حجة الوداع سے غدیر خم تک انسانیت کا سرنوشت ساز سفر

یہ ہجرت کا دسواں سال ہے اور اسلام سارے جزیرة العرب میں پھیل چکا ہے ۔ تمام عرب قبایل حلقہ بگوش اسلام ہو چکے ہیں اور حضرت ختمی مرتبت  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کا اقرار کر چکے ہیں کسی ایک قبیلے میں بھی شرک و بت پرستی کا نام و نشان نہیں ہے رسالت مآب  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زحمات ثمر آور ہو کر اپنا شیرین پھل دے رہی ہیں بت تخت ِالوہیت سے اتر چکا ہے اور کلمہ طیبہ ”لا الہ الا اللہ ” جزیرة العرب کی وسعتوں پر چھا چکا ہے ۔

اب لوگوں میں تنہا فرق ان کے قلبی ایمان اور اسلام میں سابقہ کے لحاظ سے ہے ، تئیس سال تک شب و روز تبلیغ رسالت کے راستے میں جان کن اذیتیں اٹھانے والے اللہ کے عظیم الشان رسول  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، اب سمجھ چکے ہیں کہ جلد ہی اس جہان فانی سے رخصت ہو کر اپنے معبود حقیقی کی طرف لوٹ جائیں گے پس ان کی مسلسل کوشش ہے کہ جہاں جہاں تک ”اسلامی امّہ ”موجود ہے ، ان کو اسلامی آداب سکھا دیں ۔ کچھ اسلامی احکام باقی رہ گئے ہیں کہ جس کی تبلیغ و تعلیم کی ابھی تک فرصت نہیں مل سکی ہے ۔ حج کا اہم ترین فریضہ منجملہ ان چیزوں میں سے ہے کہ جس کے لیے آنحضور  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ابھی تک فرصت نہیں مل سکی تھی کہ نماز کی طرح مسلمانوں کو حج کی تعلیم دیں اور اب یہ پہلی اور آخری فرصت ہے ۔

عمومی اعلان ہو چکا ہے کہ رسول خدا  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حج کریں گے ۔ مختلف قبیلوں کے ہزاروں افراد نے مدینہ کی طرف رخت سفر باندھا اور آنحضور  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بروز جمعرات جب کہ ماہ ذیقعدہ ختم ہونے میں چھ دن رہ گئے تھے ، یا ہفتے کے دن جس کے مطابق ذیقعدہ کے آخری چار دن باقی تھے ؛ ابو دجانہ کو مدینے میں اپنا جانشین مقرر کرنے کے بعد اپنی ساری ازواج اور خاندان کے افراد کے علاوہ قربانی کے سو اونٹ لے کر ، مدینہ سے روانہ ہوئے ۔

ان دنوں آبلہ یا حصبہ کی سخت بیماری مدینہ میں وبا کی مانند پھیلی ہوئی تھی کہ جس کی وجہ سے بہت سارے مسلمان اس یادگار سفر میں آپ  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رفاقت سے محروم ہو گئے اس کے باوجود ہزاروں افراد آپ  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ شریک سفر ہو گئے ۔ مؤرخین نے حضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہیوں کی تعداد چالیس ہزار ، ستر ہزار ، نوے ہزار ، ایک لاکھ چودہ ہزار ، ایک لاکھ بیس ہزار اور ایک لاکھ چوبیس ہزار تک لکھی ہے لیکن پھر بھی سچ تو یہ ہے کہ حضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ اتنی جمعیت تھی کہ جس کی تعداد سوائے خدا کے کسی کو معلوم نہیں ہے۔ یہ وہ لوگ تھے کہ جو مدینہ سے آ رہے تھے لیکن حاجیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی کیونکہ مکہ اور اس کے مضافات میں بسنے والے اور اسی طرح وہ لوگ کہ جو امیر المؤمنین علی  علیہ السلام کے ہمراہ آئے ہوئے تھے ، وہ بھی حج میں شریک تھے ۔

حضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غسل فرمایا اپنے بدن مبارک پر تیل لگایا ، خود کو خوشبو سے معطر فرمایا اپنے بالوں میں کنگھی کی اور مدینہ سے باہر نکل آئے جب مدینہ سے نکل رہے تھے تو ان کے تن پر بس دو کپڑے تھے کہ ان میں سے ایک کو کندھے پر ڈال کر لپیٹا ہوا تھا اور دوسرے کو کمر پر باندھے ہوئے تھے ۔ منزل بہ منزل آگے بڑھ رہے تھے ؛ جب ”ذو الحلیفہ ” کے مقام پر پہنچے تو احرام باندھ لیا اور اسی طرح آگے بڑھتے رہے بالآخر بروز منگل چار ذی الحج کو مکہ میں وارد ہوئے ۔ باب بنی شیبہ سے مسجد الحرام میں داخل ہوئے اور طواف بجا لائے : دو رکعت نماز طواف ادا کی پھر صفا و مروہ کے درمیان سعی کی اور اس ترتیب کے ساتھ عمرے کے اعمال تمام ہوئے جو لوگ قربانی ساتھ نہیں لائے تھے ، انہیں حکم دیا کہ تقصیر کر کے احرام سے نکل آئیں اور چونکہ خود قربانی ہمراہ لائے تھے حالت احرام میں ہی رہے تاکہ منیٰ میں قربانی کریں ۔

ادھر امیر المومنین  علیہ السلام پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سفر حج سے باخبر ہوچکے تھے چنانچہ ٣٧ قربانیوں کے ساتھ اپنے سپاہیوں کے ہمراہ اعمال حج میں شرکت کے لیے یمن سے عازمِ مکہ ہوئے اور اہل یمن کے میقات پر اسی نیت کے ساتھ مُحرِم ہوئے کہ جس نیت سے پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم محرم ہوئے تھے اور سرور کونین  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرح صفا و مروہ کی سعی بجا لانے کے بعد احرام میں باقی رہے ۔

رسول خدا  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آٹھ ذی الحجّہ کو براستہ منیٰ عرفات کے صحراء کی جانب روانہ ہوئے تاکہ اعمال حج کا آغاز کریں ۔ نو ذی الحج کے طلوع آفتاب تک منیٰ میں ہی رہے اور پھر عرفات کا رخ کیا اور میدانِ عرفات میں اپنا خیمہ لگایا ۔عرفات میں مسلمانوں کے پرشکوہ اجتماع میں ایک انتہائی فصیح و بلیغ خطبہ دیا اس خطبہ میں مسلمانوں کو بھائی چارے اور باہمی احترام کی نصیحت کی جاہلیت کے تمام رسوم و آداب کو ختم کر دیا اور ختم نبوت کا اعلان فرمایا ، نویں کے دن غروب آفتاب تک عرفات میں رہے جب سورج غروب ہو گیا اور فضا ء میں کچھ تاریکی پھیل گئی تو ”مزدلفہ ” کا قصد کیا ،رات وہیں پر بسر کی ، دس کی صبح کو منیٰ کی طرف روانہ ہوئے اور اعمال منیٰ بجا لائے اور اس طرح سے مسلمانوں کو مناسکِ حج کی تعلیم دی ۔

اس حج کو حجة الوداع ، حجة الاسلام ، حجة البلاغ ، حجة الکمال اور حجة التمام بھی کہا گیا ہے ۔ اعمال حج مکمل کرنے کے بعد سرکار دو عالم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ کا رخ کیا۔ یہاں تک کہ سر زمین ”رابغ ” پر پہنچ گئے کہ جس کا نام ”غدیر خم ” تھا ۔

غدیر لغت میں کنویں ، حوض اور تالاب کے معنوں میں ہے ۔صحراؤں اور بیابانوں کے ایسے گڑھے جو اس انتظار میں رہتے ہیں کہ آب باران سے یا سیلاب کے جاری ہونے سے اپنے دامن کو پانی سے بھر کر اسے خالص کر لیں تاکہ صحرا کی جان لیوا پیاس کا مارا ہوا کوئی تھکا ہارا مسافر اس لازوال دسترخوان کے سامنے گھٹنے ٹیک کر اپنے ظرف کو پانی سے پر کر کے اس سے زندگی کی رمق حاصل کرے ؛عربی زبان میں غدیر کہلاتے ہیں ۔

