توبہ ، احادیث کی روشنی میں

خطاب ھوا: اے آدم یہ حقیقت آدم کے لئے مقرر کی ھے کہ تمھاری اولاد میں کسی نے گناہ کا ارادہ کیا، تو اس کے نامہ اعمال میں نھیں لکھا جائے گا، اور اگر اس نے اپنے ارادہ کے مطابق گناہ بھی انجام دے لیا تو اس کے نامہ اعمال میں صرف ایک ھی گناہ لکھا جائے گا، لیکن اگر تمھاری اولاد میں سے کسی نے نیکی کا ارادہ کرلیا تو فوراً ھی اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا، اور اگر اس نے اپنے ارادہ پر عمل بھی کیا تو اس نے نامہ اعمال میں دس برابر نیکی لکھی جائےں گی؛ اس وقت جناب آدم (علیہ السلام) نے عرض کیا: پالنے والے! اس میں اضافہ فرمادے؛ آواز قدرت آئی: اگر تمھاری اولاد میں کسی شخص نے گناہ کیا لیکن اس کے بعد مجھ سے استغفار کر لیا تو میں اس کو بخش دوں گا؛ ایک بار پھر جناب آدم (علیہ السلام) نے عرض کیا: پالنے والے! مزید اضافہ فرما؛ خطاب ھوا: میںنے تمھاری اولادکے لئے توبہ کورکھا اور اس کے د روازہ کو وسیع کردیا کہ تمھاری اولاد موت کا پیغام آنے سے قبل توبہ کرسکتی ھے، اس وقت جناب آدم )علیہ السلام) نے عرض کیا: خداوندا!  یہ میرے لئے کافی ھے۔[1]

حضرت امام صادق علیہ السلام نے حضرت ، رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کی ھے: جو شخص اپنی موت سے ایک سال پھلے توبہ کرلے تو خداوندعالم اس کی توبہ قبول کرلیتا ھے، اس کے بعد فرمایا: بے شک ایک سال زیادہ ھے، جو شخص اپنی موت سے ایک ماہ قبل توبہ کرلے تو خداوندعالم اس کی توبہ قبول کرلیتا ھے، اس کے بعد فرمایا: ایک مھینہ بھی زیادہ ھے، جو شخص ایک ہفتہ پھلے توبہ کرلے اس کی توبہ قابل قبول ھے، اس کے بعد فرمایا: ایک ہفتہ بھی زیاد ھے، اگر کسی شخص نے اپنی موت سے ایک دن پھلے توبہ کرلی تو خداوندعالم اس کی توبہ بھی قبول کرلیتا ھے، اس کے بعد فرمایا: ایک دن بھی زیادہ ھے اگر اس نے موت کے آثار دیکھنے سے پھلے توبہ کرلی تو خداوندعالم اس کی بھی توبہ قبول کرلیتا ھے۔[2]

حضرت رسول خدا  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  فرماتے ھیں:

”اِنَّ اللّٰہَ یَقْبَلُ تَوْبَةَ عَبْدِہِ ما لَمْ یُغَرْغِرْ، تُوبُوا اِلٰی رَبِّکُمْ قَبْلَ اَنْ تَمُوتُوا ،وَبادِرُوا بِالاَعْمالِ الزّاکِیَةِ قَبْلَ اَنْ تُشْتَغِلُوا،وَ صِلُوا الَّذی بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَہُ بِکَثْرَةِ ذِکْرِ کُمْ اِیّاہُ:“[3]

”خداوندعالم ، اپنے بندے کی توبہ دم نکلنے سے پھلے پھلے تک قبول کرلیتا ھے، لہٰذا اس سے پھلے پھلے توبہ کرلو، نیک اعمال انجام دینے میں جلدی کرو قبل اس کے کہ کسی چیز میں مبتلا ھوجاؤ، اپنے اور خدا کے درمیان توجہ کے ذریعہ رابطہ کرلو“۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں:

