حسین میراحسین تیراحسین رب کاحسین سب کا

 

حسین میراحسین تیراحسین رب کاحسین سب کا

مصنف:

 

نگہت نسیم

 

جبہم احساسات کي نگاہ سے ديکھتے ہيں تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں ميں امامحسين کے نام کي خاصيت اورحقيقت و معرفت يہ ہے کہ يہ نام دلربائے قلوب ہےاور مقناطيس کي مانند دلوں کو اپني طرف کھينچتا ہے۔البتہمسلمانوں ميں بہت سے ايسے افراد بھي ہيں جو ايسے نہيں ہيں اور امام حسينکي معرفت و شناخت سے بے بہرہ ہيں، دوسري طرف ايسے افراد بھي پائے جاتے ہيںکہ جن کا شمار اہل بيعت  ميں  بھی نہيں ہوتا ليکن اُن کے درميان بہت سےايسے افراد ہيں کہ حسين ابن علي کا  نام سنتے ہي اُن کي آنکھوں سے اشکوںکا سيلاب جاري ہو جاتاہے۔خداوند عالم نے امام حسين کے نام ميںايسي تاثير رکھي ہے کہ جب اُن کا نام ليا جاتا ہے تو  دل و جان پر ايکروحاني کيفيت طاري ہوجاتي ہے ۔

 

 

 

متن:

 

 

 

حسین میرا ،حسین تیرا ،حسین رب کا حسین سب کا

 

 

 

 

 

 

  جب ہم احساسات کي نگاہ سے ديکھتے ہيں تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں ميں امامحسين کے نام کي خاصيت اورحقيقت و معرفت يہ ہے کہ يہ نام دلربائے قلوب ہےاور مقناطيس کي مانند دلوں کو اپني طرف کھينچتا ہے۔البتہمسلمانوں ميں بہت سے ايسے افراد بھي ہيں جو ايسے نہيں ہيں اور امام حسينکي معرفت و شناخت سے بے بہرہ ہيں، دوسري طرف ايسے افراد بھي پائے جاتے ہيںکہ جن کا شمار اہل بيعت  ميں  بھی نہيں ہوتا ليکن اُن کے درميان بہت سےايسے افراد ہيں کہ حسين ابن علي کا  نام سنتے ہي اُن کي آنکھوں سے اشکوںکا سيلاب جاري ہو جاتاہے۔خداوند عالم نے امام حسين کے نام ميںايسي تاثير رکھي ہے کہ جب اُن کا نام ليا جاتا ہے تو  دل و جان پر ايکروحاني کيفيت طاري ہوجاتي ہے ۔

 

اسم گرامی : حسین (ع)

لقب : سید الشھداء۔اس کے علاوہ سید وصبط اصغر، شہیداکبر، اورسیدالشہداء زیادہمشہورہیں۔ علامہ محمد بن طلحہ شافعی کا بیان ہے کہ سبط اورسید خود رسولکریم کے معین کردہ القاب ہیں (مطالب السؤل ص 312) ۔

کنیت : ابو عبد اللہ 

والد کا نام : علی (ع)

والدہ کا نام : فاطمہ زھرا (ع)

تاریخ ولادت : 3شعبان 4ھء

جائے ولادت : مدینہ منورہ

مدت امامت : 12 سال

 عمر : 57 سال

تاریخ شہادت :10 / محرم الحرام 61ھء

 شہادت کا سبب: یزید ابن معاویہ کے حکم سے شہید کیے گئے

روضہ اقدس : کربلائے معلّیٰ

اولاد کی تعداد :4 بیٹے اور 2 بیٹیاں

بیٹوں کے نام :  علی اکبر, علی اوسط , جعفر , عبد اللہ ( علی اصغر )

بیٹیوں کے نام : سکینہ , فاطمہ

 

 

 

 

 

 

خدا کے پیارے نبی کے پیارے علی کے پیارے حسین آئے

ھوا نے سورج کو دی مبارک براں کے پارے حسین آئے

زمیں خوشی سے تھرک رھی تھی تھے رقصاں تارے حسین آئے

شفق،صدف،روشنی، ھوایئں سبھی پکارے حسین آئے 

(صفدر ھمدانی)

 

 

 ابھیآپ کی ولادت نہ ہونے پائی تھی کہ بروایتی ام الفضل بنت حارث نے خواب میںدیکھا کہ رسول کریم کے جسم کاایک ٹکڑا کاٹ کران کی آغوش میں رکھا گیا ہےاس خواب سے وہ بہت گھبرائیں اوردوڑی ہوئی رسول کریم کی خدمت میںحاضرہوکرعرض پرداز ہوئیں کہ حضورآج ایک بہت برا خواب دیکھا ہے۔ حضرت نےخواب سن کرمسکراتے ہوئے فرمایا کہ یہ خواب تونہایت ہی عمدہ ہے۔  اے امالفضل کی تعبیر یہ ہے کہ میری بیٹی فاطمہ کے بطن سے عنقریب ایک بچہ پیداہو گا جو تمہاری آغوش میں پرورش پائے گا ۔

