تہذیب و ثقافت کے سلسلے میں ہماری ذمہ داری

 

تہذیب وثقافت سے متعلق امور کو انجام دینے کے لئے سب سے پہلے ہم کو کچھ بنیادی باتوں پر غورو فکر کرنی ہوگی منجملہ انکے موجودہ حالات کو جاننا اور انکی تجزیہ اور تحلیل شامل ہے ،اگر چہ ہم لوگ اجمالی اور مختصر طور پر اپنے اندر ایک ذمہ داری کو محسوس کرتے ہیں

خدا وند عالم کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے توفیق عطا فرمائی کہ دوبارہ یونیورسٹی کے معظّم اساتید کے درمیان گفتگو کرنے کا موقع ملا اس کے پہلے جلسے میں گفتگو اس بارے میں تھی کہ ہمارے اوپر کیا کیا ذمہ داریاں ہیں؟ اس کو میں نے کچھ حد تک بیان کیا اور اس ضمن میں چند باتیں آپ کے سامنے پیش کیں اس جلسے میں میں نے بیان کیا تھا کہ تہذیب وثقافت سے متعلق امور کو انجام دینے کے لئے سب سے پہلے ہم کو کچھ بنیادی باتوں پر غورو فکر کرنی ہوگی منجملہ انکے موجودہ حالات کو جاننا اور انکی تجزیہ اور تحلیل شامل ہے ،اگر چہ ہم لوگ اجمالی اور مختصر طور پر اپنے اندر ایک ذمہ داری کو محسوس کرتے ہیں اور یہی احساس ہے جس نے ہم لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونے پر مجبورکیا ہے اور ہم لوگ ایک اجتماعی تحریک کے لئے آمادہ ہیں لیکن اس ذمہ داری کو زیادہ سے زیادہ سمجھنے اور بہتر طریقے سے جاننے کے لئے انقلاب اجتماعی اور سیاسی حالات اور اس کی گذشتہ تاریخ کو جاننا ضروری ہوگا تاکہ موجودہ حالات کی تصویر کو زیادہ واضح طریقے سے سمجھ سکیں اور زیادہ معلومات کے ساتھ مطلوبہ حالت کی طرف قدم بڑھا سکیں ،البتہ اس بارے میں مزید تفصیلی بحث ہونی چاہئے لیکن وقت کی کمی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اس گفتگو کو زیادہ تفصیل کے ساتھ پیش کیا جائے مجبوراً اسی ایک جلسہ میں اس مسئلہ کو پیش کرکے ختم کیا جارہا ہے ۔

بہمن ٥٧ ١٣ھجری شمشی سے پہلے ایران کی ایک تصویر

ہم سب کو معلوم ہے کہ اصل میںیہ تحریک ، انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پندرہ سال پہلے ٤٢ ہجری شمسی سے شروع ہو چکی تھی یہ پندرہ سال کاعرصہ ایرانی عوام پر بہت ہی سخت گذرا ہے افراتفری کی حالت پورے ملک میں پائی جاتی تھی۔ اقتصادی بحران، سرکاری خزانے کی غارت گری اور تمام شعبوںمیں گمراہی جو دربار شاہ سے وابستہ تھے ان میں اخلاقی برائیاں نیزسرکاری ملازمین میںغلط کاریاں ،بے انتہا رشوت خوری ،ہر جگہ نا قابل برداشت طبقاتی اختلاف نیز اسکے علاوہ اور بہت ساری خرابیاں جس نے لوگوں کو عاجز کر دیا تھا اس کے علاوہ اجتماعی معاملات میں غیروں ، خاص کر امریکا کا عمل دخل پوری طرح سے اتنا دکھائی دیتا تھا کہ بلند و بالا وزیر اور عہدہ دار بھی امریکی تسلّط کے زیر اثر تھے اور عملی طور سے امریکی سفارت خانہ تھا کہ جس کے ہاتھ میںملک کی ساری حاکمیت تھی ، وہ لوگ ہماری عوام حتّی بزرگ شخصیتوں کی بے عزتی اور توہین کیا کرتے تھے اور بار بار کی حقارت و توہین سے ان لوگوں کے اندربہت حد تک احساس کمتری پیدا ہو گیا تھا اور عوام یہ تصّور کرنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ امریکی ہی متمدّن اور ترقی یافتہ ہیں اور ہم لوگ ان کے مقابلے میں بے حیثیت اور پس ماندہ ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسراسب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ وہ لوگ دین سے مقابلہ و مبارزہ کی سیاست اپنائے ہوئے تھے اور یہ فکر دن بہ دن وسیع ہوتی جا رہی تھی اور ایک مضبوط صدا بن رہی تھی آخری دنوں میں بات یہاں تک پہونچ گئی تھی کہ ان لوگوں نے درمیان سے سارے پردوں کو ختم کر دیا تھا وہ لوگ عام طور سے دینی مقدّسات سے کھلواڑ کر رہے تھے ان تمام حالات کے ہوتے ہوئے ایک عام اور وسیع انقلاب کا ہونانا گزیر ہو گیا تھا ۔

