حضرت فاطمہ الزہراء بارہویں قسط

 ہم گزشتہ مضمون میں یہاں تک پہونچے تھے کہ دوسرے حاحبزادے حضرت امام حسین (ع) پیدا ہوئے ان کا بھی اسی طرح استقبال کیا گیا، عقیقہ وغیرہ تمام رسوم اسلامی طریقہ سے ادا کی گئیں۔ اب ہم آگے بڑھتے ہیں ۔
حضرت زینب الکبریٰ سلام اللہ علیہاکی پیدا ئش ۔ان کے سن ِ پیدا ئش میں بھی اختلاف ہے کہ وہ پانچ ہجری میں یا چھ ہجری میں پیدا ہو ئیں ۔ ان کی پیدائش کے موقعہ پر حضور(ص) کسی غزوے کے سلسلہ میں باہر گئے ہو ئے تھے ۔ جب آپ (ص)واپس تشریف لائے تو حسب معمول وہ حضرت سیدہ (ع) کے گھر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ حضرت زینب (ع) ان کی گود میں رونق افروز ہیں۔ حضور(ص) دیکھ کر بہت خوش ہو ئے اس لیئے کہ یہ اہل ِ بیت کی اس نسل میں پہلی بیٹی کا اضافہ تھا اور اس حدیث کے مطابق یہ ایک بڑا اعزاز بھی کہ حضور (ص) نے فر مایا کہ ً جو کوئی ایک بیٹی کی اچھی طرح پرورش کریگا وہ قیامت کے دن اس طرح میرے ساتھ کھڑا ہوگا جیسے کہ یہ میری دو انگلیاں ً اس کے بعد حضور (ص) نے اپنی دو متصل انگلیاں دکھا ئیں۔یہاں ان امتیوں کے لیئے سوچنے کا مقام ہے جن کے منہ بیٹی کی پیدا ئش پر قر آن کے مطابق “ سیا ہ پڑ جاتے ہیں ً کیا یہ ہم میں جہا لت دوبارہ نہیں لوٹ آئی “ بہر حال حضور (ص) نے ان کا نام زینب (ع)رکھا جو دو لفظوں سے مرکب ہے یعنی “زین “تزین کا مخفف ہے تو عر بی میں “ اب “باپ کا ،اس طرح اس کے معنی لیئے جا ئیں تو یہ ہو نگے کہ باپ کا نام روشن کر نے والی۔ یا باپ کے نام کو زینت بخشنے والی۔ جو کہ انہوں (ع) آگے چل کر ثابت کر دیا ۔ (تارخ گواہ ہے کہ وہ اسم با مسمہ ثابت ہو ئیں اور اپنے نام پر پوری اتریں ) پھر حضو(ص) نے ایک کھجور چبائی اور اس کو جناب ِ زینب (ع) کے دہن مبارک میں ڈالدیا۔ ہم نے ان کے ساتھ کبریٰ کا لفظ اس لیئے استعمال کیا ہے کہ ایک مزار شریف حضرت زینب کے نام سے مصر میں بھی موجود ہے ۔ ہم وہاں گئے اور ہم نے وہاں مقامات مقدسہ دیکھنے کے لیئے ایک وین لی تو جو اس کے ساتھ گائیڈ تھا اس نے ہمیں بتایا کہ یہاں حضرت زینب کا مزار بھی ہے ۔ ہم نے حاضری دی، مگر ہمیں بڑی حیرت ہو ئی کہ ان کا مزار تو شام میں ہے۔ لیکن جب تحقیق کی تو اس کا سرا ابن ِ کثیر (رح) کے ہاں ملا کہ انہوں نے جو حضرت علی کرم اللہ وجہ کی بیویوں کی فہرست دی ہے اس میں سے ایک کا نام زینب الصغریٰ بھی ہے ۔ ممکن ہے کہ یہ ان کا مزار ہو؟ واللہ عالم
