حضرت زینب سلام اللہ علیہا

زینب امام علی(ع) اور حضرت زہرا(س) کی بیٹی ہیں جو سنہ 5 یا 6 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئیں. وہ امام حسین(ع) کے ساتھ کربلا میں موجود تھیں اور 10 محرم الحرام سنہ 61 ہجری) کو جنگ کے خاتمے کے

 زینب امام علی(ع) اور حضرت زہرا(س) کی بیٹی ہیں جو سنہ 5 یا 6 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئیں. وہ امام حسین(ع) کے ساتھ کربلا میں موجود تھیں اور 10 محرم الحرام سنہ 61 ہجری) کو جنگ کے خاتمے کے بعداہل بیت(ع) کے ایک گروہ کے ساتھ لشکر یزید کے ہاتھوں اسیر ہوئیں اور کوفہ اور شام لے جائی گئیں. انھوں نے اسیری کے دوران، دیگر اسیروں کی حفاظت و حمایت کے ساتھ ساتھ، اپنے آتشین خطبوں کے توسط سے بےخبر عوام کو حقائق سے باخبر کیا. حضرت زینب(ع) نے اپنی فصاحت و بلاغت اور بےمثل شجاعت سے تحریک عاشورا کی بقاء کے اسباب فراہم کئے. تاریخی روایات کے مطابق سیدہ زینب(ع) سنہ 63 ہجری کو دنیا سے رخصت ہوئیں اور دمشق میں دفن ہوئیں.
زینب(س) کے والد امیرالمؤمنین علی(ع) اور ان کی والدہ حضرت فاطمہ زہرا (س) ہیں.

نام
ان کا مشہور ترین نام زینب ہے جو لغت میں “نیک منظر درخت” کے معنی میں آیا ہے[2] اور اس کے دوسرے معنی “زین أَب” یعنی “باپ کی زینت” کے ہیں.

متعدد روایات کے مطابق حضرت زینب(س) کا نام پیغمبر خدا(ص) نے رکھا؛ البتہ آپ(ص) نے علی(ع) اور زہرا(س) کی بیٹی کو وہی نام دیا جو جبرائیل خدا کی طرف سے لائے تھے.[3]

حضرت زینب(س) اور حضرت خدیجہ(س) کے کی مشابہت

جب رسول اللہ(ص) نے ولادت کے بعد انہیں منگوایا تو ان کا بوسہ لیا اور فرمایا:

میں اپنی امت کے حاضرین و غائبین کو وصیت کرتا ہوں کہ اس بچی کی حرمت کا پاس رکھیں؛ بےشک وہ خدیجۃ الکبری(س) سے مشابہت رکھتی ہے.[4]

القاب
حضرت زینب(ع) کے دسوں القاب ہیں اور ان ہی میں سے ہیں:
عقیلۂ بنی ہاشم، عالمه غَیرُ مُعَلَّمَہ، عارفہ، موثّقہ، فاضلہ، كاملہ، عابدہ آل علی، معصومۂ صغری، امینۃ اللہ، نائبۃ الزہرا، نائبۃ الحسین، عقیلۃ النساء، شریكۃ الشہداء، بلیغہ، فصیحہ اور شریكۃ الحسین.[5]

کنیت
حضرت زینب(ع) کی کنیتوں ام کلثوم اور ام المصائب معروف و مشہور ہیں.[6]

پیدائش اور وفات
حضرت زینب(ع) پانچ جمادی الثانی سنہ 5 یا 6 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئیں[7] اور یکشنبہ (اتوار) کی رات 15 رجب سنہ 63 ہجری کو اپنے شریک حیات عبداللہ بن جعفر کے ہمراہ سفر شام کے دوران وفات پاگئیں اور وہیں دفن ہوئیں اور بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ وہ مدینہ یا مصر میں مدفون ہیں. [8]

بچپن
حضرت زینب(ع) نے طفولت کے ایام میں اپنے والد علی(ع) سے پوچھا: ابا جان! کیا آپ ہم سے محبت کرتے ہیں؟ امیرالمؤمنین(ع) نے فرمایا: میں تم سے محبت کیوں نہ کروں گا، تم تو میرے دل کا ثمرہ ہو؛ حضرت زینب(س) نے عرض کیا: لایجتمع حبّان فی قلب مؤمن حبّ الله وحب الاولاد وان کان ولابد فالحب لله تعالی و الشفقة للاولاد؛ (ترجمہ: دو محبتیں مؤمن کے دل میں جمع نہيں ہوتیں: خدا کی محبت اور اولاد کی محبت؛ پس اگر کوئی چارہ نہ ہو تو محبت (حُبّ) خدا کے لئے مخصوص ہے اور شفقت اور مہربانی اولاد کے لئے[9] امیرالمؤمنین(ع) نے بیٹی کا یہ جواب سنا تو ان سے اپنی محبت میں اضافہ کردیا.[10]

بھائی حسین(ع) سے محبت
حضرت زینب(س) طفولت کے ایام سے ہی حسین(ع) سے شدید محبت کرتی تھیں. جب کبھی حسین(ع) آپ کی آنکھوں سے اوجھل ہوجاتے تو آپ بےچین ہوجاتی تھیں اور جب آپ کی نظریں بھائی کے جمال سے منور ہوتیں تو شاداب و باطراوت ہوجاتی تھیں.[11]
اگر گہوارے میں رو پڑتیں تو بھائی حسین(ع) کا دیدار کرکے یا آپ کی صدا سن کر پرسکون ہوجاتی تھیں. بالفاظ دیگر حسین(ع) کا دیدار یا آپ کی صدا زینب(س) کے لئے سرمایۂ سکون تھی.[12]
اسی عجیب محبت کے پیش نظر، ایک دن حضرت زہرا(س) نے ماجرا رسول اکرم(ص) کو کہہ سنایا تو آپ(ص) نے فرمایا: “اے نور چشم! یہ بچی حسین(ع) کربلا جائے گی اور بھائی کے مصائب اور رنج و تکلیف میں شریک ہوگی”.[13]

روز عاشور آپ اپنے دو کم عمر لڑکوں محمد اور عون کو امام(ع) کے پاس لائیں اور عرض کیا: “میرے جدّ ابراہیم خلیل (ع) نے درگاہ پروردگار سے قربانی قبول کی آپ بھی میری یہ قربانی قبول کریں! اگر ایسا نہ ہوتا کہ جہاد عورتوں کے لئے جائز نہيں ہے، میں اپنی جان ہر آن قربان کردیتی.[14]

