دوستوں نے بھی اور دشمنوں نے بھی ان کے فضائل چھپا دیئے مگر

ها عَليٌ بَشرٌ كَیفَ بَشَر ٭٭٭ مبارک ہو اس مرد عظیم مولود کعبہ حضرت امیر کی ولادت باسعادت کے سلسلے میں جو فوق البشر ہیں ایسے کہ جن کے فضائل ـ جبران خلیل جبران کے بقول ـ دوستوں نے خوف و تقیہ کی رو سے اور دشمنوں نے بغض و عناد کی وجہ سے چھپائے رکھے مگر پھر بھی یہ فضائل پوری دنیا پر چھا گئے۔

بقلم: ف۔ح۔مہدوی

دوستوں نے بھی اور دشمنوں نے بھی ان کے فضائل چھپا دیئے مگر

فوق البشر شخصیت کی زندگی پر ایک نظر؛
دوستوں نے بھی اور دشمنوں نے بھی ان کے فضائل چھپا دیئے
ها عَليٌ بَشرٌ كَیفَ بَشَر
مبارک ہو اس مرد عظیم مولود کعبہ حضرت امیر کی ولادت باسعادت کے سلسلے میں جو فوق البشر ہیں ایسے کہ جن کے فضائل ـ جبران خلیل جبران کے بقول ـ دوستوں نے خوف و تقیہ کی رو سے اور دشمنوں نے بغض و عناد کی وجہ سے چھپائے رکھے مگر پھر بھی یہ فضائل پوری دنیا پر چھا گئے۔
مبارک ہو مولود کعبہ کی ولادت پرتمام حُرّ انسانوں پر جو مجموعہ اضداد تھے زاہد تھے اور پہلوان بھی؛ مہربان تھے دشمنان اسلام کے لئے اللہ کا قہر و غضب بھی؛ عابد تھے اور سیاستدان بھی؛ تارک دنیا تھے اور دنیا کے راہنما بھی۔
اشارہ: ان سطور کا مرکزی خیال جناب دانیال بصیر کا ہے جنہوں نے ایک مضمون فارسی میں بعنوان “شخصيت و صفات امام علی بن ابی طالب علیه السلام” لکھا تھا لیکن اردو میں منتقل کرتے وقت اس میں کچھ اضافات کئے گئے۔
ابوالحس علی ابن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف ابن قصی بن کلاب، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سگے چچا زاد بھائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد بارہ ائمہ طاہرین علیہم السلام میں امام اول تھے وہی جو اسلام و فضائل میں سب سے مقدم تر، جن کا علم سب سے زیادہ یہاں تک کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم علم و حکمت کے شہر ٹہرے تو یہ اس شہر کا دروازہ ٹہرے، سب سے زیادہ شریف تر، زاہد تر، عامل تر عبادت گزار تر اور شوق جہاد کا سب سے شدیدتر تھا۔ وہ چودہ معصومین علیہم السلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں گوکہ اہل سنت کے علماء کا خیال ہے کہ گویا وہ چوتھے خلیفہ راشد ہیں۔
اگر سعدی شیرازی کے بقول خدا کے بعد دوسرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں ” لایمکن ثناءُ کمـا کان حقهُ * بعد از خدا بزرگ تویی قصه مختصر (آپ کی ثناء کا حق ادا کرنا ممکن نہیں ہے قصہ مختصر یہی ہے کہ خدا کے بعد بزرگ آپ ہی ہیں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد علی ہی ہیں بزرگ عالم و کائنات روایت دیکھئے:
ابن ابی الحدید المعتزلی شرح نہج البلاغہ میں لکھتے ہیں:
قال اميرالمؤمنين عليه السلام: …لاقولن ما لم أقله لاحد قبل هذا اليوم ، سألته مرة أن يدعو لى بالمغفرة فقال : أفعل ، ثم قام فصلى ، فلما رفع يده للدعاء استمعت عليه ، فإذا هو قائل : اللهم بحق على عندك اغفر لعلى ، فقلت : يا رسول الله ، ما هذا ؟ فقال : أواحد أكرم منك عليه فاستشفع به إليه.
