حزب اللہ کے خلاف عربی اور غربی سازشوں پر علامہ جواد نقوی کا تجزیہ

فقدان تقویٰ کے نتائج! آپ سب کو اور اپنے نفس کوتقویٰ الٰہی کی وصیت کرتا ہوں ،تقویٰ الٰہی کی دعوت دیتا ہوں، تقویٰ الٰہی پر تاکید کرتا ہوں کہ تقویٰ اختیار کریں زندگی کے ہر شعبے میں، زند

فقدان تقویٰ کے نتائج!
آپ سب کو اور اپنے نفس کوتقویٰ الٰہی کی وصیت کرتا ہوں ،تقویٰ الٰہی کی دعوت دیتا ہوں، تقویٰ الٰہی پر تاکید کرتا ہوں کہ تقویٰ اختیار کریں زندگی کے ہر شعبے میں، زندگی کے ہر قدم اور ہرمعاملے میں تاکہ ہمارا انجام تقویٰ کے ساتھ ہو اور ہماری عاقبت متقین والی ہو۔ وَ الْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقينَ ۔اگر بے تقویٰ ہو تو اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی تباہی کا باعث ہے جس طرح آج یہ دنیا بے تقویٰ کی وجہ سے فتنوں کا شکار ہے، قتل و غارت اوردہشت گردی کا شکار ہے، آج پوری دنیا کے اندر بے تقویٰ افراد کی وجہ سے شر و فساد اور فتنہ بڑھکاہوا ہے اور جس میں بے گناہ و بے قصور لوگ جل رہے ہیں بالخصوص اسلامی دنیا اور بالاخص مشرق وسطیٰ میں تمام شیاطین عالم اکٹھے ہو کر اس خطے کو فتنوں کی آگ میں جھونکا ہوا ہے۔ متعدد مسائل ہیں جن کی طرف اشارہ ضروری ہے ۔پاکستان کے اندر حقوق نسواں کا قانون بنایا گیا ہے چونکہ پاکستان بنیادی طور پر بد عنوانی اور کرپشن کا شکار ہے اوراسے کرپٹ اسٹیٹ بنادیا گیا ہے ،پاکستان پاک و پاکیزہ لوگوں کا مسکن و ملک ہے لیکن ناپاکوں کےہاتھ چڑھ گیا ہے اور انہوں نے اس ملک کو ایک کرپٹ مملکت میں تبدیل کردیا ہے ہرجگہ کرپشن ، بد عنوانی ،حرام خوری ، رشوت خوری اور چور بازاری ہے، لوٹ مار کے اس عالم میں ملک دیوالیہ ہو گیا ہے اس دیوالیہ پن کو چھپانے کے لئے اور اس دیوالیہ حالت میں ملک چلانے کے لئے جو تدبیر ماہرین مملکت داری نے اپنائی ہے وہ قرض ہے کہ ہم عالمی اداروں سے قرض لیں اور اس کا نام مدد رکھاہوا ہے جبکہ وہ سارا قرض ہے اور پورا ملک اس وقت قرض سے چل رہا ہے یعنی حکومت اور حکومتی شعبے اور اہل کار جو کچھ کر رہے ہیں یہ سب قرض لے کر انجام دے رہے ہیں اور قرض لینے میں جھجکتے نہیں ہیں اور یہ قرض بڑھ کر پاکستان کی کل قیمت سے تین گناہ ہوگیا ہے یعنی پوری مملکت کا جو اثاثہ ہوتاہے اگر اس کا محاسبہ کریں تو قرض اس سے تین گناہ زیادہ ہوگیا ہے اس قرض میں جو سود بنتا ہے یہ قرض سود کے ساتھ ہے اور سود کی ماہانہ و سالانہ قسطیں ہیں فقط سود کی قسطیں بھی ادا کرنا مملکت کے بس سے باہر ہوگیا ہے اور یہ حقیقت سالہا سال سے جاری ہے ،موجودہ حکومت نے دو ڈھائی سال کے اندر۶۰ سال کے برابر عالمی اداروں سے قرض لیا ہے اور عالمی ادارے جب قرض دیتے ہیں توان کی پالیسی ہی ممالک اور اقوام کو غلام بنانا ہوتا ہے۔قدیم بنیا نظام کے بارے میں آپ نے سنا ہو ا ہے اور ابھی بھی بعض جگہوں پر جاری ہے، کچھ لوگ بنیا قسم کے ہوتے ہیں جو سود پر لوگوں کو دیہاتوں اور شہروں میں قرض دیتے تھےاگر ایک دفعہ کوئی سود پر قرض لے توزندگی بھر اس کو ادا نہیں کرسکتا ، فقط سود ادا نہیں کرسکتا، قرض ادار کرنا تو دور کی بات ہے اور آخر کار جس نے ۵۰ ہزار رو پیہ سود پر لیا تو اس کو گھر ، جائیداد اورتمام اموال و املاک سے محروم ہونا پڑتا ہے اور بچوں کو تکلیف میں مبتلا کر کے دربدر ہونا پڑتا ہےظاہراً صرف ۵۰ ہزار روپیہ قرض لیا تھا جس پر فرضاً ۵ہزار یا ۱۰ ہزار سود تھا وہ سودی ہی ادا نہیں ہوسکتا یہی حال مملکت کا ہے۔

عالمی اداروں کے قرض دینے کے اقتصادی شرائط