شریک حیات اور اولاد
شرم و حیا عبداللہ بن جعفر کی راہ میں رکاوٹ تھی اور وہ علی(ع) کی بیٹی سے شادی کرنے کے ارادہ ظاہر نہیں کرسکتے تھے؛ بالآخر ایک شخص نے عبداللہ کا پیغام علی(ع) کو پہنچایا اور کہا: رسول اللہ(ص) جعفر بن ابیطالب سے کس قدر محبت کرتے تھے اور ایک روز آپ(ص) جعفر طیار کے بچوں کی طرف دیکھا اور فرمایا: “ہمارے لڑکے ہماری لڑکیوں کے لئے ہیں اور ہمارے لڑکے ہماری لڑکیوں کے ہیں؛ چنانچہ بہتر یہی ہے کہ آپ اپنی بیٹی زینب(ع) کا نکاح عبداللہ بن جعفر سے کرائیں اور بیٹی کا مہر ان کی والدہ حضرت زہرا(س) کے مہر کے برابر 470 درہم قرار دیں. علی(ع) نے رشتہ قبول کیا اور یہ رشتہ اور نکاح سنہ 17ہجری کو انجام پایا اور بہت جلد عبداللہ بن جعفر علی(ع) کی دعا سے فراواں مال و دولت کے مالک ہوئے اور جود و سخا کی بنا پر جواد کریم کے لقب سے مشہور ہوئے”.
حضرت زینب(ع) نے شرط لگائی کہ آپ حسین(ع) سے شدید محبت کی بنا پر ہر روز آپ کا دیدار کرنے جائیں گی اور سفر کی صورت میں بھائی کے کے ہمراہ جائیں گی اور عبداللہ نے دونوں شرطیں مان لیں.[15] خدا نے حضرت زینب(س) اور عبداللہ کو پانچ اولادیں عطا فرمائیں: چار بیٹے (علی، عون، عباس اور محمد) اور ایک بیٹی (ام کلثوم).[16]

خصوصیات، فضائل اور مناقب
علم
حضرت زینب(س) کی طرف سے کوفہ، ابن زياد کے دربار نیز دربار یزید میں آیات قرآنی پر استوار عالمانہ کلام و خطبات، سب آپ کی علمی قوت کے ثبوت ہیں. آپ نے اپنے والد حضرت علی(ع) اور والدہ حضرت زہرا(س) سے احادیث بھی نقل کی ہیں.[17]
علاوہ ازیں والد ماجد امیرالمؤمنین(ع) کی خلافت کے دور میں کوفی خواتین کے لئے آپ کا درس تفسیر قرآن بھی حضرت زينب(س) کی دانش کا ناقابل انکار ثبوت ہے. [18]

حضرت زينب(س) رسول اللہ(ص) اور علی و زہراء(ع) کی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ صحابیۃ الرسول(ص) تھیں اور منقول ہے کہ آپ روایت و بیان حدیث کے رتبے پر فائز تھیں چنانچہ محمّد بن عمرو، عطاء بن سائب، فاطمہ بنت الحسین اور دیگر نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں.[19]
حضرت زینب(س) نے حضرات معصومین(ع) سے متعدد حدیثیں مختلف موضوعات میں نقل کی ہیں منجملہ: شیعیان آل رسول(ص) کی منزلت، حب آل محمد، واقعۂ فدک، ہمسایہ، بعثت وغیرہ.

عقیلۂ بنی ہاشم نے آنے والے واقعات کی وہی ماخذ گوئی کا علم بھی اپنے والد بزرگوار سے سیکھ لیا تھا.[20]

عبادت
حضرت زینب كبری(س) راتوں کو عبادت کرتی تھیں اور اپنی زندگی میں کبھی بھی تہجد کو ترک نہيں کیا. اس قدر عبادت پروردگار کا اہتمام کرتی تھیں کہ عابدہ آل علی کہلائیں.[21] آپ کی شب بیداری اور نماز شب دس اور گیارہ محرم کی راتوں کو بھی ترک نہ ہوئی. فاطمہ بنت الحسین(ع) کہتی ہیں:

شب عاشور پھوپھی زینب(ع) مسلسل محراب عبادت میں کھڑی رہیں اور نماز و راز و نیاز میں مصروف تھیں اور آپ کے آنسو مسلسل جاری تھے. [22]

خدا کے ساتھ حضرت زینب(س) کا ارتباط و اتصال کچھ ایسا تھا کہ حسین(ع) نے روز عاشورا آپ سے وداع کرتے ہوئے فرمایا:

“یا اختي لا تنسيني في نافلة الليل”.
(ترجمہ: میری بہن! نماز شب میں مجھے مت بھولنا.[23]
حجاب و پاکدامنی
آپ کے حجاب و پاکدامنی کے بارے میں تاریخ میں منقول ہے:

جب بھی حضرت زینب(س) مسجد النبی(ص) میں اپنے جد امجد رسول اللہ(ص) کے مرقد انور پر حاضری دینا چاہتیں تو امیرالمؤمنین(ع) حکم دیتے تھے کہ رات کی تاریکی میں جائیں اور حسن و حسین علیہما السلام کو ہدایت کرتے تھے کہ بہن کی معیت میں جائیں چنانچہ ایک بھائی آگے ہوتا تھا، ایک بھائی پیچھے اور حضرت زینب(س) بیچ میں ہوتی تھیں. ان دو بزرگواروں کو والد بزرگوار کا حکم تھا کہ مرقد النبی(ص) پر لگا ہوا چراغ بھی بجھادیں تاکہ نامحرم کی نگاہ قامت ثانی زہراء(س) پر نہ پڑے.[24]
یحیی مازنی کہتے ہیں: میں مدینہ میں طویل عرصے تک امیرالمؤمنین(ع) کا ہمسایہ تھا؛ خدا کی قسم اس عرصے میں، مجھے کبھی بھی حضرت زینب(س) نظر نہ آئیں اور نہی ہی ان کی صدا سنائی دی.[25]
صبر و استقامت
حضرت زینب(س) صبر و استقامت کی وادی میں کی بےمثل شہسوار تھیں. جب بھائی حسین(ع) کے خون میں ڈوبے ہوئے جسم کے سامنے پہنچیں تو رخ آسمان کی طرف کرکے عرض کیا:

