حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا(پہلی قسط)

والدین ماجدین
آپ کے والد ماجد ساتویں امام باب الحوائج حضرت موسیٰ بن جعفر علیہما السلام اور مادر گرامی نجمہ خاتون ہیں جو امام رضا علیہ السلام کی بھی والدہ ماجدہ ہیں۔ (1)

ولادت تا ہجرت
 حضرت معصومه سلام الله علیها(2) نے یکم ذی القعدہ ۱۷۳ ء ھ کو مدینہ منورہ کی سرزمین پر اس جہان میں قدم رنجہ فرمایا اور ۲۸ سال کی مختصر سی زندگی میں دس ۱۰ (3) یا بارہ۱۲ (4) ربیع الثانی ۲۰۱ ھ میں شہر قم میں اس دار فانی کو وداع کردیا۔
اس عظیم القدر سیدہ نے ابتدا ہے سے ایسے ماحول میں پرورش پائی جہاں والدین اور بہن بھائی سب کے سب اخلاقی فضیلتوں سے آراستہ تھے۔ عبادت و زہد، پارسائی اور تقوی، صداقت اور حلم، مشکلات و مصائب میں صبر و استقامت، جود و سخا، رحمت و کرم، پاکدامنی اور ذکر و یاد الہی، اس پاک سیرت اور نیک سرشت خاندان کی ابھری ہوئی خصوصیات تھیں۔ سب برگزیدہ اور بزرگ اور ہدایت و رشد کے پیشوا، امامت کے درخشان گوہر اور سفینہ بشریت کے ہادی و ناخدا تھے۔

علم و دانش کا سرچشمہ
 حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے ایسے خاندان میں پرورش پائی جو علم و تقوا اور اخلاقی فضایل کا سرچشمہ تھا۔ آپ سلام اللہ علیہا کے والد ماجد حضرت موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ علیہ السلام کے فرزند ارجمند حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام نے اپنے بھائیوں اور بہنوں کی سرپرستی اور تعلیم و تربیت کا بیڑا اٹھایا۔ امام رضا علیہ السلام کی خصوصی توجہات کی وجہ سے امام ہفتم کے سارے فرزند اعلی علمی اور معنوی مراتب پر فائز ہوئے اور اپنے علم و معرفت کی وجہ سے معروف و مشہور ہوگئے۔
ابن صباغ ملکی کہتے ہیں: “ابوالحسن موسی المعروف “کاظم” کے ہر فرزند کی اپنی ایک خاص اور مشہور فضیلت ہے۔”
اس میں شک نہیں ہے کہ امام موسی کاظم علیہ السلام کے فرزندوں میں حضرت رضا علیہ السلام کے بعد علمی اور اخلاقی حوالے سے حضرت سیدہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا علمی اور اخلاقی مقام سب سے اونچا ہے۔ یہ والا مقام حضرت سیدہ معصومہ کے ناموں اور القاب اور ان کے بارے میں ائمہ کی زبان مبارک سے بیان ہونے والی تعاریف و توصیفات سے آشکار ہے۔ اور اس حقیقت سے واضح ہوتا ہے کہ سیدہ معصومہ بھی ثانی زہرا حضرت زینب کی مانند “عالمہ غیر مُعَلَّمہ” ہیں۔ (عالمہ ہیں مگر ان کا استاد نہیں ہے اور علم انہیں کسی نے سکھایا نہیں ہے)۔

فضایل کا مظہر
 حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا فضائل و مراتب و مقامات عالیہ کا مظہر ہیں۔ معصومین علیہم السلام کی روایات آپ سلام اللہ علیہا کے لئے نہایت اونچے مقامات و مراتب کی دلیل ہیں۔
روى القاضى نور اللّه عن الصادق عليه السلام قال:ان للّه حرماً و هو مكة ألا انَّ لرسول اللّه حرماً و هو المدينة ألا و ان لاميرالمؤمنين عليه السلام حرماً و هو الكوفه الا و انَّ قم الكوفة الصغيرة ألا ان للجنة ثمانيه ابواب ثلاثه منها الى قم تقبض فيها امراة من ولدى اسمها فاطمه بنت موسى عليهاالسلام و تدخل بشفاعتها شيعتى الجنة باجمعهم۔(5)
قاضی نور الله رحمه روایت کرتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: “جان لو کہ خدا کے لئے ایک حرم ہے اور وہ مکہ ہے؛ اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے بھی ایک حرم ہے اور وہ مدینہ ہے؛ اور حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کے لئے بھی ایک حرم ہے اور وہ کوفہ ہے۔ جان لو کہ قم ہمارا چھوٹا کوفہ ہے، جان لو کہ جنت کی آٹھ دروازے ہیں جن میں سے تین دروازے قم کی جانب کھلتے ہیں۔ میرے فرزندوں میں سے ایک خاتون – جن کا نام فاطمہ ہے – قم میں رحلت فرمائیں گی جن کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں وارد ہونگے”۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا علمی مقام
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا عالم تشیع کی نہایت گرانقدر اور والا مقام خاتون ہیں جن کا علمی مقام بہت اونچا ہے۔
روایت ہے کہ ایک روز شیعیان محمد و آل محمد صلی الله علیه و آله و سلم کا ایک گروہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی ملاقات کے لئے مدینہ منورہ مشرف ہؤا۔ چونکہ امام علیہ السلام سفر پر تشریف لے گئے تھے اور یہ لوگ آپ علیہ السلام سے سوالات پوچھنے آئے تھے لہذا انہوں نے اپنے سوالات حضرت فاطمہ معصومہ کے سپرد کئے – جو ابھی نوعمر بچی ہی تھیں – یہ لوگ دوسرے روز ایک بار پھرامام علیہ السلام کی در گاہ پر حاضر ہوئے مگر امام علیہ السلام ابھی نہیں لوتے تھے؛ چنانچہ انہوں نے اپنے سوالات واپس مانگے۔ مگر انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ سیدہ معصومہ نے ان کے جوابات بھی تحریر کر رکھے تھے۔ جب ان لوگوں نے اپنے سوالات کے جوابات کا مشاہدہ کیا، بہت خوش ہوئے اور نہایت تشکر اور امتنان کے ساتھ مدینہ چھوڑ کر چلے گئے۔ اتفاق سے راستے میں ہی ان کا سامنا امام موسی کاظم علیہ السلام سے ہؤا اور انہوں نے اپنا ماجرا امام علیہ السلام کو کہہ سنایا۔ امام علیہ السلام نے سوالات اور جوابات کا مطالعہ کیا اور فرمایا: باپ اس پر فدا ہو – باپ اس پر فدا ہو – باپ اس پر فدا ہو۔

