جدید تہذیب میں عورت کی حیثیت ۔۔ ایک جائزہ

 

اسلام سے قبل دنیا کی مختلف تہذیبوں اور معاشروں کا جائزہ لیں اور عورت کی حیثیت کو پہچاننے کی کوشش کریں تو ہم اس نتیجہ 

پرپہنچتے ہیں کہ عورت بہت مظلوم اور معاشرتی و سماجی عزت و احترام سے محروم تھی، اسے تمام برائیوں کا سبب اور قابل نفرت تصور کیا جاتا تھا، یونانی، رومانی، ایرانی اور زمانہ جاہلیت کی تہذیبوں اور ثقافتوں میں عورت کو ثانوی حیثیت سے بھی کمتر درجہ دیا جاتا تھا۔ مگر عورت کی عظمت، احترام اور اس کی صحیح حیثیت کا واضح تصور اسلام کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتا۔ اسلام نے عورت کو مختلف نظریات و تصورات کے محدود دائرے سے نکال کر بحیثیت انسان کے عورت کو مرد کے یکساں درجہ دیا، اسلام کے علاوہ باقی تمام تہذیبوں نے خصوصاً مغرب جو آج عورت کی آزادی، عظمت اور معاشرے میں اس کو مقام و منصب دلوانے کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتاہے۔ لیکن اس معاشرے نے ہمیشہ عورت کے حقوق کو سبوتاژ کیا، اور عورت کو اپنی محکومہ اور مملوکہ بنا کر رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی مختلف تہذیبوں ، اقوام و ملل نے عورت کے لئے صدہا قانون بنائے مگر یہ قدر ت کا کرشمہ ہے کہ عورت نے اسلام کے سوا اپنےحقوق کی کہیں داد نہ پائی۔یہاں ہم دنیا کی مختلف تہذیبوں اور اقوام و ملل کے قائم کردہ معاشروں میں عورت کی حیثیت کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔یونانی معاشرے میں عورت کی حیثیتیونان جو فلسفے میں آج بھی دنیا میں مشہور ہے اس کی تاریخ عصر میں مرد نے عورت کو صرف اپنی نفسانی تسکین و مسرت کا ذریعہ اور آلہ کار سمجھا، یونانیوں کے نزدیک عورت ’’شجرة مسمومة‘‘ ایک زہر آلود درخت اور ’’رجس من عمل الشيطان‘‘ کے مطابق عورت شیطان سے زیادہ ناپاک سمجھی جاتی تھی، ایک عام خیال یہ بھی تھا کہ وہ فطرتًا مرد سے زیادہ معیوب، حاسد، بدکردار، آوارہ اور بدگفتار ہوتی ہے۔رومی تہذیب میں عورت کی حیثیترومن قوم یورپ میں ایک عظیم الشان روایت کی حامل قوم تھی، جس کو قانون سازی میں وہی امتیاز حاصل ہے جو یونان کو فلسفہ میں، حتی کہ رومن قانون آج بھی دنیا کے مختلف ممالک کے قوانین کا سنگِ بنیاد ہے، اس اعلیٰ ترین قانون میں عورت کی حیثیت پست و کمزور تھی اور ان کا عقیدہ تھا کہ ’’عورت کے لئے کوئی روح نہیں بلکہ وہ عذاب کی صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔ عورت شادی کے بعد شوہر کی زرخرید غلام ہو جاتی تھی، عورت کسی بھی عہدہ پر فائز نہیں ہو سکتی تھی، گویا کہ تمام بنیادی حقوق سے اس کو محروم رکھا گیا تھا۔فارسی تہذیب میں عورت کی حیثیتفارس کی تہذیب بہت پرانی ہے، یہاں بھی عورت کی وہی زبوں حالی تھی، باپ کا بیٹی اور بھائی کا بہن کو اپنی زوجیت میں لینا وہاں کوئی غیر موزوں بات نہ سمجھی جاتی تھی، شوہر اپنی بیوی پر موت کا حکم لگا سکتا تھا، اسے اپنی عیش و عشرت کیلئے استعمال کرنا وہاں کے بادشاہوں اور صاحب ثروت کا محبوب مشغلہ تھا۔ہندی معاشرہ میں عورت کی حیثیتدنیا کے قدیم ترین ممالک میں ہندوستانی معاشرہ بھی شامل ہے۔ ہندوؤں نے اس صنف نازک پر جس طرح ظلم روا رکھے ہیں اور اس کو جس طرح ذلیل و خوار کیا اس کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔ ویدوں کے احکام کے مطابق عورتیں مذہبی کتاب کو چھو نہیں سکتیں، شوہر کے مرجانے کے بعد عورت کو معاشرے میں زندہ رہنے کا حق نہیں تھا اس کو بھی خاوند کے ساتھ زندہ جلادیا جاتا تھا ویسٹرمارک 
(westermark)
 
کتاب
waves of the history of Hindus
میں لکھتے ہیں کہ اگر کوئی عورت کسی متبرک بت کو چھولے تو اس بت کی الوہیت اور تقدس تباہ ہو جاتا ہے لہٰذا اس کو پھینک دینا چاہیے۔ عورتوں کو محکومیت اور غلامی کا درجہ دیا گیا تھا، بعض فرقوں نے عورتوں کی یہاں تک بے عزتی کی تھی کہ نہ صرف یہ کہ بیوی اور ماں، بہن، بیٹی میں کوئی فرق باقی نہ رہ گیا تھا، بلکہ وہ اس حرکت مذمومہ کو ذریعہ نجات تصور کرتے تھے۔ 

