توبة النصوح

 

انسان شرمندگی كے ساتھ استغفار كرے اور گناھوں كے ترك كرنے پر مستحكم ارادہ كرلے، اس طرح كہ انسان كے اندر پیدا ھونے والا انقلاب اعضاء و جوارح كو دوبارہ گناہ كرنے سے روكے ركھےكوئی بھی ماں نے اپنے بیٹے كو گناھگار پیدا نھیں كرتی، رحم مادر سے كوئی بچہ بھی عاصی اورخطاكار پیدا نھیں ھوتا ۔جب بچہ اس دنیا میں قدم ركھتا ھے تو علم و دانش اورفكر و نظر سے خالی ھوتا ھے، اور اپنے اطراف میں ھونے والے واقعات سے بالكل بے خبر رھتا ھے ۔جس وقت بچہ اس دنیاكی فضا میں آتا ھے تو رونے اور ماں كا دودھ پینے كے علاوہ اور كچھ نھیں جانتا، بلكہ شروع شروع میں اس سے بھی غافل ھوتا ھے ۔ لیكن آہستہ آہستہ اس میںاحساسات، خواہشیں اور شھوات پیدا ھونے لگتی ھیں، اپنے كارواں زندگی كو آگے بڑھانے كے لئے اپنے گھروالوںاور پھر باھر والوں سے سیكھتا جاتا ھے ۔اسی طرح اس كی زندگی كے دوران اس كے بدن میں مختلف بیماریاں پیدا ھونے لگتی ھیں، اس كی فكر و روح، نفس اور قلب میں خطائیں ھوجاتی ھیں، اسی طرح عمل و اخلاق كے میدان میں گناھوںكا مرتكب ھونے لگتا ھے، پس معلوم یہ ھوا كہ گناہ بدن پر طاری ھونے والی ایك بیماری كی طرح عارضی چیز ھے، ذاتی نھیں ۔

انسان كے بدن كی بیماری طبیب كے تجویز كئے ھوئے نسخہ پر عمل كرنے سے ختم ھوجاتی ھے، بالكل اسی طرح اس كی باطنی بیماری یعنی فكر و روح اور نفس كی بیماری كا علاج بھی خداوندمھربان كے احكام پر عمل كرنے سے كیا جاسكتا ھے ۔گناھگار جب خود كو پہچان لیتا ھے اور اپنے خالق كے بیان كردہ حلال و حرام كی معرفت حاصل كرلیتا ھے یقینااس روحانی طبیب كے نسخہ پر عمل كرتے ھوئے گناھوں سے توبہ كرنے پر آمادہ ھوجاتا ھے، اور خداوندمھربان كی ذات سے امید ركھتا ھے كہ وہ اس كو گناھوں كے دلدل سے باھرنكال دے گا اور پھر وہ اس طرح پاك ھوجاتا ھے جیسے شكم مادر سے ابھی پیدا ھواھو۔گناھگار یہ نھیں كہہ سكتا كہ میں توبہ كرنے كی طاقت نھیں ركھتا، كیونكہ جو شخص گناہ كرنے كی طاقت ركھتا ھے بے شك وہ توبہ كرنے كی طاقت بھی ركھتا ھے ۔

جی ھاں، انسان كھانے پینے، آنے جانے، كہنے سننے، شادی كرنے، كاروبار میں مشغول ھونے، ورزش كرنے، زندگی گذارنے اور زورآزمائی كے مظاھرے پر قدرت ركھتا ھے، وہ اپنی خاص بیماری كی وجہ سے ڈاكٹر كے كہنے پر بعض چیزوں سے پرھیز بھی كرسگتا ھے اور بیماری كے بڑھنے كے خوف سے جس طرح كچھ چیزیں نھیں كھاتا، اسی طرح جن گناھوں میں ملوث ھے ان سے بھی تو پرھیز كرسكتا ھے، اور جن نافرمانیوں میں مبتلا ھے اس سے بھی تو رك سكتا ھے ۔

خداوندعالم كی بارگاہ میں توبہ كی قدرت نہ ركھنے كا عذر و بھانہ كرنا قابل قبول نھیں ھے، اگر گناھگار توبہ كی قدرت نہ ركھتا ھوتا تو خداوندعالم كبھی بھی توبہ كی دعوت نہ دیتا ۔

گناھگار كو اس حقیقت پر یقین ركھنا چاہئے كہ وہ ھر موقع و محل پر تركِ گناہ پر قادرھے، اور قرآنی نقطہ نظر سے خداوندعالم كی ذات گرامی بھی تواب و رحیم ھے، وہ انسان كی توبہ قبول كرلیتا ھے، اور انسان كے تمام گناھوں كو اپنی رحمت و مغفرت كی بنا پر بخش دیتا ھے اگرچہ تمام ریگزاروں كے برابر ھی كیوں نہ ھوں، اور اس كے سیاہ نامہ اعمال كو اپنی مغفرت كی سفیدی سے مٹادیتا ھے ۔

گناھگار كو اس چیزكا علم ھونا چاہئے كہ اگر تركِ گناہ اور اپنے ظاھر و باطن كی پاكیزگی كے لئے قدم نہ اٹھائے اور گناہ و معصیت میں اضافہ كرتا رھے، تو پھر خداوندعالم بھی اس كو دردناك عذاب میں گرفتار كردیتا ھے اور سخت سے سخت عقوبت اس كے لئے مقرر فرماتاھے ۔

خداوندعالم نے قرآن مجید میں خود كو اس طرح سے پہچنوایا ھے:

((غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیدِ الْعِقَاب))۔ 2

“وہ گناھوں كا بخشنے والا، توبہ كا قبول كرنے والا اور شدید عذاب كرنے والا ھے “۔

امام معصوم علیہ السلام دعائے افتتاح میں خداوندعالم كی اس طرح حمد و ثنا فرماتے ھیں:

“وَاَیْقَنْتُ اَنَّكَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ فِی مَوْضِعِ الْعَفْوِوَالرَّحْمَةِ، وَاَشَدُّ المُعَاقِبِینَ فِی مَوْضِعِ النَّكالِ وَالنَّقِمَةِ”۔

“مجھے اس بات پر یقین ھے كہ تو رحمت و بخشش كے مقام میں سب سے زیادہ مھربان ھے، اور عذاب و عقاب كے مقام میں شدید ترین عذاب كرنے والاھے”۔

اسی طرح خداوندعالم نے قرآن مجید میں گناھگاروں سے خطاب فرمایا ھے:

((قُلْ یَاعِبَادِی الَّذِینَ اٴَسْرَفُوا عَلَی اٴَنْفُسِھم لاَتَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ))۔ 3

“(اے )پیغمبر آپ پیغام پہنچا دیجئے كہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنے نفس پر زیادتی كی ھے رحمت خدا سے مایوس نہ ھوں، اللہ تمام گناھوں كا

