حسین میرا حسین تیرا(آخری حصّہ)

 

 

 

حسین میراحسین تیرا (حصہ آخر)

 

 مصنف:

نگہت نسیم

پیغمبر(ص)واھل بیت(ع)> امام حسین(علیہ السلام)

ویب صفحات>عالمی اخبارسائیٹ

 

خلاصہ :

 

سيد الشہدا کا بہايا گيا خونِ ناحق تاريخ ميں ہميشہ محفوظ ہے، چونکہ شہيد يعني وہ شخص جو اپني جان کو خلوص کے طبق ميں رکھ کر دين کے بلند ترين اہداف کيلئے پيش کرتا ہے اور ايک خاص قسم کي صداقت اور نورانيت کا حامل ہوتا ہے۔ کوئي کتنا ہي بڑا کاذب و مکار کيوں نہ ہو اور اپني زبان و بيان سے خود کو حق کا کتنا ہي بڑا طرفدار بناکر کيوں نہ پيش کرے ليکن جب اُس کے شخصي منافع خصوصاً جب اُس کي اور اُس کے عزيز ترين افراد کي جان خطرے ميں پڑتي ہے تو وہ پيچھے ہٹ جاتا ہے اور کسي بھي قيمت پر حاضر نہيں ہوتا کہ اُنہيں قربان کرے۔

 

 

 

متن:

 

قیام کربلا اور تحریک حسینی کے روحانی پہلو 

 

سيد الشہدا کا بہايا گيا خونِ ناحق تاريخ ميں ہميشہ محفوظ ہے، چونکہ شہيد يعني وہ شخص جو اپني جان کو خلوص کے طبق ميں رکھ کر دين کے بلند ترين اہداف کيلئے پيش کرتا ہے اور ايک خاص قسم کي صداقت اور نورانيت کا حامل ہوتا ہے۔ کوئي کتنا ہي بڑا کاذب و مکار کيوں نہ ہو اور اپني زبان و بيان سے خود کو حق کا کتنا ہي بڑا طرفدار بناکر کيوں نہ پيش کرے ليکن جب اُس کے شخصي منافع خصوصاً جب اُس کي اور اُس کے عزيز ترين افراد کي جان خطرے ميں پڑتي ہے تو وہ پيچھے ہٹ جاتا ہے اور کسي بھي قيمت پر حاضر نہيں ہوتا کہ اُنہيں قربان کرے۔

 

ليکن وہ شخص جو ايثار و وفا کے ميدان ميں قدم رکھتا ہے اور مخلصانہ طور پر اپني تمام ہستي کو راہ الٰہي ميں پيش کرتا ہے تو ’’حق? عَلَي اللّٰہِ‘‘ تو اُس کا خدا پر حق ہے يعني خدا اپنے ذمہ ليتا ہے کہ اُسے اور اُس کي ياد کوزندہ رکھے۔ ’’وَلاَ تَقُولُوا لِمَن يُّقتَلُ فِي سَبِيلِ اللّٰہِ اَموات?‘‘ ،’’ جو خدا کي راہ ميں مارا جائے اُسے مردہ نہ کہو‘‘: ’’وَلَا تَحسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللّٰہِ اَموَاتًا بَل اَحيَآئ?‘‘ ،’’جو لوگ خدا کي راہ ميں قتل کرديے جائيں اُنہيں ہرگز مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہيں‘‘؛

 

شہيد في سبيل اللہ زندہ رہتے ہيں۔ اُن کے زندہ رہنے کا ايک پہلو يہي ہے کہ اُن کي نشانياں اور قدموں کے نشان، راہِ حق سے کبھي نہيں مٹتے اور اُن کا بلند کيا ہوا پرچم کبھي نہيں جھکتا۔ ممکن ہے چند روز کيلئے ظلم و ستم اور بڑي طاقتوں کي مداخلت کي وجہ سے اُن کي قر با ني کے رنگ کو پھيکا کر ديں۔

 

ليکن خداوند عالم نے قانونِ طبيعت کو اِسي طرح قرار ديا ہے اور خدا کي سنت اور قانون يہ ہے کہ پاک و پاکيزہ اور صالح و مخلص افراد کا راستہ ہميشہ باقي رہے۔ خلوص بہت ہي عجيب چيز ہے لہٰذا يہي وجہ ہے کہ امام حسين کي ذات گرامي ،اُن کے اور اُن کے اصحابِ با وفا کے بہائے گئے خونِ ناحق کي برکت سے آج دنيا ميں دين باقي ہے اور تاقيامت باقي رہے گا۔

 

واقعہ کربلا سے پیشتر آپ نے فرمايا ’’اَللَّھُمَّ اِنَّکَ تَعلَمُ اَنَّہُ لَم يکُن مِنَّا تَنَافُسًا سُلطَانِ وَلَا التِمَاسًا مِن فُضُولِ الحُطَامِ‘‘ ١ ’’پروردگارا! يہ تحريک جو ہم نے چلائي ہے، جس امر کیلئے قيام کيا اورجس ميں تجھ سے فيصلے کے طالب ہيں تو جانتا ہے کہ يہ سب ا قتدارکي خواہش کيلئے نہيں ہے؛ اقتدار کي خواہش ايک انسان کيلئے ہدف نہيں بن سکتي اور نہ ہي ہم چاہتے ہيں کہ زمام قدرت کو اپنے ہاتھ ميں ليں؛ نہ ہي ہمارا قيام دنيوي مال و منال کے حصول کيلئے ہے کہ اُس کے ذريعہ سے دنيوي لذتوں سے لُطف اندوز ہوں، شکم پُري کے تقاضے پورے کريں اور مال ودولت جمع کريں؛اِن ميںسے کوئي ايک بھي ہمارا ہدف و مقصد نہيں ہے‘‘۔

 

سيد الشہدا اپنے قيام کربلا کو خود ھی بیان فرماتے ھیں کہ یہ تاريخ اسلام کي تبليغ کا مقصد تھا، ’’ وَلٰکِن لِنُرِيَ المَعَالِمَ مِن بحار الانوار ج١٠٠، ص ٧٩دِينِکَ‘‘ ١ ، ’’ہم تيرے دين کي نشانيوں کو واضح اور آشکار کرنا چاہتے ہيںاور دين کي خصوصيات کو لوگوں کيلئے بيان کرنے کے خواہاں ہيں‘‘۔

اِن خصوصيات کا بيان بہت اہم ہے؛ شيطان ہميشہ ديندار افراد کي گمراہي کيلئے غير مر ئي و غير محسوس انحراف کا راستہ اپناتا ہے اور صحيح راہ کو اِس انداز سے غلط بناکر پيش کرتا ہے( کہ ابتدائي مرحلے ميں اگر انسان بصيرت کا ما لک نہ ہو تووہ اُس کي تشخيص نہيں کو سکتا) ۔

