حضرت علی المرتضیٰ۔۔۔۔ شمعِ رسالت کا بے مثل پروانہ

حضرت علی(ع) اسلامی تاریخ کی وہ درخشاں ہستی ہے جن کا کردار ہر اعتبار سے نمایاں اور ممتاز رہا ہے۔آپ نے آنکھ کھولی تو کعبے میں۔اور یوں مولود کعبہ کہلائے۔ سب سے پہلی جس ہستی کو دیکھا وہ رسالت مآب ہی تھے۔انہی کے سایہ عاطفت میں گٹھنوں کے بل چلے اور آغوشِ رسالت میں نشو نما پا کر بالآخر میدان جہاد کے شہسوار بن گئے ۔اسے آپ حسن اتفاق کہئے یا قدرت کی مصلحتِ خاص کہ ماں باپ کے ہوتے ہوئے بھی حضرت علی کی پرورش و پرداخت کا ذمہ دوشِ رسالت نے اٹھایا۔اسے بڑھ کر خوش خصالی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک جانب حضرت علی نے کار گاہِ زیست میں قدم رکھاتو دوسری جانب غارِ حرا سے نورِ اسلام ساطع ہوا۔پس اوائل عمری سے ہی مولودِکعبہ نے کائنات کی ہرشے کو اسلام کی ہی روشنی میں دیکھا۔ درسگاہِ نبوی میں تعلیم وتربیت پائی۔معلم انسانیت جیسا معلم و مربی ملا۔رہنے کو نبوت کا گھرانا اور بود و باش کے لئے سرزمینِ وحی ملی۔ قرآنی آیات کی شانِ نزول کے چشم دید گواہ بنے۔ نہج البلاغہ میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ میں بچپنے میں ہی رسول اکرم کی شخصیت سے اس قدر مانوس و متاثر تھا “کہ میں وحی و رسالت کی روشنی دیکھتا تھا اور نبوت کی بو سونگھتا تھا”(نہج البلاغہ ترجمہ از مفتی جعفر حسین)۔صغیر سنی میں آنحضور ۖ کے ذاتی محافظت کا بار گراں اپنے دوش ہائے نازک اندام پر اٹھایا۔

خواب و بیداری، سفر اور حضر میں اگر ان کے قلب و ذہن میں کسی شخصیت کا خیال غالب تھا تو وہ رسول اللہ(ص) کے سوا کوئی اور نہ تھا۔وہ شاد کامی اور غمی میں رسولِ اکرم کے شانہ بہ شانہ رہے۔ میدانِ جہاد کی جلوت ہو یا خدا سے راز و نیاز کی خلوت وہ مثلِ سایہ رسولِ رحمت کے پہلو بہ پہلو رہے۔ لہذا ممکن ہی نہیں کہ ذکرِ پیغمبر ہو اور علی کی توصیف و تعریف نہ ہو۔اور علی کا ذکر آئے اور اس میں پیغمرِ اکرم ۖکا تذکرہ نہ ہو۔ چشمِ فلک نے آج تک محب و محبوب کی ایسی جوڑی نہیں دیکھی ہوگی۔ اگر عشق ِ حقیقی کی تاریخ رقم ہو جائے تو اس میں جو داستان ِ عشق سب سے زیادہ پر کشش و جاذبِ نظردکھائی دے گی وہ انہیں دو عظیم ہستیوں کے انس و محبت پر مشتمل ہو گی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ محبت و الفت یک طرفہ نہیں تھی بلکہ ہر دو جانب شمع ِ محبت یکساں طور پر فروزاں تھی ۔اس لئے کو ئی بھی مورخ و محقق یہ بات طے کرنے سے قاصر ہے کہ آیا حضرت علی آنحضرت ۖ کے ساتھ زیادہ محبت کرتے تھے یاآنحضرت ۖ کو علی بہت زیادہ عزیر تھے۔ان کے آپسی انس و محبت کا موازنہ کیا جا سکتا ہے نہ اس کا احصا ء ہی ممکن ہے۔عشق و محبت ہے ہی ایسی چیز جس کو مانپنے کا پیمانہ آج تک وجود میں نہیں آیا ہے ۔اس پر مستزاد یہ کہ جب عشق ،حقیقی بھی ہو اور بے پناہ بھی ۔واضع الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ معشوق رسول اللہ ہو اور عاشق عین اللہ ،اس صورت میں بحر ِ عشق کے ساحل پر اس کی بلا خیز موجوں کا نظارہ کرنے والے افراد کی زبان بے ساختہ یہ دعا نکلتی ہے      

