خطبہ ٴ غدیر کی اھمیت کے پھلو

پیغمبر اسلا م(ص) کی پوری تا ریخ بعثت میں صرف ایک حکم ایسا ھے جو اتنے تفصیلی مقد مات، ایک خاص مقام اور مسلمانوں کے جم غفیر میں ایک طولانی خطبہ کے ذیل میں بیان هو ا ھے دیگر تمام احکام الٰھی مسجد النبی یا آپ کے بیت الشرف میں بیان هو تے تھے اور اس کے بعد ان کی اطلاع سب کو دیدی جا تی تھی ، اسی بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ھے کہ اسلا م کا یہ الٰھی حکم دوسرے تمام الٰھی احکام سے ممتاز اور اھم ھے ۔حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام فر ما تے ھیں : 

”غدیر کے دن ولایت کے مانند کسی حکم کا اعلان نھیں هوا “ 

ھم ذیل میں فھر ست وار خطبہٴ غدیر کی اھمیت کے اسباب بیان کر رھے ھیں: 

جغرافیائی اعتبار سے غدیرکی جگہ جحفہ میںاس مقام سے پھلے ھے جھاں سے تمام راستے الگ الگ هوتے تھے اورتمام قبائل اپنے اپنے راستہ کی طرف جانے کی وجہ سے ایک دوسرے سے جدا هوتے تھے۔اسی طرح اس گرم و ریگستانی علاقہ میں تین دن قیام کرنااور وقت کے لحاظ سے حجة الوداع کے بعد کا زمانہ اوریہ اس دن تک مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع تھا ۔ 

خطیب کی جگہ،مخاطبین یعنی حا جیوں کی خاص کیفیت وہ بھی اتمام حج کے بعداور واپسی کے وقت نیزمخاطبین کے سامنے پیغمبر اسلام (ص)کی وفات کے نزدیک هو نے کااعلان اس لئے کہ آنحضرت (ص)اس خطبہ کے ستّر دن بعد اس دنیا سے رحلت فر ما گئے ۔ 

خدا وند عالم کا یہ فرمان ”اے پیغمبر اس پیغام کو پہنچا دیجئے جو آپ پر خدا وند عالم کی طرف سے نا زل هوا ھے اگر آپ نے یہ پیغام نہ پہنچایا تو گویا رسالت کا کو ئی کام ھی انجام نھیں دیا “یعنی فرامین الٰھی میں سے کسی ایک فرمان کے لئے بھی ایسا حکم نھیں هوا ۔ 

پیغمبر اکرم (ص)کو خوف اورمسلمانوں کے مستقبل کی خاطر ولایت اور امامت کے حکم کو جاری کر نے کےلئے خدا کاقطعی فیصلہ ، اس حکم الٰھی کو پہنچا نے کی خصوصیات میں سے ھے کہ پیغمبر کسی بھی حکم کو پہنچا نے کےلئے اس طرح فکرمند نہ هو ئے ۔ 

خدا وند عالم کا دشمنوں کے شر سے پیغمبر اکرم(ص) کی حفاظت کی ذمہ داری لینا اس پیغام اور اس اعلان کی خصوصیت ھے اور احکام الٰھی میں سے کسی کے لئے بھی ایسی ضما نت نھیں دی گئی ۔ 

آنحضرت (ص)کا غدیر خم میں لوگوں سے اقرار لینا ۔ 

اس دستور الٰھی کو بیان کر نے کےلئے خاص اسباب کا اہتمام، اتنا بڑا مجمع ،بیان کر نے کا خاص انداز اور منبر صرف اسی حکم الٰھی کےلئے تھا ۔خاص طور سے پیغمبر اکرم (ص)کا لوگوں کو الوداع کہنا جبکہ بیرونی دشمنوں کی طرف سے اب اسلام کونقصان پہنچانانا ممکن هو گیا تھا۔ 