”لَاشَفیعَ اَنْجَحُ مِنَ التَّوْبَةِ“۔[4]

”توبہ سے زیادہ کامیاب کرنے والا کوئی شفیع نھیں ھے“۔

حضرت رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے روایت ھے:

”اَلتَّوْبَةُ تَجُبُّ ما قَبْلَھا“۔[5]

”توبہ ؛ انسان کے گزشتہ اعمال کو ختم کردیتی ھے“۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

”اَلتَّوْبَةُ تَسْتَنْزِلُ الرَّحْمَةَ:“۔[6]

”توبہ کے ذریعہ رحمت خدا نازل ھوتی ھے“۔

نیز حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں:

”تُوبُوا اِلَی اللّٰہِ وَ ادْخُلُوا فِی مَحَبَّتِہِ،فَاِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوّابینَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرینَ،وَالْمُوٴْمِنُ تَوّابٌ:“۔[7]

”خداوندعالم کی طرف لوٹ آؤ، اپنے دلوں میں اس کی محبت پیدا کرلو، بے شک خداوندعالم توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ لوگوں کو دوست رکھتا ھے اور مومن بھت زیادہ توبہ کرتا ھے“۔

حضرت امام رضا علیہ السلام اپنے آباء و اجداد  علیہم السلام   کے حوالے سے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے روایت کرتے ھیں:

”مَثَلُ الْمُوٴْمِنِ عِنْدِاللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ کَمَثَلِ مَلَکٍ مُقَرَّبٍ وَ اِنَّ الْمُوٴْمِنَ عِنْدَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ اَعْظَمُ مِنْ ذٰلِکَ،وَلَیْسَ شَیْءٌ اَحَبَّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ مُوٴْمِنٍ تائِبٍ اَوْ مُوٴْمِنَةٍ تائِبَةٍ:“۔[8]

”خدا وندعالم کے نزدیک مومن کی مثال ملک مقرب کی طرح ھے، بے شک خداوندعالم کے نزدیک مومن کا مرتبہ فرشتہ سے بھی زیادہ ھے، خداوندعالم کے نزدیک مومن او رتوبہ کرنے والے مومن سے محبوب تر کوئی چیز نھیں ھے۔“

امام ہشتم اپنے آباء و اجداد کے حوالے کے ذریعہ رسول خدا  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے روایت فرماتے ھیں:

”اَلتّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لا ذَنْبَ لَہُ:“۔[9]

”گناھوں سے توبہ کرنے والا، اس شخص کی طرح ھے جس نے گناہ کیا ھی نہ ھو“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ھے:

”اِنَّ تَوْبَةَ النَّصوحِ ھُوَ اَنْ یَتوبَ الرَّجُلُ مِنْ ذَنْبٍ وَ یَنْوِیَ اَنْ لا یَعودَ اِلَیْہِ اَبَداً:“۔[10]

”توبہ نصوح یہ ھے کہ انسان گناھوں سے توبہ کرے اور دوبارہ گناہ نہ کرنے کا قطعی ارادہ رکھے“۔

حضرت رسول خدا  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کا ارشاد ھے:

”لِلّٰہِ اَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِہِ مِنَ الْعَقِیمِ الْوالِدِ،وَ مِنَ الضّالِّ الْواجِدِ،وَمِنَ الظَّمْآنٍ الْوارِدِ“۔[11]

” خداوندعالم اپنے گناھگار بندے کی توبہ پر اس سے کھیں زیادہ خوشحال ھوتا ھے جتنی ایک عقیم عورت بچہ کی پیدائش پر خوش ھوتی ھے، یا کسی کا کوئی کھویا ھوا مل جاتا ھے اور پیاسے کو بھتا ھوا چشمہ مل جاتا ھے“!