بار خدایا! اس چھوٹی قربانی اور اپنی راہ کے مقتول کو ہم آل رسول(ص) سے قبول فرما.[26]
ایک محقق کا کہنا ہے کہ: زینب(س) کے القاب میں سے ایک “الراضية بالقدر والقضاء” ہے اور اس مخدَّرہ نے شدائد اور دشواریوں کے سامنے اس طرح سے استقامت کرکے دکھائی کہ اگر ان کا تھوڑا سا حصہ مستحکم پہاڑوں پر وارد ہوتا تو وہ تہس نہس ہوجاتے، لیکن یہ مظلومہ بےکسی، تنہائی اور غریب الوطنی میں “كالجبل الراسخ…” (مضبوط پہاڑ کی مانند) تمام مصائب کے سامنے استقامت کی.[27]

آپ نے بارہا امام سجّاد(ع) کو موت کے منہ سے نکالا؛ منجملہ ابن زیاد کی مجلس میں، جب امام سجّاد(ع) نے عبید اللہ بن زياد سے بحث کی تو اس نے آپ(ع) کے قتل کا حکم دیا. اس اثناء میں حضرت زینب(س) نے اپنے ہاتھ بھتیجے کی گردن میں ڈال دیئے اور فرمایا: “جب تک میں زندہ ہوں تم کو، انہیں قتل نہيں کرنے دونگی.[28]

فصاحت و بلاغت
زینب(س)، کو فصاحت و بلاغت، والد سے ورثے میں ملی تھی. “جب آپ بولنے لگتیں تو لگتا تھا کہ گویا والد کی زبان سے بات کررہی ہیں”. [29] آپ کا کلام کوفہ میں اور مجلس یزید ميں، نیز ابن زياد کے ساتھ آپ کے مناظرات والد حضرت علی(ع) کے خطبات اور والدہ حضرت زہرا(س) کے خطبۂ فدکیہ سے شباہت کاملہ رکھتے تھے.[30]
جب حضرت زینب(س) نے کوفہ میں وہ فصیح خطبہ دیا تو لوگوں نے انگشت بدندان رہ گئے؛ وہ حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے! اسی اثناء میں ایک ماہ و سال دیدہ مرد نے روتے ہوئے کہا: میرے ماں باپ فدا ہوں ان پر جن کے بوڑھے بہترین بوڑھے، ان کے اطفال بہترین اطفال اور ان کی خواتین بہترین خواتین اور ان کی نسل تمام نسلوں سے والاتر و برتر ہیں.[31]

زینب(س) اور کربلا کا المیہ
زینب، چو دید پیکر آن شه به روی خاک
از دل کشید ناله به صد درد سوزناک
زینب نے جب شہ کا زمین پر پڑا ہوا لاشہ دیکھا، صد رنج و سوز کے ساتھ نالہ و شیون کیا اس نے
کای خفته خوش به بستر خون!دیده باز کن
حوال ما ببین و سپس، خواب ناز کن
ترجمہ: کہ اے میٹھی نیند سونے والا بستر خون پر، آنکھ کھولنا ہمارا حال دیکھنا اور پھر میٹھی نیند سو لینا!
ای وارث سریر امامت! به پای خیز
بر کشتگان بی کفن خود نماز کن
ترجمہ: اے وارث سریر امامت، اٹھ لے، اپنے بےکفن کشتوں پر نماز پڑھنا
طفلان خود، به ورطه بحر بلا نگر
دستی به دستگیری ایشان، دراز کن
ترجمہ: اپنے بچوں کو اس بلاؤں کی خوفناک گھاٹیوں میں اپنے اطفال کی طرف نظر کرنا؛ ہاتھ پھیلا دے ان کی دستگیری و امداد کے لئے
برخیز، صبح، شام شد، ای میر کاروان!
ما را سوار بر شتر بی جهاز کن
ترجمہ: اٹھنا کہ صبح شام ہوگئی اے میر کاروان، ہمیں بٹھا دے بے محمل اونٹوں پر. [32]

بہر حال عاشورا کی تحریک امام حسین(ع) کی شہادت پر اختتام پذیر نہ ہوئی بلکہ اس کے بعد اس تحریک کی قیادت بنت علی(ع) کے ہاتھ میں تھی. حضرت زینب(س) کو یہ ذمہ داری بھائی نے سونپی تھی اور امام(ع) نے اپنی وصایا کے ضمن میں تمام مسائل آپ کو سمجھا دیئے تھے. عصر عاشور جب سیدہ زینب(س) نے دیکھا کہ امام حسین(ع) خاک کربلا پر گرے ہوئے ہیں اور دشمنان دین نے آپ کے جسم مجروح کو گھیرے میں لیا ہوا اور آپ کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ خیمے سے باہر آئیں اور ابن سعد سے مخاطب ہوکر فرمایا:

“يابن سَعد! أَیُقتَلُ اَبُو عبد اللهِ وَأَنتَ تَنظُرُ اِلَيهِ؟”. (ترجمہ: اے سعد کا بیٹا! کیا ابو عبد اللہ (امام حسن(ع)) کو قتل کیا جارہا ہے اور تو تماشا دیکھ رہا ہے!).[33]
ابن سعد خاموش رہا اور زینب کبری(س) نے بآواز بلند پکار کر کہا: “وا اَخاهُ وا سَیِّداهُ وا اَهْلِ بَیْتاهْ ، لَیْتَ السَّماءُ اِنْطَبَقَتْ عَلَی الْاَرضِ وَ لَیْتَ الْجِبالُ تَدَکْدَکَتْ عَلَی السَّهْل”. (ترجمہ: آہ میرے بھائی! آہ میرے سید و سرور! آہ اے خاندان پیمبر(ص)! کاش آسمان زمین پر گرتا اور کا پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر صحراؤں پر گرجاتے).[34]

حضرت زینب(س) نے یہ جملے ادا کرکے تحریک کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا. آپ اپنے بھائی کی بالین پر پہنچیں اور آسمان کی طرف دیکھ کر بارگاہ رب متعال میں عرض گزار ہوئیں: “بار خدایا! یہ قربانی ہم سے قبول فرما![35]

آپ نے اس کے بعد صحرا میں شہداء کی شام غریبان کو دل دوز الفاظ اور جملات اور عزیزوں کی عزاداری اور یتیموں کی تیمارداری نیز نماز شب اور بارگاہ پروردگار میں راز و نیاز و مناجات کے ساتھ، بپا کردی اور اس غم بھری رات کو صبح تک پہنچایا.