شہنشا ہی دور کی سب سے بڑی آفت

اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس وقت کے حالات کا تجزیہ کریں تو سب سے بڑی آفت میری نظر میں یہ تھی کہ پچھلی استعماری سیاست کے ذریعہ خاص طور سے پہلوی نظام کے پچاّس ساٹھ سالہ دور میں ان لوگوں نے جو کام کیا وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کے گروہ اور دیندار افراد کو سیاست سے با لکل خارج کر دیا تھا، اس زمانے کی بہت سی چیزیں مجھکو یاد ہیں لیکن جس نکتہ کی طرف میں نے اشارہ کیا اس کی طرف بہت کم دوستوں کی توّجہ ہوگی یا انکو یاد نہ ہوگا ،یہ ایک بلا تھی اور بہت ہی اہم مسئلہ تھا جو ان لوگوں نے اس ملّت کے لئے ایجاد کر دیا تھا ۔اس طرح کی ان لوگوں نے سیاست گذاری کی تھی کہ اس ملک کے سیاسی اور اجتماعی کاموں کو کچھ ایسے افراد کے حوالے کر دیا تھا کہ جو ان کے مطابق تھے ایسے منتخب افراد کہ جن میں اسّی فیصد سے زیادہ امریکہ میں تعلیم حاصل کئے ہوئے تھے یا ایران میں ایسی یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ تھے جو امریکہ کے زیر اثر تھیں منجملہ ان یو نیورسٹیوں میں تہران کا” د انشکدئہ مدیریت”(جو آجکل امام صادق یونیورسٹی ) اور شیراز کی یو نیورسٹی تھی شیراز کی یونیورسٹی کا جو مالک ہوتا تھا وہ سفارت امریکہ سے معےّن ہوتا تھا اور دوسری یونیورسٹیوں کے نظام اور نصاب بھی امریکی ہی معےّن کرتے تھے ،بہر حال ملک کی سیاست گذاری عملی طور سے انھیں منتخب اور چنندہ دانشوروں کے ہاتھ میں تھی جنکی اکثریت امریکہ کی تربیت یافتہ تھی،البتہ یہ سیاست اصل میں انگریزوں کی ہے جو بہت ہی باضابطہ اور منظّم انداز میں تھی،امریکہ نے سیاست کے اس طریقے کو انگریزوں سے سیکھا ہے تا کہ اس ذریعہ سے ان ممالک میں بہت دنوں تک اپنا تسلّط برقرار رکھ سکیں لہٰذا وہ اس بات کی کوشش کرتے تھے کہ ایسے دانشوروں کی خود انھیں ملک میں تربیت کریں جو بلا واسطہ طریقے سے انکی فکروں کو پروان چڑھائے اوروہ ان کے مطابق ہر کام کرنے کے لئے تیارہوں ۔اس سیاست کا نتیجہ یہ نکلاکہ ملک کے عام مسلمانوں کا ملک کی سیاست اور سرکاری امور میں کوئی کردار نظر نہیں آرہا تھا صرف ایک پارلیمنٹ تھی جہاں عوام کی کسی حد تک دخالت نظر آرہی تھی وہ بھی اس طرح کہ ممبروں کی ایک لیسٹ اور فہرست دربار شاہ اور امریکی سفارت خانہ کے توسط سے پہلے ہی معےّن ہو جاتی تھی اور وہی نام انتخابات کے دن بکسوں سے باہر آتے تھے ۔