اس وقت ہماری مملکت کا سب سے بڑا مسئلہ سود ادا کرنا ہے جو نہیں کرپا رہے اور قرض بھی ساتھ لے رہے ہیں انہوں نے مختلف شرائط رکھی ہوئی ہیں ، کچھ سیاسی شرائط رکھتےہیں اور کچھ اقتصادی شرائط رکھتے ہیں، اقتصادی شرائط میں یہ ہے کہ آپ ٹیکس وصول کریں اور اس کو بڑھا دیں قانوناً ٹیکس بنتا ہے یا نہیں بنتالیکن آپ لوگوں سے لیں جس طرح سے ابھی لے بھی رہے ہیں کہ فیکٹریوں سے الگ ٹیکس لیتےہیں اور فیکٹر یوں کے جو ڈیلر ہیں ان سے الگ ٹیکس لے لیتے ہیں اور جو لوگ خریدتے ہیں ان سے الگ ٹیکس لے لیتے ہیں ایک ہی شیٔ پر چھ ٹیکس ادا کئے جاتے ہیں تاکہ سود کا پیسہ پورا کر سکیں لیکن پھر پورا نہیں ہوتا ۔مثلاً بینک میں آپ نے پیسہ جمع کروایا اس سے ٹیکس کاٹ لیں گے وہی پیسہ آپ نے نکلوایا پھر ٹیکس کاٹ لیں گے ویدھلوڈنگ ٹیکس، آپ پیسہ دیکھنے گئے ہیں ٹیکس کاٹ لیں گے آپ نے جو بھی کام کیا ٹیکس کاٹ لیں گے اس مملکت کے لئے یہ ٹیکس لازمی ہوگیا ہے چونکہ سود اتنا ہے کہ ماہانہ قسط نہیں دے پا رہے پھر سود کو قرضے میں تبدیل کردیتے ہیں کہ یہ ہمارے قرضہ کا حصہ بنا لیں، اقتصادی شرائط لاگو کرتے ہیں کہ آپ نے یہ چیز بنانی ہے یہ نہیں بنانی یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا باقاعدہ عالمی ادارے پاکستان کی تقدیر معین کرتے ہیں۔ مثلاًاس سال گنّا کاشت نہیں کرنا کیونکہ اگر آپ گنّا کاشت کریں گے تو آپ ٹیکس نہیں دے سکتے، اس سال آپ نے فلاں چیز کاشت نہیں کرنی، کیونکہ اگر یہ کاشت کی تو آپ ٹیکس نہیں دے سکتے چونکہ ذراعت پر ٹیکس نہیں ہے اس لئے ان چیزوں کو چھوڑو اس کی جگہ یہ کام کروتاکہ ہمارے سود کی قسط ادا کرویہ اقتصادی شرائط ہیں ان میں ہمارے سیاسی ماہرین یا اقتصادی ماہرین کی مہارت یہ ہے کہ قرض کسی نہ کسی طریقہ سے ہرپھیر کرکے لے آتے ہیں ۔

عالمی اداروں کے قرض دینے کے سیاسی شرائط

عالمی ادارے مملکت کو کئی نئی مشکلات میں ڈال دیتے ہیں چونکہ قرضوں کے ساتھ سیاسی شرائط بھی رکھی جاتی ہیں ،گزشتہ دنوں لوگوں کو ناگہاں ا ینٹیں ملنا بند ہوگئیں جب پوچھا گیاکیوں اینٹ بند ہو گئی ؟تو جواب ملا بھٹے والوں نے ہڑتال کی ہوئی ہے بھٹوں پر عموماً پوری پوری فیملیز ہوتی ہیں جو نسل در نسل بھٹوں پر کام کرتی ہیں اب حکومت نے قانون منظور کیا ہے کہ بچوں سے لیبر نہیں کروانی ، لہٰذابچے بھٹوں پر کام نہیں کریں گے، بھٹے والوں کو بھی بڑوں سے کام مہنگا پڑتا ہے توانہوں نے اینٹ بنانا بند کردی ،بچوں کو ناگہاں اس لئے روک دیاتا کہ بچے اسکو ل میں جاکر پڑھیں اور یہ بہت اچھی بات ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے اندر اتنا شعور آگیا ہے کہ پاکستان کے بچے پڑھیں اور وہ بھٹوں پر کام نہ کریں اور چایلڈ لیبر نہ ہو یہ تو بہت عالی بات ہے اورواقعاً اس کی ضرورت تھی لیکن یہ ان کے شعور کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ عالمی اداروں کی شرط ہے کہ آپ کے ملک کے اندر دو یا تین حقوق بہت ضائع ہو رہے ہیں ان حقوق میں ایک اقلیتوں کے حقوق ہیں یعنی غیر مسلمانوں کے حقوق ضائع ہورہے ہیں ہندو، عیسائی اور دوسرے جو فرقے رہتےہیں ان کو آپ پورے حقوق دیں ۔دوسرا مسئلہ بچوں کے حقوق آپ کے ملک میں پورے نہیں ہورہے ہیں آپ کے بچے اسکول سے اور تعلیم سے محروم ہیں آپ بچوں سے لیبر کا کام لینا چھوڑ دیں ۔تیسرا عورتوں کے حقوق پورے نہیں کررہے اس لئے آپ یہ پورے کریں ۔