حضرت فاطمہ زہرا  ؑ کا جنم،مسلمان عورت کا جنم

*حضرت فاطمہ زہرا  ؑ کا جنم،مسلمان عورت کا جنم*

*از: آیت اللہ سید محمد حسین فضل اللہؒ*

*ترجمہ: نادم شگری*

20 جمادی الثانی کو ہم ایک ایسے پھول کی یاد مناتے ہیں جس نے اپنی خوشبو سے قلب پیغمبر اکرم ؐ کو نئی زندگی بخشی۔ وہ دختر رسول ؐ، دو عالم کی عورتوں کی سردار اور خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا ؑ کی ذات گرامی ہے۔ اگر لوگوں میں رائج طریقے کے مطابق انسانی زندگی کے تمام زندہ عناوین کے لئے ایک دن کا انتخاب کیا جائے تو مسلمان عورت کے لئے انتخاب کیا جانے والا سب سے بہتر دن ، روز ولادت فاطمہ زہرا ؑ ہے۔ اسی لئے حضرت امام خمینیؒ نے اس دن کو ’’ عالمی یوم خواتین ‘‘ کا نام دیا۔
لوگوں کی ایک خاص صنف کے حوالے سے ایک اہم دن کا انتخاب جیسے :یوم مادر یا یوم مزدور وغیرہ ، ہمیشہ اسی صنف کی نمایاں شخصیات سے مربوط رہنے کی ایک روش ہے۔ لہٰذا یہ سوال ہوتا ہے کہ یوم خواتین کو حضرت فاطمہ زہرا ؑ کی ولادت کے دن منانا کیوں ضروری ہے؟ جبکہ حضرت زہرا ؑ نے اپنی مختصر زندگی میں جوانی کے دن بھی پورے نہیں گزارے تھے۔
اس سوال کے جواب میں ہم کہیں گے:
۱۔ یوم خواتین کے موقع پر مناسب یہ ہے کہ پوری دنیا کی خواتین کے لئے ایک ایسا نمونہ پیش کیا جائے جس کی اپنی زندگی تمام کمالات کا مجموعہ ہو۔ ایک بیٹی ، بیوی یا ماں کے عنوان سے عورت کی خصوصی زندگی اور ایک مسلمان خاتون کے عنوان سے عورت کی عام زندگی کے تمام شعبوں میں فعال ہو۔ مسلمان عورتوں کے لئے وہی بے نظیر انسانی نمونہ اور اسوہ ، حضرت فاطمہ زہرا ؑ ہیں۔ اگرچہ ان کی زندگی بہت مختصر ہے؛ لیکن اس مختصر زندگی کے مراحل بہت ہی ثمر بخش ہیں۔ آپ ؑ کا بچپنا محنت و مشقت اور روحانیت و معنویت سے اس قدر سرشار ہے کہ بسا اوقات کسی بچے میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ آپ ؑ کی جوانی کوتاہ مگر اعلیٰ مفاہیم اور سبق آموز پیغامات سے مملو تھی۔ لہٰذا آپ ؑ کی زندگی طویل نہیں تھی ؛لیکن اس کا دائرہ بہت وسیع و عریض تھا ۔ یاد رہے کہ انسانی زندگی کے قیمتی ہونے کا معیار اس کا طولانی ہونانہیں ہے ؛ بلکہ اس کی گہرائی ہے جو زمانے کو اہمیت ، حرکت، فکر اور وسعت بخشتی ہے یہاں تک کہ ایسی زندگی کا ایک لحظہ ،دوسروں کی طویل زندگی کا ہم پلہ قرار پاتا ہے۔ بعض اوقات سست اور کاہل افراد کی زندگی کے ہزار برسوں کے مقابلے میں ، عظیم شخصیات کی زندگی کا ایک لحظہ ، کائنات پر مؤثر ہوتا اور دنیا کو نئی زندگی عطا کرتا ہے۔ پس دراصل زندگی میں جس چیز کو انتہائی اہمیت حاصل ہے وہ حیات کی گہرائی ہے نہ کہ اس کا طولانی ہونا۔
جی ہاں ! ہم فاطمہ ؑکو اس لئے بڑے افتخار کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ وہ  کائنات کی خواتین کے لئے بہترین نمونہ ہیں۔ ان کی فکر ، پیغمبر اکرم ؐ کے افکار کا حصہ تھی اور ان کی روح ، قلب پیغمبر اکرم ؐ کی دھڑکن تھی۔ وہ ثقافتی تحریک و فعالیت کے حوالے سے یا ماں اور بیوی کے روپ میں زندگی بسر کرنے کے لحاظ سے عورتوں کے لئے نمونہ اور انسانی کردار کے حوالے سے پوری انسانیت کے لئے ایک مثال ہیں۔ وہ بیٹی ہونے کے لحاظ سے سب سے اچھی بیٹی ، بیوی ہونے کے لحاظ سے سب سے بہتر بیوی، ماں ہونے کے لحاظ سے سب سے عظیم ماں اور ایک مسلمان خاتون ہونے کے لحاظ سے سب سے متعہد،ذمہ دار اور اپنی ثقافت و حکمت عملی کے ذریعے قدم بڑھانے والی خاتون تھیں جنہوں نے  اپنی لاثانی شخصیت کو اعلیٰ انسانی علامتوں کا مجموعہ بنایا۔