قم کی تقدس کا راز
متعدد احادیث میں قم کے تقدس پر تأکید ہوئی ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے قم کو اپنا اور اپنے بعد آنے والے اماموں کا حرم قرار دیا ہے اور اس کی مٹّی کو پاک و پاکیزہ توصیف فرمایا ہے:۔امام علیہ السلام فرماتے ہیں : “الا انَّ حرمى و حرم ولدى بعدى قم”(6)
آگاہ رہو کہ میرا حرم اور میرے بعد آنے والے پیشواؤں کا حرم قم ہے۔
امام صادق علیہ السلام ہی اپنی مشہور حدیث میں اہل رے سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔۔۔ وان لاميرالمؤمنين عليه السلام حرماً و هو الكوفه الا و انَّ قم الكوفة الصغيرة ألا ان للجنة ثمانيه ابواب ثلاثه منها الى قم۔۔۔ = اور حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کے لئے بھی ایک حرم ہے اور وہ کوفہ ہے۔ جان لو کہ قم ہمارا چھوٹا کوفہ ہے، جان لو کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے تین دروازے قم کی جانب کھلتے ہیں۔
امام علیہ السلام قم کے تقدس کی سلسلے میں اپنی حدیث کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں: “۔۔۔ تقبض فيها امراة من ولدى اسمها فاطمہ بنت موسى عليهاالسلام و تدخل بشفاعتها شيعتى الجنة با جمعهم = میرے فرزندوں میں سے ایک خاتون – جن کا نام فاطمہ بنت موسی ہے – قم میں رحلت فرمائیں گی جن کی شفاعت سے ہماری تمام شیعہ بہشت میں وارد ہونگے”۔
راوی کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث امام موسی کاظم علیہ السلام کی ولادت سے بھی پہلے امام صادق علیہ السلام سے سنی تھی۔ یہ حدیث قم کے تقدس کا پتہ دیتی ہے اور قم کی شرافت و تقدس کے راز سے پردہ اٹھاتی ہیں؛ اور یہ کہ اس شہر کا اتنا تقدس اور شرف – جو روایات سے ثابت ہے – ریحانہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، کریمہ اہل بیت سلام اللہ علیہا کے وجود مبارک کی وجہ سے ہے جنہوں نے اس سرزمین میں شہادت پاکر اس کی خاک کو حور و ملائک کی آنکھوں کا سرمہ بنادیا ہے۔

سیده نے بهی قم کا انتخاب کیا
 امام رضا علیہ السلام کے مجبورا شہر مرو سفر کرنے کے ایک سال بعد ۲۰۱ھ قمری میں آپ اپنے بھائیوں کے ہمراہ بھائی کے دیدار اور اپنے امام زمانہ سے تجدید عہد کے قصد سے عازم سفر ہوئیں راستہ میں ساوہ پھنچیں لیکن چونکہ وہاں کے لوگ اس زمانے میں اہلبیت کے مخالف تھے لہٰذا انہوں نے حکومتی کارندوں کے ساتھ مل کر قافلے پر حملہ کردیا اور جنگ چھیڑدی جس کے نتیجے میں قافلے میں سے بہت سارے افراد شہید ہوگئے(7)
حضرت غم و الم کی شدت سے مریض ہوگئیں اور ایک روایت کی مطابق ساوه میں ایک عورت نے آپ کو مسموم کردیا (8) جس کی وجه سے آپ سلام اللہ علیہا بیمار پڑ گئیں اور محسوس کیا کہ اب خراسان نہ جاسکیں گی اور اب زیاده دیر تک زنده بهی نہیں رہیں گی چنانچہ فرمایا : مجھے شہر قم لے چلو کیونکہ میں نے اپنے بابا کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے۔ (9) اس طرح حضرت وہاں سے قم روانہ ہوگئیں۔
دشمنان اہل بیت کا اس قافلے سے نبرد آزما ہونا اور بعض حضرات کا جام شہادت نوش فرمانا اور وہ دیگر نامساعد حالات ایسے میں حضرت کا حالت مرض میں وہاں سے سفر کرنا، ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کو قبول کرنا بعید نہیں ہے کہ سیده معصومه سلام اللہ علیہا بهی عباسی جلادون کی حکم پر مسموم کی گئی تِہیں۔
بزرگان قم جب اس مسرت بخش خبر سے مطلع ہوئے تو حضرت کے استقبال کے لئے دوڑ پڑے، مویٰ بن خزرج اشعری نے اونٹ کی زمام ہاتھوں میں سنبھالی اور فاطمہ معصومہ صلی الله علیه و آله و سلم اہل قم کے عشق اہلبیت سے لبریز سمندر کے درمیان وارد ہوئیں۔ موسیٰ بن خزرج کے ذاتی مکان میں نزول اجلال فرمایا۔ (10)

