حضرت عیسیٰ کا نزول

حضرت مہدی علیہ السلام سنت کے قائم کرنے اوربدعت کومٹانےکاانصرام  وانتظام عالم میں مشغول ومصروف ہوں گے کہ ایک دن نمازصبح کے وقت بروآیتی نمازعصرکے وقت حضرت عیسی علیہ السلام دوفرشتوں کے کندھوں پرہاتھ رکھے ہوئے دمشق کی جامع مسجد کے منارہ ٴشرقی پرنزول فرمائیں گے حضرت امام مہدی ان کااستقبال کریں گےاورفرمائیں گے کہ آپ نمازپڑھئے ،حضرت عیسی کہیں گے کہ یہ ناممکن ہے ،نمازآپ کوپڑھانی ہوگی ۔چنانچہ حضرت مہدی علیہ السلام امامت کریں گے اورحضرت عیسی علیہ السلام ان کے پیچھے  نمازپڑھیں  گے اوران کی تصدیق کریں گے ۔(نورالابصار۱۵۴،غایۃالمقصود۱۰۴۔۱۰۵۴۵۸) ،بحوالہ مسلم وابن ماجہ ،مشکوة

اس وقت حضرت عیسی کی عمرچالیس سالہ جوان جیسی ہوگی ۔وہ اس دنیا میں شادی کریں گے ،اوران کے دولڑکے پھی ہوں گے ایک کانام احمداوردوسرے کانام موسی ہوگا ۔(اسعاف الراغبین برحاشیہ نورالابصار۱۳۵،قیامت نامہ ۹ بحوالہ کتاب الوفاابن جوزی ،مشکوة ۴۶۵وسراج القلوب ۷۷)۔

امام مہدی اورعیسی ابن مریم کادورہ  :

اس کے بعد حضرت امام مہدی علیہ السلام اورحضرت عیسی علیہ السلام  ،ممالک کادورہ کرنے اورحالات کاجائزہ لینے کے لئے برآمد ہوں گے اوردجال ملعون کے پہنچائے ہوئے نقصانات اوراس کے پد کئے ہوئے بدترین حالات کوبہترین سطح پرلائیں گے ،حضرت عیسی خنزیرکوقتل کرنے ،صلحوں کوتوڑنے اورلوگوںکے اسلام قبول کرنے کاانصراموبندوبست فرمائیں گے ۔ عدل مہدی سے بلاد عالم میں اسلام کاڈنکا بجے گا اورظلم وستم کاتختہ الٹ جائے گا ۔(قیامت نامہ قدوة المحدثین ۸بحوالہ صحیح مسلم)۔

یاجوج ماجوج اوران کاخروج

 قیامت صغری یعنی ظہورآل محمداورقیامت کبری کے درمیان دجال کے بعد یاجوج اورماجوج کاخروج ہوگا ۔یہ سد سکندری سے نکل کرسارے عالم میں پھیل جائیں گے اوردنیاکے امن وامان کوتباہ وبربادکردیں گے ؛