معاف كرنے والا ھے اور وہ یقینا بھت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ھے”۔

لہٰذا ایك طرف خداوندعالم كا تواب و غفور ھونا اور دوسری طرف سے گناھگار انسان كا گناھوں كے ترك كرنے پر قادر ھونا اس كے علاوہ قرآن مجید كی آیات كا گناھگار انسان كو خدا كی رحمت و مغفرت كی بشارت دیناان تمام باتوں كے باوجود ایك گناھگار كو اپنے گناھوں كے ترك كرنے میں كوئی عذر و بھانہ باقی نھیں رہنا چاہئے، اسی لئے گناھگار كے لئے توبہ كرنا عقلی اور اخلاقی لحاظ سے “واجب فوری”ھے ۔

اگر گناھگار توبہ كے لئے قدم نہ بڑھائے، اپنے گزشتہ كا جبران وتلافی نہ كرے اور اپنے ظاھر و باطن كو گناہ سے پاك نہ كرے، تو عقل و شرع، وجدان اور حكمت كی نظر میں اس دنیا میں بھی محكوم و مذموم ھے، اور آخرت میں بھی خداوندعالم كے نزدیك مستحق عذاب ھے ۔ ایسا شخص روز قیامت حسرت و یاس اور ندامت و پشیمانی كے ساتھ فریاد كرے گا:

(( ۔ ۔ ۔ لَوْ اٴَنَّ لِی كَرَّةً فَاٴَكُونَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ))۔ 4

“اگر مجھے دوبارہ واپس جانے كا موقع مل جائے تو میں نیك كردار لوگوں میں سے ھو جاوٴں “۔

اس وقت خداوندعالم جواب دے گا:

((بَلَی قَدْ جَائَتْكَ آیَاتِی فَكَذَّبْتَ بِھا وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنْتَ مِنْ الْكَافِرِینَ))۔ 5

“ھاں ھاں تیرے پاس میری آیت یں آئی تھیں تو نے انھیں جھٹلا دیا اور تكبر سے كام لیا اور كافروں میں سے ھو گیا”۔

روز قیامت گناھگار شخص كی نجات كے لئے دین و عمل كے بدلے میں كوئی چیز قبول نہ ھوگی، اور اس كی پیشانی پر سزا كی مھر لگادی جائے گی:

((وَلَوْ اٴَنَّ لِلَّذِینَ ظَلَمُوا مَا فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا وَمِثْلَہُ مَعَہُ لاَفْتَدَوْا بِہِ مِنْ سُوءِ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَبَدَا لَھم مِنْ اللهِ مَا لَمْ یَكُونُوا یَحْتَسِبُونَ))6

“اور اگر ظلم كرنے والوں كو زمین كی تمام كائنات مل جائے اور اتنا ھی اور بھی دیدیا جائے تو بھی یہ روز قیامت كے بدترین عذاب كے بدلے میں سب دیدیں گے، لیكن ان كے لئے خدا كی طرف سے وہ سب بھر حال ظاھر ھوگا جس كا یہ وھم و گمان بھی نھیں ركھتے تھے”۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام دعائے كمیل میں فرماتے ھیں :

خدا كی بارگاہ میں گناھگار كے توبہ نہ كرنے میں كوئی عذر قبول نھیں كیا جائے گا، كیونكہ خدا نے گناھگار پر اپنی حجت تمام كردی ھے:

” فَلَكَ الحُجةُ عَلَيَّ في جَمیعِ ذٰلِكَ، وَلاٰحُجَّةَ لِي فِی مٰاجَریٰ عَلَيَّ فیہِ قَضٰاوُٴكَ”۔

“تمام معاملات میں میرے اوپر تیری حجت تمام ھوگئی ھے اور اسے پورا كرنے میں تیری حجت باقی نھیں رھی “۔

بندوں پر خدا كی حجت كے سلسلے میں ایك اھم روایت

“عبد الاعلیٰ مولیٰ آل سام كھتے ھیں : میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سنا كہ آپ نے فرمایا: روز قیامت ایك حسین و جمیل عورت كو لایا جائے گا جس نے دنیا میں اپنے حسن و جمال كی وجہ سے گناہ ومعصیت كو اپنا شعار بنایا تھا، وہ اپنی بے گناھی ثابت كرنے كے لئے كھے گی: پالنے والے! تو نے مجھے خوبصورت پیدا كیا، لہٰذا میں اپنے حسن و جمال كی بنا پر گناھوں كی مرتكب ھوگئی، اس وقت جناب مریم (سلام اللہ علیھا) كو لایا جائے گا، اور كھا جائے گا: تو زیادہ خوبصورت ھے یا یہ باعظمت خاتون؟ ھم نے اس كو بھت زیادہ خوبصورت خلق فرمایا، لیكن پھر بھی انھوں نے اپنے كو محفوظ ركھا، برائیوں سے دور رھیں ۔

اس كے بعد ایك خوبصورت مرد كو لایا جائے گاوہ بھی اپنی خوبصورتی كی بنا پر گناھوں میں غرق رھا، وہ بھی كھے گا: پالنے والے ! تو نے مجھے خوبصورت پیدا كیا، جس كی بنا پر میں نامحرم عورتوں كے ساتھ گناھوں میں ملوث رھا ۔ اس وقت جناب یوسف (علیہ السلام) كو لایا جائے گا، اور كھا جائے گا: تو زیادہ خوبصورت ھے یا یہ عظیم الشان انسان، ھم نے انھیں بھی بھت خوبصورت پیدا كیا لیكن انھوں نے بھی اپنے آپ كو گناھوں سے محفوظ ركھااور فتنہ و فساد میں غرق نہ ھوئے ۔

اس كے بعد ایك ایسے شخص كو لایا جائے گا، جو بلاء اور مصیبتوں میںگرفتار رہ چكا تھا اور اسی وجہ سے اس نے اپنے كو گناھوں میں غرق كرلیا تھا، وہ بھی عرض كرے گا: پالنے والے! چونكہ تونے مجھے مصیبتوں اور بلاؤں میں گرفتار كردیا تھا جس سے میرا حوصلہ اور استقامت جاتی رھی اور میں گناھوں میں غرق ھوگیا، اس وقت جناب ایوب (علیہ السلام) كو لایا جائے گااور كھا جائے گا: تمھاری مصیبتیں زیادہ ھیں یا اس عظیم انسان كی، یہ بھی مصیبتوں میں گھرے رھے، لیكن انھوں اپنے آپ كو محفوظ ركھا اور فتنہ وفساد كے گڑھے میں نہ گرے” 7

