“دشمن کے میدان میں مت کھیلو”

حوزہ نیوز ایجنسی| یہ محاورہ مختلف  مقامات  میں،خاص کر میدان جنگ میں استعمال ہوتا ہے۔

 انسان نے جیسے جیسے ترقی کی منازل طے کیں، ویسے ہی جنگ کے میدانوں میں بھی اضافہ ہونا شروع ہوا ، ثقافتی جنگ، علمی جنگ وغیرہ 

آج ہم جس میدان کی مثال دینا چاہتے ہیں وہ علمی میدان ہے۔ اس میدان میں دشمن مختلف شبہات و اعتراضات اٹھاتا ہے تا کہ مخالف کے عقائد کو کمزور کیا جا سکے۔

 ان اعتراضات کے جواب میں دو ردعمل ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ ان  اعتراضات کا براہ راست جواب دیا جائے اور دوسرا یہ کہ جن مبانی و اصول  کے تحت یہ سوالات اٹھائے گئے ہیں ان کو رد کیا جائے
 اور ثابت کیا جائے کہ جو سوال یا اعتراض کیا گیا ہے وہ سرے سے غلط ہے اور اس کا یہ مقام ہی نہیں ہے۔

اس مطلب کی وضاحت میں شہید مطہری کی کتاب “علل بہ گرائش مادی گری”(مادیت پسند کی طرف رجحان کے اسباب) کو گفتگو کا محور بنائیں گے ۔ 
مغرب کے گذشتہ یا آج کے  مفکرین نے پہلے یہ فرضیہ  سامنے رکھا کہ دین کا قائل ہونا کوئی معقول سبب نہیں رکھتا اور پھر یہ سوال پیش کیا کہ لوگ کیوں دین کی طرف مائل ہوتے ہیں؟ اور پھر ان کے مختلف اسباب کو بیان کیا۔ 

شہید مطہری نے اس کتاب میں سوال کو ہی بدل دیا اور اس بات کو بیان کیا کہ دین تو ایک منطقی رجحان ہے اور دین و دیندار ہونا  فطری ہے ،اگر کوئی بے دین ہے تو اس سے پوچھا جائے کہ کیوں بے دینی کی طرف مائل ہوا ۔ لہذا شہید مطہری مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں کہ کیوں بعض لوگ بے دینی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔

آپ احباب اس کتاب کو پڑھنے کے بعد مغربی مفکرین کے بعض مغالطوں کی طرف متوجہ ہونگے۔

تحریر: سید زائر عباس 

نوٹ: حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے
Loading...