خاندان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لہو سے تحریر ہونے والی داستان حریت و ایثار

 محرم کوحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اضطراب

گزشتہ فصل میں ہم نے بیان کیا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کربلا کی مٹی دے کر فرمایا ’’ام سلمہ رضی اللہ عنہا! یاد رکھنا اور دیکھتے رہنا کہ جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو سمجھ لینا میرا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگیا ہے۔،، (گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم میں تھا کہ ام سلمہ، شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے وقت زندہ ہوں گی) ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے وہ مٹی سنبھال کر رکھی حتی کہ ہجری کے 60 برس گزر گئے، 61 کا ماہ محرم آیا۔ 10 محرم الحرام کا دن تھا دوپہر کاوقت تھا میں لیٹی ہوئی تھی خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رو رہے ہیں، ان کی مبارک آنکھوں سے آنسو رواں ہیں، سر انور اور ریش مبارک خاک آلودہ ہے، میں پوچھتی ہوں یا رسول اللہ! یہ کیفیت کیا ہے؟ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روتے ہوئے فرماتے ہیں ام سلمہ! میں ابھی ابھی حسین کے مقتل (کربلا) سے آ رہا ہوں، حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا منظر دیکھ کر آیا ہوں، ادھر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے خواب میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی اور ادھر مکہ معظمہ میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ دوپہر کا وقت تھا میں لیٹا ہوا تھا۔ خواب دیکھتا ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لا ئے ہیں، پریشان حال ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک میں ایک شیشی ہے، اس شیشی میں خون ہے میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ خون کیسا ہے فرمایا! ابن عباس! ابھی ابھی مقتل حسین سے آیا ہوں یہ حسین اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے، آج سارا دن کربلا میں گزرا۔ کربلا کے شہیدوں کا خون اس شیشی میں جمع کرتا رہا ہوں۔ 

اگر کوئی سوال کرنے والا یہ سوال کرے کہ 72 شہیدوں کاخون ایک شیشی میں کیسے سما سکتا ہے تو جواب محض یہ ہوگا کہ جس طرح 1400 صحابیوں کے غسل کا پانی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک لوٹے میں بند ہوگیا تھا یا پندرہ سو صحابہ کا کھانا ایک ہنڈیا میں سما گیا تھا اسی طرح 72 شہداء کا خون بھی ایک شیشی میں سما سکتا ہے۔ 

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں حضرت سلمی کہتی ہیں : 

دخلت علی ام سلمة و هی تبکی فقلت : ما يبکيک؟ قالت : رايت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في المنام و علي رأسه ولحيته التراب فقلت : مالک يا رسول اﷲ قال : شهدت قتل الحسين انفا. 

میں حضرت ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ وہ رو رہی تھیں میں نے پوچھا ’’آ پ کیوں رو رہی ہیں؟،، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہانے فرمایا ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرانور اور داڑھی مبارک پر گرد و غبار ہے۔ میں نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا بات ہے؟ (یہ گرد وغبار کیسا ہے) آپ نے فرمایا ’’میں نے ابھی ابھی حسین رضی اللہ عنہ کو شہید ہوتے دیکھا ہے۔ ،،

(سنن، ترمذي، ابواب المناقب)

شب عاشور، عبادات کی رات

البدایہ والنہایہ اور ابن کثیر میں کثرت کے ساتھ ان روایات کو مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ 9 محرم الحرام کو نواسہ رسول، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ تھکے ماندے جسم کے ساتھ اپنی خیمے کے سامنے میدان کربلا کی ریت پر تشریف فرما ہیں۔ اپنی تلوار سے ٹیک لگا رکھی ہے، یوم عاشور کا انتظار کر رہے ہیں کہ اونگھ آگئی، ادھر ابن سعد نے حتمی فیصلہ ہوجانے کے بعد اپنے عساکر کو حکم دے دیا کہ حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں پر حملہ کردو، یزیدی عساکر حملہ کی نیت سے امام عالی مقام کے اہل بیت اطہار کے خیموں کے قریب پہنچ گئے۔ یزیدی عساکر کا شور و غوغہ سن کر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ محترمہ سیدہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا باہر تشریف لائیں اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو بیدار کیا۔ آپ نے سر انور اٹھایا اور پوچھا زینب رضی اللہ عنہا کیا بات ہے؟ عرض کی امام عالی مقام ! دشمن کی طرف سے حملے کی تیاری مکمل ہوچکی ہے فرمایا ہمشیرہ زینب رضی اللہ عنہا! ہم بھی تیاری کرچکے ہیں’’ بھائی جان تیاری سے کیا مراد ہے؟ زینب رضی اللہ عنہانے مضطرب ہوکر پوچھا۔ ۔ ۔ فرمایا! زینب رضی اللہ عنہا ابھی ابھی میری آنکھ لگی تھی، نانا جان خواب میں تشریف لائے اور بتایا کہ تم عنقریب ہمارے پاس آنے والے ہو! بہن ! ہم اس انتظار میں ہیں، حضرت زینب رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں تو بھیا! یہ مصیبت کی گھڑی آپہنچی؟ فرمایا زینب رضی اللہ عنہا افسوس نہ کر، صبر کر بہن! اللہ تم پر رحم فرمائے گا۔ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ذریعہ یزیدی لشکر سے ایک شب کی مہلت مانگی کہ زندگی کی آخری رات ہے میں اپنے رب کی جی بھر کر عبادت کرنا چاہتا ہوں۔ یزیدی لشکر نے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک رات کی مہلت دے دی۔ 

