جعفري ثقافت ميں تصور ” زمانہ “

جن مسائل پر جعفري ثقافت ميں بحث ہوئي تھي ان ميں اايک زمانہ بھي تھا – جعفري صادق جو حکمت کا درس ديتے تھے ‘ زمانے کے بارے ميں بھي بہت سے مسائل پر اظہار خيال کرتے تھے جيسا کہ ہميں معلوم ہے کہ فلسفے ميں زمانے کے متعلق بحث ‘ قديم بحثوں ميں سے ہے اور قديم يونان ميں يہ موضوع حکيموں کي توجہ کا مرکز بنا رہا ہے اور آج تک اس کے متعلق بحث کا خاتمہ نہيں ہو اقديم يونان کے فلسفيوں کے ايک گروہ کا عقيدہ تھا کہ زمانہ وجود نہيں رکھتا اور ان ميں سے بعض زمانے کے وجود کے قائل تھے – جو لوگ زمانے کے وجود کے منکر تھے

 جن مسائل پر جعفري ثقافت ميں بحث ہوئي تھي ان ميں اايک زمانہ بھي تھا – جعفري صادق جو حکمت کا درس ديتے تھے ‘ زمانے کے بارے ميں بھي بہت سے مسائل پر اظہار خيال کرتے تھے جيسا کہ ہميں معلوم ہے کہ فلسفے ميں زمانے کے متعلق بحث ‘ قديم بحثوں ميں سے ہے اور قديم يونان ميں يہ موضوع حکيموں کي توجہ کا مرکز بنا رہا ہے اور آج تک اس کے متعلق بحث کا خاتمہ نہيں ہو اقديم يونان کے فلسفيوں کے ايک گروہ کا عقيدہ تھا کہ زمانہ وجود نہيں رکھتا اور ان ميں سے بعض زمانے کے وجود کے قائل تھے –

جو لوگ زمانے کے وجود کے منکر تھے ان کے بقول زمانے کا ذاتي وجود نہيں ہے بلکہ دو حرکتوں کے درمياني فاصلے کا نام ہے اور اگر انسان کي مانند ايک ذي شعوري اور حساس وجود اس فاصلے کا احساس نہيں ہوتا – اور ايک بے حس اور بے شعور وجود کو تو دو حرکتوں کے درمياني فاصلے کا احساس بھي نہيں ہوتا کيا جانور زمانيکے وجود کا احساس کرتے ہيں ؟ يوناني حکماء کے بقول اس ميں شک و شبہ کي کوئي گنجائش نہيں کہ جانور يا ان کي بعض اقسام زمانے کا احساس کرتي ہيں کيونکہ وہ وقت کي پہچان کر سکتے ہيں اور اگر زمانے کا احساس نہ کريں تو وقت کي پہچان نہيں کر سکتے ان کي وقت کي پہچان شايد بھوک يا دن کے نکلنييا سورج کے غروب ہونے کي بنا پر ہو ليکن بہر حال جانوروں کي بعض اقسام کے بارے ميں ہميں اس بات کا بخوبي علم ہے کہ وہ وقت کي شناخت کر سکتے ہيں جس سے يہ ثابت ہوتاہے کہ وہ زمانے کا احساس کرتے ہيں –

يوناني فلسفہ نے زمانے کي بذاتہ عدم موجودگي کو ثابت کرنے کيلئے جو دلائل پيش کئے ہيں ان ميں سے ايک يہ بھي ہے کہ جيسا انسان کے ہوش و حواس کھو جاتي ہيں تو وہ زمانے کے گزرنے کا احساس نہيں کرتا اور اگر چند دن و رات تک بے ہوش رہے اور پھر جو وہ ہوش ميں آئے تو اسے يہ بات بھي نہيں ياد آ سکتي کہ وہ کتنا عرصہ بے ہوش رہا – اور اگربذاتہ زمانے کا ووجود ہوتا تو جب انسان ہوش و حواس ميں آتا ہے تو اسے يہ بھي جاننا چاہيے تھا کہ وہ کتني مدت بے ہوش رہا اور گہري نيند سو جائے تو بھي جاگنے کيبعد محسوس نہيں کر سکتا کہ وہ کسي قدر سويا ہے ؟ البتہ دن کو سورج اور رات کو ستاروں کو ديکھ کر يہ معلوم کياجا سکتا ہے کہ کس قدر نيند کي ہے ؟

زمانے کي موجودگي پر دلائل دينے والوں کا کہنا ہے کہ زمانہ بہت چھوٹے چھوٹے ذرات پر مشتمل ہے يہ ذات اس قدر چھوٹے ہيں کہ ہم زمانے کي موجودگي کا احساس بھي نہيں کر سکتے ہمارے حواس خمسہ ان ذرات کا احساس کرنے پر قادر نہيں ہيں –

زمانے کے ذرات مسلسل حرکت کر رہے ہيں وہ ايک طرف سے آتے ہيں اور دوسري طرف نکل جاتے ہيں اور ہم اگرچہ ان کے گزرنے کا احساس کرتے ہيں اور اس بات کو اچھي طرح درک کرتے ہيں کہ بچپن سے نوجواني اور پھر جواني اور اس کے بعد بڑھاپے ميں پہنچ جاتے ہيں اور زمانے کے گزرنے کا احساس ہميں ہمارے ارد گرد کے جانوروں اور درختوں ميں رو نما ہونے واليتبديليوں سے بھي ہوتاہے –

ہم مشاہدہ کرتے ہيں کہ ہماري بيٹے جو پہلے دودھ پيتے تھے ‘ بڑے ہو گئے اور انہوں نے اپنا قدم جواني کے مرحلے ميں رکھا ‘ اسي طرح بھيڑي کا بچہ پہلے چھوٹا سا ہوتا ہے ھپر وہ بڑا ہو جات اہے اس ضمن ميں درخت کے پودے کي مثال بھي دي جا سکتي کہ وہ پہلے ايک چھوٹا سا پودا ہوتا ہے اور پھر وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑا تن آور درخت بن جاتا ہے مانے کي دوسري قسم وہ ہے جس کے ذرات حرکت نہيں کرتے اور خاکي يا وہ ذرات جو کسي نہر کي تہہ ميں پڑے -ہوتے ہيں باقي رہتے ہيں -اس قسم کا زمانہ متحرک ہي نہيں ہوتا کہ ايک جگہ سے دوسري جگہ جائے اس بے حرکت اور ٹھہرے ہوئے زمانے کو ابديت کا نام ديا جاتا ہے –