 

ھجرتکے چوتھے سال تیسری شعبان پنجشنبہ کے دن آپ کی ولادت ھوئی . اس خوشخبری کوسن کر جناب رسالت ماب تشریف لائے , بیٹے کو گود میں لیا , دائیں کان میںاذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور اپنی زبان منہ میں دی . پیغمبر کامقدس لعاب دھن حسین علیہ السّلام کی غذا بنا . ساتویں دن عقیقہ کیا گیا . آپ کی پیدائش سے تمام خاندان میں خوشی اور مسرت محسوس کی جارھی تھی مگرآنے والے حالات کاعلم پیغمبر کی آنکھوں سے آنسو بن کر بہتا تھا  . 

 

نشو و نما

 

 پیغمبراسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں جو اسلام کی تربیت کاگہوارہ تھی اب دنبھردو بچّوں کی پرورش ھونے لگی ایک حسن دوسرے حسین اور اس طرح ان دونوں کااور اسلام کا ایک ھی گہوارہ تھا جس میں دونوں پروان چڑھ رھے تھے . ایک طرفپیغمبر  اسلام جن کی زندگی کا مقصد ھی اخلاق انسانی کی تکمیل تھی اوردوسری طرف حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السّلام جو اپنے عملسے خدا کے محبوب تھے تیسری طرف حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا جو خواتینکے طبقہ میں پیغمبر کی رسالت کو عملی طور پر پہنچانے کے لیے ھی قدرت کیطرف سے پیدا ھوئی تھیں، اس نورانی ماحول میں حسین کی پرورش ھوئی.

 

رسول کی محبت

 

 حضرتمحمد مصطفےٰ (ص)اپنے دونوں نواسوں کے ساتھ انتہائی محبت فرماتے تھے ، سینہپر بٹھاتے تھے ، کاندھوں پر چڑھاتے تھے اور مسلمانوں کو تاکید فرماتے تھےکہ ان سے محبت رکھو . مگر چھوٹے نواسے کے ساتھ آپ کی محبت کے انداز کچھخاص امتیاز رکھتے تھے .

 

ایسا ھوا ھے کہ نماز میں سجدہ کی حالت میںحسین پشت  مبارک پرآگئے تو سجدہ میں طول دے دیا اور جب بچہ خود سے بخوشیپشت پر سے علیٰحدہ ھوگیا اس وقت سر سجدے سے اٹھایا اور کبھی خطبہ پڑھتےھوئے حسین مسجد کے دروازے سے داخل ھونے لگے اور زمین پر گر گئے تو رسول نےاپنا خطبہ قطع کردیا منبر سے اتر کر بچے کوزمین سے اٹھایا اور پھر منبر پرتشریف لے گئے اور مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ دیکھو یہ حسین ھے اسے خوبپہچان لو اور اس کی فضیلت کو یاد رکھو  رسول(ص) نے حسین علیہ السّلام کےلیے یہ الفاظ بھی خاص طور سے فرمائےتھے کہ حسین مجھ سے اور میں حسین سےھوں ۔ مستقبل نے بتادیا کہ رسول کا مطلب یہ تھا کہ میرا نام اور کام دنیامیں حسین کی بدولت قائم رھے گا .

 

 

 جنت کے کپڑے اور فرزندان رسول کی عید

 

امامحسن اورا مام حسین کا بچپنا ہے عید آنے والی ہےاوران اسخیائے عالم کےگھرمیں نئے کپڑے کا کیا ذکر پرانے کپڑے نہیں ہے ۔بچوں نے ماں کے گلے میںبانہیں ڈال دیں مادرگرامی اطفال مدینہ عید کے دن زرق برق کپڑے پہن کرنکلیںگے اورہمارے پاس بالکل لباس نونہیں ہے ہم کس طرح عید منائیں گے ماں نے کہابچوگھبراؤ نہیں، تمہارے کپڑے درزی لائے گا عید کی رات آئی بچوں نے ماں سےپھرکپڑوں کا تقاضا کیا،ماں نے وہی جواب دے کرنونہالوں کوخاموش کردیا۔

 

ابھیصبح نہیں ہونے پائی تھی کہ ایک شخص نے دق الباب کیا، دروازہ کھٹکھٹایا فضہدروازہ پرگئیں ایک شخص نے ایک بقچہ لباس دیا، فضہ نے سیدہ عالم کی خدمتمیں اسے پیش کیا اب جوکھولاتواس میں دوچھوٹے چھوٹے عمامےدوقبائیں،دوعبائیں غرضیکہ تمام ضروری کپڑے موجود تھے ماں کا دل باغ باغہوگیا وہ توسمجھ گئیں کہ یہ کپڑے جنت سے آئے ہیں لیکن منہ سے کچھ نہیں کہابچوں کوجگایا کپڑے دئیے صبح ہوئی بچوں نے جب کپڑوں کے رنگ کی طرف توجہ کیتوکہا مادرگرامی یہ توسفید کپڑے ہیں اطفال مدینہ رنگین کپڑے پہننے ہوں گے،امام جان ہمیںرنگین کپڑے چاہئیں ۔