حسین رضی اللہ عنہ کے اصحاب وفادار

البدایہ النہایہ میں ابن کثیر روایت کرتے ہیں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے رفقاء کو جمع کیا اور فرمایا دیکھو کل کا دن دشمن سے مقابلے کا دن ہے۔ کل کا دن یوم شہادت ہے۔ آزمائش کی بڑی کڑی گھڑی آنے والی ہے۔ میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ تم اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ قیامت کے دن اپنے نانا جان کے حضور تمہاری بے وفائی کا گلہ نہیں کروں گا اور گواہی دوں گا کہ نانا جان یہ میرے وفادار تھے، میں نے بخوشی انہیں جانے کی اجازت دی تھی۔ جس جس کو ساتھ لے کر جانا چاہتے ہو لے جاؤ، یزیدیوں کو صرف میری گردن کی ضرورت ہے جب میری گردن کاٹ لیں گے تو ان کے کلیجے ٹھنڈے ہوجائیں گے تم اپنی جانیں بچاؤ اور حفظ و امان سے واپس چلے جاؤ۔ جودوسخا کے پروردہ امام حسین علیہ السلام آخری لمحات میں بھی دوسروں کا بھلا چاہتے نظر آتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کو زندگی کے اس نازک موڑ پر بھی اپنے ہمراہ یزیدی انتقام کی بھینٹ چڑھنے سے بچانا چاہتے ہیں لیکن عزیمت کے مسافروں کو آفرین کہ انہوں نے اپنی وفاداری کو زندگی کی عارضی مہلت پر ترجیح دی۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے جان نثار اصحاب اور شہزادوں نے عرض کیا کہ امام عالی مقام! خدا وہ دن نہ لائے کہ ہم آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں……. آپ کے بغیر دنیا میں رہ کر ہم کیا کریں گے۔ ۔ ۔ ہم کٹ مریں گے۔ ۔ ۔ ہماری گردنیں آپ کے قدموں میں ہوں گی ……ہم اپنی جانیں آپ پر نثار کر دیں گے…… ہماری لاشوں پر سے گزر کر کوئی بدبخت آپ کو نقصان پہنچائے گا۔ ۔ ۔ ہم ہرگز ہرگز آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب وفادار کا یہ جذبہ ایثار دیکھا تو فرمایا اچھا! یہ آخری رات ہے، سجدے میں گر جاؤ، ساری رات عبادت اور مناجات میں گزری۔ جان نثاران حسین کے خیموں سے رات بھر اللہ کی حمد و ثنا کی صدائیں آتی رہیں۔ 

یوم عاشور

نماز فجر جان نثار اصحاب نے امام عالی مقام کی اقتداء میں ادا کی، بارگاہ خداوندی میں کربلا والے سربسجود تھے وہ سر جنہیں آج شام نیزوں پر بھی قرآن پڑھنا تھا، اللہ رب العزت کے حضور جھکے ہوئے تھے مولا! یہ زندگی تیری ہی عطا کردہ ہے ہم اسے تیری راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں! یزیدی لشکر نے بھی بدبخت ابن سعد کے ساتھ فجر کی نماز ادا کی، 10 محرم الحرام کا سورج طلوع ہوا تو خون میں ڈوبا ہوا تھا، آسمان خون کے آنسو رو رہا تھا۔ آج علی اصغر کے حلقوم میں تیر پیوست ہونا تھا خاندان رسول ہاشمی کے بھوکے پیاسے شہزادوں کے خون سے ریگ کربلا کو سرخ ہونا تھا۔ 