قديم يوناني فلاسفر کے عقيدے کے مطابق ابديت ‘ خداğ کا زمانہ ہے اور متحرک زمانہ انسان سميت تمام موجودات کا زمانہ ہے چونکہ زمانہ خداğ کيلئے ساکنا ور بے حرکت ہے لہذا ان کي حالت ميں کوئي تبديلي نہيں آتي – ليکن درخت ‘ جاندار اور انسان متحرک زمانے ميں ہيں لہذا ان ميں تبديلياں واقع ہوتي ہيں اور کسي صورت ميں بھي ان ميں واقع پذير ہونے والي تبديليوں کو روکنا محال ہے اور جب حرکت اور ساکن زمانے سے بہرہ مند ہوں گے کيا يہ ممکن ہے کہ اتفاق سے ايسا واقعہ وقوع پذير ہو يعني پودے و جاندار ساکن زمانے سے بہرہ مند ہو جائيں دوسري لفظوں ميں پودے اور انسان سميت تمام جاندار خدا بن جائيں اس بارے ميں —

يوناني حکما کا جواب مثبت ہے اور يہ وہي يوناني عرفان ہے جسکے بعض يوناني حکما معتقد تھے وہ اپنے آپ کو خداğ کے برابر کرنا چاہتے تھے ان ميں سے ہر ايک نے اپنے مقصد کے حصول کيلئے ايک راستہ اختيار کيا مثلا مشہور ايواني فلسفے کي ابتدا کرنے والا زنون ‘ نفس کے کچلنے اور ہھوي اور ہوس کو مارنے کو خداğ کيد رجے تک پہنچنے کا ذريعہ سمجھتا تھا (اسکے فلسفے کو ايواني اس لئے کہا جاتاہے کہ وہ ايتھنز ميں ايوان ميں د رس ديتا تھا )

اس نے کہا تھا ايتھنز جيسے جمہوري ملک ميں صرف قانون کي وساطت سے ازادي حاصل نہيں کي جا سکتي اورآزادي تو اس وقت ميسر آ سکتي ہے جب لوگ جہاد اکبرکريں – يعني جہاد بالنفس کريں اور جب نفس کچل ديا جائے اور سر کش لوگوں کي ھوي و ہوس انہيں دوسري لوگوں کے انفرادي اور اجتماعي حقوق پر ڈاکہ نہ ڈلانے دے تو تمام لوگ آزادي سے بہرہ مند ہو سکتے ہيں –

اسي طرح ايک دوسرا حکيم جو زنون کے ايک سو پچاس سال پہلے اس دنياميں آيا ‘ اور اس نے 270 قبل مسيح ميں اس دنيا سے کوچ کيا اس کے بقول انسان کو تمام لذات سے بہرہ مند ہونا چاہيے ليکن اعتدال ميں رہتے ہوئے تب ہي انسان خدئاوں کا رتبہ حاصل کرسکتا ہے-

اپيکور کا ہم عصر ايک دوسرا فلسفي جس کا نام ديوژن ہے اس کے بقول خداğ کے ربتے تک رسائي حاصل کرنے کيلئے انسان کو تمام اشياء سے ہاتھ دھو کر ايک گوشے ميں بيٹھ جانا چاہيے تب ہي انسان غير متحرک زمانے تک رسائي حاصل کرکے خداؤ ں کا رتبہ پا سکتا ہے ايک دن اس نے ايک لڑکے کو اپنے دو ہاتھوں سے پاني پيتے ہوئے ديکھا تو اس نے اپنا لکڑي کا پيالہ دور پھينک ديا اور کہنے لگا يہ دنياوي اسباب ميں سے ہے لہذا خدؤ ں سے پيوستگي ميں مانع ہے –

جو نکتہ يہاں پر سمجھ ميں آتا ہے وہ يہ ہے کہ يونان اور مشرقي ممالک ميں خدئاوں تک رسائي حاصل کرنے ميں جس چيز پر زور ديا گياہے وہ ھوائے نفس سے روکنا ہے اس لحاظ سے قديم يونانا ور قديم مشرق ميں کوئي فرق نہيں ‘ فرق صرف نفساني خواہشات کو روکنے کے معيار ميں ہے – ديوژن جيسے بعض يوناني عارفوں نے شرمگاہ کو ڈھانپنے والے کپڑے کے علاوہ باقي لباس کو بھي خداğ سے پيوستگي ميں رکاوٹ قرار ديا ہے يہ فکر کيسے وجود ميں آئي کہ يونان اور مشرق ميں ايک ہي صورت ميں ظاہر ہوئي؟ ہميں معلومہے کہ ہنا منشيوں سے پہلے يونان اور مشرق ميں ثقافتي رابطہ نہ تھا اس رابطے کا آغاز ہنامنشي حکمرانو کے دور سے ہو لہذا ہم يہ نہيں کہہ سکتے کہ خدا کا درجہ حاصل کرنے کيلئے جہاد بالنفس کي فکر مشرق سے يونان گئي يا يونان سے مشرق ميں آئي اس قسم کي سوچ جس ميں کنفيوشس ہندوستان ميں بدھ ‘ زردشت کي ايران ميں تحقيقي تعليمات ميں نہيں پائي جاتي – اور انہوں نے ہر گز يہ نہيں کہا کہ اگر آپ خدائي رتبہ حاصل کرنے کے خواہشمند ہيں تو اپنے نفس کو کچل ڈاليں بلکہ يہ سوچ يونان اور مشرق کے عرفاني مکاتب ميں کسي ثقافتي اور فکر رابطے کے بغير ہي پيدا ہوئي کيا اس موضوع سے يہ نتيجہ اخذ کيا جا سکتا ہے کہ يہ عرفاني سوچ تمام مفادات پر ان لوگوں ميں پيداء ہوئي جو دنياوي طاقت کے حامل نہيں تھے – اور اپنے آپ کو ضعيف سمجھتے تھے اور اسي لئے کہتے تھے خداوند سے پيوستہ ہونے کا راستہ نفساني خواہشات کي نفسي اور جہاد بالنفس ہے اور اگر عرفان کے طالب دنياوي لحاظ سے طاقت ور ہوتے تو خداوند تعالي سے وابستہ ہونے کيلئے کسي دوسرے راستے کا انتخاب کرتے –