اگر چہ ملک کے دانشوروں میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو ملک کی موجودہ سیاست سے متّفق نہیں تھے اور کسی بھی طرح ان کے ساتھ رہنے کو آمادہ نہیں تھے بلکہ ان سے مقابلہ کے لئے تےّار تھے اس سلسلے میں ان لوگوں نے کئی جماعتیں تشکیل دی تھیں ان میں سے ایک حزب تودہ (تودہ پارٹی )تھی اگرچہ یہ لوگ بھی کسی حدتک مشرقی استعمار کا آلہ کار تھے اور کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو روس کی طرف جھکائو رکھتے تھے اور وہ لوگ چاہتے تھے کہ ایران ایک سو سلشٹ اور روسی فکر میں تبدیل ہو جائے ،بہر حال پھر بھی اس گروہ میں کچھ مخلص اور سچّے لوگ بھی پائے جاتے تھے جوحقیقت میں انگریزوں اور امریکہ کے تسلّط اور استعمار کے چنگل سے بچنے کے لئے اسکے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں سمجھتے تھے تھا کہ اپنے کو روسیوں کے حوالہ کر دیں یعنی انکے ذہن میں یہ بات ڈال دی گئی تھی کہ تیسری دنیا کے ممالک مثلاً ایران وغیرہ کے سامنے صرف دو ہی راستہ ہے یا وہ امریکی پرچم کے نیچے آجائیں یا روسی پرچم کے زیر سایہ تا کہ انکے لئے دوسرے لوگوں سے مقابلہ کرنا ممکن اورآسان ہو جائے اگر چہ یہ دوسرے گروہ والے زیادہ نہیں تھے لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ اس خیال کے حامی ضرور تھے بہر حال ان دنوں دانشوروں کی ایک جماعت حزب تودہ کی شکل میں جمع ہو گئی تھی اور رسمی کاموں کو انجام دیتی تھی آج بھی ہم کو اس طرح کی تنظیم سے غافل نہیں ہونا چاہئے چونکہ یہ لوگ دوبارہ موقع کو غنیمت جان کر چوری چھپے اپنے کو پھر سے آمادہ کر رہے ہیں ۔اوراس بائیں بازو میں تودہ پارٹی کے علاوہ دوسرے گروہ جیسے فدائی خلق، کارگرپارٹی، رستگار پارٹی ، اور مختلف قسم کے مقامی گروہ مختلف علاقوںجیسے کردستان، آذربائیجان، ترکمنستان اور خوزستان وغیرہ میں موجود تھے ان تمام پارٹیوں کا مارکس ازم کی طرف جھکائو تھا ۔اس بات کا تذکرہ مناسب ہے کہ بہت سے گروہ جو کسی نام سے پائے جاتے تھے حقیقت میں اس کے اندر ممبران کی تعداد دس بیس افراد سے زیادہ نہیں تھی۔ ان بائیں بازو کی پارٹیوں کے مقابلہ میں اور دوسری پارٹیاں بھی پائی جاتی تھیں جن کا شمار داہنے بازو کی پارٹیوں میں ہوتا تھا جو کہ حکومت کی طرفدار اور اس پہلوی نظام کی موافق تھیں کہ مغربی بلاک سے تعلق رکھتی تھیں ۔