مدینہ سے مکہ کی طرف جانے کے لیے پانچ سو کلو میٹر سے زیادہ مسافت طے کرنی پڑتی ہے ، زائرین ٢٧٠ کلومیٹر طے کرنے کے بعد جحفہ کے نزدیک ”رابغ ”نامی علاقہ میں پہنچتے ہیں ۔ جحفہ حج کے پانچ میقاتوں میں سے ایک ہے ؛ یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں سے شام کے حاجی اور جدہ سے مکہ کی جانب جانے والے افراد ، احرام باندھتے ہیں ۔جحفہ سے مکہ تک کا فاصلہ تقریبا ٢٥٠ کلومیٹر ہے اور جحفہ سے رابغ کی طرف آئیں تو ٢٦ کلومیٹر بنتا ہے اس مقام پر ایک ایسا گڑھا تھا کہ جس کا گندا اور زہر آلود پانی مسافروں کے لیے قابل استعمال نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ قافلے اس وادی میں قیام نہیں کرتے تھے گویا اسی سبب سے اسے ”خم ” کا نام دیا گیا ہے کیونکہ خم ہر ایسی فاسد چیز کو کہتے ہیں کہ جو بدبودار ہو ، مرغ کے پنجرے کو بھی اسی وجہ سے ”خم ” کہتے ہیں ۔

اسی مقام پر جبرائیل امین سورہ مائدہ کی ٦٧ نمبر آیت لے کر نازل ہوئے : یَا أَیُّھَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ اِنْ لَّم تَفعَل فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہ وَ اللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰہَ لا یَھْدِی الْقَومَ الْکَافِرِین ۔اے رسول  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! وہ کچھ جو تیرے پروردگار کی طرف سے تجھ پر نازل ہوا ہے لوگوں تک پہنچا دے اور اگر تو نے اس کام کو انجام نہیں دیا تو گویا تو نے رسالت کو ہی انجام نہیں دیا اور خدا تجھے لوگوں سے محفوظ رکھے گا بے شک اللہ کافروں کو ہدایت نہیں کرتا ۔

یہ الٰہی پیغام ایک بھاری ذمہ داری تھی ؛ ایک ایسی چیز کا اعلان کہ جس سے سب کو باخبر ہونا چاہئیے اور اگر ایسا نہ کریں تو گویا انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا ہے یا دوسرے لفظوں میں یہ پیغام قیامت تک کے انسانوں کے لیے سرنوشت ساز تھا اس بنا پر ایسے پیغام کے اعلان کے لیے بہترین فرصت یہی تھی ؛ ایک ایسا مقام کہ جہاں سے مصر ، عراق ، مدینہ ، حضرموت اور تہامہ کی راہیں ایک دوسرے سے جدا ہوتی ہیں اور سب حاجی چار و ناچار وہاں سے گزرتے ہیں ”غدیر خم ” مناسب ترین جگہ تھی کہ جو ایسے عظیم پیغام کو سب کے گوش گزار کر سکتی تھی۔

پس ٹھہرنے کا حکم صادر ہوا فرمایا کہ آگے نکل جانے والوں کو واپس بلاؤ اور اتنا صبر کیا کہ پیچھے رہ جانے والے ساتھ مل جائیں ، حجاز کے تپتے ہوئے صحرا میں لوگوں کا ایک جم غفیر اکٹھا ہو گیا ۔ شدید گرمی تھی اور مزید برآں علاقہ سخت گرما خیز تھا ؛ اتنا گرم کہ لوگوں نے اپنے آدھے کپڑے سر پر ڈال رکھے تھے اور باقی آدھے پیروں پر لپیٹے ہوئے تھے ،لوگ جاننا چاہ رہے تھے کہ کیا چیزباعث ہوئی ہے کہ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بظاہر ایسی نا مناسب جگہ پر ٹھہرنے کا حکم صادر فرمایا ہے، سخت گرمی کے ساتھ ساتھ حرارتِ اشتیاق بھی حاجیوں کو بے چین کر رہی تھی ۔