(

ڈاکٹر علی جمعہ، مفتی جمہوریہ مصر العربیہ، المرأۃ بین انصاف الاسلام و شبھات الآخر)عیسائی معاشرہ میں عورت کی حیثیتعیسائیوں میں رہبانیت کی تعلیم کا اثر یہ ہوا کہ عیسائی عورت کو قابلِ نفرت سمجھنے لگے، اس پر طرح طرح کے مظالم ڈھانے لگے، عورت کے وجود کو تسلیم کرنا بھی اُن کے نزدیک گناہ سمجھا جانے لگا۔ حتی کہ 576ء میں فرانسیسیوں نے ایک کانفرنس اس مسئلہ کے حل کے لئے منعقد کی کہ عورت میں روح ہے یا نہیں، ایک پادری نے یہاں تک سوال کیا کہ عورت کا شمار بنی نوع انسان میں بھی ہے یا نہیں؟ خود اس نے عورتوں کو انسانوں میں شامل کرنے سے انکار کردیا، آخر کار اس کانفرنس نے فیصلہ کیا کہ عورت صنف انسانی سے تعلق رکھتی ہے مگر صرف اس دنیاوی زندگی میں مرد کی خدمت کرنے کے لئے اور قیامت کے روز تمام عورتیں غیر جنس جانداروں کی شکل میں ظاہر ہوں گی۔زمانہ جاہلیت میں عورت کی حیثیتزمانہ جاہلیت میں جزیرہ عرب میں عورت کے لئے کوئی قابل ذکر حقوق نہ تھے، عورت کی حیثیت کو ماننا تو درکنار اس کو اس معاشرے میں زندہ بھی رہنے کاحق نہ تھا، معاشرے میں عورت کا مرتبہ و مقام ناپسندیدہ تھا، وہ مظلوم اور ستائی ہوئی تھی، اور ہر قسم کی بڑائی اور فضیلت مردوں کے لئے تھی، اس میں عورتوں کا حصہ نہ تھا حتی کہ عام معاملات زندگی میں بھی مرد اچھی چیزیں خود رکھ لیتے اور بے کار چیزیں عورتوں کو دیتے، زمانہ جاہلیت کے لوگوں کے اس طرزِ عمل کو قرآن حکیم یوں بیان کرتا ہے۔


وَقَالُواْ مَا فِي بُطُونِ هَـذِهِ الْأَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلَى أَزْوَاجِنَا وَإِن يَكُن مَّيْتَةً فَهُمْ فِيهِ شُرَكَاءَ سَيَجْزِيهِمْ وَصْفَهُمْ إِنَّهُ حِكِيمٌ عَلِيمٌO

(سوره الانعام، 6 : 139)

’’اور (یہ بھی) کہتے ہیں کہ جو (بچہ) ان چوپایوں کے پیٹ میں ہے وہ ہمارے مَردوں کے لئے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام کر 

دیا گیا ہے، اور اگر وہ (بچہ) مرا ہوا (پیدا) ہو تو وہ (مرد اور عورتیں) سب اس میں شریک ہوتے ہیں، عنقریب وہ انہیں ان کی (من گھڑت) 

باتوں کی سزا دے گا، بیشک وہ بڑی حکمت والا خوب جاننے والا ہےo‘‘

اس آیت کریمہ سے پتہ چلا کہ اس معاشرے میں عورتوں اور مردوں کے درمیان چیزوں کی تقسیم اور لین دین کے معاملات میں نہ صرف 

تفریق کی جاتی بلکہ عورت کو مرد کے مقابلے میں نسبتاً کمتر سمجھا جاتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ عورت کی حیثیت کا اقرار کرنا تو درکنار وہاں 

تو عورت سے اس کے جینے کا حق تک چھین لیا جاتاتھا۔ اس لئے لڑکی کے پیدا ہونے پر غصہ میں ہوتے اور انہیں زندہ دفن کردیا کرتے 

تھے۔ قرآن کریم میں ان قوموں کے اس طرزِ عمل کی عکاسی یوں کی گئی : 


وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ 

يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلاَ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ

(سوره النحل، 16 ،58، 59)

’’اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی (کی پیدائش) کی خبر سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ہے وہ 

لوگوں سے چُھپا پھرتا ہے (بزعمِ خویش) اس بری خبر کی وجہ سے جو اسے سنائی گئی ہے، (اب یہ سوچنے لگتا ہے کہ) آیا اسے ذلت و 

رسوائی کے ساتھ (زندہ) رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے (یعنی زندہ درگور کر دے)، خبردار! کتنا برا فیصلہ ہے جو وہ کرتے ہیں 

اس آیت مبارکہ میں اﷲتعالیٰ نے دورِ جاہلیت کی اس قبیح رسم کو بیان فرمایا، لیکن ’’بُشِّرَ‘‘ کا لفظ ذکر کر کے اس طرف اشارہ کردیا کہ لڑکی کی 

ولادت تمہارے لئے خوشخبری ہے۔ وہ دنیا میں اﷲ کی رحمت بن کر آئی ہے جس سے معاشرے میں بہار آتی ہے۔ لہٰذا بیٹیوں کو زندہ درگور 

کرنے کی ممانعت کرکے دورِ جاہلیت کی اس رسم بد کا قلع قمع کیا۔

وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُم إنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئاً كَبِيرًا 

(بنی اسرائيل،17 : 31)

’’اور تم اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل مت کرو، ہم ہی انہیں (بھی) روزی دیتے ہیں اور تمہیں بھی، بیشک ان کو قتل کرنا بہت بڑا 

گناہ ہے

بلکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لڑکی کی ولادت کو اﷲ کی نعمت قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ خوش قسمت ہے وہ شخص جس 

کو اﷲ نے بیٹی کی نعمت عطا کی۔ اب اگر وہ چاہے تو اسی دنیا میں رہتے ہوئے اپنی آخرت کو سنوار لے، اور جہنم کی آگ سے خلاصی 

پالے، اس لڑکی کی صحیح تعلیم و تربیت کے ذریعے، ارشاد فرمایا : 


قال رسول اﷲ صلی الله عليه وأله وسلم : من کانت له بنت فأدبها فأحسن تأديبها، وعلمها فاحسن تعليمها وأسبع عليها من نعم اﷲ التی
اسبع عليه، کانت له سترا وحجابا من النار. 