اس درمیان جس بات کی کمی تھی وہ دیندار افراد کی فعّالیت اور ان کا متحرک نہ ہونا تھا مختلف چالوں اور حربوں سے ان لوگوں کو سیاست کے میدان سے جدا کردیا گیا تھااور اس طرح سے تبلیغ کی گئی تھی کہ اصلاًکوئی دینداراورمتدےّن سیاسی امور میں دخالت نہیں کرتا تھا ۔

یہ بات مجھکو خود یاد ہے کہ جب کسی موقع پر کسی عالم دین کو بدنام کرنا چاہتے تھے تو کہتے تھے کہ یہ ملاّسیاسی ہے گویا ایسا دور آ گیا تھا کہ سیاسی مولوی ہونا ایک گالی تصوّر کیاجاتاتھا اسی وجہ سے دیندارافراد خاص طور سے عالم دین حضرات سیاست کے میدان میں اترنے سے پرہیز کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ آہستہ آہستہ بعض اسلامی ممالک کی پیروی اور کچھ دوسرے اسباب کی بنا پر دینداروں کے درمیان بھی بعض سیاسی گروہ پیدا ہو گئے تھے مشہور تنظیم ”فدائیان خلق ” انھیں گروہوںمیں سے ایک تھی اگر چہ یہ ایک چھوٹی سی تنظیم تھی لیکن اپنی جگہ بہت ہی مصممّ اور مستحکم پارٹی تھی، ایک دوسرا گروہ ”حزب ملل اسلامی” تھا جو کہ ٢٨ مردادکے بعد عالم وجود میں آیا تھا یہ لوگ بھی معدودے چندافرادسے زیادہ نہیں تھے اور آخر کار گوشئہ گمنامی میں چلے گئے اسی دوران (جو کہ مرحوم آیت۔۔ کاشانی کے سیاسی کارناموں کی بلندی کا دور تھا )ایک دوسرا گروہ ”مجاہدین اسلام ”بھی تھا جس کے بانی شمس قنات آبادی تھے ”سازمان مجاہدین خلق ”جس کو آجکل ہم گروہ منافقین کے نام سے جانتے ہیں حقیقت میں اسی گروہ کا ایک حصّہ تھا جس کے بانی یہی شمس تھے جیسا کہ آپ جانتے ہیں بعد میں چل کر اس گروہ نے مارکسی رجحان پیدا کر لیا اور آخر کار امریکہ اورمغرب کے دامن میں چلا گیابہر حال ملک کے سیاسی حالات کی یہ تصویر او ر یہ متحّرک تنظیمیں انقلاب کی کامیابی سے پہلے تھیں جو انھیںمذکورہ چند گروہوں میں منحصر تھیں اور ملک کے مخلص اورمعتقدمسلمانوں کی اکثریت ، جو کہ نوّے فیصدتھے اس میدان سے پوری طرح دور تھے سیاست میں آنے کے لئے انکے پاس کوئی ذریعہ اور راستہ نہیں تھا ان نوّے فیصد لوگوں میں حالات اور واقعات کی حقیقت سے آگاہی رکھنے والے افراد کم نہ تھے یہ لوگ حقیقت میں ملک کے حالات سے ناراض تھے اور خون دل پیتے تھے لیکن عملی طور سے کچھ نہیں کر سکتے تھے انکو کچھ امید بھی نہیں تھی اس زمانے میں چند اسلامی گروہوں کے درمیان جو کہ واقعا ًاسلام سے لگائو رکھتے تھے اوروہ شاہ کی حکومت کو قبول نہیں کرتے تھے نیز بائیں بازو اور مارکس ازم کی طرف بھی ان کا رجحان نہیں تھا ایک گروہ ”نہضت آزادی ”بھی تھااس گروہ میں چند نوجوان لڑکے تھے جنھوں نے اکٹھاہو کر ایک تنظیم بنا لی تھی اور دھیرے دھیرے اس تنظیم نے تحریک آزادی کی شکل اختیار کر لی تھی اس تنطیم کی بنیاد ڈالنے والے لوگوں میں انجینئر بازرگان اور ڈاکٹر ید ا… سحابی کا نام لیا جا سکتا ہے ،تہران یونیورسٹی کے شعبہ فنّی کی مسجد کی بنیاد ڈالنے والے یہی مہندس بازرگان تھے، اسی طرح آپ کئی رسالوں کو مختلف شکل میں چھاپتے تھے ان میں ایک رسالہ”گنج شایگاں”تھا ،تحریک آزادی والے بھی مجاہدین خلق کی طرح اسلام سے ربط رکھتے تھے نمازی اور روزہ دار بلکہ بعض عابدشب زندہ دار بھی تھے، اگرچہ تحریک آزادی والے بھی مجاہدین خلق کی طرح راستے سے بھٹک گئے اورخود کو سیاسی حیثیت سے محفوظ رکھنے کے لئے محاذملّی کے ان ممبران کے عنوان سے پیش کیا جو کہ سیاسی دانشوروں کے درمیان دوسروں سے بہتر تصوّر کئے جاتے تھے، اور ویسا ہی کام کرنے لگے سیاسی اعتبار سے ملک کی یہ حالت اس وقت، انقلاب کی کامیابی سے پہلے تھی ۔