توبہ، آدم و حوا كی میراث

جناب آدم علیہ السلام روئے زمین پر خداوندعالم كے خلیفہ اور اس كے نائب كے عنوان سے پیداكئے گئے، اور پتلہ بنانے كے بعد اللہ نے اس میں اپنی روح كو پھونكی 8 اور ان كو “اسماء” كا علم دیا، فرشتوں نے ان كی عظمت و كرامت كے سامنے حكم خدا كے سے سجدہ كیا، اس وقت خدا كے حكم سے وہ اور جناب حوّابہشت میں رہنے لگے 9 بہشت كی تمام نعمتیں ان كے اختیار میں دیدیں گئی، اور انھیں تمام نعمتوں سے فیضیاب ھونے كے لئے كوئی ركاوٹ نھیں تھی، مگر دونوں سے یہ كھا گیا كہ فلاں درخت كے نزدیك نہ ھونا، كیونكہ اس كے نزدیك ھونے كی صورت میں تم ظالمین اور ستمگاروں میں سے ھوجاؤگے ۔ 10

وہ شیطان جس نے جناب آدم كو سجدہ نہ كرنے میں حكم خدا كی مخالفت كی اور خدا كی بارگاہ سے نكال دیا گیا، اسے خدا كی لعنت تكلیف دی رھی تھی، اس كا غرور و تكبر اس بات كی اجازت نھیں دیتا تھا كہ خدا كی بارگاہ میں توبہ كرلے، كینہ اور حسد كی وجہ سے جناب آدم و حوا علیھماالسلام سے دشمنی نكالنے كی فكر میں لگ گیا تاكہ ان كا چھپا ھوا بدن ظاھر ھوجائے، اور اس كی اطاعت كرتے ھوئے اپنی عظمت و كرامت سے ھاتھ دھو بیٹھیں، اور بہشت عنبر سے باھر نكال دئے جائیں نیز خدا كے لطف و كرم سے منھ موڑلیں ۔

چنانچہ ان جملوں كے ذریعہ اس درخت كا پھل كھلانے كے لئے انھیں وسوسہ میں ڈال دیا:

“اے آدم و حوا ! خداوندعالم نے اس درخت كا پھل كھانے سے اس لئے منع كیا ھے كہ اگر تم اس كا پھل كھالوگے تو فرشتے بن جاؤگے یا اس ھرے بھرے باغ میں ھمیشہ ھمیشہ كے لئے رہ جاؤگے”۔

اپنے وسوسہ كو ان دونوں كے دلوں میں ثابت و مستحكم كرنے كے لئے اس نے (جھوٹی) قسم كھائی كہ میں تمھارا خیرخواہ ھوں ۔ 11 شیطان كا حسین وسوسہ اور اس كی قسم نے دونوں حضرات كے حرص كو شعلہ ور كردیا، ان دونوں كا حرص خداوندعالم كی نھی كے درمیان حجاب بن گیا شیطان ان دونوں كو دھوكہ دینے میں كامیاب ھوگیا، او ر یہ خدا كی نافرمانی میں مبتلا ھوگئے ۔ اس درخت كا پھل كھالیا، ان كا بدن ظاھر ھوگیا، وقار و ھیبت اور نور و كرامت كا لباس اترگیا، اپنے بدن كو بہشت كے درخت كے پتوں سے چھپانا شروع كیا، اس وقت خداوندعالم نے خطاب فرمایا كہ كیا ھم نے تمھیں اس درخت كے قریب جانے سے منع نھیں كیا تھا اور اعلان نہ كیا تھا كہ شیطان تمھارا كُھلا دشمن ھے؟! 12

جناب آدم و حوا بہشت سے نكال دئے گئے، مقام خلافت و علم اور مسجود ملائكہ ھونے سے كوئی كام نہ چلا، اور جو عظمت ان كو دی گئی تھی اس سے ھبوط كرگئے، اور زندگی كے لئے زمین پر بھیج دئے گئے ۔

مقام قرب سے دوری، فرشتوں كی ھم نشینی سے محرومی، بہشت سے خروج، نھی خدا پر بے توجھی اور شیطان كی اطاعت كی وجہ سے دونوں غم و اندوہ اور حسرت میں غرق ھوگئے، خود پسندی كے خوفناك اور محدود زندان میں پہنچ گئے، كیونكہ اسی خود پسندی اور خود بینی كی وجہ سے رحمت و عنایت اور لطف و كرم سے محروم ھوچكے تھے، اورغیر اللہ كے جال میں پھنس گئے تھے، اور ایمان، عشق اور بیداری كی فضا میں وارد ھوگئے، جھاں سے دنیاوی فائدے اور آخرت كے لئے بے نھایت فوائد انسان كو ملنے والے ھیں ۔

جب آدم و حوّا (علیھما السلام) اس طرح اپنے آپ میں آئے تو فریاد كی كہ ھم انانیت اور غفلت كے سبب فراق یار كے زندان گرفتار ھوگئے ھیں، خودخواھی اور حرص و غرور كے اندھیرے میں غرق ھوگئے اور (( ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا)) سے دچار ھوگئے ۔

اپنی حالت پر متوجہ ھونے، حرّیت و آزادی كے میدان میںوارد ھونے، شیطان كے جال سے نجات پانے، خداوندعالم كی طرف متوجہ ھونے اور بارگاہ خداوندی میں تواضع و انكساری سے پیش آنے كا سبب ھے، كہ اگر شیطان بھی اسی طریقہ سے اپنی حالت پر توجہ كرتا تو خداوندعالم كی بارگاہ سے مردود نہ ھوتا اوراس كے گلے میں ھمیشہ كے لئے لعنت كا طوق نہ ڈالا جاتا ۔ جناب آدم و حوا علیھماالسلام غور و فكر او راندیشہ، تعقل، توجہ، بینائی اور بیداری كی معنوی اور قیمتی فضاء میں وارد ھوئے، ندامت و پشیمانی اور اشك چشم كے ساتھ اس طرح ادب اور خاكساری دكھائی كہ یہ نھیں كھا كہ: “اِغْفِرْ لَنَا”، بلكہ خدا كی بارگاہ میں عرض كیا: ((وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا))اگر ھمیں نھیں بخشے گا اور ھم پر رحم نہ كرے گا (( لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ۔ )) 13تو ھم خسارہ اٹھانے والوں میں ھوجائیں گے ۔

اس توجہ، بیداری، تواضع و انكساری، ندامت و پشیمانی، گریہ و توبہ اور خودی سے نكل كر خدائی بن جانے كی بنا پر ھی رحمت خدا كے دروازے كھل گئے، خدائے مھربان كا لطف و كرم شامل حال ھوا اور خدا كی عنایت و توجہ نے بڑھ كر استقبال كیا:

((فَتَلَقَّی آدَمُ مِنْ رَبِّہِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ إِنَّہُ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیم)) 14

“پھر آدم نے پروردگار سے كلمات كی تعلیم حاصل كی اور ان كی بر كت سے خدانے ان كی توبہ قبول كر لی كہ وہ توبہ قبول كرنے والا اور مھربان ھے “۔