(اصبهانی،حلية الأولياء، 5 : 57)

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر کسی شخص کے پاس ایک بیٹی ہو اور اس کو اچھی طرح ادب سکھائے اور اچھی 

طرح تعلیم دے تو اﷲ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتیں عطا کرے گا، اور وہ لڑکی اس کے لئے ستر اور دوزخ کی آگ سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔‘‘

لہٰذا اسلامی معاشرہ نے عورت کو عظیم مقام و مرتبہ اور منصب عطا کیا جس کا تصور زمانہ جاہلیت میں کوئی نہ کرسکتا تھا۔ ان کے ہاں اس 

کی حیثیت کچھ نہ تھی، ایک ایک مرد بہت ساری عورتوں سے ازدواجی تعلقات قائم کرتا، اپنی عورتوں کے آپس میں تبادلے کرتا، اگر کوئی 

بدکاری کا مرتکب ہوتا اس کا اعلانیہ اظہار کرنے پر فخر محسوس کرتا، اس معاشرے میں عورت کسی چیز کی مالک نہ بن سکتی تھی یہاں 

تک کہ اس کو وراثت میں حصہ نہیں ملتا تھا۔ مگر اسلام نے ان تمام قبیح رسومات کا قلع قمع کیا اور عورت کو معاشرے میں نمایاں حیثیت 

سے نوازا۔

دین اسلام میں عورت کا مقام و مرتبہ

الغرض یونانی تہذیب سے لے کر روم، فارس، ہندوستان، یہودی اور عیسائی تہذیب نے عورت کو معاشرے میں کمتر درجہ دے رکھا تھا، 

انہوں نے دنیا میں برائی اور موت کی ذمہ دار اور اصل وجہ عورت کو قرار دیا، حتیٰ کہ انگلینڈ کے آٹھویں بادشاہ 
(Henry-8)
 
کے دور میں پارلیمنٹ میں یہ قانون پاس کیا گیا کہ عورت اپنی مقدس کتاب انجیل کی تلاوت نہیں کرسکتی کیونکہ وہ ناپاک تصور کی جاتی 

تھی، ’’ویسٹر مارک‘‘ کے بقول ماڈرن تہذیب بھی عورت کو وہ حیثیت نہ دے سکی جس کی وہ مستحق تھی، وہ کہتا ہے کہ ’’ارتقائے تہذیب نے 

عورت و مرد کے درمیان فاصلوں کو اتنا بڑھا دیا کہ عورت کی حیثیت کو اور زیادہ پست کردیا۔ چونکہ ذہنی ارتقاء کے اعلیٰ مدارج مردوں ہی 

کے ساتھ مخصوص رہے، علاوہ ازیں مذہب اور خصوصاً بڑی بڑی تہذیبوں نے صنفِ نازک کو ناپاک بتا کر اس کا رتبہ اور بھی کم کردیا۔ 

مگر اسلامی تہذیب نے عورت کو عظیم مقام دیا، بلکہ کائنات کا اہم ترین جز قرار دیا، بقول علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ : 

وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

مکالمات افلاطون نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطون

(ضربِ کلیم)

تصویرِکائنات میں رنگ بھرنے والی ہستی نے صرف شرار افلاطون ہی کو جنم نہیں دیا اور نہ فقط اس شرار سے افلاطون کا فلسفہ و حکمت 

ہی وجود میں آیا بلکہ علوم و فنون کے کم و بیش تمام چشمے یہیں سے پھوٹتے رہے ہیں۔ عصر حاضر کی جدید علمی تہذیب نے اسے ایک 

اٹل حقیقت تسلیم کر لیا ہے۔

لیکن جہاں عورت کا وجود مرد کی زندگی کے نشو و ارتقاء میں ایک حسین اور مؤثر محرک تھا، وہاں مردوں نے اپنے فرضی تفوق کے زعم 

میں عورت کو ہمیشہ اپنی عیش کوشی اور عشرت پرستی کا ادنیٰ حربہ اور ذریعہ تصور کیا اور یوں معاشرے میں اس کی حیثیت ایک زر خرید 

کنیز اور پرستار کی بن کر رہ گئی، اقوام عالم کی تاریخ کے غائر مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی تہذیب کی تباہی ایسے 

حالات میں ہوئی جب عورت اپنی صحیح حیثیت کھو بیٹھی اور مرد کے قاہرانہ ہاتھوں میں آلہ کار بن گئی۔

اک زندہ حقیقت ہے مرے سینے میں مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد

نہ پردہ نہ تعلیم، نئی ہو کہ پرانی
نسوانیتِ زن کا نگہبان ہے فقط مرد

جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد

(ضربِ کلیم)

اسلام کی آمد عورت کے لئے غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی کاپیغام تھی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع 

کردیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں، اور عورت کو وہ حیثیت عطا کی جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق 

قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔

ﷲ تبارک و تعالیٰ نے تخلیق کے درجے میں عورت کو مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں رکھا ہے۔ اسی طرح انسانیت کی تکوین میں عورت 

مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً

(النساء،4 : 1)

’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتدائ) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر

ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا‘‘

اﷲ تعالیٰ کے ہاں نیک عمل کا اجر دونوں کے لئے برابر قرار پایا، کہ جو کوئی بھی نیک عمل کرے گا اسے پوری اور برابر 

جزاء ملے گی، اس کو پاکیزہ زندگی اور جنت میں داخلے کی خوش خبری ملے گی، ارشاد ربانی ہے : 

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ 

(النحل، 16 : 97)

