حقیقی زندگی میں اچھاانسان بنیں

ابوالحسن شگری

*حقیقی زندگی میں اچھا انسان بنیں نہ کہ سوشل میڈیا پر*

*تحریر :ابوالحسن_شگری*

دور جدید اور دور حاضر کو مدنظر رکھتے ہوئے بندہ ناچیز نے مندرجہ بالا زیر نظرعنوان پہ کچھ لکھنا مناسب سمجھا ۔

عصرحاضرمیں ایک اچھے انسان کی پہچان کیاہوتی ہے۔ ایک اچھا انسان کے اندر کیا کیا خصوصیات ہونی چاہئے۔لہذا میں یہاں ایک اچھے انسان کی چند خوبیاں اور صفات بیان کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔ ایک اچھا انسان وہ ہے جس کے پاس احساس ذمہ داری ہو،تمام تر حقوق اللہ اور حقوق الناس سے باخبر ہو، بات کرنے کا سلیقہ ہو۔ کیونکہ انسان کی پہچان انداز گفتگو سے ہوتی ہے اس کے ساتھ اچھے انسان میں اخلاق و کردار جیسے عظیم صفات موجود ہوں۔ اس دور میں برداشت، صبر، شاٸستگی، ایمانداری کیساتھ انسان کا قول و فعل ایک ہونی چاہیے۔۔یہ دنیا فانی ہے اور زندگی اس فانی دنیا کی ایک ایسی کتاب ہے جس کا نہ ہمیں صفحہ اول کا پتہ ہے نہ صفحہ آخر کا۔مطلب یہ کہ زندگی عارضی ہے جواس دارجہاں کے گوشے گوشے میں مختلف افراد کے ہاں مختلف صورتوں اور مختلف رنگوں میں ہوتی ہے۔یہاں ہرکسی کے پاس زندگی کے الگ الگ درجے ہیں ۔کسی نے زندگی کو خوشی اور غم کامسکن سمجھاہے تو کسی کے پاس یہی مختلف نشیب وفرازاوراتاچڑھاوکامرکزہے،نہ جانے ہر کسی نے زندگی کو کیا سے کیا نہیں سمجھا۔ اور تو اور بعض کے ہاں زندگی ایک ایسا گلشن ہے جہاں ہر مختلف رنگ و نسل اور انواع و اقسام کے پھل پھول اور پودے کھلتے ہیں جن کا نظام زندگی مختلف موسموں اور مختلف وقتوں پر انحصار کرتا ہے ۔ ہر رنگ اسکا نرالا ہے لہٰذا ہر ایک کا زندگی کے بارے میں ایک منفرد فلسفہ اورتشریخ ہے۔۔

ہماری چاروں طرف زندگی کا حسن جابجا پھیلا ہوا نظر آتا ہے ۔لیکن ہم یہاں حقیقی زندگی کے بارے میں گفتگو کرنے کی سعی کریں گے حقیقی زندگی سے مراد اپنے اردگرد کے ماحول میں موجود انسانوں سے باخبر رہنا ہے ۔مثلاً آپ کے محلے میں ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والا لڑکا پڑھناچاہتا ہے لیکن اس کی غریبی اس کے راہ میں دیواربنی ہوئی ہے اوراگرآپ نے اس کوکندہ دیاتوسمجھ لیجئے آپ اصل زندگی کے سیڑھیوں پرکھڑے ہیں ۔

