حج ابراہیمی

حج بیت اللہ معارف الھی کا خزانہ ہے جہاں سے آپ کو انسانی زندگي کے ہر شعبے کے لئے تعلیمات مل جائيں گی۔ حج کا پیغام ہے کہ انسان کو مادی رذائل سے دور ، معنوی و روحانی اقدار پر معاشرہ قائم کرنا چاہیے۔ حج ترقی یافتہ انسان اور معاشرے کی تصویر ہے ۔

حج ابراہیمی و حج غیر ابراہیمی

حج ابراہیمی سے مراد وہ حج ہے جسے خدا نے اپنے بندوں پرواجب کیا ہے اور اپنے خلیل سے چاہا کہ اس کا اعلان کردیں، واذن فی الناس بالحج ، اور جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے زمانے میں زندہ کیا تھا۔ بنابریں حج ابراہیمی وہ حج ہے جو حقیقی اور واقعی معنی میں حج ہے، جسے حج کی تعلیمات کو عملی جامہ پہنانے کےلئےانجام دیا جاتاہے، اس کاخاصہ اظہار عبودیت الھی اور نفی شرک و الحاد ہے اور اس کامقصد کمال وسعادت کی منزل تک پہنچنا ہے۔ حج ابراہیمی صرف ظاہری مناسک و اعمال میں محدود نہيں رہتا بلکہ ہرحالت میں اعمال کی گہرائي اور باطن پر بھی نظر رکھتا ہے۔

حضرت امام خمینی قدس سرہ فرماتےہیں:

کعبے کا طواف کرنے سے مراد یہ ہے کہ غیر خدا کے اطراف چکر نہ لگائيں ، اور رجم عقبات سے مراد یہ ہے کہ شیاطین جن و انس کو پتھر مارے جائيں، آپ رجم کرکے خدا سے عھد کرتےہيں کہ شیاطین جن و انس اور بڑی طاقتوں کو اپنے ملک سے نکال دیں گے، 2

امام خمینی ایک اور جگہ فرماتےہیں:

صفاو مروہ کے درمیان سعی کرتےہوئے سچے دل اور پاکیزگي سے محبوب کو پانے کی کوشش کریں چونکہ اسے پاکر دنیا کے سارے تعلقات ختم ہوجائيں گے اور سارے شک وشبہات کا ازالہ ہوجائے گا اور ساری حیوانی امیدیں اور خوف بھی زایل ہوجائيں گے ،لھذا منی جائيے وہاں پر آپ اپنی الھی آرزوں کو پالیں گے جو راہ محبوب مطلق میں اپنی محبوب ترین شیئي کو قربان کرنا ہے۔ 3

حضرت امام خمینی قدس سرہ نے حج غیر ابراہیمی یا امریکی حج کےبارےمیں فرمایا ہے کہ ” ناآگاہ، خاص اھداف رکھنے والے نیز سامراج سے وابستہ افراد نے فلسفہ حج اس طرح بیان کیا ہےکہ حج ایک عبادت ہے جو ملکر بجالائي جاتی ہے اور زیارت و سیاحت کا ایک سفر ہے۔ حج کو اس بات سے کوئي واسطہ نہیں ہے کہ کس طرح سے زندگي گذاری جاے اور کس طرح جدوجھد کی جاے اور کس طرح سرمایہ دارای اور کمیونیزم سے مقابلہ کیا جائے ، حج اس بات سے کوئي سروکار نہيں رکھتا کہ کس طرح ظالمین سے مسلمانوں اور محروموں کے حقوق لئے جائيں، حج کو اس بات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے کہ مسلمانوں کو ایک بڑی قوت اور دنیا کی تیسری طاقت کی حیثیت سے ظاہر ہوناچاہیے حج کو اس سے کیا لینا دینا ہے کہ مسلمانوں کو سامراج سے وابستہ حکومتوں کے خلاف قیام کی دعوت دے، بلکہ حج تو تفریح کی غرض سے کیا جانے والا ایک سفر ہے جو مکہ ومدینہ کی طرف کیا جاتا ہے۔

امام خمینی قدس سرہ حج کے بارےمیں ان غلط تصورات کو مسترد کرتےہو ئے کہتےہیں ” حج صاحب بیت سے نزدیک اور متصل ہونے کے لئے ہے۔ حج صرف حرکات، اعمال اور الفاظ کا نام نہیں ہے ، انسان محض کلام و لفظ و حرکات سے خدا تک نہيں پہنچتا، حج بیت اللہ معارف الھی کا خزانہ ہے جہاں سے ہمیں زندگي کے تمام شعبوں کےلئے اسلامی سیاست کا پیغام حاصل کرنا چاہیے۔ حج کا پیغام ہے کہ انسان کو مادی رذائل سے دور معنوی و روحانی اقدار پر معاشرہ قائم کرنا چاہیے۔ حج کمال یافتہ انسان اور معاشرے کی عشق خالق سے بھری تصویر ہے۔

