حقيقت شيعه شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و نما(دوسري فصل)

ديني مرجعيت

گذشتہ امتوں ميں دين کي باگ ڈور متدين يا کاہنوں (جو علم غيبي يا اسرار الٰہي کے علم کے مدعي تھے) کے ہاتھ رہي ہے اگر ثاني الذکر کي تعبير صحيح ہے تو، وقتي اور دنياوي حکومت ديني حکومت سے جد ا رہي ہے۔

فراعنہ(بادشاہان مصر) اس بات کے مدعي تھے کہ وہ الٰہي نسل کے چشم و چراغ ہيں جب کہ يہ ايک اعزازي اظہار لقب تھا اور حقيقت سے دور دور تک اس کا کوئي واسطہ نہيں تھا۔

بادشاہان وقت ديني امور کے ذمہ دار نہيں رہے مگر بعض معاملات ميں جس کو کاہن حضرات عام طور سے مذہبي رنگ و روغن لگا کر پيش کرتے تھے، يہ کاہن افراد شہر کے ديني مرجع ہوتے تھے، بادشاہان مصر (فراعنہ) عام طور سے سياسي امور اور آباديوں کي ديکھ ريکھ ميں حکمراني کرتے تھے، کاہن (مسيحي روحاني رہنما) عبادت گاہوںميں اپنے ديني افکار کے تحت امور کي انجام دہي کرتے تھے، ان افراد کو دوسرے لفظوں ميں معظم الامم (سربراہان قوم) کہتے ہيں۔

آسماني اديان کي باگ ڈور يہودي خاخاموں اور عيسائي پوپ حضرات کے ہاتھ ميں تھي، سياسي حکومت سياست مداروں کے ہاتھ تھي جو شہريوں کي امداد اور ديکھ بھال کر رہے تھے اگرچہ ان کي گرفت مختلف قبيلوں پر تھي ليکن اس بات کا اظہار کرتے تھے کہ وہ متدين و روحاني رہنما کي باتوں کو سنتے ہيں اور ان کي تعظيم و تکريم کرتے ہيں، اور دين سے متعلق امور ميں ان افراد کو مکمل اختيار دے رکھا تھا، ان لوگوں کے درميان وہ افراد بھي تھے جو مملکت کے استحکام اور عصري سياست کي تمرين سے دور تھے۔

جب پيغمبر نے مدينہ کي جانب ہجرت کي تو وہاں اپني حکومت کے مراکز اور نائبين کا تعين فرمايا، اس وقت رسول ديني اور دنيوي دونوں حکومت کے زمامدار تھے اور امور شريعت کے تنہا سرتاج و مرشد، احکام شريعت کے مبيّن و مفسّر اور سنت کے باني تھے۔

آپ نے فرمايا: ”صلوا کما راٴيتموني اصلي“ جيسے ميں نماز پڑھتا ہوں اسي طرح نماز پڑھو۔

آپ ايک ہي وقت ميں سياسي رہنما تھے جس کے ذريعہ سے بنياد حکومت استوار ہوسکتي تھي جيسا کہ ہجرت کے شروع ہي ميں آپ نے پروگرام مرتب کرديا تھا اور مسلمان اور يہود کے سامنے پيش کيا تھا۔

دوسرے رخ سے آپ سپہ سالار لشکر تھے کيونکہ آپ نے بڑے بڑے معرکوں ميں لشکر کي سرداري کے فرائض کو انجام ديا ہے بلکہ سرايہ (جس جنگ ميں آپ نے شرکت نہيں کي) ميں بعض اصحاب کو حسب ضرورت اپنا نائب مقرر کيا ہے۔

گويا پيغمبر ہر رخ سے قائد و رہبر تھے اور ايک ہي وقت ميں دوہري حکومتوں کے زمام دار تھے۔

پيغمبر کي حسن تدبير سے مسلمانوں نے يہ بخوبي جان ليا تھا کہ يہ سلسلہ چلتا رہے گا اور رسول کے بعد جو بھي ان کا خليفہ ہوگا اس کي اقتدا واجب ہے۔

خليفہ مراد وہ امام ہے کہ جس کي اطاعت واجب ہے، اور حفاظت شريعت جو حکم خدا اور سنت نبيوي کے تحت ہے اس ميں وہ قابل اعتماد ہے۔

اور حکومت اسلامي کے سياسي، اقتصادي اور عسکري امور کي وہ سربراہي کرتا ہے لہٰذا دين اسلام سياست عامہ اور حکومت اسلامي سے جدا نہيں ہے جو بھي رسول کا خليفہ ہے اس کے لئے ضروري ہے کہ وہ اسي راہ پر گامزن ہو۔