سیاسی تغیر اور انقلاب کے لئے امام خمینی کی حکمت عملی

ان حالات میں امام خمینی نے فہم و فراست اور سیاسی بصیرت کے ساتھ جو کہ شروع سے آپ رکھتے تھے یہ محسوس کیا کہ یہ سیاسی کارنامے جو دانشوروں کے مختلف گروہوں کی طرف سے انجام دئیے جارہے ہیں اگرنتیجہ کو پہونچ جائیں تو بھی اس سے اسلام کو کوئی فائدہ پہونچنے والا نہیں ہے حتیّٰ جو لوگ اسلام کے نام پر جو کچھ کررہے ہیں اس سے بھی کچھ فائدہ ہونے والانہیں ہے، صرف ایک راستہ جو امام خمینی کی نظر میں فائدہ مند تھا اور اس کا ہونا ضروری تھا وہ یہ کہ عام مسلمانوں کو میدان میںلایا جائے امام خمینی کا یہ عقیدہ تھا کہ یہ جماعتیں اور تنظیمیں ایک اسلامی انقلاب( جو کہ مضبوطی کے ساتھ تمام شعبوں میںحاکم ہو اور حکومت اسلامی کی شکل میں ہو ) نہیںلاسکتی ہیں، اگرچہ امام خمینی کی تھیوری اس زمانے میں قابل قبول نہیں تھی اور آج بھی نہیں ہے وہ لوگ اس بات کے معتقد تھے کہ جہاں بھی جس صورت میں سیاسی تحریک اور فعّالیت انجام پائے، اس کا نتیجہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ کسی گروہ یا تنظیم کی شکل میں کسی خاص رابطہ اور قاعدہ کے ساتھ انجام پائے اسکے بر خلاف ایسی تحریک جو عمومی طور سے ہو اور اس میں سب کے سب لوگ دخالت رکھتے ہوں اور سب کے سب اپنے کو ذمہ دار محسوس کرتے ہوں اور وہ تمام لوگ متحد ہو کر حرکت کرتے ہوں تو علوم سیاسی کے کلاسکی نظریات میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اگر امام خمینی یہ چاہتے کہ اپنے نظریات اور افکار کو علمی نظریہ کی شکل میں پیش کریں اور اس کے بارے میں بحث وگفتگو کریں تو کوئی بھی اس کو قبو ل نہیں کرتا امام خمینی نے اس سیاسی مطلب کو علمی نظریہ میں پیش کرنے کے بجائے اس کام کو عملی طور سے پیش کرنا شروع کیا اور آپ نے مصّمم ارادہ کر لیا کہ عام لوگو ں کو میدان میں لیکر آئیں اور اس احساس ذمہ دارری کو عام لوگوں کے ذہن میں ڈال دیا کہ مسلمان ہونے کے ناطے تمام لوگوں کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ ملک کے سیاسی امور میں حصّہ لیں، امام خمینی کی یہ فکر دوسری اور فکروں کی طرح ایک نئی فکر تھی اگر امام خمینی س راستے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرتے تو کوئی خاطرخواہ انقلاب پیدا نہیں کر سکتے تھے امام خمینی نے عوامی طاقت اور ان کی حمایت سے اتنی بڑی کامیابی حاصل کر لی اور اس تحریک کو جو کہ اس کے پہلے ہمیں نظر نہیں آتی تھی وجود بخشا ، اس کام کو کوئی بھی سیاسی گروہ چاہے بائیں بازو کی پارٹی ہو یا تنظیم ملّی ہو یا کوئی اور مذہبی گروہ ہو انجام دینے پر قادر نہیں تھا ،اس بات کادوست دشمن سب نے اعتراف کیا ہے ۔ یہ صرف امام خمینی کی ذات تھی جس نے عظیم ملّت کے گروہوں میں چھپی ہوئی طاقت کو مشخّص کرکے ان کے دینی اور اسلامی جذبات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نتیجہ خیز کام کو شروع کیا ۔ہم کویہ بات اچھی طرح یاد ہے اور میںخود اس بات کا قریب سے گواہ ہوں کہ وہ آوارہ اوربیکار جوان جو کہ سڑکوں اور گلیوں میں پھرا کرتے تھے امام خمینی نے ان کو ایسا بدل دیا اور ایسا بنا دیا کہ وہ انقلاب کے وقت دشمنوں کے مقابلہ میں اپنے سینوں کو ڈھال بنا کر پیش کرتے تھے اورحکومت شاہ کے سپاہیوں سے کہتے تھے مارو جتنا مارنا ہے مار لو! امام خمینی نے لوگوں کے اندر ان کی دینی ذمہ داری کے احساس کو زندہ کر دیا آپ نے اپنی خالص نےّت سے ایسا کام کر دیا جس سے لوگوں میں محدود اور خشک گروہی رابطوں کے بجائے ایک گہرا اور صمیمانہ رابطہ پیدا ہوگیا لوگ امام خمینی سے محبّت کرتے تھے اور پروانہ کی طرح ارد گرد گھومتے تھے ۔یہ امام خمینی کی بے مثل اور بے نظیر رہبری اور قیادت تھی ہم آج بھی محبّت کے اس گہرے رشتے کو دیکھ رہے ہیں یہاں تک کہ آپکے انتقال کے سالوں بعد بھی آپ کا نام خاص احترا م کے ساتھ لیا جاتا ہے ۔