غروب غمگین
 بی بی مکرمہ نے ۱۷ دن اس شہر امامت و ولایت میں گزارے، مسلسل مشغول عبادت رہیں اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرتی رہیں اس طرح اپنی زندگی کے آخری ایام بھی خضوع و خشوع الٰہی کے ساتھ بسر فرمائے۔ آخر کار وہ ذوق و شوق نیز وہ تمام خوشیاں جو کوکب ولایت کے آنے اور دختر فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی زیارت سے اہل قم کو میسر ہوئی تھیں یکایک نجمہ عصمت و طہارت کے غروب سے حزن و اندوہ کے سمندر میں ڈوب گئیں لقاء الله کے لئے بے قرار روح قفس خاکی سے بسوئے افلاک پرواز کرگئی۔ سیده نے دعوت حق کو لبیک کہی اور عاشقان امامت و ولایت عزادار ہوگئے۔
یہ سنہ 201 ہجری کا واقعہ ہے۔ سلام ہو اسلام کی اس عظیم المرتبت خاتون پر روز طلوع سے لے کر لمحہ غروب تک۔
سلام و درود معصومہ سلام اللہ علیہا کی روح تابناک پر جن کے حرم منور نے قم کی ریگستانی سرزمین کو نورانیت بخشی۔ سلام ہو دنیا کی خواتین کی سیدہ سلام اللہ علیہا، مہر محبت کے پیامبروں کی لاڈلی پر، دختر سرداران جوانان جنت پر۔
اے فاطمہ! روز قیامت ہماری شفاعت فرما، کہ آپ اللہ تعالی کی بارگاہ میں خاص مقام و منزلت کی مالک ہیں۔
ہاں بی بی معصومہ سلام اللہ علیہا نے حضرت زینب علیا مقام سلام اللہ علیہا کی طرح اپنے پر برکت سفر میں حقیقی پیشواؤں کی حقانیت کے سلسلے میں امامت کی سند پیش کردی اور مأمون کے چہرے سے مکر و فریب کی نقاب نوچ لی۔ قہرمان کربلا کی طرح اپنے بھائی کے قاتل کی حقیقت کو طشت از بام کردیا۔ فقط فرق یہ تھا کہ اس دور کے حسین علیہ السلام کو مکر و فریب کے ساتھ قتلگاہ بنی عباس میں لے جایا گیا تھا۔ اسی اثناء میں تقدیر الٰہی اس پر قائم ہوئی کہ اس حامی ولایت و امامت کی قبر مطہر ہمیشہ کے لئے تاریخ میں ظلم و ستم اور بے انصافی کے خلاف قیام کا بہترین نمونہ اور ہر زمانے میں پیروان علی علیہ السلام کے لئے ایک الہام الٰہی قرار پائے۔ آپ سلام اللہ علیہا جیسوں کی موت شہادت نہ ہو تو کیا ہو؟
آپ سلام اللہ علیہا نے خاندان پیغمبر صل اللہ علیہ و آلہ کے چند افراد اور محبان اہلبیت کے ہمراہ مدینے سے سفر کر کے ثابت کردیا کہ ہر زمانے میں حقیقی اور خالص محمدی اسلام کے تربیت یافتہ جیالوں نے مادی و طاغوتی طاقتوں کے سامنے حق کا اظہار کیا ہے۔ جیسا کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے یزید کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فرمایا ” انی استصغرک “ (11) میں تجھے حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہوں اور تجھے بہت ذلیل و رسوا سمجھتی ہوں۔