اور ظاہر سي بات ہے کہ امت کے تمام افراد ميں اس عظيم ذمہ داري کے لئے حسب ضرورت شرطيں نہيں پائي جاتيں لہٰذا ضروري ہے کہ کسي ايک فرد ميں جو کہ خليفہ کے عہدے پر فائز ہو تمام صفات حميدہ اور کمالا حسنہ پائے جاتے ہوں تاکہ امور کي انجام دہي، شريعت کي حفاظت، اور حکومت کي پشت پناہي، ان تمام خطرات سے کرسکے جس کا امکان کسي بھي رخ سے پايا جاتا ہے۔

اگر عصري تقاضوں کے تحت بعض دنيوي حکومت ميں تبديلي اوراجتہاد کا امکان پايا جائے تو دوسرے رخ سے مسائل شرعيہ ميں اس طرح کا اجتہاد جو توہين اور سبکي کي جانب لے جائے اور ايک کے بعد دوسرے ميں مداخلت کي سبب بنے، بالکل روا نہيں ہے۔

جب ديني مرجعيت ايسي آندھيوں کے سامنے آجائے گي تو آنے والے دنوں ميں کوئي اس پر بھروسہ نہيں کرے گا اور شريعت ميں تحريف کا ايسا رخنہ پيدا ہوجائے گا جو پُر نہيں ہوسکتا، نيز آنے والے دنوں ميں شريعت پر بہت بڑا دھچکا لگے گا، اور حقيقت کي تشخيص و تعيين ميں بہت سے لوگ پھسل جائيں گے، لہٰذا يہ کہنا پڑے گا کہ ديني مرجعيت کے شرطوں ميں سے ايک يہ ہے کہ جو اس مرجعيت کو ان انجانے خطرات سے نہ بچاسکے وہ بالکل اس عہدے کا اہل نہيں ہوسکتا۔

انھيں کے پيش نظر ہم کو اس بات کي اہميت معلوم ہوتي ہے کہ پيغمبر نے اس (خلافت) کے حدود و خطوط معين فرماديئے تھے، اور عہدہ داروں کي شرطوں کو بيان کر ديا تھا، اور فرد، يا افراد کي تعيين اپنے سامنے کردي تھي، يا يہ عظيم ذمہ داري امت کے کندھوں پر ڈال دي تھي تاکہ جس کو چاہيں معين کرليں اور اصلح (نيک) کو مصلحت و تقاضوں کے تحت اس ديني مرجعيت کے لئے چن ليں؟

رہبري کے عمومي شرائط

شريعت کي حفاظت کے لئے ديني رہبري کي اہميت بيان کرنے کے بعد ضروري ہے کہ رہبري کے شرائط بھي پيش کرديئے جائيں اور جو شخص اس کا مدعي ہے اس کے لئے لازم ہے کہ ان شرائط کا حامل ہو، اور اس کي تعيين کے لئے نص يا نصوص نبوي کي تلاش ضروري ہے تاکہ اس مسئلہ پر کسي قسم کا اختلاف يا تشتت نہ ہو جس کے سبب امت کے نظريات ٹکڑوں ميں بٹ جائيں اور ايسا رخنہ پيدا ہو کہ جس سے شريعت نے منع کيا ہے۔

اہليت، عمومي مرجعيت کي برترين شرط ہے

جب ہم اسلام کي تاريخ و سير کا مطالعہ کرتے ہيں تو ہم کو وہ نصوص ملتي ہيں کہ جن ميں اس شخص کي جانب رسول نے اشارہ کيا ہے جس ميں يہ تمام شرطيں بدرجہٴ اتم پائي جاتي ہيں۔

محدثين نے لکھا ہے کہ رسول جب آخري حج سے واپس ہو رہے تھے تو جحفہ نامي جگہ جس کو غدير خم بھي کہتے ہيں اجلال نزول فرمايا اور وہاں موجود بڑے بڑے درختوں کے نيچے سے خس و خاشاک جمع کرنے کا حکم ديا تو لوگوں نے اس پر عمل کيا پھر آپ کے لئے اونٹوں کے کجاوے کا منبر بنايا گيا آپ اس پر تشريف لے گئے تاکہ سب لوگ آپ کو صحيح طريقہ سے ديکھ سکيں، اس وقت آپ نے فرمايا: 

