دو سوالوں کے جواب اکیسویں فصل

دو سوال

پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی ںکی بلا فصل خلافت کا اعلان غدیر خم میں کر دیا اور ان کی اطاعت و پیروی تمام مسلمانوں پر لازم و واجب قرار دے دی ۔یھاں دو سوال سامنے آتے ھیں۔

1۔ جب حضرت علی ںکی جانشینی کا اعلان ایسے مخصوص دن کر دیا گیاتھا تو پھر اصحاب نے آنحضر ت کی رحلت کے بعدحضرت علیںکی وصایت و ولی عھدی کو اندیکھا کرتے ھوئے کسی اور کی پیروی کیوں کی ؟

2۔ امام علی علیہ السلام نے اپنی زندگی میں اپنی امامت کو ثابت کرنے کے لئے اس حدیث سے استدلال کیوں نھیں کیا؟

پھلے سوال کا جواب :

اگرچہ اصحاب پیغمبر کے ایک گروہ نے حضرت علی ںکی جانشینی کو فراموش کرتے ھوئے غدیر کے الٰھی فرمان سے چشم پوشی کرلی اور بھت سے لاتعلق و لاپرواہ لوگوں نے — جن کی مثالیں ھر معاشرہ میں بھت زیادہ نظر آتی ھیں– — –ان لوگوں کی پیروی کی ،لیکن ان کے مقابل ایسی نمایاں شخصیتیں اور اھم افراد بھی تھے جو حضرت علیںکی امامت و پیشوائی کے سلسلہ میں وفادار رھے ۔ اور انھوں نے امام علی ںکے علاوہ کسی اور کی پیروی نھیں کی ۔ یہ افراد اگر چہ تعداد میں پھلے گروہ سے کم اور اقلیت شمار ھوتے تھے ،لیکن کیفیت و شخصیت کے اعتبار سے پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ممتاز اصحاب میں شمار ھوتے تھے جیسے :سلمان فارسی ،ابوذر غفاری ،مقداد بن اسود ، عمار یاسر ،ابی بن کعب ،ابو ایوب انصاری ،خزیمہ بن ثابت ،بریدھٴ اسلمی ، ابوھثیم بن التیھان،خالد بن سعید اور ایسے ھی بھت سے افراد کہ تاریخ اسلام نے ان کے نام اور ان کی زندگی کے خصوصیات و نیک صفات ، موجودہ خلافت پر ان کی تنقیدیں اورامیر الموٴمنین علی ںسے ان کی وفاداریوں کو پوری باریکی کے ساتھ محفوظ کیا ھے۔

تاریخ اسلام نے دو سو پچاس صحابیوں کا ذکر کیا ھے کہ یہ سب کے سب امام کے وفادار تھے اور زندگی کے آخری لمحہ تک ان کے دامن سے وابستہ رھے ۔ ان میں سے بھت سے لوگوں نے امام کی محبت میں شھادت کا شرف بھی حاصل کیا۔ (1)

افسوس کے ساتھ کھنا پڑتا ھے کہ صرف حضرت علی علیہ السلام کی وصایت و ولایت کا مسئلہ ھی نھیں ھے جس میں آنحضرت کے صریح و صاف حکم کے باوجود پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعض صحابیوں نے مخالفت اور آنحضرت کے حکم سے چشم پوشی کی ،بلکہ تاریخ کے صفحات کی گواھی کے مطابق خود پیغمبر کے زمانہ میں بھی بعض افراد نے آنحضرت کے صاف حکم کو اندیکھا کیا ، اس کی مخالفت کی اور اس کے خلاف اپنے نظریہ کا اظھار کیا ۔

دوسری لفظوں میں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بعض اصحاب جب آنحضرت کے حکم کو اپنے باطنی خواھشات اور سیاسی خیالات کے مخالف نھیں پاتے تھے تو دل سے اسے قبول کرلیتے تھے ۔ لیکن اگر پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تعلیمات کے کسی حصہ کو اپنے سیاسی افکار و خیالات اور اپنی جاہ پسند خواھشات کے خلاف پاتے تھے تو پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو اس کام کی انجام دھی سے روکنے کی کوشش کرتے تھے اور اگر پیغمبر اپنی بات پر جمے رھتے تو آنحضرت کے حکم سے سرتابی کی کوشش کرتے تھے یا اعتراض کرنے لگتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ خود پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) ان کی پیروی کریں۔

ذیل میں ھم بعض اصحاب کی اس ناپسندیدہ روش کے چند نمونے بیان کرتے ھیں:

1۔ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں حکم دیا کہ میرے لئے قلم و دوات لے آؤ تاکہ میں ایک ایسی تحریر لکہ دوں جس کی روشنی میں میرے بعد میری امت کبھی گمراہ نہ ھو۔لیکن وھاں موجود بعض افراد نے اپنی مخصوص سیاسی سوجہ بوجہ سے یہ سمجھ لیا کہ اس تحریر کا مقصد اپنے بعد کے لئے جانشین کے تعین کا تحریری اعلان ھے لھٰذا پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے صریحی حکم کی مخالفت کر بیٹھے اور لوگوں کو قلم و کاغذ لانے سے روک دیا!

ابن عباس نے اپنی آنکھوں سے اشک بھاتے ھوئے کھا : مسلمانوں کی مصیبت اور بدبختی اسی روز سے شروع ھوئی جب پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) بیمار تھے اور آپ نے اس وقت قلم کا غذ لانے کا حکم دیا تاکہ ایسی چیز لکہ دیں کہ ان کے بعد امت اسلام گمراہ نہ ھو ۔لیکن اس موقع پر بعض حاضرین نے جھگڑا اور اختلاف شروع کردیا ۔بعض لوگوں نے کھا: قلم ،کا غذ لے آؤ بعض نے کھا نہ لاؤ ۔ آخر کار پیغمبر نے جب یہ جھگڑا اور اختلاف دیکھا تو جو کام انجام دینا چاھتے تھے نہ کر سکے۔ (2)

2۔ مسلمانوں کے لشکر کے سردار ”زید بن حارثہ”رومیوں کے ساتھ ،جنگ موتہ میں قتل ھوگئے

اس واقعہ کے بعد پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ایک فوج تشکیل دی اور مھاجرین وانصار کی تمام شخصیتوں کو اس میں شرکت کاحکم دیا اور لشکر کاعلم اپنے ھاتھوں سے ”اسامہ ابن زید“کے حوالے کیا۔ناگھاں اسی روز آنحضرت کو شدید بخار آیاجس نے آنحضرت کو سخت مریض کردیا۔اس دوران پیغمبر کے بعض اصحاب کی جانب سے اختلاف ،جھگڑے اور پیغمبر خدا کے صاف حکم سے سرتابی کاآغاز ھوا۔بعض لوگوں نے ”اسامہ”جیسے جوان کی سرداری پر اعتراض کرتے ھوئے اپنے غصہ کااظھار کیا اور آنحضرت سے اس کی معزولی کامطالبہ کیا۔ ایک گروہ جن کے لئے آنحضرت کی موت قطعی ھوچکی تھی،جھاد میں جانے سے ٹال مٹول کرنے لگا کہ ایسے حساس موقع پر مدینہ سے باھر جانا اسلام اور مسلمانوں کے حق میں اچھا نھیں ۔

پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) جب بھی اپنے اصحاب کی اس ٹال مٹول اور لشکر کی روانگی میں تاخیر سے آگاہ ھوتے تھے تو آپ کی پیشانی اور چھرہ سے غصہ کے آثار ظاھر ھونے لگتے تھے اور اصحاب کو آمادہ کرنے کے لئے دوبارہ تاکید کے ساتھ حکم دیتے تھے اور فرماتے تھے :جلد ازجلد مدینہ ترک کرو اور روم کی طرف روانہ ھوجاوٴ۔لیکن اس قدر تاکیدات کے باوجود ان ھی اسباب کے پیش نظر جو اوپر بیان ھوچکے ھیں،ان افراد نے آنحضرت کے صاف وصریح حکم کو ان سنا کردیا اور اپنی ذاتی مرضی آگے پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پیھم تاکیدات کو ٹھکرادیا۔

3۔ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے فرمان سے بعض اصحاب کی مخالفت کے یھی دو مذکورہ نمونے نھیں ھیں۔ اس قسم کے افراد نے سرزمین ”حدیبیہ” پر بھی،جب آنحضرت قریش سے صلح کی قرار داد باندہ رھے تھے،سختی کے ساتھ آنحضرت کی مخالفت کی اور ان پر اعتراض اور تنقیدیں کیں۔

پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد ان لوگوں کی آنحضرت کے دستورات سے مخالفت اس سے زیادہ ھے۔کیونکہ ان ھی افراد نے بعض اسباب کے تحت نماز اور اذان کی کیفیت میں تبدیلی

کردی ”ازدواج موقت“کی آیت کو ان دیکھا کردیا ماہ رمضان مبارک کی شبوں کے نوافل کوجنھیں فرادیٰ پڑھنا چاھئے ایک خاص کیفیت کے ساتھ جماعت میں تبدیل کردیا اور میراث کے احکام میں بھی تبدیلیاں کیں۔

ان میں سے ھر ایک تبدیلیوں اور تحریفوں اور آنحضرت کے حکم سے ان سرتا بیوں کے اسباب و علل اور اصطلاحی طور سے ”نص کے مقابلہ میں اجتھاد“کی تشریح اس کتاب میں ممکن نھیں ھے۔ اس سلسلہ میں کتاب ”المراجعات“کے صفحات 218۔282تک اور ایک دوسری کتاب ”النص و الاجتھاد “ کا مطالعہ مفید ھوگا ،جو اسی موضوع سے متعلق لکھی گئی ھے۔

اصحاب پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی مخالفت اور شرارت اس قدربڑہ گئی تھی کہ قرآن مجید نے انھیں سخت انداز میں رسول خدا (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے دستورات سے مخالفت اور ان پر سبقت کرنے سے منع کیا چنانچہ فرماتا ھے:

”فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ ان تصیبھم فتنة او یصیبھم عذاب الیم“ (3)

یعنی جو لوگ رسول خدا (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے فرمان کی مخالفت کرتے ھیں وہ اس بات سے ڈریں کہ کھیں کسی بلا یا درد ناک عذاب میں مبتلا نہ ھوں۔

اور فرماتاھے :

”یا اٴیھا الذین آمنوا لا تقدموا بین یدی اللہ و رسولہ واتقوا اللّٰہ ان اللہ سمیع علیم“ (4)

اے ایمان لانے والو!خدا اور اس کے رسول پر سبقت نہ کرو اور اللہ سے ڈرو کہ بلا شبہ اللہ سننے اور جاننے والا ھے۔

جولوگ یہ اصرار کرتے تھے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)ان کے نظریات و خیالات کی پیروی کریں خداوند عالم انھیں بھی وارننگ دیتا ھے:

”واعلموا ان فیکم رسول اللہ لو یطیعکم فی کثیر من الامر لعنتم“ (5)

اور جان لو کہ تمھارے درمیان رسول خدا جیسی شخصیت موجود ھے۔اگر بھت سے امور میں وہ تمھارے نظریات کی پیروی کریں گے تو تم زحمت میں پڑجاوٴگے۔

یہ حادثات اور یہ آیات اس بات کی صاف حکایت کرتی ھےں کہ اصحاب پیغمبر میں ایک گروہ تھا جو آنحضرت کی مخالفت کرتا تھا اور جیسی ان کی اطاعت کرنا چاھئے اطاعت نھیں کرتا تھا ۔بلکہ یہ لوگ کوشش کرتے تھے کہ جو احکام الٰھی ان کے افکار اور سلیقہ سے سازگار نھیں تھے،ان کی پیروی نہ کریں۔حتیٰ یہ کوشش کرتے تھے کہ خود رسول خدا کو اپنے نظریات کا پیرو بنائیں۔

افسوس رسول خدا (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد سیاسی میدان میں دوڑنے والے اور سقیفہ نیز فرمائشی شوریٰ کی تشکیل دینے والے یھی لوگ جنھوں نے غدیر خم میں پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے صاف حکم اور نص الٰھی کو اپنی باطنی خواھشات کے مخالف پایا لھٰذابھت تیزی سے اسے بھلادیا۔

دوسرے سوال کاجواب:

جیسا کہ اس سوال میں در پردہ ادعا کیا گیا ھے ،یہ یاد دلانا ضروری ھے کہ حضرت علی ں نے اپنی زندگی میں متعدد موقعوں پر حدیث غدیر کے ذریعہ اپنی حقانیت اور اپنی خلافت پر استدلال کیا ھے۔حضرت امیرالمومنین جب بھی موقع مناسب دیکھتے تھے مخالفوں کو حدیث غدیر یاد دلاتے تھے ۔ اس طرح سے اپنی حیثیت لوگوں کے دلوں میں محکم فرماتے تھے اور حقیقت کے طالب افراد پر حق کو آشکار کردیتے تھے ۔

نہ صرف حضرت امام علی (ع) بلکہ بنت رسول خدا حضرت فاطمہ زھرا(ع) اور ان کے دونوں صاحب زادوں امام حسن اور امام حسین علیھما السلام اور اسلام کی بھت سی عظیم شخصیتوں مثلاً عبداللہ بن جعفر،عمار یاسر،اصبغ بن نباتہ،قیس بن سعد، حتیٰ کچھ اموی اور عباسی خلفاء مثلاً عمر بن عبد العزیز اور مامون الرشید اور ان سے بھی بالاتر حضرت(ع) کے مشھور مخالفوں مثلا عمروبن عاص اور…. نے حدیث غدیر سے احتجاج واستدلال کیاھے۔

حدیث غدیر سے استدلال حضرت علی (ع) کے زمانہ سے آج تک جاری ھے اور ھر زمانہ وھر صدی میں حضرت (ع) کے دوست داروں نے حدیث غدیر کو حضرت کی امامت وولایت کے دلائل میں شمار کیاھے۔ھم یھاں ان احتجاجات اور استدلالوںکے صرف چند نمونے پیش کرتے ھیں:

1۔سب جانتے ھیں کہ خلیفہ دوم کے حکم سے بعد کے خلیفہ کے انتخاب کے لئے چہ رکنی کمیٹی تشکیل پائی تھی کمیٹی کے افراد کی ترکیب ایسی تھی کہ سبھی جانتے تھے کہ خلافت حضرت علی (ع)تک نھیں پھنچے گی کیونکہ عمر نے اس وقت کے سب سے بڑے سرمایہ دار عبدالرحمان بن عوف (جو عثمان کے قریبی رشتہ دار تھے)کو ویٹو پاور دے رکھا تھا۔ان کا حضرت علی (ع) کے مخالف گروہ سے جو رابطہ تھا اس سے صاف ظاھر تھا کہ وہ حضرت علی (ع) کو اس حق سے محروم کردیں گے ۔

