خلفا كے كارستانیاں

جب آپ كے نزدیك ابو بكر صدیق منافق، مرتد، ظالم اور غاصب ہیں تو حضرت علی علیہ السلام نے اپنے بھا ئی جعفر طیار كی بیوہ اسما ء بنت عمیس كا عقد ان كے ساتھ كیو ں ہو نے دیا؟

یہ سوال، سوال كرنے والے كی تاریخ سے لا علمی كی دلیل ہے ۔ اس لئے كہ ابوبكر نے اسماء بنت عمیس سے پیغمبر اسلام كے دور حیات میں ہی ان كے شوہر حضرت جعفر طیار كی شہادت كے بعد عقد كرلیاتھا ۔ اس كی تفصیل كتاب صحیح مسلم پر جناب عائشہ سے اس طرح نقل كی گئی ہے:

متن:

جب آپ كے نزدیك ابو بكر صدیق منافق، مرتد، ظالم اور غاصب ہیں تو حضرت علی علیہ السلام نے اپنے بھا ئی جعفر طیار كی بیوہ اسما ء بنت عمیس كا عقدان كے ساتھ كیو ں ہو نے دیا؟

یہ سوال، سوال كرنے والے كی تاریخ سے لا علمی كی دلیل ہے ۔ اس لئے كہ ابوبكر نے اسماء بنت عمیس سے پیغمبر اسلام كے دور حیات میں ہی ان كے شوہر حضرت جعفر طیار كی شہادت كے بعد عقد كرلیاتھا ۔ اس كی تفصیل كتاب صحیح مسلم پر جناب عائشہ سے اس طرح نقل كی گئی ہے:

(عن عائشۃ قالت نفَسَت اسماء بنت عمیس بمحمد بن ابی بكر بالشجرۃ، فاٴمر رسول اللہ ابابكر یاٴمرھا ان تغتسل وَتَھلّ) 1

عائشہ كا كہنا ہے كہ اسما ء بنت عمیس نے جب محمد بن ابو بكر كو مقا م شجرہ پر جنم دیا تورسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ابو بكر كو حكم دیا كہ اس بچہ كو غسل دو اور اس كے كان میں اذان واقامت كہوہمیں تا ریخ میں ایسا كوئی ثبوت نہیں ملا كہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اسماء كی شادی ابوبكر سے كرا ئی ہو۔

لیكن اسماء بنت عمیس نے ابوبكر سے عقد كیو ں كیا اور حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم یا حضرت علی علیہ السلام نے انھیں منع كیوں نہیں كیا ؟

جواب: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے احكام اسلام ظاہری طور پر جا ری كئے ہیں اور لوگوں كے ما فی الضمیرپر لا گو نہیں كئے اور نہ ہی كسی كے عیوب سے پر دہ ہٹا یاہے یہ بات مسلّم ہے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم كا ارشاد ہے كہ:

(ان فی اصحابی منافقین) 2

یعنی آنحضرت نے فرمایا:

میرے اصحاب میں بعض افراد منافق ہیں۔

اور صحیح مسلم میں بھی منقول ہے كہ آپ نے فر مایا:

(لانخرق علی احد ستراً)

میں كسی كے گناہوں پر پڑے ہو ئے پردے نہیں اٹھاتا

مجمع الزوا ئد 3 پر ابن عمر سے روایت نقل ہو ئی ہے كہ:

میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم كی خد مت میں تھا كہ جب حر ملہ بن زید رسول خد ا كی خد مت میں آیا اور اس نے آپ كے سامنے بیٹھتے ہوئے اپنی زبان كی طرف اشارہ كر تے ہو ئے كہا ایمان یہاں پر ہے اور اپنے سینہ كی طرف اشا رہ كرتے ہوئے كہانفاق یہا ں پرہے كیا اور میری زبان پرذكر خدا بہت كم جاری ہوتا ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم خاموش رہے جب حر ملہ نے آنحضر ت كی طرف سے منھ پھیرلیا تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے حر ملہ كی طرف اشا رہ كر تے ہو ئے۔

(اللھم اجعل لہ لساناًصادقاً و قلباً شاكرا وارزقہ حبی وحب من یحبنی وصل امرہ الی الخیر)

یعنی خدایا اس كی زبان میں سچائی، اس كے دل میں شكر گذا ری كی صلا حیت پیدا كر، اس كو میری اور میرے محب كی محبت عطا كر اور اس كو نیكی كی ہدایت عطا فر ما اس وقت حرملہ كہنے لگا: یا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم میرے كچھ منافق دو ست ہیں اور میں ان سب كا سر دار ہوں كیا میں آپ كو ان كے با رے میں كچھ بتاوٴں ؟ توپیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا:

(من جائنا كما جئتنا استغفرنا لہ كما استغفرنا لك، و من اصرّ علیٰ ذنبہ فاللّٰہ اولیٰ بہ، و لا نخرق علیٰ احد سترا)

یعنی میرے پاس جو بھی آتا ہے میں اس كےلئے طلب مغفرت كر تا ہوں جیسا كہ تم آئے اور میں نے تمہا رے لئے طلب مغفرت كی اور جو اپنے گنا ہوں پراصرار كر تا ہے خدا بہتر جا نتا ہے كہ اس كے ساتھ كیا سلو ك كیا جا ئے اور نہ ہی میں كسی كاراز فاش كر تا ہو ں اس روایت كے تمام را وی صحیح ہیں۔

