خوش گمانی / حسنِ ظنّ کے بارے میں 40 حدیثیں

 ثقافتی اوراق//
1ـ حُسنِ ظَنّ عبادت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا:
“إنَّ حُسنَ الظَّنِّ مِنَ العِبادَةِ”؛
بلاشبہ حسن ظن اور خوش گمانی عبادات میں شامل ہے۔
قاضى قضاعى‌، شهاب الاخبار، ص 357۔
۔۔۔۔۔
2ـ سوءِ ظن  سے بچو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا:
“اِحتَرِسوُا مِنَ النّاسِ بِسُوءِ الظَّنِّ”.
لوگوں کے بارے میں بدگمانی سے بچو / پرہیز کرو۔
ابن شعبة الحسن بن علي الحراني، تحف العقول، ص 53۔
۔۔۔۔۔
3ـ مسلمان کی حرمت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا:
“اِنّ اللهَ تَعالي حَرَّمَ مِنَ المُسلِمِ دَمَهُ وَمالَهُ وَأَن يُظَنَّ بِهِ ظَنَّ السَّوءِ”؛
بلاشبہ خدائے تعالی نے مسلمان کے خون اور مال [مسلمان پر] اور اس کے بارے میں برے گمان، کو حرام قرار دیا ہے۔
محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 75، ص 201۔
۔۔۔۔۔
4۔ بدگمانی کی بنیاد پر قدم مت اٹھانا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا:
“مَخرَجُ المُؤمِنِ مِنْ سُؤِ الظَّنِّ أَنْ لا يُحقِّقَهُ”؛
بدگمانی سے مؤمن کے نکلنے کا راستہ یہ ہے کہ اس کو کسی وقت بھی عملی جامہ نہیں پہنانا چاہئے [اور بدگمانی کی بنیاد پر کوئی عملی اقدام نہ کرے]۔  
محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 75، ص 21۔
۔۔۔۔۔
5۔ جو اپنے لئے پسند کرو دوسروں کے لئے بھی پسند کرو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا:
“ماكَرِهتَهُ لِنَفسِكَ فَاكرَهْ لِغَيرِكَ وَما اَحبَبتَهُ لِنَفسِكَ فَأَحِبَّهُ لِأَخيك”؛
جو چیز اپنے لئے پسند نہیں کرتے ہو دوسروں کے لئے بھی پسند نہ کرو، اور جو کچھ اپنے لئے پسند کرتے ہوئے اپنے دینی برادر کے لئے بھی پسند کرو۔
محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 77، ص 67۔
۔۔۔۔۔
6ـ جنت کی بہاء
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا:
“إنَّ حُسنَ الظَّنِ بِالله ثَمَنُ الجَنّةِ”؛
خدا کے بارے میں خوش گمانی جنت کی قیمت ہے۔
شیخ عباس قمی، سفینة البحار، ج 2، ص 109
۔۔۔۔۔
7ـ اللہ کےبارے میں حُسنِ ظنّ عبادت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا:
“حُسنُ الظَّنِّ بِاللهِ مِن عِبادةِ الله”؛
خدا کے بارے میں خوش گمانی اللہ کی عبادات میں سے ایک ہے۔
محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 77، ص 166۔
۔۔۔۔۔
8۔ بہترین پرہیزگاری
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
“أَفضَلُ الوَرَعِ حُسنُ الظَّنِّ”؛
خوش گمانی بہترین پرہیزگاری ہے۔  
عبدالواحد تمیمی آمِدی، فهرست غررالحکم، ص 226۔
۔۔۔۔۔
9ـ روح و جسم کی سلامتی
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
“حُسنُ الظَّنِّ راحَةُ القَلبِ وَسَلامَةُ البَدَنِ”؛
خوش گمانی دل و جان کی آسائش اور بدن کی سلامتی ہے۔
شرح‌ غرر الحکم، ج 3، ص 384۔
۔۔۔۔۔
10ـ مؤمنین کے بارے میں بدگمانی، نامنظور