بھر حال جب خلافت عبد الرحمان بن عوف کے ذریعہ عثمان کو بخش دی گئی تو حضرت علی (ع)نے شوریٰ کے اس فیصلہ کو باطل قرار دیتے ھوئے فرمایا:میں تم سے ایک ایسی بات کے ذریعہ احتجاج کرتاھوں جس سے کوئی شخص انکار نھیں کرسکتا یھاں تک کہ فرمایا :میں تم لوگوں کو تمھارے خدا کی قسم دیتا ھوں کیا تمھارے درمیان کوئی ایسا شخص ھے جس کے بارہ میں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا ھو ”من کنت مولاہ فھذا علیّ مولاہ، اللّٰھم وال من والاہ وانصر من نصرہ لیبلغ الشاھد الغائب“ یعنی میں جس جس کا مولاھوں یہ علی (ع)بھی اس کے مولا ھیں۔خدا یاتواسے دوست رکہ اور اس کی مدد فرما جو علی (ع)کی مدد کرے۔حاضرین ھر بات غائب لوگوں تک پھنچائیں۔

اس موقع پر شوریٰ کے تمام ارکان نے حضرت علی (ع)کی تصدیق کرتے ھوئے کھا: خدا کی قسم یہ فضیلت آپ کے علاوہ کسی اور میں نھیں پائی جاتی ۔ (6)

امام علی (ع)کا احتجاج و استدلال اس حدیث سے صرف اسی ایک موقع پر نھیں تھا بلکہ امام نے حدیث غدیر سے دوسرے مقامات پر بھی استدلال فرمایا ھے۔

2۔ ایک روز حضرت علی ں کوفہ میں خطبہ دے رھے تھے۔تقریر کے دوران آپ نے مجمع سے خطاب کرکے فرمایا: میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ھوں ،جوشخص بھی غدیر خم میں موجود تھا اور جس نے اپنے کانوں سے سنا ھے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے مجھے اپنی جانشینی کے لئے منتخب کیا ھے وہ کھڑے ھو کر گواھی دے۔لیکن صرف وھی لوگ کھڑے ھوں جنھوں نے خود اپنے کانوں سے پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے یہ بات سنی ھے۔وہ نہ اٹھیںجنھوں نے دوسروںسے سنا ھے۔اس وقت تیس افراد اپنی جگہ پر کھڑے ھوئے اور انھوں نے حدیث غدیر کی گواھی دی۔

یہ بات ملحوظ رکھنی چاھئے کہ جب یہ بات ھوئی تو غدیر کے واقعہ کو گزرے ھوئے پچیس سال ھوچکے تھے۔اور پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بھت سے اصحاب کوفہ میں نھیں تھے،یا اس سے پھلے انتقال کرچکے تھے اور کچھ لوگوں نے بعض اسباب کے تحت گواھی دینے سے کوتاھی کی تھی۔

”علامہ امینی“ مرحوم نے اس احتجاج وا ستدلال کے بھت سے حوالے اپنی گرانقدر کتاب ”الغدیر“ میں نقل کئے ھیں۔شائقین اس کتاب کی طرف رجوع کرسکتے ھیں۔ (7)

3۔حضرت عثمان کی خلافت کے زمانہ میں مھاجرین و انصار کی دوسو بڑی شخصیتیں مسجد نبی میں جمع ھوئیں۔ان لوگوں نے مختلف موضوعات پر گفتگو شروع کی۔یھاں تک کہ بات قریش کے فضائل ان کے کارناموں اور ان کی ھجرت کی آئی اور قریش کا ھر خاندان اپنی نمایاں شخصیتوں کی تعریف کرنے لگا۔جلسہ صبح سے ظھر تک چلتا رھا اور لوگ باتیں کرتے رھے حضرت امیر المومنین (ع) پورے جلسہ میں صرف لوگوں کی باتیں سنتے رھے۔اچانک مجمع آپ (ع)کی طرف متوجہ ھوا اور درخواست کرنے لگا کہ آپ بھی کچھ فرمائیے۔امام علیہ السلام لوگوں کے اصرار پر اٹھے اور خاندان پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے اپنے رابطہ اور اپنے درخشاںماضی سے متعلق تفصیل سے تقریر فرمائی۔یھاں تک کہ فرمایا:

کیا تم لوگوں کو یاد ھے کہ غدیر کے دن خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو یہ حکم دیا تھا کہ جس طرح تم نے لوگوں کو نماز ،زکات اور حج کی تعلیم دی یوں ھی لوگوں کے سامنے علی (ع)کی پیشوائی کا بھی اعلان کردو۔اسی کام کے لئے پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں فرمایا: خداوند عالم نے ایک فریضہ میرے اوپر عائد کیاھے۔میں اس بات سے ڈرتا تھا کہ کھیں اس الٰھی پیغام کو پھنچانے میں لوگ میری تکذیب نہ کریں،لیکن خدواند عالم نے مجھے حکم دیا کہ میں یہ کام انجام دوں اور یہ خوش خبری دی کہ اللہ مجھے لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔

اے لوگو! تم جانتے ھو کہ خدا میرا مولا ھے اور میں مومنین کا مولا ھوں اور ان کے حق میں ان سے زیادہ اولیٰ بالتصرف ھوں؟سب نے کھا ھاں۔اس وقت پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: علی ! اٹھو ۔میں اٹہ کھڑا ھوا۔ آنحضرت نے مجمع کی طرف رُخ کرکے فرمایا:”من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ اللّٰھم وال من والاہ و عاد من عاداہ “ جس کا میں مولا ھوں اس کے یہ علی (ع)مولا ھیں ۔خدایا! تو اسے دوست رکہ جو علی (ع)کو دوست رکھے اور اسے دشمن رکہ جو علی (ع)سے دشمنی کرے۔

اس موقع پر سلمان فارسی نے رسول خدا (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے دریافت کیا : علی (ع)ھم پر کیسی ولایت رکھتے ھیں ؟پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا:”ولائہ کولائی ،من کنت اولی بہ من نفسہ ،فعلیّ اولی بہ من نفسہ “ یعنی تم پر علی (ع)کی ولایت میری ولایت کے مانندھے ۔میں جس جس کی جان اور نفس پر اولویت رکھتا ھوں علی (ع)بھی اس کی جان اور اس کے نفس پر اولویت رکھتے ھیں۔ (8)

4۔ صرف حضرت علی ںنے ھی حدیث غدیر سے اپنے مخالفوں کے خلاف احتجاج و استدلال نھیں کیا ھے بلکہ پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی پارہ ٴجگر حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نے ایک تاریخی دن جب آپ اپنے حق کو ثابت کرنے کے لئے مسجد میں خطبہ دے رھی تھیں، تو

پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے اصحاب کی طرف رخ کرکے فرمایا:

کیا تم لوگوں نے غدیر کے دن کو فراموش کردیا جس دن پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے حضرت علی (ع) کے بارے میں فرمایا تھا :

”من کنت مولاہ فھٰذ ا علی مولاہ” جس کا میں مولا ھوں یہ علی اس کے مولا ھیں.

5۔ جس وقت امام حسن علیہ السلام نے معاویہ سے صلح کی قرار داد باندھنے کا فیصلہ کیا تو مجمع میں کھڑے ھو کر ایک خطبہ دیا اور اس میں فرمایا:

”خدا وندعالم نے پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اھل بیت (ع)کو اسلام کے ذریعہ مکرم اور گرامی قرار دیا ھمیں منتخب کیا اور ھر طرح کی رجس و کثافت کو ھم سے دور رکھا … یھاں تک کہ فرمایا: پوری امت نے سنا کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی ںسے فرمایا: تم کو مجھ سے وہ نسبت ھے جو ھارون کو موسی (ع) سے تھی“

تمام لوگوں نے دیکھا اور سناکہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے غدیر خم میں حضرت علیں کا ھاتہ تھام کرلوگوں سے فرمایا:

” من کنت مولاہ فعلی مولاہ اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ” (9)

6۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی سرزمین مکہ پر حاجیوں کے مجمع میں جس

میں اصحاب پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی ایک بڑی تعداد موجود تھی —خطبہ دیتے ھوئے

فرمایا:

”میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ھوں کیا تم جانتے ھو کہ پیغمبر اسلام نے غدیر کے دن حضرت علی ںکو اپنی خلافت و ولایت کے لئے منتخب کیا اور فرمایا کہ : حاضرین یہ بات غائب لوگوں تک پھنچا دیں “ ؟ پورے مجمع نے کھا : ھم گواھی دیتے ھیں ۔

7۔ ان کے علاوہ جیسا کہ ھم عرض کر چکے ھیں ، پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے کئی اصحاب مثلا عماریاسر ،زید بن ارقم ،عبداللہ بن جعفر ،اصبغ بن نباتہ اور دوسرے افراد نے بھی حدیث غدیر کے ذریعہ حضرت علی ںکی خلافت و امامت پر استدلال کیا ھے ۔ (10)

___________________

1۔ سید علی خان مرحوم ”مدنی“ نے اپنی گرانقدر کتاب ”الدرجات الرفیعہ فی طبقات الشیعة الامامیة “ میں اصحاب پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)میں سے ایسے افراد کے نام و خصوصیات بیان کیئے ھیں جو حضرت علی علیہ السلام کے وفادار رھے ۔مرحوم شرف الدین عاملی نے بھی اپنی تالیف العقو ل المھمة ص/177تاص192 میں اپنی تحقیق کے ذریعہ ان میں مزید افراد کا اضافہ کیا ھے ۔

اس کتاب کے موٴلف نے بھی ”شخصیتھای اسلامی در شیعہ” کے عنوان سے ایک کتاب تدوین کی ھے جس میں ان افراد کے حالات زندگی اور امیر الموٴمنین حضرت علی علیہ السلام سے ان کی ولایت کے مراتب دقیق ماٴخذ کے ساتھ بیان کئے ھیں اور یہ کتاب چند جلدوں میں شائع ھوگی۔

 

2۔صحیح بخاری ج/1،ص/22(کتاب علم)

3۔نور /63

4۔حجرات /1

5۔الحجرات/7

6۔مناقب خوارزمی ،ص/217

7۔الغدیر، ج/1،ص/153۔171

8۔فرائد المسطین،باب58۔حضرت علی علیہ السلام نے ان تین موقعوں کے علاوہ مسجد کوفہ میں ”یوم الرجعہ “ نام کے دن ،روز ”جمل “ ”حدیث الرکبان“کے واقعہ میں اور ”جنگ صفین “ میں حدیث غدیر سے اپنی امامت پر استدلال کیا ھے۔

9۔ ینابیع المودة ص/482

10۔ مزید آگاھی کے لئے ”الغدیر “ ج/1ص/146تا ص/195 ملاحظہ فرمائیں۔ اس کتاب میں بائیس استدلال حوالوںکے ساتھ درج ھیں۔

 

 

 

 

 

بائیسویں فصل

 

حدیث”ثقلین “اورحدیث ” سفینہ”قرآن و عترت کا باھم اٹوٹ رشتہ

حدیث ثقلین (1) اسلام کی ان قطعی و متواتر احادیث میں سے ھے جسے علمائے اسلام نے پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے نقل کیا ھے ۔مختلف زمانوں اور صدیوں میں اس حدیث کے متعدد اور قابل اعتماد اسناد پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حدیث کو قطعی ثابت کرتے ھیں اور کوئی بھی صحیح فکر اور صحیح مزاج والا شخص اس کی صحت و استواری میں شک نھیں کر سکتا ۔

علمائے اھل سنت کے نقطہ نظرسے اس حدیث کا جائزہ لینے سے پھلے ھم ان سے بعض افراد کی گواھی یھاں نقل کرتے ھیں:

”منادی“ کے بقول:یہ حدیث ایک سو بیس (2) سے زیادہ صحابیوں نے

پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے نقل کی ھے ۔ (3)

ابن حجر عسقلانی کے بقول : حدیْث ثقلین بیس (4) سے زیادہ طریقوں سے نقل ھوئی ھے(5)

عظیم شیعہ عالم علامہ میر حامد حسین مرحوم ،جن کا انتقال 1306ء ہ میں ھوا ھے ،انھوں نے مذکورہ حدیث کو علمائے اھل سنت کی 502 کتابوں سے نقل کیا ھے ۔ حدیث کی سند اور دلالت سے متعلق ان کی تحقیق چہ جلدوں میں اصفھان سے شائع ھو چکی ھے ، شائقین اس کتاب کے ذریعہ اس حدیث کی عظمت سے آگاہ ھو سکتے ھیں۔

اگر ھم اھل سنت کے مذکورہ راویوں پر شیعہ راویوں کا اضافہ کردیں تو حدیث ثقلین معتبر اور متواتر ھونے کے اعتبار سے اعلیٰ درجہ پر نظر آتی ھے ،جس کے اعتبار کا مقابلہ حدیث غدیر کے علاوہ کسی اور حدیث سے نھیں کیا جا سکتا ۔حدیث ثقلین کا متن یہ ھے

”انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اھل بیتی ماان تمسکتم بھما لن تضلوا ابدا ولن یفترقا حتیٰ یردا علی الحوض“

”میں تمھارے درمیان دو گرانقدر امانتیں چھوڑے جا رھا ھوں ،ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے میری عترت و اھل بیت(ع) ھیں ،جب تک تم ان دونوں سے متمسک رھوگے ھرگز گمراہ نہ ھوگے یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ھوں گے ،یھاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پہ پھنچ جائیں“

البتہ یہ حدیث اس سے بھی وسیع انداز میں نقل ھوئی ھے ۔حتی ابن حجر نے لکھا ھے کہ

پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس حدیث کے آخر میں اضافہ فرمایا:

”ھٰذا علی من القرآن و القرآن مع علی لا یفترقان“ (6)

”یعنی یہ علی ھمیشہ قرآن کے ساتھ ھیں اور قرآن علی کے ھمراہ ھے۔یہ دونوںایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے“