”مجھے (خدا کي جانب) طلب کيا گيا ہے ميں نے قبول کيا ہے ميں تمہارے درميان دو گرانقدر چيزيں چھوڑ کر جارہا ہوں اس ميں سے ايک دوسرے سے بڑي ہے۔

کتا ب خدا اور ميري عترت ديکھو تم لوگ ان دونوں ميں ميري کيسي اطاعت کرتے ہو يہ دونوں ہرگز ايک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے يہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کريں گے“

بعض روايات ميں ايک خاص جملہ کا اضافہ ہے (جب تک ان سے متمسک رہو گے گ-مراہ نہ ہوگے)۔[18]

ابن حجر ھيثمي مکي نے اس روايت (حديث ثقلين) کو متعدد طريقوں سے روايت کرنے کے بعد کہا ہے، کہ حديث تمسک، متعدد طريقوں سے بيس سے زيادہ صحابيوں نے روايت کي ہے بعض طرُق ميں کہا گيا ہے کہ يہ حديث حجة الوداع کے موقع پر، مقام عرفہ ميں آنحضرت نے ارشاد فرمائي ہے، بعض کے مطابق مدينہ ميں جب رسول اکرم احتضاري کيفيت ميں تھے اور آپ کا حجرہ مبارک اصحاب سے بھرا ہوا تھا، بعض طرُق نے غدير خم کے حوالہ سے نقل کيا ہے، اور بعض نے کہا ہے کہ جب آپ طائف سے واپس آرہے تھے۔

ان متعدد طريقوں سے اس حديث کا نقل ہونا کوئي منافات نہيں رکھتا اور کوئي مشکل بھي نہيں ہے کہ آپ نے متعدد مقامات پر قرآن و اہلبيت کي عظمت کے پيش نظر حديث کي تکرار فرمائي ہو۔[19]

نصوص حديث اور ابن حجر کے تعلقيہ سے ہم اس بات کا نتيجہ نکال سکتے ہيں کہ نبي اکرم نے اپنے بعد ان افراد کي نشان دہي فرمادي ہے جو آپ کے بعد ديني مرجعيت کي منھ بولتي تصوير ہيں۔

اور اہل بيت و عترت طاہرہ کي مرجعيت کي نص يہي حديث ہے آپ نے اہل بيت کو قرآن کے ہم پلہ قرار ديا ہے، قرآن شريعت کا پہلا مرکز ہے اور ثقل اکبر ہے اور اہلبيت رسول دوسرے مرکز ہيں اور ثقل اصغر ہيں۔

اہلبيت کي جانب اشاروں کي تکرار اور متعدد مقامات و مناسبتوں پر اس کو دہرانا اس امر کي عظمت و اہميت کے باعث ہے، درحقيقت ايک طرح کي فرصت تھي ان افراد کے لئے جو اس کو سن نہيں سکے ہيں اور جو سن چکے ہيں ان کي ياد دہاني کے لئے ہے۔

رسول نے اہلبيت کے حوالہ سے صرف اسي نص پر اکتفا نہيں کي بلکہ مسئلہ کي اور وضاحت فرمادي، جيسا کہ محدثين نے نقل کيا ہے کہ ابوذر غفاري نے در کعبہ کو پکڑ کر کہا: اے لوگو! جو مجھے پہچانتا ہے وہ پہچانتا ہے اور جو نہيں جانتا ہے وہ جان لے کہ ميں ابوذر ہوں، ميں نے رسول اکرم کو فرماتے سنا ہے، کہ ميرے اہلبيت کي مثال سفينہٴ نوح کي سي ہے جو اس ميں سوار ہوگيا، نجات يافتہ ہوگيا، اور جس نے اس سے روگرداني کي وہ ہلاک ہوگيا۔[20]

دوسري روايت ابن عباس وغيرہ سے ہے کہ رسول اکرم نے فرمايا: آسمان کے ستارے زمين پر بسنے والوں کے لئے سبب امان ہيں تاکہ لوگ غرق ہونے سے بچ جائيں، (دوران سفر سمندروں ميں ستاروں کے ذريعہ راہوں کي تعيين کي جانب اشارہ ہے) ميرے اہلبيت ميري امت کے لئے سبب امان ہيں، تاکہ آپسي اختلافات سے بچے رہيں، اگر عرب کے قبيلوں ميں سے کسي گروہ نے ان (اہلبيت) سے اختلاف کيا تو وہ شيطاني گروہ ہوگا۔[21]

رسول اکرم نے اپنے دوسرے فرمان ميں ثقلين کي اور صراحت فرمادي ہے:

”ان دونوں پر سبقت نہ لے جانا ان دونوں سے پيچھے نہ رہ جانا، ورنہ ہلاکت مقدر بن جائے گي اور کبھي ان کو کچھ سکھانے کي کوشش نہ کرنا، اس لئے کہ يہ تم سے اعلم ہيں۔[22]

اس بات کي جانب امير المومنين – نے اپنے ايک خطبہ ميں کافي تاکيد کي ہے، آپ نے فرمايا: اپنے نبي کے اہلبيت کو ديکھو اور ان کے نقش قدم پر چلو، کيونکہ وہ تم کو راہ ہدايت سے دور نہيں کريں گے، اور قعر مذلت ميں نہيں گرائيں گے، اگر وہ گوشہ نشين ہوجائيں تو تم بھي ان کے ساتھ رہو، اگر وہ قيام کريں تو ان کے ہمرکاب رہو، ان پر سبقت نہ لے جاؤ، ورنہ بہک جاؤ گے ان سے پيچھے نہ رہو، ورنہ ہلاکت مقدر بن جائے گي۔[23]

حضرت سيد سجاد سے روايت ہے کہ آپ نے فرمايا:

”کيا اس سے زيادہ کوئي بھروسہ مند ہے کہ جو حجت کو پہنچائے، حکم (خدا) کي تاويل پيش کرے ،مگر وہ افراد جو کتاب (قرآن) کے ہم پلہ ہيں اور ائمہ ہديٰ کے روشن چراغوں کي ذريت ميں سے ہيں، يہ وہي لوگ ہيں جن کے ذريعہ سے خدا نے بندوں پر حجت تمام کي اور لوگوں کو بغير کسي حجت کے حيران و سرگردان نہيں چھوڑ ديا، کيا تم لوگ شجرہٴ مبارکہ کي شاخوں کے علاوہ کسي کو جانتے ہو ياکسي اور کو پاسکو گے اور يہ ان برگزيدہ بندوں کي يادگاريں ہيں، جن سے خدا نے رجس کو دور رکھا ہے اور ان کي طہارت کا اعلان کيا ہے اور تمام آفات ارضي و بليّات سماوي سے محفوظ رکھا ہے اور قرآن ميں ان کي محبت و مودّت کو واجب قرار ديا ہے۔[24]

گذشتہ باتوں سے يہ بات واضح ہوجاتي ہے کہ بلاشک و ترديد رسول نے اپني امت کے لئے ان افراد کا اعلان و تعين فرماديا ہے جن کي جانب ہر امر ميں رجوع کرنا ہے اور وہ والا صفات اہلبيت کي ذوات مقدسہ ہيں اور اس بات کي تاکيد ہے کہ قرآن کے ساتھ ساتھ ان کے دامن سے متمسک رہو، بلکہ ان سے روگرداني کرنے کي صورت ميں ڈرايا بھي ہے اور ان کي مخالفت اور دوري ميں ہلاکت و گمراہي بتايا ہے۔

اگر يہ سوال ہو کہ ديني مرجعيت کے مرکزيت کو رسول نے اہلبيت ميں کيوں محدود کرديا؟

تو اس کا جواب يہ ہوگا کہ يہ تو مسلّمات ميں سے ہے کہ رسول اپني طرف سے کوئي بات نہيں کرتے، گويا رسول کا يہ عمل حکم خداوندي کے تحت تھا اور اللہ نے اہلبيت کو ان مراتب سے نوازا اور اس عظيم امر کي اہليت بخشي ہے! جيسا کہ قرآن ميں اسي بات کا اعلان بھي ہے:

۔[25]

اے اہل بيت! اللہ کا ارادہ يہ ہے کہ تم اہل بيت سے رجس کو دور رکھے اور ويسا پاک رکھے جيسا پاک رکھنے کا حق ہے۔

اللہ نے ان کي طہارت کو ثابت کيا ہے اور وہ عيوب جن سے بڑے بڑے لوگ نہيں بچ پاتے ان سے ان کو دور رکھا ہے ان کي طہارت اس بات کي متقاضي ہے کہ يہ گناہ، عيوب، پستي، جن ميں سے جھوٹ اور خدا کي جانب افترا پردازي او ران باتوں کا ادعا کرنا جو خدا کے لئے مناسب نہيں ہے، ان سب سے معصوم و محفوظ ہيں۔