یہ شرائط ہیں جو عالمی اداروں نے ہمارے حکمرانوں کے اوپر قرض لینے کے لئے ٹھونسی ہیں کہ اگر یہ شرائط پوری کریں گے تو آپ کو قرض ملے گا اور آپ کو منظور شدہ قرض کی اگلی قسطیں ملتی رہیں گی ۔ پس یہ کام اپنے شعور اور ضرورت کے مطابق نہیں بلکہ عالمی اداروں کے دباؤ کے تحت ہوتے ہیں ۔لہذا نہوں نے ایک کام یہ کیا کہ حقوق نسواں کا قانون بنایا،اب ظاہر ہے کہ یہاں کوئی ماہرین کی کونسل ہی نہیں ہے وہی نظریاتی کونسل ہے جس میں پہلوان بیٹھے ہوئے ہیں تواس کا اجلاس نہیں ہوتا اور اگر اجلاس ہوبھی ہو جائے پھر اس میں جوکچھ ہوتا ہے وہ آپ کو پتہ ہے کہ نظریاتی کونسل میں کیا ہوتا ہے جب وہاں پر باکسرز اور ریسلرز ہوں گے تو وہ قوم کے لئے کیا سوچیں گے جبکہ مملکت اور نظام بنانے کے لئے تھنک ٹینک اورمفکرین کی ضرورت ہے ، فلاسفہ اور اسکالرز کی ضرورت ہے، سوشل سائنس دانوں کی ضرورت ہے جن کا پاکستان میں بیج بھی نہیں جو سوسائٹی اور معاشرے کے معمار ہوتے ہیں ،معاشرہ بنانے والے معمارمغرب کے پاس زیادہ ہیں اور ان کی قوت کی بنیاد یہی ہے چونکہ ان کے ہاں سوشل سائنٹس بنتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ٹیکنالوجی میں سائنٹس بنتے ہیں ۔ سوشل سبجیکٹ جس کی پاکستان میں شدید کمی ہے یہاں پر ہر کام مسلح فورسز اور پولیس کو سونپ دیا جاتا ہے کہ پولیس یہ کام کرے، پولیس کا کام سوچنا نہیں ہے پولیس کا کام تھنک ٹینک کانہیں ہے اور پولیس ایک تنفیذی قوت ہے کہ جس میں نفاذ کی طاقت ہے کہ جس کا کام کسی قانون کو نفاذ کرنا ہے ، کچھ بنانا یا سوچنا پولیس کا کام نہیں ہے چونکہ اس چیز کی کمی ہے۔

اسلامی ممالک میں مغربی ڈیکٹیشن کی تأثیر
اس وجہ سے عالمی اداروں کی ڈیکٹیشن سے سوچے سمجھے بغیر ہی اس کو منظور کر لیتے ہیں اس میں شک نہیں ہے کہ پاکستان میں خواتین کو ان کا مقام و مرتبہ حاصل نہیں ہے سب سے بڑی مشکل خواتین کے اندر آگاہی کا نہ ہونا ہے اپنے مقام ،مرتبہ اور حیثیت کی آگاہی نہیں ہے۔ مغرب سے ڈیکٹیشن آتی ہے کہ آپ خواتین کو فری کرو اور اب یہ فری کرتے کرتے آخر کار پاکستان کو ترکی بنادیں گے ترکی کے ایک سیاستداں کے بقول کہ یورپ نے ہمیں ننگا کردیا ہے انہوں نے ہماری ماؤں اور بہنوں کے کپڑے اتروا دئیے ہیں لیکن انہوں نے ابھی تک ہمیں یورپی یونین کا حصہ نہیں بنایا شرط رکھتےتھے کہ آپ کے یہاں عورتوں کی آزادی نہیں ہے کیوں آزادی نہیں ہے؟ اس لئے کہ آپ کی خواتین ابھی تک پورا لباس پہنتیں ہیں پھر کیسے لباس پہنیں؟ انہوں نے کہا کہ ان کو اسکرٹ پہناؤ پھر انہوں نے ان کو اسکرٹ پہنوادی اور پھر کہا کہ اب یورپی یونین کا حصہ بناؤ یہ ترکی سیاست داں کی بات ہے ، پھر ہم نے عورتوں کو اسکرٹ پہنوا دی اور ان کو کہا کہ اب ہمیں یورپی یونین کا حصہ بناؤ لیکن انہوں نے جواب میں کہا کہ آپ کی اسکرٹ لمبی ہے اور ابھی پنڈلیوں تک جاتی ہے اس کو مزید چھوٹا کرو، انہوں نے کہا کہ ہم نے عورتوں کا سارا لباس ہی اتروا دیاپھر بھی انہوں نے کہا کہ ہم نے آپ کو یورپی یونین میں نہیں لینا ہے یہ ڈیکٹیشن ملتوں اور قوموں کو رسوا اور ذلیل کرتی ہیں ہم ایک تہذ یب سے تعلق رکھتے ہیں ہم ایک دین سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ بھی اعلی ترین اور باشرف ترین دین سے تعلق رکھتے ہیں ہمارا مذہب اسلام ہے ایک الٰہی، پاکیزہ ، آسمانی اور جامع دین ہے کہ جس کے اند ر ہر چیز موجود ہے عورتوں کی آزادی بھی موجود ہے عورتوں کے حقوق بھی موجود ہیں ۔ خطبہ اول میں جو کچھ پڑھا ہے اس میں خواتین کے حقوق کی بات تھی ، خواتین کی تکریم کی بات تھی کہ مرد کے لئے تقویٰ یہ ہے کہ وہ گھر میں خواتین کے لئے کام بھی کرے کہ جو اس کا حق نہیں بنتا وہ بھی ا س کے لئے انجام دے ، خواتین کے بارے میں قرآن میں سب کچھ موجود ہے لیکن ہم بیرونی ڈیکٹیشن سے قانون بنائیں گے تو اسی طرح کا قانون بنے گا کہ جیسے ابھی مضحکہ خیز قانون بنایا ہے کہ پہلے گھر میں لڑائی و جھگڑا ہوتا تھا تو مرد بیوی کو گھر سے نکال دیتا تھا اور وہ میکے چلی جاتی تھی اب قانون یہ بنادیا ہے کہ جب بھی گھر میں جھگڑا ہوگا بیوی شوہر کو گھر سے نکال دے گی انہوں نے اسمبلی میں یہ قانون بنایا ہے یہ کیا مذاق و مسخر ہ ہے عورتوں کے ساتھ مذاق، دین کے ساتھ بھی مذاق ہر ایک کے ساتھ مذاق ہو رہا ہے اُدھر سے جواب میں سیاسی مولانا کہہ رہے ہیں کہ ہم ابھی تنظیم حقوق شعراء بنانے والے ہیں یہ اس طرح سے جواب دے رہے ہیں یعنی ہر چیز مذاق ، کامیڈی، مسخرہ اور مذاحیہ بن گئی ہے اب مینشن کرکے چند دن اس کومیڈیا اچھالےگاپھربات ختم ہوجائے گی یہ ہمارے لئے ایک المیہ ہے کہ جس کے دین اورمذہب کے ساتھ بھی تمسخر ہورہا ہے اقلیتوں کے حقوق کے لئے عالمی ڈیکٹیشن یہ ہے کہ آپ نے یہ جو حرمت رسول اللہ ﷺ کا قانون بنایا ہوا ہے کہ کوئی رسول اللہ ﷺ کی توہین نہیں کرسکتا آپ اس کو ختم کریں تاکہ آزادی ہو، سب کو آزادی ہو ، برطانیہ کی تازہ خبر ہے کہ برطانیہ میں ایک شخص نے ملأ عام میں چوک پر کھڑے ہوکر دوسروں کو گالیاں دی ہیں اور فحاشی کی ہے یہاں پاکستان میں تو معمول ہے اور یہ کام محبت کا ذریعہ ہے ہمارے پاس کچھ لیبرل افراد تھے وہ اسی طرح سے گھٹیا زبان استعمال کرتے تھے گالی گلوچ دیتے تھے انہیں منع کیا گیا کہ آپ نے آپس میں ایک دوسرے کو گالی نہیں دینی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم گالی نہ دیں تو ہم سے کام ہی نہیں ہوسکتا اور ہم کام کیسے کریں گے یہاں تو یہ کلچر بن گیا ہے ، برطانیہ میں ایک شخص نے لوگوں کو بلاوجہ گالیاں دیں اور اس کو پولیس نے پکڑ لیاتو دوسرے دن باقاعدہ کیس بھی بن گیا ابھی برطانیہ میں بہت بڑا مشہور کیس بننے والا ہے کہ گالی دینا حقوق بشر میں سےہے گالی دینا آزادی بیان میں سے ہے اگر ایک انسان کسی کوگالی دینا چاہتا ہے تو اس کا حق بنتا ہے اور اس کو گالی دینے دو،یہی یورپ کی تہذیب ہے اوریہ ہماری جنت ہے جہاں سے ایسی چیزیں قانون بن کر آئیں گی کہ اگر ایک آدمی دوسرے کو گالیاں دینا چاہتا ہے تو اس کو گالیاں دینے دو آپ کیوں اس کی زبان بندی کرتے ہو اس کوکرنے دو، جس طرح سے انبیاء کی توہین اور بے حرمتی کرتے ہیں کہتے ہیں کہ یہ آزادی بیان ہے یہ بے حرمتی اور توہین کے لئے ڈیکٹیشن ہے جو ہمیں دوسرے کرتے ہیں اس سے بہتر قوانین ہمارے دین اور اسلام کے پاس ہیں اگر ہم انہیں سمجھیں اور تبلیغ کریں اور ان پر عمل کریں تو بہت ہی اعلی نظام و سوسائٹی بن سکتی ہے پاکستان کے مسائل بہت زیادہ ہیں عالمی سطح پر واقعات رونما ہوئے ہیں جن کی طرف میں اشارہ کروں گا۔

حزب اللہ کے خلاف عربی اور غربی سازشیں

ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ جو گذشتہ دو یا تین دن پہلے پیش آیا ہے کہ گلف کونسل اورخلیجی کونسل نے اجلاس کیا ہے کہ جس میں ۶ یا ۷ ملک ہیں کہ جن میں سے کویت ، بحرین ، امارات اور سعودی عرب ہیں انہوں نے مل بیٹھ کر ایک اجلاس میں حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے کہ حزب اللہ دہشت گرد ہیں یہ بھی ان کی بوکھلاہٹ اور عاجزی کا ایک نمونہ ہے کہ اس وقت مشرق وسطیٰ میں جو فتنہ ہے ، فتنہ باز اور فنتہ گر اپنے فتنے میں ناکام ہوئے ہیں اور اوچھی حرکتوں کے اوپر اتر آئے ہیں پہلے دہشت گرد لشکر بنائے ، تکفیری لشکر بنائے داعش کو بنایا ، انہوں نے ہر کام کیااور پھر ان کو بچانے کے لئے سب کچھ کرتے رہے اس وقت یہ فتنہ گر خطرے میں پڑے ہوا ہے جبکہ عربوں اور اہل غرب نے اس کے لئے بھاری سرمایہ لگایا تھا اب یہ فتنہ نابود ہونے کے قریب ہے اور ساری دنیا جانتی ہے کہ اس وقت کون ان تمام شیاطین کے مقابلے میں ہے ؟ ساری دنیا جانتی ہے اور آگاہ ہے سیاسی اور ڈپلومیٹ عموماً گول مول بات کرتے ہیں نام نہیں لیتے لیکن ایک طالب علم اورمبلغ کے لئے لازم نہیں ہے کہ ڈپلومیسی کی زبان استعمال کرے ساری دنیا جانتی ہے کہ ان تمام فتنوں کے سامنے تشیع کھڑا ہے شیعہ کو نابو د کرنے کے لئے یہ فتنے کھڑے کئے گے ہیں ان کا فقط ایک ہی ہدف تھا انہوں نے اس کے ساتھ ساتھ اپنے ضمنی فائدے بھی رکھے ہوئے تھے جیسے تیل، انرجی ، گیس اورپیڑولیم وغیرہ یہ ان کے لئے ضمنی اور ثانوی نوعیت کے فوائد ہیں ان کا اصل ہدف تکفیرستان بنانا تھا اور اس تکفیری ریاست کے ذریعے سے تمام اسلامی ممالک میں فتنے کھڑے کرنا اور تشیع کو کمزور کرنا ہے۔تشیع کو محو کرنا ہے کہ اپنے لٹریچر ، ویب سائٹز اور اپنے چینلز کے اندر جس کا کھل کر اظہار بھی کرتے ہیں العربیہ ٹی وی چینل پاکستان میں نشر ہوتا ہے اسے آپ سنیں یا وصال ٹی وی یا اس طرح کے چند چینلز ہیں جو پاکستان میں آ رہے ہیں آپ ان کی نشریات سنیں کہ ان کے مفتی ، مذہبی اور سیاسی رہنما تشیع کے بارے میں کیا عزائم رکھتے ہیں اور ان کا ایک اہم ترین مقصد اسرائیل کو تحفظ دینا ہے اسرائیل ایک ناسور ہے اس وقت اسرائیل دشمنی فقط تشیع کے اندر ہے آپ پوری دنیا میں مشاہدہ کریں کہ جب ماہ رمضان آتا ہے اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں سے یکجہتی کے لئے مظاہرے ہوتےہیں پوری دنیاکے اندر ان مظاہروںمیں صرف شیعہ شریک ہوتے ہیں جبکہ فلسطین میں کوئی شیعہ آباد نہیں ہے جبکہ فلسطین کوئی شیعہ ریاست نہیں ہے فلسطین کے مختلف شہروں میں شیعہ نہیں ہیں اس کے باوجود فقط شیعہ آواز اٹھاتے ہیں چونکہ اسرائیل اور صیہونیزم کی مخالفت فقط تشیع کی طرف سے ہے اورتشیع کی مرکزیت ایران میں ہے ولی فقیہ رہبر ہیں یہ ساری دنیا جانتی ہے اس بات کو عموماً ڈپلومیٹ اظہار نہیں کرتے ہیں لیکن لوگوں کی آگاہی کے لئے ضروری ہے اوریہ بات ان کے ذہن میں ہونی چاہیے کہ تشیع ان آخری سالوں میں انقلاب اسلامی کے بعدخصوصاً گذشتہ پندرہ بیس سالوں میں دنیا میں ایک بھرپور طاقت بن کر اُبھرا ہے جس کے لئے انہوں نے الارم بجایا ہے کہ اب ہلال شیعی طلوع ہورہا ہے ، ہلال شیعی یعنی مشرق وسطیٰ کے اندرشیعہ ان نیشن بن رہی ہے کہ جس کی جغرافیائی شکل پہلی کے چاند کی طرح بنتی ہے ہلال شیعی عرب ریاستوں سے شروع ہوتا ہے مثلا بحرین ہے اور بحرین سے آگے ایران ،عراق ، سوریہ اورلبنان ہیں اور اس طرح سے یہ ہلا ل شیعی بن رہا ہے بلکہ اب تو ان کو کہنا چاہیے کہ ہلال شیعی کے بجائے شیعی سرکل بن رہا ہے چونکہ ا بھی یمن بھی اس میں شامل ہوگیا ہے اور اگر یمن کو شامل کریں تو پورا دائرہ بن جاتا ہے اور یہ ہلال نہیں ہے ان ممالک میں تشیع ایک طاقت بن کر اُبھرا ہے لہذا اب اس طاقت کو کچلنا چاہتے ہیں اور اس طاقت کو کچلنے کے لئے نت نئے فتنے کھڑے کرتے ہیں کہ جو ہرروز ناکام بھی ہورہے ہیں انہوں نے سب سے زیادہ سرمایہ لگا کر جو تکفیری فتنہ کھڑا کیا تھا داعش اس کا ایک سنبل ہے اور ان کو حزب اللہ نے ناکام کر دیا