سانچہ:سوگواری محرم

بھائی کی شہادت پر حضرت زینب(س) کا رد عمل
حضرت زینب(س) بھائی امام حسین(ع) کے جسم بےجان کے ساتھ کھڑے ہوکر مدینہ کی طرف رخ کیا اور دل گداز انداز ميں نوحہ گری کرتے ہوئے کہا:

“محمداه بناتك سبايا و ذريتك مقتلة تسفي عليهم ريح الصبا، و هذا الحسين محزوز الرأس من القفا مسلوب العمامة و الردا، بابي من اضحي عسكره في يوم الاثنين نهبا، بابي من فسطاطه مقطع العري، بابي من لا غائب فيرتجي و لا جريح فيداوي بابي من نفسي له الفدا، بابي المهموم حتي قضي، بابي العطشان حتي مضي، بابي من شيبته تقطر بالدماء، بابي من جده محمد المصطفي، بابي من جده رسول اله السماء، بابي من هو سبط نبي الهدي، بابي محمد المصطفي، بابي خديجة الكبري بابي علي المرتضي، بابي فاطمة الزهراء سيدة النساء، بابي من ردت له الشمس حتي صلي”.

ترجمہ: اے محمد یہ آپ کی بیٹیاں ہیں جو اسیر ہوکر جارہی ہیں. یہ آپ کے فرزند ہیں جو خون میں ڈوبے ہوئے اور زمین پر گرے ہوئے ہیں، اور صبح کی ہوائیں ان کے جسموں پر خاک اڑا رہی ہیں! (یا رسول اللہ!) یہ حسین ہے جس کا سر پشت سے قلم کیا گیا اور ان کے عمامے اور ردا کو لوٹ لیا گیا؛ میرا باپ فدہ ہو اس پر جس کی سپاہ روز دوشنبہ (سوموار) غارت کی گئی، میرا باپ فدا ہو اس پر جس کے خیموں کی رسیاں کاٹ دی گئیں! میرا باپ فدا ہو اس پر جو نہ سفر پر گیا ہے جس میں پلٹ کر آنے کی امید ہو اور نہ ہی زخمی ہے جس کا علاج کیا جاسکے! میرا باپ فدا ہو اس پر جس پر فدا ہو میری جان؛ میرا باپ فدا ہو اس پر جس کو غم و اندوہ سے بھرے دل اور پیاس کی حالت میں قتل کیا گیا؛ میرا باپ فدا ہو اس پر جس کی داڑھی سے خون ٹپک رہا تھا! میرا فدا ہو جس کا نانا رسول خدا(ص) ہے اور وہ پیامبر ہدایت(ص)، اور خدیجۃالکبری(س) اور علی مرتضی(ع)، فاطمۃالزہرا(س)، سیدة نساء العالمین کا فرزند ہے، میرا باپ فدا ہو اس پر وہی جس کے لئے سورج لوٹ کے آیا حتی کہ اس نے نماز ادا کی…[36] حضرت زینب(س) کے کلام اور آہ و فریاد نے دوست اور دشمن کو متاثر و مغموم کیا اور سب کو رلا دیا.[37]

حضرت زینب(س) كوفہ میں
عاشورا کے بعد اسیروں کو کوفہ لے جایا گیا اور وہاں بہت دلخراش انداز سے گھمایا پھرایا گیا؛ کوفہ میں آمد کے آغاز پر حضرت زینب(ع) نے اہل کوفہ سے مخاطب ہوکر خطبہ دیا اور اس خطبے نے تمام حاضرین و سامعین کو متاثر کردیا.

بُشربن خُزیم اسدی حضرت زینب(ع) کے خطبے کے بارے میں کہتا ہے:

اس دن میں زینب بنت علی(ع) کو دیکھ رہا تھا؛ خدا کی قسم میں نے کسی کو خطابت میں ان کی طرح باصلاحیت نہیں دیکھا؛ گویا امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب(ع) کی زبان سے بول رہی تھیں. آپ نے لوگوں کو جھاڑا اور فرمایا: “خاموش ہوجاؤ”، تو نہ صرف لوگوں کا وہ ہجوم خاموش ہوا بلکہ اونٹوں کی گھنٹیوں کی آواز آنا بھی بند ہوگئی.[38] حضرت زینب کا خطاب اختتام پذیر ہوا مگر اس خطاب نے کوفہ جوش و جذبے کی کیفیت سے دوچار کردیا تھا اور لوگوں کی نفسیاتی کیفیت بدل گئی تھی. راوی کہتا ہے: کہ علی(ع) کی بیٹی کے خطبے نے کوفیون کو حیرت زدہ کردیا تھا اور لوگ حیرت سے انگشت بدندان تھے.
خطبے کے بعد شہر میں [یزیدی] حکومت کے خلاف عوام بغاوت محسوس ہونے لگی چنانچہ لشکر کے سپہ سالار نے ظالمین کے خلاف انقلاب کا سد باب کرنے کے لئے روانہ کیا.[39]

حضرت زینب(س) دیگر اسیروں کے ہمراہ دارالامارہ میں داخل ہوئیں اور وہاں کوفہ کے [یزیدی حکمران] عبید اللہ بن زياد کے ساتھ مناظرہ کیا.[40]

حضرت زینب(س) کی تقریر نے عوام پر گہرے اثرات مرتب کئے اور خاندان اموی کو رسوا کردیا. اس کے بعد عبید اللہ بن زياد نے انہیں قید کرنے کا حکم دیا. کوفہ اور دارالامارہ میں حضرت زينب(س) کے خطبے نیز امام سجاد(ع)، ام کلثوم اور فاطمہ بنت الحسین، کے کلام نیز عبداللہ بن عفیف ازدی، زید بن ارقم کے اعتراضات نے کوفہ کے عوام کو جرأت دی اور ظلم کی حکومت کے خلاف قیام کا راستہ ہموار کردیا؛ کیونکہ عراقی حضرت زینب(س) کا خطبہ سننے کے بعد نادم و پشیمان ہوگئے اور راہ علاج ڈھونڈنے لگے. وہ کلنک کا یہ ٹیکہ یعنی خاندان رسول(ص) کے قتل کا بدنما داغ اپنی پیشانی سے مٹانے کا سوچنے لگے تھے اور تازہ جوش و جذبے کے ساتھ بالآخر مختار کے گرد اکٹھے ہوئے.