ليکن ہميں اس بات کو نظر انداز نہيں کرنا چاہيے کہبعض اہل عرفان دنياوي طاقت بھي رکھتے تھے ليکن اس کے باوجود وہ اپنے نفس امارہ پر کنٹرول کرتے تھے لہذا يہ کہنا درست نہيں کہ خداوند تعاليس ے متصل ہونے کيلئياپنے نفساني خواہش کو زير کرنا اور نفس کے خلاف جہاد کرنا صرف مادي لحاظ سے کمزور لوگوں کا خاصہ رہا ہے –

بعد ميں انے والے ادوار ميں حکما زمانے کے وجود کے منکر ہوگے اور انيسويں صدي ميں يہ انکار يورپ کے عام سکالرز ميں پيدا ہوا اور انہوں نے کہا کہ زمانہ موجود ہي نہيں جو کچھ ہے وہ مکان ہي ہے –

ايک گروہ مکان کا منکر ہو گيا اور کہنے لگا ‘ مکان بذاتہ وجود نہيں رکھتا اور اس کا وجود مادي ہے اگر مادہ موجود ہے تو مکان بھي ہے اگر مادہ موجود نہيں تو مکان بھي نہيں ‘ عام لوگوں کي نظر ميں يہ نظريہ احساسات کا انکار تھا اور ہے جو شخص کسي ايسي کمريميں جو چند ميٹر لمبا اور چوڑا ہے بيٹھا ہوا ہے اور احساس کر رہا ہے کہ وہ ايک مکان ہے تو وہ اس مکان کي موجودگي کا ہر گز انکار نہيں کر سکتا –

جب ايک دانشور سے يہ سوال کيا جائے کہ اگر مکان وجود نہيں رکھتا تو کيسے يہ ہوائي جہاز دنيا کے ايک مقام سے دوسرے مقام تک اتني تيزي رفتاريس ے ہزاروں کلو ميٹر کا فاصلہ طے کرتے ہيں ة اگر مکان نہيں ہے تو يہ کس ميں پرواز کرتے ہيں ؟وہ جوابا کہتا ہے کہ وہ مادے ميں پرواز کرتے ہيں –

عام ذہنوں اور سطحي احساسات کے حامل افرد کو يہ باور کرانا مشکل ہے کہ آج کل جو راکٹ مريخ يا زہرہ کي طرف جاتے ہيں ‘ مادے ميں سے پروازکرتے ہيں کيونکہ شايد زمين سے دو ہزار يا تين ہزار کلو ميٹر کي بلندي تک تو ہوا کے ذرات موجود ہوں گے ليکن اس کے بعد ہوا کے ذرات نہيں ہيں اور جس فضا ميں راکٹ سفر کرتے ہيں وہاں پرخلا ہے اور کوئي چيز نہيں پائي جاتي سوائے شعاعوں کے مثلا روشني کي برقي اور مقناطيسي اور قوت کشش کي شعاعيں پائي جاتي ہيں وہاں پر مادے کے کوئي آثار نہيں ملتے کہ يہ راکٹ اس ميں سے گزريں –

ليکن وہ سائنس دان جو مکان کے وجود کے مخلافہيں ان کے بقول يہ خلا جس ميں رکٹ پرواز کر رہے ہيں ايٹم کے مرکزي اور اليکٹرانوں کے درميان فاصلے کي مانند ہے ايٹم اور اليکٹرانوں کے درميان فاصلے کي لمبائي کو سورج اور سياروں کے درمياني فاصلے سے نسبت ہے –

اسي طرح جو فصالہ زمينا ور سورج زہرہ اور سوج وغيرہ کے درميان موجود ہے مادے کا جزو ہے اور اس کے زجو مادہ ہونے کا ثبوت يہ ہے کہ قوت جاذبہ (قوت کشش) اس سے گزرتي ہے اور قوت جاذبہ مادے سے اور مادہ قوت جاذبہ سے جدا نہيں ہے اس نظريہ ميں جيسا کہ ہم مشادہ کرتے ہيں توانائي اور مادے کا درمياني فرق ختم ہو جاتا ہيا ور ہر دو ايک ہي سمجھے جاتے ہيں کيونکہاس بات کو نہايت صراحت سے يہاں بيانکر ديا گيا ہے کہ قوت جاذبہ مادہ ہے اور مادہ و قوت جاذبہ کے درميان کوئي فرق نہيں ہے –

اس ميں کوئي شک نہيں کہ اٹھارويں صدي عيسوي سے سائنس دان اس نتيجے پر پہنچ چکے تھے کہ مادہا ور توانائي ايک ہي چيز کے دو رخ ہيں ليکن مادے کي خصوصيات کو توانائي کي خصوصيات سے مختلف سمجھتے ہيں جديد فزکس ميں امدے اور توانائي کي تعريف اس قدر مشکل ہو گئي ہے کہ يہ نہيں کہا جا سکتا مادہ کاي ہے اور توانائي کيا ہے ؟

بيسويں صدي کے آغاز تک يہ کہا جاتا رہا کہ مادہ ‘ کثير مقدار ميں جمع شدہ توانائي کا نام ہے اور اسي طرح توانائي امدے کي لہروں کا نام ہے ليکن اج کل ہر تعريف مادے اور توانائي کي وضاحت کرنے کيلئے کافي نہيں ہے کيونکہ جب قوت تجاذب وہي مادہ بن جاتا ہے جو آج تک ايک کثري مقدار ميں توانائي اور لہروں کے عالوہ کسي چيز کي حيثيت سے پہچانا چجاتا تھا وہي آج لہروں کي صورت اختيار کرکے لامتناہي بن جاتا ہے اور ہم اس تعريف کے ساتھ نا گزير قبول کرنے پر مجبور ہيں کہ کائنات ميں مادے کے علاوہ کچھ بھي موجود نہيں ہے اور جہاز اور مصنوعي راکٹ مادے ميں پرواز کر رہے ہيں ليکن يہ بات ابھي تھيوري کے مراحل ميں ہے کہ مکان کا کوئي وجود نہيں اور جو کچھ ہي مادہ ہے ليکن اس ميں کوئي شک نہيں کہ قوت جاذبہ کي لہروں کي تيزي ميں سيارہ لا متناہي ہو جات اہے اور اس نظرہ کي بنيد پر مادہ لا متناہي ہے –