ترجمہ: میں آج تمہیں ایسی بات کہہ دوں گا جو میں اس سے پہلے کسی کو نہیں سنائی؛ ایک دن میں اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک جگہ بیٹھے تھے۔
میں نے عرض کیا: آپ دعا فرمائیں کہ “خداوند متعال علی کو بخشے” تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو تازہ کیا اور دو رکعت نماز ادا کی اور بارگاہ الہی کی طرف ہاتھ اٹھائے اور دغا کرنے لگے۔ آپ (ص) دعا کررہے تھے اور میں سن رہا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرض کیا:
ترجمہ: خداوندا! علی کے صدقے علی کو بخش دے۔
میں نے رسول اللہ (ص) سے عرض کیا: یا رسول اللہ (ص)! یہ کیسی دعا تھی تو آپ صلی اللہ علیہ ص آلہ و سلم نے فرمایا: کاش آپ خدا سے میرے لئے اپنا واسطہ دے کر مغفرت طلب فرماتے!
فرمایا! علی جان! کیا ہے کوئی تمہارے سوا جو اللہ کی بارگام میں تم سے بہتر ہو اور میں اس کے واسطے بارگاہ خداوندی میں دعا مانگوں۔
شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدید، ج ۲۰، ص ۳۱۵ و ۳۱۶٫۔
محدث کبیر شیخ عباس قمی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو نقل کیا ہے تاہم اس کا اخری جملہ اور علی (ع) کے سوال کا جواب انھوں نے یوں نقل کیا ہے: “وهل أجد مَن هو أحب الى الله منه لأستشفع به الى الله”. کیا میں پاسکوں کا تم جیسا کوئی جو اللہ کے ہاں تم سے زیادہ عزیز و محترم ہو اور میں خدا کی بارگاہ میں اس کا واسطہ دے کر دعا کروں؟
مفاتيح الجنان ( الباقيات الصالحات ـ الهامش ـ ) ص 372۔
13 رجب کو خانہ کعبہ میں ولادت پانے والے علی بن ابیطالب علیہ السلام رسول اللہ کے بعد سب سے اعلی ہيں یہ وہ اعتراف ہے جو بہت سوں نے کیا اور علی (ع) نے اپنے علم و دانش و عبادت و جہاد و خدا پرستی اور رسول اللہ اور اسلام پر اپنی جان نچھاور کرکے یہ حقیقت ناقابل انکار بنا دی ہے۔ آپ رسول اللہ (ص) کے وصی اور ولی مطلق ہیں اور آپ اور آپ کے گیارہ فرزندوں کی امامت کی وصایت اور ولایت و خلافت پر عقیدہ اسلام کے اصول دین یا بعض لوگوں کے ہاں اصول مذہب شیعہ میں سے ہے گو کہ اگر ایک طرف سے معاندین اور مبغضین اور بعض مقصرین نے آپ کے بہت سے فضائل کو دوسروں سے منصوب کیا ہے یا پھر ان کا سرے سے انکار کیا ہے تو دوسری طرف سے بعض معتقدین نے بھی آپ کے فضائل کی کثرت و عظمت اور کرامات و خوارق العادات کو دیکھ کر اعتدال کا راستہ چھوڑ کر افراط کی راہ اپنائی ہے اور انھوں نے شیعہ عقائد سے ماوراء اپنے لئے الگ سے عقائد مرتب کئے ہوئے ہیں جن کا مذہب امامیہ جعفریہ اثنا عشریہ سے کوئی تعلق نہيں ہے۔ یہ لوگ ابتدائے طلوع اسلام سے غُلات (غالی کی جمع) سے مشہور تھے اور آج بھی غالی یا نصیری وغیرہ کہلاتے ہیں گوکہ اہل سنت کے مختلف مذاہب کے اندر بھی غلات موجود ہيں گو کہ ان کے غلو کا موضوع اور محمول کچھ اور ہے اور جن لوگوں کے بارے میں وہ غلو میں مبتلا ہوئے ہيں وہ دوسرے افراد ہیں۔
غالی چاہے جس مذہب سے بھی تعلق رکھتے ہوں اور جس کسی کے بارے میں بھی غلو کررہے ہوں حق و ہدایت کے راستے سے منحرف ہيں اور انہیں اہل بدعت و ضلال ہی کہا جاسکتا ہے۔