ابو بكر ظاہری طور پرمسلمان تھے۔ لہٰذا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور حضرت علی علیہ السلام نے ان كے ساتھ ویسا سلوك كیا جیسا كہ ایك مسلمان كے ساتھ كیا جا تا ہے اور ان كے حقیقی چہرہ سے نقاب نہیں ہٹائی ۔

لیكن رہا یہ مسئلہ كہ اہل بیت اور صحا بہ كے سلسلہ میں ہما را كیا عقیدہ ہے اس كا واضح جواب یہ ہے كہ ہم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم كے حكم كی اتباع كر تے ہیں چونكہ آپ نے ہمیں حكم دیا ہے كہ ہم آپ كے بعد قر آن اور اہل بیت علیہم السلام سے متمسك رہیں اور فر یقین كے نز دیك صحیح شمار كی جا نے والی حدیث، حد یث ثقلین اس كی واضح دلیل ہے ۔ لہٰذاہم نے قرآن اور سنت كو فقط اور فقط اہل بیت سے حاصل كیا ہے اور صحا بہ كے اچھے اوربرے ہونے كو ہم اہل بیت علیہم السلام كی كسو ٹی پر تو لتے ہیں یہ متفق علیہ روا یت ہے كہ حضرت علی علیہ السلام سے محبت اور بغض پیغمبر اكر م صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم كے دور حیات میں اور آپ كے بعد، ایمان اور نفاق كو پر كھنے كا ترا زو ہے ۔ 4

یہی بات دیگر ائمہ اہل بیت علیہم السلام كے با رے میں بھی ہے پس اگر ہما رے نز دیك ثابت ہوجائے كہ علی علیہ السلام، جناب فا طمہ زہرا امام حسن و اما م حسین علیہم السلام یا باقی ائمہ معصو مین علیہم السلام میں سے كو ئی امام كسی شخص كے با رے میں اچھا نظریہ نہیں ركھتے تھے ۔ تو ہم ان كی را ئے كو بسرو چشم تسلیم كر تے ہیں اور اس شخص سے یقیناً نفرت كر تے ہیں اگر چہ وہ شخص صحا بی ہی كیوں نہ ہو اس لئے كہ ہم كو اہل بیت علیہم السلام كی اتباع كر نے كاحكم دیاگیاہے صحا بہ كی اتباع كا نہیں ۔

لیكن یہ مشكل تو آپ كے لئے ہے اس لئے كہ آپ نے ہی روایات نقل كی ہیں كہ حضرت علی علیہ السلام ابو بكر اور عمر كواچھی نظر سے نہیں دیكھتے تھے چنانچہ صحیح مسلم پر تحریر ہے كہ:

(من قول عمر مخاطبا ًعلیا ًو العباس: فقال ابوبكر قال رسول اللہ: ما نورث ما تركنا صدقۃ فراٴیتماہ كاذبا اٰثماً غادراً خائناً، واللہ یعلم انہ لصادق بارر اشد تابع للحقِ۔ ثم توفیٰ ابوبكر و انا ولی رسول اللّٰہ و ولی ابی فراٴیتمانی كاذباً آثماً غادراً خائناً و اللّٰہ یعلم انی لصادق بارر اشد تابع للحق فولیتھا، ثم جئتنی انت و ھٰذا و انتما جمیع و امركما واحد فقلتما ادفعھا الینا ۔۔۔الخ) 5

عمر نے حضرت علی علیہ السلام اور عباس كو خطاب كر تے ہو ئے كہا: ابو بكر سے مر وی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا :

“ہم تر كہ میں میراث نہیں چھو ڑ تے جو كچھ چھو ڑتے ہیں وہ صدقہ ہو تا ہے”

مگر تم دونوں ان (ابو بكر)كو كاذب، گنہگار غداراور خائن سمجھتے ہو، خدا كی قسم اللہ بہتر جانتا ہے وہ سچے اور حق كے تا بع تھے جب ابو بكر مر گئے تو ان كے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور ابو بكر كا ولی ہوں، لیكن تم دونوں كی نظر میں میں كاذب، گنہگار، غدار اور خا ئن ہوں، جبكہ اللہ بہتر جانتا ہے كہ میں بھی سچا، نیك اور حق كی اتباع كرنے والا ہوں، لہٰذا میں نے خلافت قبول كی ہے، مگر تم دونوں میرے پاس یہ مقصد لے كر آئے ہو كہ میں یہ خلافت تم كو سونپ دوں۔

خودآپ ہی كی كتابوں میں ہے كہ عمر كے بقول حضرت علی علیہ السلام اور عباس نے ابو بكر اور عمر كو چار ركیك حركتوں سے منسوب كیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے كہ حضرت علی علیہ السلام اور عباس كی نظر میں شوریٰ اور سقیفہ ابوبكر اور عمر كی بنائی ہوئی سازش تھی تاكہ وہ ان كے ذریعہ حضرت علی علیہ السلام كی خلافت اور جناب فاطمہ علیہا السلام كا فدك غصب كرسكیں ۔

منبع: جوابات صحابه؛ مصنف: علی كورانی عاملی مترجم: سید ابو محمد نقوی

1. مسلم بخاری، الصحیح، جلد ۴ ، صفحہ ۲۷

2. احمدحنبل، المسند، جلد ۴ صفحہ ۸۳ ۔

3. مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ۴۱۰

4. مراجعہ كیجئے كتاب الغدیر موٴلف علامہ امینی جلد۳ صفحہ ۱۸۳ ۔جس میں تر مذی اور احمد سے یہ روایت نقل كی گئی ہے ۔

5. مسلم بخاری، الصحیح، جلد ۵ ، صفحہ ۱۵۲

 

تبصرے
Loading...