مذکورہ بالا روایت حدیث کی وہ مختصر صورت ھے جسے اسلامی محدثوں نے نقل کیا ھے اور اس کی صحت پر گواھی دی ھے ۔ لیکن حدیث کی صورت میں اختلاف کی وجہ یہ ھے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مختلف موقعوں پر الگ الگ تعبیروں میں لوگوں کو قرآن و اھل بیت(ع) کے اٹوٹ رشتہ سے آگاہ کیا ھے ۔ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ان دونوں حجتوں کے ربط کو حجة الوداع کے موقع پر غدیر خم (7) میں۔منبرپر (8)، اور بستر بیماری پر (9) جب کہ آپ کا حجرہ اصحاب سے بھرا ھو ا تھا ،بیان کیا تھا ۔اور اجمال و تفصیل کے لحاظ سے حدیث کے اختلاف کی وجہ یہ ھے کہ آنحضرت نے اسے مختلف تعبیروں سے بیان کیا ھے

اگر چہ حدیث مختلف صورتوں سے نقل ھوئی ھے اور پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی دو یادگاروں کو کبھی ”ثقلین “ کبھی ”خلیفتین“ اور کبھی ” امرین“ کے الفاظ سے یاد کیا ھے ، اس کے باوجود سب کا مقصد ایک ھے اور وہ ھے قرآن کریم اور پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی عترت و اھل بیت (ع)کے درمیان اٹوٹ رابطہ کا ذکر۔

حدیث ثقلین کا مفاد

حدیث ثقلین کے مفاد پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ھوتی ھے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی عترت و اھل بیت (ع)گناہ تو گناہ خطا ولغزش سے بھی محفوظ و معصوم ھیں ،کیوں کہ جو چیز صبح قیامت تک قرآن کریم سے اٹوٹ رشتہ و رابطہ رکھتی ھے وہ قرآن کی ھی طرح ( جسے خدا وند عالم نے ھر طرح کی

تحریف سے محفوظ رکھا ھے) ھر خطا و لغزش سے محفوظ ھے۔

دوسرے لفظوں میںیہ جو پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا کہ اسلامی امت صبح قیامت تک (جب یہ دونوں یادگاریں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ملاقات کریں گی) ان دونوں سے وابستہ رھے اور ان دونوں کی اطاعت و پیروی کرے ،اس سے یہ بات اچھی سمجھی جا سکتی ھے کہ یہ دونوں الٰھی حجتیں اور پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی یادگاریں ،ھمیشہ خطا و غلطی سے محفوظ اور ھر طرح کی کجی و انحراف سے دور ھیں ۔ کیوں کہ یہ تصور نھیں کیا جا سکتا کہ خدا وند عالم کسی عاصی و گناھگار انسان کی اطاعت ھم پر واجب کرے یا قرآن مجید جیسی خطا سے پاک کتاب کا کسی خطا کار گروہ سے اٹوٹ رشتہ قرار دےدے ۔قرآن کا ھمسر اور اس کے برابر تنھا وھی گروہ ھو سکتا ھے جو ھر گناہ اور ھر خطا و لغزش سے پاک ھو۔

جیسا کہ ھم پھلے عرض کر چکے ھیں ،امامت کے لئے سب سے اھم شرط عصمت یعنی گناہ و خطا سے اس کامحفوظ رھنا ھے ۔آگے بھی ھم عقل کی روشنی میں الٰھی پیشواؤںاور رھبروں کے لئے اس کی ضرورت پر ثبوت فراھم کریں گے حدیث ثقلین بخوبی اس بات کی گواہ ھے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی عترت و اھل بیت (ع)قرآن کی طرح ھر عیب و نقص ،خطا و گناہ سے پاک ھیں اور چونکہ ان کی پیروی واجب کی گئی ھے لھٰذا انھیں بھر حال گناہ و معصیت سے پاک ھونا چاھئے۔

امیر الموٴمنین (ع)کا حدیث ثقلین سے استدلال

کتاب ”احتجاج “ کے موٴلف احمد بن علی ابن ابیطالب کتاب ”سلیم بن قیس “ سے (جوتابعین میں ھیں اور حضرت امیر المومنینں کے عظیم شاگرد ھیں)نقل کرتے ھیں کہ عثمان کی خلافت کے دور میں مسجد النبی میں مھاجرین و انصار کا ایک جلسہ ھو اجس میں ھر شخص اپنے فضائل و کمالات بیان کر رھا تھا ۔ اس جلسہ میں امام علیں بھی موجود تھے لیکن خاموش بیٹھے ھوئے سب کی باتیں سن رھے تھے ۔ آخر کا ر لوگوں نے امام (ع)سے درخواست کی کہ آپ (ع)بھی اپنے بارہ میں کچھ بیان کریں ،امام نے ایک تفصیلی خطبہ ارشاد فرمایاجس میں چند آیات کی تلاوت بھی فرمائی جو آپ کے حق میں نازل ھوئی تھی اس کے ساتھ ھی آپ نے ارشاد فرمایا: میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ھوں کیا تم جانتے ھو کہ رسول خدا نے اپنی زند گی کے آخری ایام میں خطبہ دیا تھا اور اس میں فرمایا تھا:

” یا اٴیھا الناس انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اھل بیتی فتمسکوا بھما لاتضلوا “

” اے لوگو! میں تمھارے درمیان دو گرانقدر میراث چھوڑے جا رھا ھوں ۔ اللہ کی کتاب اور میرے اھل بیت (ع)پس ان دونوں سے وابستہ رھو کہ ھر گز گمراہ نہ ھوگے ۔ 10)

مسلم ھے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی عترت و اھل بیت (ع)سے مراد ان سے وابستہ تمام افراد نھیں ھیں کیوں کہ امت کا اس پر اتفاق ھے کہ تمام وابستہ افراد لغزش و گناہ سے پاک و مبرا نھیں تھے بلکہ اس سے مراد وہ معین تعداد ھے جن کی امامت پر شیعہ راسخ عقیدہ رکھتے ھیں۔

دوسرے لفظوں میں اگر ھم حدیث ثقلین کے مفاد کو قبول کر لیں تو عترت و اھل بیت کے افراد اور ان کے مصداق مخفی نھیں رہ جائیں گے کیوں کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے فرزندوں یا ان سے وابستہ افراد کے درمیان صرف وھی لوگ اس حدیث کے مصداق ھو سکتے ھیں جو ھر طرح کی لغزش و خطا سے مبرا و پاک ھیں اور امت کے درمیان طھارت ،پاکیزگی ،اخلاقی فضائل اور وسیع و بیکراں علم کے ذریعہ مسلمانوں میں مشھور ھیں اور لوگ انھیں نام و نشان کے ساتھ پھچانتے ھیں۔

ایک نکتہ کی یاد دھانی

اس مشھوراور متفق علیہ حدیث یعنی حدیث ثقلین کا متن بیان ھو چکا اور ھم نے دیکھا کہ

پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ھر جگہ” کتاب و عترت “ کو اپنی دو یاد گار کے عنوان سے یاد کیا ھے اور ان دو الٰھی حجتوں کے باھم اٹوٹ رشتہ کو ذکر کیا ھے لیکن سنت کی بعض کتابوں میں کھیں کھیں ندرت کے ساتھ ”کتاب اللہ و عترتی “ کے بجائے ”کتاب اللہ و سنتی “ ذکر ھو اھے اور ایک غیر معتبر روایت کی شکل میں نقل ھوا ھے ۔

ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب میں حدیث کی دوسری صورت بھی نقل کی ھے اور اس کی توجیہ کرتے ھوئے لکھا ھے کہ : در حقیقت سنت پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)جو قرآنی آیات کی مفسر ھے اس کی بازگشت خود کتاب خدا کی طرف ھے اور دونوں کی پیروی لازم وواجب ھے ۔

ھمیں اس وقت اس سے سرو کار نھیں کہ یہ توجیہ درست ھے یا نھیں ۔جو بات اھم ھے یہ ھے کہ حدیث ثقلین جسے عام طور سے اسلامی محدثوں نے نقل کیا ھے وہ وھی ” کتاب اللہ و عترتی “ھے اور اگر جملہ ”کتاب اللہ و سنتی “ بھی پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے صحیح و معتبر سند کے ساتھ نقل ھوئی ھوگی تو وہ ایک دوسری حدیث ھوگی ۔ جو حدیث ثقلین سے کوئی ٹکراؤ نہ رکھے گی ۔جبکہ یہ تعبیر احادیث کی کتابوں میں کسی قابل اعتماد سند کے ساتھ نقل نھیں ھوئی ھے ۔اور جو شھرت و تواتر پھلی بایوں کھا جائے کہ اصل حدیث ثقلین کو حاصل ھے وہ اسے حاصل نھیں ھے۔

 

عترت پیغمبر سفینہٴ نوح کے مانند

اگر حدیث سفینہ کو حدیث ثقلین کے ساتھ ضم کردیا جائے تو ان دونوں حدیثوں کا مفاد

پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے اھل بیت (ع)کے لئے فضائل و کمالات کی ایک دنیا کو نمایاں کرتاھے۔

سلیم ابن قیس نے لکھا ھے کہ : میں حج کے زمانہ میں مکہ میںموجود تھا.میں نے دیکھا کہ جناب ابوذر غفاری کعبہ کے حلقہ کو پکڑے ھوئے بلند آواز میں کھہ رھے ھیں:

اے لوگو! جو مجھے پھچانتا ھے وہ پھچانتاھے اور جو نھیں پھچانتا میں اسے اپنا تعارف کراتا ھوں۔ میں جندب بن جنادہ ”ابوذر“ھوں.اے لوگو! میں نے پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے سنا ھے کہ”

”ان مثل اھل بیتی فی امتی کمثل سفینة نوح فی قومہ من رکبھا نجیٰ ومن ترکھا غرق“

میرے اھل بیت کی مثال میری امت میں جناب نوح کی قوم میں ان کی کشتی کے مانند ھے کہ جو شخص اس میں سوار ھوا اس نے نجات پائی اور جس نے اسے ترک کردیا وہ غرق ھوگیا. (11)

حدیث سفینہ ،حدیث غدیر اور حدیث ثقلین کے بعد اسلام کی متواتر حدیثوں میں سے ھے اور محدثین کے درمیان عظیم شھرت رکھتی ھے .

کتاب عبقات الانوار  کے مولف علامہ میر حامد حسین مرحوم نے اس حدیث کو اھل سنت کے نوے /90 مشھور علماء و محدثین سے نقل کیا ھے.

حدیث سفینہ کا مفاد

حدیث سفینہ جس میں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی عترت کو نوح کی کشتی سے تعبیر کیا گیا ھے.اس سے صاف ظاھر ھوتا ھے کہ اھل بیت (ع)کی پیروی نجات کا سبب اور ان کی مخالفت نابودی کا سبب ھے ۔

اب یہ دیکھنا چاھیئے کہ کیا صرف حلال و حرام میں ان کی پیروی کرنا چاھیئے اور سیاسی و اجتماعی مسائل میں ان کے ارشاد و ھدایت پر عمل کرنا واجب نھیں ھے یا یہ کہ تمام موارد میں ان کی پیروی واجب ھے اور ان کے اقوال اور حکم کو بلا استثناء جان و دل سے قبول کرنا ضروری ھے ؟

جولوگ کھتے ھیں کہ اھل بیت (ع)پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی پیروی صرف دین کے احکام اور حلال و حرام سے مربوط ھے وہ کسی دلیل کے بغیر پیروی کے موضوع کو محدود کرتے ھیں اور اس کی وسعت کو سمجھنے کی کوشش نھیںکرتے جب کہ حدیث میں اس طرح کی کوئی قید و شرط نھیں ھے۔

لھٰذا حدیث سفینہ بھی اس سلسلہ میں وارد ھونے والی دوسری احادیث کی طرح اسلامی

قیادت و سرپرستی کے لئے اھل بیت (ع)کی لیاقت و شائستگی کو ثابت کرتی ھے۔

اس کے علاوہ مذکورہ حدیث اھل بیت (ع)کی عصمت و طھارت اور ان کے گناہ و لغزش سے پاک ھونے کی بھترین گواہ ھے،کیونکہ ایک گناھگار و خطا کار بھلا کس طرح دوسروں کو نجات اور گمراھوں کی ھدایت کرسکتا ھے ؟!

حضرت امیر المومنین ںاور ان کے جانشینوں کی ولایت اور امت اسلام کی پیشوائی و رھبری کے لئے ان کی لیاقت و شائستگی کے دلائل اس سے کھیں زیادہ ھیں اور اس مختصر کتاب میں سمیٹے نھیں جاسکتے لھٰذا ھم اتنے ھی پر اکتفا کرتے ھیں اور اپنی گفتگو کاآغاز عصمت کے موضوع سے کرتے ھیں جو الٰھی رھبروں کے لئے بنیادی شرط ھے ۔

___________________

1۔ ثقل ،فتح ”ق“ اور ”ث“ اس کے معنی ھیں کوئی بھت نفیس اور قیمتی امر ۔ اور کسرِ ”ث“ اور جزم ”ق“ سے مراد کوئی گرانقدر چیز.