جن لوگوں کا يہ نظريہ ہے کہ کائنات ميں مکان کا وجود نہيں اور جو کچھ ہے مادہ ہے ان کے اس نظريئے کي وضاحت کيلئے ايک دوسري مثال ديتے ہيں کہا جاتا ہے کہ کائنات ميں اندازا ايک لاکھ کہکشائيں موجود ہيں يہ بھي ايک اندازہ ہے ممکن ہے کہکشاؤ ں  کي اصلي تعداد اس سے دو گنا يا تين گنا زيادہ ہو ان کہکشاؤن نے اپني جسامت کے لحاظ سے کائنات ميں جگہ گھيري ہوئي ہوئي ہے اب ہم فرض کرتے ہيں کہ ايک ہزار ملين کہکشائيں اور وجود ميں آتي ہيں جبکہ ہامري عقل کہتي ہے کہ اس ميں ايک ہزار ملين کہکشانو ں  کيلئے مزيد جگہ نہيں ہے کيونکہ جس قدر جگہ تھي وہي پہلے سے موجود کہکشاğ نے پر کر لي ہے اور کائنات کي مثال تماشا خانے کے اس ہال کي ہے جس ميں تماشائيوں نے ساري کرسياں پر کر دي ہيں اور کسي نئے انے والے تماشائي کيلئے کوئي جگہ نہيں ہے اور کرسياں بھي کچھ اس طرح ہيں کہ دو تماشائي ايک کرسي پر نہيں بيٹھ سکتے ليکن وہ لوگ جن کے بقول کائنات ميں مکان نہيں ہے اور جو ہے وہ مادہ ہيان کے کہنے کا مقصد يہ ہے کہ اس مسئلے سے کوئي الجھن پيدا نہيں ہوتي کيونکہ جونہي ايک ہزار ملين فالتو کہکشاں وجود ميں آئيں گي ان کيلئے مکان بھي وجود ميں آ جائے گا اور کہکشانو ں کا مکان وہي مادہ ہے جو انہيں وجود ميں لاتا ہے ان فزکس دانوں کے عقيدے کے مطابق لا متناہي کائنات ميں مادے کي کچھ مقدار اگر موجودہ مادے پربڑھا دي جائے تو کوئي مسئلہ پيدا نہيں ہوتا جب ہم کسي ايسے تماشا خانے کے ہال کا تصور کرتے ہيں جن کا طول اور عرض اور بلندي لا محدود ہو اور اس کي کرسيوں کي تعداد بھي لا محدود ہو اگر ايک ملين تماشائي کا موجودہ تماشائيوں پر اضافہ کر ديا جائے تو کوئي خاص مسئلہ پيدا نہيں ہوتا اور ان کے بعد آنے والے ايک ملين يا ايک ہزار ملين مزيد تماشائيوں کيلئے جگہ ہے –

عام عقل کے حامل لوگوں اور ان لوگں کے درميان جو يہ کہتے ہيں کہ مکان موجود نہيں ہے اور جو کچھ ہے مادہ ہے ان دو طرح کے لوگوں کي سمجھ ميں فرق يہ ہے کہ عام عقل رکھنے والے لوگوں کا خيال ہے کہ پہلے مکان موجود ہوتا کہ اس ميں کہکشاں وجود ميں آئيا ور جو مکان کي عدم وجود کے حامي ہيں ان کا خيال ہے کہ جو کہکشاں وجود ميں آئے گي وہي مکان ہو گيا س پر غور کرنے کے ساتھ ساتھ اگر ہم طول و عرض اور اونچائي (يا ضخامت ) کي گہرائي ميں جائيں تو ہم محسوس کريں گے کہاگر ايک شعور طويل کو محسوس کر ليتا ہے تو اس کيلئے عرض کي گہرائي کو درک کرنا محال ہياور ايک مربع جو طول و عرض پر مشتمل ہے يا ايک دائرہ دونوں آپ کيلئے بے معني ہيں کيونکہ حقائق کا ادراک مشکل ہے وہ صحيح معنوں ميں طول يا عرض کي تعريف نہيں کر سکتا –

اگر فرض کريں وہ طول و عرض کو مہسوس کر ليتا ہے اور ايک مربع يا دائرے کو سمجھ سکتا ہے کہ وہ کيسے ہے ؟ ليکن اس کيلئے يہ سمجھنا محال ہو گا کہ ايک آنکھ جو طول اور عرضاور بلندي پر مشتمل ہے ايک کريٹ يا ايک ويگن سے کہاں نسبت رکھتي ہے ؟

اس قياس کي بنا پر ہم عام انسان جو کسي چيز کو تين اطراف سے ماپ سکتے ہيں جوتھي طرف کو محسوس نہيں کر سکتے جب کہ رياضي دانوں نے چوتھي طرف کا وجود بھي ثابت کيا ہے چونکہ چوتھي طرف کے وجود کے قائل ہيں لہذا پانچويں اور چھٹي طرف کے بھي قائل ہوں گے ليکن تين اطراف کي کميت رکھنے والي چيزوں کي مانند ان کے وجود کو سننے والے اور پڑھنے والے کيلے مجسم صورت ميں نہيں پيش کر سکتے جب سے انسان عملي طور پر خلا ميں گيا ہے مادے کے بارے ميں اس کي معلومات ميں اضافہ ہوا ان ميں سے ايک يہ ہے کہ جتنے اجسام موجود ہيں ان سے مسلسل انفرا ريڈريز خارج ہو رہي ہيں جب کہ اس سے پہلے يہ تصور پايا جاتا تھا کہ مذکورہ شعاعيں صرف گرم چيزوں سے خارج ہور رہي ہيں زمين کے گرد گھومنے والے مصنوعي سيارہ کي تحقيقات سے يہ بات ثابت ہو چکي ہے کہ بحر منجمد شمالي اور بحر منجمد جنوبي سے بھي مسلسل مذکورہ شعاعيں خارج ہو رہي ہيں –