ہے حزب اللہ اس وقت تشیع کی طاقت کا مظہر ہے اوردنیا کے اندراسلام کی طاقت ہے اس وقت اسرائیل، دہشت گردی اور تکفیریت کے مقابلے کے لئے میں فقط ایک فوج اور لشکر ہے وہ حزب اللہ ہے اور اس لشکر کو اور یہ گلف کونسل میں بیٹھ کر حزب اللہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ دہشت گرد گروہ ہے دہشت گردی کا کوئی نمونہ بتانا چاہیے کہ حزب اللہ نے آج تک کسی جگہ دہشت گردی کی ہے دہشت گردی یعنی بے گناہ اور بے جرم لوگوں کو قتل کرنایا اپنی دھونس اور داس بیٹھانے کے لئے قتل عام کرنا ہے حزب اللہ نے کب اور کہاں پر یہ کام کیا ہے ؟! آیا اسرائیل کے خلاف لڑنا، دہشت گردوں اور داعش کے خلاف لڑنا دہشت گردی ہے؟ انہوں نے یہ حرکت انجام دی ہے ظاہر ہے کہ عرب اپنی دولت و ثروت کے بل بوتے پر سب کچھ کر رہے ہیں لیکن یہ بے وقوف اور احمق ہیں مال اور ثروت نے ان کو نازنین بنادیا ہے ، پیسوں کی وجہ سے ان میں نازکت ہے اوراس کی وجہ سے بہت سارے لوگوں کے لئے از جملہ پاکستانیوں کے لئے خصوصاً ہمارے سیاست دانوں و لیڈروں کے لئے یہ لوگ مقدس ہیں وہ جو حماقت آمیز باتیں کرتے ہیں اس کے اثرات پڑتےہیں پاکستان ،نائیجیریا اور باقی دنیا کے اوپر اس کے اثرات پڑھتے ہیں کہتے ہیں کہ حزب اللہ دہشت گرد ہے یہ فیصلہ اپنے ساتھیوں کو اور چوتیس ممالک کی اتحادی فوج کو صادر کریں گے کہ اب بات واضح ہوگئی ہے کہ یہ چوتیس ممالک کا لشکر کس کے خلاف بنانا چارہے تھےآج انہوں نے اعلان کردیا ہے یہ ایک مذبحوہانہ کوشش ہے مذبحو ذبح شدہ حیوان کو کہتے ہیں جب ایک حیوان ذبح ہوجاتا ہے اور جب اس کی گردن کاٹ دیتے ہیں توپھر اس کے بعد وہ اپنے آپ کو بچانے کے لئے ہاتھ اورپاؤں مارتا ہے ظاہر ہے کہ وہ ہاتھ اور پاؤں مارنابے کار ہوتے ہیں وہ ناکام کوششیں ہوتی ہیں مذبحو جانور کا ہاتھ پاؤ مارنااسے بچا نہیں سکتاہے اس وقت سوریہ میں دہشت گرد اور دہشت گردوں کے حامی مذبحوحالت میں ہے وہاں پر دہشت گردی کی گردن کٹ گئی ہے اور یہ گردن کٹا ہو وحشی جانورہاتھ پاؤں مار رہا ہے اور اس کے حامی ، پشتیبان اور سرپرست ہاتھ پاؤ ںما رہے ہیں اس ہاتھ پاؤں مارنے کی ایک مثال گلف کونسل کا یہ فیصلہ ہے جیسے مذبحو جانور سمجھتا ہے کہ اگرمیں ہاتھ پیر ماروں گا تو اٹھ کر کھڑا ہوجاؤںگا اس لئے اٹھنے کی کوشش کرتا ہے دہشت گردی کی تقدیر میں ہے کہ اسے نابود ہونا ہے اور انشاء اللہ تشیع کے ہاتھوں نابود ہونا ہے اس میں ان کو اپنی رسوائی نظر آرہی ہے آپ نہیں جانتے کہ اس وقت آل سعود کی کیا حالت بنی ہوئی ہے چونکہ انہوں نے اپنی ملکی اور پورے عرب ممالک کی ثروت لگا کر یہ فتنہ کھڑا کیا تھااس میں آج ناکامی ہورہی ہے وہ سسٹم بہت شرمندہ ہوتا ہے کہ جو مغرور بھی ہو آل سعود بہت مغرور، متکبر اور فنتہ باز ہیں انہوں نے ساری دنیا میں یہ فنتہ کھڑا کیا اور آج اس فتنے کو نابود ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں اپنی پالیسیاں ناکام ہوتی ہوئی دیکھ رہے ہیں اس لئے ان کے اندر شرمندگی ہے اپنے آپ کو شکست خوردہ دیکھ رہے ہیں اس وجہ سے یہ حرکتیں انجام دے رہے ہیں اور حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دیا ہے یہ ایک حرکت ہے کہ جو انہوں نے انجام دی ہے ظاہر ہے کہ جس کا اثر عرب اور دوسروں ممالک پر پڑے گا کیونکہ جب کسی گروہ کا دہشت گرد قرار دیتےہیں تو صرف ایک اجلاس اورمیٹنگ میں اعلان نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے بعد پھر کچھ اقدامات بھی کئے جاتے ہیں اور وہ اقدامات تمام متعلقین کے ساتھ مربو ط ہوتے ہیں اور اسے ربط دیا جاتا ہے ۔