2۔فیض القدیر ،ج/3ص/14

3۔صواعق محرقہ ،عسقلانی ،حدیث 135

4۔ ینابیع المودة ص/32وص/40

5۔ مستدرک ،حاکم ،ج/3ص/109 وغیرھ

6۔ بحار الانوار ج/22ص/76نقل از مجالس مفید

7۔ الصواعق المحرقہ ،ص/75

8۔احتجاج ج/1،ص/210

9۔احتجاج طبرسی،ص/228

10۔جزء دوم از جلد دوازدھم ،ص/914کے بعد ملاحظہ فرمائیں۔

11۔ مستدرک حاکم ،ج/3،ص/343۔کنز العمال ،ج/1،ص/250۔صواعق،ص/75۔ فیض القدیر،ج/4،ص/356۔

 

 

 

 

 

تیئیسویں فصل

ایک شخص کا معصوم ھونا کیسے ممکن ھے

کیا انسانی معاشرہ کی قیادت و رھبری سے بڑھکر کوئی منصب تصور کیا جا سکتا ھے؟کیا کوئی شخص روحی و جسمی امتیازات کے بغیر زندگی کے کسی ایک پھلو میں بھی معاشرہ کی قیادت کا بوجہ سنبھال سکتا ھے ؟ چہ جائیکہ زندگی کے تمام مادی ومعنوی پھلوؤں میں !! جو صرف الٰھی رھبروں یعنی انبیاء وغیرہ سے مخصوص ھے؟

سیاسی لیڈران جو ملک و مملکت کے صرف سیاسی مسائل میں قیادت کرتے ھیں یا اقتصادی مسائل کے ماھرین جو ملک کی اقتصادکی باگڈور ھاتہ میں رکھتے ھیں ان میدانوں سے متعلق خاص شرائط و صفات کے بغیر —–جو انھیں دوسروںسے ممتاز و بر تر ثابت کرتے ھیں —–ملک کے اس اعلیٰ سیاسی یا اقتصادی منصب کو حاصل ھی نھیں کر سکتے ۔

اگر ایسا ھی ھے تو یہ بات بدرجہ اولی تسلیم کرنی چاھئے کہ انبیائے الٰھی اور ان کے حقیقی جانشینوں —– جو انسانی معاشرہ کے تمام میدانوں میں رھبر ھیں —–میں بھی وہ عالی اور با عظمت صفات و کمالات ھونے چاھئےںجو ان کی رھبری کی حیثیت کو ثابت کریں ۔ کیوں کہ در حقیقت ان صفات اور امتیازات کی بنا پر ھی ان افراد کو یہ عظیم منصب عطا کیا گیا ھے۔

آپ ان عظیم افراد کے امتیازات کو حسب ذیل دو عنوانوں میں خلاصہ کر سکتے ھیں:

1)۔ گناہ اور خدا کی نا فرمانی سے محفوظ رھنا۔

2)۔ خدا سے احکام حاصل کرنے اور لوگوں کو ان احکام کی تبلیغ کرنے میں خطا و غلطی سے محفوظ رھنا ۔ اس سے پھلے کہ الٰھی رھبروں کے لئے عصمت کے لازم ھونے کے دلائل بیان کئے جائیں ،بھتر ھے کہ خود عصمت کے بارے میں اجمال کے ساتھ یہ گفتگو کی جائے کہ کس طرح ایک شخص گناہ سے محفوط رھتا ھے۔

عصمت کیا ھے؟

عصمت ایک نفسانی صفت اور ایک باطنی طاقت ھے جو اپنے حامل کو گناہ ھی سے نھیں بلکہ گناہ انجام دینے کی فکر یا خیال سے بھی دور رکھتی ھے۔ دوسرے لفظوں میں یہ خدا کا باطنی خوف ھے جو انسان کو گناہ سے حتٰی گناہ کے ارادہ سے بھی محفوظ رکھتا ھے۔

یھاں یہ سوال پیش آتا ھے کہ یہ کیسے ممکن ھے کہ ایک شخص تمام گناھوں سے محفوظ رھے اور وہ نہ صرف گناہ نہ کرے بلکہ گناہ اور نافرمانی کے ارادہ سے بھی دور رھے ؟

اس کا جواب یہ ھے کہ گناہ کی برائیوں کے علم کا لازمہ یہ ھے کہ انسان اپنے آپ کو گناہ سے محفوظ رکھے ۔ البتہ اس کا مطلب یہ نھیں کہ گناہ کی برائیوں کے سلسلہ میں ھر درجہ کا علم انسان کو گناہ سے محفوظ و معصوم بنا دیتا ھے ،بلکہ علم کی حقیقت نمائی اس قدر قوی ھو جو گناہ کے برے آثار کوانسان کی نگاہ میں اس قدر مجسم کر دے کہ انسان ان برے کاموں کے انجام کو اپنی آنکھوں میں مجسم ھوتے ھوئے دیکھے ۔ اس صورت میں گناہ اس کے لئے ”محال عادی “ ھو جائے گا ۔ ذھن کو اور قریب کرنے کے لئے حسب ذیل مطلب پر توجہ دیں۔

ھم میں سے ھر ایک شخص بعض ایسے اعمال سے جن سے ھماری جان جانے کا خطرہ ھوتاھے ایک طرح سے محفوظ ومعصوم ھیں ۔اس طرح کا تحفظ اس علم کی پیدا وار ھے جوان اعمال کے نتائج کے طور پر ھمیں حاصل ھے مثال کے طور پر ایک دوسرے کے دشمن دو ملک جن کی سرحدیں آپس میں ملی ھوئی ھیں اور ھر طرف کے فوجی تھوڑے فاصلہ سے بلند برجوں پر قوی دوربینوں،تیز لائٹوں اور سدھے ھوئے کتوں کے ذریعہ سرحد کی نگرانی کررھے ھیں اور خاص طور سے کسی کے سرحد پار کرنے پر گھری نظر رکھے ھوئے ھیں کہ اگر کوئی سرحد سے ایک قسم بھی آگے بڑھا گولوں سے بھون دیا جائے گا ایسی صورت میں کوئی عقل مند انسان سرحد پار کرنے کا خیال بھی اپنے ذھن میں نھیں لاسکتا چہ جائےکہ عملا بہ اقدام کرے ۔ایسا انسان اس عمل کے سلسلہ میں ایک طرح سے محفوظ ومعصوم ھے۔

زیادہ دور نہ جائےں ،ھرعاقل انسان جسے اپنی زندگی سے پیار ھے ،قاتل زھر کے مقابل جس کا کھانا اس کے لئے جان لیوا ھوگایابجلی کے ننگے تار کے مقابل جس کا لمس کرنا اسے جلاکر سیاہ کردے گایا اس بیمار کی بچی ھوئی غذا کے مقابل– جسے ”جذام“یا”برص“کی شدید بیماری ھوئی ھو– جس کے کھانے سے اس کے اندر یہ مرض سرایت کرجائے گا،ایک طرح کا تحفظ اور عصمت رکھتاھے۔یعنی وہ ھرگز اور کسی بھی قیمت پر یہ اعمال انجام نھیں دیتا اور اس سے ان اعمال کا ھونا ایک”محال عادی“ھے۔ اس کااس طرح سے محفوظ ومعصوم رھنے کا سبب بھی ان اعمال کے برے نتائج کا اس کی نظر میں مجسم ھونا ھے۔عمل کے خطرناک آچار اس کی نظر میں اس قدر مجسم اور اس کے دل کی نگاہ میں اتنے نمایاں ھوجاتے ھیں کہ ان کی روشنی میں کوئی بھی انسان اپنے ذھن میں ان کاموں کے انجام دینے کا خیال تک نھیں لاتا،چہ جائے کہ وہ یہ عمل انجام دے ڈالے۔

ھم دیکھتے ھیں کہ ایک شخص یتیم وبےنوا کا مال ھضم کرجانے میں کوئی باک نھیں رکھتا جبکہ اس کے مقابل دوسرا شخص ایک پیسے حرام کھانے سے بھی پرھیز کرتا ھے ۔پھلا شخص پوری بے باکی کے ساتھ ےتیموں کا مال کیوں کھا جاتاھے لیکن دوسرا شخص حرا م کے ایک پیسہ سے بھی کیوں پرھیز کرتاھے؟

اس کاسبب یہ ھے کہ پھلا شخص سرے سے اس قسم کی نافرمانی کے برے انجام کا اعتقادھی نھیں رکھتا اور اگر قیامت کا تھوڑا بھیت ایمان رکھتا بھی ھے جب بھی تیزی سے تمام ھوجانے والی مادی لذتیں اس کے دل کی آنکھوں پر اس کے برے انجام کی طرف سے ایسا پردہ ڈال دیتی ھےں کہ ان کے برے آثار کا ایک ھلکا ساسایہ اس کی عقل کی نگاھوں کے سامنے سے گذر کر رہ جاتاھے اور اس پر کوئی اثر نھیں ھوتا ۔ لیکن دوسراشخص اس گناہ کے برے انجام پر اتنا یقین رکھتا ھے کہ مال یتیم کا ھر ٹکڑا اس کی نظر میں جھنم کی آگ کے ٹکڑے کے برابر ھوتا ھے اور کوئی عقلمند انسان آگ کھانے کا اقدام نھیں کرتا ،کیونکہ وہ علم وبصیرت کی نگاہ سے دیکہ لیتا ھے کہ یہ مال کس طرح جھنم کی آگ میں بدل جاتاھے ۔لھٰذا وہ اس عمل کے مقابل محفوظ ومعصوم رھتاھے۔

اگر پھلے شخص کو بھی ایسا ھی علم اور ایسی ھی آگاھی حاصل ھوجائے تو وہ بھی دوسرے شخص کی طرح یتیم کا مال ظالمانہ طریقہ سے ھڑپ نہ کرے گا۔جو لوگ سونے اور چاندی کادھیر اکٹھا کرلیتے ھیں اور خدا کی طرف سے واجب حقوق کو ادا نھیں کرتے قرآن مجید ان کے سلسلہ میں فرماتا ھے :یھی سونا چاندی قیامت کے دن آگ میں بدل جائے گا اور اس سے ان کی پیشانی پھلووٴں اور پشت کو داغا جائے گا۔ (1)

اب اگر ایسا خزانہ رکھنے والے اس منظر کو خود اپنی آنکھوں سے دیکہ لیں اوریہ دیکہ لیں کہ ان جیسے افراد کاکیا انجام ھوا،اس کے بعد انھیں تنبیہ کی جائے کہ اگر تم بھی اپنی دولت کو جمع کرکے رکھوگے اور خدا کی راہ میں خرچ نھیں کروگے تو تمھارا بھی یھی انجام ھوگا تو وہ بھی فوراً اپنی چھپائی ھوئی دولت کو نکال کر خدا کی راہ میں خرچ کر ڈالیں گے۔

اکثر بعض افراد اسی دنیا میں الٰھی سزا وعذاب کے اس منظر کو دیکھے بغیر اس آیت کے مفھوم پر اس قدر ایمان رکھتے ھیں جو دیکھی ھوئی چیز پر ایمان سے کم نھیں ھوتا ۔یھاں تک کہ اگر دنیا وی و مادی پردے ان کی نگاھوں سے ھٹا دیئے جائیں جب بھی ان کے ایمان میں کوئی فرق نھیں آتا ۔ایسی صورت میں یہ شخص اس (خزانہ جمع کرنے کے ) گناہ سے محفوظ رھتا ھے ،یعنی ھر گز سونا چاندی اکٹھا نھیں کرتا ۔

اب اگر ایک شخص یا ایک گروہ کائنات کے حقائق کے سلسلہ میں کامل اور حقیقی آگاھی و معرفت رکھنے کی وجہ سے تمام گناھوں کے انجام کے سلسلہ میں ایسی ھی حالت رکھتا ھو اور گناھوں کی سزا ان پر اس قدر نمایاں اور واضح ھو کہ مادی حجاب نگاھوں سے اٹھنے یا زمان و مکان کے فاصلوں کے باوجود ان کے ایمان و اعتقاد میں کوئی فرق نھیں آتا تو اس صورت میں یہ شخص یا وہ گروہ ان تمام گناھوں کے مقابل سو فی صدی تحفظ اور عصمت رکھتا ھے ۔نتیجہ میں ان سے نہ صرف گناہ سرزد نھیں ھوتے بلکہ انھیں گناہ کا خیال بھی نھیں آتا۔

لھٰذا یہ کھنا چاھئے کہ عصمت کسی ایک چیز یا تمام چیزوں میں اعمال کے انجام و نتائج کے قطعی علم اور شدید ایمان کے اثر سے پیدا ھوتی ھے ْاور ھر انسان بعض امور کے سلسلہ میں ایک طرح کی عصمت رکھتا ھے مگر انبیائے الٰھی اعمال کے انجام سے مکمل آگاھی اور خدا کی عظمت کی کامل معرفت کی وجہ سے تمام گناھوں کے مقابل مکمل عصمت رکھتے ھیں اور اسی علم و یقین کی بنا پر گناہ کے تمام اسباب، خواھشوں اور شھوتوں پر قابو رکھتے ھیں اور ایک لمحہ کے لئے بھی خدا کے معین کردہ حدود سے سرکشی نھیں کرتے ۔

آخر میں اس نکتہ کی طرف توجہ دلانا ضرور ی ھے کہ یہ صحیح ھے کہ انبیائے کرام گناہ اور ھر طرح کی نافرمانی سے محفوظ ھیں ، لیکن اس تحفظ کا یہ مطلب نھیں ھے کہ وہ گناہ کے کام انجام دینے کی توانائی نھیں رکھتے اور خدا کا حکم بجا لانے پر مجبور ھیں ۔ بلکہ یہ حضرات بھی تمام انسانوں کی طرح عمل کی آزادی اور اختیار رکھتے ھیں اور اطاعت یا نافرمانی دونوں پر انھیں قدرت حاصل ھے لیکن یہ لوگ اپنی باطنی آنکھوں سے — جو کائنات کے حقائق سے متعلق ان کے وسیع علم کی وجہ سے انھیں حاصل ھوئی ھیں — اعمال کے نتائج و انجام کا مشاھدہ کرلیتے ھیں اور ان نتائج سے جنھیں شریعت کی زبان میں عذاب کھا جاتا ھے ،واقف و آگاہ رھتے ھیں، لھٰذا ھر طرح کے گناہ اور نافرمانی سے پرھیز کرتے ھیں ۔اسے سمجھنے کے لئے حسب ذیل عبارت پر غور کیجئے :

اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ خدا وند عالم ھر طرح کے برے اور قبیح کا م انجام دینے پر قادر ھے لیکن اس سے کبھی اس طرح کام صادر نھیں ھوتا جو اس کے عدل اور اس کی حکمت کے خلاف ھو اس کے باوجود ھم یہ نھیں کھہ سکتے کہ وہ ان کاموں کو انجام دینے کی قدرت نھیں رکھتا ۔ بلکہ وہ ھر شئے پر قادر ھے ۔ معصوم افراد بھی گناہ کے سلسلہ میں یھی کیفیت رکھتے ھیں وہ لوگ بھی گناہ کرنے کی قدرت و توانائی رکھنے کے باوجود معصیت و گناہ کی طرف نھیں جاتے۔

_________________

177۔ ”یوم یحمیٰ علیھا فی نار جھنم فتکویٰ بھا جباھھم و ظھورھم ھذا ما کنزتم لا نفسکم فذوقوا ما کنتم تکنزون“ سورہ توبہ /35

 

 

چوبیسویں فصل

رھبران الٰھی کے لئے عصمت کی دلیلیں

علمائے عقائد نے الٰھی رھبروں خصوصاً انبیاء کرام کی عصمت کے بارے میں متعدد دلائل بیان کئے ھیں ھم یھاں ان میں سے دو دلیلیں بیان کرتے ھیں۔

یہ صحیح ھے کہ ان علماء نے یہ دلیلیں انبیاء کی عصمت کے لئے بیان کی ھیں لیکن یھی دلیلیں جس طرح انبیاء کی عصمت کو ثابت کرتی ھیں اسی طرح اماموں کی عصمت کو بھی ثابت کرتی ھےں ۔کیونکہ امامت شیعی نقطھٴ نظر سے رسالت اور نبوت کاھی تسلسل ھے ۔فرق یہ ھے کہ انبیاء منصب نبوت رکھتے ھیں اور ان کا رابطہ وحی الٰھی سے ھے اور امام کے یھاں یہ دوصفتیں نھیں ھےں ۔لیکن اگر ان دو خصوصیتوں سے صرف نظر کریں تو انبیاء اور اماموں کے در میان کوئی خاص فرق نظر نھیں آتا۔