بہر حال امام خمینی کی یہ تحریک اس روز کے رائج فارمولے اور سیاست سے جدا تھی، اس وقت جب ١٣٥٦ہجری شمسی میں لوگوں نے سڑکوں پر مظاہرہ شروع کیا تو اچھے اچھے لوگوں نے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ بیس سال سے کم کی مدّت میں اس حرکت اور قیام کا کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے اور کامیابی حاصل ہوگی ایسے افراد سے میری مراد ڈاکٹر بہشتی وغیرہ جیسے لوگ ہیں یہ لوگ کوئی معمولی شخصیت کے مالک نہیں تھے بلکہ بلند سیاسی درجہ رکھتے تھے ان جیسے لوگوں کا بھی ( انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے اور آزادی کے آخری دنوں میں ) یہی نظریہ تھا کہ ابھی بیس سال اور انتظار کریں لیکن سبھی لوگوں نے دیکھا کہ امام خمینیکی تحریک نے ایک سال اور چند دنوں میں ہی نتیجہ دینا شروع کر دیا اور انقلاب کامیاب ہو گیا ،ایسی چیز جس پر میں خود ذاتی طور پر بھی یقین نہیں کرتا تھا اگر کوئی کہتا تھاتو مجھے خواب و خیال سا لگتا تھا میں تو ایک معمولی آدمی ہوں مجھ سے بڑے بڑے لوگوں کا بھی تصّور اور خیال یہی تھا ،بہر حال اگر یہ کہیں کہ ١٣٥٧ میں انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی ایک خدائی معجزہ تھی تو میرے نزدیک یہ کوئی مبالغہ کی بات نہیں ہوگی۔