 

اگر اُس کا بس چلے تو يہ کہتا ہے کہ ’’دين کو چھوڑ دو‘‘؛ اگر اُس کے امکان ميں ہوتو يہ کام ضرور انجام ديتا ہے اور يوں شہوت پرستي اور اپنے غلط پروپيگنڈے کے ذريعہ لوگوں کے ايمان کو اُن سے چھين ليتا ہے اور اگر يہ کام ممکن نہ ہو تو دين کي نشانيوں کوہي بدل ديتا ہے۔

 

تاريخ ميں ہميشہ کيلئے باقي رہنے والي اِس حسيني ٴتحريک کو تين پہلووں سے ديکھا جاسکتا ہے اور اِن تين پہلووں ميں سے جو پہلو سب سے زيادہ جلوہ افروز ہے وہ عزت و سربلندي اور افتخار کا پہلو ہے۔

 

١۔ انقلابي تحريک ميں عزت و سربلندي کا عنصر

 

امام حسين کي تحريک وقيام کي پہلي جہت ميں کہ جہاں امام ٴ نے ايک انقلابي تحريک کي بنياد رکھي، عزت و سربلندي موجزن ہے ؛سيد الشہدا کے مدمقابل کون تھا؟ آپ کے مد مقابل ايسي ظالم و فاسق حکومت تھي کہ جو ’’يَعمَل فِي عِبَادِاللّٰہِ بِالاِثمِ وَالعُدوَان‘‘ ،جو معاشرے ميںگناہ و سرکشي سے حکو مت کر رہي تھي۔اُس معاشرے کي حالت يہ تھي کہ پورا معاشرہ اُس ظالم حکومت کے پنجوں ميں جکڑا ہوا تھا اور جہاں بندگانِ خدا پرظلم و ستم ، غرور و تکبر اور خود خواہي اور خود پرستي کي بنيادوں پر حکومت کي جاتي تھي، لوگوں کے ايمان و معنويت اور اُن کے انساني حقوق کا ذرا سا بھي خيال نہيں رکھا جاتا ہے، برسر اقتدار طبقہ نے اسلامي حکومت کو ظہوراسلام سے قبل دنيا ميں موجود طاغوتي حکومتوں ميں تبديل کرديا تھاجبکہ ايک اسلامي نظام کي اہم ترين خصوصيت،اُس کي ’’عادلانہ حکومت ‘‘ہے اور اُس تصوّراتي معاشرے (مدينہ فاضلہ)کے خدوخال کہ جسے اسلام شکل و صورت دينا چاہتا تھا،حکومت کے طرز عمل اور حاکم وقت کے رويے سے تعلق رکھتے ہيں۔

 

امام حسين سے بيعت کے مطالبے کي حقيقت!

 

حضرت امام حسين کے زمانے ميں امامت کو اِسي قسم کے نظام حکومت ميں تبديل کرديا گيا تھا کہ’’ يَعمَلُ فِي عِبَادِاللّٰہِ بِالاِثمِ وَالعُدوَانِ‘‘ ؛ ظلم و ستم اور گناہ کے ذريعہ لوگوں پر حکومت کي جارہي تھي اور حضرت امام حسين نے اِن بدترين حالات سے مقابلہ کيا۔آپ کي جنگ مسلمانوں کو آگاہ کرنے،حقائق کو روشن و واضح کرنے، لوگوں کي ہدايت اور يزيد يا اُس سے قبل کے زمانوںکے حق و باطل کي درمياني حد کو مشخص کرنے کي جنگ تھي۔ 

 

فرق يہ ہے کہ جو کچھ يزيد کے زمانے ميں وقوع پذير ہوا وہ يہ تھا کہ وہ ظلم ، فاسق اور گمراہ حاکم اِس موقع کے انتظار ميں تھا کہ امام حسين جيسا ہدايت کا ہادي اور راہنمااُس کي حکومت کو قبول کرلے اور اُس کے کاموں پر اپني رضايت و پسنديدگي کا اظہار کرے! جس بيعت کا امام حسين سے مطالبہ کيا گيا تھا وہ يہي تھي۔

 

يزيد امام حسين سے اِس بات کا خواہاں تھا کہ وہ آپ کو مجبور کرے کہ آپ لوگوں کو ہدايت و راہنمائي کرنے کے بجائے اِس ظالم حکومت کي گمراہي و ضلالت کو لوگوں کيلئے جائز صورت ميں بيان کريں کہ آو اور اِس ظالم حکومت کي تائيد کرو اور اِس کے ہاتھ مضبوط بناو! امام حسين کا قيام اِسي جگہ سے شروع ہوتا ہے۔ 

 

اگر يزيدي حکومت کي طرف سے اِس قسم کا بے جا اور بيہودہ و احمقانہ مطالبہ نہيں کيا جاتا تو اِس بات کا امکان تھا کہ سيد الشہدا نے جس طرح معاويہ کے دور حکومت ميں امّت کي ہدايت و راہنمائي کي اورجس انداز سے آپ کے بعد آنے والے آئمہ رہنمائي فرماتے رہے،آپ بھي پرچم ہديت کو اٹھاتے، لوگوں کي ہدايت کرتے اور حقائق کو اُن کيلئے بيان فرماتے۔

 

ليکن يزيد نے اپني جہالت و تکبر اور تمام فضائل اور معنويات سے دوري کي وجہ سے جلدي ميں ايک قدم آگے بڑھايا اور امام حسين سے اِس بات کي توقع کي کہ وہ اسلام کے بے مثال’’ نظريہ امامت‘‘ کے طاغوتي اور سلطنت و بادشاہت کي تبديلي کے سياہ قانون پر دستخط کرديں يعني اُس کے ہاتھوں پر بيعت کرليں۔ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں سيد الشہدا فرماتے ہيں کہ ’’مِثلِي لَا يُبَايِعُ مِثلَہُ ‘‘ ١ ،’’ميرا جيسا يزيد جيسے کي ہرگز بيعت نہيں کرسکتا‘‘، يعني حسين کبھي ايسي بيعت نہيں کرے گا۔ 

 

امام حسين کو پرچم حق کے عنوان سے تاابد تک باقي رہنا ہے اور حق کا پرچم نہ توباطل طاقتوں کيلئے استعمال ہوسکتا اور نہ ہي اُس کے رنگ ميں رنگ سکتا ہے۔ يہي وجہ ہے کہ امام حسين نے فرمايا ’’ھَيھَات مِنَّا الذِّلَّۃ‘‘ ٢ ،’’ذلت ہم سے دور ہے ‘‘۔امام حسين کي تحريک ،عزت و سربلندي کي تحريک تھي يعني عزت ِ حق، عزتِ دين، عزتِ امامت اور رسول اللہ ۰ کے دکھائے ہوئے راستے کي عزت! سيد الشہدا چونکہ عزت کا مظہر کامل تھے لہٰذا آپ نے قيام فرمايا؛ يہ ہے حسيني ٴعزت و سربلندي!