 یاجوج ماجوج حضرت نوح کے بیٹے یافث کی اولاد سے ہیں ،یہ دونوںچارسوقبیلے اورامتوں کے سرداراورسربراہ ہیں ،ان کی کثرت کاکوئی اندازہ نہیں لگایاجاسکتا ۔مخلوقات میں ملائکہ کے بعد انھیں کثرت دی گئی ہے ،ان میں کوئی ایسانہیں جس کے ایک ایک ہزار اولاد نہ ہو ۔یعنی یہ اس وقت تک مرتے نہیں جب تک ایک ایک ہزاربہادرپیدانہ کردیں۔یہ تین قسم کے لوگ ہیں ،ایک وہ جوتاڑسے زیادہ لمبے ہیں ،دوسرے وہ جولمبے اورچوڑے برابرہیں جن کی مثال بہت بڑے ہاتھی سے دی جاسکتی ہے ،تیسرےوہ جواپناایک کان بچھاتے اوردوسرا اوڑھتے ہیں ان کے سامنے لوہا ،پتھر،پہاڑتووہ کوئی چیزنہیں ہے ۔یہ حضرت نوح کے زمانہ میں دنیاکے اخیر میں ا س جگہ پےداہوئے ، جہاں سے پہلے سورج نے طلوع کیاتھا زمانہ فطرت سے پہلے یہ لوگ اپنی جگہ سے نکل پڑے تھے اوراپنے قریب کی ساری دنیا کوکھا پی جاتے تھے یعنی ہاتھی ،گھوڑا ،اونٹ،انسان ،جانور،کھیتی باڑی غرضکہ جوکچھ سامنے آتاتھا سب کوہضم کرجاتے تھے ۔ وہاں کے لوگ ان سے سخت تنگ اورعاجزتھے ۔یہاں تک کہ زمانہ فطرت میں حضرت عیسی کے بعد بروائتی جب ذوالقرنین اس منزل تک پہنچے توانھیں وہاں کاسارا واقعہ معلوم ہوا اوروہاں کی مخلوق نے ان سے درخواست کی کہ ہمیں اس بلائے بے درمان یاجوج ماجوج سے بچائے ۔چنانچہ انھوں نے دوپہاڑوں کے اس درمیانی راستے کوجس سے وہ آیاکرتے تھے بحکم خدالوہے کی دیوارسے جودوسوگزاونچی اورپچاس یاساٹھ گزچوڑی تھی بند کردیا ۔اسی دیواررکوسد سکندری کہتے ہیں ۔کیونکہ ذوالقرنین کااصل نام سکندراعظم تھا ،سدسکندری کے لگ جانے کے بعد ان کی خوراک سانپ قراردی گئی ،جوآسمان سے برستے ہیں یہ تابظہورامام مہدی علیہ السلام اسی میں محصوررہیں گے ان کااصول اورطریقہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی زبان سے سد سکندری کو رات چاٹ کرکاٹتے ہیں ،جب صبح ہوتی ہے اوردھوپ لگتی ہے توہٹ جاتے ہیں ،پھردوسری رات کٹی ہوئی دیوارپھر پرہوجاتی ہے اوروہ پھراسے کاٹنے میں لگ جاتے ہیں ۔

  بحکم خداسے یہ لوگ امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں خروج کریں گے دیوارکٹ جائے گی اوریہ نکل پڑیں گے ۔اس وقت کاعالم یہ ہوگا کہ یہ لوگ اپنی ساری تعداد سمیٹے ساری دنیامیں پھیل کر نظام عالم کودرہم برہم کرنا شروع کردیں گے،لاکھوں جانیں ضائع ہوں گی اوردنیاکی کوئی چیزایسی  باقی نہ رہے گی جوکھائی اورپی جاسکے ،اوریہ اس پرتصرف نہ کریں۔ یہ بلاکے جنگجولوگ ہوں گے دنیاکومارکر کھاجائیں گے ادھرسے بحکم خدا خون آلود تیر آئے گا تویہ بہت خوش ہوں گے اورآپس میں کہیں گے کہ اب ہمارااقتدارزمین سے بلند ہوکر آسمان پرپہنچ گیاہے ۔اسی دوران میں امام مہدی علیہ السلام کی برکت اورحضرت عیسی کی دعا کی وجہ سے خداوندعالم ایک بیماری بھیج دے گا جس کوعربی میں  ”نغف “ کہتے ہیں یہ بیماری ناک سے شروع ہوکر طاعون کیطرح ایک ہی شب میں ان سب کاکام تمام کردے گی پھران کے مردارکوکھانے کے لئے ”عنقا “ نامی پرندہ پیداہوگا ،جوزمین کوان کی گندگی سے صاف کرے گا ۔اورانسان ان کے تیروکمان اورقابل سوختنی آلات جنگ کو سات سال تک جلائیں گے (تفسیرصافی ۲۷۸،مشکوة۳۶۶،صحیح مسلم ،ترمذی ،ارشادالطالبین ۳۹۸،غایۃ المقصودجلد۲ص ۷۶،مجمع البحرین ۴۶۶،قیامت نامہ ۸)۔

تبصرے
Loading...