امریکہ کی پاکستان کو سخت تنبیہ کہ پاکستان اپنا نیو کلیر پروگرام بند کرے

لیکن عالمی افق پر جو ایک اور سانحہ رونما ہوا ہے ملک کے دیوالیہ ہونے کی یہی حالت کہ جو ابھی اشارہ کیا ہے ان کے پاس قرضہ لینے کے لئے جاتے ہیں اوران کی منت سماجت کرتے ہیں پھر ڈیکٹیشین لیتے ہیں اوباما نے جونئی ڈیکٹیشن دی ہے اور اس وقت آپ کا مشیر خارجہ امریکہ میں ہیں اور امریکیوں کی طرف سے سخت تنبہ سن رہے ہیں اس ناپاک نے بیان دیا ہے کہ پاکستان کو اپنا ایٹمی منصوبہ رول بیک کرنا پڑے گا، ختم کرنا پڑے گا ، ایران کے ساتھ مذاکرات کرکے اور ایران کے ایٹمی منصوبے میں خلل ڈال کر اورروک کر یہ جری ہوگیا ہے۔ شمالی کوریا ایٹمی طاقت ہے بلکہ اب تو وہ ایٹمی طاقت سے بھی آگئے چلا گیا ہے ان کے اعلان کے مطابق انہوں نے امریکیوں اور دوسروں سے پہلے نائٹروجن بم بنالیا ہے انہوں نے اعلان کر کےمہلک ہتھیار کا تجربہ بھی کرلیا ہے اسی طرح سے بھارت ہے جو ایٹمی تنظیم کا حصہ بھی نہیں ہے اسرائیل ایٹمی طاقت ہے ان میں سے کسی کے اوپر کوئی دباؤ نہیں ہے ایران کے بعد اب اس کا رخ پاکستان کی جانب ہوا ہے چند سال پہلے جب یہ حرکت شروع ہوئی تھی کسی مجلس یا گفتگو میں اعلان کیا تھا کہ یہ صرف ایران تک نہیں رکے گا یہ آگے بڑھے گا اوراس کے بعد پاکستان کی باری ہے اور آج اس نے کھل کر یہ بیان دے دیا ہے کہ پاکستان تیاریاں کرے کہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں کوختم کرے یا پھرامریکہ کے حوالے کردےاور اپنی لیباٹریاں اور سارا کچھ ختم کرے یہ ان کا پہلا اعلان ہے یہ پہلے چھپ کرکرتے تھے ابھی میڈیا کے سامنے یہ اعلان کیا ہے مشیر خارجہ نے ان کو اپنی ذہنیت کے مطابق جواب دیا ہے کہ یہ نہیں ہوسکتا ہے چونکہ ظاہراً قرض لینے گئے تھے انہوں نے کہا کہ ہمیں اتنا قرض دو ، انہوں نے جواب میں کہا کہ آپ کو قرض دے دیں گے لیکن یہ منصوبہ رول بیک کرنا پڑے گا۔تو انہوں نے کہا کہ اگر آپ بیلین ڈالر بھی قرض دیں توہم یہ رول بیک نہیں کریں گے ظاہر ہے انہیں اتنی بات کرنے کی اجازت تھی لیکن اس کے بعد کسی اور نے بیان دیااوروہ اچھا بیان تھا پتا نہیں کس سیاست دان نے یہ بیان دیا ہے لیکن بیان کی حد تک خوب تھااور ضرورت ہوتی ہے کہ بیان کا جواب بیان سے دیا جائے، اچھا بیان دیں، مردانہ اور جاندار بیان دیں کہ یہ بیان زیادہ مناسب تھا جو دوسرے کسی سیاستدان نے دیا ہے لیکن یہ بات صرف بیانات تک نہیں رکے گی ۔ پاکستان کی جو صورتحال ہے اور ان کے ہاتھ میں پاکستان کی جوکمزوریاں ہیں وہ اس سے فائدہ اٹھائیں گے اور اب وہ پاکستان کی رگ حیات کی طرف بڑھیں گے چونکہ اب پاکستان کے لئے اس منصوبے کو جاری رکھنا ضروری ہوگیا ہے چونکہ اس پر نگاہیں ہیں ظاہر ہے پاکستان سے یہ طاقت چھین کرپھر اس کے بعد پاکستان کے ساتھ کیا ہونا ہے اس کاعام آدمی بھی اندازہ لگا سکتا ہے اور خصوصاً پڑوس میں بھارت نے جو پاکستان کے لئے جوعزائم رکھے ہوئے ہیں، لہٰذا ملک کے اندر دہشت گردی ہے اور ملک کے باہردہشت گرد بنانے والوں کا دباؤ ہے وہ اس دباؤ کو ختم کرنے کے لئے یہ تو طےہے اور سیاست دانوں نے بتابھی دیا کہ پاکستان ساٹھ یا ستر سال عالمی دباؤ برداشت نہیں کرسکتا کیونکہ ان کی سیاست کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ کون ملک کو ایسے مسائل میں اور اس طرح کے میدانوں میں آکر تحمل کرے