 

2۔ معنويت و فضيلت کا مجسم ہونا

 

معنويت کا عنصر بھي حضرت امام حسين کے قيام اور تحريک ميں مجسم نظر آتا ہے ؛بہت سے افراد امام حسين کے پاس آتے ہيں اور اُنہيںا ُن کے قيام کي وجہ سے سرزنش کرتے ہيں۔ يہ افراد معمولي يا برے افراد نہيں تھے بلکہ بعض اسلام کي بزرگ ہستيوں ميں شمارکيے جاتے تھے ليکن يہ افراد غلط سمجھ بيٹھے تھے اور بشري کمزورياں اِن پر غالب آگئي تھيں۔ 

 

يہي وجہ تھي کہ اُنہوں نے چاہا کہ امام حسين کو بھي اُنہي بشري کمزوريوں کے سامنے مغلوب بنا ديں ۔سيدالشہدا نے صبر کيا اور مغلوب نہيں ہوئے اوريوں امام حسين کے ساتھ شامل ايک ايک شخص اِس معنوي اور اندروني جنگ ميں کامياب ہوگيا۔وہ ماں کہ جس نے اپني پوري خوشي اور سر بلندي کے ساتھ اپنے نوجوان بيٹے کو ميدان جنگ بھيجايا وہ نوجوان کہ جس نے دنياوي لذتوں کو خير آباد کہہ کر خود کو ميدان جنگ ميں لہرائي جانے والي خون کي تشنہ تلواروں کے سامنے پيش کرديا يا حبيب ابن مظاہر جيسے بزرگ افراد اور مسلم ابن عوسجہ جيسے لوگ جو اپني ايام پيري کے راحت و آرام، نرم و گرم بستروں اور گھربار کو چھوڑ آئے اور ميدان جنگ کي تمام سختيوں کو تحمل کيا۔اِسي طرح سپاہ دشمن ميں ايک خاص مقام کے حامل شجاع ترين سردار يعني حُر ابن يزيد رياحي نے اپنے مقام و منزلت سے صرف نظر کيا اور حسين ابن علي سے جاملا، يہ سب افراد معنوي اور باطني جنگ ميں کامياب ہوئے۔

 

اُس معنوي جنگ ميں جو لوگ بھي کامياب ہوئے اور عقل وجہالت کے لشکروں کي محاذ آرائي ميں عقل کے لشکروں کو جہالت کے لشکروں پر غلبہ دينے ميں کامياب و کامران ہوئے، اُن کي تعداد بہت کم تھي ليکن اُن کي استقامت اور ثبات قدم اِس بات کا سبب بنے کہ تاريخ کے ہزاروں افراد اُن سے درس حاصل کريں اور اُن کي راہ پر قدم اٹھائيں۔ اگر يہ لوگ اپنے وجود ميں فضيلتوں کو رذيلتوں پر غلبہ نہيں ديتے تو تاريخ ميں فضيلتوں کا درخت خشک ہوجاتا ہے مگر اِن افراد نے اپنے خون سے اِس درخت فضيلت کي آبياري کي ۔

 

3. مصائب کربلا ميں عنصر عزت

 

کربلا کے تيسرے پہلو يعني مصائب اور مشکلات ميں بھي جابجا مقامات پر عزت و افتخار اور سربلندي کا عنصر نظر آتا ہے۔ اگرچہ کہ يہ مصائب کا ميدان اور بابِ شہادت ہے، اگرچہ کہ جوانانِ بني ہاشم ميں سے ہر ايک کي شہادت،بچوں کي، اطفال صغير کي اور بزرگ اور عمررسيدہ اصحاب کي شہادت حضرت سيد الشہدا کيلئے ايک بہت بڑے غم اور مصائب کا باعث ہے ليکن اِس کے خوداُن کیلئے کيلئے عزت و سربلندي کا باعث ہے.

 

حسيني تحريک کو دو مختلف نگاہوں سے ملاحظہ کيا جاسکتا ہے اور يہ دونوں نگاہيں درست ہيں ليکن يہ دونوں نگاہيں مجموعاً اِس تحريک کے مختلف اورعظيم ابعاو جہات کي نشاندہي کرنے والي ہيں۔

 

ايک نگاہ امام حسين کي تحريک کي ظاہري صورت سے متعلق ہے کہ آپ ٴ کي يہ تحريک و قيام؛ ايک فاسق، ظالم اور منحرف يزيدي حکومت کے خلاف تھاليکن ظاہري و معمولي اور آدھے دن ميں ختم ہو جانے والي يہي تحريک درحقيقت ايک بہت بڑي تحريک تھي کہ جسے يہ نگاہ دوم بيان کرتي ہے اور وہ انسان کي جہالت و پستي کے خلاف امام ٴ کي تحريک ہے ۔صحيح ہے کہ امام حسين گرچہ يزيد سے مقابلہ کرتے ہيں ليکن يہ امام عالي مقام ٴ کاصرف يزيد جيسے بے قيمت اور پست انسان سے تاريخي اور عظيم مقابلہ نہيں ہے بلکہ انسان کي جہالت وپستي ، ذلت و رُسوائي اور گمراہي سے مقابلہ ہے اور درحقيقت امام ٴ نے اِن سے جنگ کي ہے۔

 

روحانيت اور معنويت کي دنيا ميں محبت اور مہرباني کا اپنا ايک خاص اور الگ مقام ہے؛ نہ مہرباني، دليل و برہان کي جگہ لے سکتي ہے اور نہ ہي دليل و برہان، مہرباني ،احساسات کي جگہ پُر کرسکتے ہیں۔ واقعہ کربلا اپني ذات اور حقيقت ميں سچے قسم کے مہرباني اور محبت کے جذبات و احساسات لئے ہوا ہے۔

 