انقلاب کی کامیابی کے بعد بعض ایسے مفسد گروہ کہ جنکی لوگوں کے درمیان کوئی وقعت نہیں تھی اور ان کی بیہودہ حرکتیں، فریب کاریاں اور قتل و غارت گری ہی خود ان کے خاتمہ کا سبب بنی اور وہ ملک سے بھاگ گئے ان کے علاوہ کچھ دوسرے گروہ باقی رہ گئے جیسے تودہ پارٹی،دہشت گرد فدائی خلق ،پان ایرانیسٹ ،محاذملّی اورتحریک آزادی یہ لوگ پہلے کی طرح کام کرتے رہے انکے لئے کوئی چیز مانع بھی نہیں تھی اور انکے جان ومال محفوظ تھے ۔

یہاں تک تقریباًوہ مطالب تھے جن کو آپ سبھی لوگ جانتے تھے اور کوئی نئی بات نہیں تھی صرف ان مسائل اور واقعات پر جو انقلاب کی کامیابی سے پہلے تھے ایک سرسری نظر ڈالی گئی اور اکثر مطالب مقدّمہ کے عنوان سے تھے اصل بحث جس پر میری خاص تاکید ہے اس کے بعد ہے جس پر میں چاہتا ہوں کہ آپ خاص توجّہ دیں ۔

حقیقی اسلام کے افکار و اقدا ر سے متعلق اسلامی نظام کے کے ذمہ داروں کا اعتقاد

انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد طبعی طور سے ملک کی سرپرستی اور حکومت بنانے سے متعلق بحث ہوئی؛ سب سے پہلی حکومت انجینئر بازرگان کی صدارت میں بنی؛ اسکے بعد بہت سے حکومتیں کئی لوگوں کی سر براہی میں بنیں؛بہت سی کمیاں اور فطری اشکالات جو کم تجربگی اور نئے ہونے کی وجہ سے لازمی تھے وہ سب پائے جاتے تھے جیسا کہ ہر انقلاب اور ہر نئی حکومت کی خصوصیت ہے لیکن اس کے علاوہ اس جگہ جو چیز قابل سوال ہے وہ یہ کہ کیا ارکان حکومت کے تمام لوگ امام خمینیکی طرح فکر رکھتے تھے اور کیا سبھی لوگ معاشرہ میں دین کے اثر کے متعلق وہی چیز سمجھتے تھے جومرحوم امام سمجھتے تھے ۔