حضرت زینب (ع) حضور (ص) کے ارشاد کے مطابق اپنی نانی صاحبہ یعنی حضرت خدیجہ الکبریٰ (رض) کی ہم شکل تھیں جبکہ عادات اور اطوار میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا پرتو تھیں ۔ان کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ وہ شہید کی بیٹی ، شہدا کی ہمشیرہ ، شہیدوں کی ماں اور شہید کی بہو ہیں ۔اور جو خوبیاں حضرت فاطمہ (ع)کے کردار میں تھیں وہ ان میں بھی بدرجہ اتم موجود تھیں ۔ وہ بہترین خطیبہ تھیں اور بہت ہی جری اور بہادر خاتوں تھیں ان کے جوہر واقعہ کر بلا میں ظاہر ہو ئے جب انہوں (ع)نے یزید کے لشکر اور بعد ازاں اس کے بھرے در بار کو للکارا۔ ہم ان کے اس کردار کے بارے جوانہوں نے آئندہ چل کر میدان کربلا میںادا کیا انشا اللہ وقت آنے پر بات کر یں گے ۔
نزول ِمائدہ۔ حضور(ص) حب ِمعمول ایک دن صاحبزادی صا حبہ کے گھر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ چہرہ مبارک اترا ہوا ہے ۔ حضور (ص)نے احوال پوچھا تو عرض کیا میں میرے شوہر اور بچے تین دن سے بھوکے ہیں ۔ حضور(ص) نے بارگاہ خداوندی میں دست سوال دراز فرما دئے اور بارگاہ خدا وندی میں یہ دعا فرمائی“اللھم انزل علیٰ محمد واہل ِ بیتہ کما انز لت علیٰ مریم بنت عمران “ ترجمہ اے اللہ! میرے اہل ِ بیت پر بھی اسی طرح نازل فر ما جس طرح کہ مریم بنت ِ عمران پر (تو ) اتارتا تھا۔ اس واقعہ کی وجہ الکشف نامی تفسیر میں قحط تحریر کی گئی ہے، وہیں اس میں اس کھانے کی تفصیلات بھی بیان ہو ئی ہیں جو سورہ آل عمران کی آیت نمبر ٣٦ کی تفسیر کرتے ہو ئے بیان کی گئی ہیں۔ کہ حضور (ص) نےدعا فرمائی اوراس کے بعد حضرت فا طمہ (ع) سے فر مایا کہ اپنے حجرے میں جا کر دیکھو! وہ اندر تشریف لے گئیں اور انتہا ئی معطر کھانا لا کر پیش کر دیا جس میں گوش اور روٹیا تھیں۔ پھر حضور(ص) نے گوشت اور روٹی کو ملادیا اور وہ کھانا سب نے سیر ہوکر کھایا اور امہات ِاللمونین کو بھیجا گیا پھر بھی کم نہیں ہوا۔
سخاوت کا صلہ۔ ویسے تو حضرت علی کرم اللہ وجہ اور ان کے کنبہ کی قربانیوں اور سخاوت کی اتنی مثالیں ہیں کہ ہم اگر دینا شروع کریں تو کتا بیں بھر جا ئیں۔ مگر اسی قسم کا ایک اور واقعہ تحریر کر کے پھر سیرت کو آگے بڑھاتے ہیں ۔وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ دونوں صاحبزادے (ع)بیمار ہو گئے،تو حضرت علی کرم اللہ وجہ نے حضور (ع) سے رجوع کیا ،حضور (ص) نے تین متواتر روزوں کی منت ماننے کے لیئے فر مایا۔ جبکہ ان کے یہاں تو ویسے بھی روز ہی روزوں کا دور دورہ رہتا تھا۔ لہذا انہوں (ع) تین روزوں کی منت مان لی ۔ مگر روزوں کے لیئے کے لیئے سنت یہ ہے کہ سحری کھا ئی جائے اور افطاری کی جا ئے۔ اور یہاں یہ عالم تھا کہ مجبوری تھی، گھر میں کچھ بھی نہ تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ شمعون نامی یہودی کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے تین صاع جو لے آئے ،جناب ِ سیدہ (ع) نے آٹاپیسا اور پانچ رو ٹیاں تیار ہوکیں اور پورا کنبہ جن میں لونڈی فضہ (رض) بھی شامل تھیں افطار کے وقت کا انتطار کر نے لگے کہ اتنے میںایک سوالی دروازے پر آگیا اس نے صدا لگا ئی کہ میں مسکین ہوں ۔