ايک ايسے اعليٰ صفت اورپاک و پاکيزہ نوراني انسان کي ملکوتي شخصيت ميں نقص و عيب اور دھوکہ و فريب کا دور دور تک کوئي شائبہ نہيں ہے جو ايک عظيم ہدف کيلئے کہ جس کے بارے ميں تمام مُنصِفين عالم متفق القول ہيں کہ اُس کا قيام معاشرے کو ظلم و ستم سے نجات دلانے کيلئے تھا ، ايک عجيب و غريب تحريک کا آغاز کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’اَيُّہَا النَّاسُ! اِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّي اللّٰہُ عَلَيہِ وآلِہِ وَسَلَّم قَالَ مَن رَآَيٰ سُلطَانًا جَائرًا۔۔۔‘‘۔ يہاں امام حسين ظلم و ستم سے مقابلے کو اپني تحريک کا فلسفہ قرار دے کر اُس کا اعلان فرمارہے ہيں کہ ’’يَعمَلُ فِي عِبَادِاللّٰہِ بِالجَورِ والطُّغيَانِ وَبالاِثمِ وَالعُدوَانِ‘‘؛يعني’’ جو بندگانِ خدا پر ظلم و جوراورگناہ و معصيت سے حکومت کر رہا ہے‘‘۔ يہاں بات مقدس ترين اہداف کي ہے کہ جسے تمام مُنصِفِين عالم قبول کرتے ہيں؛ايسا انسان اپنے ايسے بلند اور مقدس ہدف کي راہ ميں جنگ اورمبارزے کي سختيوں اور مصائب کو تحمل کرتا ہے۔

 

اسلام کي کسي جنگ ميں جب حق و باطل کے لشکر مقابلے کيلئے صف آرا ہوئے تو محاذ جنگ ميں سرفہرست رہنے والي شخصيات ميں پيغمبر اکرم اور امير المومنين پيش پيش تھے، پيغمبر اکرم نے اپنے سپاہيوں سے پوچھا کہ’’کون ہے جو ميدان جنگ ميں جائے تاکہ دشمن کے فلاں معروف جنگجو کو قتل کرسکے‘‘؟ سپاہ اسلام ميں سے ايک نوجوان نے حامي بھري اور سامنے آگيا؛ حضرت ختمي مرتبت نے اُس کے سر پر ہاتھ پھيرا اور آگے تک اُس کے ساتھ گئے، مسلمانوں نے بھي اُس کيلئے دعا کي اور وہ يوں ميدانِ جنگ ميں قدم رکھتا ہے، جہاد کرتا ہے اور درجہ شہادت پر فائز ہوتا ہے.

 

يہ ايک قسم کا جہاد کرنا اور قتل ہونا ہے۔ ايک اور قسم کا جہاد وہ ہے کہ جب انسان ميدان نبرد ميں قدم رکھتا ہے تو معاشرے کي اکثريت يا اُس کي منکر و مخالف ہے يااُس کي شخصيت اور مقام و منزلت سے غافل؛يا اُس سے کنارہ کشي اختيار کيے ہوئے ہے يا اُس سے مقابلے کيلئے نيزوں کو ہوا ميں لہرا رہي ہے اور تلواروںکو باہر نکالے ہوئے ہے اور وہ افراد جو اپنے قلب سے اُس کو داد و تحسين دينے والے ہيں وہ تعداد ميں بھي کم ہيں اوروہ بھي اُس کو زباني داددينے کي جرآت نہيں رکھتے۔

 

تحريک کربلا ميں ’’عبد اللہ ابن عباس اور ’’عبد اللہ ابن جعفر‘‘ جيسے افراد بھي جو خاندان بني ہاشم سے تعلق کھتے ہيں اور اِسي شجرہ طيبہ سے متصل ہيں، جرآت نہيں کرتے کہ مکہ يا مدينہ ميں کھڑے ہوکر فرياد بلند کريں اور امام حسين کيلئے اور اُن کي حمايت ميں نعرے لگائيں؛يہ ہے غريبانہ جنگ اور مبارزہ!اوريہ ايسي سخت ترين جنگ ہے کہ جہاں تمام افراد اِس لڑنے والے انسان سے روگرداں اور اُس کے دشمن ہوں۔ امام حسين کي جنگ ميں اُن کے بعض دوستوں نے بھي اُن سے منہ موڑ ليا تھا جيسا کہ اُن ميں سے ايک سے جب سيد الشہدا نے کہا کہ ’’آو ميري مدد کرو‘‘ تو اُس نے مدد کرنے کے بجائے حضرت کیلئے اپنا گھوڑا بھيج ديا اور کہا کہ ’’ميرے گھوڑے سے استفادہ کيجئے‘‘۔

 

اِس سے بھي بڑھ کر غربت و تنہائي اور کيا ہو گي اور اِس غريبانہ جنگ سے بھي بڑھ کر اور کون سي جنگ ہے؟! اور اِس کے ساتھ ساتھ اِس غربت و تنہائي کي جنگ ميں اُس کے عزيز ترين افراد کو اُس کي آنکھوں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کرديا جاتا ہے، اُس کے بھتيجے، بيٹے، بھانجے، بھائي، چچا زاد بھائي ، بہترين اصحاب اور گل ہائے بني ہاشم اُس کے سامنے ايڑياں رگڑ رگڑ کر جان دے ديتے ہيں ! حتيٰ اُس کے شير خوار چھ ماہ کے بچے کو بھي موت کےگھاٹ اتار ديا جاتا ہے!

 

اِن تمام مصائب اور جان فرسا سختيوں کے علاہ وہ جانتا ہے کہ جيسے ہي اُس کي روح اُس کے جسم سے جدا ہوگي اُس کے اہل و عيال، بے پناہ و بے دفاع ہوجائيں گے اور دشمن کے حملوں کا نشانہ بنيں گے۔

 

ايسي سخت ترين جنگ اور شديد ترين مصائب اور طاقت فرسا سختيوں کے ساتھ شہيد ہوجاتا ہے! 

 

يہ وہ چشمہ ہے جو روزِعاشوراُس وقت جاري ہوا کہ جب حضرت زينب ’’تلّہ زينبيہ‘‘پر تشريف لے گئيں اور پيغمبر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمايا کہ ’’يَا رَسُولَ اللّٰہِ ! صَلّيٰ عَلَيکَ مَلَائِکۃُ السَّمَآئِ ، ھَذاحُسَين مُرَمَّل? بِالدِّمَآئِ ، مُقَطَّعُ الاَعضَآئِ ، مَسلُوبَ العَمَّامَۃِ والرِّدَآئِ‘‘؛ ’’ اے نانا رسول اللہ آسمان کے ملائکہ آپ پر درودو سلام بھيجيں،يہ آپ کا حسين ہے، اپنے ہي خون ميں غلطاں، جس کا جسم پائمال ہے اور جس کے عمامے اورعبا کو لوٹ ليا گيا ہے‘‘۔ حضرت زينب نے يہاں امام حسين کے مصائب پڑھنے شروع کيے اور با آواز بلند اُس واقعہ کو بيان کرنا شروع کيا کہ جسے يہ لوگ چھپانا چاہتے تھے۔ سيدالشہدا کي عظيم المرتبت خواہر نے کربلاوکوفہ اور شام و مدينہ ميں با آواز بلند واقعہ عاشورا کو بيان کيا، يہ چشمہ اُس وقت اُبلا اور آج تک جاري و ساري ہے!