اب یہ دونوں دلیلیں ملاحظہ ھوں :

1۔تربیت عمل کے سایہ میں :

اس میں کوئی شک نھیں کہ انبیائے کرام کی بعثت کامقصد انسانوں کی تربیت اور ان کی راھنمائی ھے اور تربیت کے موٴثر اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ھے کہ مربی میں ایسے صفات پائے جائیں جن کی وجہ سے لوگ اس سے قریب ھوجائےں ۔مثال کی طور پر اگر کوئی مربی خوش گفتار ،فصیح اور نپی تلی بات کرنے والا ھو لیکن بعض ایسے نفرت انگیز صفات اس میں پائے جائیں جس کے سبب لوگ اس سے دور ھوجائےں تو ایسی صورت میں انبیاء کی بعثت کامقصد ھی پورا نھیں ھوگا۔

ایک مربی ورھبر سے لوگوں کی دوری اور نفرت کا سب سے بڑا سبب یہ ھے کہ اس کے قول وفعل میں تضاد اور دورنگی پائی جاتی ھو۔اس صورت میں نہ صرف اس کی راھنمائیاں بے قدر اور بیکار ھوجائےں گی بلکہ اس کی نبوت کی اساس وبنیاد ھی متزلزل ھوجائے گی ۔

شیعوں کے مشھور اور بزرگ عالم سید مرتضی علم الھدیٰ نے اس دلیل کو یوں بیان کیا ھے:اگر ھم کسی کے فعل کے بارہ میں اطمینان نھیں رکھتے یعنی اگر ھمیں یہ شبہ ھے کہ وہ کوئی گناہ انجام دیتاھے تو ھم اطمینان قلب کے ساتھ اس کی بات پر دھیان نھیں دیتے ۔اور ایسے شخص کی باتےں ھم پر اثر نھیں کرسکتیں جس کے بارے میں ھم جانتے ھیں کہ وہ خود اپنی بات پر عمل نھیں کرتا ۔جس طرح مربی یارھبرکا گناہ کرنالوگوںکی نظر میں اسے کم عقل ،بے حیا اور لاابالی ثابت کرتاھے اور لوگوں کو اس سے دور کردیتاھے اسی طرح مربی یا رھبر کے قول وفعل کی دو رنگی بھی لوگوں پر اس کے خلاف منفی اثر ڈالتی ھے ۔

اگر کوئی ڈاکٹر شراب کے نقصانات پر کتاب لکھے یاکوئی متاٴثر کرنے والی فلم دکھائے لیکن خود لوگوں کے مجمع میں اس قدر شراب پئے کہ اپنے پیروں پر کھڑا نہ ھوسکے ۔ایسی صورت میں شراب کے خلاف اس کی تمام تحریریں ،تقریریں اور زحمتیں خاک میں مل جائیں گی۔

فرض کیجئے کہ کسی گروہ کارھبر کرسی پر بیٹہ کر عدل وانصاف اور مساوات کی خوبیاں بیان کرنے کے لئے زبردست تقریرکرے لیکن خود عملی طور سے لوگوں کا مال ھڑپ کرتارھے تو اس کاعمل اس کی کھی ھوئی باتوں کو بے اثر بنادے گا۔

خداوند عالم اسی وجہ سے انبیاء کو ایسا علم وایمان اور صبر وحوصلہ عطا کرتاھے تاکہ وہ تمام گناھوں سے خود کو محفوظ رکھیں ۔

اس بیان کی روشنی میں انبیائے الٰھی کے لئے ضروری ھے کہ وہ بعثت کے بعد یا بعثت سے پھلے اپنی پوری زندگی میں گناھوں اور غلطیوں سے دور رھیں اور ان کا دامن کسی بھی طرح کی قول وفعل کی کمزوری سے پاک اور نیک صفات سے درخشاں رھنا چاھئے ۔کیونکہ اگر کسی شخص نے اپنی عمر کاتھوڑا سا حصہ بھی لوگوں کے درمیان گناہ اور معصیت کے ساتھ گزارا ھو اور اس کی زندگی کانامھٴ اعمال سیاہ اور کمزوریوں سے بھرا ھو تو ایسا شخص بعد میں لوگوں کے دلوں میں گھر نھیں کرسکتا اور لوگوں کو اپنے اقوال وکردار سے متاثر نھیں کرسکتا۔

خداوند عالم کی حکمت کاتقاضا ھے کہ وہ اپنے نبی ورسول میں ایسے اسباب وصفات پیدا کرے کہ وہ ھر دل عزیز بن جائےں۔اور ایسے اسباب سے انھیں دور رکھے جن سے لوگوںکے نبی یارسول سے دور ھونے کا خدشہ ھو ۔ظاھر ھے کہ انسان کے گزشتہ برے اعمال اور اس کاتاریک ماضی لوگوں میں اس کے نفوذ اور اس کی ھر دلعزیزی کو انتھائی کم کردے گا اور لوگ یہ کھیں گے کہ کل تک تو وہ خود بد عمل تھا، آج ھمیں ھدایت کرنے چلاھے؟!

2۔اعتماد جذب کرنا:

تعلیم وتربیت کے شرائط میںسے ایک شرط ،جو انبیاء یاالٰھی رھبروں کے اھم مقاصد میں سے ھے ،یہ ھے کہ انسان اپنے مربی کی بات کی سچائی پر ایمان رکھتاھوکیونکہ کسی چیز کی طرف ایک انسان کی کشش اسی قدر ھوتی ھے جس قدر وہ اس چیز پر اعتماد وایمان رکھتاھے۔ایک اقتصادی یا صحی پروگرام کا پر جوش استقبال عوام اسی وقت کرتے ھیں جب کوئی اعلیٰ علمی کمیٹی اس کی تائید کردیتی ھے ۔کیونکہ بھت سے ماھروں کے اجتماعی نظریہ میں خطا یا غلطی کاامکان بھت کم پایا جاتا ھے ۔ اب اگر مذھبی پیشواوٴں کے بارے میں یہ امکان ھو کہ وہ گناہ کرتے ھوں گے تو قطعی طور سے جھوٹ یا حقائق کی تحریف کا امکان بھی پایا جاتا ھوگا ۔اس امکان کی وجہ سے ان کی باتوں سے ھماراا طمینان اٹہ جائے گا۔ اسی طرح انبیاء کا مقصد جو انسانوں کی تربیت اور ھدایت ھے ھاتہ نہ آئے گا۔

ممکن ھے یہ کھا جائے کہ اعتماد واطمینان حاصل کرنے کے لئے یہ کافی ھے کہ دینی پیشوا جھوٹ نہ بولیں اور اس گناہ کے قریب نہ جائےں تا کہ انھیں لوگوں کا اعتماد حاصل ھو ۔بقیہ سارے گناھوں سے ان کا پرھیز کرنا لازم نھیں ھے کیونکہ دوسرے گناھوں کے کرنے یا نہ کرنے سے مسئلہ اعتماد واطمینان پر کوئی اثر نھیں پڑتا۔

جواب یہ ھے کہ اس بات کی حقیقت ظاھر ھے ،کیونکہ یہ کیسے ممکن ھے کہ ایک شخص جھوٹ بولنے پر آمادہ نہ ھو لیکن دوسرے گناھوں مثلاً آدم کشی ،خیانت اور بے عفتی وبے حیائی کے اعمال کرنے میں اسے کوئی باک نہ ھو؟اصولاً جو شخص دنیا کی لمحاتی لذتوں کے حصول کے لئے ھر طرح کے گناہ انجام دینے پر آمادہ ھو وہ ان کے حصول کے لئے جھوٹ کیسے نھیں بول سکتا۔؟! (1)

اصولی طور سے انسان کو گناہ سے روکنے والی طاقت ایک باطنی قوت یعنی خوف خدا اور نفس پر قابو پاناھے ۔جس کے ذریعہ انسان گناھوں سے دور رھتا ھے ۔پھر یہ کیسے ممکن ھے کہ جھوٹ کے سلسلہ میں تو یہ قوت کام کرے لیکن دوسرے گناھوں کے سلسلہ میں جو عموماً بھت برے اور وجدان و ضمیر کی نظر میں جھوٹ سے بھی زیادہ قبیح ھوں ،یہ قوت کام نہ کرے ؟!

اور اگر ھم اس جدائی کو ثبوت کے طور پر قبول کربھی لیں تو اثبات کے طور سے یعنی عملاً عوام اسے قبول نھیں کرےں گے۔کیونکہ لوگ اس طرح کی جدائی کو ھرگز تسلیم نھیں کرتے۔

اس کے علاوہ گناہ جس طرح گناہ گار کو لوگوں کی نظر میں قابل نفرت بنادیتے ھیں اسی طرح لوگ اس کی باتوں پر بھی اعتماد واطمینان نھیں رکھتے اور”انظر الیٰ ما قال ولاتنظر من الیٰ قال“یعنی یہ دکھو کیا کھہ رھاھے یہ نہ دیکھو کون کھہ رھاھے کا فلسفہ فقط ان لوگوں کے لئے موٴثر ھے جو شخصیت اور اس کی بات کے در میان فرق کرنا چاھتے ھیں لیکن ان لوگوں کے لئے جو بات کی قدرقیمت کو کھنے والے کی شخصیت اور اس کی طھارت وتقدس کے آئینہ میں دیکھتے ھیں یہ فلسفہ کارگر نھیں ھوتا۔

یہ بیان جس طرح رھبری وقیادت کے منصب پر آنے کے بعد صاحب منصب کے لئے عصمت کو ضروری جانتاھے،اسی طرح صاحب منصب ھونے سے پھلے اس کے لئے عصمت کو لازم وضروری سمجھتاھے ۔کیونکہ جو شخص ایک عرصہ تک گناہ گارو لاابالی رھاھواور اس نے ایک عمر جرائم وخیانت اور فحشا وفساد میں گزاری ھو، چاھے وہ بعد میں توبہ بھی کرلے ،اس کی روح میں روحی ومعنوی انقلاب بھی پیدا ھوجائے اور وہ متقی وپرھیزگاراور نیک انسان بھی ھوجائے لیکن چونکہ لوگوں کے ذھنوں میں اس کے برے اعمال کی یادیں محفوظ ھیں لھٰذا لوگ اس کی نیکی کی طرف دعوت کو بھی بد بینی کی نگاہ سے دیکھیںگے اور بسا اوقات یہ تصور بھی کرسکتے ھیں کہ یہ سب اس کی ریاکاریاں ھیں وہ اس راہ سے لوگوں کو فریب دینا اور شکار کرنا چاھتاھے۔اور یہ ذھنی کیفیت خاص طورسے تعبدی مسائل میں جھاں عقلی استدلال اور تجزیہ کی گنجائش نھیں ھوتی ،زیادہ شدت سے ظاھر ھوتی ھے۔

مختصر یہ کہ شریعت کے تمام اصول و فروع کی بنیاد استدلال و تجربہ پر نھیں ھوتی کہ الٰھی رھبر ایک فلسفی یا ایک معلم کی طرح سے اس راہ کو اختیار کرے اور اپنی بات استدلال کے ذریعہ ثابت کرے ،بلکہ شریعت کی بنیاد وحی الٰھی اور ایسی تعلیمات پر ھے کہ انسان صدیوں کے بعد اس کے اسرار و علل سے آگاہ ھوتا ھے اور اس طرح کی تعلیمات کو قبول کرنے کے لئے شرط یہ ھے کہ لوگ الٰھی رھبر کے اوپر سو فی صد ی اعتماد کرتے ھوں کہ جو کچھ وہ سن رھے ھیں اسے وحی الٰھی اور عین حقیقت تصور کریں ، اور ظاھر ھے کہ یہ حالت ایسے رھبر کے سلسلے میں لوگوں کے دلوں میں ھر گز پیدا نھیں ھو سکتی جس کی زندگی ابتدا سے انتھا تک روشن و درخشاں اور پاک و پاکیزہ نہ ھو۔ (2)

یہ دو دلیلیں نہ صرف انبیائے کرام کے لئے عصمت کی ضرورت کو ثابت کرتی ھیں ،بلکہ یہ بھی ثابت کرتی ھیں کہ انبیاء کے جانشینوں کو بھی انبیاء کی طرح معصوم ھونا چاھئے ، کیوں کہ امامت کا منصب اھل سنت کے نظر یہ کے برخلاف کوئی حکومتی اور معمولی منصب نھیں ھے بلکہ جیسا کہ ھم پھلے بیان کر چکے ھیں امامت کا منصب ایک الٰھی منصب ھے اور امام پیغمبر کے ساتھ (نبوت اور وحی کے علاوہ ) تمام منصبوں میں شریک ھے ۔ امام ،دین کا محافظ و نگھبان اور قرآن کے مجمل مطالب کی تشریح کرنے والا ھے نیز ایسے بھت سے احکام کو بیان کرنے والا ھے جنھیں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) بیان کرنے میں کامیاب نھیں ھوئے تھے ۔

اس لئے امام مسلمانوں کا حاکم اور ان کی جان و مال و ناموس کا نگھبان بھی ھے اور شریعت کو بیان کرنے والا اور الٰھی معلم و مربی بھی ھے اور ایک مربی کو معصوم ھونا چاھئے ، کیوں کہ اگر اس سے کوئی بھی چھوٹا یا بڑا گناہ سرزد ھوا تو اس کی تربیت بے اثر ھو جائے گی ۔ اور اس کی گفتار و کردار کی صحت و درستگی پر سے لوگوں کا اعتماد اٹہ جائے گا۔

 

_____________________

1۔اس کے علاوہ گناہ کرنے والے اگر جھوٹ نہ بولیں گے تو اس کالازمہ یہ ھوگا کہ وہ سچائی کے ساتھ اپنے گناھوں کا اعتراف کریں اور جب لوگ ان کی برائیوں سے آگاہ ھوجائےں گے تو فطری طور سے ان کا وقار اور ان کی عزت خاک میں مل جائے گی اور لوگ ان سے نفرت کرنے لگیں گے۔نتیجہ میں دوبارہ وھی مشکل پیش آئے گی کہ مربی اپنے عملی گناہ کے سبب لوگوں میں اپنی عزت گنوادے گا۔