حج ابراہیمی محض خشک بے روح مناسک کا نام نہیں ہے بلکہ اس حج میں عرفانی و معنوی سیر وسلوک اور روحانی منازل طے کرنی پڑتی ہیں اس کے علاوہ یہ حج عبادتی سیاسی اور سماجی پہلووں کا بھی حامل ہے ۔ عصر حاضر میں حج ابراہیمی کو زندہ کرنےوالے حضرت امام خمینی قدس سرہ نے حج کے اس پہلو پرکافی تاکید فرمائي ہے اور اپنے پیغاموں اور تقریروں میں اس عظیم عبادت کے ہمہ گیر ہونے کی یاد دھانی کرائي ہے۔ حج کے ان تمام پہلووں کے مد نظر ہی اس فریضے کی بجاآوری پر بے حد تاکید کی گئی ہے اور قرآن نے اسے خدا کا حق قراردیا ہے۔ اسی بناپر اسلامی حکومت کے رہبر اور حکومت اسلامی پرواجب ہےکہ ایسی صورت میں جب حج کو نظرانداز کردیاجائے تو لوگوں کو حج بجالانے پرمجبور کرے اور اگر لوگوں کے پاس پیسہ نہ ہوتو انہیں بیت المال سے پیسہ فراہم کرے تاکہ وہ حج بجالاسکیں۔ اس کا مقصد یہ ہےکہ خانہ خدا زائرین سے خالی نہ رہے ۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتےہیں کہ ” لوعطل الناس الحج لوجب علی الامام ان یجبرھم علی الحج ان شاووا وان ابوا فان ھذا البیت وضع للحج ۔

اگر لوگ حج جانا بند کردیں تو امام پرواجب ہےکہ وہ لوگوں کو حج کرنے پرمجبورکرے چاہے انہيں اچھا لگے یا برا کیونکہ خانہ کعبہ حج کے لئے بنایا گيا ہے۔

بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی قدس سرہ نے قرآن وسنت سے مدد لیتےہوئے مسلمانوں کو حج کے مختلف پہلووں سے آگاہ کیا اور کسی نے کیا خوب کہا ہےکہ امام خمینی نے اس زمانےمیں حج کو زندہ کیا ہے۔ آپ نے ایک تقریرمیں فرمایا: بیت اللہ الحرام اور کعبہ معظم ان حاجیوں کو اپنے آغوش میں لیتا ہے جو حج کو سیاسی گوشہ نشینی اور انحراف سے نکال کر حج ابراہیمی و محمدی کی شکل دیتےہیں اور اسے نئي زندگي عطاکرتےہیں اور مشرق ومغرب کے بت توڑدیتےہیں اور قیاما للناس کے معنی نیز مشرکین سے برائت کو عملی شکل دیتےہیں۔

امام خمینی قدس سرہ اس حج کو جو مذکورہ خصوصیات پر مشتمل نہ ہو حقیقی حج نہیں مانتےہیں اور فرماتےہیں کہ بے روح اور بے تحرکی نیز بغیر قیام و برائت کے حج اسی طرح بغیر اتحاد کے حج، حج نہیں ہے ، آپ فرماتےہیں کہ ایسا حج جو کفرو شرک کا مقابلہ نہ کرے وہ بھی حج نہیں ہے۔

حج کےبارےمیں حضرت امام خمینی کے نظریات کو بیان کرنے کےلئے اس مضمون کو تین حصوں میں تقسیم کرتےہیں۔

الف: حج ابراہیمی کے روحانی پہلو

حج ابراہیمی کا ایک بنیادی پہلو اس کا معنوی اور عرفانی پہلو ہے ۔ حج میعاد گاہ عاشقان دوست اور دلدادگان وصل یار اور محضر حق تعالی ہے ۔ حضرت امام رضا علیہ السلام نے بھی حج کی سب سے پہلی خصوصیت یہی بیان فرمائي ہے ۔ آپ ارشاد فرماتےہیں علۃ الحج الوفادۃ الی اللہ ۔جس چیز کی بناپر حج واجب قراردیا گيا ہے وہ خداوند متعال کی طرف سفرکرنا ہے۔