حضرت رسول خدا  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے روایت ھے:

”اَلتَّائِبُ اِذالَمْ یَسْتَبِنْ عَلَیْہِ اَثَرُ التَّوَبَةِ فَلَیْسَ بِتائِبٍ ،یُرْضِی الْخُصَماءَ،وَیُعیدُ الصَّلَواتِ ،وَ یَتَواضَعُ بَیْنَ الْخَلْقِ ،وَیَتَّقی نَفْسَہُ عَنِ الشَّھَواتِ،وَیَھْزِلُ رَقَبَتَہُ بِصِیامِ النَّھارِ:“۔[12]

”جس وقت توبہ کرنے والے پر توبہ کے آثار ظاھر نہ ھوں، تو اس کو تائب (یعنی توبہ کرنے والا) نھیں کھا جانا چاہئے، توبہ کے آثار یہ ھیں: جن لوگوںکے حقوق ضائع کئے ھیں ان کی رضایت حاصل کرے، قضا شدہ نمازوں کو ادا کرے، دوسروں کے سامنے تواضع و انکساری سے کام لے، اپنے نفس کو حرام خواہشات سے روکے رکھے اور روزے رکھ کر جسم کو کمزور کرے “۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

”اَلتَّوْبَةُ نَدَمٌ بِالْقَلْبِ ،وَاسْتِغْفارٌ بِاللِّسانِ،وَ تَرْکٌ بِالْجَوارِحِ،وَاِضْمارٌ اَنْ لایَعودَ:“۔[13]

” توبہ؛ یعنی دل میں شرمندگی، زبان پر استغفار، اعضاء و جوارح سے تمام گناھوں کو ترک کرنا اور دوبارہ نہ کرنے کا مستحکم ارادہ کرنا“۔

نیز حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ھے:

”مَنْ تابَ تابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ ،وَاُمِرَتْ جَوارِحُہُ اَنْ تَسْتُرَ عَلَیْہِ،وَبِقاعُ الاَرْضِ اَنْ تَکْتُمَ عَلَیْہِ،وَ اُنْسِیَتِ الْحَفَظَةُ ما کانَتْ تَکْتُبُ عَلَیہِ:“۔[14]

” جو شخص توبہ کرتا ھے خداوندعالم اس کی توبہ قبول کرتا ھے، اور اس کے اعضاء و جوارح کو حکم دیا جاتا ھے کہ اس کے گناھوں کو مخفی کرلو، اور زمین سے کھا جاتا ھے کہ اس کے گناہ کو چھپالے اور جو کچھ کراماً کاتبین نے لکھا ھے خدا ان کو نظر انداز کر دیتا ھے “۔

حضرت امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ھے کہ خداوندعالم نے جناب داؤد نبی (علیہ السلام) پروحی فرمائی:

 

”اِنَّ عَبْدِیَ الْمُوٴْمِنَ اِذا اَذْنَبَ ذَنْباً ثُمَّ رَجَعَ وَ تابَ مِنْ ذٰلِکَ  الذَّنْبِ وَاسْتَحْییٰ مِنّی عِنْدَ ذِکْرِہِ غَفَرْتُ لَہُ،وَاَنْسَیْتُہُ الْحَفَظَةُ،وَ اَبْدَلْتُہُ الْحَسَنَةَ،وَلا اُبالی وَ اَنَا اَرْحَمُ الرّحِمینَ:“۔[15]

”بے شک جب میرا بندہ گناہ کا مرتکب ھوتا ھے اورپھر اپنے گناہ سے منھ موڑلیتا ھے اور توبہ کرلیتا ھے،اور اس گناہ کو یاد کرکے مجھ سے شرمندہ ھوتا ھے تو میں اس کو معاف کردیتا ھوں، اور کراماً کاتبین کو(بھی) بھلادیتا ھوں، اور اس کے گناہ کو نیکی میں تبدیل کردیتا ھوں، مجھے کوئی پرواہ نھیں ھے کیونکہ میں ارحم الراحمین ھوں “۔

پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  ایک اھم روایت میں فرماتے ھیں:کیا تم جانتے ھوں ھو کہ تائب (یعنی توبہ کرنے والا) کون ھے؟ اصحاب نے کھا: یا رسول اللہ ! آپ بھتر جانتے ھیں، تو آنحضرتصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا: جب کوئی بندہ توبہ کرے اور دوسروں کے مالی حقوق کو ادا کرکے ان کو راضی نہ کرلے تو وہ تائب نھیں ھے، جو شخص توبہ کرے لیکن خدا کی عبادتوں میں اضافہ نہ کرے تو وہ شخص (بھی) تائب نھیں ھے، جو شخص توبہ کرے لیکن اپنے (مال حرام سے بنے ھوئے ) لباس کو نہ بدلے وہ (بھی) تائب نھیں ھے، جو شخص توبہ کرے لیکن اپنی صحبت کو نہ بدلے تو وہ (بھی) تائب نھیں ھے، جو شخص توبہ کرے لیکن اپنے اخلاق اور اپنی نیت کو نہ بدلے تو وہ شخص(بھی) تائب نھیں ھے، جو شخص توبہ کرے اور اپنے دل سے حقائق کو نہ دیکھے ،اور صدقہ و انفاق میں اضافہ نہ کرے تو وہ شخص(بھی) تائب نھیں ھے، جو شخص توبہ کرے لیکن اپنی آرزوٴں کو کم نہ کرے اور اپنی زبان کو محفوظ نہ رکھے،تو وہ شخص(بھی) تائب نھیں ھے، جو شخص توبہ کرے لیکن اپنے بدن سے اضافی کھانے کو خالی نہ کرے،تو وہ شخص(بھی) تائب نھیں ھے۔ بلکہ وہ شخص تائب ھے جو ان تمام خصلتوں کی پابندی کرے ۔[16]

[1]”عن ابی جعفر علیہ السلام  قال:ان آدم علیہ السلام  قال :یارب ! سلطت علی الشیطان واجریتہ منی مجری الدم فاجعل لی شیئا فقال:یا آدم !جعلت لک ان من ھم من ذریتک بسیئة لم تکتب علیہ فان عملھا کتبت علیہ سیئة ومن ھم منھم بحسنة فان لم یعملھا کتبت لہ حسنة وان ھو عملھا کتبت لہ عشرا،قال:یا رب! زدنی۔قال: جعلت لک ان من عمل منھم سیئة ثم استغفر غفرت لہ قال: یارب ! زدنی قال: جعلت لھم التوبة وبسطت لھم التوبة حتی تبلغ النفس ھذہ ۔ قال:یا رب!حسبی “۔

کافی ج۲،ص۴۴۰،باب فیما اعطی اللہ عز وجل آدم(ع) ،حدیث۱؛بحار الانوار ج۶،ص۱۸،باب ۲۰،حدیث۲۔

[2]عن ابی عبد اللہ  علیہ السلام قال :قال رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم من تاب قبل موتہ قبل اللہ توبتہ ثم قال :ان السنة الکثیرة، من تاب قبل موتہ بشھر قبل اللہ توبتہ ،ثم قال:ان الشھر لکثیر،من تاب قبل موتہ بجمعة قبل اللہ توبتہ ۔ثم قال:ان الجمعة لکثیرة،من تاب قبل موتہ بیوم قبل اللہ توبتہ،ثم قال:ان الیوم لکثیر،من تاب قبل ان یعاین قبل اللہ توبتہ“۔

کافی ج۲،ص۴۴۰،باب فیما اعطی اللہ عزوجل آدم (ع)،حدیث ۲؛وسائل الشیعہ ج۱۶،ص۸۷،باب ۹۳،حدیث ۲۱۰۵۷؛بحار الانوارج۶،ص۱۹،باب ۲۰،حدیث۴۔