۲۔ ہم فاطمہ ؑ کو اس لئے پیش کرتے ہیں کہ وہ دوعالم کی عورتوں کی سردار ہیں۔ ان کی سرداری پیغمبر اکرم ؐ کے ساتھ قرابت کی وجہ سے نہیں ؛ بلکہ اپنے فضائل و کمالات اوراعلیٰ انسانی خصائل کی وجہ سے ہے۔ اسی لئے اگر ہم ان کی سمت بڑھیں تو وہ ہمیں تعلیم دیتی ہیں کہ تمام انسانوں سے پیار کرنا کیا ہوتاہے ؟ تمام انسانوں پر عنایت کیسی ہوتی ہے؟ سب لوگوں کی نسبت ، مسئول اور ذمہ دار ہونے کے کیا معنی ہیں؟ انسانیت کے سارے دشمنوں کے مقابلے میں ثابت قدمی کس طرح ہوتی ہے؟
فاطمہ ؑ کیوں؟ اس لئے کہ وہ خواتین سے فرماتی ہیں: تم فقط ایک عورت نہیں ہو؛ بلکہ انسان بھی ہو؛ لہٰذا نسوانیت کے ذریعے انسانیت کو گرانے کی بجائے اپنی انسانیت کے بل بوتے پر کھڑی ہو جاؤ اور نسوانیت کو اسی راہ پر لگا دو! صرف انسانی پیکر میں ڈھل جانے پر اکتفا نہ کرو؛ بلکہ اپنے قلب و روح اور افکار و کردار کی گہرائیوں سے بھی انسان بنو! ایسی انسان بنو جو ہمیشہ خدا اور بندگان خدا کے ساتھ رہنے والی ہو۔
۳۔ ہم عالمی یوم خواتین کے موقع پر فاطمہ زہرا ؑ کا انتخاب اس لئے کرتے ہیں تاکہ دنیا کو یہ بتلائیں کہ اسلام ،عورتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا ہمیشہ مخالف تھا اور آج بھی مخالف ہے۔ تاریخ ہمیشہ مردوں کی تاریخ بن کر رہی ہے اورانہوں نے عورتوں کی زندگی کو ایک تنگ دائرے میں محدود کرکے سعی و کوشش کے تمام دروازے ان پر بند کر دئیے ہیں۔ مردوں نے مختلف شعبوں اور میدانوں میں نظریہ پردازی کی ہے ؛ لیکن عورتوں کی ذہنی استعداد کو بالیدگی سے محروم رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی معاشرہ ، عورتوں کے احساس و جذبات کی لطافت سے بیگانہ رہ گیا اور اس میں عشق و محبت کا گراف بہت نیچے رہا ہے۔ صرف نوزائیدہ بچے ہی مامتا کی محبت بھری آغوش کی صورت میں اس پیار ومحبت کے سمندر سے بہرہ مند ہوتے ہیں؛ جبکہ یہ تمام زندگی اور پوری انسانیت کو سیراب کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایسی صورتحال میں زندگی کو وجود بخشنے اور اپنی پائمال شدہ توانائیوں کو ثمر بخش کرنے کی راہ میں فعالیت اور بالیدگی کے لئے عورتوں کو مناسب ماحول میسر نہیں ہے ۔ اسی لئے وہ زندگی میں حاشیہ نشین اور مردوں کی زندگی کے میدانوں سے ہٹ کر ایک محدود دائرے میں محصور ہوکر رہ گئی ہیں یہاں تک کہ ان کی انسانیت کو بھی طاق نسیاں کی زینت بنا دیا گیاہے۔ ایسے میں دنیائے بشریت کے لئے اسلام ایک تحفے کی شکل میں آیا تاکہ مرد اور عورت کو اپنے تمام فرائض اور ذمہ داریوں سے آگاہ کرے،دونوں کے وجود میں پائے جانے والے تفاوت کی بنیاد پر زندگی میں ہر ایک کا مقام و مرتبہ سمجھائے اور یوں دائرہ ہستی کو ان متنوع عناصر سے پایہ تکمیل کو پہنچائے۔ یہ تفاوت اور تنوع ،فضائل انسانی جیسے فکر ، روح اور عمل کے لحاظ سے نہیں ؛ بلکہ دونوں کی انسانی خصوصیات کی بنیاد پر ہے جس نے دو قسم کے انسان کو وجود بخشا ہے۔

*(نقل از : فاطمہ زہراؑ بہترین اسوہ، زیبا ترین نمونہ، ص 47۔ 49)*

تبصرے
Loading...