 

حضور انورکواطلاع ملی،تشریف لائے، فرمایا گھبراؤ نہیں تمہارے کپڑے ابھی ابھی رنگین ہوجائیں گےاتنے میں جبرائیل آفتابہ لیے ہوئے آ پہنچے انہوں نے پانی ڈالا محمدمصطفیکے ارادے سے کپڑے سبزاورسرخ ہوگئے سبزجوڑاحسن نے پہنا سرخ جوڑاحسین نے زیبتن کیا، ماں نے گلے لگا لیا باپ نے بوسے دئیے نانا نے اپنی پشت پرسوارکرکےمہارکے بدلے زلفیں ہاتھوں میں دیدیں اورکہا،میرے بچو، رسالت کی باگڈورتمہارے ہاتھوں میں ہے جدھرچاہو موڑدو اورجہاں چاہولے چلو(روضہ الشہداءص 189 بحارالانوار) ۔

 

بعض علماء کاکہناہے کہ سرورکائنات بچوں کوپشتپربٹھا کردونوں ہاتھوں اورپیروں سے چلنے لگے اوربچوں کی فرمائش پراونٹ کیآوازمنہ سے نکالنے لگے (کشف المحجوب)۔

 

امام حسین کا سردار جنت ہونا

 

یغمبراسلام کی یہ حدیث مسلمات اورمتواترات سے ہے کہ ”الحسن و الحسین سیدا شباباہل الجنہ و ابوہما خیر منہما“ حسن اور حسین جوانان جنت کے سردارہیں اورانکے پدر بزرگواران دنوں سے بہتر ہیں (ابن ماجہ) صحابی رسول جناب حذیفہیمانی کا بیان ہے کہ میں نے ایک دن سرور کائنات صلعم کو بے انتہا مسروردیکھ کرپوچھا حضور،افراط مسرت کی کیا وجہ ہے فرمایا اے حذیفہ آج ایک ایساملک نازل ہوا ہے جومیرے پاس اس سے قبل کبھی نہیں آیا تھا اس نے مجھے میرےبچوں کی سرداری جنت پرمبارک دی ہے اورکہا ہے کہ”ان فاطمہ سیدہ نساء اہلالجنہ وان الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنہ“ فاطمہ جنت کی عورتوں کیسردارہیں اورحسنین جنت کے مردوں کے سردارہیں (کنزالعمال جلد 7 ص 107،تاریخ الخلفاص 123، اسدالغابہ ص 12، اصابہ جلد 2ص 12، ترمذی شریف، مطالبالسول ص 242 صواعق محرقہ ص 114) ۔

 

 رسول کی وفات کے بعد

 

 امامحسین علیہ السّلام کی عمر ابھی چھ سال ھی کی تھی جب انتہائی محبت کرنےوالے نانا کاسایہ سر سے اٹھ گیا .اب پچیس برس تک حضرت علی ابن ابی طالبعلیہ السّلام کی خانہ نشینی کادور تھا .اس زمانہ کے طرح طرح کے ناگوارحالات امام حسین علیہ السّلام دیکھتے رھے اور اپنے والد بزرگوار کی سیرتکا بھی مطالعہ فرماتے رھے . 

 

یہوھی دور تھا جس میں آپ نے جوانی کے حدود میں قدم رکھا اور بھر پور شباب کیمنزلوں کو طے کیا۔35ھ میں جب حسین کی عمر31 برس کی تھی عام مسلمانوں نےحضرت علی  ا بن ابی طالب علیھما السّلام کو بحیثیت خلیفہ اسلام تسلیم کیا . یہ امیر المومنین علیہ السّلام کی زندگی کے آخری پانچ سال تھے جن میںجمل، صفین اور نھروان کی جنگ ھوئی اور امام حسین علیہ السّلام ان میں اپنےبزرگ مرتبہ باپ کی نصرت اور حمایت میں شریک ھوئے اور شجاعت کے جوھر بھیدکھلائے 40ھ میں جناب امیر علیہ السّلام مسجد کوفہ میں شھید ھوئے۔

 

 اوراب امامت وخلافت کی ذمہ داریاں امام حسن علیہ السّلام کے سپرد ھوئیں جوحضرت امام حسین علیہ السّلام کے بڑے بھائی تھے .حسین علیہ السّلام نے ایکباوفااور اطاعت شعار بھائی کی طرح حسن علیہ السّلام کاساتھ دیااور جب امامحسن علیہ السّلام نے اپنے شرائط کے ماتحت جن سے اسلامی مفاد محفوظ رہ سکےمعاویہ کے ساتہ صلح کرلی تو امام حسین علیہ السّلام بھی اس مصلحت پر راضیھوگئے اور خاموشی اور گوشہ نشینی کے ساتھ عبادت اور شریعت کی تعلیم واشاعتمیں مصروف رھے مگر معاویہ نے ان شرائط کو جو امام حسن علیہ السّلام کےساتھ ھوئے تھے بالکل پورا نہ کیا بلکہ امام حسن علیہ السّلام کو زھر کےذریعہ شھید بھی کرا دیا- 