’’جو کوئی نیک عمل کرے (خواہ) مرد ہو یا عورت جبکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے،

اور انہیں ضرور ان کا اجر (بھی) عطا فرمائیں گے ان اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے تھے

اﷲ تعالیٰ نے اپنی رضا اور پاکیزہ زندگی دنیا و آخرت میں عطا کئے جانے کی خوشخبری کو عمل صالحہ کے ساتھ مشروط کیا، 

جس طرح دوسرے مقام پر عملِ صالحہ کو جنت کے داخلے اور رزقِ کثیر کے ساتھ مشروط کیا، ارشاد فرمایا : 

مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزَى إِلَّا مِثْلَهَا وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُوْلَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ 

(سوره المومن، 40 : 40)

’’جس نے برائی کی تو اسے بدلہ نہیں دیا جائے گا مگر صرف اسی قدر، اور جس نے نیکی کی، خواہ مرد ہو یا عورت اور مومن بھی

ہو تو وہی لوگ جنّت میں داخل ہوں گے انہیں وہاں بے حساب رِزق دیا جائے گا

اسی طرح ارشاد باری ہے : 

فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لاَ أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ

(آل عمران،3 : 195)

’’پھر ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی (اور فرمایا) یقینا میں تم میں سے کسی محنت والے کی مزدوری ضائع نہیں 

کرتا خواہ مرد ہو یا عورت‘‘

اس طرح دین اسلام نے مرد و عورت کو برابر کا مقام عطا فرمایا بلکہ عورت کو وہ مقام عطا فرمایا جو کسی بھی قدیم اور جدید تہذیب نے 

نہیں دیا۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل ایمان کی جنت ماں کے قدموں تلے قرار دے کر ماں کو معاشرے کا سب سے زیادہ 

مکرم و محترم مقام عطا کیا، اور ایک بیٹی کو احترام و عزت کا مقام عطا کیا، اسلام نے نہ صرف معاشرتی و سماجی سطح پر بیٹی کا مقام بلند 

کیا بلکہ اسے وراثت میں حقدار ٹھہرایا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دنیا میں عورت کے تمام روپ اور کردار کو اپنی زبانِ 

مبارک سے یوں بیان فرمایا کہ جس دور میں عورت ہو، جس مقام پر ہو اور اپنی حیثیت کا اندازہ کرنا چاہے تو وہ ان کرداروں کو دیکھ کر 

اپنی حیثیت کو پہچان سکتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : 

وعن انس رضی الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلی الله عليه وأله وسلم : خير نساء العالمين أربع : مريم بنت عمران، وخديجة بنت 

خويلد، و فاطمة بنت محمد صلی الله عليه وأله وسلم ، وآسية إمرأة فرعون،

(ابن حبان، الصحيح، 15 : 401، رقم : 6951)

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دونوں جہانوں کی عورتوں

میں بہترین عورتیں چار ہیں، حضرت مریم بنت عمران علیھماالسلام، (اُم المؤمنین) حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا

حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اﷲ عنہا اور فرعون کی بیوی آسیہ علیہاالسلام ۔‘‘

اس حدیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چار عورتوں کی طرف اشارہ فرما کر حقیقت میں چار بہترین کرداروں کی 

نشاندہی فرمادی، اور وہ کردار جس سے اﷲ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راضی ہوئے اور اس مقام سے سرفراز فرمایا جو کسی 

اور کو نصیب نہ ہوا، وہ کردار کیا ہے۔


ایک ماں کا کردار حضرت مریم بنت عمران علیھما السلام
ایک عظیم بیوی کا کردار حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا
ایک عظیم بیٹی کا کردار حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اﷲ عنہا 
ایک عظیم عورت کا کردار حضرت آسیہ علیہا السلام

ان چاروں کرداروں پر نظر دوڑا کر مصطفوی مشن کی ہر عورت اپنی حیثیت کو پہچان کر اپنے کردار کو متعین کرسکتی ہے،

آئیے غور کریں کہ وہ کون سے راز اور گوہر تھے جنہوں نے ان ہستیوں کو خیر النساء کے لقب سے سرفراز کیا۔

حضرت مریم بنت عمران علیھماالسلام

ححضرت مریم علیھا السلام کو بہترین عورت قرار دیا، اس میں کونسا راز اور حکمت تھی جس کی وجہ سے ان کو یہ مقام ملا؟ اگر ہم حضرت 

مریم علیھا السلام کی سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ عورت ہو کر اﷲ کی بہت بڑی ولیہ کاملہ، شاکرہ اور صابرہ تھیں۔ 

اﷲ کی ذات پر اول و آخر اعتماد رکھتی تھیں۔ انہوں نے اﷲ کی رضا کے لئے خاندان کے طعنوں کو صبر کے ساتھ برداشت کیا۔ وہ ایک ایسے 

عظیم بیٹے کی ماں بننے والی تھیں جو اﷲ کا نبی اور رسول تھا۔ وہ بہت پاکدامن اور پاکباز تھیں کہ جن کی پاکیزگی کی شہادت اﷲ نے خود 

اپنے شیر خوار نبی کی زبان سے پنگھوڑے میں دلوائی۔

یہ وہ صفات تھیں جن کی وجہ سے سے اﷲ تعالیٰ نے آپ کو یہ مقام عطا فرمایا کہ عورتوں میں آپ کو منتخب فرمایا اور اس کا 

ذکر اپنی ابدی کتاب میں یوں فرمایا کہ 

وَإِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاءِ الْعَالَمِينَ 

(آل عمران، 3 : 42)

’’اور جب فرشتوں نے کہا: اے مریم! بیشک اﷲ نے تمہیں منتخب کر لیا ہے اور تمہیں پاکیزگی عطا کی ہے اور تمہیں آج سارے 