لقب ابو تراب
غالب کل غالب اور مظہرالعجائب مولائے کائنات حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی کنیت “ابوالحسن” تھی اور اسی نام سے پکارے جاتے تھے لیکن آپ کی ایک کنیت “ابوتراب” بھی ہے جو لقب کہلائے تو بہتر ہے کیونکہ کنیت فرزند کے اعتبار سے ہوتی ہے جبکہ یہ مٹی کے اعتبار سے ہے اور وہ یوں کہ ایک روز آپ ع) مٹی پر سوئے ہوئے تھے اور جب رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کو مٹی پر سوتے ہوئے دیکھا تو قریب جاکر آپ کو جگایا تو آپ کے پہلو پر گرد و خاک بیٹھی ہوئی تھی چنانچہ رسول اللہ (ص) نے محبت سے آپ کو لقب دیا “انت ابوتراب” آپ مٹی کے باپ ہیں”۔
سنی عالم دین شیخ علاء الدین سکتواری محاضرة الاوائل صفحہ 113 پر رقمطراز ہیں کہ سب سے پہلے علی ابن ابیطالب علیہ السلام کو ابوتراب کے نام سے موسوم کیا گیا اور یہ کنیت رسول اللہ نے اس وقت آپ کو دی جب آپ زمین پر سوئے ہوئے تھے اور آپ کا پہلو خاک آلود ہوگیا تھا پس رسول اللہ (ص) نے فرمایا: اٹھو اے ابا تراب۔
شیخ عبدالحسین امینی رحمۃاللہ علیہ الغدیر کی جلد 6 ص 237 و 238 پر لکھتے ہيں کہ یہ محوبترین لقب تھا جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سانسوں کی برکت سے علی علیہ السلام کے لئے کرامت کی صورت اختیار کرگیا جو قیامت تک کے حالات کو آپ کے لئے ظاہر کردیتا تھا۔
عبایۃ ابن ربعی کہتا ہے: میں نے عبداللہ بن عباس سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام کو ابوتراب کا لقب کیوں دیا تو انھوں نے کہا: اس لئے کہ علی علیہ السلام زمین کے مالک اور رسول اللہ (ص) کے بعد زمین اور اہل زمین پر اللہ کی حجت ہیں اور زمین کی بقاء اور اس کا سکون علی علیہ السلام کی وجہ سے ہے اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کہ: جب قیامت کا دن ہوگا اور جب کفار اس پاداش اور جزا اور کرامت کو دیکھیں گے جو خداوند متعال نے شیعیان علی علیہ السلام کے لئے قرار دی ہے تو بول اٹھیں گے: اے کاش میں تراب (مٹی) ہوتا یعنی کاش میں شیعیان ابوتراب (علیہ السلام) میں سے ہوتا اور یہی ہیں اس آیت کے معنی وَيَقُولُ الْكَافِرُ يَا لَيْتَنِي كُنتُ تُرَابًا. (سورہ نبأ آیت 40)
علل الشرائع – الشيخ الصدوق – ج 1 – ص 156 .
علامہ مجلسى رحمۃ اللہ علیہ ابن عباس کے اس جملے کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہيں:
ہوسکتا ہے کہ یہاں آیت کریمہ سے استناد امیرالمؤمنین علیہ السلام کے لئے اس نام کے تعین اور عطائیگی کے کسی دوسرے سبب کو بیان کرنے کے عنوان سے ہو کیونکہ شیعیان علی علیہ السلام اپنے امام و پیشوا کے لئے بہت زیادہ مقام و منزلت کے قائل ہیں اور آپ کے فرامین کے لئے بہت زیادہ وقعت کے مائل ہیں اور ان کے سامنے سراپا تسلیم ہیں اسی اعتبار سے انہیں تراب کا نام دیا گیا ہے جیسا کہ آیت میں اشارہ ہوا ہے، اور چونکہ امیرالمؤمنین علیہ السلام ان کے مولا و آقا اور پیشوا اور حاکم ہیں چنانچہ آپ (ع) کو ابوتراب کا لقب عطا ہوا ہے۔
بحار الأنوار – العلامة المجلسي – ج 35 – ص 51 .