 

حضرت علی  بن ابی طالب علیہ السّلام کےشیعوں کو چن چن کے قید کیا گیا، سر قلم کئے گئے اور سولی پر چڑھایا گیااور سب سے آخر میں اس شرط کے بالکل خلاف کہ معاویہ کو اپنے بعد کسی کوجانشین مقرر کرنے کا حق نہ ھو گا معاویہ نے یزید کو اپنے بعد کے لئے ولیعہد بنا دیا ۔ تمام مسلمانوں سے اس کی بیعت حاصل کرنے کی کوشش کی اور زورو زر دونوں طاقتوں کو کام میں لا کر دنیائے اسلام کے بڑے حصے کا سر جھکادیا گیا-

 

امام حسين کا دورانِ جواني

 

 پيغمبراکرم  کي وفات کے بعد سے امير المومنين کي شہادت تک کا پچيس سالہ دور ہے۔اِس ميں يہ شخصيت، جوان، رشيد، عالم اورشجاع ہے ، جنگوں ميں آگے آگے ہے،عالم اسلام کے بڑے بڑے کاموں ميں حصہ ليتا ہے اور اسلامي معاشرے کے تماممسلمان اِس کي عظمت وبزرگي سے واقف ہيں۔ جب بھي کسي جواد و سخي کا نام آتاہے تو سب کي نگاہيں اِسي پر مرکوز ہوتي ہيں، مکہ ومدينے کے مسلمانوں ميں،ہر فضيلت

ميں اور جہاں جہاں اسلام کا نور پہنچا، يہ ہستي خورشيد کيمانند جگمگا رہي ہے، سب ہي اُس کا احترام کرتے ہيں، خلفائے راشدين بھيامام حسن اور امام حسين کا احترام کرتے ہيں ، اِن دونوں کي عظمت و بزرگيکے قولاً و عملاً قائل ہيں، ان دونوں کے نام نہايت احترام اور عظمت سے ليےجاتے ہيں ، اپنے زمانے کے بے مثل و نظير جوان اور سب کے نزديک قابلاحترام۔ اگر اُنہي ايام ميں کوئي يہ کہتا کہ يہي جوان (کہ جس کي آج تماتني تعظيم کررہے ہو) کل اِسي امت کے ہاتھوں قتل کيا جائے گا تو شايد کوئييقين نہ کرتا۔

 

امام حسين کا دورانِ غربت

سيدالشہدا کي حيات کا تيسرا دور، امير المومنين کي شہادت کے بعد کا دور ہے،يعني اہل بيت کي غربت و تنہائي کا دور۔ امير المومنين کي شہادت کے بعدامام حسن اور امام حسين مدينے تشريف لے آئے۔حضرت علي کي شہادت کے بعد امامحسين بيس سال تک تمام مسلمانوں کے معنوي امام ١ رہے اور آپ تمام مسلمانوںميں ايک بزرگ مفتي کي حيثيت سے سب کيلئے قابل احترام تھے۔ آپ عالم اسلامميں داخل ہو نے والوںک ي توجہ کا مرکز، اُن کي تعليم وتر بيت کا محوراوراہل بيت سے اظہا رعقيدت و محبت رکھنے والے معنوي امام اس لحاظ سے کہامير المومنين کي شہادت کے بعد امامت ، امام حسن کو منتقل ہوئي اور آپ کيشہادت کے بعد امامت ، امام حسين کو منتقل ہوئي۔ امام حسن کي امامت کازمانہ يا امام حسين کي اپني امامت کا دور، دونوں زمانوں ميں امام حسين ٢٠سال تک تمام مسلمانوں کے معنوي امام رہے ۔ (مترجم)

 

 اخلاق و اوصاف

 

امامحسین علیہ السّلام سلسلہ امامت کی تیسری فرد اور عصمت و طہارت کا باقاعدہمجسمہ تھے- آپ کی عبادت, آپ کے زہد, آپ کی سخاوت اور آپ کے کمال اخلاق کےدوست و دشمن سب ھی قائل تھے- آپ نےپچیس حج پاپیادہ کئے- آپ میں سخاوت اورشجاعت کی صفت کو خود رسول اللہ نے بچپن میں ایسا نمایاں پایا کہ فرمایا “ حسین میں میری سخاوت اور میری جراَت ھے “۔ چنانچہ آپ کے دروازے پر مسافروںاور حاجتمندوں کا سلسلہ برابر قائم رھتا تھا اور کوئی سائل محروم واپسنھیں ھوتا تھا- 