حقیقی زندگی کا حسن کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے گرد و نواح اور آس پاس میں رہنے والے بھائیوں اور بہنوں کا بھی خیال رکھیں اور حسب ضرورت اور بساط کے مطابق خدمت خلق کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہیں ۔یقین کرلیں اپنے لیے ہرکوئی جیتاہے اگرآپ دوسروں کی زندگی کیلئے جینے کی کوشش کریں توسمجھ لیں آپ کامیاب ہے ہم جس دور میں زندگی جی رہے ہیں اس دور میں سوشل میڈیا کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔آج کل انسان اپنا زیادہ تر وقت سوشل میڈیا پر صرف کرتاہے ۔جسکی وجہ سے ہم نے حقیقی زندگی کے معنوں کو بھول کر صرف اسی سوشل میڈیا کو اصل زندگی سمجھ رکھا ہے۔
عصرحاضرمیں سوشل میڈیاپرہم صرف زبانی یا صرف کمنٹ کی حد تک اچھےہیں۔ہم سوشل میڈیا پہ آکر بڑے بڑے فلاسفی اور اصلاح معاشرے کے بارے میں گفتگو کرتے تھکتے نہیں لیکن عملی زندگی میں انکی کردار صفر ہے اس دور میں بالعموم انسان اور بالخصوص نوجوان نسل عملی زندگی کے راستوں سے بھٹک کر خود سوشل میڈیا میں خود نماٸی میں اپنا اکثر وبیشتر وقت ضاٸع کر رہے ہیں۔کسی نے کیا خوب جملہ کہا ہے کہ پہلے زمانے میں لوگ نیکی کرکے دریا میں ڈالتے تھے ابھی لوگ نیکی کر کے فیسبک میں ڈالتے ہیں۔ میں یہ ہرگز نہیں کہتا کہ سوشل میڈیا فائدہ مند نہیں ہے۔دنیا کی کسی بھی چیز میں کوٸی براٸی نہیں بشرطیکہ انسان اس کو اچھے مقاصد کے لیے استعمال کرے۔بلکہ میں تو کہتا ہوں سوشل میڈیا ہی کے زریعے آج کل فروغ دین اور حصول تعلیم کی ترویج ہورہی ہے۔علاوہ ازیں سوشل میڈیا ہی کی وجہ سے انسانی زندگی میں بے شمار اچھی اور فاٸدہ مند تبدیلیاں رونما ہوٸی ہیں اور بالغرض یہ کہ سوشل میڈیا کہ وجہ سے تو دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔لیکن جہاں آگ لگاٸی جاتی ہے وہاں دھواں ضرور نکلتا ہے بلکل اسی طرح شوشل میڈیا کے مثبت اثرات کے ساتھ ساتھ برے تاثرات بھی ہیں جو ہماری نسل نو میں جنم لے رہی ہیں۔۔نوجوانوں کے ساتھ ساتھ چھوٹی عمر کا طبقہ سوشل میڈیا کی آغوش میں بری طرح پھنسا ہوا ہے۔ جس نے ان کی سماجی مصروفیات کو بھی محدود کردیا ہے۔ اسی سوشل میڈیا میں بری طرح مصروفیات ہونے کی وجہ سے معاشرے میں پریکٹیکل کام ویسا ہی ہےجو پہلے تھا کیونکہ معاشرے میں موجود نوجوان نسل کا رجحان صرف سوشل میڈیا پر فلاسفرز بننے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ عملی زندگی میں صفر ہے۔

نئی نسل کے حوالے سے یہ ضروری ہے انہیں سوشل میڈیا پر سماجی مشاغل کا مستقل غلام نہ بنایا جائے۔
مختصر یہ کہ ہم سب سے پہلے اپنی حقیقی زندگی میں اچھا انسان بنے اور ان تمام تر پہلوؤں پر عمل پیرا ہو نے کی کوشش کرے جو ایک اچھے انسان کے کردار میں شامل ہیں۔ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کو اچھے مقاصد کے لیے استعمال کریں جیسے آجکل کے دور میں مذہبی منافرت پھیلانے میں سوشل میڈیا سب سے آسان اور سستا ترین ہتھیار ہے ایسے کام سر انجام دینے سے باز رہیں کیونکہ شاعر مشرق علامہ اقبال کا بھی فرمان ہےکہ
*عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی*
*یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے۔*

تبصرے
Loading...