2۔ لوگوں کا اعتماد جزب کرنے کا لازمہ یہ ھے کہ پیغمبر اپنی زندگی کے تمام ادوار میں چاھے وہ رھبری سے پھلے کی زندگی ھو یا اس کے بعد والی زندگی ھر طرح کے گناہ لغزش اور الودگی سے پاک و پاکیزہ ھو ۔ کیوں کہ یہ بے دھڑک اور سو فی صدی اعتماد اسی وقت ممکن ھے جب اس شخص سے کبھی کوئی گناہ ھوتے ھوئے نہ دیکھا جائے ۔ جو لوگ اپنی زندگی کا کچھ حصہ گناہ اور آلودگی میں بسر کرتے ھیں ،اسکے بعد توبہ کرتے ھیں ،ممکن ھے کہ ایک حد تک لوگوں کا اعتماد جذب کرلیں لیکن سو فی صد ی اعتماد تو بھر حال جذب نھیں کر سکتے ۔

ساتھ ھی اس بات سے یہ نتیجہ بھی حاصل کیا جاسکتا ھے کہ رھبروں کو عمدی گناہ کے ساتھ ساتھ سھو اور بھو ل سے کئے گئے گناہ سے بھی محفوظ ھونا چاھئے ،کیوں کہ عمدی گناہ اعتماد کو سلب کر لیتا ھے اور سھوی گناہ اگر چہ بعض موارد میں اعتماد سلب کرنے کاباعث نھیں ھوتا لیکن انسان کی شخصیت کو نا قابل تلافی نقصان پھنچاتا اور اس کی شخصیت کو بری طرح مجروح کر دیتا ھے اگر چہ سھوی گناہ کی سزا نھیں ھے اور انسان ،دین و عقل کی نگاہ سے معذور سمجھا جاتا ھے لیکن رائے عامہ پر اس کابرا اثر پڑتا ھے اور لوگ ایسے شخص سے دور ھو جاتے یا میں خاص طور سے اگر گناہ بھول سے کسی کو قتل کرنے کا یا اسی جیسا ھو ۔

 

 

 

 

پچیسویں فصل

جن کے رتبے ھیں سوا ان کو سوا …… یہ طے ھے کہ اھم اور بڑی ذمہ داریوں کی انجام دھی کے لئے حالات و شرائط بھی سنگین ھوتے ھیں۔ذمہ داری جتنی بڑی اور جتنی سنگین ھوتی ھے ،شرائط بھی اسی لحاظ سے سنگین اور سخت ھوتے ھیں ۔ایک امام جماعت کے شرائط عدالت کے اس قاضی کے برابر نھیں ھیں جس کے اختیار میں لوگوں کی جان و مال ھوتے ھیں۔

نبوت اور امامت عظیم ترین منصب ھے جو خدا کی طرف سے انسانوں کو عطا ھوا ھے ، جو افراد اس منصب پر فائز ھوتے ھیں وہ خدا وند عالم کی طرف سے لوگوں کی جان و مال وناموس پر مکمل تسلط و اختیار رکھتے ھیں اور ان کاارادہ لوگوں کی زندگی کے تمام پھلوؤں پر نافذ ھوتا ھے۔قرآن مجید پیغمبر اکرم کے بارے میں فرماتا ھے :” النبی اولیٰ بالمونین من انفسھم“ (1) یعنی پیغمبر باایمان لوگوں کی جانوں پر ان سے زیادہ حق رکھتا ھے۔

پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے حدیث غدیر کے خطبہ میں خود کو اور حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کی جانوں پر ان سے زیادہ اولیٰ اور صاحب اختیار بتایا ۔ کیا یہ ممکن ھے کہ حکمت و تدبیر ولا خدا ایسے عظیم اور اھم منصب کی باگڈور ایک غیر معصوم شخص کے ھاتہ میں دےدے ”اللّٰہ اعلم حیث یجعل رسالتہ”

قرآن کی راھنمائی

پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)اور صاحبان امر (اولی الامر) (2) قرآن کے صاف حکم کے مطابق واجب الاطاعت ھیں اور جس طرح ھم خداکے فرمان کی اطاعت کرتے ھیں یوں ھی ان کے حکم کی اطاعت بھی ھم پر واجب ھے چنانچہ ارشاد ھوتا ھے : ” اطیعوا اللّٰہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم“یعنی خدا کی اطاعت کرو ،اس کے رسول کی اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔ (3)

یہ آیت باکل واضح طور سے صاحبان امر کی بلا قید و شرط اطاعت کا حکم دیتی ھے ۔ اگر یہ افراد سو فی صد ی گناہ و خطا سے محفوظ ھوں گے جب ھی خدا وند عالم کی طرف سے ان کی بلا قید و شرط اطاعت کا واجب کیا جانا صحیح ھوگا ۔ کیوں کہ اگر ھم ان کی عصمت کو تسلیم کرلیں تومعصوم کی بے قید و شرط اطاعت پر کوئی اعتراض نہ ھوگا ،لیکن اگر ھم یہ فرض کرلیں کھ(اولی الامر) یعنی صاحبان امر کا گروہ جن کی اطاعت ھم پر واجب کی گئی ھے ۔ معصوم نہ ھوں بلکہ گناہ گار و خطا کار افراد ھوں تو ایسی صورت میں خدا وند عالم یہ کیسے حکم دے گا کہ ھم ان لوگوں کی بلاقید و شرط پیروی کریں ؟!

لھٰذا اگرھم پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشینوں کے لئے عصمت کو شرط نہ جانیں اور فرض کریں کہ کسی جانشین نے کسی مظلوم کے قتل یا کسی بے گناہ کا مال و جائداد ضبط کئے جانے کا حکم دے دیا اور ھم جانتے ھوں کہ وہ شخص مظلوم یا بے گناہ تھا تو ایسی صورت میں ھمیں قرآن کے حکم کے مطابق اس جانشین کے فرمان پر موبموعمل کرنا ھوگا یعنی اس مظلوم کو قتل یا بے گناہ کا مال ضبط کرنا ھوگا۔

لیکن اگر ھم یہ کھیں کہ قرآن کریم نے ”اولی الامر “ کی پیروی کو خدا اور رسول کی اطاعت کے ساتھ قرار دیا ھے اور ان تینوں اطاعتوں کو بلا قید و شرط شمار کیا ھے تو اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ھے کہ ” اولی الامر “ رسول خدا (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی ھی طرح گناہ و خطا سے معصوم ھیں ۔ لھٰذا اب ھم یہ کھیں گے کہ کبھی کوئی معصوم ” اولی الامر “ کسی مظلوم کے قتل یا کسی بے گناہ کا مال ضبط کرنے کا حکم نھیں دیتا۔

ایک سوال کا جواب:

ممکن ھے یہ کھا جائے کہ اولی الامر کی اطاعت اسی صورت میں واجب ھے جب وہ شریعت اور خدا و رسول کے صاف حکم کے مطابق عمل کرے ۔ور نہ دوسری صورت میں نہ صرف ان کی اطاعت واجب نھیں ھے بلکہ ان کی مخالفت کرنی چاھئے۔

اس سوال کا جواب واضح ھے ۔کیوں کہ یہ بات اسی وقت عملی ھے جب اول یہ کہ تمام لوگ الٰھی احکام اور فروع دین سے مکمل آگاھی رکھتے ھوں اور حرام و حلال کی تشخیص دے سکتے ھوں ۔ دوسرے یہ کہ اس قدر جراٴت و شجاعت رکھتے ھوں کہ حاکم کے قھر و غضب سے خوف زدہ نہ ھوں جب ھی یہ ممکن ھے کہ وہ حاکم کا حکم شریعت سے مطابق ھونے کی صورت میں بجالائیں ورنہ دوسری صورت میں اس سے مقابلہ کے لئے اٹہ کھڑے ھوں ۔ لیکن افسوس کہ عام طور سے لوگ الٰھی احکام سے پوری آگاھی نھیں رکھتے کہ ”اولی الامر “ کے فرمان کو تشخیص دے سکیں بلکہ لوگوں کی اکثریت اس بات کی توقع رکھتی ھے کہ” اولی الامر“کے ذریعہ الٰھی احکام سے آگاہ ھوں اسی طرح جو طاقت سب پر مسلط ھے اس کی مخالفت بھی کوئی آسان بات نھیں ھے اور ھر ایک اس کے انجام کو برداشت نھیں کرسکتا ۔

اس کے علاوہ اگر قوم کو ایسے اختیارات حاصل ھو جائیں تو لوگوں کے دلوں میں سر کشی کا جذبہ پیدا ھو گا اور نظام درھم و برھم ھو جائے گا اور ھر شخص کسی نہ کسی بھانہ سے ” اولی الامر “ کی اطاعت سے انکار کرے گا اور قیادت کی مشینری میں خلل پیدا ھو جائے گا ،

یھی وجہ ھے کہ اس آیت کریمہ کی روشنی میں یہ یقین کیا جا سکتا ھے کہ ”اولی الامر “ کا منصب ان لوگوں کے لئے ھے جن کی اطاعت بلا قید و شرط واجب کی گئی ھے اور یہ افراد معصوم شخصیتوں کے علاوہ کوئی اور نھیں ھیں جن کا دامن ھر طرح کے گناہ ،خطا ، یا لغزش سے پاک ھے۔

قرآن کی دوسری راھنمائی

قرآن کریم میں ایک دوسری آیت جو امامت سے متعلق گفتگو کرتی ھے پوری بلاغت کے ساتھ ظلم وستم سے پرھیز کو امامت کے لئے شرط قرار دیتی ھے۔ چنانچہ ارشاد ھوتا ھے:

” اذ ابتلیٰ ابراھیم ربہ بکلمات فاتمھن قال انی جاعلک للناس اماماً قال و من ذریتی قال لا ینال عھد ی الظالمین“

” یعنی جب ابراھیم (ع) کو ان کے پروردگار نے بعض امور کے لئے آزمایا اور وہ تمام امتحانوں میں کامیاب ھوئے تو ان سے ارشاد ھوا کہ میں نے تم کو لوگوں کا پیشوا و امام قرار دیا ۔(جناب ابراھیم (ع)نے) عرض کیا: میری ذریت اور میری اولاد کو بھی یہ منصب نصیب ھوگا تو جواب ملا کہ میراعھد ستم گاروں تک نھیں پھنچے گا“(4)

امامت ،نبوت کے مانند الٰھی منصب ھے جو صرف صالح اور شائستہ افراد کو ھی ملتاھے اس آیت میں جناب ابراھیم (ع)نے خدا سے یہ تقاضا کیا کہ میری اولاد کے حصہ میں بھی یہ منصب آئے لیکن فوراً خدا وند عالم کا خطاب ھوا کہ ظالم و ستمگر افراد تک یہ منصب نھیں پھنچے گا۔

مسلّم طور سے اس آیت میں ظالم سے مراد وہ افراد ھیں جو گناھوں سے آلودہ ھیں ، کیوں کہ ھر طرح کا گناہ اپنے آپ پر ایک ظلم اور خدا کی بارگاہ میں نافرمانی کی جسارت ھے ۔ اب یہ دیکھنا چاھئے کہ کون سے ظالم لوگ اس آیت کے حکم کے مطابق منصب قیادت و امامت سے محروم ھیں۔ اصولی طور سے جو شخصیتیں لوگوں کی پیشوائی اور حاکمیت کی باگڈور سنبھالتی ھیں وہ چار ھی طرح کی ھوتی ھیں :

1۔یا وہ زندگی بھر ظالم رھے ھیں چاھے منصب حاصل کرنے سے پھلے یا اس کے بعد ۔

2۔یاانھوں نے پوری عمر میں کبھی گناہ نھیں کیا۔

3۔حاکم ھونے سے پھلے ظالم وستمگر تھے لیکن قیادت وپیشوائی حاصل کرنے کے بعد پاک صاف ھوگئے۔

4۔ یہ تیسری قسم کے برعکس ھے یعنی حکومت ملتے ھی ظلم وستم شروع کردیا اس سے پھلے گناہ نھیں کرتے تھے۔

اب دیکھنا یہ ھے کہ جناب ابراھیم (ع)نے ان چار گروھوں میں سے کس کے لئے اس منصب کی آرزو کی تھی؟یہ تو ھرگز سو چا نھیں جاسکتا کہ جناب ابراھیم (ع) نے پھلے اور جو تھے گروہ کے لئے اس عظیم منصب کی آرزو کی ھوگی ۔کیونکہ جو لوگ حاکمیت کے دوران ظالم وستمگر میں کسی بھی صاحب عقل اور صائب رائے رکھنے والے کی نظر میں اس منصب کے لائق نھیں ھوتے ھیں ،چہ جائیکہ ابراھیم (ع)خلیل کی نگاہ میں۔ جنھوں نے خود کتنے سنگیں امتحانات دینے،ساری زندگی پاکیزگی کے ساتھ بسر کرنے اور گناہ وظلم سے مسلسل لڑنے کے بعد یہ عظیم منصب حاصل کیا ھے وہ ھرگز مذکورہ دوگروھوں کے لئے تمام انسانوں پر امامت کی آرزو نھیں کرسکتے ۔ظاھر ھے کہ جناب ابراھیم (ع)کا مقصود دوسری دو قسم کی شخصیتیں تھیں ۔اس صورت میں جملھٴ ”لاینال “کی شرط کے ذریعہ تیسرا گروہ بھی نکل جاتاھے اور منصب امامت کے لئے صرف وھی گروہ رہ جاتا ھے جس نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کوئی گناہ نھیں کیاھے۔

__________________

1۔ احزاب /32

2۔ یہ وھی صاحبان امر ھیں جو پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بعد مسلمانوں کے امور کے ذمہ دار ھیں ۔یا کم از کم مصداق ”اولی الامر“ھیں۔

3۔ نساء /59

4۔ بقرہ /124

 

 

 

 

 

چھبیسویں فصل

کون سی تعبیر صحیح ھے ”عترتی“ یا”سنتی“

اگر چہ کتاب اپنے اختتام کو پھنچ چکی تھی لیکن یھاں دوموضوع پر گفتگو لازمی وضروری ھے۔

1۔حدیث ثقلین سے متعلق گفتگوھوتی ھے توبعض اھل سنت لفظ”عترتی“کی جگہ ”سنتی “ استعمال کرتے ھیں اور ”کتاب اللہ وسنتی“کھتے ھیں۔

2۔اھل سنت حضرات پیغمبر اکرم پر درود بھیجتے وقت ان کی آل کو شامل نھیں کرتے ۔

یہ دو موضوع شیعہ اور اھل سنت دونوں گروھوں کے درمیان اختلاف کاسبب ھیں لھٰذا یھاں ان دونوں موضوعات کاجائزہ لیاجارھاھے۔