 

اسی وجہ سے آپ کا لقب ابوالمساکین ھو گیاتھا- راتوں کو روٹیوں اور کھجوروں کے پشتارے اپنی پیٹھ پر اٹھا کر لے جاتے تھےاور غریب محتاج بیواؤں اور یتیم بچوں کو پہنچاتے تھے جن کے نشان پشت مبارکپر پڑ گئے تھے- حضرت ھمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ “ جب کسی صاحبِ ضرورت نےتمھارے سامنے سوال کے لئے ہاتھ پھیلا دیا تو گویا اس نے اپنی عزت تمھارےہاتھ بیچ ڈالی- اب تمھارا فرض یہ ھے کہ تم اسے خالی ہاتھ واپس نہ کرو, کمسے کم اپنی ھی عزتِ نفس کا خیال کرو“۔

 

 

 

 

 

 

 

غلاموںاور کنیزوں کے ساتھ آپ عزیزوں کا سا برتاؤ کرتے تھے- ذرا ذرا سی بات پر آپانھیں آزاد کر دیتے تھے- آپ کے علمی کمالات کے سامنے دنیا کا سر جھکا ھواتھا- مذھبی مسائل اور اھم مشکلات میں آپ کی طرف رجوع کیا جاتا تھا- ۔ آپرحم دل ایسے تھے کہ دشمنوں پر بھی وقت آنے پر رحم کھاتے تھے اور ایثارایسا تھا کہ اپنی ضرورت کو نظر انداز کر کے دوسروں کی ضرورت کو پورا کرتےتھے- 

 

ان تمام بلند صفات کے ساتھ متواضع اور منکسر ایسے تھے کہراستے میں چند مساکین بیٹھے ھوئے اپنے بھیک کے ٹکڑے کھا رھے تھے اور آپ کوپکار کر کھانے میں شرکت کی دعوت دی تو حضرت فوراً زمین پر بیٹھ گئے- اگرچہکھانے میں شرکت نہیں فرمائی اس بناء پر کہ صدقہ آلِ محمد پر حرام ھے مگران کے پاس بیٹھنے میں کوئی عذر نھیں ھوا-

 

 اس خاکساری کے باوجود آپکی بلندی مرتبہ کا یہ اثر تھا کہ جس مجمع میں آپ تشریف فرماھوتے تھے لوگنگاہ اٹھا کر بات بھی نہیں کرتے تھے – جو لوگ آپ کے خاندان کے مخالف تھےوہ بھی آپ کی بلندی مرتبہ کے قائل تھے- 

 

 ایک مرتبہ حضرت امامحسین علیہ السّلام نے حاکم شام معاویہ کو ایک سخت خط لکھا جس میں اس کےاعمال و افعال اور سیاسی حرکات پر نکتہ چینی کی تھی ۔ اس خط کو پڑھ کرمعاویہ کو بڑی تکلیف محسوس ھوئی- پاس بیٹھنے والے خوشامدیوں نے کہا کہ آپبھی اتنا ھی سخت خط کاجواب لکھئیے- معاویہ نے کہا, “میں جو کچھ لکھوں گاوہ اگر غلط ھو تو اس سے کوئی نتیجہ نہیں اور اگر صحیح لکھنا چاھوں تو بخداحسین میں مجھے ڈھونڈنے سے بھی کوئی عیب نھیں ملتا“۔

 

 آپ کی اخلاقیجراَت , راست بازی اور راست کرداری , قوتِ اقدام, جوش عمل اور ثبات واستقلال , صبر و برداشت کی تصویریں کربلا کے مرقع میں محفوظ ھیں- 

 

انسب کے ساتھ آپ کی امن پسندی یہ تھی کہ آخر وقت تک دشمن سے صلح کرنے کیکوشش جاری رکھی مگر عزم وہ تھا کہ جان دے دی مگر جو صحیح راستہ پہلے دناختیار کر لیا تھا اس سے ایک انچ نہ ھٹے- آپ نے بحیثیت ایک سردار کے کربلامیں ایک پوری جماعت کی قیادت کی اس طرح کہ اپنے وقت میں وہ اطاعت بھی بےمثل اور دوسرے وقت میں یہ قیادت بھی لاجواب تھی۔

 

دين ميں ہونے والي تحريفات سے مقابلہ

 

امامحسين کي عبادت اور حرم پيغمبر ميں آپ کا اعتکاف اور آپ کي معنوي رياضت اورسير و سلوک؛ سب امام حسين کي حيات مبارک کا ايک رُخ ہے۔ آپ کي زندگي کادوسرا رُخ علم اور تعليمات اسلامي کے فروغ ميں آپ کي خدمات اور تحريفات سےمقابلہ کيے جانے سے عبارت ہے۔

 