اسیران آل رسول(ص) شام میں
حضرت زینب(س) نے [[یزید بن معاویہ سے مخاطب ہوکر فرمایا: “فكد كيدك واسع سعيك وناصب جهدك فوالله لا يرحض عنك عار ما اتيت إلينا ابدا والحمد الذي ختم بالسعادة والمغفرة لسادات شبان الجنان فأوجب لهم الجنة اسال الله ان يرفع لهم الدرجات وان يوجب لهم المزيد من فضله فإنه ولي قدير”. (ترجمہ: تو جو بھی مکر و حیلہ کرسکتا ہے کرلے، اور [خاندان رسول(ص)] کے خلاف جو بھی سازشین کرسکتا ہے کرلے لیکن یاد رکھنا تو ہمارے ساتھ اپنا روا رکھے ہوئے برتاؤ کا بدنما داغ کبھی بھی تیرے نام سے مٹ نہ سکے گا، اور تعریفیں تمام تر اس اللہ کے لئے ہیں جس نے جوانان جنت کے سرداروں کو انجام بخیر کردیا ہے اور جنت کو ان پر واجب کیا ہے؛ خداوند متعال سے التجا کرتی ہوں کہ ان کی قدر و منزلت کے ستونوں کور رفیع تر کردے اور اپنا فضل کثیر انہيں عطا فرمائے؛ کیونکہ وہی صاحب قدرت مددگار ہے.[41].
واقعۂ کربلا کے بعد یزید نے ابن زیاد کو حکم دیا کہ حضرت زینب(س) کے اس قافلے کو شہیدوں کے سروں کے ہمراہ شام روانہ کرے. چنانچہ امام حسین(ع) کا خاندان شام روانہ ہوا.[42]

حکومت یزید کی پوریشن قیدیوں کی آمد کے وقت بہت مستحکم تھی؛ یہ (دمشق) وہ شہر تھا جہاں لوگ خاندان علی(ع) کا بغض اپنے سینوں میں بسائے ہوئے تھے؛ چنانچہ یہ کوئی حیرت کی بات نہ تھی کہ لوگوں نے اہل بیت رسول(ص) کی آمد کے وقت نئے کپڑے پہنے تھے اور شہر کو زینت دی تھ اور نوازندے بجا رہے تھے اور سرور و شادمانی کی کیفیت اس قدر لوگوں پر طاری ہوئی تھی کہ گویا پورا شام بحر سرور میں ڈوبا ہوا تھا.[43]

لیکن اسیروں کے اس قافلے نے مختصر سے عرصے میں حالات اپنے حق میں بدل دیئے. امام سجّاد(ع) اور حضرت زینب(س) نے شام میں جو خطبے دیئے اور جس صراحت و وضاحت کے ساتھ بنی امیہ کے جرائم کو بیان کیا ان کے نتیجے میں ایک طرف سے شامیوں کی اہل بیت دشمنی محبت اہل بیت(ع) میں بدل گئی اور دوسری طرف سے یزید کو عوامی غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑا اور یزید نے دیکھا کہ قتل حسین(ع) نے اس کی پوزیشن مستحکم کرنے کے بجائے اس کی حکومت کی بنیادوں پر کاری ضربیں لگائی ہیں.

قصر یزید میں
حضرت زینب(س) نے یزید سے مخاطب ہوکر فرمایا: “وسيعلم من بوأك ومكنك من رقاب المؤمنين إذا كان الحكم الله والخصم محمد صلی الله عليه وجوارحك شاهدة عليك فبئس للظالمين بدلا أيكم شر مكاناً واضعف جنداً مع اني والله يا عدوّ الله وابن عدوّه استصغر قدرك واستعظم تقريعك غير أن العيون عبری والصدور حری وما يجزي ذلك أو يغني عنا وقد قتل الحسين عليه السلام وحزب الشيطان يقربنا إلى حزب السفهاء ليعطوهم أموال الله على انتهاك محارم الله فهذه الأيدي تنطف من دمائنا وهذه الأفواه تتحلب من لحومنا وتلك الجثث الزواكي يعتامها عسلان الفلوات فلئن اتخذتنا مغنماً لتتخذن مغرماً حين لا تجد إلا ما قدمت يداك”. ترجمه: بہت جلد جان لے گا وہ ـ جس نے تجھے اس مسند پر بٹھایا ہے اور مؤمنوں کی گردنوں پر مسلط کیا ہے ـ کہ کون گھاٹے میں ہے اور خوار و بےیار و مددگار کون ہے. اس دن قاضی اللہ، مدعی مصطفی اور گواہ تیرے دست و پا ہونگے. اور ہاں اے دشمن خدا! اور دشمن خدا کا بیٹا! میں اسی وقت تجھے چھوٹا اور خوار و ذلیل سمجھتی ہوں اور تیری ملامتوں کے لئے کسی قدر و قیمت کی قائل نہيں ہوں. لیکن کیا کروں کہ آنکھیں گریاں اور سینے جلے ہوئے ہیں اور جو درد و رنج قتل حسین(ع) کی وجہ سے ہمارے دلوں میں بسا ہوا ہے، لاعلاج ہے. شیطان کی جماعت [یعنی ابن زیاد اور اس کی فوج] ہمیں سفیہوں اور فاترالعقل افراد کی جماعت [یعنی یزید اور اس کے گماشتوں] کے پاس روانہ کرتی ہے تا کہ وہ [یزید و آل یزید ] مال اللہ (بیت المال) میں سے اس کو خدا کے محارم کی بے توہین کا انعام و پاداش دے. ان جرائم پیشہ ہاتھوں سے ہمارا خود ٹپک رہا ہے اور یہ منہ ہمارے گوشت ے خون سے الودہ خون آلود ہیں اور یہ ہمارا گوشت ہے جو ہمارے دشمنوں کے منہ سے نکل رہا ہے؛ اور دشت کے بھیڑیئے[44] ہمارے شہیدوں کے پاک جسموں کے گرد گھوم رہے ہیں، اگر تو ہمیں بعنوان غنیمت پکڑتے ہو تو ہم اپنا تاوان ضرور وصول کریں گے اور اس دن تو کچھ نہ پائے گا سوا اپنے بھونڈے اعمال و کردار کے جو تو آگے بھیج چکا ہے.[45].
یزید نے ایک مجلس ترتیب دی جس میں اشراف اور عسکری و ملکی حکام شریک تھے.[46] اس نے اسیروں کی موجودگی میں [وحی، قرآن، رسالت و نبوت کے انکار پر مبنی] کفریہ اشعار کہے اور اپنی فتح کے گن گائے اور قرآنی آیات کی اپنے حق میں تاویل کی.[47] آپ کی نظر قصر یزید میں بھائی کے سر پر پڑی تو آپ نے بھائی حسین(ع) کو پکارا ہی نہیں بلکہ حاضرین سے آپ کا تعارف بھی کرایا؛ فرمایا: “يا حسيناه ! يا حبيب رسول الله ! يا ابن مكة ومنى ! يا ابن فاطمة الزهراء سيدة النساء ! يا ابن بنت المصطفى ! قال: فأبكت والله كل من كان في المجلس، ويزيد ساكت ثم جعلت امرأة من بني هاشم في دار يزيد تندب على الحسين عليه السلام وتنادي: واحبيباه ! يا سيد أهل بيتاه ! يا ابن محمداه ! يا ربيع الارامل واليتامى ! يا قتيل أولاد الادعياء ! قال: فأبكت كل من سمعها”. ترجمہ: اے حسین! اے رسول اللہ(ص) کے پیارے! اے مکہ و منی’ کے بیٹے! اے فاطمہ زہراء سیدة نساء کے بیٹے، اے مصطفی کی بیٹی کے نور چشم!، [راوی کہتا ہے] پس خدا کی قسم! آپ نے رلایا ہر اس شخص کو جو مجلس میں موجود تھا؛ اور یزید خاموش بیٹھا تھا. [48]