سائنسي تحقيقات سے ليبارتريوں ميں يہ بات پاہ ثبوت کو پہنچ چکي ہے کہ اگر کسي چيز کو سرد خانے ميں رکھ ديا جائے تو بھي وہ سردي کے مطلق صفر درجہ تک يہ شعاعيں خارج کرتا رہتا ہے ليکن جونہيسردي کا مطلق صفر درجہ پہنچتا ہے يہ شعاعيں خارج ہونا بند ہو جاتي ہيں مطلق صفر وہ درجہ ہے جہاں پر ماليکيول کي حرکت رک جاتي ہے –

يہي وجہ ہے کہ رات کو ان دور بينوں کے ذريعے جو انفرا ريڈ ريز کو ديکھتي ہيں عام چيزيں نظر اتي ہيں اور جن لوگوں کے پاس يہ دور بينہوتيہے ان سے کوئي چيز نہيں چھپ سکتيا ور يہ بات ثابت ہو چکي ہے کہ زندہ جانوروں يا پودوں سے يہ شعاعيں مردہ جانوروں يا پودوں کي نسبت زيادہ خارج ہوتي ہيں يہي وجہ ہے کہ جنگ کيمحاذوں پر ٹينک يا توپ يا بکتر بند گاڑيوں کو درختوں يا پودوں کي مدد سے ا س دشمن سے نہيں چھپايا جا سکتا جس کے پاس چيزوں کو ان کي انفر ريڈ ريز کي مدد سے ديکھنے والي دور بين ہو کيونکہ دشمن مذکورہ دور بين سے درختوں کي تمام شاخوں کو انفرا ريڈ ريز خارج کرنے کي بنا پر ديکھ ليت اہے دشمن ديھکتا ہے کہ درختوں کي شاخيں اپني جروں سے نہيں ملي ہوتيں تو وہ يہ نتيجہ اخذ کرتا ہے کہ يہ شاخيں ضرور کسي ٹينک يا بکتر بند گاري کو چھپانے کيلئے ڈالي گئي ہيں –

اسي طرح آج کے دور ميں فوجيوں کو بھي ميدان جنگ ميں مذکورہ دور بين رکھنے والے دشمن کي جيسا کہ ہم ذکر کر چکے ہيں تمام اجسام سے انفر ريڈ ريز خارج ہوتي ہيں البتہ صرف ان اجسام سے يہ شعاعيں خارج نہيں ہوتيں جن کا جسم مطلق صفر درجے تک ٹھنڈا ہو مطلق صفر درجے تک کي سردي کو 273 درجے سينٹي گريد يا 459 درجہ فارن ہائيٹ کے مساوي مانا جات اہے اس درجے تک کي سردي کو ابھي تک سائنس دان دباؤ ميں اضافہ کرنے کے باوجود وجود ميں نہيں لا سکے البتہ ليبارٹريز ميں ابھي تک اس پر ريسرچ جاري ہے –

اس دنيا کي ليبارٹريز منفي 220 (دو سو بيس درجے ) سينٹي گريڈ تک کي سردي کو حاصل کر سکي ہيں -ليکن اس سے زيادہ ٹھنڈک پيدا کرنے ميں انہين کافي زيادہ مشکلات کا سامنا ہوتا کيونکہ صرف دس درجے ٹھنڈ حاصل کرنے کيلئے انہيں برے بڑے وسائل سے کام لينا پڑتا ہے تاکہ وہ يہ جانيں کہ ماليکيول کا مکمل طور پر جامد رکھنا اجسام پر کيا اثر ڈالتا ہے ة اور کيا ماليکيولوں کا جامد ہونا ايٹم پر بھي اثر انداز ہوتا ہے ؟ اس بات کے زير اثر کہ چونکہ مادے کي شناخت ابھي ترقي کے مراحل ميں ہے يہ خيال آتا ہے کہ جن لوگوں کا عقيدہ ہے کہ کائنات ايک لا متناہي مادہ کے سوا کچھ نہيں کہ جو کچھ ہميں خلا نظر آتي ہے وہ مادے کے موجيں مارنے کا زمانہ ہے ‘ ان کا يہ عقيدہ بے بنياد نہيں اور ان کے قول کے نتيجے ميں کہا جا سکتا ہے اور جو کچھ موجود ہے وہ مادہ ہي ہے شايد يہ بات بے بنياد نہ ہو ليکن جب تک يہ تھيوري علمي قانون کي شکل اختيار نہيں کر ليتي اسے قبول نہيں کيا جا سکتا موجودہ فزکس دانوں ميں سے ايک ايزاک آسيموف ہيں جو روس ميں پيداہوئے اور بعد ميں امريکہ ہجرت کر گئے اور آج کل وہ امريکہ کے شہري ہيں انہوں نے مکان کيبارے ميں ايک جديد نظريہ پيش کيا جسے علمي اصطلاحوں اور رياضي کيفارمولوں کي مدد سے اس طرح سمجھا جا سکتا ہے مکان مادے اور اس کي شاعوں سے عبارت ہيوہ اس ترتيب کے ساتھ کہ مادہ ايٹم کے مرکزے يا مجموعي طور پر ايٹموں کے مرکزوں کا نام ہے اس مرکزے سے مسلسل شعاعيں خارج ہوتي جاتي ہيں جب يہ شعاعيں مرکزے سے قريب ہوتيں ہيں تو ان پر مرکزے کي گرفت سخت ہوتي ہے ليکن جوں جون يہ مرکزے سے دور ہوتي جاتي ہيں تو ان پر مرکزے کي گرفت ڈھيلي پڑتي جاتي ہے البتہ ان کي رفتار کم نہيں ہوتي ہم ايک مرکزے کو چراغ سے تشبيہ دے سکتے ہيں کہ چراغ کے قريب روشني کافي زيادہ ہوتي ہے ليکن جون جون يہ روشني چراغ سے دور ہوتي جاتي ہے ماند پڑتي جاتي ہے البتہ اس روشني کي رفتار پر کوئي اثر نہيں پڑتا – جس وقت ہم چراغ سے اتنے دور ہو اجتے ہيں کہ اس کي روشني ہميں دکھائي نہيں ديتي تب بھي اس کي روشني موجود ہوتي ہے اور اسي رفتار (تين لاکھ کلو ميٹر في سيکنڈ ) سے پھيل رہي ہوتي ہے ليکن ہماري آنکھ تک نہيں پہنچتي ہمارے حواس خمسہ شعاعوں کو ايک حد تک درک کرتے ہيں اگر شعاوں کي حرکت اس حد ميں نہ ہو تو نہ ہي ہماري آنکھ روشني کو ديکھتي ہے اور نہ ہمارے کان آواز کو سنتے ہيں اور نہ ہمارے بدن کي جلد گرمي کا احساس کر سکتي ہے مثلا جب ہم گھر ميں روشن چراغ سے دور ہوتے جاتے ہيں تو اس چراغ کي روشني ماند پرتي نظر آتي ہے حالانکہ اس کي روشني اسي رفتار سے يعني تين لاکھ کلو ميٹر في سيکنڈ کے حساب سے پھيل رہي ہوتيہے پرانے زمانے ميں يہ تصور پايا جا تا تھا کہ روشني خط مستقيم پر چلتي ہے ليکن بعد ميں يہ ثابت ہوا کہيہ طاقتور قوت کشش رکھنے والے ستارے کي قربت ميں خط محنني راستہ اختيار کر ليتي ہے سورج جس کي قوت جاذبہ بہت زيادہ ہے اور اس کے زير اثر ہمارے چراع کي روشني محنني راستہ کر ليتي ہے کيا س سورج کي روشني اسے اپني طرف کھنچتي بھي ہے ؟ علم فزکس جواب ديت اہے نہيں –

