حضرت امام رضا علیہ السلام کی زوجۂ گرامی

(خوشبوئے مریم کی یادگار)
ایک خوبصورت نگین کی طرح کی چمک دمک۔رفتار و گفتار میں سنجیدگی و صداقت مکمل طور پر نمایاں۔اس معزز خاتون کا کلام دریاؤں کی امواج کی سطح پر جاری و ساری نسیم کی مانند تھا اور ہر کہیں بُوئے ایمان، امید اور زندگی کے پیغام پہنچا رہا تھا۔خدا کے رسول،رسولوں کے سرداد حبیبِ خُدا حضرت احمد مختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جوبات بھی اپنے لب ہائے مبارک پر لاتے اس میں عظیم حکمت اور گہرے معانی پوشیدہ ہوتے تھے۔
اُس روز بھی اپنے بعض اصحاب کے ساتھ تشریف فرماتھے کہ جب حضور کا غُنچۂ لب اس طرح سے شگفتہ ہوا:میرا باپ بہترین کنیز کے فرزند ارجمند پر نثار!وہ کنیز جو اہل نوبہ۔مصر کے نزدیک ایک جگہ۔میں سے ہوگی اور اس کا تعلق ماریہ قبطیہ کے قبیلے سے ہوگا،وہ ایک پاکیزہ فطرت والی خاتون ہوگی۔
محضر میں موجود حاضرین میں سے ایک نے اپنے ساتھ والے سے پوچھا:یعنی رسولِ خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمسر گرامی(ماریہ قبطیہ)کے قبیلہ سے!
دوست نے تصدیق و تائید میں اپنا سر ہلاتے ہوئے کہا:ہاں بھائی ایسا ہی ہے۔
اُس شخص نے دوبارہ پوچھا:اچھا تو یہ تعریف کس کی ہورہی ہے؟
دوست نے جواب دیا:کوئی خاص فرد لگ رہا ہے جس کی طرف اشارہ ہورہا ہے۔واقعاً یہ عظیم المرتبت خاتون کون ہوسکتی ہے؟بہتر ہے ہم خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سے پوچھیں۔۔۔۔۔
شاید اُس روز کوئی نہیں جانتا تھا کہ حضرت پیغمبر اسلام کی یہ پیش گوئی ان کے اس فرزند ارجمند کی ہمسر گرامی کے بارے میں ہے جو جہان کے شیعوں کے آٹھویں امام علیہ السلام ہوں گے اور دسیوں برس کے بعد یہ پیش گوئی واقع ہوگی اور خیزران یا سبیکہ خاتون وہ کمال و فضیلت والی اپنے زمانے کی بہترین خاتون بوستانِ محمدی(ص) کے آٹھویں گل حضرت امام رضا علیہ السلام کی زوجیت میں آئیں گی اور ایک مدت کے بعد اُن کی بابرکت زندگی حضرت امام محمدتقی الجواد علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی ملکوتی خوشبو سے معطر ہوکر مزید سبز و خرم ہو جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راوی نقل کرتا ہے:میں یزید ابن سلیط حضرت امام موسيٰ کاظم علیہ السلام کے شاگردوں اور اصحاب میں سے ہوں ۔ایک دفعہ سفر میں،مکہ اور مدینہ کے درمیان امام ہفتم علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی،احوال پرسی کے بعد حضرت کی خدمت میں عرض کی:ایک مدت سے ایک سوال میرے ذہن میں موجود ہے۔
امام علیہ السلام نے کمال محبت سے ایک تبسم کے ساتھ فرمایا:اے یزید ابن سلیط!کس سوال نے تمہارا ذہن مشغول کررکھا ہے؟میں نے کہا:میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کے جانشین کون ہوں گے؟
امام علیہ السلام نے سرمبارک ہلایا،محبت سے میرا ہاتھ دبایا اور ناقابل وصف حوصلہ کے ساتھ میرا مفصل جواب مرحمت کرنے کے بعد فرمایا:کیا جانتے ہو؟اس سال مجھے گرفتار کرلیں گے اور میرے بعد امامت کے فرائض میرے فرزند علی رضا علیہ السلام کے سپرد ہوں گے۔امام موسيٰ کاظم علیہ السلام اس وقت گویا ایک دُور دراز نقطے کی طرف متوجہ ہوئے اور مزید فرمایا:میرے فرزند‘‘رضا” (ع) کو خوشخبری دینا اور اُن سے کہنا کہ عنقریب خداوندمتعال ایک پاک،امین اور لائق اعتماد فرزند انہیں عطا فرمائے گا۔(جب یہ خوشخبری میرے فرزند کو دوگے تو)اس وقت میرا فرزند تمہیں خود بتلائے گا کہ تم نے مجھے کہاں دیکھا ہے پس اس موقع پر انہیں یہ بتادینا کہ ان کے فرزند۔امام جواد علیہ السلام۔ کی والدہ گرامی حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمسر ماریہ قبطیہ کے خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک کنیز ہوگی۔