 اُس زمانے ميں ہونے والي تحريف ديندرحقيقت اسلام کيلئے ايک بہت بڑي آفت و بلا تھي کہ جس نے برائيوں کے سيلابکي مانند پورے اسلامي معاشرے کو اپني لپيٹ ميں لے ليا تھا۔ يہ وہ زمانہتھا کہ جب اسلامي سلطنت کے شہروں، ممالک اور مسلمان قوموں کے درميان اِسبات کي تاکيد کي جاتي تھي کہ اسلام کي سب سے عظيم ترين شخصيت پر لعن اورسبّ و شتم کريں۔ 

 

اگر کسي پر الزام ہوتا کہ يہ امير المومنين کيولايت و امامت کا طرفدار اور حمايتي ہے تو اُس کے خلاف قانوني کاروائي کيجاتي، ’’اَلقَتلُ بِالظَنَّۃِ وَالآَخذُ بِالتُّھمَۃِ‘‘،(صرف اِس گمان وخيال کي بنا پر کہ يہ اميرالمو منين کا حمايتي ہے ، قتل کرديا جاتا اورصرف الزام کي وجہ سے اُس کا مال و دولت لوٹ ليا جاتا اور بيت المال سے اُسکاوظيفہ بند کرديا جاتا)۔

 

اِن دشوار حالات ميں امام حسين ايک مضبوطچٹان کي مانند جمے رہے اور آپ نے تيز اور برندہ تلوار کي مانند دين پر پڑےہوئے تحريفات کے تمام پردوں کو چاک کرديا، (ميدان منيٰ ميں) آپ کا وہمشہور و معروف خطبہ اور علما سے آپ کے ارشادات يہ سب تاريخ ميں محفوظ ہيںاور اِس بات کي عکاسي کرتے ہيں کہ امام حسين اِس سلسلے ميں کتني بڑي تحريککے روح رواں تھے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

امر بالمعروف و نہي عن المنکر

 

آپٴنے امر بالمعروف اور نہي عن المنکر بھي وسيع پيمانے پر انجام ديا اور يہامر و نہي، معاويہ کے نام آپ کے خط کي صورت ميں تاريخ کے اوراق کي ايکناقابل انکار حقيقت اورقابل ديد حصّہ ہيں۔  آپ کا وہ عظيم الشّان خط اور آپ کا مجاہدانہ اوردليرانہ انداز سے امر بالمعروف اور نہي عن المنکر انجام دينا دراصل يزيدکے سلطنت پر قابض ہونے سے لے کر مدينے سے کربلا کيلئے آپ ٴکي روانگي تک کےعرصے پر مشتمل ہے۔ اِس دوران آپٴ کے تمام اقدامات، امر بالمعروف اور نہيعن المنکر تھے۔ آپ ٴخود فرماتے ہيں کہ ’’اُرِيدُ اَن آمُرَ باِلمَعرُوفِ واَنہٰي عَنِ المُنکَرِ‘‘، ’’ميں نيکي کا حکم دينا اور برائي سے منع کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

زندگي کے تين ميدانوں ميں امام حسين کي جدوجہد

 

 امام حسين اپني انفرادي زندگي _ تہذيب نفس اور تقويٰ ميں بھي اتني بڑي تحريک کے روح رواں ہیں اورساتھ ساتھ ثقافتي ميدان ميں بھي تحريفات سے مقابلہ، احکام الہي کي ترويج و اشاعت ، شاگردوں اور عظيم الشان انسانوں کي تربيت کو بھي انجام ديتے ہیں نيز سياسي ميدان ميں بھي کہ جو اُن کے امر بالمعروف اور نہي عن المنکر سے عبارت ہے، عظيم جدوجہد اور تحريک کے پرچم کو بھي خود بلند کرتے ہیں۔ يہ عظيم انسان انفرادي ، ثقافتي اور سياسي زندگي ميں بھياپني خود سازي ميں مصروف عمل ہے۔

 

اب ہم واقعہ کربلا کي طرف رُخ کرتے ہيں ۔ واقعہ کربلا ايک جہت سے بہت اہم واقعہ ہے اورخود يہ مسئلہ اُن افراد کيلئے درس ہے کہ جو امام حسين کو اپنا آئيڈيل قرار ديتے ہيں۔

 

 واقعہ کربلا آدھے دن يا اِس سے تھوڑي سي زيادہ مدت پر محيط ہے اور اُس ميں بہتر (٧٢) کے قريب افراد شہيد ہوئے ہيں ۔ دنيا ميں اور بھي سينکڑوں شہدا ہيں ليکن واقعہ کربلا نے اپني مختصر مدت اور شہدا کي ايک مختصر سي جماعت کے ساتھ اتني عظمت حاصل کي ہے اور حق بھي يہي ہے ؛ واقعہ کربلا روح اور معني کے لحاظ سے اہميت کا حامل ہے۔

 

آوازہ یا حسین کا پھر نینوا میں ھے

شبیر تیرے خون کی خوشبو ھوا میں ھے

چہلم کی شان سے ھے پریشان یزیدٍ وقت

 زینب تری دعا کا اثر کا اثر کربلا میں ھے 

(صفدر ھمدانی)