تدفین کی رسومات
شفیعہ روز جزا کی وفات حسرت آیات کے بعد ان کو غسل دیا گیا۔ تدفین پہنایا گیا پھر قبرستان بابلان کی طرف آپ کی تشییع کی گئی۔ لیکن دفن کے وقت مَحرم نہ ہونے کی وجہ سے آل سعد مشکل میں پھنس گئے۔ آخر کار ارادہ کیا کہ ایک ضعیف العمر بزرگ اس عظیم کام کو انجام دیں، لیکن وہ بزرگ اور دیگر بزرگان اور صلحائے شیعہ اس امر عظیم کی ذمہ داری اٹھانے کے لائق نہ تھے کیونکہ معصومہ اہل بیت سلام اللہ علیہا کے جنازے کو ہر کوئی سپرد خاک نہیں کرسکتا تھا۔ لوگ اسی مشکل میں اس ضعیف العمر بزرگ کی آمد کے منتظر تھے کہ ناگہاں لوگوں نے دو سواروں کو آتے ہوئے دیکھا وہ ریگزاروں کی طرف سے آرہے تھے۔ جب وہ لوگ جنازے کے نزدیک پھنچے تو نیچے اترے اور کچھ کہے سنے بغیر نماز جنازہ پڑہی اور اس ریحانہ رسول خدا صلی الله علیه و آله و سلم کے جسد اطہر کو داخل سرداب دفن کردیا۔ اور کسی سے گفتگو کئے بغیر سوار ہوئے اور واپس چلے گئے اور کسی نے بھی ان لوگوں کو نہ پہچانا۔ (12)
حضرت آیة اللہ العظمیٰ شیخ محمد فاضل لنکرانی (رہ) فرماتے ہیں کہ بہ امر بعید نہیں ہے کہ یہ دو بزرگوار دو امام معصوم رہے ہوں کہ جو اس امر عظیم کی انجام دہی کے لئے قم تشریف لائے اور چلے گئے۔
سیدہ معصومہ سلام اللہ علیہا کو دفن کرنے کے بعد موسیٰ بن الخزرج نے حصیر و بوریا کا ایک سائبان قبر مطہر پر ڈال دیا وہ ایک مدت تک باقی رہا۔ مگر حضرت زینب بنت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام قم تشریف لائیں تو انہوں نے مقبرے پر اینٹوں کا قبہ تعمیر کرایا۔ (13)

زیارت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا
 روایات کی منظر سے دعا اور زیارت گوشہ تنہائی سے پر کھول کر لقاء اللہ تک عروج کرنے کا نام ہے۔ خالص معنویت کے شفاف چشمے کے آب گوارا سے بھرا ہؤا شفاف جام ہے؛ اور حضرت معصومہ کے حرم کی زیارت زمانے کی غبار آلود فضا میں امید کی کرن ہے، غفلت اور بے خبری کے بھنور میں غوطہ کھانے والی روح کی فریاد ہے اور بہشت کی بوستانوں سے اٹھی ہوئی فرح بخش نسیم ہے۔
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے مرقد منور کی زیارت انسان کو خوداعتمادی کا درس دیتی ہے، اس ناامیدی کی گرداب میں ڈوبنے سے بچا دیتی ہے اور اس کو مزید ہمت و محنت کی دعوت دیتی ہے۔ کریمہ اہل بیت سلام اللہ علیہا کے مزار کی زیارت اس امر کا باعث ہوتی ہے کہ زائر اپنے آپ کا خداوند صمد کے سامنے نیازمنداور محتاج پائے، خدا کے سامنے خضوع و خشوع اختیار کرے، غرور و تکبر کی سواری – جو تمام بدبختیوں اور شقاوتوں کا موجب ہے – سے نیچے اتر آئے اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو اپنے اور خدا کے درمیان واسطہ قرار دے۔ اسی وجہ سے آپ سلام اللہ علیہا کی زیارت کے لئے عظیم انعامات کا وعدہ دیا گیا ہے۔
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کے سلسلے میں ائمہ معصومین سے متعدد احادیث و روایت نقل ہوئی ہیں۔

1- قم کے نامور محدث “سعد ابن سعد” کہتے ہیں کہ: “میں امام رضا علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہؤا تو امام ہشتم علیہ السلام نے مجھ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: “ای سعد! ہماری ایک قبر تمہارے ہاں ہے”۔ میں نے عرض کیا:”میری جان آپ پر فدا ہو؛ کیا آپ فاطمہ بنت موسی بن جعفر کے مزار کی بات کررہے ہیں؟ فرمایا: ” من زارها فله الجنّة؛ جو شخص ان کے حق کی معرفت رکھتے ہوئے ان کی زیارت کرے، اس کے لئے بہشت ہے”۔(14)

2- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:” من زارها عارفاً بحقّها فله الجنة = جو کوئی ان کی زیارت کرے جنت اس پر واجب اور ان کے حق کی معرفت رکهتا ہو اس پر جنت واجب ہے”(15)۔ اور ایک اور حدیث میں ہے کہ: ” ان کی زیارت بہشت کے ہم پلہ ہے”۔

3 – نیز فرمایا:”انّ زيارتها تعدل الجنّة؛ جو شخص ان کی زيارت کرے اس کی جزا بهشت ہے۔”

4 – امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: “من زار المعصومة عارفاً بحقّها فله الجنّة؛جو شخص از روئے معرفت آپ کی زیارت کرے اس کا انعام جنت ہے۔”(16)

5 – نیز فرمایا “من زار المعصومة بقم کمن زارنی؛ جو شخص قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کرے، گویا اس نے میری زیارت کی ہے۔”

6- عن عليهماالسلام قال:اس سلسلے میں روایت ہے کہ ابن الرضا امام محمد تقی الجوادعلیہ السلام نے فرمایا:”من زارقبرعمّتى بقم فله الجنة (17)
جو شخص قم میں میری پھوپھی کی زیارت کرے بہشت اس پر واجب ہے”۔