 

 

ایک معاصر عربی ادیب نے کہا ہے کہ اسلام قیام کے لحاظ سے محمدی ہے اور بقا کے اعتبار سے حسینی مذہب ہے۔ 

 

اقوال حضرت امام حسین علیہ السلام

 

1. وہ چیزجو خود اپنے وجود کے لئے تیری محتاج ھے، تیرے وجود کے لئے کس طرح دلیل ھو سکتی ھے؟

کیا تیری ذات سے بڑہ کر بھی کوئی آشکار چیز ھو سکتی ھے کہ جو تجھے آشکار کرے؟تو کب پوشیدہ ھے کہ مجھے ڈھونڈھنے کے لئے اس دلیل کی ضرورت پڑے جو مجھ پر دلالت کرے ؟ اور اب تو کب دور ھے کہ تیرے آثار کے ذریعے مجھ تک پھونچائے ؟ نابینا ھو جائے وہ آنکہ جو تجھے اپنی طرف ناظر نہ سمجھے ۔

 

2.جس نے تجھے پا لیا اس نے کیا کھویا، اور جس نے تجھے کھودیا اس نے کیا پایا؟جو انسان تیرے علاوہ کسی اور چیز کو دوست رکھتا ھو اور اسی پر راضی وخوشنود ھو، وہ یقینا گھاٹے میں ھے۔

 

3.جو لوگ خدا کی خوشنودی کو بندوں کی رضایت کے بدلے خریدتے ھیں، وہ کبھی کامیاب نہ ھوں گے۔

 

 

4.روز قیامت کسی بھی شخص کے لئے امان نھیں ھے مگر وہ شخص کہ جو باتقویٰ ھو۔

 

 

5.خداوند عالم فرماتا ھے: ”مومن مردو وعورت ایک دوسرے کے ساتھی ھیں، جو امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کرتے ھیں۔“

خدا وند عالم نے سب سے پھلے امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کو ایک فریضے کے طور پربیان کیا ھے، اس لئے کہ وہ یہ جانتا ھے کہ اگر یہ فرائض انجام پا جائیں تو دوسرے تمام وظائف بھی خواہ وہ سخت ھوں یا آسان، انجام پا ھی جائیں گے۔ کیونکہ امر بالمعروف اور نھی عن المنکردین اسلام کی تبلیغ کا ایک بھترین ذریعہ ھے، جومظلوموں کو، ظالموں کے مقابلہ میں اپنا حق لینے کے لئے اکساتا رھتاھے۔

 

6.رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! جو شخص ظالم بادشاہ کو دیکھے کہ جو حرام خدا کو حلال کررھا ھے، خداوند عالم کے حکم کی خلاف ورزی کررھا ھے، اللہ کے رسول کے لائے ھوئے قوانین کی مخالفت کررھا ھے، بندگان کے درمیان ظلم وستم، معصیت ونافرمانی اور دشمنی کا بازار گرم کئے ھوئے ھے، اور وہ شخص اپنے فعل و عمل کے ذریعہ اس کی مخالفت نہ کرے، تو خداوند عالم پر لازم ھے کہ اس شخص کا ٹھکانہ بھی اسی ظالم کے ساتھ قرار دے۔

 

7.لوگ دنیاکے غلام ھیں، اور دین کو اپنی زندگی کے وسائل فراھم کرنے کے لئے ایک لعاب کے طور پر استعمال کرتے ھیں،جو ان کی زبانوں سے چمٹا ھوا ھے۔ لیکن جب آزمائش وامتحان کا وقت آجاتا ھے تو دیندار لوگ کم یاب ھو جاتے ھیں۔

 

 

8.جوشخص گناھوں کے ذریعہ اپنے مقصد تک پھونچنا چاھتا ھے، اس کی آرزوئیں بہت دیر سے پوری ھوتی ھیں، اور جس چیز سے ڈرتا ھے سب سے پھلے اسی میں گرفتار ھوجاتا ھے۔

 

 

9.کیا تم نہیں دیکھ رھے ھو کہ لوگوں کے حقوق کو پامال کیا جا رھا ھے، اور کوئی باطل کا مقابلہ کرنے والا نھیں؟ لہذا ایسے میں مومن اگر حق پر ھے تو اس کو چاھئے کہ خدا سے ملاقات کی تمنا کرے۔

 

 

10.موت سے بڑہ کر میرے لئے کوئی سعادت نہیں ھے، ستمگروں اورظالموں کے ساتھ زندگی بسر کرنے سے بڑہ کر میرے لئے کوئی عذاب نھیں ھے۔

 

 

11.تمھاری مصیبتیں وپریشانیاں تمام لوگوں سے زیادہ اس لئے ھیں کہ دانشمندوں کا عہدہ ( اگر تم سمجھتے ھو یا بالفرض اگر تمھارے اندر اس کی لیاقت ھے تو) تمھارے ھاتھوں سے لے لیا گیا ھے۔

یہ مصیبتیں وپریشانیاںاس وجہ سے ھیں چونکہ حل وعقد امور اور نفاذ احکام الٰھی ان خدا شناس دانشمندوں کے ھاتھ میں ھونا چاھئے جو حلال وحرام الٰھی کے امین ھیں۔

لیکن یہ مقام ومنزلت تم سے اس لئے لے لیا گیا ھے کہ تم نے حق سے کنارہ کشی اختیار کی،واضح اور آشکار دلیلوںکے باوجود تم نے سنت پیغمبر(ص) میںاختلاف پیدا کردیا۔ اگرتم ان آزار واذیت کے مقابلہ میں صبر سے کام لیتے اور ان مصیبتوں اور سختیوں کو خدا کی راہ میں قبول کر لیتے تو تمام امور الٰھی کی باگڈور تمھارے ھاتھوں میں تھما دی جاتی اور اس کا مرجع و مآخد تم ھی قرار پاتے۔ لیکن تم نے ظالموں اور ستمگروں کواپنے اوپر مسلط کرلیا اور تمام امور الٰھی کی باگڈور ان کے ھاتھ میں تھما دی جب کہ وہ شبھات پر عمل کرتے ھیں اور شھوت وھوس رانی کو اپنا پیشہ بنائے ھوئے ھیں، تمھاراموت سے فرار اور اس ناپائدار زندگی پر راضی ھونا،ھی ستمگاروں کی قدرت طلبی کا باعث بنا ھے۔