نور ربوبیت نے كلمات میں تجلی كی اور جناب آدم كی روح نے درك كیا، اس تینوں حقیقت یعنی نور ربوبی كی تجلی، كلمات اور روح آدم كی ھم آہنگی كے سبب ھی توبہ وجود میں آئی، وہ توبہ جس نے ماضی كا تدارك كردیا، اور توبہ كرنے والوں كے مستقبل كو روشن اور تابناك بنادیا ۔

حضرت امام باقر علیہ السلام سے روایت ھے كہ جن كلمات كے ذریعہ جناب آدم علیہ السلام كی توبہ قبول ھوئی وہ كلمات یہ تھے:

“اَللّٰھُمَّ، لا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ، سُبْحانَكَ وَ بِحَمْدِكَ، رَبِّ اِنّی ظَلَمْتُ نَفْسی، فَاغْفِرْلِی، اِنَّكَ خَیْرُ الْغٰافِرِینَ ۔ اَللّٰھُمَّ، لا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ، سُبْحانَكَ وَ بِحَمْدِكَ، رَبِّ اِنّی ظَلَمْتُ نَفْسی، فَارْحَمْنی اِنَّكَ خَیْرُالرّاحِمینَ ۔ اَللّٰھُمَّ، لا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ، سُبْحانَكَ وَ بِحَمْدِكَ، رَبِّ اِنّی ظَلَمْتُ نَفْسی فَتُبْ عَلَیَّ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوّابُ الرَّحیمُ”۔ 15

“پالنے والے! تو پاك و پاكیزہ ھے میں تیری حمد كرتا ھو ںتیرے علاوہ كوئی خدا نھیں ھے، پالنے والے میں نے اپنے نفس پر ظلم كیا، لہٰذا مجھے معاف كردے، كیونكہ تو بھترین معاف كرنے والا ھے، تیرے علاوہ كوئی خدا نھیں ھے، تو پاك و پاكیزہ ھے، میں تیری حمد كرتا ھو ں، پالنے والے ! میں نے اپنے نفس پر ظلم كیا تو میرے اوپر رحم فرما كہ تو بھترین رحم كرنے والا ھے، پالنے والے! تیرے علاوہ كوئی خدا نھیں ھے، تو پاك و پاكیزہ ھے میں تیری حمد كرتا ھو ں، میں نے اپنے نفس پر ظلم كیا، تو میری توبہ كو قبول كرے كیونكہ تو بھت زیادہ توبہ قبول كرنے والا اور مھربان ھے”۔

اس سلسلے میں یہ روایت بھی ملتی ھے : جناب آدم (علیہ السلام )نے عرش الٰھی پر چند عظیم الشان اسماء لكھے دیكھے، تو انھوں نے ان كے بارے میں سوال كیا تو آواز آئی: یہ كلمات مقام و منزلت كے اعتبار سے تمام موجودات عالم پر فضیلت ركھتے ھیں: اور وہ ھیں:

محمد، علی، فاطمہ، حسن و حسین (علیھم السلام)، جناب آدم نے اپنی توبہ كے قبول ھونے اور اپنے مقام كی بلندی كے لئے ان اسماء گرامی كی حقیقت سے توسل كیا اور ان اسماء كی بركت سے جناب آدم (علیہ السلام) كی توبہ قبول ھوگئی۔ 16

جی ھاں! جیسے ھی كلمات كی تجلیات كے لئے خداوندعالم كے الھامات كی بارش جناب آدم كے دانہٴ عشق و محبت پربرسی، تو اپنے نفس پر ظلم كے اقرار و اعتراف كا پودا اُگ آیا، جناب آدم نے دعا و گریہ اور استغاثہ كیا، احساس گناہ كا درخت ان كی روح میں تناور ھوگیا اور اس پر توبہ كا پھول كھل اٹھا:

((ثُمَّ اجْتَبَاہُ رَبُّہُ فَتَابَ عَلَیْہِ وَہَدَی))۔ 17

“پھر خدا نے انھیں چن لیااوران كی توبہ قبول كرلی اور انھیں راستہ پرلگادیا”۔

كیا كیا چیزیں گناہ ھیں ؟

حضرت امام صادق علیہ السلام “توبہ نامہ “كے عنوان سے بھترین و خوبصورت كلام بیان فرماتے ھیں، جس میں ان گناھوں كی طرف بھی اشارہ كیا گیا ھے كہ جن سے توبہ كرناواجب فوری، واجب شرعی اور واجب اخلاقی ھے، اور اگر ان گناھوں كا تدارك نہ كیا گیا اور حقیقی توبہ كے ذریعہ اپنے نامہ اعمال كو دھویانہ گیا تو روز قیامت عذاب الٰھی اور دردناك انجام سے دوچار ھونا پڑے گا، امام علیہ السلام گناھوں كو اس طرح بیان كرتے ھیں:

“واجبات الٰھی كا ترك كرنا، حقوق الٰھی جیسے نماز، روزہ، زكوٰة، جھاد، حج، عمرہ، وضوء، غسل، عبادت شب، كثرت ذكر، كفارہ قسم، مصیبت میں كلمہ استرجاع كہنا، (انا لله و انا الیہ راجعون) وغیرہ سے غفلت كرنا، اور اپنے واجب و مستحب اعمال میں كوتاھی ھونے كے بعد ان سے روگردانی كرنا ۔

گناھان كبیرہ كا مرتكب ھونا، معصیت الٰھی كی طرف رغبت ركھنا، گناھوں كا انجام دینا، بری چیزوں كو اپنانا، شھوات میں غرق ھونا، كسی خطا كو اپنے ذمہ لینا، غرض یہ كہ عمدی یا غلطی كی بنا پر ظاھری اور مخفی طور پر معصیت خدا كرنا ۔