یہ کہ یہ لقب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کب اور کس زمانے میں علی علیہ السلام کو عطا کیا، متعدد روایات وارد ہوئی ہیں؛ بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ یہ لقب سنہ 2 ہجری کے ماہ جمادی الاول یا جمادی الثانی میں غزوة العشیرہ میں آپ کو عطا ہوا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ اس لقب کا تعلق ی”يوم التآخي” یا “یوم المؤاخات” (اور بھائی چارے کے دن) سے ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کو اپنا بھائی قرار دیا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ لقب متعدد بار علی علیہ السلام کو عطا کیا ہو۔
تاب الغدير علامۀ اميني، ج 6 – ص 334 – 338۔
علی علیہ السلام کو یہ لقب بہت پسند تھا لیکن جس طرح کہ معاویہ اور امویوں نے آیات اور روایات کے معانی بدل دیئے اور متعدد روایات اور احادیث گڑھ دیں چنانچہ انھوں نے رسول اللہ صلی علیہ و آلہ و سلم کے عطا کردہ اس لقب کو بھی معنوی لحاظ سے بگاڑنے کی کوشش کی اور اس کو صاحب عزت الہیہ کی عزت گھٹانے کا بہانہ قرار دینے کی کوشش کی جو آج 14 صدیاں گذرنے کے بعد بھی آپ کے لئے سرمایہ عزت ہے۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام اور آپ کے محبین اور مبغضین
تاریخ و حدیث و تفسیر و کلام کی کتب کا مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ علی علیہ السلام واحد شخصیت ہیں جن سے بہت زیادہ محبت کی گئی ہے اور واحد شخصیت ہيں جن سے بہت زیادہ دشمنی برتی گئی ہے اور ان دونوں حوالوں سے بھی امیرالمؤمنین علیہ السلام اپنی مثال آپ ہیں۔ اسلام میں کسی کے بھی اتنے شدید دشمن اور اپنے جان نثار دوست نہیں ہیں جتنے امیرالمؤمنین (ع) کے ہیں۔ کتنی جنگیں واقع ہوئی ہیں علی علیہ السلام کے دوستوں اور دشمنوں کے درمیان کتنی لڑائیاں ہوئیں کتنی جانیں علی (ع) کی محبت میں قربان ہوئیں۔
جنگ خیبر میں جب مسلم کمانڈر یکے بعد دیگرے جاکر یہودیوں سے شکست کھا گئے تو رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ کل میں پرچم ایسے شخص کو دے رہا ہوں جو خدا اور رسول خدا (ص) سے محبت کرتا اور خدا اور رسول خدا (ص) بھی اس سے محبت کرتے ہيں وہ رک کر لڑنے والا اور نہ بھاگنے والا ہے اور اللہ تعالی کل اسی کے ذریعے ہمیں فتح عطا فرمائے گا اور یہی محبوب الہی اور محبوب رسول (ص) مغضوب بنی امیہ قرار پائے اور معاویہ کی تحریک پر عرصہ دراز تک منبر رسول (ص) پر بیٹھ کر درباری ائمۂ جمعہ نے معاذ اللہ آپ کے سب و لعن کو فروغ دیا لیکن آج دیکھ رہے ہیں کہ معاویہ کی یہ تحریک جاری نہيں رہ سکی ہے اور آج منابر پر علی و آل علی (ع) پر درود و سلام نثار کیا جاتا ہے اور علی و آل علی (ع) کے دشمنوں پر لعنت بھیجی جاتی ہے۔
علی (ع) کے دشمنوں کا حال یہ ہے کہ آج بھی آپ کے ماننے والوں کو پکڑا جاتا ہے تو ان کو تشدد کرکے قتل کیا جاتا ہے یا ان کا سر تن سے جدا کیا جاتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احکام کا مذاق اڑاتے ہوئے ان کو مثلہ کیا جاتا ہے اور ان کے بدن کے ٹکڑے کئے جاتے ہيں اور اس طرح بغض علی علیہ السلام کا اظہار کیا جاتا ہے اور تفریط کی حضیض اور پستیوں تک پہنچنی کی کوششیں کی جاتی ہيں اور اگر دشمنان علی (ع) یہ سب نہ کرسکیں تو محبان علی (ع) کو کافر قرار دیتے ہيں اور دوسری طرف سے افراطیون ہیں جو کہہ رہے ہیں اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں جو انھوں نے اپنے بارے میں کبھی نہيں فرمایا یہ ساری دلیلیں بھی بتا رہی ہیں کہ علی (ع) رسول اللہ (ص) کے بعد دوسری بڑی شخصیت نہ ہوتے تو نہ دشمنیاں اتنی وسیع ہوتیں اور نہ ہی دوستوں کے کئے گروہ ہوتے۔ اگر آپ اتنے عظیم نہیں ہیں تو پھر “یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے”۔ غالب
امیرالمؤمنین علیہ السلام روایات کی روشنی میں
ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب (ج 7 ص 339) میں لکھا ہے کہ حنبلی مذہب کے پیشوا احمد بن حنبل کہتے ہیں: فضائل اور مناقب کے حوالے سے جتنی حدیثیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے علی علیہ السلام کے بارے میں وارد ہوئی ہیں کسی بھی دوسرے صحابی کے بارے میں وارد نہيں ہوئی ہیں۔
ہم علی (ع) کا نام لیتے ہیں تو “علیہ السلام” کہنا نہيں بھولتے تو اہل سنت کے ہاں آپ کے نام کے بعد “کَرَّمَ اللهُ وَجهَهُ” ثبت کیا جاتا ہے اور جب سبب دریافت کیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ (ع) نے کبھی ایک لمحہ بھر بھی بتوں کی پوجا نہیں کی۔
اقبال کہتے ہیں
مسلم اول شه مردان علی
عشق را سرمایه ی ایمان علی
از ولای دودمانش زنده ام
در جهان مثل گهر تابنده ام
یعنی :
سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے اور مَردوں کے شاہ ہیں علی (ع)
عشق الہی کے لئے ایمان کا سرمایہ ہیں علی (ع)
میں جو زندہ ہوں تو علی (ع) کے خاندان کی محبت سے زندہ ہوں
اور علی اور آل علی (ع) کی محبت ہی کی برکت سے پوری دنیا میں چمک رہا ہوں
[دیکھئے اقبال آج بھی چمک دمک رہے ہیں اور وجہ خود انھوں نے بیان کی ہے]۔
(اسرار خودی)
چنانچہ مؤمن اول اور مسلم اول علی (ع) ہیں جنہوں نے کبھی بت کی پوجا نہيں کی اور سب سے پہلے رسول اللہ (ص) کے ساتھ نماز ادا کی اور گھر میں بھی اور غار حرا میں بھی علی علیہ السلام کو آپ (ص) سے ملنے اور آپ کی ضروریات پوری کرنے اور آپ (ع) کے ساتھ ایک بستر میں سونے اور آپ (ص) کی تعلیم و تریبت سے بہرہ مند ہونے کے حوالے سے بے رقیب تھے۔ اور خود فرماتے ہیں کہ میرے اور رسول اللہ صلی اللہ (ص) کے درمیان اسرار کا تبادلہ ہوا کرتا تھا جیسا کہ شرح نهج البلاغه (ابن ابی الحدید، ج ۲۰، ص ۳۱۵ و ۳۱۶٫) میں مروی ہے۔
خلیل بن احمد فراہیدی دوسرے صحابہ کے ساتھ علی علیہ السلام کا موازنہ کراتے ہوئے لکھتے ہيں:
آپ (ع) کا اسلام سب پر مقدم تھا، اسلامی احکام پر آپ (ع) کا عمل سب سے زيادہ تھا، آپ کا شرف اور خاندان سب سے اونچا تھا، آپ (ع) زہد و پارسائی میں سب سے زیادہ بلند مرتبہ تھے اور آپ (ع) کا شوق جہاد سب سے بڑھ کر تھا۔
علی علیہ السلام خود فرماتے ہیں:
“و الله لولا رجائی الشّهاده عند لقائی العدوّ لوقد حمّ لی لقاءه لقرّبت ركابی، ثمّ شخصت عنکم فلا اطلبكم ما اختلف جنوب و شمال”.
ترجمہ: اللہ کی قسم! اگر دشمن کا سامنا کرتے ہوئے مجھے شہادت پانے کی امید نہ ہوتی تو میں اپنی سواری پر بیٹھ کر تم سے دور ہوجاتا اور کوچ کرجاتا اور جب تک جنوب اور شمال کی ہوائیں اڑتیں میں تمہاری تلاش میں کبھی نہ نکلتا۔
شرح نهج البلاغه ـ ابن ابی الحدید ج7، ص285، خطبه118۔
تاریخ ابن خطیب بغدادی (ج 6 ص 221) میں عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ قرآن کی 300 آیتیں علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ اور ابن حجر مکی نے صواعق المحرقہ (ص 76) میں اور شبلنجی نے نور الابصار (ص 73) میں ابن عساکر سے اور انھوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ قرآن کی جتنی آیات کریمہ علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں کسی بھی دوسرے صحابی کی شان میں نازل نہيں ہوئیں۔ اور ابن عباس نے کہا ہے کہ قرآن کریم کی 300 آیتیں حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔
علی علیہ السلام کے فضائل و مناقب میں منقولہ حدیثوں کو دو قسموں اور دو زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
پہلا زمرہ: وہ احادیث اور روایات ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آپ (ع) کی شان میں وارد ہوئی ہیں اور اہل سنت و اہل حدیث کی رائے ہے کہ ایک صحابی کی فضیلت کا معیار یہی ہے کہ اس کے حق میں رسول اللہ (ص) سے کوئی حدیث صادر ہوئی ہو اور علماء نے اس حقیقت کی تصدیق کی ہے کہ جتنی حدیثیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے علی علیہ السلام کے حق میں نازل ہوئی ہيں کسی بھی دوسرے صحابی کے حق میں نازل نہيں ہوئیں۔ اس حوالے سے احمد بن حنبل کا حوالہ مندرجہ بالا سطور میں ملاحظہ ہو۔ اور پھر متعدد شیعہ اور سنی علماء نے مناقب علی علیہ السلام پر مبنی متعدد کتابیں تالیف کی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقولہ احادیث پر مشتمل ہیں۔