 

 

12.خداوندا ! تو گواہ رھنا کہ ھم نے جو کچہ انجام دیا ھے نہ مقام ومنزلت حاصل کرنے کے لئے انجام دیا ھے اور نہ ھی دنیا کی پست اور بیکار چیزوں کے حاصل کرنے کے لئے۔ ھم نے جو کچہ انجام دیاصرف اس لئے تاکہ لوگ تیرے دین کی نشانیوں کو سمجھیں، اور تیرے شہروں میں بسنے والے بندوں کو مفاسد سے روکیں ، تاکہ تیرے مظلوم بندے امن وامان میں رھیں اور تیرے احکام کی پابندی کرسکیں۔

 

 

13.حق یہ ھے کہ میں بے مقصد ایک باغی، ظالم اورستمگرکی حیثیت سے قیام نھیںکر رھاھوں، بلکہ میں نے اپنے جد محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی اصلاح کے لئے قیام کیا ھے ، میں چاھتا ھوں کہ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر انجام دوں ، اوراپنے جد محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اپنے بابا علی مرتضی علیہ السلام کی روش پر گامزن رھوں۔

 

 

14.اگر دنیا کو باارزش سمجھ لیا جائے تو جان لو کہ منزل آخرت اور خداوند عالم کی جانب سے ملنے والا ثواب اس سے کھیں زیادہ ارزشمند اور بہتر ھے۔

انسان اگر مرنے کے لئے ھی پیدا کیا گیا ھے تو خدا کی قسم شہادت سے بڑہ کر کوئی اور موت بہتر نھیں ھوسکتی۔

جب انسان کا رزق معین ھو چکا ھے تو انسان کے لئے بہتر یھی ھے کہ وہ رزق و روزی کی طلب میں حرص سے کام نہ لے ۔

اگر مال کو جمع کرنے کا مقصد اس کو ترک کرنا ھی ھے تو پھر کیوںایک آزاد انسان ان چیزوں کے سلسلہ میں بخل سے کام لیتا ھے کہ جو باقی رھنے نہیں والی ھیں۔

 

 

15.اگر معاد اور روز قیامت کا تمھیں کوئی خوف نھیںھے تو کم از کم دنیا میں ھی آزاد اور جوانمردانسان بن کر زندگی گزارو۔

 

 

16.کچہ لوگ حرص ولالچ کی بنا پر خدا کی عبادت کرتے ھیں، یہ سودا گروں کی عبادت ھے۔

کچہ لوگ ڈر اور خوف کی وجہ سے خدا کی عبادت کرتے ھیں، یہ غلاموں کی عبادت ھے۔

کچہ لوگ خدا وندعالم کا شکر بجا لانے کے لئے اس کی عبادت کرتے ھیں،یہ عبادت سب سے بہترین اور آزاد مردوں کی عبادت ھے۔

 

 

17.آگاہ ھو جاؤ! لوگوں کا تمھارے پاس اپنی حاجتوں کا لے کر آنا، یہ خداوند عالم کی بہترین نعمتوں میں سے ایک نعمت ھے۔ لہذا اس نعمت سے غافل نہ رھو، کھیں ایسا نہ ھو کہ یہ نعمت تمھارے پاس سے پلٹ کر کسی اور کے پاس چلی جائے۔

 

 

18۔اے لوگو!ان ملامت وسرزنش سے عبرت حاصل کرو جو خدا وند نے علماء یہود کو پند ونصیحت کے طور پر کی تھیں۔جب خداوند عالم فرمایا: ”علمائے یہود نے اھل یہود کو گناہ آلود باتوں سے کیوں نھیں روکا ؟“ اور ارشاد فرماتا ھے: ”گروہ بنی اسرائیل سے وہ لوگ جو کافر ھوگئے،(جناب داؤد اور جناب عیسیٰ کی زبان پر) ملعون قرار پائے۔“ یھاں تک کہ ارشاد ھوتا ھے: ”وہ کتنے ناپسندیدہ کاموں کو انجام دیتے تھے۔“ یہی وجہ تھی کہ خدا وندعالم کو ان کی یہ بات ناگوار گذری کہ وہ ستمگروں اور ظالموں کے ناروا افعال کو دیکھتے تھے اور اس سے منع نہ کرتے تھے، کیونکہ وہ ستمگروں کی طرف سے ملنے والے مال پر حریص ھو جاتے، اور اعتراض کی صورت میں وہ اس کے انجام سے ڈرتے تھے۔ اسی لئے خداوند عالم ارشاد فرماتا ھے: ”مجھ سے ڈرو لوگوں سے نہ ڈرو۔“ اور یہ بھی فرماتا ھے: ” مومن مردو عورت ایک دوسرے کے بھائی ھیں، جو نیکی کا حکم دیتے ھیں اور برائیوں سے روکتے ھیں۔“

 

 

19.اگر کوئی شخص لوگوں کی رضایت وخوشنودی حاصل کرنے کے لئے خداوند عالم کے غیض وغضب کا باعث بنے تو خداوند عالم بھی اس کو لوگوں کے حوالے کردیتا ھے۔

 

 

20.اس شخص پر ظلم وستم کرنے سے ڈرو جس کا خدا کے علاوہ کوئی اور مدد گار نہ ھو۔

 

 

21.جوتم پر زیادہ تنقید کرتا ھے وہ تمھارا واقعی اور حقیقی دوست ھے ، اور جو تمھاری تعریفیں کرتا ھے وہ گویا تمھارا دشمن ھے۔

 

 

22.حق کی پیروی سے ھی عقل کامل ھوتی ھے۔

 

 

23.فاسقوں کی صحبت اختیار کرنا، انسان کو معرض اتہام میں کھڑا کر دیتا ھے۔

 

 

24.خدا وند تعالی کے خوف کی وجہ سے گریہ کرنا، آتش جہنم سے نجات کا باعث ھوتاھے۔

 

 

25.ایک شخص امام حسین علیہ السلام کے پاس آیا اور کہنے لگا: ”میں ایک گناگار انسان ھوں اور خدا کی معصیت سے پرھیز نہیں کرتا، مجھے کچہ نصیحت کیجئے۔“ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: ”پانچ کام بجا لاؤ اس کے بعد جو چاھے کرو۔ پھلے یہ کہ خداوند عالم کا عطا کردہ رزق استعمال نہ کرو اور جو تمھارا دل چاھے گنا ہ کرو۔ دوسرے یہ کہ خداوند عالم کی حکومت سے خارج ھو جاؤ اس کے بعد جو تمھارا دل چاھے کرو ۔ تیسرے یہ کہ کسی ایسی جگہ چلے جاؤ کہ خدا تمھیں نہ دیکہ سکے اور جو تمھارا دل چاھے گناہ کرو۔ چوتھے یہ کہ جب عزرائیل تمھاری روح قبض کرنے کے لئے آئیں تو انھیں اپنے پاس سے بھگا دو پھر جو تمھارا دل چاھے گناہ انجام دو۔ پانچویں یہ کہ جس وقت جھنم کا مالک وحاکم تمھیں آگ میں ڈالے ، تم آگ میں نہ کودو اس کے بعد جو تمھارا دل چاھے گناہ کرو۔