یزید نے اپنے ہاتھ میں ایک چھڑی سے فرزند رسول(ص) کے سر مبارک کی بےحرمتی کی.[49] اور پیغمبر خدا(ص) کی نسبت اپنی عداوت اور دشمنی کو آشکار کردیا. صحابی رسول(ص) ابو برزہ اسلمی نے یزید کو جھڑکتے ہوئے کہا: تو یہ چھڑی فاطمہ(س) کے فرزند کے دانتوں پر مار رہا ہے! ميں نے رسول اللہ(ص) کو حسین اور ان کے بھائی حسن کے ہونٹوں اور دانتوں کے بوسے لیتے ہوئے دیکھا ہے اور یہ کہ ان دو بھائیوں سے مخاطب ہوکر فرماتے تھے: “أَنْتُما سَيِّدا شَبابِ أهْلِ الْجَنَّةِ، فَقَتَلَ اللهُ قاتِلَكُما وَلَعَنَهُ، وَأَعَدَّ لَهُ جَهَنَّمَ َوساءَتْ مَصيراً”. ترجمہ: تم دونوں جوانان جنت کے سردار ہو ، جو تمہیں قتل کرے، خدا اس کو قتل کرے اور اس پر لعنت کرے اور اس کے لئے جہنم کا ٹھکانا آمادہ کرے اور کیا برا ٹھکانا ہے جہنم کو آمادہ کرے اور وہ بہت خراب جگہ ہے. [50] اس کے کہے ہوئے اشعار کا مضمون و مفہوم یہ تھا:

كاش میرے قبیلے کے سردار جو بدر میں مارے گئے، آج زندہ ہوتے اور دیکھ لیتے کہ خزرج کا قبیلہ کس طرح ہماری شمشیروں سے بےچین ہوکر آہ و نالہ پر اترے آیا؛ تا کہ وہ خوشی کے مارے چیخ اٹھتے اور کہتے اے یزید تیرے ہاتھ شلّ نہ ہوں! ہم نے بنو ہاشم کے بزرگوں کو قتل کیا اور اس کو جنگ بدر کے کھاتے میں ڈال دیا اور [ان کی] اِس فتح کو اُس شکست کا بدلہ قرار دیا. ہاشم حکومت سے کھیلا ورنہ نہ آسمان سے کوئی خبر آئی تھی اور نہ اس وحی نازل ہوئی تھی!.[51] میں خُندُف[52] کی نسل نہ ہونگا اگر احمد کے فرزندوں سے انتقام نہ لوں.
اچانک سیدہ زینب(س) مجلس کے گوشے سے یزید کی گستاخیوں کا جواب دینے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں اور بلیغ انداز سے خطبہ دیا اور اس خطبے نے یزید کے قصر خضرا میں امام حسین(ع) کی حقانیت اور یزیدی اعمال کے بطلان کو واضح و آشکار کردیا.