اس کے بعد امام کاظم علیہ السلام نے میرے چہرے کی طرف دیکھا اور تأکید سے فرمایا:اگر تمہارے لیے ممکن ہوا تو اس بانو(خاتون)کو بھی میرے سلام پہنچادینا۔
خداوند کے فضل سے امام رضا علیہ السلام کی پاک و پاکیزہ ہمسر ‘‘خیزران” کے وجود سے آگاہ ہوا اور پھر معلوم ہوا کہ یہ بانو نہایت پاکدامن،مہربان اور انسانی و اخلاقی بہترین فضائل رکھنے والی خاتون ہیں۔اور اس طرح پہلے سے زیادہ حضرت امام ہفتم علیہ السلام کے سلام اور پیغام کی اہمیت سمجھ میں آرہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے بھائی امام رضا علیہ السلام نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا:
میری بہن حکیمہ!آج رات ہمارے گھر ٹھہریں۔
میں نے کہا:بہت اچھا،جیسا آپ فرمائیں۔
میں خیزران کے پاس چلی گئی۔۔۔۔اس رات حضرت جواد علیہ السلام کی آمد اور ولادت با سعادت سے گویا اس گھر کو چار چاند لگ گئے۔میرے بھائی امام رضا علیہ السلام ہمارے پاس تشریف لائے، نوزاد کو اُٹھایا۔۔۔۔۔گہوارے میں نومولود کو لِٹایا اور مجھ سے فرمایا:خواہر جان! یہیں بچے کے پاس ٹھہریں اور۔۔۔۔ہاں ابھی تین دن میلاد سے زیادہ نہیں گذرے تھے کہ میں نے دیکھا نومولود آسمان کی طرف غور سے دیکھ رہے ہیں پھر دائیں اور بائیں طرف نگاہیں ڈالیں اور کہا:
”میں گواہی دیتا ہوں کہ خُدائے واحد کے سواکوئی پروردگار وجود نہیں رکھتا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے بھیجے ہوئے برحق پیغمبر ہیں‘‘۔
آخر حیران و متعجب امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں پہنچی اور جو کچھ دیکھا اور سنا تھا، ان کے سامنے عرض کردیا۔میرے بھائی نے ایک تبسم کے ساتھ فرمایا:حکیمہ!تعجب نہیں کریں۔اس نوزاد کے عجائبات اس سے کہیں زیادہ ہیں جو آپ بتلارہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت امام رضا علیہ السلام کے چند اصحاب حضرت کی زیارت کیلیے آئے ہوئے تھے،حضرت امام جواد علیہ السلام کی ولادت باسعادت سے کچھ دن گذرے تھے،اصحاب بیٹھے ہوئے تھے اور مختلف موضوعات پر گفتگو کررہے تھے،حضرت کی خدمت میں اپنی عقیدت وارادت کا اظہار کررہے تھے،اپنی مشکلات پیش کررہے تھے،اپنے علمی مسائل پوچھ رہے تھے اور امام ہشتم علیہ السلام حوصلہ و مہربانی کے ساتھ ان کے جوابات مرحمت فرمارہے تھے جب سب مطالب واضح ہوگئے ،اصحاب خاموش ہونے لگے،حضرت امام رضا علیہ السلام نے ایک مرتبہ پھر اصحاب کی طرف رُخ انور کیا جبکہ خوشی و مسرت کی شدت سے حضرت کا چہرۂ اقدس رشكِ برق ہورہا تھا؛فرمایا: ہاں زیادہ وقت نہیں ہوا ہے کہ خداوندمتعال نے مجھے ایک فرزند عطا فرمایا ہے جو موسيٰ ابن عمران کی طرح دریاؤں کو شکافتہ کرنے والا ہے،یہ میرا فرزند ایک نیک فطرت اور پاکدامن مادر سے ہے،اس فرزند کی والدہ پاکیزگی و قداست میں حضرت مریم کی طرح ہیں۔

تبصرے
Loading...