جامع اور کامل نماز کا مقام انسان سے مخصوص ہے

 

نماز کا مرتبہ ملکوتی ہے یہ مقام آسمانی اور بہت عظیم مقام ہے،حضرت علی اس کے بارے میں ارشاد فرما رہے ہیں :ایسی نماز پڑھنے کی اجازت صرف انسان کودی گئی ہے ملایکہ نماز جامع ادا نہیں کرتے ۔مولا فرماتے ہیں کچھ ملائکہ ایسے ہیں جو  روز خلقت  سے حالت قیام میں ہیں اور ابد تک اسی حالت میں رہیں گے ،کچھ ملایکہ رکوع کی حالت میں ہیں اور ابد تک اسی حالت پر باقی رہیں گے اور انہیں قیام کی اجازت نہیں ہے،کیونکہ وہ اس کی لیاقت نہیں رکھتے۔کچھ ملائکہ وہ ہیں جو سجدہ کی حالت میں ہیں اور رکوع وقیام نہیں بجا لا سکتے کیونکہ انکی صلاحیت نہیں رکھتے   لیکن خدا وند کریم نے نماز کے اس کامل پیکر کو اپنے خزانہ قدرت میں محفوظ رکھا  تاکہ جب انسان وجود میں آے تو یہ بیش قیمت تحفہ اسکو عطا کرسکے ۔

اب ایک انسان آئےاور اس نماز کو ضائع کر دے ،تو پھر ایساشخص “فویل للمصلین ” کا مستحق ہے کہ نہیں؟لیکن اگر یہ نماز ایک کامل تصویر ہو”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم”کی ایک جامعہ اور خوبصورت تصویر ہو توخدا بھی ایسی نماز کی تعریف کریگا ،کیونکہ معلوم ہے کہ یہ نماز خدا کے لئے  پڑھی گئ ہے ۔خداوند عالم فرماتا ہے:میں تمہارے تمام کاموں  کے ظاہرو باطن سے با خبر ہوں “انّ اللہ خبیر بما تعملون”  خدا کے نزدیک ایسی نماز کا باطن خوبصورت ہے کہ”قد افلح المؤمنین الذین ھم فی صلاتھم خاشعون” 

اور پھر بغیر فاصلہ کے فرماتا ہے”واّلذین ھم عن اللغو معرضون ” ان مؤمنین نے برے کاموں سے اپنا منھ موڑلیا ہےان لوگوں کی نماز حکیمانہ نماز ہے،ان کی نماز بیہودا ادا نہیں کی گئی بلکہ نہایت  خشوع کے ساتھ یعنی ان کے جسم اور جان ،دل، کان ،پوست ،خون ،اور یہاں تک کہ  ہڈّیاں سب نماز ادا کر تے ہیں ،یا دوسرے لفظوں میں نماز کی کامل تصویر بنا تےہیں  ۔

خشوع  بہت بلند اورایسی پر ارزش شئ کا نام ہے کہ اگر میں چاہتا ہوں کہ میری نماز با خشوع ہو توخدا کی قسم لقمہ حرام کے ساتھ خشوع ہرگز   حاصل نہ ہو سکے گا،یہ کیسے ممکن ہے کہ میں خود تو نجس حالت میں نماز ادا کروں اور کہوں کہ خشوع  بھی آ جائے گا ؟نجس بدن ،نجس گوشت،نجس خون ،اورنجس معدہ کے ساتھ خشوع کیسے ممکن ہے ؟ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا ۔

خشوع خوبصورتی اور پاکیزگی کا نام ہے یہ  وجود کے حسنا ت میں سے ہے ،اس طریقہ سے اور اس حال میں خشوع حاصل نہیں  کیا جا سکتا ۔ 

امیرالمؤمنین نےایسے عمل کو یوں تعبیر کیا ہے ،آپ فرماتے ہیں :کوڑے کے ڈھیر پر اگ آنے والی گھانس کی مانند ہے،اوراس کی کیاقیمت ہے؟   اس نمازکی بنیادکیا ہوگی؟ کس بدن کے ساتھ یہ نماز ادا کی گئی ہے؟ اسکی اصل کیا ہے؟ کس دل کے ساتھ یہ نماز ادا کی گئی ہے؟ ایسی نماز کی حقیقت کیا ہے؟کس عقل کے ساتھ اس نماز کو ادا کیا گیا ہے؟اس کی اصل تو الفاظ کی صورت میں ہیں ،یعنی وہ چیز جو اللہ کی جانب سے نازل ہوئی ہے وہ الفاظ ہیں اور ضروری ہے  یہی الفاظ ،خالص نیّت ، پاک روح و بدن،پاک فکر اور پاک قلب کے ساتھ ادا کیے جائیں  ۔یہ تمام چیزیں  نماز کے الفاظ کے ساتھ مل جائیں تاکہ ایک کامل نماز وجود میں آجائے ،ورنہ انسان اگر نماز کے الفاظ کو ایک عمدہ خطاط کو دے اور یہ کہے کہ میں آپ کو کچھ پیسے اضافی دوں گا ان الفاظ کو خوبصورت طریقہ سے لکھ دو  جو آج تک نہ لکھا ہواور وہ بھی سورہ  حمد ،ذکر رکوع وسجدہ کو ایک رنگین اور چمکتے ہوئ