ہم حيران ہوتے ہيں کہ کيسے سورج اپني مضبوط قوت کشش کے ساتھ ہمارے گھر کے چراغ کي روشني کو خط محنني پر ڈال ديت اہے ليکن اسے اپني طرف نہيں کھنچتا ؟

ہر ستارے کي قوت جاذبہ اس کي کميت کے متناسب ہوتي ہے اور سورج کي کميت اس لحاظ سے بہت زيادہ ہے اگر سورج کي کميت کو سو حصوں ميں تقسيم کيا جائے اور پھر سو ميں سے کسي ايک حصيکو دوبارہ سو حصوں ميں تقسيم کيا جائے تو نظام شمسي کے باقي سياروں کي کل کميت اس سوويں حصے کے چودہ فيصد کے مساوي ہو گي –

يہاں ہميں اجسام کي کميت کو ان کا حجم خيال نہيں کرنا چاہيے ايک غبارہ جب اسے بھر ديا جائے تو اس کا حجم بڑھ تو جاتا ہے ليکن اس کي کميت وہي رہتي ہے –

اجسام کي کميت کا ہم ان کے وزن سے اندازہ لگاتے ہيں جتنا ايک جسم بھاري ہو گا اس کي کميت بھي اتني ہي زيادہ ہو گي اور جتني کسي جسم کي کميت زيادہ ہو گي اتني ہي اس کي قوت جاذبہ بھي ہو گي اور چونکہ سور کي کميت بہت زيادہ ہے لہذا اس کي قوت تجاذب بھي بہت زيادہ ہے بہر کيف سورج اپني تمام قوت کشش کے ساتھ بھي ہمارے گھر کے چراغ کي ٹمٹماتي ہوئي روشني کو اپني طرف نہيں کھنچ سکت ليکن اس کے راستے کو ٹيڑھا کر ديتا ہے سورج کے ہمارے گھر کے چراغ کي روشني تين سو ہزار کلو ميٹر في سيکنڈ کي رفتار سے چلتے ہوئے سورج کي روشني کو عبور کرکے اسکے پار پہنچ جاتي ہے اگر آپ کے ذہن ميں يہ سوال ابھرے کہ جب ہمارے گھر کے چراغ کي روشني سورج کو عبور کرتي ہے تو کس طرف جاتي ہے ؟ تو اس کا جواب يہ ہے کہ يہ روشني نظام شمسي سے گزرنے کے بعد ايک دوسرے سورج کو عبور کر ليتي ہے البتہاسکا راستہ ٹيڑھا ہو جاتا ہے ليکن يہ روشني اس سورج سے بھي آگے نکل جاتي ہے –

کيا اس بات کا امکان ہے کہکسي سورج کي قوت تجاذب اس قدر زيادہ ہو کہ وہ ہمارے گھر کے چراغ کي روشني کو جو تين لاکھ کلو ميٹر في سيکنڈ کي رفتار سے چلتي ہے ‘ اپنے اندر جذب کر لے اور اسے دور نہ جانے دے ؟

ہاں ‘ اس بات کا امکان پايا جاتاہے کہ ا گر ہمارے گھر کے چراغ کي روشني ايک کو تولہ سے عبور کرے تو اس ميں جذب ہو جائے گي نجوميوں نے يہ نام بيسويں صدي کے آغاز ميں ان ستاروں کيلئے منتخب کياہے جن کي کميت اس قدر زيادہ اور ان کيقوت کشش اتني اطقتور ہے کہ روشني ان سے نہيں گزر سکتي اور ان ميں جذب ہو جاتي ہے کو تولہ نامي ستاروں کي کميت اس قدر زيادہ ہے کہ ہم اس کا تصور بھي نہيں کر سکتے مذکورہ ستاروں کي کميت اس لے بہت زيادہ ہے کہ ان کے ايٹموں کے اليکٹران نہيں ہوتے اور وہ صرف مرکزے پر مشتملہوتے ہيں ہميں معلوم ہونا چاہيے کہ ايٹم جو مادے کا چھوٹے سے چھوٹا ذرہ ہے ‘ ہمارے نظام شمسي کي نسبت ايک خالي فضا ہے –