7– ایک مؤمن امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے مشہد گیا اور وہاں سے کربلا روانہ ہؤا اور ہمدان کے راستے کربلا چلا گیا۔ سفر کے دوران اس نے خواب میں امام رضا علیہ السلام کی زیارت کی اور امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: کیا ہوتا اگر تم سفر کے دوران قم سے عبور کرتے اور میری همشیره کی زیارت کرتے؟”

8 – مولی حیدر خوانساری لکهتے ہیں: روایت ہے کہ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص میری زیارت کے لئے نہ آسکے رے میں میرے بهائی (حمزه ) کی زیارت کرے یا قم میں میری ہمشیره معصومہ کی زیارت کرے اس کو میری زیارت کا ثواب ملے گا۔(18)

احادیث کی مختصر شرح
گو کہ یہ ساری احادیث حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی عظمت کی دلیل ہیں مگر این روایات میں بعض نکات قابل تشریح ہیں:
جیسے: جنت کا واجب ہونا، جنت کے برابر ہونا، بہشت کا مالک ہوجانا، جو لفظ “له” سے سمجها جاتا ہے اور ان کی زیارت کا حضرت رضا علیہ السلام کی زیارت کے برابر ہونا اور حضرت رضا علیہ السلام کا اس شیعہ بهائی سے بازخواست کرنا جس نے حضرت معصومہ سلام الله علیہا کی زیارت نہیں کی تهی۔
حضرت معصومہ علیہا السلام کی زیارت کی سفارش صرف ایک امام نے نہیں فرمائی ہے بلکہ تین اماموں (علیہم السلام) نے ان کی زیارت کی سفارش فرمائی ہے: امام صادق، امام رضا و امام جواد علیہم السلام۔ اور دلچسپ امر یہ کہ امام صارف علیہ السلام نے حضرت معصومه کی ولادت با سعادت سے بہت پہلے بلکہ آپ سلام اللہ علیہا کے والد امام کاظم علیہ السلام کی ولادت سے بهی پہلے ان کی زیارت کی سفارش فرمائی ہے۔
دوسرا دلچسپ نکتہ پانچویں روایت ہے جس میں حضرت معصومہ کی زیارت امام رضا علیہ السلام کے ہم پلہ قرار دیا گیا ہے۔ زید شحّام نے امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ :”یا بن رسول الله جس شخص نے آپ میں سے کسی ایک کی زیارت کی اس کی جزا کیا ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: “جس نے ہم میں سے کسی ایک کی زیارت کی “کمن زار رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم؛ اس شخص کی طرح ہے جس نے رسول خدا صلی الله و علیہ و آلہ و سلم کی زیارت کی ہو” چنانچہ جس نے سیده معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کی در حقیقت اس نے رسول خدا کی زیارت کی ہے۔ اور پهر حضرت رضا علیہ السلام – جو سیدہ معصومہ کی زیارت کو اپنی زیارت کے برابر قراردیتے ہیں – فرماتے ہیں کہ :”الا فمن زارنی و هو علی غسل، خرج من ذنوبه کیوم ولدته امّه؛ آگاه رہو کہ جس نے غسل زیارت کرکے میری زیارت کی وه گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جس طرح کہ وه ماں سے متولد ہوتے وقت گناہوں سے پاک تها”۔ ان احادیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سیده معصومه سلام الله کی زیارت گناہوں کا کفاره بهی ہے اور جنت کی ضمانت بهی ہے بشرطیکہ انسان زیارت کے بعد گناہوں سے پرہیز کرے۔
دو حدیثوں میں امام صادق اور امام رضا علیہما السلام نے زیارت کی قبولیت اور وجوب جنت کے لئے آپ سلام اللہ علیہا کے حق کی معرفت کو شرط قرار دیا ہے۔ اور ہم آپ سلام اللہ علیہا کی زیارت میں پڑهتے ہیں کہ “يا فاطِمَة ا ِشْفَعی لی فِی الْجَنَّة ِ، فَا ِنَّ لَكَ عِنْدَاللّه ِشَأْناً مِنَ الشَّأْن = اے فاطمہ جنت میں میری شفاعت فرما کیونکہ آپ کے لئے خدا کے نزدیک ایک خاص شأن و منزلت ہے” امام صادق علیہ السلام کے ارشاد گرامی کے مطابق تمام شیعیان اہل بیت علیہ السلام حضرت سیده معصومہ سلام الله کی شفاعت سے جنت میں داخل ہونگے اور زیارتنامے میں ہے کہ آپ ہماری شفاعت فرمائیں کیوں کہ آپ کے لئے ایک خاص شأن و منزلت ہے۔ علماء کہتے ہیں کہ یہ شأن، شأنِ ولایت ہے جو سیده سلام اللہ علیہا کو حاصل ہے اور اسی منزلت کی بنا پر وه مؤمنین کی شفاعت فرمائیں گی اور اگر کوئی اس شأن کی معرفت رکهتا ہو اور آپ کی زیارت کرے تو اس پر جنت واجب ہے۔