                       غواصِ محبت کا اللہ ہی نگہباںہو

                      ہر قطرۂ دریا میں ،دریا کی گہرائی

                                               اقبال

 لیکن بحرِ عشق کے شناور جب اس بحر کی تہہ سے ”فزت ورب الکعبہ کا گوہر مراد ” حاصل کر کے واپس لوٹتا ہے ۔تو ”غواصِ محبت” کے تئیں دعا گو افراد کے دل میں عشق کی ایک ترنگ پیدا ہوتی ہے ۔وہ اس بحرِعشق کے شناورکی صفات ِعالیہ کو اپنی ذات میں منعکس کرنے کے یوں متمّنی ہو جاتے ہیں      

                         اے بادِ بیابانی مجھ کو بھی عنایت ہو

                         خاموشی و دل سوزی ،سرمستی و رعنائی

                                                     اقبال              

 تاریخِ اسلام کا کوئی بھی چھوٹا بڑا واقع ایسا نہیں جہاں یہ دو عظیم ہستیاں مختلف الجہت اور مختلف الرائے دکھائی دیں ۔آنحضورکی پیروی میں جو کمال حضرت علی کو حاصل ہوا اس میں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ ”میں ہمیشہ آپ(یعنی رسولِ اکرمۖ) کے پیچھے اس طرح چلتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلتا ہے۔”یہ تشبیع اس قدر واضع اور غیر مبہم ہے کہ معمولی عقل و شعور رکھنے والا شخص بھی بھی بات کی تہہ تک جا سکتا ہے۔ اوریہی نتیجہ اخز کر سکتا ہے کہ علی مرتضیٰ نے بغیر چوں و چرا رسول اللہ (ص) کی پیروی کی۔یہ امر دین اسلام کی چاشنی سے نا آشنا افراد کے لئے ضرور باعث حیرت ہو گی کہ جس علی کے ماتھے پر قدرت نے اپنے ہاتھوں طغرائے ہمہ دانی وقہر مانی سجا دیا ہو وہ اپنے قائد و رہبر کے سامنے اپنے آپ کوایک ایسے پست تر وجودسے مشابع قرار دے ،جوآگہی اور بقائے زیست کے واسطے سراسر کسی اور کا محتاج ہوا کرتا ہے۔ یہ تواضع اور انکساری کی انتہا ہے۔ جو اس اچھوتی تشبیع میں دکھائی دے رہی ہے۔باعثِ تعجب ضرورہے کہ دعوائے سلونی رکھنے والا علی حضورِ اکرم کی درسگاہ ِ نبوی میںایک ایسے طفل مکتب کی طرح زانوئے ادب تہہ کئے ہوئے نظر آتے ہیں کہ جیسے کچھ جانتے ہی نہ ہوں۔شہنشاہِ ولایت اور تاجدارِ امامت کا یہ کہنا کس قدر معنی خیز ہے کہ” اناعبد من عبید محمد”یعنی میں محمدۖ کے غلاموں میں سے ایک غلام ہوں۔(اصولِ کافی:ج۔١:٨٩۔۔شیخ یعقوب کلینی)