 

روح کربلا

 

واقعہ کربلا کي روح و حقيقت يہ ہے کہ امام حسين اِ س واقعہ ميں ايک لشکر يا انسانوں کي ايک گروہ کے مد مقابل نہيں تھے، ہرچند کہ وہ تعداد ميں امام حسين کے چند سو برابر تھے،بلکہ آپ انحراف و ظلمات کي ايک دنيا کے مد مقابل کھڑے تھے اور اِ س واقعہ کي يہي بات قابل اہميت ہے ۔سالار شہيدان اُس وقت کج روي، ظلمت اور ظلم کي ايک پوري دنيا کے مقابلے ميں کھڑے تھے اور يہ پوري دنيا تمام مادي اسباب و سائل کي مالک تھي يعني مال و دولت، طاقت ، شعر، کتاب، جھوٹے راوي اور درباري ملا، سب ہي اُس کے ساتھ تھے اور جہان ظلم و ظلمت اور انحراف کي يہي چيزيں دوسروں کي وحشت کا سبب بني ہوئي تھيں۔

 

ايک معمولي انسان يا اُس سے ذرا بڑھ کر ايک اور انسان کا بدن اُس دنيا ئے ظلمت و ظلم کي ظاہري حشمت ، شان وشوکت اور رعب و دبدبہ کو ديکھ کر لرز اٹھتا تھا ليکن يہ سرور شہيداں تھے کہ آپ کے قدم و قلب اُس جہان شر کے مقابلے ميں ہرگز نہيں لرزے ، آپ ميں کسي بھي قسم کا ضعف و کمزوري نہيں آئي اور نہ ہي آپ نے (اپني راہ کے حق اور مدمقابل گروہ کے باطل ہونے ميں) کسي قسم کا شک وترديد کيا، (جب آپ نے انحرافات اور ظلم و زيادتي کا مشاہدہ کيا تو) آپ فوراً ميدان ميں اتر آئے۔ اس واقعہ کي عظمت کاپہلو يہي ہے کہ اس ميں خالصتاً خدا ہي کيلئے قيام کيا گيا تھا۔

 

’’حُسَين? مِنِّي وَاَنَا مِنَ الحُسَينِ‘‘کا معني

کربلا ميں امام حسين کا کام بعثت ميں آپ کے جد مطہر حضرت ختمي مرتبت  کے کاموں سے قابل تشبيہ و قابل موازنہ ہے، يہ ہے حقيقت۔ جس طرح پيغمبر اکرم نے تن ِ تنہا پوري ايک دنيا سے مقابلہ کيا تھا امام حسين بھي واقعہ کربلا ميں جہانِ با طل کے مدمقابل تھے؛ حضرت رسول اکرم  بھي ہرگز نہيں گھبرائے ، راہ حق ميں ثابت قدم رہے اور منزل کي جانب پيش قدمي کرتے رہے، اسي طرح سيد الشہدا بھي نہيں گھبرائے، ثابت قدم رہے اور آپ ٴنے دشمن کے مقابل آکر آنکھوں ميں آنکھيں ڈال ديں۔ تحريک نبوي  اور تحريک حسيني کا محور و مرکز ايک ہي ہے اور دونوں ايک ہي جہت کي طرف گامزن تھے۔ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں’’حُسَين? مِنِّي وَاَنَا مِنَ الحُسَينِ ‘‘ کا معني سمجھ ميں آتا ہے ۔ يہ ہے امام حسين کے کام کي عظمت۔

ْْْْٰ

قيام امام حسين کي عظمت!

امام حسين نے شب عاشور اپنے اصحاب و انصار سے فرمايا تھا کہ’’ آپ سب چلے جائيے اور يہاں کوئي نہ رہے ، ميں اپني بيعت تم سب پر سے اٹھاليتا ہوں اور ميرے اہل بيت کو بھي اپني ساتھ لے جاو، کيونکہ يہ ميرے خون کے پياسے ہيں‘‘۔ امام حسين کے يہ جملے  اگر اُن کے اصحاب قبول بھي کرليتے اور امام حسين يکتا و تنہا يا دس افراد کے ساتھ ميدان ميں رہ جاتے توسيد الشہدا کے کام کي عظمت کبھی کم نہیں ھوتی بلکہ  ھمیشہ کی طرح اسي عظمت و اہميت کے حاملہوتے ۔

 

امام حسين کي عظمت و شجاعت

امام حسين کے کام کي عظمت يہ تھي کہ آپ نے ظالم و جابر، خلافت رسول ۰ کے مدعي اور انحراف کے پورے ايک جہان کے دباو کو قبول نہيں کيا۔  مدينے ميں صحابہ کرام کي اچھي خاصي تعداد موجود تھي جنہوں نے واقعہ کربلا کے بعد مدينہ ميں رونما ہونے والے واقعہ حرّہ ميں مسلم ابن عقبہ کے قتل عام کے مقابلے ميں ثابت قدمي کا مظاہرہ کيا اور جنگ کي ۔ 