اسی حدیث مبارک کی تفسیر کرتےہوئے امام خمینی قدس سرہ کہتےہیں کہ ” توجہ رکھیں کہ سفر حج سفر تجارت نہ ہوجائے، حصول دنیا کا سفر نہ ہوجائے، یہ سفر الی اللہ ہے آپ خانہ خدا کی طرف جارہےہیں آپ جو کچھ انجام دیں گے خدا کی مرضی کے لئے انجام پانا چاہیے، آپ کا سفر خدا کی طرف ہے وفد الی اللہ ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتےہیں کہ الحاج والمعتمر وفد اللہ وحق علی اللہ تعالی ان یکرم وفدہ و یحبوہ بالمغفرۃ۔ جو لوگ حج و عمرہ بجالاتے وہ خدا پروارد ہوتے ہیں اور یہ خدا پرواجب ہے کہ جولوگ اس پر وارد ہوتےہیں ان کا اکرام کرے اور مغفرت وبخشش سے ان سے اظہار محبت کرے۔

دوسری عبادتوں کےساتھ حج کا مقابلہ کرنے سے حج کے معنوی پہلو مزید اجاگر ہوتے ہیں ۔ حج اپنے خاص مناسک کے ساتھ مخصوص ریاضتوں کا حامل ہے جو تزکیہ نفس اور ارتقائے درجات کمال کا سبب بنتا ہے۔ حج کرنے والے کووطن ترک کرنا پڑتا ہے۔ مال ومنال سے دستبردارہونا پڑتا ہے، تمناوں اور خواہشوں کو چھوڑنا پڑتا ہے، خود غرضی، نفس پرستی اور انانیت سے دوری اختیار کرنی پڑتی ہے۔ امام خمینی قدس سرہ حج کے معنوی پہلووں کا ذکر کرتےہوئے کہتےہیں کہ “حجاج محترم کو یہ خیال رہے کہ وہ اپنے اعمال حج میں غیر خدا کو شریک نہ کریں، حج کے معنوی پہلو بہت زیادہ ہیں لیکن اہمیت اس بات کی ہےکہ حاجی کو جاننا چاہیے کہ وہ کہاں جا رہا ہے اور اس نے کس کی دعوت پرلبیک کہا ہے اور اس ضیافت کے آداب کیا ہیں، حاجی کو جاننا چاہیے کہ خود بینی اور خود غرضی خدا پسندی کے منافی ہے اور ہجرت الی اللہ سے مغایرت رکھتی ہے اور حج کی معنویت میں کمی کا باعث ہے۔

حج تہذیب نفس اور داخلی اور بیرونی شیطانوں سے لڑنے کا میدان ہے ، حج کا ہر عمل اور وقوف و مشعر روح کے کمال، وسعت صدر نیز اخلاقی فضائل کا باعث ہوتا ہے۔ دراصل حج ظلمت سے نور کی طرف بڑھنے کا نام ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام آیت ففرو الی اللہ کی تفسیر میں فرماتےہیں کہ اس سے مراد ظلمت سے حج کی طرف جانا ہے یعنی خدا کی طرف فرار کرنا ہے۔

قرآن مجید میں قربانی کے فلسفہ کو جوکہ حج کا ایک رکن ہے بیان کرتےہوئے کہا ہے کہ اس کا مقصد تقوی کاحصول ہے۔ ارشاد ہوتاہے ” لن ینال اللہ لحومھا و لا دماوھا ولکن ینالہ التقوی منکم۔ تمہاری قربانیوں کا گوشت اور خون ہرگز خدا تک نہیں پہنچے گا بلکہ جو چیز خدا تک پہنچے گي وہ تمہارا تقوی اور پرہیزگاری ہے۔

اسلامی روایات میں حج کی معنوی خصوصیات کا اس تاکید کے ساتھ ذکر کیا گيا ہےکہ اگر حاجی ان خصوصیات سے عاری ہوتو گویا اس نے حج نہیں کیا ہے اور اسے حاجی نہیں کہاجاسکتا۔ ایک مرتبہ حج کے دوران ایک شخص حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس آیا اور کہنےلگا کتنے زیادہ حاجی ہیں آپ نے اس کےجواب میں فرمایا مااکثر الضجیج و اقل الحجیج یعنی شورغل بہت زیادہ ہے اور حاجی بہت کم ہیں ۔

حج تزکیہ نفس اور خود سازی نیز اخلاقی فضائل سے آراستہ ہونے کا بہترین موقع ہے 

تبصرے
Loading...