حکم دیا کہ چند کہن سال درختوں کے نیچے جھاڑو دیا جائے اور اونٹوں کے پالانوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھا جائے یہاں تک کہ ایک بلند منبر تیار ہو گیا ظہر کے نزدیک کہ جب تمام حاجی اس صحرا میں جمع ہو چکے ، آپ  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منبر پر تشریف لے گئے اور ایک فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا کہ جس کے چند اقتباسات پشت سرورق پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں اس طولانی خطبے کے بعد حضور  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی   علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر یوں بلند فرمایا کہ دونوں کے بغلوں کی سفیدی ظاہر ہو رہی تھی پھر سوال کیا : اے لوگو ! کون ہے کہ جو مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ سزاوار ہے ؟کہنے لگے : اللہ اور اس کا رسول  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بہتر جانتے ہیں ،اسی لمحے آپ نے فرمایا کہ خدا میرا سرپرست و مولیٰ ہے اور میں مومنین کا سرپرست و مولیٰ ہوں اور میں مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ سزاوار ہوں پس جس جس کا میں مولا اور سرپرست ہوں ، علی  علیہ السلام اس کے مولا و سرپرست ہیں ؛ تاریخیں چھلک رہی ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس جملے کا تین مرتبہ تکرار فرما کر دست دعا بلند کیے اور فرمایا : خداوندا ! علی علیہ السلام  کے دوست کے ساتھ دوستی اور علی   علیہ السلام  کے دشمن کے ساتھ دشمنی کر ۔۔۔ اور ہمیشہ حق کو علی   علیہ السلام  کے ساتھ رکھ جس طرف بھی وہ ہوں ۔ اس کے بعد پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حاضرین کو مامور کیا کہ یہ پیغام غائبین تک پہنچا دیں ۔جب خطبۂ نبوی تمام ہوا تو امین وحی دوسری بار اکمال دین کی سند لے کر نازل ہوا جس سے پتہ چلا کہ وہ دین جو خلافت آدم سے شروع ہوا تھا آج ولایت علی  علیہ السلام پر نہ صرف مکمل ہو گیا بلکہ اسلام کے نام سے قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے خالق کی جانب سے پسندیدہ قرار پایا ۔

پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس مسرت آفرین پیغام کو وصول کرنے کے بعد صدائے تکبیر بلند کر کے فرمایا کہ آج دین کامل ہوا اور نعمت تمام ہوئی اور میرا پروردگار میری رسالت اور میرے بعد علی   علیہ السلام  کی ولایت پر مجھ سے راضی ہوا ۔ پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خطبہ مکمل کرنے کے بعد منبر سے نیچے اترے اور ایک خیمے میں جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا کہ علی   علیہ السلام  دوسرے خیمے میں تشریف رکھیں پھر آپ  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم دیا کہ تمام اصحاب امیر المومنین علیہ السلام  کی خدمت میں مبارکباد کہیں ۔اس موقع پر صاحب تاریخ روضة الصّفا رقمطراز ہیں :”پس پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منبر سے اترے اور ایک خاص خیمہ میں بیٹھ گئے اور فرمایا کہ امیر المومنین  علیہ السلام  دوسرے خیمے میں بیٹھیں۔ اس کے بعد عوام کے مختلف گروہوں کو حکم دیا کہ خیمۂ علی   علیہ السلام  میں جائیں اور آپ  علیہ السلام  کو مبارکباد دیں جب لوگ اس امر سے فارغ ہوئے تو امہات المومنین ، امیر کائنات علیہ السلام کے فرمان کی اطاعت کرتے ہوئے گئیں اور تبریک و تہنیت پیش کی ۔

کتاب اعلام الوریٰ میں نامی گرامی شیعہ مفسّر اور محدث مرحوم طبرسی کے علاوہ تاریخ حبیب السّیر میں بھی یہ مطلب بعینہ نقل ہوا ہے کہ پھر امیر المومنین علی کرّم اللہ وجھہ حضرت رسالت  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان کے بموجب ایک خیمے میں بیٹھ گئے تااینکہ اصحاب نے گروہ در گروہ آپ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حضور لوازم تہنیت پیش کیے اور منجملہ اصحاب کے عمر بن الخطاب نے جناب ولایت مآب کو کہا : بخّ بخّ یا ابن ابی طالب اصبحت مولای و مولیٰ کلّ مؤمن و مؤمنة؛ یعنی مبارک ہو مبارک ہو اے ابوطالب  علیہ السلام کے فرزند ! تو نے صبح ایسے وقت میں کی کہ جس وقت تو میرا بھی مولا تھا اور ہر مؤمن مرد و زن کا مولا تھا۔ علامۂ امینی نے کتاب الغدیر میں ساٹھ اہل سنت دانشمندوں کے نام گنوائے ہیں کہ جنہوں نے اس روایت کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے اس کے بعد امّہات مؤمنین سیّد المرسلین  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم پر امیر المؤمنین   علیہ السلام   کے خیمے میں جا کر آداب تہنیت بجا لائیں۔