زیارت اور اس کا فلسفه:
قاموس شیعہ میں ایک مقدس و معروف کلمہ،کلمہٴ زیارت ہے اسلام میں جن آداب کی بہت زیادہ تأکید ہوئی ہے ان میں سے ایک اہل بیت علیہم السلام اور ان کی اولاد امجاد کی قبور مبارک کی زیارت کے لئے سفر کرنا ہے۔حدیثوں میں رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی جانب سے اس امر کی بڑی تأکید ہے۔
مثلا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:من زارنی او زار احدا من ذريتی زرته يوم القيامة فانقذته من اھوائها۔ (19)
جو میری یا میری اولاد میں سے کسی کی زیارت کرے گا مین قیامت کے دن اس کے دیدار کو پہنچوں گا اور اسے اس دن کے خوف سے نجات دلاؤں گا۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ من اتی قبر الحسین عارفا بحقہ کان کمن حج مأة حجة مع رسول اللہ(20)
جو معرفت حقہ کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے گا تو گویا اس نے ۱۰۰ سو حج رسول اللہ کے ساتھ انجام دیئے۔
ایک دوسری روایت مین امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:امام حسین علیہ السلام آپ کی زیارت ہزار حج و عمرہ کے برابر ہے۔(21)
امام رضا علیہ السلام نے اپنی زیارت کے لئے فرمایا : جو شخص معرفت کے ساتھ میری زیارت کرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا۔(22)
امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا : جس نے عبد العظیم علیہ السلام کی قبر کی زیارت کی گویا اس نے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی ہے۔(23)
امام جواد علیہ السلام نے بھی امام رضا علیہ السلام کے لئے فرمایا:
اس شخص پر جنت واجب ہے جو معرفت کے ساتھ (طوس میں) ہمارے باباکی زیارت کرے۔
حضرت معصومہ سلام الله علیہا کی زیارت کف بارف میں وارد ہونے والی روایات بهی مندرجہ بالا سطور میں بیان ہوئیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ان فضائل و جزا کا فلسفہ کیا ہے؟ کیا یہ تمام اجر و ثواب بغیر کسی ہدف کے فقط ایک بار ظاہری طور پر زیارت کرنے والے کو میسر ہوجائے گا؟
در حقیقت زیارت کا فلسفہ یہ ہے کہ ہم ان کی تعلیمات سے آخرت کے لئے زاد راہ فراہم کریں اور خدا کی راہ میں اسی طرح قدم اٹھائیں جس طرح کہ ان بزرگوں نے اٹھائے۔ زیارت معصومین علیہ السلام کے سلسلے میں وارد ہونے والی اکثر احادیث میں شرط یہ ہے کہ ان کے حق کی معرفت کے ساتھ ہو تو تب ہی اس کا اخروی ثمرہ ملنے کی توقع کی جاسکے گی۔
یہ بزرگ ہستیاں، عالم بشریت کے لئے نمونہ اور مثال ہیں، ہمیں ان کا حق پہچان کر ان کی زیارت کے لئے سفر کی سختیان برداشت کرنی ہیں اور ساتھ ہی خدا کی راہ میں ان کی قربانیوں اور قرآن و اسلام کی حفاظت کی غرض سے ان کی محنت و مشقت سے سبق حاصل کرنا ہے اور اپنی دینی اور دنیاوی حاجات کے لئے ان سے التجا کرنی ہے کہ ہماری شفاعت فرمائیں اور اس کے لئے ان کے حق کی معرفت کی ضرورت ہے۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا مأثور زیارتنامہ
 ہر بارگاہ میں ملاقات (زیارت) کا ایک خاص دستور ہوتاہے۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہاکی بارگاہ میں بھی مشرف ہونے کے خاص آداب ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ کی زیارت کے لئے معتبر روایتوں سے زیارت نامہ منقول ہے تا کہ مشتاقان زیارت ان نورانی جملوں کی تلاوت فرماکر رشدو کمال کی راہ میں حضرت سے الہام حاصل کرسکیں اور رحمت حق کی بی ساحل سمندر سی اپنی توانائی اور اپنے ظرف کے مطابق کچھ قطرے ہی اٹها سکیں۔
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ کے لئے ائمہ معصومین سے مأثور زیارت نامہ وارد ہؤا ہے۔ سیدة العالمین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی بعد آپ سلام اللہ علیہا پہلی بی بی ہیں جن کے لئے ائمہ اطہار علیہم السلام کی طرف سے زیارت نامہ وارد ہؤا ہے۔ تاریخ اسلام میں رسول اللہ صلی الله علیه و آله و سلم کی والدہ حضرت آمنہ بنت وہب، حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد، حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ بنت خویلد، حضرت ابوالفضل علیہ السلام کی والدہ فاطمہ بنت ام البنین، شریکة الحسین ثانی زہراء حضرت زینب، حضرت امام علی النقی علیہ السلام کی ہمشیرہ حضرت حکیمہ خاتون اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کی والدہ ماجدہ حضرت نرجس خاتون (سلام اللہ علیہن اجمعین) جیسی عظیم عالی مرتبت خواتین ہو گذری ہیں جن کی مقام و منزلت میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، مگر ان کے بارے میں معصومین سے کوئی مستند زیارتنامہ وارد نہیں ہؤا ہے۔ مگر حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے لئے زیارتنامہ وارد ہؤا ہے اور یہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی عظمت کی نشانی ہے؛ تا کہ شیعیان و پیروکاران اہل بیت عصمت و طہارت بالخصوص خواتین اس عظمت کا پاس رکھیں اور روئے زمین پر عفت و حیاء اور تقوی و پارسائی کے عملی نمونے پیش کرتی رہیں، کہ صرف اسی صورت میں ہے آپ سلام اللہ علیہا کی روح مطہر ہم سے خوشنود ہوگی اور ہماری شفاعت فرمائیں گی۔