ے کاغذپر لکھے اور اسکے اطراف کو  پھول پنکھڑیوں  سےسجا دے ،بعد  میں آپ  اس کو پروردگار عالم کی بارگاہ میں  لئے جاکر کہیں کہ خدایا ہم تیری بارگاہ میں یہ نماز لائے ہیں ۔کیا یہ نماز ہے ؟نماز گزار کو چاہئے  کہ وہ نماز کے نقش ونگار کو نہیں بلکہ اس  کے عملی جامع  کو اپنے پروردگار کے پاس لے جائے ۔یہی خدا کی رحمت حاصل کرنے کا   بہترین راستہ ہے”الذین ھم فی صلا تھم خاشعون” یہاں پرقرآن صرف  نماز گزار کے لئے نہیں بلکہ نماز اور   نماز گزار دونوں کے لئے فرما رہا ہے ،کیوں کہ یہ نماز  اور نماز گزار پاکیزگی ، سچّائی اور اسکی حکمت ، استواری  کے اعتبار سے ایک ہیں  ۔کیا  ابھی تک  ایسی حالت  ہمارے سامنےپیش آئی ہے؟  میرے جوان بھائیوں ،زیادہ سے زیادہ وقت نماز میں گزاریئے  ،آپ دیکھیں کہ قرآن میں کہیں بھی خدا کی وہ نظر لطف   جو نماز صبح کے لئےہےوہ نہ نماز ظہروعصر کے لئے ہے  اور نہ ہی نماز مغرب وعشاء کے لئے،معلو م ہوا کہ قرآن کے مطابق وہ ۱۵  رکعات ایک طرف ہیں اور یہ دو رکعت  نماز ایک طرف۔ذرا غور کریں کہ نما زصبح ہمارے ملک میں کتنی پڑھی جاتی ہے؟ جب کہ قرآن نے نماز صبح   کو یوں تعبیر کیا ہے “و قرآن الفجرانّ قرآن الفجر کان مشھودا” لیکن نماز ظہروعصر یا نماز مغرب وعشاء کے لیئےلفظ “مشھود ا”کا ذکر نہیں کیا ہے  ،دامن وقت میں اتنی گنجائیش  نہیں ہے کہ “و قرآن الفجرانّ قرآن الفجر کان مشھودا”   کی توضیح بیان کی جا سکے ،بس اتنا کہہ سکتے ہیں کہ نماز کا راستہ بہت باریک و دقیق ہے ،یہ کون سی نماز ہے جس کے ادا کرنے والوں کے لیے فرمایا جا رہا ہے”قد افلح المومنون ” غور کرنے کا مقام ہے “قد افلح “کہا جا رہا ہےنہ کہ “قد یفلح”یہاں پر فعل  مضارع کا استعمال نہیں کیا گیا بلکہ فعل ماضی لایا گیا ہے،گویا یہ نہیں کہاجا رہا کہ ان مومنین کی نماز  بعد میں قبول ہوگی بلکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ  یہ نمازاپنے تمام مراحل کو طےکرکے بارگاہ خداوندی میں مقبول ہو چکی ہے ۔یہی نماز روز قیامت انبیاء،صدّیقین ،شھداء اورصالحین کے سامنے پیش  ہوگی اوریہ قطعی ہے۔ اگر اس کو فعل مضارع  کے ذریعہ بیان کیا گیا ہوتا تو اس کے معنی یہ ہوتے کہ انسان نے ان امور کو انجام دے دیا ہے اور انشاء اللہ آیندہ قبول کر لی جائگی ۔انسان اپنی زندگی میں ایسی نمازیں کتنی تعداد میں پڑھے ؟    امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ انسان کے لئے اس کی پوری زندگی میں  اس طرح کی  ایک یا دو رکعت نماز  بھی پڑھ لے تو  کافی ہے ۔

 

۱:تمام نہج البلاغہ ص۱۰۰

۲: ماءدہ۴

۳:ماءدہ ۸

۴:مؤمنون،۱و۲

۵:مؤمنون۲

۶:نہج البلاغہ خطبہ ۹۸

۷: مؤمنون۲۰

۸:اسراء،۷۸

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

تبصرے
Loading...