جہان کی عورتوں پر برگزیدہ کر دیا ہے

پتہ چلا کہ جو کوئی اپنے آپ کو اپنے خدا کے سپرد کردیتا ہے، اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کے دین کی سربلندی کے لئے 

وقف کردیتا ہے، تو اﷲاس کو وہ مقام عطا کردیتا ہے کہ وہ جس جگہ رہتا ہے اﷲ اس کو متبرک کردیتا ہے اور دوسروں کی دعاؤں کی 

قبولیت کی جگہ بنا دیتا ہے، کیونکہ حضرت مریم علیھاالسلام کی والدہ نے اﷲ سے وعدہ کیا تھا کہ مولا مجھے جو اولاد (لڑکا یا لڑکی) عطا 

کرے گا اس کو میں تیرے لئے وقف کر دوں گی۔ یہ ہے وہ ماں کا کردار جس نے عظیم ہستی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جنم دیا، اور آج بھی 

ضرورت ہے کہ جو ماں چاہتی ہے اپنی اولادوں کو عظیم بنائے وہ اﷲ کی محبت کو اپنے من میں پیدا کرے، اپنے آپ کو اس کے دین کی 

سربلندی کے لئے وقف کردے، دین کی دعوت کے فروغ کے لئے گھر سے باہر نکلنے پر عار محسوس نہ کرے، تو پھر آج کے دور میں عظیم 

انقلابی جوان پیدا ہو سکتے ہیں۔

حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا 

حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا مکہ کی بہت بڑی تاجرہ تھیں۔ نیک سیرت اور بہترین نسب و شرف کی مالکہ، مگر جب ایک مثالی بیوی کے 

روپ میں کریم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقد زوجیت میں آئیں تو اپنا سارا مال و دولت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے 

قدموں میں دین اسلام کی خدمت کے لئے وقف کردیا، وہ اعلانِ نبوت سے پہلے ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و بلند 

مرتبہ کی قائل ہو گئی تھیں، رضی اﷲ عنہا کو نہ صرف زوجیّت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عظیم شرف حاصل ہوا، بلکہ اُمّ المؤمنین 

ہونے کے ساتھ ساتھ خیر النساء کے عظیم لقب سے بھی سرفراز ہوئیں، اور یہ عظیم شرف نصیب ہوا کہ عورتوں میں آپ رضی اﷲ عنہا سب 

سے پہلے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ رضی اﷲ عنہا سے 

مشورہ فرمایا کرتے تھے، گویا ایک عظیم بیوی کاکردار اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ دین کی جدوجہد کرنے والے اپنے شوہروں کا ساتھ دیں۔ 

یہاں تک کہ وقت آنے پر اپنا مال و دولت بھی دین کی سربلندی کے لئے خرچ کردیں۔ تب اﷲ کی طرف سے خوشخبریاں ملتی ہیں۔ یہی وجہ 

تھی کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا کویہ مقام نصیب ہوا کہ آپ رضی اﷲ عنہا اسلام کی پہلی وزیرہ کہلائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ 

وسلم نے جنت کی بشارت دی، آپ کو الطاہرۃ، سیدۃ نساء قریش، سیدۃ نساء العالمین، ام البتول، ام الزہراء، اور امّ سیدۃ نساء اہل الجنۃ جیسے 

القابات سے نوازا گیا۔

سیدۃ فاطمۃ الزھراء رضی اﷲ عنہا : 

یہ ایک عظیم ہمہ گیر کردار ہے جو ایک بیٹی کے روپ میں، ایک ماں کی شکل میں اور ایک بیوی کے کردار میں قیامت تک آنے والی ماؤں، 

بہنوں اور بیٹیوں کے لئے نمونہ حیات ہے جس کو آج کے دورِ جدید میں آئیڈیل بنانے کی ضرورت ہے۔ آج کا معاشرہ اور جدید تہذیب اس وقت 

تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک خیر النساء فی اہل الارض والسماء سیدۃ فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہاکی سیرت طیبہ سے رنگ نہ لے، اور 

مصطفوی انقلاب کی اس عظیم منزل، جس کا ہر اول دستہ ہماری منہاج القرآن ویمن لیگ کی عظیم بہنیں ہیں، اپنے آپ کو حضرت سیدہ فاطمہ 

رضی اللہ عنہا کے نقش قدم پر چلائیں۔ آپ کو اگر بیٹی کے روپ میں دیکھو تو اپنے بابا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت 

کرتی نظر آتی ہیں، اگر بیوی کے روپ میں دیکھو تو اطاعت شعاری کے ساتھ اپنے خاوند حضرت مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کی خدمت 

کے ساتھ اﷲ کی بارگاہ میں سجدہ ریز بھی نظر آتی ہیں۔ ماں کے روپ میں دیکھو تو ایسے عظیم تربیت یافتہ دو شہزادے حسنین کریمین رضی 

اللہ عنہما تیار کئے کہ جنہوں نے دین مصطفوی (ص) کے چراغ کو اپنے مقدس لہو سے روشن کر دیا۔ آج کی تہذیب میں ایک عورت کو اپنی 

حیثیت کا اندازہ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت کی روشنی میں کرنا ہوگا۔

حضرت آسیہ زوجۂ فرعون

کونسا کردار، عمل اور فعل ایسا تھا کہ جس نے اس خاتون کو جو ایک کافر و جابر اور ظالم بادشاہ کی بیوی ہونے کے باوجود وہ عظیم عزت 

اور مرتبہ سے سرفراز کیا کہ خیر النساء کا لقب عطا ہوا۔ یہ عظیم کردار ایک عورت کو اس کی حیثیت کی راہ دکھلاتا ہے۔ اور ظاہری عیش و 

عشرت، بناؤ سنگھار، شاہانہ زندگی کو اﷲ کی رضا کی خاطر، اس کی محبت کے لئے قربان کر دینے کا درس دیتا ہے۔ یہ کردار بتاتا ہے کہ 