پاکستانی قوم کو ملک اور قوم کی تقدیر کا ثبوت دینا ہے ظاہراً یہ بات تو ابھی شروع ہوئی ہے اور پھر بعد میں اسے ایٹمی تنظیم کے اندر لے جائیں گے جیسا ایران اور لبیا کے ساتھ کیا، وہاں سے پابندیوں کا آغاز ہوگا، پاکستان کی حالت یہ ہے کہ یہ پابندیوں کے بغیر ہی اسی آزادی کے عالم میں تیار ہے اور اگر اگر اس پر پابندیاں لگ گئی تو کیا ہوگالیکن قومیں پابندیاں بھی برداشت کرتی ہیں اور مقاومت بھی کرتی ہیں،پاکستان قوموں کی قربانی اور کامیابی سے بنا ہے اور اس کو بچانے کاقوم ہی اس کا سہارا ہے لیکن متأسفانہ قوم کو ابھی صرف نظارے کے لئے رکھا ہے ۔جعالی لوگ پاکستان کی تقدیر سے کھیلتے ہیں قو میں پاکستان کی تقدیر اصلی مالک اور وارث ہیں وہ نظارہ گرہوتی ہےہر چیز کا فقط نظارہ کرتے رہے یہ جو کچھ ہو رہا ہے ٹی وی کے اوپر دیکھتے رہےجبکہ یہ قابل مذمت بیان ہے اور پاکستانی لیڈروں اور سیاست دانوں کو اس غیر معمولی بیان پر اہمیت دینی چاہیے
یہ دہشت گردی سے زیادہ بڑا سنگین مسئلہ ہے، دہشت گردی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے جنتا یہ مسئلہ ہے پاکستان کے لئے اب جو پالیسی اعلان کی گئی ہے اس کے خطرات ہیں۔

ایران کے انتخابات کا نتیجہ

ایران میں ابھی الیکشن ہوئے ہیں اور اس الیکشن کے لئے ایک منصوبہ یہی ہے کہ الیکشن کے لئے ایٹمی منصوبہ کا اعلان کیا گیا اور الیکشن اس سے متاثربھی ہوئے ہیں ملک کے باقی جگہوں سے نیچرل طبیعی نتیجہ آیا ہے لیکن تہران میں اس کے برعکس و غیر طبیعی نتیجہ نکلا ہے جس میں مغربی طاقتوں کا حمایت یافتہ گروہ مکمل کامیاب ہوا ہے پارلیمنٹ میں ان کے مقابلے میں جوانقلابی فکر رکھنے والے تھے وہ مکمل ہار گئے ہیں اور بڑے ڈرامائی انداز سے اس قدرتہران کا غیر طبیعی نتیجہ ہے کہ جیتنے والوں کو خوشی نہیں ہے اور ہارنے والے شرمندگی محسوس نہیں کررہے الیکشن میں عموماً یہ ہوتا ہے کہ ایک فریق ہار جاتا ہے اور ایک جیتاہے جو جیت جاتا ہے وہ دھمال ڈالتا ہے اور جو ہار جاتا ہے وہ سوگ مناتا ہے اوروہ کوئی نہ کوئی توجیحات کرتا ہے جبکہ وہاں یہ حالت نہیں ہے، نہ ہارنے والوں کو زیادہ پریشانی ہے اور نہ جیتنے والوں کو زیادہ خوشی ہے گویا جیتنے والوں کے اندر ایک قسم کی دبی دبی شرم ساری سی نظر آرہی ہے اس سے لگتا ہے کہ پس پردہ کوئی نہ کوئی داستان یاماجرا ضرورہے وہ کیا ہے واللہ عالم ابھی کیا موجود ہے ہمارے پاس وقت نہیں ہے کہ اشارہ کروں چند روز پہلے جامعہ میں طلاب کے لئےاس ماجراکی تحلیل بیان کی تھی وہاں رجوع کرکے آپ اس موضوع کو سن سکتے ہیں اگر اس کےبعد وہاں سے کوئی تہران کے الیکشن کی وضحات ہوتی ہے توآپ کی خدمت میں پہنچادی جائے گی چونکہ اہم موضوع ہے اگرچہ پاکستان اور تہران الگ الگ ہیں جیسا مشہد ایران کا حصہ ہے و گجرانولہ پاکستان کا ۔ مشہد میں ایک اور حقیقت بھی ہے جو گجرانولہ کو مشہد سے جوڑدیتی ہے اور وہ اما م رضا علیہ السلام کا مرقد شریف ہے اس وجہ دین اور اسلام کا تعلق قائم رہتا ہے ۔ اس لئے تہران میں وزاتیں تہرانیوں کے لئے اور ان کی حکومت ایرانیوں کے لئے ہے الیکشن ان کا ہے اور سب ان کا ہے ہمارا نہیں ہے ہاں ؛ انقلاب تہران میں ہے لیکن وہ سب کا ہے تمام مسلمانوں کے درمیان انقلاب تعلق جوڑ دیتا ہے اس حقیقت سے جو وہاں موجود ہے اور ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی انشاء اللہ تمام مسلمین کوہر قسم کے فتنوں سے نجات عطافرمائے اور اللہ تعالی یہ انہوں نے نیا گلف کونسل نے جو بیان دیا ہے خدا ان کو انشاء اللہ مزید رسوا کرے

تبصرے
Loading...