 اسی بے لوث فرمانبرداری کا ہی ثمرہ ہے کہ اسلامی تاریخ کا کوئی ایسا درخشاں باب نہیں ہے کہ جس میں حضرت علی کے کارنامے جلی حروف میں لکھے جانے کے لائق نہ ہوں۔ اسلامی تبلیغ و اشاعت کے آغاز میں ہی حضرت علی کا شعور ِ حق شناسی بچپن میں ہی بالیدگی کی آخری سرحدوں کو چھوتا نظر آتا ہے۔ چنانچہ جب رسول اسلام کوتبلیغِ اسلام کا ابتدائی حکم آیا “وانذر عشیرتک الاقربین”یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کواسلام سے روشناس کرو”اس آیت پر عمل کرتے ہوئے حضور پاک نے دعوت کا اہتمام کیا تمام انتظامات حضرت علی کے سپرد کئے۔ انہوں نے کم عمری کے با وصف تمام تر ذمہ داریاں بحسن خوبی نبھائیں۔ لیکن عین موقع پر ابو جہل نے اس تبلیغی دعوت میں رخنہ اندازی کی۔ تاریخ اْس دس سالہ بچے کی عالی ہمتی اور شعور ی پختگی کی داد دینے سے قاصر ہے کہ جو ایک اکیلے ہی اکابرین ِ قریش کے برعکس دعوت و بتلیغ کے اس ابتدائی دور میں رسولِ اسلام کے حامی و ناصر ثابت ہوا۔دعوت ذوالعشیرہ کی پہلی دعوت میں ایک جانب بیشتر اکابرین قریش آنحضرت کی مخالفت پر اکڑ گئے تھے اور دوسری جانب یہ کم سن بچہ علی الرغم اکابرینِ قریش پھر سے دوسری دعوتی محفل آراستہ کرنے میں ہمہ تن لگ گیا چنانچہ دوسری مرتبہ دعوت کا اہتمام ہوا ابو جہل نے اس بار بھی جہالت کی ٹانگ اڑائی لیکن اس مرتبہ ابو طالب کی برد باری اور وسیع النظری ابو جہل کے آڑے آگئی اور یوںآنحضرت نے پہلی مرتبہ کھل کر اپنے مشن کو حاضر مدعونین کے سامنے رکھا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ آپ میں سے کون ہے کہ جو اس مشن میں میرا پشت پنا ہ بنے گا۔ تو کم سنی کے باوجود پوری محفل میں سے صرف حضرت علی مرتضیٰ ہی تھے کہ جس نے سکوتِ محفل کو اپنے حمایت و نصرت کے وعدے سے توڑا۔ یہ پہلا وعدہ تھا کہ جو انہوں نے اپنے مربی کے ساتھ کیااور ان کی پوری زندگی اسی ایفائے عہد سے عبارت ہے۔

حضرت علی کو سرکار رسالت ۖکی حیاتِ طیبہ کا ایک ایک لمحہ قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا لہذا انہوں نے اپنی شخصیت کو سیرتِ پیغمبر کے سانچے میں ڈھالنے کی ہر ممکنہ کوشش کی۔ اسی لئے ہم یہ کہنے میں بجا ہے کہ پوری کائنات میں کوئی ہستی علی سے زیادہ ختمی مرتبت ۖسے بہت قریب تر دکھائی نہیں دیتی ہے۔ اس معاملے میں کوئی بھی ان سے سبقت نہیں لے سکتا ہے۔ یہ کوئی خالی خولی دعویٰ نہیں ہے بلکہ پیغمبر کے تئیں علی کی لامثال جانفشانی،ایثارو قربانی اس دعوے کی ناقابل ِ تردید دلیل ہے۔ جسے اسلامی تاریخ کا ورق ورق بھرا پڑا ہے۔

حضرت علی ہی ہے کہ جو اپنے مربی کے سب سے پہلے حامی بنے۔ ان کے ہر حکم کے آگے بچپن سے ہی سر تسلیم خم کیا۔ تمام ترحرکات و سکنات کو رسولِ اکرم کے اشارۂ چشم وابرو کے تابع رکھا۔ہاں! پیغمبر اکرم جیسا ہادی برحق اگر زمانے نے پیدا نہیں کیا تو علی جیسا پیرو بھی آج تک کسی نے نہیں دیکھا ہوگا۔دعوت و تبلیغ کا مرحلہ ہو یا اسی سلسلے میں مخالفت و دشمنی کی یورش۔ میدانِ جہاد ہو یا نظریاتی تصادم کی جولاں گاہ،ہر جگہ علی تمام تر خصوصیات سے مزین اور ہتھیاروں سے لیس سر بکف مجاہدوں میں ممتاز رہے۔حقیقتاً انہوں نے اپنی تمام تر خواہشیں ، تمنائیں اور آرزوئیں بلکہ اپنی پوری زندگی اپنے محبوب پر واری تھیں۔ اوروہ محبوب مصطفیٰۖکے سوا اور کون ہو سکتا تھا۔ اس لحاظ سے علی اولین عاشقِ رسول تھے۔ وہ عاشقِ رسول جس نے بارہا اپنی جان جان آفرین کے حوالے کر دی تاکہ جانِ کائنات کی جان سلامت رہے۔ ہجرت کی شب شمشیروں کے سائے میں یوں سو گئے جیسے خطرے کا کوئی شائبہ بھی نہ ہو۔تاریخِ کامل میں یہ بات درج ہے کہ حضورِ اکرم امیرلمومنین علی ابن ابی طالب سے مخاطب ہوئے کہ اے علی آج کی رات دشمنوں نے میرے قتل کی سازش کو عملانے کا ارادہ کیا ہے لہذا تم میرے بستر پر سو جاو تاکہ میں ان کے نرغے سے بحفاظت نکل جاووں۔پروانۂ رسولۖ نے بجائے اس کے اپنی جان کی ضمانت کے بارے میں پوچھتے جواباً عرض کیا کہ اگر میں آپ کی چادرِ مبارکہ اوڑھ کر آپ کے بستر پر سو رہوں تو کیا آپۖ کی جان سلامت رہے گی آنحضرت ۖنے جب اثبات میں جواب دیا تو فرطِ مسرت میں علی سجدہ ٔشکر میں چلے گئے۔علامہ ابن ِشہر آشوب نے اپنے مناقب میں یہ لکھا ہے کہ” حضرت علی ہی تھے کہ جس نے اسلامی تاریخ میں سجدشکر بجا لایا ”(بحوالۂ سیرت امیرالمومنین ص(١٥٥) از مفتی جعفر حسین)