 

 

26.جس کام کے سلسلہ میں تمھیں عذر خواھی کرنا پڑے اس کام سے پرھیز کرو، مومن نہ بدی کرتا ھے اور نہ عذر خواھی کرتا ھے۔ اور منافق ھر روز بدی کرتا ھے اور ھر روز عذر خواھی کرتا ھے۔

 

 

27.جلدی کرنا کم عقلی کی علامت ھے۔

 

 

28.کسی بھی شخص کواس وقت تک بات کرنے کی اجازت نہ دو جب تک کہ وہ سلام نہ کرلے۔

 

 

29.فکر نہ کرنے والے افراد کے ساتھ بحث وتکرار کرنا، جہل ونادانی کی ایک علامت ھے۔

 

 

30.تنقید، فکر اور مختلف نظریات کے سلسلہ میں جاننا، عالم کی نشانیوں میں سے ایک ھے۔

 

 

31.امام حسین علیہ السلام سے پوچھا گیا، یابن رسول اللہ (ص) آپ روز وشب کیسے گزارتے ھیں؟؟ آپ نے فرمایا: اس حالت میں کہ خداوند تعالی ھمارے اعمال پر ناظر ھوتا ھے اور ھم آتش جہنم کو اپنی آنکھوں سے مشاھدہ کرتے ھیں، موت ھمارا پیچھا کررھی ھے،اپنے اعمال کے سلسلہ میں حساب وکتاب سے کوئی چھٹکارا نظر نہیں آتا، اپنی دلخواہ چیزوں پر دسترس نھیں رکھتا، اپنے اندر اپنے ارد گرد کی تکالیف کو دور کرنے کی قدرت نہیں پاتا، تمام امور کسی اور کے ھاتھ میں ھیں، اگر وہ چاھے تو مجھ پر عذاب نازل کرسکتا ھے اور اگر چاھے تو مجھے معاف کرسکتا ھے، اس بنا پر ایسا کون مسکین ھے جو مجھ سے بھی زیادہ ناتواں اور عاجز ھو۔

 

 

32.جو بخش دے وہ بزرگ سمجھا جاتا ھے اور جو شخص بخل سے کام لیتا ھے وہ ذلیل ورسوا ھو جاتا ھے۔

 

 

33.لوگوں میں سب سے زیادہ مہربان شخص وہ ھے جو ایسے شخص کو معاف کردے جو اس سے اس بات کی امید نہ رکھتا ھو۔

 

 

34.جو شخص ایک برادر مومن کی مشکل کو حل کرے اور اسے اضطراب سے نجات دلائے تو خداوند عالم دنیا وآخرت کے اضطراب وپریشانیوں کو اس سے دور کردیتا ھے۔

 

 

35.جب کسی شخص کو دیکھو کہ لوگوں کی عزت و آبرو پر حملہ کررھا ھے تو کوشش کرو کہ وہ تمھیں نہ پہچانے۔

 

 

36.اپنی حاجتوں کو متدین ، جواں مرد اور نجیب وشریف انسان سے بیان کرو۔

 

 

37.اس شخص کی طرح عمل کرو جو گناھوں پر عذاب اور نیکی پر اجرو ثواب کا عقیدہ رکھتا ھو۔

 

 

38.سلام کرنے کا اجروثواب ستر نیکیوں کے برابر ھے، جس میں سے 69%اس شخص کے لئے ھیں جو سلام کرتا ھے اور ایک نیکی سلام کا جواب دینے والے کے لئے ھوتی ھے۔

 

 

39.اگر یہ تین چیزیں ، فقر، مرض اور موت نہ ھوتی تو بنی آدم کسی کے سامنے سر نہ جھکاتا۔

 

 

40.تمھاری قیمت بہشت کے سوا اور کچہ نہیں ھے، پھر کیوں اپنے آپ کو اس کے غیر سے بیچتے ھو۔ اس لئے کہ جو شخص دنیا پر راضی ھو جائے ( گویا اس کا مقصد صرف اور صرف دنیا ھے) وہ ایک پست چیز پر راضی ھوا ھے۔

 

 

41.گذشتہ نعمتوں پر شکر ، خداوند تعالی کی طرف سے نئی اور تازہ نعمتوں کے عطیہ کا سبب ھوتا ھے۔

 

 

42.جو شخص خوف خدا رکھتا ھو وھی امین ھو سکتا ھے

 

 

43.پوچھا گیا فضیلت کیا ھے؟ تو آپ نے فرمایا: زبان کو قابو میں رکھنا اور نیکی کرنا

 

 

44.اے لوگو! نیک اور اچھے صفات میں ایک دوسرے کے رقیب ھو جاؤ، اچھے وقت کو ھاتھ سے نہ جانے دو، وہ عمل خیر جس کی انجام دھی میں تم نے سستی سے کام لیا، اسے اچھا نہ گردانو۔ کامیابی اور کامرانی حاصل کر کے دوسروں کا شکریہ اور ستائش حاصل کرو۔ نیک کاموں میں سستی اور کاھلی کی وجہ سے اپنے آپ کو مورد ملامت قرار نہ دو۔

 

 

45.وہ تمام بڑی نعمتیں جو خدا نے تمھیں عطا کی ھیں جان لو کہ یہ ان ضروریات میں سے ھیں جس کی لوگ تم سے توقع رکھتے ھیں۔بچو! کہیں ایسا نہ ھو کی ضرورتمندوں کی طرف سے بے توجہی تم سے یہ نعمتیں واپس لے لے اور یہ بلا اور مصیبت کی صورت اختیار نہ کر لیں۔ جان لو کہ نیک کام کی انجام دھی کے بعد لوگوں کے لئے حمدوستائش کا سبب بننے کے علاوہ خدا وند عالم کی طرف سے بھی اس کے اجروثواب کے حقدار ھو۔اگرکسی نیک کام کو انسانی شکل میں مشاھدہ کرتے تو اس کو بہت ھی نیک اور بہت ھی خوبصورت شکل میں دیکھتے اس طرح سے کہ ھر دیکھنے والا اس کو دیکھتا ھی رہ جائے۔اور اگر تم کسی برے کام کو کسی انسانی شکل میں دیکھتے تو تمھاری نظر میں اس کا تصور ایک بد صورت اور بھدی شکل والے انسان کا ھوتااس طرح سے کہ دلوں میں اس سے نفرت پیدا ھوجاتی اوراس نحس شکل کو دیکھتے ھی آنکھیں بند کرلیتے۔