1۔ کون سی تعبیر صحیح ھے :

امامیہ متکلمین جیسے صدوق ،طوسی اور مفید رضوان اللّٰہ علیھم نے بھت سے کلامی مسائل میں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی عترت واھل بیت(ع) کی احادیث سے استدلال کیا ھے اور اس سلسلہ میں حدیث ثقلین کاسھارا لیتے ھیں جب کہ بعض محدثوںنے مذکورہ حدیث کو دوسری شکل میں نقل کیا ھے اور لفظ ”عترتی“کے بجائے ”سنتی “لائے ھیں ۔حدیث ثقلین کے متن میں اس اختلاف کے ھوتے ھوئے اس کے ذریعہ کلامی مسائل میں استدلال کیسے کیا جاسکتا ھے ؟

وضاحت: امامیہ شیعہ جو اصول وعقائد میں برھان وعقلی دلیل کی پیروی کرتے ھیں ،اھل بیت (ع) کے اقوال و احادیث کوبھی اگر صحیح نقل ھوئی ھوں تواصول وفروع میں حجت جانتے ھیں ۔فرق یہ ھے کہ فروعی وعملی مسائل میں خبر صحیح کو مطلق طور سے حجت جانتے ھیں چاھے وہ خبر واحد کی صورت میں کیوں نہ ھو لیکن اصول وعقائد سے مربوط مسائل میں چونکہ مقصد اعتقاد ویقین پیدا کرنا ھے اور خبر واحد یقین کی حد تک نھیں پھنچاتی لھٰذا صرف اس قطعی خبر کو جس سے یقین وعلم حاصل ھوتا ھو حجت شمار کرتے ھیں ۔اھل بیت (ع)کے اقوال کی حجیت کی ایک دلیل حدیث ثقلین ھے جسے بھت سے اسلامی محدثوں نے قبول کیا ھے اور وہ کھتے ھیں کہ پیغمبر اکرم نے ارشاد فرمایاھے:

”انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ وعترتی ماان تمسکتم بھما لن تضلوا“

لیکن چونکہ بعض روایات میں ”عترتی“کے بجائے”سنتی “آیاھے ،اسی لئے یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ ان دو روایتوں میں سے کون صحیح ودرست ھے ؟اس لئے کلامی مسائل میں اھل بیت(ع) کی احادیث کے ذریعہ استدلال پر سوالیہ نشان لگ گیاھے ؟جس کے جواب میں علمائے شیعہ کی طرف سے رسالے اور کتابیں لکھی گئی ھیں جن میں سب سے اھم کتاب ”دار التقریب بین المذاھب الاسلامیة“کی جانب سے قاھرہ مصر میں شائع ھوچکی ھے۔

ابھی کچھ عرصہ پھلے اردن کے ایک اھل سنت عالم ”شیخ حسن بن علی سقاف“نے اس سوال کا جواب دیاھے ،ھم قارئین کرام کی خدمت میں اس کاترجمہ پیش کرتے ھیں اور چونکہ ان کا جواب سوفیصدی تحقیقی ھے لھٰذا اسی پر اکتفاکرتے ھیںآخر میں ایک یاد دھانی شیخ سقاف کی خدمت میں بھی کریں گے۔

سوال:

مجھ سے حدیث ثقلین کے بارے میں سوال کیا گیا اور دریافت کیا گیا ھے کہ ”عترتی واھل بیتی“صحیح ھے یا”کتاب اللّٰہ وسنتی“آپ سے درخواست ھے کہ سند کے اعتبار سے اس حدیث کی وضاحت فرمائیے۔

جواب:

اس متن کو دو بڑے محدثوں نے نقل کیاھے:

1۔ مسلم نے اپنی صحیح میں جناب زید بن ارقم ۻسے نقل کیاھے ۔وہ کھتے ھیں کہ پیغمبر اسلام نے ایک روز مکہ اور مدینہ کے در میان ”خُم “نام کی جگہ پر ایک خطبہ ارشاد فرمایااور اس میں خدا کی حمد وثنا اور لوگوں کو نصیحت فرمائی ۔اس کے بعد فرمایا:

”یا ایھا الناس!فانما انا بشر یوشک ان یاتی رسول ربی فاجیب وانا تارک فیکم ثقلین :اولھما کتاب اللّہ فیہ الھدیٰ والنور ،فخذوا بکتاب اللّٰہ واستمسکوا بہ فحثّ علیٰ کتاب اللّٰہ ورغّب فیہ ثم قال واھل بیتی،اذکّرکم اللّٰہ فی اھل بیتی،اذکّرکم اللّہ فی اھل بیتی،اذکّرکم اللّہ فی اھل بیتی“

اے لوگو !میں انسان ھوں ممکن ھے کہ عنقریب خدا کا فرستادہ میرے پاس آئے اور میں اس کی دعوت پر لبیک کھوں ۔میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رھا ھوں ۔ایک اللہ کی کتاب ھے ،جس میں ھدایت و نور ھے ۔پس اللہ کی کتاب کو حاصل کرو اور اس سے تمسک اختیار کرو ،

پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اللہ کی کتاب پر عمل کرنے کی تاکید کی اس کے بعد فرمایا: اور میرے اھل بیت (ع)،میں تمھیں اپنے اھلبیت(ع) کے لئے خدا کی یاد دلاتا ھوں (یہ جملہ آپ نے تین بار فرمایا)

اس متن کو مسلم 1) نے اپنی صحیح میں اور دارمی نے اپنی سنن (2) میں ذکر کیا ھے اور دونوں کی سند آفتاب کی طرح روشن ھے ان سند میں ذرہ برابر بھی خدشہ نھیں ھے۔

2۔ ترمزی نے بھی اس متن کو ” عترتی اھل بیتی “ کے الفاظ کے ساتھ نقل کیا ھے۔حدیث کا متن یوں ھے :

” انّی تارک فیکم ما ان تمسکتم بہ لن تضلوا بعدی ، احدھما اعظم من الاخر کتاب اللّٰہ حبل ممدود من السماء الیٰ الارض و عترتی اھل بیتی لن یفترقا حتٰی یردا علیّ الحوض ،فانظر وا کیف تخلفونی فیھا“ (3)

”میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رھا ھوں ،جب تک تم اس سے متمسک رھو گے ھر گز گمراہ نھیں ھوگے ان میں سے ایک دوسرے سے بزرگ ھے ۔ اللہ کی کتاب ریسمان رحمت جو آسمان سے زمین کی طرف آویزاں ھے ۔اور میری عترت و اھل بیت (ع)۔یہ دونوں ایک دوسرے سے ھر گز جدا نھیں ھوں گے یھاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آجائیں ۔ اب دیکھو میری ان دونوں میراثوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ھو۔

یہ دونوںمتن کہ دونوں میں لفظ ”اھل بیت “ کی تاکید ملتی ھے اس سلسلہ میں جواب کے طور پر کافی ھیں دونوں کی سندوں میں کمال یقین پایا جاتا ھے اور اس میں کسی بحث کی ضرورت نھیں ھے ۔ دونوں حدیثی متن کے ناقل صحاح و سنن ھیں جو ایک خاص اعتبار رکھتے ھیں ۔

”و سنتی “کے متن کی سند

وہ روایت جس میں ”اھل بیتی “ کے بجائے لفظ ” سنتی“ آیا ھے ۔ جعلی حدیث ھے جو سند کے ضعف کے علاوہ امویوں سے وابستہ افراد کے ھوتھوں گڑھی ھوئی ھے ۔ ذیل میں ھم اس حدیث کی اسناد کا جائزہ لیتے ھیں:

پھلی سند ،حاکم کی روایت :

حاکم نیشاپوری نے اپنی ”مستدرک “ میں حسب ذیل سند کے ساتھ نقل کیا ھے-:

1۔اسماعیل بن ابی اویس

2۔ابی اویس

3۔ثور بن زید الدیلمی

4۔عکرمہ

5۔ابن عباس کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا-:

” یا ایھا الناس انی قدترکت فیکم ان اعتصمتم بہ فلن تضلوا ابدا کتاب اللہ و سنة نبیہ” (4)

اے لوگو!میںنے تمھارے درمیان دو چیزیں ترک کیں جب تک تم ان دونوں سے وابستہ رھو گے ھر گز گمراہ نہ ھوگے ۔ اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت۔

اس متن کی سندکی مشکل اسماعیل بن ابی اویس اور ابو اویس ھیں۔ ان باپ اور بیٹوں کی نہ صرف توثیق نھیں ھوئی ھے بلکہ ان پر جھوٹ اورحدیث گڑھنے کا الزام ھے ۔ اب ان کے بارے میں علمائے رجال کی آرا ء ملاحظہ فرمائیں:

حافظ مزی نے اپنی کتاب ”تھذیب الکمال “ میں اسماعیل اور اس کے باپ کے بارے میں رجال کے محققین کی زبانی یوں نقل کیا ھے:

یحییٰ بن معین ( جو علم رجال کے بڑے عالم ھیں) کھتے ھیں ۔ابو اویس اور اس کا بیٹا ضعیف ھیں ، یحییٰ بن معین سے یہ بھی نقل ھے کہ یہ دونوں حدیث چراتے ھیں ۔ ابن معین نے اس کے بارے میں یہ بھی کھا ھے کہ : اس کی بات پر اعتماد نھیں کیا جا سکتا۔

نسائی نے بیٹے کے بارے میں کھا ھے کہ : وہ ضعیف ھے اور ثقہ نھیں ھے ۔ ابو القاسم لالکائی نے کھا ھے کہ نسائی نے اس کے خلاف بھت کچھ کھا ھے ۔ یھاں تک کہ اس نے کھا ھے : اس کی حدیث کو ترک کر دینا چاھئے ۔

رجال کے ایک عالم ابن عدی نے کھا ھے : ابن ابی اویس نے اپنے ماموں مالک سے مجھول حدیثیں نقل کی ھیں جنھیں کوئی قبول نھیں کرتا۔ (5)

ابن حجرنے فتح الباری کے مقدمہ میں لکھا ھے : ابن ابی اویس کی حدیث کے ذریعہ ھر گز استدلال نھیں کیا جا سکتا ۔ کیوں کہ نسائی نے اس کی مذمت کی ھے۔ (6)

حافظ سید احمدبن الصدیق نے کتاب ” فتح الملک العلّی “ میں سلمہ بن شبیب سے نقل کیا ھے کہ اس نے اسماعیل بن ابی اویس کو کھتے ھوئے سنا ھے : جب اھل مدینہ کسی موضوع کے بارے میں دو گروھوں میں تقسیم ھو جاتے ھیں تو میں حدیث گڑھتا ھوں۔ (7)

لھٰذا بیٹا (اسماعیل بن ابی اویس)وہ ھے جس پرحدیث گڑھنے کا الزام ھے اور ابن معین اسے جھوٹا کھتے ھیں مزید یہ کہ اس کی حدیث کسی بھی کتب صحاح میں نقل نھیں ھوئی ھے ۔

اور باپ کے بارے میںیھی کھنا کافی ھے کہ ابو حاتم رازی نے کتاب ” جرح و تعدیل “ میں لکھا ھے : اس کی حدیث لکھی جاتی ھے لیکن اس کے ذریعہ احتجاج و استدلال نھیں کیا جاتا۔ اور اس کی حدیث قوی و محکم نھیں ھے ۔ (8)

نیز ابو حاتم نے ابن معین سے نقل کیا ھے کہ ابو اویس قابل اعتماد نھیں ھے۔

جو روایت ان دونوں کی سند کے ذریعہ بیان ھو ھر گز صحیح نھیں ھوگی ۔جب کہ یہ روایت صحیح و ثابت روایت کے مخالف و مقابل ھے۔

قابل توجہ نکتہ یہ ھے کہ حدیث کے ناقل یعنی حاکم نیشا پوری نے اس حدیث کے ضعیف ھونے کا اعتراف کیا ھے لھٰذا اس کی سند کی تصحیح نھیں کی ھے لیکن اس کے مفاد کی صحت پر گواہ لے آئے ھیں کہ وہ بھی سند کے اعتبار سے سست اور اعتبار کے درجہ سے ساقط ھے ۔ اس لئے حدیث کی تقویت کے بجائے اس کے ضعف میں اضافہ ھی ھوا ھے۔

وسنتی کی دوسری سند

حاکم نیشاپوری نے ابو ھریرہ سے بطور مرفوع (9) نقل کیا ھے:

”انّی قد ترکت فیکم شیئین لن تضلوا بعدھما:کتاب اللہ وسنتی ولن یفترقا حتٰی یردا علیّ الحوض“(10)

اس متن کو حاکم نے اس سند کے ذریعہ نقل کیاھے:

1۔الضبی،از

2۔صالح بن موسیٰ الطلحی،از

3۔عبد العزیزبن رفیع از

4۔ابی صالح ،از

5۔ابی ھریرہ.