كسی كا ناحق خون بھانا، والدین كا عاق ھونا، قطع رحم كرنا، میدان جنگ سے فرار كرنا، باعفت شخص پر تھمت لگانا، ناجائز طریقہ سے یتیم كا مال كھانا، جھوٹی گواھی دینا، حق كی گواھی سے كترانا، دین فروشی، ربا خوری، خیانت، مال حرام، جادو، ٹوٹا، غیب كی باتیں گڑھنا، نظر بد ڈالنا، شرك، ریا، چوری، شراب خوری، كم تولنا اور كم ناپنا، ناپن تول میں خیانت كرنا، كینہ و دشمنی، منافقت، عہد و پیمان توڑدینا، خوامخواہ الزام لگانا، فریب اور دھوكہ دینا، اھل ذمہ سے كیا ھوا عہدو پیمان توڑنا، قسم، غیبت كرنایا سننا، چغلی كرنا، تھمت لگانا، دوسروں كی عیب تلاش كرنا، دوسروں كو بُرا بھلا كہنا، دوسروں كو بُرے ناموںسے پكارنا، پڑوسی كو اذیت پہچانا، دوسروں كے گھروں میں بغیر اجازت كے داخل ھونا، اپنے اوپر بلا وجہ فخر و مباھات كرنا، گناھوں پر اصرار كرنا، ظالموں كا ھمنوا بننا، تكبر كرنا غرور سے چلنا، حكم دینے میں ستم كرنا، غصہ كے عالم میں ظلم كرنا، كینہ و حسد ركھنا، ظالموںكی مدد كرنا، دشمنی اور گناہ میں مدد كرنا، اھل و عیال اور مال كی تعداد میں كمی كرنا، لوگوں سے بدگمانی كرنا، ھوائے نفس كی اطاعت كرنا، شھوت پرستی، برائیوں كا حكم دینا، نیكیوں سے روكنا، زمین پر فتنہ و فساد پھیلانا، حق كا انكار كرنا، ناحق كاموں میں ستمگروں سے مدد لینا، دھوكا دینا، كنجوسی كرنا، نہ جاننے والی چیز كے بارے میں گفتگو كرنا، خون اور یا سور كا گوشت كھانا، مردار یا غیر ذبیحہ جانور كا گوشت كھانا، حسد كرنا، كسی پر تجاوز كرنا، بری چیزوں كی دعوت دینا، خدا كی نعمتوں پر مغرور ھونا، خودغرضی دكھانا، احسان جتانا، قرآن كا انكار كرنا، یتیم كو ذلیل كرنا، سائل كو دھتكارنا، قسم توڑنا، جھوٹی قسم كھانا، دوسروں كی ناموس اور مال پر ھاتھ ڈالنا، برا دیكھنا، برا سننا اور برا كہنا، كسی كو بری نظر سے چھونا، دل میں بُری بُری باتیں سوچنااور جھوٹی قسم كھانا”۔ 18

واجب چیزوں كو ترك كرنا اور حرام چیزوں كا مرتكب ھونا، حضرت امام صادق علیہ السلام كے اس ملكوتی كلام میں یہ سب باتیں گناہ كے عنوان سے بیان ھوئی ھيں جن سے توبہ كرنا “واجب فوری” ھے ۔

گناھوں كے برے آثار

قرآن مجید كی آیات اور اھل بیت علیھم السلام كی تعلیمات كے پیش نظر دنیا و آخرت میں گناھوںكے برُے آثارنمایاں ھوتے ھیں كہ اگر گناھگار اپنے گناھوں سے توبہ نہ كرے تو بے شك ان كے برے آثار میں گرفتار ھوجاتا ھے ۔

((بَلَی مَنْ كَسَبَ سَیِّئَةً وَاٴَحَاطَتْ بِہِ خَطِیئَتُہُ فَاٴُوْلَئِكَ اٴَصْحَابُ النَّارِ ھم فِیھا خَالِدُونَ))۔ 19

“یقینا جس نے كوئی برائی كی اور اس كی غلطی نے اسے گھیر لیا، تو ایسے لوگوں كے لئے جہنم ھے اور وہ اس میں ھمیشہ رہنے والے ھیں “۔

((قُلْ ھل نُنَبِّئُكُمْ بِالْاٴَخْسَرِینَ اٴَعْمَالًا ۔ الَّذِینَ ضَلَّ سَعْیُھم فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَھم یَحْسَبُونَ اٴَنَّھم یُحْسِنُونَ صُنْعًا ۔ اٴُولَئِكَ الَّذِینَ كَفَرُوا بِآیَاتِ رَبِّھم وَلِقَائِہِ فَحَبِطَتْ اٴَعْمَالُھم فَلاَنُقِیمُ لَھم یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَزْنًا))۔ 20

“اے پیغمبر كیا ھم تمھیں ان لوگوں كے بارے میں اطلا ع دیں جو اپنے اعمال میں بدترین خسارہ میں ھیں یہ وہ لوگ ھیں جن كی كوشش زندگانی ٴ دنیا میں بہك گئی ھے اور یہ خیال كرتے ھیں كہ یہ اچھے اعمال انجا م دیں رھے رھیں، یھی وہ لوگ ھیںجنھوں نے آیات پروردگار اور اس كی ملاقات كا انكار كیا، ان كے اعمال برباد ھو گئے ھیں اور ھم قیامت كے دن ان كے لئے كوئی وزن قائم نھیں كریں گے “۔

((فِی قُلُوبِھم مَرَضٌ فَزَادَھم اللهُ مَرَضًا وَلَھم عَذَابٌ اٴَلِیمٌ۔ ۔ ۔ ))۔ 21

“ان كے دلوں میں بیماری ھے اور خدا نے نفاق كی بنا پر اسے اور بھی بڑھا دیا ھے، اب اس جھوٹ كے نتیجہ میں دردناك عذاب ملے گا ۔ ۔ ۔ “۔

((فَتَرَی الَّذِینَ فِی قُلُوبِھم مَرَضٌ یُسَارِعُونَ فِیھم۔ ۔ ۔ ))۔ 22

“اے پیغمبر آپ دیكھیں گے كہ جن كے دلوں میں نفاق كی بیماری ھے وہ دوڑ دوڑ كر ان كی طرف جا رھے ھیں”۔

((وَاٴَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِھم مَرَضٌ فَزَادَتْھم رِجْسًا إِلَی رِجْسِھم۔ ۔ ۔ ))۔ 23

“اور جن كے دلوں میں مرض ھے ان كے مرض میں مزید اضافہ ھوجاتا ھے اور وہ كفر ھی كی حالت میں مر جاتے ھیں”۔

((إِنَّ الَّذِینَ یَاٴْكُلُونَ اٴَمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْمًا إِنَّمَا یَاٴْكُلُونَ فِی بُطُونِھم نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیرًا))۔ 24

“جو لوگ یتیموں كا مال ناحق كھا جاتے ھیں وہ در حقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھر رھے ھیں اور وہ عنقریب واصل جہنم ھوں گے “۔

مذكورہ آیہ اور اس سے ملتی جلتی آیتوں كی بناپر بعض محققین كا عقیدہ ھے كہ روز قیامت گناھگاروں كو ملنے والا عذاب یھی اس كے گناہ ھوں گے، یعنی یھی انسان كے گناہ ھوں گے جو روز قیامت دردناك عذاب كی شكل میں ظاھر ھوں گے، اور گناھگار كو ھمیشہ كے لئے اپنا اسیر بناكر عذاب میں مبتلا ركھيںگے ۔

((إِنَّ الَّذِینَ یَكْتُمُونَ مَا اٴَنزَلَ اللهُ مِنْ الْكِتَابِ وَیَشْتَرُونَ بِہِ ثَمَنًا قَلِیلًا اٴُوْلَئِكَ مَا یَاٴْكُلُونَ فِی بُطُونِھم إِلاَّ النَّارَ وَلاَیُكَلِّمُھم اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلاَیُزَكِّیھم وَلَھم عَذَابٌ اٴَلِیمٌ۔ اٴُوْلَئِكَ الَّذِینَ اشْتَرَوْا الضَّلاَلَةَ بِالْہُدَی وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ فَمَا اٴَصْبَرَھم عَلَی النَّارِ))۔ 25