 

 

46.لوگوں میں بہادر ترین شخص وہ ھے جو اپنے دشمن پر غلبہ پانے کے باوجود اسے معاف کردے۔

 

47.صلہ رحم میں وہ شخص سب سے اچھا ھے جو ان رشتہ داروں کی بہ نسبت دلجوئی اور ٴ رحم کرے جنہوں نے اس سے قطع رحم کیا ھے۔

 

48.جان لو کہ جو شخص برادر مومن کے غم کو ھلکا کرے تو خداوند عالم بھی دنیا وآخرت کے غموں کو اس سے دور کردے گا۔ اور جو شخص دوسروں کے ساتھ نیکی کرے تو خداوند عالم بھی اس کے ساتھ نیکی کرے گا اس لئے کہ خداوند عالم نیک افراد کو دوست رکھتا ھے۔

 

 

49.بردباری انسان کی زینت ھے، اور وعدہ کو وفاکرنا جوان مردی کی علامت ھے۔

 

 

50.تکبر،ایک طرح کی خود پسندی اور بے جا خود ستائی ھے۔ کاموں میں جلدی کرنا، کم عقلی کی علامت ھے۔ کم عقلی روح کی کمزوری کی علامت ھے۔ ھر چیز میں زیادہ روی سے کام لینا ھلاکت کا باعث ھوتا ھے۔

 

51.آگاہ ھو جاؤ، جنگ ایک ایسا فتنہ ھے جس کی سختیاں انسان کو خوف میں مبتلا کردیتی ھیں جس کا مزہ حد سے زیادہ تلخ اور کڑوا ھوتا ھے کہ جسے گھونٹ گھونٹ کرکے پیا جاتا ھے۔ مرد میدان اور جنگ کا فاتح وھی ھوتا ھے جو ھر وقت جنگ کے لئے آمادہ ھو، لشکر کی کثرت ،جنگ کے سازوسامان اور جنگ شروع ھونے سے پہلے ھی دشمن سے خوف زدہ نہ ھو جائے، اور جنگ میں جو بھی شخص وقت کے آنے سے پہلے ،کام میں دقت نظری اور سازوسامان پر نظر رکھنے سے پہلے میدان میں آجائے اس نے اپنی قوم وقبیلہ کو کوئی فائدہ نہ پہنچایا ھوچاھے خواہ وہ اپنی جان جوکھم میں ھی کیوں نہ ڈال دے۔

 

52.میں تمھیں خدا سے ملاقات کے دن (روز قیامت) سے ڈراتے ھوئے تمھیں تقویٰ و پرھیزگاری کی وصیت کرتا ھوں ،اس وقت کا تصور کرو کہ جب موت ایک وحشتناک شکل وصورت میں آئے گی، اس کا آنا اچانک اور ناگوار انداز میں ھوگا، تمھاری روح کو اپنے پنجوں میں جکڑ لے گااس وقت تمھارے اور عمل کے درمیان فاصلہ پیدا ھو جائے گا، لیکن پھر بھی تم طول عمر اور اپنے تن کی فکر میں ھو۔ 

 

میں تمھیں دیکھ رھا ھوں کہ اچانک موت نے تمھارا گریبان پکڑ لیا ھے اور تمھیں زمین سے اپنے اندر کھینچ رھی ھے، تمھیں زمین کی بلندی سے پستی پر لا پٹخا ھے ، دنیا کی الفت ومحبت سے تمھیں قبر کی تاریکی میں دھکیل دیا ھے، دنیا کی خوبصورتی اور چکاچوندھنی سے قبر کی ظلمت وتاریکی کی طرف لے جا رھی ھے ، کشادگی سے قبر کی تنگی کی طرف کھینچ رھی ھے ،ایک ایسے زندان میں جھاں کسی نزدیک ترین عزیز سے بھی ملاقات ناممکن ھے، اس جگہ جہاں بیماری کی عیادت بھی نھیں کی جاسکتی، جھاں کسی کی نالہ وفریاد نھیں سنی جاتی۔

ان مشکل ایام میں پروردگار ھمیں اور تمھیں کامیابی عطا فرمائے۔ ھمیں اور تمھیں اس دن کے عذا ب سے نجات عطا فرمائے، اور ھم سب کو ایک عظیم انعام سے نوازے۔

 

 

53.میں وصیت کرتا ھوں تقویٰ الٰھی اختیار کرو، اس لئے کہ خداوند عالم نے اس بات کی ضمانت لی ھے کہ وہ افراد جو با تقویٰ ھیں انہیں ناپسندیدہ چیزوں سے نیک اور اچھی چیزوں کی طرف رھنمائی کرے۔ ”اور وہ اس طرح سے تمھیں روزی عطا کرتا ھے کہ جس کا تم تصور بھی نھیں کرسکتے۔

 

 

54.کہیں ایسا نہ ھو جائے کہ تم گناھگار لوگوں سے پرھیز کرو اور خود اس کام کے انجام سے غافل رھو۔ اس لئے کہ خدا وندعالم بہشت دے کرکے دھوکہ نھیں کھائے گا، اس نے جن انعامات کا وعدہ کیا ھے سوائے اس کے فرمانبرداروں کے کوئی اور اس کا حقدار نھیں ھوسکتا۔

 

 

55.اے بنی آدم! تھوڑا سا سوچو ، غور کرو اور یہ بتاؤ کہ دنیا پر حکومت کرنے والے بادشاہ وحکمراں کہاں ھیں؟جنھوں نے دنیا کی سونی جگہوں کو آباد کیاھے۔

جو کربلا کی اندھیری راتوں میں روشنی ھے حسین وہ ھے 

شہادتوں کے سفر کا حاصل جو زندگی ھے حسین وہ ھے

گلاب میں جو لہو کی خؤشبو سے تازگی ھے حسین وہ ھے

بزیرٍ خنجر جو ایک پیاسے کی بندگی ھے حسین وہ ھے

 

حسین میرا، حسین تیرا، حسین سب کا

حسین حیدر کا،مصطفی کا،حسین رب کا 

(صفدر ھمدانی) 

 

مضمون کی تیاری کے لیئے مختلف ویب سائٹس ، کتابٍ احادیث اور اشعار جناب صفدر ھمدانی کی کتاب “ معجزہ قلم سے لیئے گئے

تبصرے
Loading...