خطبے کے بعض اقتباسات
سیدہ زينب(س) نے حمد و ثنائے الہی و رسول و آل رسول پر درود وسلام کے بعد فرمایا:
اما بعد ! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنا دامن برائیوں سے داغدار کیا، اپنے رب کی آیتوں کو جھٹلایا اور ان کا مذاق اڑایا.
اے یزید کیا تو سمجھتا ہے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے لیپٹ سمیٹ کرکے ہمارے لئے تنگ کردیئے ہیں؛ اور آل رسول(ص) کو زنجیر و رسن میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو درگاہ رب میں سرفراز ہوا ہے اور ہم رسوا ہوچکے ہیں؟ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کرکے تو نے خدا کے ہاں شان ومنزلت پائی ہے؟ تو آج اپنی ظاہری فتح کے نشے میں بدمستیاں کررہا ہے، اپنے فتح کی خوشی میں جش منا رہا ہے اور خودنمایی کررہا ہے؛ اور امامت و رہبری کے مسئلے میں ہمارا حقّ مسلّم غصب کرکے خوشیاں منارہا ہے؛ تیری غلط سوچ کہیں تجھے مغرور نہ کرے، ہوش کے ناخن لے کیا تو اللہ کا یہ ارشاد بھول گیا ہے کہ: “بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟. آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے ، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے . اور زمامداری[خلافت] کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے . اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور هوش کی سانس لے . کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ “وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُواْ إِثْماً وَلَهْمُ عَذَابٌ مُّهِينٌ”.
ترجمہ: اور یہ کافر ایسا نہ سمجھیں کہ ہم جو ان کی رسی دراز رکھتے ہیں یہ ان کے لیے کوئی اچھی بات ہے ہم تو صرف اس لیے انکی رسی دراز رکھتے [اور انہیں ڈھیل دیتے] ہیں.[53].[54]
اس کے بعد فرمایا :
أَ مِنَ الْعَدْلِ يَابْنَ الطُّلَقاءِ! تَخْدِيرُكَ حَرائِرَكَ وَإِمائَكَ، وَ سَوْقُكَ بَناتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم سَبايا، قَدْ هَتَكْتَ سُتُورَهُنَّ، وَأَبْدَيْتَ وُجُوهَهُنَّ، تَحْدُو بِهِنَّ الاَْعداءُ مِنْ بَلد اِلى بَلد، يَسْتَشْرِفُهُنَّ أَهْلُ الْمَناهِلِ وَالْمَناقِلِ، وَيَتَصَفَّحُ وُجُوهَهُنَّ الْقَرِيبُ وَالْبَعِيدُ، وَالدَّنِيُّ وَ الشَّرِيفُ، لَيْسَ مَعَهُنَّ مِنْ رِجالِهِنَّ وَلِيُّ، وَلا مِنْ حُماتِهِنَّ حَمِيٌّ، وَكَيْفَ يُرْتَجى مُراقَبَةُ مَنْ لَفَظَ فُوهُ أَكْبادَ الاَْزْكِياءِ، وَنَبَتَ لَحْمُهُ مِنْ دِماءِ الشُّهَداءِ، وَكَيْفَ يَسْتَبْطِأُ فِي بُغْضِنا أَهْلَ الْبَيْتِ مَنْ نَظَرَ إِلَيْنا بِالشَّنَفِ وَ الشَّنَآنِ وَالاِْحَنِ وَالاَْضْغانِ، ثُمَّ تَقُولُ غَيْرَ مُتَّأَثِّم وَلا مُسْتَعْظِم: لاََهَلُّوا و اسْتَهَلُّوا فَرَحاً *** ثُمَّ قالُوا يا يَزيدُ لا تَشَلْ
مُنْتَحِياً عَلى ثَنايا أَبِي عَبْدِاللهِ سَيِّدِ شَبابِ أَهْلِ الجَنَّةِ، تَنْكُتُها بِمِخْصَرَتِكَ، وَكَيْفَ لا تَقُولُ ذلِكَ وَ قَدْ نَكَأْتَ الْقَرْحَةَ، وَاسْتَأْصَلْتَ الشَّأْفَةَ بِإِراقَتِكَ دِماءَ ذُرّيَةِ مُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، وَنُجُومِ الاَْرْضِ مِنْ آلِ عَبْدِالمُطَّلِبِ، وَتَهْتِفُ بِأَشْياخِكَ، زَعَمْتَ أَنَّكَ تُنادِيهِمْ، فَلَتَرِدَنَّ وَ شِيكاً مَوْرِدَهُمْ وَلَتَوَدَّنَّ أَنَّكَ شَلَلْتَ وَ بَكِمْتَ، وَلَمْ تَكُنْ قُلْتَ ما قُلْتَ وَفَعَلْتَ ما فَعَلْتَ.
ترجمہ: اے طلقاء (آزاد کردہ غلاموں) کے بیٹے کیا یہ انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو پردے میں بٹها رکھا ہے اور رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے. تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کی. تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا . تیرے حکم پر دشمنان خدا، اہل بیت رسول(ص) کی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے. اورلوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے لوگ سب ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں. ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بی بیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں. آج رسول زادیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے. آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں. آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے.
اس شخص سے بھلائی کی کیا توقع ہی کیا ہو سکتی ہے جس کی ماں (یزید کی دادی) نے پاکیزہ لوگوں حمزہ بن عبدالمطلب(ع) کا جگر چبایا ہو. اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس نے شہیدوں کا خون پی رکها ہو. وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ہمیں دیکھتا ہے.
اے یزید! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ “آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں!
اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علی(ع) کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی شان میں بے ادبی کر رہا ہے!
اے یزید، تو کیوں خوش نہ ہوگا اور تو فخر و مباہات کے قصیدے نہ پڑھےگا جبکہ تو نے اپنے ظلم و استبداد کے ذریعے فرزند رسول خدا اور عبدالمطلب کے خاندان کے ستاروں کا خون بہا کر ہمارے دلوں پر لگے زخموں کو گہرا کردیا ہے اور کی جڑیں کاٹنے کے گھناونے جرم کا مرتکب ہوا ہے! تو نے اولاد رسول کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لئے ہیں.
تو نے خاندان عبد المطلب کے ان نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا ہے جن کی عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمین کے گوشے گوشے کو منور کیے ہوئے ہیں.
آج تو آلِ رسول کو قتل کر کے اپنے بد نہاد[برے] اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے. تو سمجھتا ہے کہ وہ تیری آواز سن رہے ہیں؟ ! (جلدی نه کر) عنقریب تو بهی اپنے ان کافر بزرگوں سے جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا.
اس کے بعد آسمان کی طرف رخ کرکے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا!
“أَللّهُمَّ خُذْ بِحَقِّنا، وَانْتَقِمْ مِنْ ظالِمِنا، وَأَحْلِلْ غَضَبَكَ بِمَنْ سَفَكَ دِماءَنا، وَقَتَلَ حُماتَنا، فَوَاللهِ ما فَرَيْتَ إِلاّ جِلْدَكَ، وَلا حَزَزْتَ إِلاّ لَحْمَكَ، وَلَتَرِدَنَّ عَلى رَسُولِ اللهِ بِما تَحَمَّلْتَ مِنْ سَفْكِ دِماءِ ذُرِّيَّتِهِ، وَانْتَهَكْتَ مِنْ حُرْمَتِهِ فِي عَتْرَتِهِ وَ لُحْمَتِهِ، حَيْثُ يَجْمَعُ اللهُ شَمْلَهُمْ، وَيَلُمُّ شَعْثَهُمْ، وَيَأْخُذُ بِحَقِّهِمْ (وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتاً بَلْ أَحْيَاء عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ)”. [55] وَحَسْبُكَ بِاللهِ حاكِماً، وَبِمُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ خَصِيماً، وَبِجَبْرَئِيلَ ظَهِيراً، وَسَيَعْلَمُ مَنْ سَوّى لَكَ وَمَكَّنَكَ مِنْ رِقابِ المُسْلِمِينَ، “بِئْسَ لِلظّالِمِينَ بَدَلاً”.[56]، “وَأَيُّكُمْ شَرٌّ مَكاناً، وَأَضْعَفُ جُنْداً”. [57] اے ہمارے پروردگار، تو ہمارا حق اور ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے؛ اے پرودگار! تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے . اور اے خدا! تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کیا. اے یزید ! (خدا کی قسم) تو نے جو ظلم کیا ہے یه تو نے اپنے اوپر کیا ہے؛ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کر دی ہے؛ اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹ رکھا ہے. تو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناونے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا. نیز رسول کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا!؟
اے یزید ! یاد رکھ کہ خدا، آلِ رسول کا تجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انہیں دلائے گا . اور انہیں امن و سکون کی نعمت سے مالامال کر دے گا . خدا کا فرمان ہے کہ تم گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہِ خدا میں مارے گئے وہ مر چکے ہیں . بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پا گئے اور بارگاہِ الٰہی سے روزی پا رہے ہیں . “اور انہیں جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں، ہرگز مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں ، اپنے پروردگار کے یہاں رزق پاتے ہیں”.
اے یزید ! یاد رکھ کہ تو نے جو ظلم آلِ محمد پر ڈھائے ہیں اس پر رسول خدا ، عدالتِ الٰہی میں تیرے خلاف شکایت کریں گے . اور جبرائیلِ امین آلِ رسول کی گواہی دیں گے . پھر خدا اپنے عدل و انصاف کے ذریعه تجھے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا . اور یہی بات تیرے برے انجام کے لئے کافی ہے .
عنقریب وہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے جنہوں نے تیرے لئے ظلم و استبداد کی بنیادیں مضبوط کیں اور تیری آمرانہ سلطنت کی بساط بچھا کر تجھے اہل اسلام پر مسلط کر دیا . ان لوگوں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ “کیا برا بدل (انجام) ہے یہ ظالموں کے لیے” ستمگروں کا انجام برا ہوتا ہے اور کس کے ساتھی ناتوانی کا شکار ہیں.
خطبے کے فوری اثرات
مجلس یزید میں حضرت زينب(س) کا منطقی اور نہایت بلیغ اور معقول خطبہ اگرچہ تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لئے ثبت ہوا تاہم دربار یزید میں اس کے فوری اثرات بھی دیدنی تھے؛ حاضرین بہت زيادہ متاثر ہوئے یہاں تک کہ یزید اسیروں کو کچھ مراعات دینے پر مجبور ہوا اور رد عمل کے خوف سے کسی قسم کا سخت جواب دینے سے پرہیز کیا.[58]
[یہاں تک کہ اس وقت تک استبدادیت کے ساتھ آل رسول(ص) کے ساتھ بدترین سلوک کرنے والے] یزید نے اپنے حاشیہ برداروں سے اسیروں کے بارے میں صلاح مشورے شروع کئے. گوکہ بعض امویوں نے کہا کہ “ان سب کو یہیں قتل کردو” لیکن نعمان بن بشیر نے مشورہ دیا کہ “ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرو”.[59]
حضرت زینب [نیز امام سجاد(ع)] کے حقائق سے بھرپور خطبے کے بعد یزید نے مجبور ہوکر اپنے تمام جرائم کی ذمہ داری اپنے گورنر ابن زیاد پر ڈال دی اور اس پر لعنت و نفرین کردی؛[60] لیکن مشہور سنی مؤرخ کی روایت کے مطابق ان واقعات کے بعد يعني ابن زیاد کو اپنے پاس بلایا اور اس کا رتبہ بڑھایا اور اس کو اموال کثیر عطا کئے اور بیش بہاء تحائف سے نوازآ اور اس کو قرب منزلت دیا اور اپنی عورتوں کے پاس بٹھایا اور اس کے ساتھ بیٹھ شراب نوشی میں مصروف رہا…[61]