“جو لوگ خدا كی نازل كی ھوئی كتاب كے احكام كو چھپاتے ھیںاور اسے تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ھیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں صرف آگ بھر رھے ھیں اور خدا، روز قیامت ان سے بات بھی نہ كرے گا اور نہ ان كا تذكیہ كرے گا (بلكہ) ان كے لئے دردناك عذاب قرار دے گا ۔ یھی وہ لوگ ھیں جنھوں نے گمراھی كو ہدایت كے عوض اور عذاب كو مغفرت كے عوض خرید لیا ھے، آخر یہ آتش جہنم پر كتنا صبر كریں گے “۔

(( مَثَلُ الَّذِینَ كَفَرُوا بِرَبِّھم اٴَعْمَالُھم كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّیحُ فِی یَوْمٍ عَاصِفٍ لاَیَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَی شَیْءٍ ذَلِكَ ہُوَ الضَّلَالُ الْبَعِیدُ))۔ 26

“جن لوگوں نے اپنے پروردگار كا انكار كیا ان كے اعمال كی مثال اس راكھ كی مانند ھے جسے آندھی كے دن كی تند ھوا اڑا لے جائے كہ وہ اپنے حاصل كئے ھوئے پر بھی كوئی اختیار نھیں ركھتے اور یھی بھت دور تك پھیلی ھوئی گمراھی ھے”۔

لہٰذا اس طرح كی آیات سے نتیجہ نكلتا ھے كہ گناھوں كے بُرے آثار اس سے كھیں زیادہ ھیں، مثلاً:

آتش جہنم میں جلنا، عذاب كا ابدی ھونا، دنیا و آخرت میںنقصان اور خسارہ میں رہنا، انسان كی ساری زحمتوں پر پانی پھرجانا، روز قیامت (نیك) اعمال كا حبط (یعنی ختم) ھوجانا، روز قیامت اعمال كی میزان قائم نہ ھونا، توبہ نہ كرنے كی وجہ سے گناھوں میں اضافہ ھونا، دشمنان خدا كی طرف دوڑنا، انسان سے خدا كا تعلق ختم ھوجانا، قیامت میں تزكیہ نہ ھونا، ہدایت كا گمراھی سے بدل جانا، مغفرت الٰھی كے بدلہ عذاب الٰھی كا مقرر ھونا ۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ایك تفصیلی روایت میں گناھوں كے برے آثار كے بارے میں اس طرح ارشاد فرماتے ھیں:

جن گناھوں كے ذریعہ نعمتیں تبدیل ھوجاتی ھیں:

عوام الناس پرظلم و ستم كرنا، كار خیر كی عادت چھوڑ دینا، نیك كام كرنے سے دوری كرنا، كفران نعمت كرنا اور شكر الٰھی چھوڑ دینا ۔

جو گناہ ندامت اور پشیمانی كے باعث ھوتے ھیں:

قتل نفس، قطع رحم، وقت ختم ھونے تك نماز میں تاخیر كرنا، وصیت نہ كرنا، لوگوں كے حقوق ادا نہ كرنا، زكوٰة ادانہ كرنا، یھاں تك كہ اس كی موت كا پیغام آجائے اور اس كی زبان بند ھوجائے 

جن گناھوں كے ذریعہ نعمتیں زائل ھوجاتی ھیں:

جان بوجھ كر ستم كرنا، لوگوں پر ظلم و تجاوز كرنا، لوگوں كا مذاق اڑانا، دوسرے لوگوں كو ذلیل كرنا ۔

جن گناھوں كے ذریعہ انسان تك نعمتیں نھیں پہنچتیں:

اپنی محتاجگی كا اظھار كرنا، نماز پڑھے بغیر رات كے ایك تھائی حصہ میں سونا یھاں تك كہ نماز كا وقت نكل جائے، صبح میں نماز قضا ھونے تك سونا، خدا كی نعمتوں كو حقیر سمجھنا، خداوندعالم سے شكایت كرنا ۔

جن گناھوں كے ذریعہ پردہ اٹھ جاتا ھے:

شراب پینا، جوا كھیلنا یا سٹہ لگانا، مسخرہ كرنا، بیھودہ كام كرنا، مذاق اڑانا، لوگوں كے عیوب بیان كرنا، شراب پینے والوں كی صحبت میںبیٹھنا ۔

جو گناہ نزول بلاء كا سبب بنتے ھیں:

غم زدہ لوگوں كی فریاد رسی نہ كرنا، مظلوموں كی مدد نہ كرنا، امر بالمعروف اور نھی عن المنكر جیسے الٰھی فریضہ كا ترك كرنا ۔

جن گناھوں كے ذریعہ دشمن غالب آجاتے ھیں:

كھلے عام ظلم كرنا، اپنے گناھوں كو بیان كرنا، حرام چیزوں كو مباح سمجھنا، نیك و صالح لوگوں كی نافرمانی كرنا، بدكاروں كی اطاعت كرنا ۔

جن گناھوں كے ذریعہ عمر گھٹ جاتی ھے:

قطع تعلق كرنا، جھوٹی قسم كھانا، جھوٹی باتیں بنانا، زناكرنا، مسلمانوں كا راستہ بند كرنا، ناحق امامت كا دعویٰ كرنا ۔

جن گناھوں كے ذریعہ امیدٹوٹ جاتی ھے:

رحمت خدا سے ناامیدھونا، لطف خدا سے زیادہ مایوس ھونا، غیر حق پر بھروسہ كرنا اور خداوندعالم كے وعدوں كو جھٹلانا ۔

جن گناھوں كے ذریعہ انسان كا ضمیر تاریك ھوجاتا ھے:

سحر و جادو اور غیب كی باتیں كرنا، ستاروں كو موثر ماننا، قضا و قدر كو جھٹلانا، عقوق والدین ھونا ۔

جن گناھوں كے ذریعہ (احترام كا) پردہ اٹھ جاتا ھے:

واپس نہ دینے كی نیت سے قرض لینا، فضول خرچی كرنا، اھل و عیال اور رشتہ داروں پر خرچ كرنے میں بخل كرنا، بُرے اخلاق سے پیش آنا، بے صبری كرنا، بے حوصلہ ھونا، اپنے كو كاھل جیسا بنانااوراھل دین كو حقیر سمجھنا ۔

جن گناھوں كے ذریعہ دعا قبول نھیں ھوتی:

بری نیت ركھنا، باطن میں برا ھونا، دینی بھائیوں سے منافقت كرنا، دعا قبول ھونے كا یقین نہ ركھنا، نماز میں تاخیر كرنا یھاں تك كہ اس كا وقت ختم ھوجائے، كار خیر اور صدقہ كو ترك كركے تقرب الٰھی كو ترك كرنا اور گفتگو كے دوران نازیبا الفاظ استعمال كرنا اور گالی گلوچ دینا ۔