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
“اِتَّقوا ظُنونَ المُؤمنينَ فَاِنّ الله تعالي جَعَلَ الحَقَّ عَلَي اَلسِنَتِهِم”؛
مؤمنین کے بارے میں گمان کرنے سے دوری کریں، کیونکہ خداوند متعال نے حقیقت کو ان کی زبان پر جاری کردیا ہے۔
نهج‌البلاغه، حکمت نمبر 301۔
۔۔۔۔۔
11ـ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
“اِطرَحوا سُوءَ الظَّنِّ بَينَكُم فَاِنَّ اللهَ عَزَّوَجَلَّ نَهي عَن ذلِكَ”؛
ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی اور بدبینی کے احساس کو اپنے سے دور کرو، چنانچہ خداوند متعال نے اس سے [تمہیں] باز رکھا ہے۔
خصال، ج 2، ص 163۔
۔۔۔۔۔
12ـ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
“مَن ظَنَّ بِكَ خَيراً فَصَدِّقْ ظَنَّهُ”؛
اگر کسی نے تم پر خوش گمانی کی [اور اچھے خیال کا اظہار کیا] تو اس کی [عملی طور پر] تصدیق کرو۔ [یعنی عمل میں ثابت کرو کہ اس خوش گمانی کے لائق ہو]۔
نهج‌البلاغه، حکمت نمبر 240۔
۔۔۔۔۔
13ـ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
“مَن لَمْ يُحِسنْ ظَنَّهُ اِستَوَحشَ مِن كُلِّ اَحَدٍ”؛
جو خوش گمانی سے دوری کرتا ہے وہ ہر کسی سے ڈرتا ہے۔ [بدگمان شخص خوفزدہ رہتا ہے]۔
عبدالواحد تمیمی آمِدی، فهرست غررالحکم، ص 227۔
۔۔۔۔۔
14ـ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
“سُوءُ الظَّنِّ بِمَن لايَخونُ مِنَ اللُّؤْمِ”؛
جو شخص خائن اور دھوکہ باز نہیں ہے، اس کے بارے میں بدگمانی پستی اور رذالت کی علامت ہے۔
عبدالواحد تمیمی آمِدی، فهرست غررالحکم، ص 227۔
۔۔۔۔۔
15ـ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
“حُسنُ الظّنِّ أَن تُخلِصَ العَمَلَ وَتَرجُوَمِنَ الله أَن يَعفُوَ عَنِ الزَّلَلِ”؛
[خدا کے بارے میں] خوش گمانی یہ ہے کہ پہلے اپنے عمل کو خالص کرو اور پھر امید رکھو کہ خداوند متعالی تمہاری خطاؤں سے درگذر فرمائے۔
عبدالواحد تمیمی آمِدی، فهرست غررالحکم، ص 227۔
۔۔۔۔۔
16ـ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
“المُريبُ اَبداً عَليلٌ”؛
بہت زیادہ بدگمان اور شک کرنے والا شخص ہمیشہ کے لئے بیمار ہے۔
عبدالواحد تمیمی آمِدی، فهرست غررالحکم، ص 146۔
۔۔۔۔۔
17ـ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
“لا دينَ لِمُسيءِ الظَّنِّ”؛
جو شخص بدگمان ہے اس کا کوئی دین و ایمان نہیں ہے۔
عبدالواحد تمیمی آمِدی، فهرست غررالحکم، ص 228۔
۔۔۔۔۔
18ـ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
“لا يَغلِبَنَّ عَلَيك سُوءُ الظَّنِّ فإِنَّهُ لا يَدَعُ بَينَك وَبَينَ خَليلٍ صُلحاً”؛
کبھی بھی بدگمانی کو اپنے آپ پر غلبہ مت پانے دینا؛ بلاشبہ بدگمانی تمہارے اور تمہارے دوست کے درمیان صلح و صفائی قائم نہیں رہنے دے گی۔
ابن شعبة الحسن بن علي الحراني، تحف العقول، ص 77۔
۔۔۔۔۔
19ـ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
“مَن ساءَ ظَنُّهُ ساءَت طَوِيَّتُهُ”؛
جو شخص بدگمان ہے اس کا باطن خراب ہے۔
عبدالواحد تمیمی آمِدی، فهرست غررالحکم، 162۔