حدیث دعوت ذوالعشیرہ، حدیث ولایت، حدیث منزلت، حدیث ثقلین اور حدیث غدیر، ان خاص خاص احادیث میں سے ہیں جو علی علیہ السلام کی ولایت و زعامت و امامت و خلافت کی دلیل ہیں۔
یہ احادیث ابتدائے اسلام سے شیعیان آل محمد (ص) کے لئے چراغ راہ کا کام دے رہی ہیں اور شیعہ افکار و شعر نثر و ادبیات کا موضوع ہیں۔
حدیث غدیر110 صحابیوں سے نقل ہوئی اور واضح طور پر علی علیہ السلام کی خلافت بلافصل پر دلالت کرتی ہے اور اس حدیث کے ضمن میں واضح کیا گیا ہے کہ تمام صحابہ نے یوم غدیر علی علیہ السلام کے ہاتھ پر بعنوان مولا و سرپرست و خلیفہ و حاکم مسلمین، بیعت کی۔ حدیث بالاختصار: من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ۔
رسول اللہ (ص) ایسے حال میں جنگ تبوک کے لئے مدینہ سے نکلنے لگے کہ منافقین نے مدینہ کے لئے سپنے دیکھے تھے اور وہ بزعم خود بغاوت کے منصوبے بنا رہے تھے چنانچہ رسول اللہ (ص) نے علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ منافقین کی سازش ناکام بنانے کے لئے مدینہ ہی میں رہیں تاکہ منافقوں کا سرغنہ عبداللہ ابن ابی اپنی شرارت میں کامیاب نہ ہوسکے اور جب منافقین نے تشہیری مہم چلا کر افواہ اڑا دی کہ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم علی علیہ السلام سے ناراض ہیں اسی وجہ سے آپ (ع) کو اپنے ساتھ تبوک لے جانے کے روادار نہيں ہیں تو علی علیہ السلام مدینہ سے باہر فوجی کیمپ میں رسول اللہ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور منافقین کی بات آپ (ص) تک پہنچادی تو رسول اللہ (ص) نے فرمایا:
“أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي”۔
ترجمہ: تم میرے نزدیک وہی مقام رکھتے ہو جو مقام موسیٰ (علیہ السلام) کے نزدیک ہارون (علیہ السلام) کا تھا۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ
اخوت و برادری کا پیمان
نیز حدیث مواخات بذات خود انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ مواخات دوطرفہ بھائی چارے کو کہا جاتا ہے اور مواخات کے دن مسجد النبی (ص) میں رسول اللہ (ص) نے جب مہاجرین اور انصار میں ہر دو مردوں کو بھائی بھائی قرار دیا تو علی علیہ السلام رہ گئے اور شکوہ کرتے ہوئے اشکبار آنکھوں سے رسول اللہ (ص) کے پاس آئے اور عرض کیا: آپ نے اپنے اصحاب میں سے ہر فرد کے لئے بھائی قرار دیا لیکن میرے لئے کوئی بھائی قرار نہيں دیا تو رسول اللہ (ص) نے وہ تاریخی جملہ ادا کیا جو رہتی دنیا تک سرمایہ عظمت علویہ رہے گی اور جس نے ہر لحاظ سے ثابت کیا کہ رسول اللہ (ص) کے قریب ترین اور معتمد ترین صرف اور صرف علی علیہ السلام ہیں۔ فرمایا:
“انت اخي في الدنيا و الآخرة و الذي بعثني بالحق ما اخرتك الا لنفسی انت اخي في الدنیا و الآخرة”۔
مستدرك الصحيحين حاکم نيسابوري، ج 3، ص 14; الاستیعاب، ج 3، ص 35. و ج 2 ص150 و طبقات ابن سعد ج 3 ص 14۔
ترجمہ: آپ میرے بھائی ہيں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اس اللہ کی قسم جس نے مجھے نبوت پر مبعوث فرمایا میں نے آپ کو اپنے لئے مؤخر کیا تا کہ آپ کو اپنا بھائی بنا دوں اور میری اور آپ کی اخوت ایسی ہے جس کا دامن دنیا اور آخرت تک پھیلا ہوا ہے۔

أنت منّي وأنا منك
نہایت اہم روایات اور احادیث میں ایک حدیث وہ ہے جس کے ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
“أنت منّي وأنا منك”۔
صحيح البخاري: ج2، ص960، ح2552، كتاب الصلح باب كيف يكتب هذا. مسند أحمد ج1، ص115، ح931 وقال المحقّق شعيب الأرنؤوط: إسناده حسن. سنن الترمذي: ج5، ص635، ح3716 وقال الترمذي: حديث حسن صحيح. مجمع الزوائد للهيثمي: ج9، ص275، و قال الحافظ الهيثمي … إسناده حسن.