کس طرح عورت اپنے کردار کو پاکیزہ بنا کر کافر بادشاہ جو اپنے آپ کو خدا کہلاتا ہے، کی ایک عظیم عورت بن سکتی ہے۔ تو پھر اﷲ وہ 

مقام عطا فرماتا ہے کہ وہ نبیوں اور رسولوں کی بیویوں اور بیٹیوں کے ساتھ ملا دیتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ 

علیہ وآلہ وسلم اور اس کے دین کی خاطر دنیا کی ظاہری عیش و عشرت سے کنارہ کش ہو جاؤ۔

مغربی معاشرہ میں عورت کی حیثیت

سطور بالا سے یہ امر واضح ہو گیا کہ اسلام کی آمد سے قبل عورت ہمیشہ سے تہذیب کی محکوم اور اسیر رہی ہے۔ اسے زندہ درگور کیا جاتا 

رہا، اسے بے بسی، لا چاری اور بے کسی کا مجسمہ بنا کر رکھا، لیکن کسی کو اس کی پرواہ نہ ہوئی، کبھی کبھی چاند ستارے چمکے مگر ان 

کی روشنیاں وقتی تھیں آخر کار آسمان حراء سے ایک آفتاب طلوع ہوا اور نبی امی علیہ الصلوۃ والسلام نے اس صنف نازک کو ہمیشہ کے لئے 

قید و بند سے آزاد کر کے معاشرے میں اعلیٰ حیثیت پر لاکھڑا کیا۔ 

یہ اعجاز ہے ایک صحرا نشیں کا

مگر مغربی معاشرہ بزعم خویش اپنے آپ کو ماڈرن تہذیب کا علمبردار کہلاتے ہوئے عورت کی آزادی کا نعرہ بلند کرتا ہے مگر جب ہم مغربی 

معاشرے میں عورت کی حیثیت اور اس کے حقوق کا جائزہ لیں تو انتہائی مایوس کن صورتحال سامنے آتی ہے۔ عورت کو مغربی معاشرے میں 

اذیتیں دی جاتی ہیں اور مردوں کے ظلم کا شکار رہتی ہے۔

امریکی فیڈرل پولیس کی رپورٹ کے مطابق %79 مرد اپنی عورتوں پر تشدد کرتے ہیں اور 
“Dr. John Berry”
کی رپورٹ کے مطابق %17 عورتیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں زیر علاج رہتی ہیں۔ جن میں سے اکثر مر جاتی ہیں۔

اسی طرح فرانس میں 20 لاکھ عورتوں کو ہر سال تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، عورتوں کے حقوق کی تنظیم کی سیکرٹری جنرل ’’میشل اندریۃ
‘‘ (Meshal Andray)
کہتی ہیں کہ عورتوں کی نسبت جانوروں سے زیادہ اچھا سلوک کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر کسی کتے کو سڑک پر کسی نے زخمی کر دیا وہ 

اس کی رپورٹ درج کروائے گا، لیکن اگر کوئی مرد اپنی عورت کو سرعام سڑک پر مارے تو اس کے لئے کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا گویا 

مغربی معاشرے میں ایک جانور اور کتے کی حیثیت عورت کی حیثیت سے زیادہ ہے (ڈاکٹر علی جمعہ) اور برطانیہ میں %77 خاوند اپنی 

بیویوں کو بغیر کسی سبب کے اپنے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ الغرض مغربی معاشرے میں عورت صرف سماجی یا معاشرتی سطح پر استحصال 

اور انحطاط کا شکار نہیں بلکہ ظاہراً معاشی و اقتصادی آزادی کی حامل ہوتے ہوئے بھی استحصال سے دو چار ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک 

رپورٹ میں مغربی عورت کی معاشی و اقتصادی حالت کا جائزہ یوں پیش کیا گیا : 

Women constitute half the world’s population, perform nearly two third of its work hours, recieve 1/10th of the world’s income , own less than one hundredth of the world’s property”

’’دنیا کی آدھی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے دنیا کے دو تہائی کام کے گھنٹوں میں عورت کام کرتی ہے مگر اسے دنیا کی آمدنی کا دسواں 

حصہ ملتا ہے اور وہ دنیا کی املاک کے سوویں حصہ سے بھی کم کی مالک ہے۔‘‘ 
(Un Report 1980)

تقابلی جائزہ

اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اسلام اور مغرب دونوں عورت کی آزادی کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ مگر عورت کی حیثیت کے مسئلہ پر ان کا 

زاویہ نظر بنیادی طور پر مختلف ہے اسلامی فکر و عمل عورت کی حیثیت کو ایک ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے روپ میں دیکھتی ہے جبکہ 

عورت کے بارے میں مغربی تصور لا دینی
(Secular)
 
ہے جو اس کو دوسرے درجہ کی شہری اور مردوں سے کمتر سمجھتے ہیں۔

اسلام نے عورت کو معاش و معاشرت، قانون و سیاست اور تعلیم و تربیت کے ہر میدان میں عظیم مرتبہ و مقام عطا کیا اور آج سے چودہ سو 

سال پہلے ان کی حیثیت، حقوق اور آزادی کو متعین کر دیا حتی کہ اسلام کی وسعت اور فراخدلی کی عملی مثال یہ ہے کہ مذہب کی قید لگائے 

بغیر ہر عورت کو ماں، بہن اور بیٹی جیسے عظیم رشتہ کی حیثیت سے دیکھنے کا حکم دیا اور ہر عورت خواہ مسلمہ ہو یا غیر مسلمہ وہ 

