حرام مہینوں میں جنگ اورخدا کی راہ سے روکنا

حرام مہینوں میں جنگ کرنا گناہِ کبیرہ ہے اور وہ چار مہینے یہ ہیں: ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب اور اس سے مراد مسلمانوں کے جنگ کرنے کی ابتداء ہے جو ان چار مہینوں میں حرام ہے اس لحاظ سے اگر کافروں یا ایسے لوگوں کی طرف سے جنگ چھیڑی جائے جو ان چار مہینوں کو حرام نہیں مانتے تو مسلمانوں کے لیے جائز ہے کہ وہ ان سے ان چار مہینوں میں بھی لڑیں۔

اس بات کے گناہِ کبیرہ ہونے کے متعلق قرآن مجید کی صراحت کافی ہے جو کہتا ہے: “تجھ سے حرام مہینے میں جنگ کے بارے میں پوچھتے ہیں تو کہہ دے کہ حرام مہینے میں لڑنا بڑا گناہ ہے۔” (سورة بقرہ آیت ۲۱۷)

ان چار گناہوں سے مراد ہے خدا کی راہ سے منع کرنا، خدا سے کفر کرنا، لوگوں کو مسجد الحرام سے روکنا اور مسجد الحرام سے اس کے لوگوں کو باہر نکالنا۔ یہ چار باتیں خدا کے نزدیک حرام مہینوں میں جنگ کرنے سے بھی زیادہ بڑے گناہ ہیں۔

اس آیت کے نازل ہونے کی وجہ اور اس کے متعلقات کے بارے میں تحقیقات کی ایک تفصیل ہے جو تفسیر مجمع اور منہج وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہاں جس بات کا جاننا لازم ہے وہ “صدعن سبیل اللّٰہ” کے معنی اور مراد ہیں جس کا گناہ کبیرہ ہونا مسلّم ہے اور جو قرآن مجید میں کئی مقامات پر کافروں اور منافقوں کا کام شمار کیا گیا ہے مثلاً خداوندعالم سورہ ابراہیم میں فرماتا ہے کافروں پر ان کے سخت عذاب کی وجہ سے افسوس ہے۔ انہوں نے دُنیا کی زندگی کو پسند کیا اور اسے آخرت پر ترجیح دی اور یہ دوسروں کو خدا کے راستے سے روکتے ہیں۔” (آیت۲)

صد عن سبیل اللّٰہ کے واقعات اور معاملات

(۱) اس کا سب سے سخت معاملہ یہودیوں اور عیسائیوں کے علماء کی طرح خدا پر ایمان لانے اور دوسرے تمام صحیح عقیدوں سے دوسروں کو روکنا ہے جو نہیں چاہتے کہ حضرت محمد ابن عبداللہ کی نبوت اور حقانیت ان کی قوم پر ظاہر ہو اور وہ اس کے معتقد ہوں اور سنی علماء کی طرح جو سنی مسلمانوں کو علی بن ابی طالب کی امامت اور بلا فصل خلافت اور ان کے گیارہ فرزندوں کی امامت کا علم نہیں ہونے دیتے۔

(۲) دوسروں کو واجبات پر عمل کرنے اور محرمات الہٰی کو ترک کرنے سے روکنا۔ مثلاً ایک شخص پر حج واجب ہے اور وہ حج کرنے کے لیے جانا چاہتا ہے تو دوسرا اسے کسی نہ کسے بہانے سے روکتا ہے۔ اسی طرح نماز روزے اور دوسرے واجبات میں روکتا ہے اور جب امر بہ معروف اور نہی از منکر گناہِ کبیرہ ہو اور ان کے لیے شدید عذابوں کا وعدہ کیا گیا ہو جیسا کہ بیان جا چکا ہے، پھر اس شخص کا کیا حال ہو گا جو معروف سے منع کرتا ہے اور منکر کا حکم دیتا ہے۔

(۳) دوسروں کو ایسے نیک کام سے روکنا جو خدا کے نزدیک اچھا اور اس کے نزدیک لے جانے والا ہو مثلاً خدا کی راہ میں خرچ کرنے اور دوسرے مستحب کاموں سے دوسروں کو روکنا۔ (مناع للخیر معتداثیم)

اگرچہ تیسری قسم کو حرام نہیں کہہ سکتے لیکن احتیاط اس کے ترک کرنے میں ہے کیونکہ جس شخص کو نیکی سے روکا گیا ہے وہ روکنے والے سے قیامت میں باز پرس کر سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ تو نے مجھ پر ظلم کیا تھا اور مجھے نیکی اور قربِ الہٰی حاصل کرنے کے طریقوں سے روکا تھا اور اس کی مذمت میں جوروایتیں کتاب امر بمعروف وسائل الشیعہ باب ۸ میں بیان کی گئی ہیں وہی کافی ہیںْ

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “نیکی کی راہ کے لٹیروں پر خدا لعنت کرے۔” جب لوگوں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں تو آپ نے فرمایا: “یہ وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ دوسرے بھلائی اور نیکی کرتے ہیں لیکن یہ ان کی ناشکری کرتے ہیں اسی لیے پھر نیک لوگ دوسروں کے ساتھ بھلائی اور نیکی نہیں کرتے۔” (کافی 

تبصرے
Loading...