[3]دعوات راوندی ،ص۲۳۷،فصل فی ذکر الموت ؛بحار الانوار،ج۶،ص۱۹،باب۲۰،حدیث۵۔

[4]نہج البلاغہ ص۸۶۳،حکمت ۳۷۱،من لایحضرہ الفقیہ ج۳،ص۵۷۴،باب معرفة الکبائر التی او عداللہ ،حدیث ۴۹۶۵؛ بحار الانوار ج۶،ص۱۹،باب ۲۰ ،حدیث۶۔

[5]عوالی اللئالی ج۱، ص۲۳۷،الفصل التاسع ،حدیث ۱۵۰؛مستدرک الوسائل ج ۱۲،ص۱۲۹،باب ۸۶،حدیث ۱۳۷۰۶؛ میزان الحکمہ،ج۲،ص۶۳۶،التوبة، حدیث۲۱۱۱ ۔

[6]غرر الحکم ص۱۹۵،آثار التوبة ،حدیث ۳۸۳۵؛مستدرک الوسائل ج ۱۲،ص۱۲۹،باب ۸۶،حدیث ۱۳۷۰۷؛میزان الحکمہ،ج۲،ص۶۳۶،التوبة ،حدیث ۲۱۱۲۔

[7]خصال ج۲،ص۶۲۳،حدیث ۱۰؛بحار ،ج۶،ص۲۱،باب ۲۰،حدیث ۱۴۔

[8]عیون اخبارالرضاج۲،ص۲۹،باب۳۱،حدیث۳۳؛جامع الاخبارص۸۵،الفصل الحادی والاربعون فی معرفة الموٴمن؛ وسائل الشیعہ ج۱۶،ص۷۵،باب ۸۶،حدیث ۲۱۰۲۱۔

[9]عیون اخبار الرضا ج۲،ص۷۴،باب ۳۱،حدیث ۳۴۷؛وسائل الشیعہ ج۱۶،ص۷۵،باب ۸۶ ،حدیث ۲۱۰۲۲؛بحار، ج۶،ص۲۱،باب ۲۰،حدیث ۱۶۔

[10]معانی الاخبار ص۱۷۴،باب معنی التوبة النصوح ،حدیث ۳؛وسائل الشیعہ ج۱۶ ،ص۷۷،باب ۸۷،حدیث ۲۱۰۲۷؛ بحارالانوار ،ج۶،ص۲۲،باب ۲۰،حدیث۲۳۔

[11]کنزل العمال ص۱۰۱۶۵؛میزان الحکمہ،ج۲،ص۶۳۶،التوبہ ،حدیث ۲۱۲۳۔

[12]جامع الاخبار ،۸۷،الفصل الخامس والاربعون فی التوبة ،مستدرک الوسائل ج۱۲،ص۱۳۰،باب ۸۷،حدیث ۱۳۷۰۹۔

[13]غرر الحکم ص۱۹۴،حدیث ۳۷۷۷؛مستدرک الوسائل ج۱۲،ص۱۳۷،باب ۸۷،حدیث ۱۳۷۱۵۔

[14]ثواب الاعمال ص۱۷۹،ثواب التوبة؛بحارالانوارج۶،ص۲۸،باب۲۰،حدیث۳۲۔

[15]ثواب الاعمال ،۱۳۰،ثواب من اذنب ذنباًثم رجع و تاب؛وسائل الشیعہ ج۱۶ ،۷۴،باب ۸۶،حدیث۲۱۰۱۷۔

[16]جامع الاخبار ص۸۸،الفصل الخامس والاربعون فی التوبة ؛بحار الانوار ج۶،ص۳۵،باب۲۰،حدیث۵۲؛مستدرک الوسائل ج۱۲،ص۱۳۱،باب ۸۷،حدیث ۱۳۷۰۹۔قارئین کرام!  اس روایت میں جن چیزوں کے بدلنے کا حکم ھوا ھے ان سے وہ چیزیں مراد ھیں جو حرام طریقہ سے حاصل کی گئی ھوںیا حرام چیزوں سے متعلق ھوں۔

تبصرے
Loading...