اپنے حقوق بلا امتیاز حاصل کر سکتی ہے۔

دوسری طرف مغربی معاشرہ میں عورت کو اپنی حیثیت منوانے کے لئے بھرپور جدوجہد کرنا پڑی۔ مغربی معاشرے میں پچھلی صدی کے آغاز تک عورت کو 
Non-person
کی حیثیت حاصل رہی تھی۔ عورت کو نہ صرف باقاعدہ 
Legal person
 
تسلیم کیا گیا بلکہ مغربی قانون ساز اداروں 
Legislatures
کے مختلف قوانین 
(Statutes)
 
میں مذکور 
Person
 
یا 
Man
 
کے ذیل میں بھی عورت کو کبھی شامل نہیں سمجھا گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں قوانین کی قانونی حیثیت کو ہی تسلیم نہیں کیا گیا تھا جبکہ اسلام نے عورت کی قانونی حیثیت کو احکام کے اجراء کے ساتھ ہی عطا کر دیا ارشاد باری تعالیٰ ہے : 

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا 

(الاحزاب، 33 : 36)

’’اور نہ کسی مومن مرد کو (یہ) حق حاصل ہے اور نہ کسی مومن عورت کو کہ جب اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی 

کام کا فیصلہ (یا حکم) فرما دیں تو ان کے لئے اپنے (اس) کام میں (کرنے یا نہ کرنے کا) کوئی اختیار ہو، اور جو شخص اللہ 

اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرتا ہے تو وہ یقیناً کھلی گمراہی میں بھٹک گیا

اس آیہ مبارکہ میں قانون الٰہی کی اطاعت و معصیت کے باب میں عورت اور مرد کا برابر ذکر کرکے یہ حقیقت واضح کر دی گئی ہے کہ عورت 

اور مرد کے قانونی تشخص میں کوئی تفریق روا نہیں رکھی جا سکتی۔ 

اسلام میں عورت کی حیثیت صرف گھر کے اندر بند رہنا ہی نہیں بلکہ سیاسی، سماجی، ریاستی اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے میدان 

میں اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانے کی اجازت دی گئی ہے۔ مثلًا قرآن حکیم میں مسلم معاشرے میں ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہوئے مرد و 

خواتین دونوں کو برابر اہمیت دی گئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : 

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ

اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَـئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ 

(التوبة، 9 : 71)

’’اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے 

روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا

لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے

اس آیت مبارکہ میں خواتین اور مردوں کو ایک دوسرے کا اس طرح مددگار ٹھہرایا گیا ہے کہ سماجی و معاشرتی دائرہ میں معروف کے قیام 

اور منکر کے خاتمے، مذہبی دائرہ میں اقامت صلوۃ، اقتصادی دائرہ میں نظام زکوٰۃ کے قیام، اور سیاسی دائرہ میں اﷲ اور اس کے رسول صلی 

اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کی اطاعت کے ذریعے ایک مثالی اسلامی معاشرہ تشکیل دیں۔

مغربی معاشرے میں عورت کو اپنا ووٹ ڈالنے کا حق نہ تھا اس کے لئے 1897ء میں 
Millicent Fawcett
نے 
National Union of Women’s Sufferage
 
کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جس کی جدوجہد سے برطانیہ کے 
House of Common
نے 1918ء میں 
Representation of People Act
 
پاس کیا۔ اور تیس سال سے زائد عمر کی خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔

یہی حالت امریکہ اور فرانس میں نظر آتی ہے امریکہ کے ابتدائی قانون میں عورت کو نظر انداز کیا گیا، امریکی معاشرے میں شادی شدہ 
عورت کے کوئی حقوق نہ تھے۔ حتی کہ جیفرسن 
(Jefferson )
نے اعلان آزادی میں 
The People
 
کا لفظ استعمال کیا تو اس سے مراد صرف سفید فام آزاد مرد تھے۔ اور دلچسپ بات یہ کہ انیسویں صدی کی امریکہ کی عورتوں کے حقوق کی علم بردار 
Susan B.Anthory
 
کو 1872ء میں صدارتی الیکشن میں ووٹ ڈالنے پر گرفتار کر لیا گیا اور ایک سوڈالر کا جرمانہ کیا گیا کیونکہ اسے قانونی طور پر 
حق رائے دہی حاصل نہیں تھا۔

(Larna c. Mason etal, Histry)

اسی طرح فرانس میں 1944ء میں عورتوں کو حق رائے دہی دیا گیا اور آسٹریلیا میں یہ حق 1926ء میں تسلیم کیا گیا جبکہ اسلام نے

عورت کو ایک مکمل قانونی فرد تسلیم کرتے ہوئے سربراہ کے چناؤ، قانون سازی اور دیگر ریاستی معاملات میں مردوں کے برابر

رائے دہی کا حق دیا ہے۔

ریاست مدینہ کے قیام کے ساتھ ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سنت مبارکہ سے عورت کے حق رائے دہی کو قانونی 

بنیاد فراہم فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی سنت مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے خلفاء راشدین نے اپنے اپنے ادوار میں خواتین کی 

رائے کی ریاستی معاملات میں شمولیت یقینی بنائی۔ بلکہ اسلام ہی نے عورت کو پہلی مرتبہ

مقننہ میں نمائندگی دی بطور سیاسی مشیر کے لیا انتظامی ذمہ داریوں پر تقرری دی ریاست کی دفاعی ذمہ داریوں پر متعین کیا 

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود عورتوں کے ساتھ مختلف معاملات میں مشورہ فرمایا کرتے تھے جس کی مثال صلح حدیبیہ کے 

موقع پر حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا سے مشاورت سے پیش کی جا سکتی ہے اور پھر آپ کے مشورہ پر عمل کیا اس سے مختلف امور میں 

صائبۃ الرائے خواتین سے مشاورت کا اصول مستنبط ہوتا ہے۔

آپ کی اس تعلیم پر خلفائے راشدین بھی عمل پیرا رہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عسکری خدمات انجام دینے والے افراد کے گھر سے 