جب مبارکباد کہنے کی رسوم اختتام پذیر ہوئیں تو اس زمانے کے نامی گرامی شاعر حسان بن ثابت ، نے اجازت لے کر مشہور و معروف قصیدہ امیر المومنین  علیہ السلام  کی شان میں کہا کہ جو دعائے پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی برکت سے ایک لازوال ادب پارے کی صورت میں آج بھی جگمگا رہا ہے ۔بیعت و تہنیت کی رسوم تین دن تک جاری رہنے کے بعد تاج پوشی کا وقت آن پہنچا ۔ پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امیر المومنین  علیہ السلام  کو بلا کر اپنا عمامہ کہ جس کا نام ” سحاب ” تھا علی  علیہ السلام کے سر پر باندھا اور اس کی  باقیماندہ  لڑیاں حضرت  علیہ السلام  کے شانوں پر لٹکا دیں اور فرمایا : یا علی !العمائم تیجان العرب ؛ یعنی اے علی   علیہ السلام  ! عمامہ عرب کا تاج ہے ۔پھر انہیں جی بھر کر دیکھنے کے لیے فرمایا : میرے سامنے آؤ، حضرت  علیہ السلام  سامنے کھڑے ہو گئے پھر فرمایا : لوٹ جاؤ حضرت علیہ السلام  لوٹ گئے ، اس وقت اپنے اصحاب کی طرف رخ کر کے فرمایا : (( بدر و حنین کے دن میری مدد کو آنے والے فرشتے ، ایسا ہی عمامہ باندھے ہوئے تھے ”۔اس ترتیب سے واقعہ غدیر اختتام پذیر ہوا اور حاجیوں میں سے ہر ایک نے اپنے وطن کی راہ لی اور جزیرة العرب کے اطراف و اکناف میں پھیل گئے پس انہوں نے حدیث ولایت کو تمام مسلمانوں تک پہنچا دیا ۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اللہ کے آخری نبی  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تو اپنے آخری دنوں میں غدیر خم کے مقام پر اپنے جانشین کی تعیین کے بعد جشن مسرت کا انعقاد کریں لیکن شمع رسالت کے پروانے اس ” عید اللہ الاکبر ” کو سرے سے ہی فراموش کر جائیں ۔۔۔ !!! آخر معاملہ کیا ہے ضرور کوئی پریشانی کی بات ہے اور وہ یہی ہے کہ امت نے اس نص رسول  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقابلے میں جعلی اجتہاد سے کام لیتے ہوئے اہلبیت رسول  علیھم السلام کی حکومت و ولایت سے روگردانی اختیار کی جس کے نتیجے میں مسلم امہ روز بروز تنزلی کا شکار ہوتی چلی گئی خلافت راشدہ کے ختم ہوتے ہی مسند پیغمبر پر قیصر و کسریٰ کو شرما دینے والے حکمران براجمان ہونے لگے ، اہل حق مغلوب ہو گئے ، شیطان نے اپنے پنجے گاڑ دئیے ، جعلی حدیثوں اور بناوٹی فضیلتوں کے انبار لگ گئے ، مسلمانوں کے درمیان خون کی ندیاں بہنے لگیں ، اسلامی بھائی چارے کی کمر ٹوٹ گئی ہر طرف ظلمت و ضلالت کی گھٹا ٹوپ اندھیریاں چلنے لگیں لیکن جتنی تاریکی زیادہ ہوتی ہوگئی اتنا ہی ولایت اہلبیت  علیھم السلام کا نورانی چراغ زیادہ ضو افشانی کرنے لگا اور کیا خوب کسی نے کہا ۔

نور خدا ہے کفر کی حرکت پر خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

پس ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسی ثمر ولایت نے ہر دور میں شجر اسلام کو پربار بنائے رکھا اور ہمیشہ امت کو گمراہی سے نکالا اگر ولایت نہ ہوتی تو بنو عباس اور بنو امیہ کے منافق حکمران اسلام کا نام و نشان تک مٹا دیتے اس لیے اس دن

کی اہمیت کو درک کرنا چاہئیے اور اسے شایان شان طریقے سے محمد و آل محمد  علیھم السلام کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے منانا چاہئے کہ جس کے لیے مفاتیح الجنان اور دوسری دعاؤں کی کتابوں میں اعمال نقل کیے گئے ہیں۔