جو گناہ باران رحمت سے محرومی سبب بنتے ھیں:

قاضی كاناحق فیصلہ كرنا، ناحق گواھی دینا، گواھی چھپانا، زكوٰة اور قرض نہ دینا، فقیروں اور نیازمندوں كی نسبت سنگدل ھونا، یتیم اورضرورت مندوں پر ستم كرنا، سائل كو دھتكارنا، رات كی تاریكی میں كسی تھی دست اور نادار كو خالی ھاتھ لوٹانا ۔ 27

حضرت امیر المومنین علیہ السلام گناھوں كے سلسلے میں فرماتے ھیں:

“لَوْ لَمْ یَتَوَعَّدِ اللّٰہُ عَلٰی مَعْصِیَتِہِ لَكانَ یَجِبُ اٴن لا یُعْصیٰ شُكْراً لِنِعَمِہِ:”28

“اگر خداوندعالم نے اپنے بندوں كو اپنی مخالفت پر عذاب كا وعدہ نہ دیا ھوتا، تو بھی اس كی نعمت كے شكرانے كے لئے واجب تھا كہ اس كی معصیت نہ كی جائے”۔

قارئین كرام خداوندعالم كی بے شمار نعمتوں كے شكركی بنا پر ھمیں چاہئے كہ ھر طرح كی معصیت اور گناہ سے پرھیز كریں اور اپنے بُرے ماضی كی بدلنے كے لئے خداوندعالم كی بارگاہ میں توبہ و استغفار كریں كیونكہ توبہ استغفار كی بنا پر خداوندعالم كی رحمت و مغفرت اور اس كا لطف و كرم انسان كے شامل حال ھوتا ھے ۔

حقیقی توبہ كا راستہ

توبہ(یعنی خداوندعالم كی رحمت و مغفرت اور اس كی رضا و خوشنودی تك پہنچنا، جنت میں پھونچنے كی صلاحیت كا پیدا كرنا، عذاب جہنم سے امان ملنا، گمراھی كے راستہ سے نكل آنا، راہ ہدایت پر آجانا اور انسان كے نامہ اعمال كا ظلمت و سیاھی سے پاك و صاف ھوجانا ھے)؛اس كے اھم آثار كے پیش نظریہ كھا جاسكتا ھے كہ توبہ ایك عظیم مرحلہ ھے، توبہ ایك بزرگ پروگرام ھے، توبہ عجیب و غریب حقیقت ھے اور ایك روحانی اور آسمانی واقعیت ھے ۔

لہٰذا فقط “استغفر الله” كہنے، یا باطنی طور پر شرمندہ ھونے اور خلوت و بزم میں آنسو بھانے سے توبہ حاصل نھیں ھوتی، كیونكہ جولوگ اس طرح توبہ كرتے ھیں وہ كچھ اس مدت كے بعد دوبارہ گناھوں كی طرف پلٹ جاتے ھیں!

گناھوں كی طرف دوبارہ پلٹ جانا اس چیز كی بھترین دلیل ھے كہ حقیقی طور پر توبہ نھیں ھوئی اور انسان حقیقی طور پر خدا كی طرف نھیں پلٹا ھے ۔

حقیقی توبہ اس قدر اھم اور باعظمت ھے كہ قرآن كریم كی بھت سی آیات اور الٰھی تعلیمات اس سے مخصوص ھیں ۔

امام علی علیہ السلام كی نظر میں حقیقی توبہ

امام علی علیہ السلام نے اس شخص كے بارے میں فرمایا جس نے زبان پر “استغفر الله” جاری كیا تھا:

اے شخص ! تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے، كیا تو جانتا ھے كہ توبہ كیا ھے؟ یاد ركھ توبہ علّیین كا درجہ ھے، جو ان چھ چیزوں سے مل كر محقق ھوتا ھے:

۱۔ اپنے ماضی پر شرمندہ اور پشیمان ھونا ۔

2۔ دوبارہ گناہ نہ كرنے كا مستحكم ارادہ كرنا ۔

۳۔ لوگوں كے حقوق كاادا كرنا ۔

۴۔ ترك شدہ واجبات كو بجالانا ۔

۵۔ گناھوں كے ذریعہ پیدا ھونے والے گوشت كواس قدر پگھلادینا كہ ہڈیوں پر گوشت باقی نہ رہ جائے، اور حالت عبادت میں ہڈیوں پر گوشت پیدا ھو۔

۶۔ بدن كو اطاعت كی تكلیف میں مبتلا كرنا جس طرح گناہ كا مزہ چكھا ھے ۔

لہٰذا ان چھ مرحلوں سے گزرنے كے بعد “استغفر الله” كہنا ۔ 29

جی ھاں، توبہ كرنے والے كو اس طرح توبہ كرنا چاہئے، گناھوں كو ترك كرنے كا مصمم ارادہ كرلے، گناھوں كی طرف پلٹ جانے كا ارادہ ھمیشہ كے لئے اپنے دل سے نكال دے، دوسری، تیسری بار توبہ كی امید میں گناھوں كو انجام نہ دے، كیونكہ یہ امید بے شك ایك شیطانی امید اور مسخرہ كرنے والی حالت ھے، حضرت امام رضا علیہ السلام ایك روایت كے ضمن میں فرماتے ھیں:

“مَنِ اسْتَغْفَرَ بِلِسانِہِ وَلَمْ یَنْدَمْ بِقَلْبِہِ فَقَدِ اسْتَھْزَاٴ بِنَفْسِہِ۔ ۔ ۔ “30

“جو شخص زبان سے توبہ و استغفار كرے لیكن دل میں پشیمانی اور شرمندگی نہ ھو تو گویا اس نے خود كا مذاق اڑایاھے!”

واقعاً یہ ہنسی كا مقام اور افسوس كی جگہ ھے كہ انسان دوا او رعلاج كی امید میں خود كو مریض كرلے، واقعاً انسان كس قدر خسارہ ھے كہ وہ توبہ كی امید میں گناہ و معصیت كا مرتكب ھوجائے، اور خود كو یہ تلقین كرتا رھے كہ ھمیشہ توبہ كا دروازہ كُھلا ھوا ھے، لہٰذا اب گناہ كرلوں، لذت حاصل كرلوں !! بعد میں توبہ كرلوں گا!