یہ حدیث پھلی حدیث کی طرح جعلی ھے۔اور اس کی سند کے در میان صالح بن موسیٰ الطلحی پر انگلی رکھی جاسکتی ھے۔اب ھم اس کے بارے میں علمائے علم رجال کے نظریات نقل کرتے ھیں:

یحییٰ بن معین کابیان ھے کہ صالح بن موسیٰ قابل اعتماد نھیں ھے۔ابو حاتم رازی کا قول ھے کہ اس کی حدیث ضعیف اور منکر ھے۔وہ بھت سی منکر حدیثوں کو ثقہ افراد کے نام سے نقل کرتاھے ۔نسائی کابیان ھے کہ اس کی حدیث لکھی نھیں جاتی اور دوسری جگہ کھتے ھیں :اس کی حدیث متروک ھے۔ (11)

ابن حجر ”تھذیب التھذیب “میں لکھتے ھیں کہ ابن حبان نے کھاھے :صالح بن موسیٰ ،ثقہ افراد سے ایسی چیزیں منصوب کرتاھے جو ان کی باتیں نھیں لگتیں۔اور آخر میں ابن حجر نے لکھا ھے کہ : اس کی حدیث حجت نھیں ھے ،اور ابو نعیم کھتے ھیں کہ”اس کی حدیث متروک ھے وہ ھمیشہ منکر حدیث نقل کرتاھے۔ (12)

متروک ھے اور ذھبی،کتاب ”کاشف “(13) 1# میں لکھتے ھیں :اس کی حدیث سست ایک دوسری جگہ ابن حجر کتاب تقریب (15) میں لکھتے ھیں :اس کی حدیث ھے۔آخرمیں ذھبی نے”میزان الاعتدال“ (14) 2# میں مذکورہ بالا حدیث کو نقل کرتے ھوئے لکھاھے کہ اس کی حدیثیں منکر ھوتی ھیں۔

حدیث ”وسنتی “کی تیسری سند:

ابن عبد البر نے کتاب ”تمھید“ (16) 3# میں اس متن کو حسب ذیل سند کے ساتھ ذکر کیاھے :

1۔عبد الرحمان بن یحییٰ ۔از

2۔احمد بن سعید۔از

3۔محمد بن ابراھیم الدبیلی۔از

4۔علی بن زید الفرائضی۔از

5۔الحنینی۔از

6۔کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف ۔از

7۔اس کے باپ نے اس کے داداسے

ھم ان راویوں کے در میان کثیر بن عبد اللہ پر انگلی رکھتے ھیں۔امام شافعی لکھتے ھیں :وہ جھوٹ کے ارکان میں سے ایک ھے۔ (17) 4# ابو داود کابیان ھے:وہ کذابوں اور بڑے جھوٹوں میں سے ھے(18) 5# ابن حیان کھتے ھیں :عبداللہ بن کثیرنے اپنے باپ اور دادا سے حدیث کی کتاب نقل کی ھے جس کی بنیاد جعلی حدیثوں پر ھے کہ اس کتاب سے نقل کرنااور عبداللہ سے روایت کرنا حرام ھے اور فقط تعجیب وتنقید کے لئے اس کی روایت نقل کی جاسکتی ھے۔ (19) 6#

4۔ کاشف ،ذھبی،ترجمہ نمبر2412

5۔میزان الاعتدال،ذھبی،ج/2،ص 302

3۔ التمھید:ج/24،ص331

4۔5۔ تھذیب التھذیب ،ابن حجر ،ج/1ص/377،طبع دارالفکر۔تھذیب الکمال:ج/24،ص138

6۔المجروحین از ابن حبان،ج/2،ص221

نسائی اور دار قطنی کھتے ھیں :اس کی حدیث متروک ھے۔امام احمد بن حنبل کھتے ھیں کہ :وہ منکر الحدیث ھے اور قابل اعتماد نھیں ھے۔ابن معین نے بھی یھی بات اس کے بارے میں کھی ھے۔

ابن حجر کے اوپر تعجب ھے کہ انھوں نے کتاب ”التقریب“ میں اس کے حالات بیان کرتے ھوئے اسے صرف ضعیف لکھا ھے اور جن لوگوں نے اسے جھوٹا کھاھے انھیں افراطی کھاھے،جبکہ علم رجال کے پیشواوٴں نے اسے جھوٹا اور جعل ساز قرار دیا ھے یھاں تک کہ ذھبی کھتے ھیں کہ :اس کی باتیں فضول وضعیف وبیکار ھیں۔

بغیر سند کی روایت

امام مالک نے کتاب ”الموطّا“میں اس روایت کو سند کے بغیر بطور مرسل نقل کیاھے۔اور سب جانتے ھیں کہ ایسی حدیث کوئی اھمیت نھیںرکھتی۔ (20)

مذکورہ بالا باتیں پوری طرح سے یہ بات ثابت کرتی ھےںکہ ”وسنتی“والی حدیث جھوٹے اور اموی دربار سے وابستہ راویوں کی جعلی اور گڑھی ھوئی حدیث ھے جو انھوں نے حدیث صحیح کے مقابلہ میں گڑھی ھے ۔لھٰذامسجدوں کے اماموں ،خطیبوں اور اھل منبرحضرات پر واجب ھے کہ جو حدیث حضرت رسول اکرم سے وارد نھیں ھوئی ھے اسے ترک کردیں اور اس کے بجائے لوگوں کوصحیح حدیث سے آگاہ کریں ۔جس حدیث کو مسلم نے”اھل بیتی“کے ساتھ اور ترمذی نے ”عترتی واھل بیتی“کے ساتھ نقل کیاھے اسے بیان کریں ۔طالب علموں پر لازم ھے کہ علم حدیث کی طرف توجہ کریں اور صحیح وضعیف حدیث میں فرق کو سمجھیں۔

آخر میں ،میں یہ یاد دھانی کرانا چاھتاھوں کہ لفظ”اھل بیتی“میں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی ذریت مثلاً حضرت فاطمہ وحسن وحسین علیھم السلام بھی داخل ھیں،کیونکہ مسلم نے اپنی صحیح 21)میں اور ترمذی نے اپنی سنن  میں خودام المومنین عایشہ سے نقل کیا ھے کہ”

”نزلت ھذہ الآیةعلی النبی (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) ”انما یریداللّٰہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا“فی بیت ام سلمة،فدعاالبنی فاطمة وحسناً وحسیناًفجللھم بکساء وعلی خلف ظھرہ فجللہ بکساء ثم قال:اللّٰھم ھٰوٴلاء اھل بیتی فاذھب عنھم الرجس وطھرھم تطھیراً،قالت ام سلمة وانا معھم یا نبی اللّٰھ؟قال انت علی مکانک وانت الی الخیر“

آیت”انّما یریداللّٰہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا“جناب ام سلمہ کے گھر میں نازل ھوئی پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فاطمہ،حسن وحسین علیھم السلام کو کسا ء کے نیچے لے لیا۔حضرت علی (ع)آپ کی پشت پر کھڑے تھے آنحضرت نے ان پر بھی اپنی عبا اڑھائی اور فرمایا:پالنے والے !یہ میرے اھل بیت ھیں ان سے ھر طرح کی برائیوں کو دور فرما اور انھیں ایسا پاک قرار دے جو پاک کرنے کا حق ھے ۔ اس وقت جناب ام سلمہ نے کھا : اے رسول خدا (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کیا میں بھی ان میں سے ھوں ؟ پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا-:تم اپنی جگہ پر رھو(یعنی چادر کے نیچے نہ آؤ) تم راہ خیر پر ھو۔

یہ تو تھا اھل سنت کے عالم دین شیخ حسن بن علی سقاف کا برادران اھل سنت کو جواب ۔لیکن یھاں خود شیخ سقاف کے بیان کردہ ایک مسئلہ کو صاف کرنا چاھتا ھوں ۔انھوں نے آیت تطھیر میں ازواج پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے شامل ھونے کو تو مسلم بتایا ھے اور آیت کے مفاد کو وسیع کرکے اس میں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی بیٹی اور ان کے دو صاحب زادوں کو شامل کرنے کی کوشش کی ھے ۔ جب کہ خود جناب ام سلمہ کی روایت جسے صحیح مسلم اور سنن ترمذی نے نقل کیا ھے ان کے نظریہ کے خلاف گواھی دے رھی ھے ۔ اگر اھل بیت کے علاوہ ازواج پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) آیت تطھیر میں داخل ھوتیں تو جناب ام سلمہ کو کساء میں داخل ھونے سے روکا نہ جاتا اور یہ نہ کھا جاتا ”انت علٰی مکانک“ یعنی تم اپنی جگہ پر رھو ۔ اور تم خیر پر ھو!!

اس کے علاوہ جو شخص بھی ازواج پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے سلسلہ میں قرآن کی آیات کا مطالعہ کرے گا اسے واضح طور سے یہ بات معلوم ھوجائے گی کہ ان کے بارے میں آیات کی زبان تنبیہ و شرزنش والی ھے ۔ ایسے افراد آیت تطھیر کے مصداق اور رسول خدا (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی دعا میں شامل نھیں ھوسکتے ۔ اس کی تفصیل ” تفسیر منشور جاوید “میں ملاحظہ فرمائیں۔

2۔پیغمبر پر صلوات کیسے بھیجیں

شیعہ اور اھل سنت کے درمیان اختلافی مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ھے کہ وہ جب پیغمبر پر صلوات بھیجتے ھیں تو اس میں ان کی آل کو شامل نھیں کرتے اور وہ ” صلی اللہ علیہ وسلم“ کھتے ھیں ۔ جب کہ شیعہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر صلوات بھیجتے وقت ان کی آل (ع)کو بھی شامل کرتے ھیں اور آل کو ان پر عطف کرتے ھوئے کھتے ھیں ”صلی اللہ علیہ و آلہ”۔اب سوال یہ ھے کہ ان دو صورتوں میں سے کون سی صورت صحیح ھے۔

اس میں کوئی شک نھیں کہ ھمارے معصوم رھبروں یعنی ائمہ علیھم السلام نے دوسری صورت کو صحیح جانا ھے اور ھمیشہ آنحضرت کے ساتھ ان کی آل (ع)کو بھی شامل کرتے ھیں ۔اب ذرادیکھیں کہ اھل سنت کی روایات میں صلوات کی کیفیت کیا ھے ۔ اور ان کی روایتیں ان دونوں صورتوں میں سے کس کی تصدیق کرتی ھیں۔

پھلے ھم اس سوال کا مختصرجواب دے چکے ھیںاب یھاں روایت نقل کرتے ھیں :

”جب آیت (ان اللہ و ملائکة یصلون علی النبی یا ایھا الذین آمنوا صلوا علیہ و سلّموا تسلماً) سورھٴ احزاب /56“ نازل ھوئی تو اصحاب نے آنحضرت سے دریافت کیا کہ آپ پر کس طرح صلوات بھیجیں؟ آنحضرت نے فرمایا: ”لا تصلوا علی الصلاة البتراء “ مجھ پر ناقص صلوات مت بھیجو۔ لوگوں نے پوچھا کیسے بھیجیں ؟ فرمایا: کھو ( اللّٰھم صلی علی محمد وآل محمد )

درود بھیجنے کے اعتبار سے آل محمدکی حیثیت ایسی ھے کہ اھل سنت کے بعض فقھی مذاھب آل محمد پر پیغمبر کے ساتھ صلوات بھیجنے کو لازم و واجب جانتے ھیں۔امام شافعی اس سلسلہ میں فرماتے ھیں :

ےااھل بیت رسول اللہ حبکم

فرض من اللہ فی القرآن انزلھ

کفاکم فی عظیم القدر انکم

من لم یصل علیکم لاصلاة لہ

اے رسول خدا کے اھل بیت (ع)آپ کی محبت ایسافریضہ ھے جو قرآن میں نازل کیا گیاھے آپ کی عظمت وجلالت کےلئے اتنا ھی کافی ھے کہ جو شخص آپ پر صلوات نہ بھیجے اس کی نماز ھی نھیں ھے۔

شعری ترجمہ

اے اھل بیت(ع) آپ کی الفت خدا گواھ ھے

فرض ھر بشر پہ خدا کی کتاب میں

رفعت یہ ھے کہ جو نہ پڑھے آپ پر درود

اس کی نماز ھی نھیں حق کی جناب میں

(ازمترجم)

صحیح بخاری اھل سنت کے نزدیک قرآن مجید کے بعد سب سے معتبر اور صحیح کتاب مانی جاتی ھے۔اب ھم سورھٴ احزاب کی تفسیر کے ذیل میں صحیح بخاری کی ایک حدیث کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرتے ھیں:

عبدالرحمان ابن ابی لیلی نقل کرتے ھیں کہ”کعب بن معجرہ نے مجھ سے ملاقات کی اور کھا:کیا تم پسند کرتے ھو کہ میں ایک حدیث تمھیں تحفہ کے طورپر پیش کروں ،وہ حدیث یہ ھے کہ ایک روز پیغمبر اکرم اپنے اصحاب کے پاس تشریف لائے۔ھم نے عرض کی:یارسول خدا!ھم نے آپ پر سلام کرنے کی کیفیت قرآن سے سیکہ لی اب بتائیے کہ آپ پر صلوات کیسے بھیجیں؟آنحضرت نے فرمایا:”اللّٰھم صل علیٰ محمد وآل محمد کماصلیت علیٰ ابراھیم وآل ابراھیم انک حمید مجید“ (

لھٰذا اسلامی ادب اور پیغمبر اسلام کے حکم کی تعمیل کاتقاضا ھے کہ ھم آنحضرت پر ناقص اور دم بریدہ صلوات نہ بھیجیں نیز آنحضرت اور ان کی آل پاک (ع)میں جدائی نہ پیداکریں۔

تمام شد

بحمدالله والمنة وصلی الله علی سیدنا محمد وآلہ الطاھرین خیر الائمة

11/ذیقعدہ 2424ء ہ بروز میلاد حضرت امام رضا-

____________________

حوالے

1۔ صحیح مسلم ،ج/4/3،18 نمبر 2408 چاپ عبد الباقی

2۔سنن دارمی ،ج/2ص/431۔432

3۔ سنن ترمذی ،ج/5 ص/663 نمبر 37788

4۔ المستدرک ،حاکم ،ج/1ص/93

5۔ حافظ مزی ،تھذیب الکمال ،ج/3ص/127

6۔ ابن حجر عسقلانی مقدمہ فتح الباری ،ص/391طبع دار المعرفھ

7۔ حافظ سید احمد ، فتح الملک العلی ص/15

8۔ ابو حاتم رازی ، الجرح و التعدیل ج/5ص/92

9۔ وہ حدیث جسے راوی معصوم سے نسبت نہ دے

10۔ حاکم،مستدرک ج/1 ، ص93

11۔ حافظ مزی، تھذیب الکمال،ج/13،ص 96

12۔ تھذیب التھذیب،ابن حجر،ج/4،ص355

13۔ تقریب،ابن حجر،ترجمہ نمبر 2891

14۔ الموطّا،امام مالک ،ص889،حدیث نمبر3

15۔ صحیح مسلم ،ج/4 ص1883 نمبر 2424

16۔ترمذی ج/5 ص663

17۔ صحیح صفة صلاة النبی از حسن بن علی السقاف کے ص/289تا ص/294 سے ماخوذ

18۔ منشور جاوید،ج/5ص/294

19۔ صواعق محرقہ ، چاپ دوم مکتبہ ” القاھرہ” مصر باب /11 فصل اول ص/146

ایسی ھی روایت سیوطی کی کتاب ”الدر المنثور“ج/ 5 سورھٴ احزاب کی آیت نمبر 56 کے ذیل میں وارد ھوئی ھے جسے سیوطی نے ”المصنف“کے موٴلف عبد الرزاق ،ابن ابی شیبہ ،احمد بن حنبل ،امام نجارومسلم ،ابوداود،ترمذی،نسائی،ابن ماجہ اور ابن مردویہ سے نقل کیاھے۔

20۔ صواعق محرقہ،باب/11 ص 148 ،اتحاف بشراوی ص29 وغیرھ

21۔صحیح بخاری،کتاب تفسیر جزء 6 ص/217 سورہٴ احزاب

تبصرے
Loading...