اس وقت ملک کے بڑے لوگ جن کا شمار سیاسی طور پر بزرگوں اور فیصلہ کن لوگوں میں ہوتا تھا جیسے شہید بہشتی؛شہید مطّہری؛شہد باہنر اور ان جیسے دوسرے لوگ جو سالوں امام خمینیکے زیر سایہ تربیت پاچکے تھے یہ لوگ مکمل طور سے امام خمینیکی فکروں اور نظریوں سے واقف تھے اس کے علاوہ یہ لوگ خود بھی اچھّی صلاحیت کے مالک تھے اسلام کے معارف اور اصول کا وسیع اور گہرا مطالعہ رکھتے تھے اور اسلام کے اصول و احکام اور معارف کا بخوبی علم رکھتے تھے، ایسے لوگ امام خمینیکے راستوں کو پہچانتے تھے اور اس پر اعتماد اور یقین رکھتے تھے اور حقیقت میں وہی چاہتے تھے جس کی فکراور جستجو میں امام خمینی تھے؛ لیکن ذرا آپ غور کریں یہ لوگ کتنے سال زندہ رہے؟ انقلاب کے ایک دو سال کے شروع میں ہی اکثر کو شہید کر دیا گیا سب سے پہلے مرتضیٰ مطّہری کو شہید کیا گیا اس کے بعد ٧ تیر اور ٨شہریور کا واقعہ ہوا ؛جس میں بہشتی؛ باہنر وغیرہ شہید ہوگئے نیز اور دوسرے بہت سارے واقعات جس میں بہت سے ایسے لوگ جو امام خمینیکے افکار اور اصول سے اچھی طرح واقف تھے اور اسی اصول پر یقین رکھتے تھے ملک کے سیاسی عہدوں پر متمکّن تھے اور ملک کے قوانین بنانے میں اہم رول رکھتے تھے وہ لوگ ہمارے درمیان سے رخصت ہو گئے، دشمن جو کہ سارے حالا ت سے باخبر تھا اس سے پہلے کہ ہم ان شخصیات کو اچھی طرح پہچانیں اس نے ان تمام لوگوں کو ہم سے چھین لیا ؛وہ بعض افراد کہ جن کا نام ہم نے لیا اور دوسرے چند لوگوں کو چھوڑ کر وہ تمام لوگ جو کہ ٨شہریور کے واقعہ اور مرحوم باہنر کی حکومت کے بعد حکومت کے لئے آئے اور ملک کے ا ہم سرکاری عہدوں اور وزارتوں پر فائز ہوئے وہ لوگ نہ اس حد تک امام خمینیکو پہچانتے تھے اورنہ انکی روحی اور معنوی نظر اس قابل تھی کہ وہ امام خمینی کے افکار کو پہچان سکیں ؛مختلف لوگ کم و بیش مغربی ثقافت اور تعلیمات سے متا ثر تھے وہ لوگ اسلامی معارف و ثقافت سے دور تھے یہ فاصلہ دن بہ دن ہر حکومت میں پچھلی حکومت اور اس کے مسئولین کی نسبت بڑھتا چلا گیا ؛لیکن جب تک امام خمینی زندہ تھے آپ کی روحانی عظمت اور الٰہی و معنوی شخصیت جس کا سایہ سارے ملک پر تھا بہت کم لوگ اپنی دلی خواہش کا اظہار کرتے تھے حتیٰ جو لوگ امام خمینیکی فکروں اور اصول کی مخالفت کرتے تھے وہ لوگ بھی مخالفت کے لئے راستے کو ہموار نہیں دیکھتے تھے اور پھر وہ عملی طور سے کوئی بات پیش نہیں کر سکتے تھے ۔بہر حال امام خمینیکے انتقال کے بعد آپ کے راستے اور افکار سے دوری کا راستہ ہموار ہوتا چلا گیا کیونکہ اب وہ مربی نہیں رہا اور وہ معنوی شخصیت ہمارے درمیان نہیں رہی ؛امام خمینیایسی شخصیت تھے جنھوں نے ٨٠سال تک سیاسی اور اجتماعی تلخ وشیریں حادثوں کو ملاحظہ کیا نفسانی اور روحانی طور سے اپنے کو آمادہ کیا اورآپ دشمن سے مقابلہ کا ٣٠ سالہ گرانبہاتجربہ رکھتے تھے لہٰذا امام خمینی کے بعد کوئی کتنی ہی خود سازی کرے اور کتنا ہی با تجربہ اور با لائق ہو وہ امام خمینیجیسا نہیں ہو سکتا ،یہ خود ایک وجہ ہے جو دوسری مختلف وجہوں کے ساتھ فطری طور سے موجود ہے اور اس وقت ان کے بیان کی گنجائش نہیں ہیاور یہ سب وجہیں ایک ساتھ مل کر اس بات کا سبب بن گئی ہیں کہ اسلامی افکارو اقدار دن بہ دن کم سے کمتر ہوتے جا رہے ہیں اس وقت ہم یہ ذمہ داری رکھتے ہیں کہ حالات کو سمجھیں اور مناسب طریقہ کار اور حکمت عملی کے ذریعہ ا س چیزکو آگے بڑھنے سے روکیں ۔

 

 

 

 

 

تبصرے
Loading...