۔۔۔۔۔
20ـ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
“مَن ساءَ ظَنُّهُ بِمَن لايَخونُ حَسُنَ ظَنُّهُ بِما لا يَكونُ”؛
جو شخص خیانت سے دور رہنے والے شخص پر بدگمانی کرے وہ ایسے شخص پر خوش گمان ہوگا جو خیانت سے دوری نہیں کرتا۔
عبدالواحد تمیمی آمِدی، فهرست غررالحکم، ص 228۔
۔۔۔۔۔
21ـ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
“اِيّاكَ أَن تُسيءَ الظَّنَّ فَإنَّ الظّنَّ يُفسِدُ العبادَةَ و يُعْظِمُ الوِزرَ”؛
کسی کے بارے میں بھی بدگمانی سے دوری کرو، بےشک بدگمانی عبادت کو تباہ کردیتی ہے اور گناہ کے بوجھ کو بھاری بنا دیتی ہے۔
عبدالواحد تمیمی آمِدی، فهرست غررالحکم، ص 227۔
۔۔۔۔۔
22ـ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
“مَن دخَل مداخِلَ السُّوءِ اُتُّهِمَ”؛
جو شخص بدنام اور ناپسندیدہ مقامات میں قدم رکھتا ہے اس پر بدگمانی اور تہمت کا نشانہ بنے گا۔
نهج‌البلاغه، حکمت نمبر 341۔
۔۔۔۔۔
23ـ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
“اَلطِّيَرةُ لَيسَتْ بِحقٍّ”؛
بد فالی اور بدشگونی میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔  
(نهج‌البلاغه، حکمت نمبر 392۔
۔۔۔۔۔
24ـ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
“سوُءُ الظَّنِ بِالمُحسنِ شرُّ الاِثِم وَأقبَحُ الظُّلمِ”؛
نیکی اور احسان کرنے والے شخص پر بدگمانی بدترین گناہ اور قبیح ترین ظلم ہے۔
عبدالواحد تمیمی آمِدی، فهرست غررالحکم، ص 277۔
۔۔۔۔۔
25ـ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
“طَهِرّوا قُلوبَكُم مِنَ الحِقدِ فَاِنّهُ داءٌ وَبيءٌ”؛
اپنے دلوں کو بغض اور کینے سے پاک و پاکیزہ کرو، اندرونی کینہ وبا کی مانند ایک مہلک بیماری ہے۔
عبدالواحد تمیمی آمِدی، فهرست ‌غررالحکم، ص 73)
۔۔۔۔۔
26ـ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
“وَاللهُ الّذي لا اِلهَ اِلاّ هُوَ لا يُعَذِّبُ اللهُ عزَّوجَّل مُؤمناً بَعذابٍ بَعَدالتَوبَةِ و الاِستغفارِ لَهُ اِلاّ بِسُوءِ ظَنِّهِ بِالله عزّوجَلّ وَاغتيابِه لِلمؤمنين”؛
اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، کہ خداوند عز وجلّ کسی مؤمن کو توبہ اور استغفار کے بعد کسی مؤمن کو عذاب میں مبتلا ہیں کرتا؛ مگر یہ کہ وہ اللہ کے بارے میں بدگمانی کرے اور مؤمنین کی غیبت کرے۔ [مؤمن کی توبہ قبول ہوگی لیکن اللہ کے بارے میں بدگمانی اور مؤمنین کی غیبت کو معاف نہیں کیا جائے گا اور ان کے بدلے اسے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا]۔
محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 75، ص 259۔
۔۔۔۔۔
27ـ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
“وَاللهُ الَّذي لااِله الاّ هُوَ لا يَحسُنُ ظَنُّ عَبدٍ مؤمنٍ بِاللهِ اِلاّ كانَ اللهُ عِندَ ظَنِّ عَبدِهِ المؤمِنِ”؛
اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی کوئی معبود نہیں ہے، کہ ہر مؤمن بندہ ـ جو اللہ کے بارے میں خوش گمان ہو ـ بےشک اللہ اس کی خوش گمانی کے ساتھ ہوگا اور اسی خوش گمانی کی بنیاد پر اس کے ساتھ برتاؤ کرے گا۔