ترجمہ: آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے ہوں۔
یہ حدیث بھی منفرد ہے اور صرف علی علیہ السلام کے بارے میں وارد ہوئی ہے اور کسی اور صحابی کو کے بارے میں اس طرح کا کوئی فرمان رسالت صادر نہيں ہوا ہے۔
حدیث اللواء
عن عبد الله بن بريدة قال : سمعت أبي بريدة يقول : حاصرنا خيبر ، فأخذ الراية أبو بكر ، ولم يفتح له ، فأخذها من الغد عمر ، فانصرف ولم يفتح له ، وأصاب الناس شدة وجهد ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ، إني دافع لوائي غدا إلى رجل يحب الله ورسوله ، ويحبه الله ورسوله ، لا يرجع حتى يفتح له ، وبتنا طيبة أنفسنا أن الفتح غدا ، فلما أصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم ، صلى الغداة ، ثم جاء قائما ، ورمى اللواء ، والناس على أقصافهم ، فما منا إنسان له منزلة عند الرسول صلى الله عليه وسلم ، إلا وهو يرجو أن يكون صاحب اللواء ، فدعا علي بن أبي طالب ، رضي الله عنه ، وهو أرمد ، فتفل ومسح في عينيه ، فدفع إليه اللواء وفتح الله عليه۔
تهذيب الخصائص ص 21 – 22 . تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ یہ حدیث ان منابع میں بھی نقل ہوئی ہے: صحيح البخاري ج 6 ص171 ـ صحيح مسلم ج 15 صص 177 و 178۔
ترجمہ: میں نے اپنے والد بریدہ سے سنا: ہم نے خیبر کا محاصرہ کرلیا تو ابوبکر نے مسلمانوں کا پرچم اٹھایا اما انہیں فتح حاصل نہیں ہوئی اور دوسرے روز عمر نے مسلم فوج کا علم اٹھایا مگر انہيں بھی فتح نہيں ملی اور لوٹ کر آگئے۔ اس دن لوگ رنج و مشقت میں مبتلا تھے۔ چنانچہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: میں کل [تیسرے روز] پرچم ایسے فرد کے سپرد کررہا ہوں جو خدا اور رسول (ص) سے محبت کرتا ہے اور خدا اور رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں اور وہ جب تک فتح نہيں پائے گا میدان جنگ سے واپس نہيں آئے گا۔
ہم رات کو آرام سے سو گئے اس امید کے ساتھ کہ کل فتح کا دن ہے پس صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھائی اور نماز کے بعد اٹھ کھڑے ہوئے اور پرچم منگوالیا جبکہ اور لوگ اپتی صفوں میں تھے اور رسول اللہ (ص) کا کوئی بھی خاص صحابی ایسا نہ تھا جس کو امید نہ ہو کہ پرچم اسی کو عطا کیا جائے گا۔ تا ہم رسول اللہ (ص) نے علی (ع) کو بلوایا جنہیں آنکھوں کی تکلیف تھی اور رسول اللہ (ص) نے اپنے لعاب دہن سے آپ (ع) کی آنکھوں کا علاج فرمایا اور پرچم ان ہی کے سپرد کیا اور اللہ تعالی نے ان کے ہاتھ پر مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔
علی علیہ السلام کُلِّ ایمان
جنگ خندق میں بھی علی علیہ السلام چوٹی پر نظر آتے ہیں جب عمرو بن عبدود کفار اور مشرکین کی طرف سے خندق پھلانگ کر مسلمانوں کی پڑاؤ کے قریب پہنچتا ہے اور مسلمانوں کو للکار للکار کر کہتا ہے کہ کوئی ہے جو میرے ہاتھو جنت کو سدھارے یا مجھے جہنم رسید کرے تو علی علیہ السلام ہی تینوں مرتبہ اٹھ کر جواب دینے کی حامی بھرتے ہیں لیکن رسول اللہ (ص) توقع تھی کہ کوئی اور صحابی یہ سعادت حاصل کرے لیکن گویا یہ سعادت بھی علی کے نام لکھی گئی تھی چنانچہ تیسری مرتبہ اٹھے تو رسول اللہ (ص) نے عمرو کا کام تمام کرنے کی اجازت دی۔
اس حدیث میں تین اہم نکتے ہیں:
٭ عمرو بن عبدود کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ایک ہزار افراد کے خلاف لڑنے کی اہلیت رکھتا تھا۔
٭ دوسرا نکتہ ہے کہ علی علیہ السلام جنگ کے لئے روانہ ہوئے تو رسول اللہ (ص) نے فرمایا:
“برز الايمان كله علي الشرك كله”.