 

ليکن امام حسین دوسري شجاعت کے مالک تھے، اِس واقعہ کربلا کي عظمت کا پہلو يہ ہے کہ امام حسين ايک ايسي طاقت و قدرت کے مد مقابل سيسہ پلائي ہوئي ديوار بن گئے کہ جو تمام مادي اسباب و وسائل کي مالک تھي۔

 امام حسين کے دشمن کے پاس مال و دولت تھي ، وہ قدرت و طاقت کا مالک تھا، اسلحہ سے ليس سپاہي اس کي فوج ميں شامل تھے اور ثقافتي و معاشرتي ميدانوں کو فتح کرنے والے مبلغ و مروج اورمخلص افراد کا لشکر بھي اُس کے ساتھ تھا۔ کربلا قيامت تک پوري دنيا پر محيط ہے ، کربلا صرف ميدان کربلا کے چند سو ميٹر رقبے پر پھيلي ہوئي جگہ کا نام نہيں ہے۔ آج کي دنيائے استکبار و ظلم اسلامي جمہوريہ کے سامنے کھڑي ہے۔

 

نفس نفس علی علی زباں زباں حسین ھے 

کہاں کوئی بتا سکا کہاں کہاں حسین ھے 

کربلا کے بعد اب یہ فیصلہ ھو گیا

جہاں جہاں یزید ھے وہاں وہاں حسین ھے

(صفدر ھمدانی)

 

کربلا میں ورود

 

2محرم الحرام 61 ھ بروزجمعرات کو امام حسین علیہ السلام وارد کربلا ہو گئے۔ واعظ کاشفی اور علامہ اربلی کا بیان ہے کہ جیسے ہی امام حسین (ع) نے زمین کربلا پر قدم رکھا زمین کر بلا زرد ہو گئی اور ایک ایسا غبار اٹھا جس سے آپ کے چہرہ مبارک پر پریشانی کے آثار نمایاں ہوگئے۔یہ دیکھ کر اصحاب ڈرگئے اور جنابِ اُم کلثوم رونے لگیں۔

 

صاحب مخزن البکا لکھتے ہیں کہ کربلا پر درود کے فوراََ بعد جنابِ ام کلثوم نے امام حسین (ع) سے عرض کی،بھائی جان یہ کیسی زمین ہے کہ اس جگہ ہمارادل دھل رہا ہے۔ امام حسین (ع) نے فرمایا بس یہ وہی مقام ہے جہاں بابا جان نے صفیں کے سفر میں خواب دیکھا تھا۔یعنی یہ وہ جگہ ہے جہاں ہمارا خون بہے گا۔کتاب مائتین میں ہے کہ اسی دن ایک صحابی نے ایک بیری کے درخت سے مسواک کے لیے شاخ کاٹی تواس سے خون تازہ جاری ہو گیا۔

 

امام حسین (ع) کا خط اہل کوفہ کے نام

 

کربلا پہنچنے کے بعد آپ نے سب سے پہلے اتمام حجت کیلئے اہل کوفہ کے نام قیس ابن مسہر کے ذریعہ سے ایک خط ارسال فرمایا۔جس میں آپ نے تحریر فرمایا کہ تمھاری دعوت پر میں کربلا تک آگیا ہوں الخ۔قیس خط لیے جارہے تھے کہ راستے میں گرفتار کر لیے گئے۔اور انھیں ابن زیاد کے سامنے کوفہ لے جاکر پیش کر دیا گیا۔ابن زیاد نے خط مانگا۔قیس نے بروایتے چاک کرکے پھینک دیااوربروایتے اس خط کو کھا لیاابن زیاد نے انھیں بضرب تازیانہ شہید کر دیا۔

 

عبیداللہ ابن زیاد کا خط امام حسین (ع) کے نام

 

علامہ ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ امام حسین (ع) کے کربلا پہنچنے کے بعد حرنے ابن زیاد کو آپ کی رسیدگی کربلا کی خبردی۔ا س نے امام حسین (ع) کو فوراََ ایک خط ارسال کیا۔جس میں لکھا کہ مجھے یزید نے حکم دیا ہے کہ میں آپ سے اس کے لیے بیعت لے لوں ،یا آپ کو قتل کر دوں۔امام حسین (ع) نے اس خط کا جواب نہ دیا۔اَلقَاہُ مِن یَدِہ اور اسے زمین پر پھینک دیا۔  اس کے بعد آپ نے محمد بن حنفیہ کو اپنے کربلاپہنچنے کی ایک خط کے ذریعہ سے اطلاع دی اورتحریر فرمایا کہ میں نے زندگی سے ہاتھ دھولیا ہے اور عنقریب عروس موت سے ہم کنار ہو جاؤں گا۔

 جاری ہے

 

منبع: شیعہ اسٹڈیز ڈاٹ نٹ  

تبصرے
Loading...