مسئلہٴ امامت صرف ایک پیغام اور ایک ھی خطبہ کی صورت میں نھیں پہنچایا گیا بلکہ خدا وند عالم کے حکم وفر مان اور عام مسلمانوں کی بیعت اور ان سے عھد کے ذریعہ سے عمل میںآیا ۔ 

وہ عظیم ا ور حساس مطالب جو ولایت کوبیان کر تے وقت خطبہ میںذکرکئے گئے ھیں۔ 

خطبہ سے پھلے اور بعد واقع هو نے والے خاص رسم و رسومات مانند بیعت ،عمامہٴ سحاب اور مبارکباد جو اس واقعہ کی خاص اھمیت پر دلالت کر تے ھیں ۔ 

خداوند عالم کا یہ خطاب ”آج میں نے تمھارا دین کا مل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کر دیں“جو اس دن تک کسی بھی مو قع پر نھیں فر مایا گیا ۔ 

ائمہ علیھم السلام کا پیغمبر کے خطبہ غدیر کو اپنی توجہ کا مر کز قرار دینا ،خاص طور پر حضرت امیرالمو منین اور حضرت زھرا علیھما السلام کا یہ فر مان ”پیغمبر اکرم(ص) نے غدیر میں کسی کےلئے کو ئی عذر باقی نھیں چھو ڑا “[1]نیز علماء کا ائمہ ٴ ھدیٰ علیھم السلام کی اتباع میں غدیر سے متعلق موضوعات کا تفصیل سے بیان کر نا کہ یھی ولایت و امامت کی بنیاد ھے ۔ 

تاریخی ،حدیثی ،کلا می اور ادبی اعتبار سے اس حدیث کی سند اور نقل کر نے کا اندازاسی طرح اس کلام کا لوگوں کے دلوں میں بیٹھ جا ناجو روایات ولایت میںممتاز اوربے مثال ھے محققین اس روایت کے تواتر کو ثابت کرچکے ھیں اور تمام مسلمان چا ھے وہ کسی بھی فرقہ اور مسلک کے هوں اس حدیث کے صحیح هو نے کااعتراف کرتے ھیں 

خطبہٴ غدیر میں آنحضرت (ص)کے بلند و بالا مقاصد 

۱۔ اپنی تیئس سال کی زحمتوں کانتیجہ اخذکرنے کےلئے اپنا جا نشین معین کر نا جس کے ذریعہ اس راہ کوبرقرار رکھے گا۔ 

۲۔اسلام کو کفار و منافقین سے ھمیشہ کےلئے محفوظ کرنے کی خاطر ایسے جا نشینوں کا معین فر مانا جو اس ذمہ داری کو نبھا سکیں ۔ 

۳۔ خلیفہ معین کرنے کےلئے قانونی طور پر اقدام کرنا جوھرقوم کے قوانین کے اعتبار سے ھمیشہ رائج رھاھے اور تاریخ میںبطورسندثابت ھے ۔ 

۴۔اپنے تیئس سالہ پروگرام میں گذشتہ اور مسلمانوں کے ماضی اورحال کا بیان کرنا۔ 

۵۔دنیا کے اختتام تک مسلمانوں کے مستقبل کا راستہ ھموار کر نا ۔ 

۶۔لوگوں پر حجت تمام کرناجو انبیاء علیھم السلام کی بعثت کاایک اصلی مقصد ھے۔ 

پیغمبر اکرم(ص) کے اس عملی اقدام کا نتیجہ جو اھل بیت علیھم السلام کے حق کو پہچاننے والوںاور اس کا اعتراف کر نے والوں کی کثرت، اور تاریخ میں اربوں شیعوں کا وجود خاص طور سے اس دور میں اس کی اھمیت کا بہترین گواہ ھے۔ 

[1] بحا ر الانوار جلد ۲۸ صفحہ ۱۸۶۔عوالم جلد ۱۱ صفحہ ۵۹۵ حدیث ۵۹۔

تبصرے
Loading...