حدیث ثقلین کی تحقیق (حصّہ سوّم)

ابن حجر کا کھنا ہے کہ بعض سندوں میں ذکر کیا گیا ہے کہ رسول اکرم (ص) نے حدیث ثقلین کو عرفہ میں بیان فرمایا ہے۔
دوسرے طریقے سے روایت کی گئی ہے کہ رسول اکرم (ص) نے اس کو غدیر خم میں بھی بیان فرمایا ہے۔ اسی طرح اور ایک طریقہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم (ص) نے اس کو مدینے میں ذکر فرمایا ہے جبکہ آپ بستر بیماری پر تھے اور اصحاب سے آپ کا حجرہٴ مبارک بھرا ہوا تھا۔ دوسری جگہ کہا گیا ہے کہ طائف سے واپسی پر آپ نے حدیث ثقلین کو بیان کیا ہے جبکہ آپ کھڑے ہوئے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔
پیغمبر اسلام کا مختلف طریقوں سے حدیث ثقلین کا فرمانا کسی قسم کے منافات کا سبب نھیں ہے۔ اس لئے کہ رحلت پیغمبر کے بعد لوگوں کی ھدایت و رھبری کے لئے قرآن و عترت کی اھمیت کے پیش نظر آپ نے اس حدیث کو مختلف مواقع پر متعدد بار فرمایا ہے۔ (1)
اور اسی طرح سے اس کو بار بار دہرانا نھایت ھی سود مند تھا کیونکہ یہ کام:
اولاً: قرآن و عترت کی اھمیت کی خاطر تھا۔ و ثانیاً: کسی کے لئے کوئی عذر کا موقع نہ چھوڑنے کی خاطر تھا۔ جیسا کہ خود پیغمبر نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے (ایسا امر تمہارے لئے بیان کرنا چاہتا ھوں کہ تمھارے لئے حجت رہے)۔
حدیث ثقلین (مختلف زمان و مکان میں مثلاً عرفہ، منیٰ، غدیر خم، اور آخری خطبہ جو کہ رسول اکرم (ص) نے وفات سے پھلے ارشاد فرمایا تھا) لوگوں کے عظیم الشان رھبر کی جانب سے اس لئے بیان ہوئی کہ آپ کو اسلام و مسلمین کی حیات پر اختیار تام حاصل تھا۔ لھٰذا ( رسول خدا(ص) کی جانب سے) اس حدیث کا بار بار دہرانا جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے خاص طور سے ایام و مقامات پر جبکہ شدت تمازت آفتاب زوروں پر تھی اور لوگوں کا اژدھام تھا (یعنی میدان غدیر خم میں) خصوصاً آپ کی حیات طیبہ کے آخری ایام میں اور آپ کا اپنی وفات کے بارے میں مطلع کرنا تاکہ مسلمان اس کی اھمیت کو محسوس کریں۔ اور برادارن اسلامی (خدا ان کے عزت وشرف میں اضافہ کرے) پر واجب ہے کہ زیادہ سے زیادہ اس حدیث کے مطالب توجہ فرمائیں اور اس پر عمل پیرا ہوں ۔
بمارا فریضہ ھے کہ بم اپنے آپ کو دیکھیں کہ آیا بم قرآن و عترت رسول سے متمسک ہیں یا نھیں؟
خدا گواہ ہے کہ حدیث شریف (کہ جس پر مسلمان کا اجماع ہے)
مسلمان کی رھبری کی وضاحت اور اتحاد و اتفاق کے مسئلہ کو آسان بنانے کے لئے کافی ہے۔
اے برادران اسلامی فکر کریں غور خوض کریں اور اپنے اصلاح نفس کے لئے کوشال رہیں اور حق حقیقت کا اعتراف کریں اس لئے کہ یہ راہ حق ھے اور پیغمبر اسلام (ص) نے (متعدد مقامات اور بڑے ہی سخت مواقع پر) اس کی وصیت و سفارش کی ہے لھٰذا اس کی مخالف نہ کریں۔
مختلف زمان و مکان میں حدیث ثقلین کی نشر و اشاعت اور اس میں وقت اور تفکر ہم پر واجب ہے اور ہماری یہ عمل درحقیقت رسول اکرم (ص) کی پیروی ہے جیسا کہ جناب ابوذر نے در کعبہ کی زنجیر کو پکڑ کر لوگوں کے سامنے کیا تھا۔ میں نے رسول اکرم (ص) کو فرماتے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:
تمہارے درمیان دو گر انقدر چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں ایک کتاب اور دوسرے میری عترت یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نھیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں گے۔ پس وہان رکھنا تم لوگ دو چیزوں میں میری کس حد تک مدد کرتے ہو۔ (2)

حوالہ جات:

1. ینابیع المودة صفحہ ۳۷۔ ۳۸
2. المناقب لابن مغازلی صفحہ ۱۱۲۔

تبصرے
Loading...