اے اہلِ بیت ِ نبی (ص) روٹی کا سوال ہے ۔جناب ِ علی کرم اللہ وجہ نے اپنے حصے کی روٹی اٹھا ئی اور اس کو دینے چلے ، حضرت نے سیدہ (ع)نے بھی اپنے حصے کی روٹی ان کے سپرد کردی کہ یہ بھی دیدیجئے، پتہ نہیں اس کی کتنی خوراک ہو اور کتنے بچے ہو ں ۔ جب حضرت فضہ(رض) نے دیکھا ، تو انہوں نے بھی اپنے حصے کی روٹی صدقہ کر دی۔ بھلا مخیر والدین کے بچے (ع) کیسے پیچھے رہ سکتے تھے انہوں نے بھی اپنے حصے کی روٹیا ں اٹھا کر اس کی جھولی میں ڈالدیں اور یہ کنبہ پانی سے روز کھول کر عبادت میں مصروف ہو گیا ۔ دوسرے دن بھی پھر یہ ہی ہوا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ آٹا لا ئے ،انہوں نے رو ٹیاں تیار کیں اور عین وقت پر سوالی آگیا کہ میں یتیم ہوں اور روٹی کا سوال ہے اوروہ انہوں نے اس کو دیدیں ۔ تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا کہ پھر سوالی آموجود ہوا کہ میں قیدی ہوں اور روٹی کا سوال ہے اور وہ بھی اس کو عنایت فر مادیں اور خاندان بھو کا رہا۔ ی(یہاں کچھ مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ تین صاع تین دن کے لائے تھے اس میں سے ایک صاع کی پہلے دن پانچ رو ٹیاں بنا کر باقی دو دن کے لیئے آٹارکھدیا تھا مگر میرے خیال میں یہ اس گھرانے کے دستور کے خلاف تھا لہذا انہوں نے تینوں دن قرض پر جو ئے لیئے اور وہ پیسے گئے روٹی پکی اور خیرات ہو ئی)
حضور مسجد نبوی میں تشریف فر ما تھے کہ اتنے میں نزول وحی کے آثار ظاہر ہو ئے اور حضرت جبرئیل (ع) تشریف لا ئے اور عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو سلام فرماتا ہے ۔ یہ آپ کے اہل ِ بیت کا امتحان تھا جس میں وہ پورے اترے۔ اور اس کے بعد سورہ دھر کی یہ آیت نازل ہو ئی ۔جس کا ترجمہ یہ ہے کہ “اورکھانا کھلاتے رہتے ہیںاور مسکینوں کواور یتیموں کو اوراسیروں کواللہ تعالیٰ کی محبت میں (اور کہتے ہیں )ہم تو تمہیں صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیئے کھانا کھلاتے ہیں ۔اور نہ اس کا عیوض چاہیں نہ شکریہ۔ہم تو اپنے پروردگار کی طرف سے اندیشہ رکھتے ہیں اس سخت دن کا۔ پس اللہ ان کو اس دن کی سختی سے محفوظ رکھے گااور ان کو تازگی اور خوشی عطا فر ما ئے گا “ اس آیت میں اللہ نے دو وعدوں سے اس کنبہ کو نوازا ہے ایک تو اس دن کی سختی سے محفوظ رکھے گا ،دوسرے ان کو توانائی اور تا زگی بخشی جا ئے گی ۔ ایک نتیجہ تو دنیا نے اسی وقت دیکھ لیا کہ دونوں شہزادے نہ صرف تندرست ہو گئے جو کہ لڑ کھڑا تے قدم اس سے پہلے مسجد میں تشریف لا ئے تھے، نہ صرف بیماری دور ہوگئی بلکہ واپس چا ق و چوبند تشریف لے گئے ۔ (باقی آئندہ

تبصرے
Loading...