اہل بصیرت آگاہ ہیں کہ آج کی دنیا میں ہر قسم کی دہشت گردی اور استحصال کی جڑیں عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ و اسرائیل سے ملتی ہیں ۔غزہ گزشتہ کئی برسوں سے محاصرے میں ہے ، ان دنوں غزہ کا دنیا سے رابطہ منقطع ہے اور اسرائیلیوں نے اسے ایک بہت بڑے زندان میں تبدیل کر دیا ہے ، اس علاقے کے رہنے والے فلسطینی زندگی کے ابتدائی ترین معیشتی امکانات سے محروم ہیں ، اکثر تنور آٹا اور ایندھن نہ ہونے کے سبب بند ہو چکے ہیں ، پینے کا پانی منقطع ہے ، واحد بجلی گھر ایندھن نہ ہونے کی وجہ سے بند ہے ، فلسطینی رپورٹ کے مطابق ٢٦٣ فلسطینی غزہ کے محاصرے کے نتیجے میں جاں بحق ہو چکے ہیں علاقے میں ہسپتال دوائیوں کے نہ ہونے کی وجہ سے قابل استفادہ نہیں رہے ، انسانی حقوق کے عالمی ادارے اور تنظیمیں اتنے بڑے انسانی المیے پر خاموش ہیں چونکہ اسرائیل جیسے انتہا پسند دہشت گرد کو عالمی طاقتوں کی مکمل آشیرباد حاصل ہے ۔

آج اگر دنیا میں کوئی ان عالمی دہشت گردوں سے ٹکرانے کی صلاحیت رکھتا ہے تو صرف وہی ہے جو ولایت غدیر سے متمسک ہے ۔۔۔ یہ کوئی دعویٰ نہیں بلکہ روز روشن کی طرح واضح حقیقت ہے کہ ایران کے نظام ولایت فقیہ نے ہر محاذ پر اپنے دشمن کو شکست دی ہے اور آج ایران اپنے ملک کو غیر فوجی ایٹمی پاور بنانے میں مصمم ہے ۔

قابل غور بات یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے سالہا سال کی پابندیوں کا شکار یہ غیرت مند ملک دفاع ، صنعت ، اقتصاد ، سائنس ، صحت ، تعلیم سمیت ہر شعبہ زندگی میں غیر معمولی ترقی کر رہا ہے جبکہ دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن اتحادی ہونے والا ہمارا ملک ہر شعبے میں تنزلی کر رہا ہے عام لوگوں کا معیار زندگی پہاڑ سے سرکنے والے پتھر کی مانند ہوتا جا رہا ہے کہ کوشش کے باوجود اسے سہارا نہیں دیا جا سکتا ۔

خلاصہ کلام یہ کہ جب تک اسلامی ممالک بالعموم اور پاکستانی قوم بالخصوص وحدت و اتحاد کے پلیٹ فارم پر نہیں آئیں گے ، اصلاح احوال نہیں ہو سکتی ، دنیا میں مسلمانوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن ختم نہیں ہو گا ، یہ ممالک استعمار کے پنجے سے آزاد نہیں ہو سکیں گے اور اسلامی دنیا کے موجودہ حکمرانوں سے یہ توقع وابستہ نہیں کی جا سکتی ، اس لیے امت مسلمہ کو بیدار ہو کر ایک آزاد ، دیندار اور صالح قیادت کے انتخاب کے لیے جدو جہد کرنا ہو گی جو ظالم کا مواخذہ کرے اور مظلوم کی فریاد رسی کرے اور محروموں ، درد مندوں اور غریبوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنائے ،اپنے ملکوں کو غیروں کی غلامی سے نکالے ، اپنے ملکوں کی دولت اغیار کے ہاتھوں جانے سے روکیں غرض یہ کہ اپنے ملک کو استعمار ، استحصال اور استثمار کے شکنجوں سے نکالیں ،  یہی غدیر کا پیغام ہے یہی ولایت کا مشن ہے خواہ ولایت معصومین  علیھم السلام کی شکل میں ہو یا زمانہ غیبت میں ولایت فقیہ کی صورت میں کہ اس سر چشمہ ولایت غدیر ہے جو شخص غدیر کا ادراک رکھتا ہو ، وہ کبھی بھی ولایت فقیہ کی مخالفت نہیں کر سکتا اس ولایت میں شیعہ سنی مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنے کی مکمل صلاحیت ہے جس کے کئی مظاہر جمہوری اسلامی ایران میں ہونے والی عالمی اسلامی کانفرنسوں میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔

دعا ہے کہ خداوند عالم ہمیں پیغام غدیر کو درک کرنے اور اسے اپنی زندگیوں میں نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

تبصرے
Loading...