الکلینی، اصول کافي، ج 3، ص 115۔
۔۔۔۔۔
28ـ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
“ايّاكُم وَالظَّنَّ، فإنَّ الظّنَ أَكذَبُ الكِذبِ”؛
خبردار رہو [بےبنیاد] گمانوں سے، اور جان لو کے بلاشبہ [اس طرح کا] گمان سب سے بڑا جھوٹ ہے [یعنی بےبنیاد گمان سے بڑا کوئی جھوٹ نہیں]۔  
محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 75، ص 252۔
۔۔۔۔۔
29ـ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
“أَحسِنوا ظنُونَكُم بِاِخوانِكُم تَغَتَنِموا بِها صَفاءَ القَلبِ وَنَقاءَ الطَّبعِ”؛
اپنے [دینی] بھائیوں کے بارے میں اپنے گمانوں کو نیک بنا دو [اور ان پر خوش گمانی کرو] کہ اس کے نتیجے میں دل کا سکون اور طبیعت کی پاکیزگی ملتی ہے۔
محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 5، ص 196۔
۔۔۔۔۔
30ـ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
“حُسُن الظَّنِّ اَصلُهُ مِن حُسنِ ايمانِ المَرءِ و سَلامَةِ صَدرِهِ”.
خوش گمانی کی جڑ انسان کی خوش ایمانی اور اس کے باطن کی سلامتی ہے۔ [جو خوش گمان ہے اس کا ایمان درست اور باطن پاکیزہ ہے]۔
محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 75، ص 196۔
۔۔۔۔۔
31ـ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
“اذاَ اتَّهمَ المُؤمنُ اَخاهُ اِنْماثَ اَلاِيمانُ في قَلبهِ كَمايَنماثُ المِلحُ في ‌الماءِ”؛
ہرگاہ ایک مؤمن اپنے ایمانی بھائی پر تہمت لگائے، اس کے دل میں ایمان اس طرح سے پگھل کر تباہ ہوجاتا ہے جس طرح کہ نمک پانی میں حل ہوجاتا ہے۔
محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 75، ص 198۔
۔۔۔۔۔
32ـ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
“لا تَطلُبَنَّ بِكَلِمَةٍ خَرجَتْ مِنَ أخيكَ سُوءاً و اَنتَ تَجِدُلَها في الخَيرِ مَحمِلاً”؛
جب تک اپنے ایمانی بھائی کی بات کو خیرخواہی پر حمل کرسکتے ہو، کبھی بھی اسے بدگمانی پر حمل نہ کرو، محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 78، ص 251۔
۔۔۔۔۔
33ـ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
“حُسنُ الظّنِّ بِاللهِ أَنْ لا تَرجُوَ اِلاّ اللهَ و لاتَخافَ الاّ ذَنبَكَ”؛
خدا کے بارے میں خوش گمانی یہ ہے کہ اس کے سوا کسی سے کوئی امید نہ رکھو اور اپنے گناہ کے سوا کسی چیز سے بھی نہ ڈرو۔
سید حسین طباطبائی بروجردی، جامع‌ احاديث الشيعة، ج 14، ص 174۔
۔۔۔۔۔
34ـ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
“لا تَطلُبِ النُّصحَ مِمَّن صَرَفتَ سوءَ ظَنِّكَ بِه”؛
جس پر تم بدگمان ہو اس سے نصیحت کی درخواست مت کرنا۔
محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 78، ص 369۔
۔۔۔۔۔
35ـ امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا:
“كَذِّبْ سَمعَكَ وَبَصَرَكَ عَن أخيكَ، فَاِنْ شَهِدَ عِندَكَ خَمسونَ قَسامةً وَقال لَكَ قَولاً فَصَدِّقهُ وَكَذِّبهُم”؛