حضرت کا معتبر زیارت نامہ
سند زیارت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہاکی ایک معتبر زیارت ہے جسے علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں نقل فرمایا ہے۔ ہم پہلے اس کی سند پیش کرتے ہیں:
علی ابن ابراہیم اپنے پدر سے وہ سعد سے وہ امام علی بن موسی الرضا علیہما السلام سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اے سعد تمھارے نزدیک ہماری ایک قبر ہے !میں نے عرض کیا : میں آپ پر قربان ہوجاؤں کیا آپ فاطمہ بنت موسی بن جعفر علیہم السلام کی قبر کو بیان فرمارہے ہیں؟ فرمایا :”ہاں“ جو بھی معرفت کے ساتھ ان کی زیارت کرے گا وہ مستحق بہشت ہے۔ جب بھی (تم حرم مشرف ہوتے ہو قبر کو دیکھ کر قبر شریف کے سرہانے) یعنی ضریح کے شمال میں (رو بقبلہ کهڑے ہوجاوٴ اور ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر،۳۳ مرتبہ سبحان اللہ،۳۳ مرتبہ الحمد للہ پڑھو) بالکل تسبیحات حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی مانند اور پھر کہو۔

متن زیارت
 اَلـسَّلامُ عَـلی آدَمَ صَـفْوَة اللّهِ، اَلسَّلامُ عَلی نوُح نَبِی اللّهِ، اَلسَّلامُ عَلی اِبْرهيمَ خَليلِ اللّهِ، اَلسَّلامُ عَلی موُسی كَليمِ اللّهِِ، اَلسَّلامُ عَلی عيسی روُح ِاللّهِِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا خَيْرَ خَلْقَ اللّهِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا صَفِی اللّهِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مُحَمّدَ بْنَ عَبْد ِاللّهِ، خاتَمَ النَّبِيّينَ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا اَميرَالْمُؤْمِنينَ عَلی بْنَ اَبی طالِب، وَصِی رَسوُلِ اللّهِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكِ يا فاطِمَة سَيِّدَة نِساءِ الْعالَمينَ، اَلسَّلامُ عَلَيْكُما يا سِبْطَی نَبِی الرَّحْمَةِ، وَ سَيِّدَی شَباب اھل ِالْجَنَّةِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا عَلِی بْنَ الْحُسَيْنِ، سَيِّدَ الْعابِدينَ وَ قُرَّة عَيْنِ النّاظِرينَ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مُحَمَّدَ بْنَ عَلِی، باقِرَ الْعِلْم ِبَعْدَ النَّبِی،اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّد الصّاد ِقَ الْبارَّ الْامينَ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا موُسَی بْنَ جَعْفَر الطّهرَ الطُّهرَ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا عَلِی بْنَ موُ سَی الرِّضَا الْمُرْتَضی، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مُحَمَّدَ بْنَ عَلِی التَّقِی، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا عَلِی بْنَ مُحَمَّد النَّقِی النّاصِحَ الْأَمينَ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا حَسَنَ بْنَ عَلِی، اَلسَّلامُ عَلَی الْوَصِی مِنْ بَعْدِهِ۔ اَللّهمَّ صَلِّ عَلی نُورِكَ وَ سِراجِكَ، وَ وَلِی وَلِيِّكَ، وَ وَصِيِّ وَصِيِّكَ، وَ حُجَّتِكَ عَلی خَلْقِكَ۔ اَلسَّلامُ عَلَيْك ِيابِنْتَ رَسوُل ِاللّهِ، اَلسَّلامُ عَلَيْك ِيابِنْتَ فاطِمَة وَ خَديجَة، اَلسَّلامُ عَلَيْك ِيابِنْتَ اَميرِالْمُؤْمِنينَ، اَلسَّلامُ عَلَيْك ِيابِنْتَ الْحَسَن ِوَ الْحُسَيْن ِاَلسَّلامُ عَلَيْك ِيابِنْتَ وَلِی اللّهِ، اَلسَّلامُ عَلَيْك ِيا اُخْتَ وَلِی اللّهِ، اَلسَّلامُ عَلَيْك ِيا عَمَّة وَلِی اللّهِ، اَلسَّلامُ عَلَيْك ِيابِنْتَ موُسَی بْن ِجَعْفَر، وَ رَحْمَة اللّهِ وَ بَرَكاتُه۔ اَلسَّلامُ عَلَيْكِ، عَرَّفَ اللّه بَيْنَنا وَ بَيْنَكُمْ فِی الْجَنَّةِ، وَ حَشَرَنا فی زُمْرَتِكُمْ، وَ أَوَرَدْنا حَوْضَ نَبِيِّكُمْ، وَ سَقانا بِكَأْس ِجَدِّ كُمْ مِنْ يَد ِعَلِی ِّبْن ِاَبی طالِب، صَلَواتُ اللّه عَلَيْكُمْ، أَسْئَلُ اللّه أَنْ يُر ِيَنا فيكُمُ السُّروُرَ وَ الْفَرَجَ، وَ أَنْ يَجْمَعَنا وَ إِيّاكُمْ فی زُمْرَة ِجَدِّكُمْ مُحَمَّد، صَلَّی اللّه عَلَيْهِ وَ آلِهِ، وَ أَنْ لا يَسْلُبَنا مَعْر ِفَتَكُمْ، إِنَّه وَلِی قَديرٌ۔ أَتَقَرَّبُ إِلَی اللّهِ بِحُبِّكُمْ وَ الْبَرائة ِمِنْ أَعْدائِكُمْ، وَ التَّسْليم ِإِلَی اللّهِ، راضِياً بِهِ غَيْرَ مُنْكِر وَ لا مُسْتَكْبِر وَ عَلی يَقين ِما أَتی بِهِ مَحَمَّدٌ – صلی اللہ علیه و آله – وَ بِه راض، نَطْلُبُ بِذلِكَ وَجْهكَ يا سَيِّدی، اَللّهمَّ وَ رِضاكَ وَ الدّارَ الْآخِرَة۔ يا فاطِمَةُ اِشْفَعی لی فِی الْجَنَّة ِ، فَا ِنَّ لَكَ عِنْدَاللّْهِ شَأْناً مِنَ الشَّأْن ِ۔ اَللّْهمّ ا ِنی اَسْئَلُكَ أَنْ تَخْتِمَ لی بِالسَّعادَة ِ، فَلاتَسْلُبْ مِنّی ِما أَنَا فيهِ،وَ لاحُولَ وَ لا قُوَة إِلا بالّله الْعَلِی الْعَظيم ِ۔ اَللّهمَ اسْتَجِبْ لَنا، وَ تَقَبَّلْه بِكَرَمِكَ وَ عِزَّتِكَ، وَ بِرَحْمَتِكَ وَ عافِيَتَكَ، وَ صَلَّی الّله عَلی مُحَمَّد وَ آلِهِ أَجْمَعينَ، وَ سَلَّمَ تَسْليما يا أَرْحَمَ الرّاحِمينَ۔ (24)