مشہور و معروف سنی عالمِ دین مولانا سید ابوالحسن ندوی اس واقعے کے حوالے سے اپنی ایک کتاب المرتضیٰ میں رقم طراز ہیں کہ ”ہجرت کی شب علی کا بسترِ رسول پر سونا آسان بات نہیں تھی ، اور کوئی بھی ان کی جگہ ہوتااس کی پلک سے پلک نہ لگتی الا یہ کہ اس درجہ کا ایمان اللہ پر مضبوط ہوتا، اور رسو ل اللہ ۖسے اس درجہ الفت و جاں سپاری کا تعلق رکھتا ہوتا، اور وہ خود اپنے آپ کو رسول اللہ ۖ پر قربان کرنے کاجذبہ رکھتا ہوتا۔ جس درجہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا تھاچنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے تمام تر خطرات کو خاطر میں نہ لایا اور بسترِ رسول ۖ پر لیٹ گئے اور گہری نیند سو گئے ‘ ‘    

                   بستر ِاحمد،ۖ شبِ ہجرت یہ دیتا ہے صدا           اے علی مردوں کو یوں ہی نیند آنا چاہئے                

بطورِمحافظِ رسول اپنے پورے وجود کو جنگِ احد میں ڈھال بنا دیا۔ ہر خطرہ اپنے سر مول لیا تاکہ اس کے محبوب کو کوئی گزند نہ پہنچے۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفا ء میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ۖ کے تئیں حد درجہ جاں نساری کے عوض ”حضرت علی کو جنگ ِ احد میں تلواروں کی سولہ ضربیں لگیں”