اپنی سماعت اور اپنی بصارت کو مؤمن بھائی کے بارے میں جھٹلاؤ یہاں تک کہ اگر پچاس افراد قسمیں کھا کھا کر اس کے بارے میں تمہیں کوئی بات سنائیں تو اپنے بھائی کی تصدیق کرو اور انہیں جھٹلاؤ۔ [یعنی نہ صرف یہ کہ مؤمن بھائی کے بارے میں سنی سنائی باتوں پر یقین نہ کرو بلکہ اگر تم اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھو پھر بھی یقین نہ کرو اور۔۔۔ انتہائی حدود تک پر اس کے بارے میں خوش گمان رہو۔۔۔ (سمجھنے والی بات ہے)]
شیخ عباس قمی، سفینة البحار، ج 2، ص 111۔
۔۔۔۔۔
36ـ امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام نے فرمایا:
“مَن عَرَّضَ نَفسَهُ لِلتُّهمَةِ فَلايَلومَنَّ مَن أساءَ الظَّنَّ بِه”؛
جو شخص اپنے آپ کو تہمتوں کی آماجگاہ بناتا ہے [بری صحبت رکھتا ہے یا بری جگھوں میں آمد و رفت رکھتا ہے] تو اس کہ اپنے بارے میں بدگمانی کرنے والے شخص پر ملامت کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔
محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 75، ص 91۔
۔۔۔۔۔
37ـ امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام نے فرمایا:
“اِعلَمْ أَنّ الجُبنَ وَالبُخلَ وَالحِرصَ غريزةٌ يَجمَعُها سُؤُالظَّنِّ”؛
جان لو کہ بزدلی، بخل و کنجوسی اور حرص و لالچ ایسی جبلتیں ہیں جو تمام بدگمانیوں کا سرچشمہ بنتی ہیں۔ [ڈر اور بزدلی، کنجوسی اور لالچ بدگمانیوں کا سرچشمہ]۔
مواعظ شیخ صدوق، ص 109۔
۔۔۔۔۔
38ـ امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام نے فرمایا:
“إنَّ اللهَ عزَّوَجَلَّ يَقولُ: اَنَا عِندَ ظَنِّ عَبدِيَ المُؤمنِ بي: إنْ خَيراً فَخيراً وَإنْ شَرّاً فَشَرّاً”؛
خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے کہ میں اپنے مؤمن کے گمان کے ساتھ ہوں، اگر اس کا گمان میرے بارے میں نیک ہو تو اس کی جزا و پاداش بھی عمدہ ہوگی اور اگر اس کا گمان میرے بارے میں بد ہو تو اس کو دی جانے والی سزا بھی بری ہوگی۔
مُسند الامام الرضا عليه السلام، ج 1، ص 273۔
۔۔۔۔۔
39ـ امام محمد تقی الجواد علیہ السلام نے فرمایا:
“مَن لَم يَرضَ مِن اَخيهِ بِحُسنِ النَّيَّةِ لَم يَرضَ مِنُه بِالعَطِيَّةِ”؛
جو شخص اپنے مؤمن بھائی کی اچھی نیت اور خیرسگالی سے خوش نہ ہو وہ اس کی طرف سے ملنے والے عطیات و تحائف سے بھی خوشنود نہيں ہوسکے گا۔
محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 78، ص 365۔
۔۔۔۔۔
40ـ امام علی نقی الہادی علیہ السلام نے فرمایا:
“اذا كانَ زمانُ الجَورِ فيهِ أغلبُ مِنَ العَدْلِ فَلَيسَ لِأَحدٍ أَن يَظُنَّ بِأَحدٍ خيراً حتي يَبدُوَ ذلِكَ مِنهُ”؛
جب ظلم و جور ایک معاشرے میں حق و عدل پر غلبہ رکھتا ہو تو کسی کو بھی کسی کے بارے میں خوش گمان نہیں ہونا چاہئے، سوائے اس صورت کہ اس کی اچھائی ظاہر اور ثابت ہوجائے۔
محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 75، ص 197۔
۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

تبصرے
Loading...