کی خاتمیت کا راز اس دین کا جامع اور کلی ھونا اور سب تغییرات اور تبدیلیوں کے ساتھه متناسب ھونا ھے، (مجمع الرسائل ، ص ۹ ۔ ۱۱ )

[7]  ھادوی تھرانی ، مھدی ، “باورھا پرسش ھا”، ص ۴۱۔

[8]  مزید آگاھی کیلئے رجوع کریں ، : “باورھا و پرسش ھا” ص ۴۵، ۵۸۔

[9]  ایضا ص ۳۰ اور ۳۱۔

[10]  مرتضی ، مطھری ، “خاتمیت ” ص ۱۴۴، اور ۱۵۵۔

[11]  “باورھا و پرسش ھا” ، استاد مھدی ھادوی تھرانی ، ص ۸۶، اور ۸۷۔

[12]  “ریشھ در آپ است”، کیان، نمبر ، ۲۹، ص ۵، باورھا و پرسشھا سے منقول ص ۳۶۔ ، بسط تجربھ نبوی ص ۹۵۔

[13]  “ریشھ در آب است”، ص ۱۳ اور ۱۴، ملخص

[14] نصری ، عبد اللھ ، “انتظار بشر از دین “، ص ۱۰۶۔

[15] “باورھا و پرسش ھا “، ص ۳۵۔

[16]   “باورھا و پرسش ھا “ص ۳۵،

[17] ایضا ، ص ۳۷۔

[18]  “آموزش عقاید” ، مصباح ، یزدی ، محمد تقی ، ص ۱۱ اور ۱۲۔

[19]  دین، اس خاص روش کا نام کھ جو دنیاوی کامیابی کوآخروی کمال اور جاوداں حیات کے مطابق بنائے ۔ ( اس بنا پر شریعت مین ایسے قوانیں ھونے چاھئے جو زندگی کی روش کو ضرورت کے مطابق روشن کرے ) ترجمھ المیزان ، ج ۲ ص ۱۸۷۔

[20] انبیا کی بعثت کا مقصد ، فردی اور اجتماعی پھلو میں انسان کا کمال ھے۔

[21] رجوع کریں :

                الف) “قلمرو دین ، گستره شریعت، انتظار بشر از دین “، خسرو پناه ، عبد الحسین۔

                ب) “مبانی کلامی اجتھاد”، ھادوه تھرانی مھدی 

                ج) “جامعیت و کمال دین “، ربانی گلپایگانی ، علی۔

[22]  “انتظار بشر از دین “، نصری ، ۳۰۸، ۳۴۹۔ اور ۲۲۲ َ۔۔۔ ۳۰۵۔

[23]  “اجتھاد و استنباط “، ایک اسلوب کے طور پر موجوده حالت کو اسلام کے کلی اصول اور قواعد کے مطابق منطبق کرنے کا نام ھے جس کی وجھ سے کوئی بھی مسئلھ جواب دیئے کے بغیر نھیں ره جاتا ھے ” فرھنگ تشریحی اصطلاحات اصول ، ولایی، ص ۱۷۔۔ ۳۳۔

[24]  “باورھا و پرسش ھا”، ص ۱۲۳، ۱۷۰

[25]  کتاب “باور و پرسش ھا “کا مطالعھ ، آپ کو حقیقت تک پھنچنے کیلئے معاون ثابت ھوگا۔

[26]  “مبانی کلامی اجتھاد ، ص ۳۸۳، ۔۔ ۴۰۵، ” مکتب و نظام اقتصادی اسلام ” ھادوی تھرانی ، مھدی ، ص ۲۱، ۴۴۔

[27]  رجوع کریں:

                الف) “مکتب و نظام اقتصای اسلام” ھادوی تھرانی ، مھدی۔

                ب) “قضاوت در اسلام ” ھادوی تھرانی ، مھدی۔

تبصرے
Loading...