الغرض جہاں رسالت مآب کے فرمان کے مطابق خاموشی لازم تھی وہاں ایسا سکوت اختیار کیا کہ گویا بدن میں جان اور منہ میں زبان نہ ہو اور جہاں رسولۖنے تکلم کی اجازت مرحمت فرمائی وہاں بلاغت و فصاحت کے آبشار جاری کر دئے۔ جب رکنے کا اشارہ ملا تو ایسے رکے جیسے حرکت سے نا آشنا تھے۔اور جب صدائے جرس گوش گزار ہوئی تو ایسے چلے جیسے بادِصر صر۔جب سونے کا حکم ملا توایسے بے خوف سوئے کہ جیسے پھر کبھی بیداری کی باری نہ آئے ۔اور بیدار رہنے کا تقاضا ہوا تو عین اللہ سراپا چشم ِ نرگس بن گئے کہ جو کبھی بھی پلک نہیں جھپکتی ۔بلکہ ہمیشہ بیدار دکھائی دیتی ہے۔جب استقلال کا تقاضا تھا تو کوہ ِ احد سے بڑھ کربھی ثابت قدم نظر آئے۔ جہاں رحم دلی سے حرمتِ رسولۖکا تحفظ یقینی تھا تو وہاں آغوشِ رسالت کا یہ پروردہ آغوش مادر سے بھی زیادہ راحت رساں نظر آیا اور جہاں دشمن کو پچھاڑے کی باری آگئی وہاں شیرِخدا ،قہرِ خدا کی جلوہ سامانیاں اپنے جلو میں لے کر دشمنانِ اسلام پر ٹوٹ پڑے۔محبوب کبریا نے صلح جوئی کا عندیہ دیا تو کہ جو ذوالفقارِ صاعقہ بار کا خوگرتھا وہی یداللہ قلم بدست نظر آئے۔ اوراسلام اور رسولِ اسلام کی صلح جوئی کا سنہرہ باب اپنے ہاتھوں رقم کیا۔رسولِ اکرم کی ذاتِ مبارکہ کے ساتھ فرطِ محبت اور ان کی رسالت پر کامل یقین کا اسے بڑھ کر نمونہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ جب یہ معاہدہ طے ہوا اور معاہدے کو ضبطِ تحریر کرنے کی نوبت آئی تو آنحضرت ۖنے اس موقع پر بھی حسبِ معمول امیرالمونینۖ کو ایک خاص شرف سے نوازا۔ اور وہ شرف معاہدہ لکھنے کا تھا۔ تاریخ میں مرقوم ہے کہ علی نے معاہدہ کے آغاز میں لکھا کہ یہ معاہدہ رسولِ خدا ۖاور کفار قریش کے نمائندے سہیل بن عمرو کے مابین طے پایا توسہیل نے اعتراض کیا کہ سارا جھگڑا تو اسی بات پر ہے کہ ہم محمدۖکو خدا کا فرستادہ ہی نہیں مانتے رسول اللہ کے بجائے محمد بن عبداللہ لکھا جائے” حضرت رسول ِ خدا ۖ نے حضرت علی ۖکو حکم دیا کہ یہ لفظ قلم زد کر دیا جائے۔علی نے معذرت ظاہر کردی کہ “خدا کی قسم مجھ میں لفظِ رسول اللہ کاٹنے کا یارا نہیں ہے۔چنانچہ آنحضرت نے حضرت علی سے قلم لیا اور خود ہی اس لفظ کو نشان زد کیا۔قابل ِ فکر بات یہ ہے کہ صلحِ حدیبیہ میں بظاہر مسلمانوں کی پسپائی دیکھ کر بعض صحابہ سے رہا نہ گیا انہوں نے جوش و جذبات سے مغلوب ہو کر اس صلح کے تئیں اپنی ناراضگی ،ناراحتی اور تحفظات کا برملا اظہار کیا۔انہیں یہ صلح اس قدر باعثِ حزیمت لگی اور اس شک و تردد میں پڑ گئے کہ کیا کوئی پیغمر ایسی حزیمت آمیز صلح بھی کر سکتا ہے۔لیکن جس علی نے اس صلح کے تمام نکات اپنے ہاتھوں لکھے ان کا رسالت پر کامل یقین دیکھئے کہ وہ ”لفظ رسول اللہ مٹانے پر ہر گز راضی نہ تھے”۔

 یہ تو ہوئی صلح کی بات جنگ میں بھی شیرِ جبار کی قہاری و جباری کا اصل محرک عشق ِ رسول ہی تھا ۔ خیبر شکنی ہو یا بت شکنی ہر جگہ یہی محرک کار فرما نظر آتا ہے ۔جنگ ِ خیبر میں جب مسلمانوں کے تمام تیر خالی ہوئے اور فتح کی کوئی صورت نہیں نکل آئی تو رسول اللہ نے اسداللہ غالب علی ابن طالب کو بلوایا۔چنانچہ امام احمد حنبل نے مناقب میںایک حدیث نقل کی ہے جس کے مطابق جنگ ِ خیبر کے موقع پر جہاں رسول اکرم نے کنایتاً فاتحِ خیبر کے چند ایک اوصاف کا تذکرہ کیا تھا وہاں یہ بھی فرمایا تھا ”کہ کل میں جہاد کا علم اس سورماکے ہاتھ دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول اسے محبت کرتے ہیں ، اللہ اس کے ہاتھ پر فتح نصیب فرمائے گا اور وہ میدان جہاد سے راہ فرا اختیار کرنے والا نہیں ”۔

 الغرض حضرت علی عشقِ رسول ۖ کے کامل اور متحرک مجسم تھے کہ جنہوں نے زندگی کے ہر مرحلے پر رسمِ عشاق کو زندگی و جاودانی عطا کی ۔وہ محبتِ رسولۖ میں اس قدر مستغرق تھے کہ ان کی یعنی حضرت علی کی محبت و نفرت بالترتیب مومن و مناقق کی نشانی قرار پائی۔لہذا ہر عاشقِ رسولۖ کے لئے حبِ علی بھی شرطِ اساسی قرار پایا اور ہر محبِ علی کو عشق رسول ۖ سے مالا مال ہونا ضروری ہے۔

تبصرے
Loading...