ايٹم کا اصلي حصہ اس کا مرکزہ ہے ‘ اور باقي خالي فضا ہے – اور اليکٹران ايٹم کے مرکزے کے ارد گرد اس طرح گھوم رہے ہيں جس طرح سيارے سورج کے گرد گردش کر رہے ہيں – اگر تمام اليکٹرانوں اور مرکزوں کا درمياني فاصلہ ختم کر ديا جائے تو کرہ ارض کا حجم فٹ بال کي گيند کے برابر ہو گا ليکن اس کا وزن وہي ہو گا جو آج کرہ ارض ہے –

کوتولہ نامي ستاروں کے ايمتوں ميں خالي فضا نہيں پائي جاتي اور نہ ہي ان کے اليکٹران ہيں ‘ ان ميں صرف مرکزے باقي ہيں جو اس ميں ملے ہوئے ہيں ان کا وزن اس قدر زيادہ ہے کہ مذکور بالا مثال کے مطابق ان کا فٹ بال جتني ايک گيند کي کميت کا وزن آج کرہ ارض کے کل وزن کے برابر ہے چونکہ قوت جاذب کو کميت سے نسبت ہے لہذا ہمارے چراغ کي روشني کو تولہ ستاروں سے نہيں گزر سکتي کيونکہ ان کي کميت اتني زيادہ ہے کہ يہ روشني ان ميں جذب ہو جاتي ہے يہي وجہہے کہ کوتولہ ستارے تاريک دکھائي ديتے ہيں فرض کيجئے ہم اپنے ساتھ چراغ لے کر کوتولہ ستارے تک پہنچ جاتے ہيں وہاں ہم اندھرے کو دور کرنے کيلئے اپنا چراغ جلاتے ہيں (اگر جل سکے ) تو بھي ہم ديکھيں گے کہ ہميں کچھ بھي دکھائي نہيں ديگا اس کي وجہ يہ ہے کہ قبل اس کے ہمارے چراغ کي روشني ارد گرد پھيلنے کيلئے حرکت کرے کو تولہ ستارے ميں جذب ہو جائے گي کيونکہ کوتولہ ستاروں کي قوت تجاذب اس قدر زيادہ ہے کہ وہ ہمارے چراغ کي روشني کو متحرک ہونے اور ارد گرد پھيلنے سے پہلے ہي جذب کر لے گي اور اس طرح ہمارا ماحول تاريکي ميں ڈوبا رہے گا –

کوتولہ ستاروں کے تاريک ہونے کي وجہ يہ بھي ہے کہ ان کے قرب و جوار ميں روشني کي شعاعيں نہيں ہوتيں اگر ہوتي بھي ہيں تو ستارے ميں جذب ہو جاتي ہيں – اور فلکيات کے ماہرين نے کوتولہ ستاروں کو ان کے اطراف ميں پائيجانے والے ستاروں کي مدد سے ديکھ اہے ليکن آچ جبکہ ريڈيو ٹيلي سکوب ايجاد ہو چکا ہے اسکي مدد سے کوتولہ ستاروں کے وجود کا احساس کيا جا سکتا ہے اگر گھروں ميں روشن چراغ کي روشني کسي کو تولہ ستارے ميں جذب نہ ہو تو وہ اپنے راستے پر چلتي ہے اس کا راستہ دائيں طرف يا بائيں طرف اور اوپر يا نيچے بھي مڑ سکتا ہے –

آيزاک آسيموف کے بقول راستہ يعني مکان وجود نہيں رکھتا بلکہ روشني خود اسے وجود ميں لاتي ہے اور روشني کي شعاعيں مکان ہيں اس ماہر طبعيات کے نظر يہ کي بنا پر مکان کا کوئي وجود نہيں ہے جب تک کہ روشني اس ميں سفر نہ کرے بلکہ روشني اور اس کي شعاعوں نے مکان وجود ميں لايا ہے اگر يہ سوال کيا جائے کہ ہمارے گھر کے چراغ کي روشني کب تک محو سفر رہتي ہے ؟

علم فزکس جواب ديتا ہے کہ ان کا سفر کبھي ختم نہيں ہوتا اور اس وقت تک اپنا سفر جاري رکھتيہے جب تک وہ مادے ميں تبديل نہيں ہو اجتي ہامرے گھر کے چراغ کي روشني جو توانائي ہے کيسے امدے ميں تبديل ہو جاتي ہے ؟

آج تک علم فزکس اس سوال کا جواب دينے سے عاري ہے اور اگر علم فزکس اس سوال کا جواب ڈھونڈلے تو وہ ايک لاکھ سال کا علمي راستہ ايک سيکنڈ ميں طے کر لے گي چونکہ فزکس ميں سب سے بڑا راز يہي ہے اور عظيم تخليق کے راز کا جواب بھي يہي سوال ہے کہ توانائي مادے ميں کيسے تبديل ہوتي ہے مادے کا توانائي ميں تبديل ہونا ہماري نظر ميں عام سي بات ہے ہم دنا ور رات کارخانوں ‘ بحري جہازوں ‘ گاڑيوں اور گھروں ميں ماديکو توانائي ميں تبديل کرتے ہيں ليکن آج تک ہم توناائي کو مادے ميں تبديل نہيں کر سکے – اور ابھي تک ہميں معلوم نہيں ہو سکا کہ توانائي مادے ميں کيسے تبديل ہوتي ہے ؟ ہماري آنکھوں کے سامنے تخليق کا بہترين نمونہ سورج ہے ليکن سورج ميں بھي توانائي مادے ميں تبديل ہوتي ہے بلکہ ايک ماد دوسرے مادے ميں تبديل ہوتا ہے وہ اس طرح کہ سورج ميں پائي جانے والي ہائيڈروجن کي مقدار ہيليم ميں تبديل ہوتي ہے جس کے نتيجے ميں کافيحرارت وجود ميں آتي ہے ليکن ہميں يہ معلوم نہيں ہو سکا کہ خود سورج کيسے وجود ميں آياہے ؟ جو کچھ اس بارے ميں اب تک کہا گيا ہے وہ سب تھيوري کي حد تک محدود ہے اس کي علمي اہميت کوئي نہيں ہميں اس نکتے پر بھي غور کرنا چاہيے کہ جب ہم يہ کہتے ہيں کہ ہمارے گھر کا چراغ جب اک طويل عرصے ميں شعاعيں بکھير ليتا ہے تو مادے ميں تبديل ہو جاتا ہے اس کا مطلب ہے ہم نے ايک اور تھيوري بيان کر دي ہے کيونکہ ہم نے اج تک مشاہدہ نہيں کاي کہ توانائي مادے ميں تبديل ہوتي ہواور قطعي طور پر يہ نہيں کہہ سکتے کہ توانائي مادے ميں تبديل ہوئي ہو گي –