ترجمہ :
سلام ہو آدم پر جو برگزیده هی خدا کا۔ سلام ہو نوح پر جو نبی الله ِہیں۔ سلام ہو ابراہیم جو خدا کی خلیل ہیں۔ سلام ہو موسیٰ پر جو کلیم الله ِہیں۔ سلام ہو عیسیٰ پر جو روح الله ِہیں۔
اے رسول خدا آپ پر سلام ہو، اے بہترین مخلوق خدا آپ پر سلام ہو۔ اے صفی خدا آپ پرسلام ہو۔اے خاتم انبیاء محمد بن عبداللہ آپ پر سلام ہو۔
جاری ہے:
________________________________________
1۔ دلائل الامامہ ص/ ۳۰۹۔
3۔ وسیلہ المعصومہ بنقل نزھة الابرار۔
4۔ مستدرک سفینة البحار ج/ ۸ ص/ ۲۵۷۔
5۔ سفينه البحار 2/376؛ تاريخ قم /7۔
6۔ بحارالانوار ج ٦٠ صفحه ٢١٦
7۔ زندگانی حضرت معصومہ / آقائے منصوری : ص/ ۱۴، بنقل از ریاض الانساب تالیف ملک الکتاب شیرازی۔
8۔ وسیلة المعصومیہ : میرزا ابو طالب بیوک ص/ ۶۸، الحیا ة السیاسبة للامام الرضا علیہ السلام: جعفر مرتضیٰ عاملی ص/ ۴۲۸، قیام سادات علوی : علی اکبر تشید ص / ۱۶۸۔
9۔ دریائے سخن تاٴلیف سقازادہ تبریزی : ص/۱۲، بنقل از ودیعہ آل محمد صل اللہ علیہ و آلہ/ آقائے انصاری۔
10۔ تاریخ قدیم قم ص/ ۲۱۳۔
11۔ خطبہ حضرت در شام
12۔ تاریخ قدیم قم ص / ۲۱۴۔
13۔ سفینة البحار ج/ ۲، ص / ۳۷۶۔
14۔ ثواب الأعمال و عيون اخبار الرضاعلیہ السلام۔ عوالم العلوم، ج ٢١، ص ٣٥٣ بحوالۂ اسنى المطالب ص ٤٩ تا ص ٥١۔
15۔ بحار ج ٤٨ صفحه ٣٠٧۔
16۔ عیون اخبارالرضا علیہ السلام۔
17۔ كامل الزيارة
18۔ زبدة التصانيف، ج ٦، ص ١٥٩، بحوالۂ كريمۂ اہل بيت، ص ٣۔
19۔ کامل الزیارات ص۱۱۔
20۔ بحار الانوار ج ۱۰۱، ص ۴۲۔
21۔ بحار الانوار ج ۱۰۱، ص ۴۳۔
22۔ بحار الانوار ج ۱۰۲، ص۳۳۔
23۔ بحار الانوار ج ۱۰۲، ص۲۶۵۔
24۔ بحار الانوار ج /۱۰۲، ص ۲۶۶۔

تبصرے
Loading...