بہرحال یزید نے بامر مجبوری اہل بیت(ع) کو شام میں اپنے شہیدوں کے لئے عزاداری کی اجازت دی. آل ابی سفیان کی عورتیں منجملہ یزید کی زوجہ ہند بنت عبد اللہ (بن عامر) خرابہ میں اہل بیت(ع) کے ہاں حاضر ہوئیں. وہ اہل بیت(ع) کی خواتین کے پاؤں کے بوسے لے رہی تھیں اور گریہ و زاری کررہی تھیں اور تین دن تک عزاداری میں مصروف رہیں.[62]
آخر کار یزید کے خوف [63]) کے بموجب خاندان رسالت تکریم و احترام کے ساتھ مدینہ روانہ ہوا.[64]

…….

ماہ رجب کے پندرواں دن کے اعمال

غسل کرنا
زیارت امام حسین(ع)
نماز سلمان پڑھنا
4رکعت نماز جس میں سلام دینے کے بعد یہ دعا پڑھی جائے: اَللّهمَّ یا مُذِلَّ کلِّ جَبّارٍ ؛ وَ یا مُعِزَّ الْمُؤْمِنینَ اَنْتَ کهفی حینَ تُعْیینِی الْمَذاهبُ؛ وَ اَنْتَ بارِئُ خَلْقی رَحْمَةً بی‌وَ قَدْ کنْتَ عَنْ خَلْقی غَنِیاً وَ لَوْ لا رَحْمَتُک لَکنْتُ مِنَ الْهالِکینَ وَ اَنْتَ مُؤَیدی بِالنَّصْرِ عَلی اَعْداَّئی وَ لَوْ لا نَصْرُک اِیای لَکنْتُ مِنَ الْمَفْضُوحینَ یا مُرْسِلَ الرَّحْمَةِ مِنْ مَعادِنِها وَ مُنْشِئَ الْبَرَکةِ مِنْ مَواضِعِها یا مَنْ خَصَّ نَفْسَه بِالشُّمُوخِ وَالرِّفْعَةِ فَاَوْلِیاَّؤُه بِعِزِّه یتَعَزَّزُونَ وَ یا مَنْ وَضَعَتْ لَه الْمُلُوک نیرَ الْمَذَلَّةِ عَلی اَعْناقِهمْ فَهمْ مِنْ سَطَواتِه خاَّئِفُونَ اَسئَلُک بِکینُونِیتِک الَّتِی اشْتَقَقْتَها مِنْ کبْرِیاَّئِک وَ اَسئَلُک بِکبْرِیاَّئِک الَّتِی اشْتَقَقْتَها مِنْ عِزَّتِک وَ اَسئَلُک بِعِزَّتِک الَّتِی اسْتَوَیتَ بِها عَلی عَرْشِک فَخَلَقْتَ بِها جَمیعَ خَلْقِک فَهمْ لَک مُذْعِنُونَ اَنْ تُصَلِّی عَلی مُحَمَّدٍ وَ اَهلِ بَیتِه۔
عمل ام داود

تبصرے
Loading...