ليکن اس اندازے يا فرض کرنے اور يعني علم کے درميان زمين وہ آسمان کا فرق ہے ‘ علم ميں اندازہ لگانے يا مرضي کرنے کي گنجائش نہيں –

مختصر يہ کہ ايزاک آسيموف ‘ موجودہ زمانے کا ايک معروف سائنس دان مکان کے وجود کا منکر ہے اس کے بقول مکان کا کوئي وجود نہيں اور جو کچھ موجود ہے وہ مادہ يا اس کي شعاعيں ہيں اور ہم بني نوع انسان مکان کو شعاعوں کے ذريعے محسوس کر سکتے ہيں اگر آپ ايک آزاد فضا ميں چل پھر رہے ہيں يا کمرے ميں بيٹھے ہيں تو آپ کو مکان کا احساس س لئے ہو رہا ہے کہ آپ شعاعوں کے نرغے ميں ہيں اور اگر شعاعيں رک جائيں تو پھر يہ احساس ختم ہو جائيگا کہ آ مکان ميں ہيں کيا اس بات کا امکان ہے کہ شعاعيں کٹ جائيں ا ور آسيموف کے بقول ہم مکان کا احساس نہ کريں ؟

علم فزکس کہتا ہے نہيں ‘ چونکہ تاريک ترين راتوں ميں بھي ہميں روشني کي ايسي شعاعوں نے گھر رکھا ہوتا ے جنہيں ہم نہيں ديکھ سکتے – اور خاموش ترين ماحول ميں بھي مختلف النوعي آوازوں کي لہريں ‘ جنہيں ہم سننے سے معذور ہيں ہمارے ارد گرد متحرک ہوتي ہيں اور ان ميں سے بعض ہمارے جسم کے پار چلي جاتي ہيں ليکن فرض کريں اگر تمام شعاعيں بھي کٹ جائيں تو بھي عام قوت تجاذب کي شعاع نہيں کٹے گي ‘ يعني کسي حالت ميں بھي يہ شعاعي نہيں کٹتي حتي کہ جب خلا باز خلائي جہاز ميں بے وزني کي حالت ميں ہوتے ہيں تو اس حالت ميں بھي خلائي جہاز کي رفتار اور زمين کي قوت کشش کے درميان برابري وجود ميں آتي ہے جس کي وجہ سے خلا باز (خلائي جہاز سے باہر نکلنے کے بعد )نہيں گرتا –

اور يہ تصور صحيح نہيں کہ خلائي جہاز ميں يا اس کے باہر خلا باز قوت جتازب کے زير اثر نہيں ہوتے قوت تجاذب کي مادے سے اس قدر وابستگي ہے کہ علم فزکس کي رو سے اگر قوت تجادب مادے سے چھين لي جائے تو مادہ باقي نہ رہے گا – اور محال ہے کہ قوت جاذب کي شعاعوں کے کٹ جانے کے بعد کوئي جاندار يا بے جان زندہ رہ سکے –

يہت ھے ‘ انيسويں صدي اور موجودہ دور کے طبعيات دانوں کے زمان اور مکان کے بارے ميں نظريات اب اگر ہميں اطلاع ملے کہ زمان اورمکان کے بارے ميں انہي نظريات کو آج سے ساڑھے بارہ سو سال پہلے ايک شخص نے پيش کيا تھا تو کيا يہ مناسب نہيں کہ ہم اس شخص کو آفرين کہيں اور اس کي عقلمندي کي داد ديں ؟

زمان اور مکان کے باريميں يہ نظريات دوسري صدي ہجري کے پہلے پچاس سالوں کے دوران امام جعفر صادق نے پيش کئے تھے جو آج کے نظريات سے مطابقت رکھتے ہيں –

اس کے باوجود کہ جعفر صادق کے زمان اور مکان کے بارے ميں پيش کردہ نظريات ميں آج کي اصطلاحات اور فارمولے استعمال نہيں ہوئے پھر بھي آپ کے ان نظريات کو جديد نظريات کے ساتھ تطبيق کيا جا سکتا ہے –

جعفر صادق کے بقول زمان في نفسہ وجود نہيں رکھتا بلکہ ہمارے احساسات کے نتيجے ميں وجود ميں آتا ہے اور ہمارے لئے دو واقعات کے درمياني فاصلے کا نام زمان ہے –

مکان کے بارے ميں جعفر صادق کا نظريہ يہ تھا کہ مکان تابع ہے اس کا بھي ذاتي وجود نہيں مکان ہميں ايک ايسي فضا کي صورت ميں نظر آتا ہے جس کا طول و عرض و بلندي ہے اور اس کا يہ تابع وجود بھي زندگي کے مختلف مراحل ميں مختلف دکھائي ديتا ہے –

ايک چھوٹا بچہ جو ايک جھوٹے سے گھر ميں رہ رہا ہے اس گھر کے ضہن کو وہ ايک بڑا ميدان خيال کرتا ہے ليکن يہي چھوٹا بچہ بيس سال کے بعد اس گھر ميں داخلہوتا ہے تو اسے وہ صحن بہت چھوٹا نظر آتا ہے وہ انگشت بد ندان سوچتا ہے کہ يہ صحن جو پہلے بہت وسيع تھا اب اتنا چھوٹا کيون ہو گيا ہے ؟ مختصر يہ کہ جعفر صادق کي نظر ميں مکان وجود طبع رکھتا ہے اور آج بھي طبعيات دانوں کا گروہ (جيسا ہم نے ذکر کيا ہے ) اس نظريئے کي حامي ہے-

تبصرے
Loading...