اور دوسرے رخ سے نبي اکرم نے دوسري صفات ان کے لئے بيان کي ہے، جيسے: احکامات 

(۱)شريعت کے سلسلہ ميں امت ميں سب سے اعلم ہيں اور يہ اس بات کا لازمہ ہے کہ يہ امت کے مرجع و مرکز ہيں۔

پيغمبر کا ا س جانب توجہ دلانا کہ ان سے ہدايت حاصل کرو ان پر سبقت نہ لے جاؤ ا ن سے پيچھے نہ رہو، ان کو کچھ سکھانے کي کوشش نہ کرو، يہ سب رسول کا اس عظيم امر ميں اہلبيت کي مدد کرنا نہيں ہے اور نہ ہي قرابت داري کے باعث اظہار محبت ہے، کيونکہ اقرباء ميں توابولہب بھي رسول کا چچا تھا مگر رسول نے اس رشتہ کو کبھي نہيں سراہا۔

اہلبيت کون لوگ ہيں؟

بعض لوگوں نے اہلبيت ميں ان افراد کو شامل کرنا چاہا ہے جو اہلبيت ميں سے نہيں تھے! متعدد مقامات پر مختلف انداز ميں رسول نے اہلبيت کي وضاحت و نشان دہي کردي ہے تاکہ دھوکا اور ہر طرح کا احتمال ختم ہوجائے۔

علماء حديث نے اصحاب کے حوالہ سے بہت ساري روايتوں کا تذکرہ کيا ہے جس ميں صاف صاف وضاحت ہے، انھيں ميں سے ايک ام المومنين حضرت ام سلمہ کي روايت ہے، پيغمبر اسلام نے حضرت فاطمہ سے فرمايا: اپنے فرزندوں اور شوہر کے ساتھ يہاں آؤ! آپ سب کے ہمراہ حاضر ہوئيں، رسول نے ان سب کے اوپر فدک کي چادر ڈال دي اس کے بعد اس پر ہاتھ رکھ کر فرمايا: خدايا! يہ آل محمد ہيں، معبود! محمد و آل محمد پر رحمات و نعمات کا نزول فرما! تو لائق تعريف و صاحب عظمت ہے۔

ام سلمہ کہتي ہيں کہ ميں نے چادر کا گوشہ ہٹايا تاکہ ميں بھي اس کے اندر داخل ہوجاؤں رسول نے اس کو ميرے ہاتھ سے لے لي اور فرمايا: ”تم خير پر ہو“[26]

حضرت عائشہ سے روايت ہے: کہ ايک صبح رسول اس حالت ميں نکلے کہ آپ کے دوش پہ سياہ رنگ کي اوني چادر پڑي ہوئي تھي، اتنے ميں حسن آئے آپ نے ان کو اس کے اندر داخل کرليا پھر حسين آئے تو ان کو بھي اندر داخل کرليا پھر فاطمہ آئيں ان کو بھي داخل کرليا پھر علي آئے اور ان کو بھي داخل کرليا اس کے بعد رسول نے اس آيت کي تلاوت فرمائي: 

[27]

يہ بات بالکل مسلّمات ميں سے ہے کہ رسول اکرم نے نصاريٰ نجران سے مباہلہ کيا تھا اور يہي افراد شريک کار تھے، علماء تفسير و حديث نے اس بات کو متعدد اصحاب کے حوالہ سے نقل کيا ہے جن ميں سے سعد ابن ابي وقاص ہيں، کہتے ہيں کہ: جب آيہٴ مباہلہ نازل ہوئي تو رسول نے علي ، فاطمہ ، حسن و حسين کو بلايا اور فرمايا:”اللّٰہم ہٰؤلآء اہلي“ خدايا! يہ ميرے اہل بيت ہيں۔

لوگ سوال کرتے ہيں کہ جب رسول کے اہلبيت يہي ہيں تو شيعہ حضرات کيوں کہتے ہيں کہ بقيہ نو امام بھي اہلبيت رسول ہيں۔

تو اس کا جواب يہ ہے کہ رسول سے بہت ساري روايات نقل ہوئيں ہيں جس ميں آپ نے اپنے بعد کے خلفاء کي تعيين کي ہے اور ان کي تعداد بارہ بتائي ہے، علماء حديث، حافظين حديث اور بخاري کے الفاظ يہ ہيں: 

جابر بن ثمرہ راوي ہيں کہ: ”ميں نے رسول اکرم کو فرماتے سنا ہے کہ بارہ ہادي و امام ہوں گے“اس کے بعد ايک جملہ کہا جس کو ميں سن نہ سکا، پھر ميرے والد نے بتايا کہ آپ نے فرمايا ہے کہ ”سب کے سب قريشي ہوں گے“[29]