باہر رہنے کی مدت کا تعین ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا کے مشورہ سے کیا۔

اسلامی معاشرے میں خواتین کو صرف مجلس شوریٰ کی رکنیت کا حق ہی حاصل نہیں تھا بلکہ وہ مختلف انتظامی ذمہ داریوں پر بھی فائز 

رہیں۔ مثلًا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے شفا بنت عبد اﷲ عدویہ کو بازار کا نگران مقرر کیا تھا۔ وہ قضاء الحسبہ 
(Accountability court)
اور قضاء شوق 
(Market Administration)
 
کی ذمہ دار تھیں۔ > حضرت سمراء بنت نہیک اسدیہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ مبارک پایا تھا اور کافی عمر رسیدہ 

تھیں وہ جب بازار میں سے گزرتیں تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیتی تھیں ان کے پاس ایک کوڑا تھا جس سے ان 

لوگوں کو مارتی تھیں جو کسی برے کام میں مشغول ہوتے۔۔

ححضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور مبارک میں عورتیں جہاد میں برابر حصہ لیتی تھیں، آپ نے عورتوں کو جہاد میں حصہ 

لینے کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ عورتوں کی یہ حیثیت اسلامی معاشرے میں ان کے فعال کردار اور نمایاں مقام کی مظہر ہے۔ حدیث پاک میں 

ہے۔

عن انس قال کان رسول اﷲ يغزو بام سليم و نسوة معها من الانصار يسقين الماء ويدا وين الجرحی. 

(ترمذی،السنن،کتاب السير، باب ما جاء فی خروج النساء فی الحرب، 4 : 139،رقم : 1575)

’’حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ام سلیم اور کچھ انصاری خواتین کے ہمراہ جہاد فرماتے تھے۔ یہ خواتین پانی 

پلاتی تھیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔‘‘

اسلامی معاشرے میں عورت ایک مفتیہ، مبلغہ بھی ہوتی تھیں اور اسی طرح ایسی خواتین کا ذکر بھی ملتا ہے کہ جنہوں نے تلوار پکڑ کر عملًا 

میدان جہاد میں شرکت کی جس طرح حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت نسیبہ بنت کعب رضی اللہ عنہا نے غزوہ احد میں شرکت 

کی اور صفیہ بنت عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے غزوہ خیبر میں یہودی کو قتل کیا۔

الغرض اسلام نیک اور صالحہ خاتون ملکہ سبا اور حضرت آسیہ علیہا السلام (جو کہ کافر و ظالم کی بیوی تھی) کا ذکر بہت احترام سے کرتا 

ہے اور دوسری طرف اﷲ کے نبی حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کافرہ رہیں اور اپنے انجام بد سے دو چار 

ہوئیں۔ اور دوسری طرف اسلام نے عورت کو آزاد حیثیت دی اسے ہر کام کرنے اور اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانے کے مواقع دیئے، 

حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کا منصوبہ بنایا۔ وہ 

تخطیط سازی کرتی اور خود کھانا پہنچاتی معلوم ہوا کہ عورتیں زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں کردار ادا کرتی تھیں۔ اسلام نے ان خواتین کو 

عظیم القابات دے کر ان کی عظیم حیثیت کو معاشرے میں مضبوط کیا۔ صحابیات سفارتکاری کا کام بھی سر انجام دیتی تھیں۔ جیسا کہ حضرت 

عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم بنت علی ابن ابی طالب کو ملکہ روم کی طرف خوشبو، مشروبات اور کچھ تحائف دے کر ثقافتی مشن پر 

روانہ کیا الغرض حکومتی، سیاسی، قانونی ہر طرح کے معاملات میں عورتوں کے ساتھ مشاورت کی جاتی تھی یہ عظیم منصب اور حیثیت 

اسلام نے عورت کو عطا کی۔ آج کے اس جدید دور اور تہذیب میں عورت کو پھر وہی مقام دینا ہو گا اور اسے اسی حیثیت میں لانا ہوگا 

جس کا اسلام متقاضی ہے آج ہم اگر اس جدید تہذیب میں انقلاب بپا کرنا چاہتے ہیں اور مصطفوی انقلاب کو منزل مقصود تک پہنچانا چاہتے 

ہیں تو پھر مصطفوی انقلاب کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو اپنی حیثیت کا ادراک کرنا ہوگا، اپنے دلوں کو اﷲ اور اس کے محبوب صلی اللہ 

علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے لبریز کرنا ہوگا۔ حضرت سیدہ مریم علیہا السلام جیسا صبر، حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا جیسا 

ایثار، حضرت سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا جیسا ادب و احترام اور محبت و روحانیت اور حضرت سیدہ آسیہ رضی اللہ عنہا جیسی خدا 

سے محبت اور دنیا سے بے رغبتی کو اپنا کر اپنی شخصیت کو اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ کے زیور سے مزین کرنا ہوگا۔

اے ماؤں!، بہنو اور بیٹیو! آپ اس جدید تہذیب میں اپنی حیثیت، اپنے حقیقی منصب اور مقام کو خودی کے دائرے میں رہ کر پہچانو اور 

حضرت سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کی زندگی کی پیروی میں زندگی کی شاہراہ پر گامزن ہو جاؤ تاکہ آپ کی آغوش میں بھی امام حسن رضی اللہ 

عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ جیسے فرزند پرورش پا سکیں اور حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا جیسا کردار پیدا کرو تاکہ آپ کی آغوش میں 

عون و محمد جیسی ہستیاں پیدا ہوں جو آگے جا کر مصطفوی انقلاب کی راہ میں مر مٹنے کا جذبہ رکھتے ہوں۔

 


source : http://forum.kalpoint.com/showthread.php?t=76409

تبصرے
Loading...