حر کی توبہ

یزیدی 72 جان نثاروں اور عورتوں اور بچوں کے خلاف صف آراء ہوئے، دستور عرب کے مطابق پہلے انفرادی جنگ کا آغاز ہوا۔ یزیدی لشکر سے ایک شہ سوار نکلا، ابن سعد سے پوچھا کیا واقعی تم نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے؟ وہ بدبخت جواب دیتا ہے کہ اس کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ ہی نہیں۔ یہ سن کر شہ سوار پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے کہ یہ بدبخت تو نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کردے گا۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھرانے کا خون بہائے گا۔ اس کے دل میں ایمان کی جو چنگاری سلگ رہی تھی اس نے جوش مارا، قدرت نے اسے اس محبت اہل بیت کا ثمر دیا، اس کے اندر کا انسان بیدار ہو گیا۔ وہ خوف سے کانپ رہا تھا۔ اس کی یہ کیفیت دیکھ کر ایک شخص اس سے پوچھتا ہے، تم تو کوفہ والوں میں سے سب سے بہادر شخص ہو، تمہاری بہادری کی تو مثالیں دی جاتی ہیں، میں نے آج تک تمہیں اتنا پژمردہ نہیں دیکھا، تمہاری حالت غیر کیوں ہو رہی ہے؟ وہ شخص سر اٹھاتا ہے اور امام عالی مقام کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے میرے ایک طرف جنت ہے اور دوسری طرف دوزخ ہے۔ ۔ ۔ مجھے آج اور اسی وقت دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے ! تھوڑے سے توقف کے بعد وہ شہ سوار سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے …….میں نے دوزخ کو ٹھکرانے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اپنے لئے جنت کو منتخب کیا ہے، پھر وہ اپنے گھوڑے کو ایڑی لگاتا ہے اور امام عالی مقام کی خدمت میں پہنچتا ہے۔ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے کہتا ہے : حضور! میں آپ کا مجرم ہوں، میں ہی آپ کے قافلے کو گھیر کر میدان کربلا تک لایا ہوں کیا اس لمحے میں بھی میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ شافع محشر کے نور نظر امام عالی مقام نے فرمایا کہ اگر توبہ کرنے آئے ہو تو اب بھی قبول ہوسکتی ہے۔ وہ کہتا ہے کیا میرا رب مجھے معاف کر دے گا؟ حسین رضی اللہ عنہ : ہاں تیرا رب تجھے معاف کر دے گا۔ لیکن یہ تو بتا کہ تیرا نام کیا ہے، اس شہسوار کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں، عرض کرتا ہے میرا نام حر ہے، امام عالی مقام نے فرمایا حر تمہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی آزاد کر دیا گیا ہے۔ فرمایا : حر نیچے آؤ! وہ کہتا ہے : نہیں امام عالی مقام! اب زندہ نیچے نہیں آؤں گا، اپنی لاش آپ کے قدموں پر نچھاور کروں گا اور یزید کے لشکر کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاؤں گا۔ اس کے بعد خوش بخت حر نے یزیدی لشکر سے خطاب کیا لیکن جب آنکھوں پر مفادات کی پٹی باندھ دی جائے تو کچھ نظر نہیں آتا۔ کوفی لشکر پر حر کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ 

(البدايه والنهايه، 8 : 180 – 181)

انفرادی جنگ کا آغاز

اس ذبح عظیم کا لمحہ جوں جوں قریب آرہا تھا آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سختیاں بڑھتی چلی جا رہی تھیں تین دنوں کے پیاسے حسینی سپاہیوں نے منافقت کے خلاف فیصلہ کن معرکے کی تیاری شروع کر دی۔ انفرادی جنگ کا آغاز ہوا۔ جناب حر اصحاب حسین رضی اللہ عنہ کے پہلے شہید تھے اب ایک مجاہد لشکر حسین رضی اللہ عنہ سے نکلتا اور ایک یزیدی لشکر سے۔ آپ کے جان نثار دشمن کی صفوں کی صفیں الٹ دیتے، کشتوں کے پشتے لگاتے رہے، یزیدیوں کو واصل جہنم کر کے اور پھر خود بھی جام شہادت نوش کر کے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں پر نثار ہوجاتے، پہلے اصحاب حسین شہید ہوئے، غلام نثار ہوئے، قرابت دار ایک ایک کرکے حق شجاعت دیتے ہوئے صفت شہادت سے سرفراز ہوئے۔ 

تبصرے
Loading...