ترجمہ: آج کل ایمان کل شرک کے مقابلے کے لئے ظاہر ہوا۔
سيرة المصطفي ص 500 ـ بحارالانوار میں روایت ہوئی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: “برزالايمان كله الي الكفر كله” پورا ایمان پورے کفر کے مقابلے کے لئے میدان میں نکلا۔ ج 39 ص 1 تا 8)۔
ایک وار قیامت کے انس و جن کی عبادت سے بہتر
اس حدیث کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عمرو تمام مشرکین اور کفار یعنی احزاب کا نمائندہ تھا اور علی علیہ السلام پورے اسلام کے نمائندے تھے اور کسی ایک کی فتح فریق مقابل کی ابدی شکست کے مترادف تھی چنانچہ اس واقعے کے بارے میں رسول اللہ (ص) کا تاریخی جملہ سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ جب امیرالمؤمنین علیہ السلام نے کفار و مشرکین کے نمائندے عمرو بن عبدود کو خاک ذلت پر گرادیا تو آپ (ص) نے فرمایا:
“ضربة علي يوم الخندق افضل من عبادة الثقلين”.
تفسيرمجمع البيان 541,8. بحارالانوار، ج20، ص 216/ مستدرك حاكم، ج 3، ص 32 .
ترجمہ: خندق کے دن علی (ع) کا ایک وار اور ایک ضرب تمام انسان و جن کی عبادت سے افضل ہے۔
اس کا فلسفہ پہلے بیان ہوچکا اور وہ یہ کہ عمرو بن عبدود کی شکست درحقیقت تمام کفر و شرک کی شکست ثابت ہوئی اور اس کے بعد قریش اور مشرکین کو رسول اللہ (ص) اور اسلام کے خلاف لڑنے کے لئے منظم ہونے کا موقع نہ مل سکا اور ان کی ہوا اکھڑ گئی علی علیہ السلام کے ایک وار کی برکت سے جو افضل ہوا قیامت تک کی مخلوقات کی قیامت تک عبادت سے۔
حاکم اور حسکانی نیز خطیب بغدادی اور ابن عساکر سے نے یہ روایت یوں نقل کی ہے:
“ضربة علي يوم الخندق أفضل من عبادة الثقلين أو من عبادة أمتي إلي يوم القيامة”
المستدرك الصحيحين للحاكم النيشابوري، ج3، ص32 – شواهد التنزيل للحسكاني، ج2، ص14 – تاريخ بغداد للخطيب البغدادي، ج13، ص19 – تاريخ مدينة دمشق لإبن عساكر، ج50، ص333۔
ترجمہ: جنگ خندق کے دن علی علیہ السلام کی ایک ضربت جن و انس کی یا میری امت کی قیامت کی عبادت سے افضل ہے۔
اقبال کہتے ہيں:
اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا کیا ہے
اِک ضربِ ید اللہٰی اِک سجدہٴ شبیری
یعنی اسلام کے دامن میں دو ہی چیزیں ہیں جنہوں نے اسلام کو قائم و دائم رکھا ہے ایک غزوہ خیبر میں علی علیہ السلام کا ایک وار جس سے آپ (ع) نے کفر اور شرک کی علامتی شخصیت کو گرا کر خاک میں ملادیا اور اسلام کو سنبھالا مل گیا اور مشرکین کی کمر ٹوٹ گئی اور ایک عاشورا کے دن سیدالشہداء حسین بن علی علیہ السلام کے کا سجدہ ہے جس نے اسلام کے ڈوبتے ہوئے سفینے کو ڈوبنے سے بچالیا اور سیدالشہدا فرزند رسول (ص) نے مال و جان و اولاد و اصحاب کی قربانی دے کر اور اپنے خاندان کی اسیری پر راضی ہوکر کربلا کی خاک پر ایک سجدہ کرکے اسلام کو زندہ جاوید کردیا۔
کہتے ہیں:
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

 

تبصرے
Loading...