 

——–

[18] المستدرک، ج۳، ص ۱۰۹، ۵۳۳؛ مسند احمد بن حنبل، ج۵، ص ۱۸۱، ۱۸۹؛ جامع ترمذي، ج۲، ص ۳۰۸، حديث ۳۸۷۴؛ خصائص امير المومنين للنسائي، ص ۲۱؛ کنز العمال، ج۱، ص۴۴، ۴۷، ۴۸؛ صحيح مسلم، باب فضائل علي؛ سنن الدارمي، ج۲، ص ۴۳۱؛ صواعق محرقہ، ص ۸۹؛ الطبقات الکبريٰ، ج۲، ص۲؛ فيض القدير للمناوي، ج۳، ص ۱۴؛ حلية الاولياء ج۱، ص ۳۵۵، حديث۶۴؛ مجمع الزوائد، ج۹، ص ۱۶۳، ۱۶۴ 

[19] صواعق محرقہ، ص ۲۳۱۔ ۱۳۰ 

[20] المستدرک علي الصحيحين للحاکم النيشابوري، ج۴، ص ۳۴۳؛ کنز العمال، ج۶، ص ۲۱۶؛ مجمع الزوائد، ج۹، ص ۱۶۸؛ حلية الاولياء، ج۴، ص ۳۰۶؛ تاريخ بغداد، ج۱۲، ص ۱۹، ذخائر العقبيٰ، ص ۲۰؛ کنوز الحقائق، ۱۳۲؛ فيض القدير، للمناوي، ج۴، ص ۳۵۶؛ صواعق محرقہ، ص ۳۵۲، بعض روايات ميں آيا ہے کہ، يہ (اہلبيت) باب حطہ کي مانند ہيں جو اس ميں داخل ہوا امان پاگيا اور جو اس سے نکل گيا وہ کافر ہوگيا۔ 

[21] المستدرک علي الصحيحين، ج۳، ص ۱۴۹۔ ۱۴۸؛ کنز العمال، ج۶، ص ۱۶؛ صواعق محرقہ، ص ۳۵۳؛ مجمع الزوائد، ج۹، ص ۱۷۴؛ فيض القدير، للمناوي، ج۶، ص ۲۹۷؛ ذخائر العقبيٰ، للمحب الطبري، ص ۱۷، 

[22] صواعق محرقہ، ص ۲۳۰ 

[23] نہج البلاغہ، خطبہ۲ 

[24] صواعق محرقہ، ص ۲۲۳ 

[25] سورہٴ احزاب، آيت ۳۳ 

[26] مسند احمد، ج۶، ص ۲۹۶، ۳۲۳؛ المستدرک، ج۳، ص ۱۰۸، ۱۴۷؛ کنز العمال، ج۷، ص۱۰۲، ۲۱۷؛ مجمع الزوائد، ج۹، ص۱۶۷ 

[27] صحيح مسلم، کتاب فضائل صحابہ باب فضائل اہلبيت نبي؛ المستدرک علي الصحيحين، ج۳، ص۱۴۷، انھوں نے کہا کہ شيخين کي تائيد کے باعث يہ حديث صحيح ہے، سنن البيہقي، ج۲، ص۱۴۹؛ تفسير طبري، ج۲۲، ص۵؛ فخر رازي نے بھي اس کو آيہٴ مباہلہ کے ذيل ميں ذکر کيا ہے اور کہا کہ اس روايت کي صحت علماء تفسير و حديث کے نزديک متفق عليہ ہے: جامع ترمذي، ج۲، ص۲۰۹، ۳۱۹؛ مسند احمد، ج۶، ص۳۰۶، اسد الغابہ، ج۴، ص۲۹ 

[28] جامع ترمذي، ج۲، ص۱۶۶؛ المستدرک علي الصحيحين ج۳، ص۱۵۰؛ سنن البيہقي، ج۷، ص۶۲؛ اسباب النزول، ص ۷۵ 

[29] صحيح بخاري، ج۹، ص۱۰۱، کتاب الاحکام باب الاستخلاف؛ سنن ترمذي، ج۴، ص ۵۰۱؛ سنن ابي داؤد، ج۴، ص۱۰۶؛ المعجم الکبير، ج۲، ۱۹۴، بعض نسخوں ميں خليفہ، رجل، قيم، کا لفظ آيا ہے۔

 

تبصرے
Loading...