اگر حقیقی طور پر توبہ كی جائے اور اگر تمام شرائط كے ساتھ توبہ ھوجائے، تو پھر انسان كی روح یقینا پاك ھوجاتی ھے نفس میں پاكیزگی اور دل میں صفا پیدا ھوجاتی ھے، اور انسان كے اعضاء و جوارح نیز ظاھر و باطن سے گناھوں كے آثار ختم ھوجاتے ھیں ۔

توبہ بار بار نھیں ھونا چاہئے كیونكہ گناہ ظلمت و تاریكی اور توبہ نور و روشنی كا نام ھے، اندھیرے اور روشنی میں زیادہ آمد و رفت سے روح كی آنكھیں خراب ھوجاتی ھیں ۔ اگر كوئی گناہ سے توبہ كرنے كے بعد دوبارہ پھر اسی گناہ سے ملوث ھوجائیں تو معلوم ھوتا ھے كہ توبہ ھی نھیں كی گئی ھے، (یا مكمل شرائط كے ساتھ توبہ نھیں ھوئی ھے ۔ )

انسانی نفس جہنم كے منھ كی طرح ھے جو كبھی بھرنے والا نھیں ھے، اسی طرح انسانی نفس گناھوں سے نھیں تھكتا، اس كے گناھوں میں كمی نھیں ھوتی، جس كی وجہ سے انسان خدا سے دور ھوتا چلا جاتا ھے لہٰذا اس تنوركے دروازہ كو توبہ كے ذریعہ بند كیا جائے اور اس عجیب و غریب غیر مرئی موجود كی سركشی كو حقیقی توبہ كے ذریعہ باندھ لیاجائے ۔

توبہ؛ انسانی حالت میں انقلاب اور دل و جان كے تغیر كا نام ھے، اس انقلاب كے ذریعہ انسان گناھوں كی طرف كم مائل ھوتا ھے اور خداوندعالم سے ایك مستحكم رابطہ پیدا كرلیتا ھے ۔

توبہ؛ ایك نئی زندگی كی ابتداء ھوتی ھے، معنوی اور ملكوتی زندگی جس میں قلب انسان تسلیم خدا، نفس انسان تسلیم حسنات ھوجاتا ھے اور ظاھر و باطن تمام گناھوں كی گندگی اور كثافتوں سے پاك ھوجاتا ھے ۔

توبہ؛ یعنی ھوائے نفس كے چراغ كو گُل كرنا اور خدا كی مرضی كے مطابق اپنے قدم اٹھانا ۔

توبہ؛ یعنی اپنے اندر كے شیطان كی حكومت كو ختم كرنا اور اپنے نفس پر خداوندعالم كی حكومت كا راستہ ھموار كرنا ۔

ھر گناہ كے لئے مخصوص توبہ

بعض لوگوں كا خیال ھے كہ اگر خدا كی بارگاہ میں اپنے مختلف گناھوں كے سلسلہ میں استغفار كرلیا جائے اور “استغفرالله ربی و اتوب الیہ” زبان پر جاری كرلیاجائے، یا مسجد اور ائمہ معصومین علیھم السلام كے روضوں میں ایك زیارت پڑھ لی جائے یا چند آنسو بھالئے جائیں تو اس كے ذریعہ توبہ ھوجائے گی، جبكہ آیات وروایات كی نظر میں اس طرح كی توبہ مقبول نھیں ھے، اس طرح كے افراد كو توجہ كرنا چاہئے كہ ھر گناہ كے اعتبار سے توبہ بھی مختلف ھوتی ھے، ھر گناہ كے لئے ایك خاص توبہ مقرر ھے كہ اگر انسان اس طرح توبہ نہ كرے تو اس كا نامہ اعمال گناہ سے پاك نھیں ھوگا، اور اس كے بُرے آثار قیامت تك اس كی گردن پر باقی رھیں گے، اور روز قیامت اس كی سزا بھگتنا پڑے گی۔

اور ان تمام گناھوں كو تین حصوں میں تقسیم كیا جاسكتا ھے:

۱۔ عبادت اور واجبات كو ترك كرنے كی صورت میں ھونے والے گناہ، جیسے نماز، روزہ، زكوٰة، خمس اور جھاد وغیرہ كو ترك كرنا ۔

۲۔ خداوند عالم كے احكام كی مخالفت كرتے ھوئے گناہ كرناجن میں حقوق الناس كا كوئی دخل نہ ھو، جیسے شراب پینا، نامحرم عورتوں كو دیكھنا، زنا، لواط، استمناء، جُوا، حرام میوزیك سننا وغیرہ 

۳۔ وہ گناہ جن میں فرمان خدا كی نافرمانی كے علاوہ لوگوں كے حقوق كو بھی ضایع كیا گیا ھو، جیسے قتل، چوری، سود، غصب، مالِ یتیم ناحق طور پر كھانا، رشوت لینا، دوسروں كے بدن پر زخم لگانا یا لوگوں كو مالی نقصان پہچانا وغیرہ وغیرہ۔

پھلی قسم كے گناھوںكی توبہ یہ ھے كہ انسان تمام ترك شدہ اعمال كو بجالائے، چھوٹی ھوئی نماز پڑھے، چھوٹے ھوئے روزے ركھے، ترك شدہ حج كرے، اور اگر خمس و زكوٰة ادانھیں كیا ھے تو ان كو ادا كرے ۔

دوسری قسم كے گناھوں كی توبہ یہ ھے كہ انسان شرمندگی كے ساتھ استغفار كرے اور گناھوں كے ترك كرنے پر مستحكم ارادہ كرلے، اس طرح كہ انسان كے اندر پیدا ھونے والا انقلاب اعضاء و جوارح كو دوبارہ گناہ كرنے سے روكے ركھے ۔

تیسری قسم كے گناھوں كی توبہ یہ ھے كہ انسان لوگوں كے پاس جائے اور ان كے حقوق كی ادائیگی كرے، مثلاً قاتل، خود كو مقتول كے ورثہ كے حوالے كردے، تاكہ وہ قصاص یا مقتول كا دیہ لے سكیں، یا اس كو معاف كردیں، سود خورتمام لوگوں سے لئے ھوئے سود كے حوالے كردے، غصب كرنے والا ان چیزوں كو ان كے مالك تك پھونچادے، مال یتیم اور رشوت ان كے مالكوں تك پہنچائے، كسی كو زخم لگایا ھے تو اس كا دیہ ادا كرے، مالی نقصان كی تلافی كرے، پس حقیقی طور پر توبہ قبول ھونے كے تین مذكورہ تین چیزوں پر عمل كرنا ضروری ھے ۔

1۔ شیطان

لفظ شیطان اور ابلیس قرآن مجید میں تقریباً ۹۸ بار ذكر ھوا ھے، جو ایك خطرناك اور وسوسہ كرنے والا موجود ھے، جس كا مقصد صرف انسان كو خداوندعالم كی عبادت و اطاعت سے روكنا اور گناہ و معصیت میں غرق كرنا ھے ۔

قرآن مجید میں گمراہ كرنے والے انسان اور دكھائی نہ دینے والا وجودجو انسان كے دل میں وسوسہ كرتا ھے، ان كو شیطان كھا گیا ھے ۔

شیطان، ” شطن” اور “شاطن” كے مادہ سے ماخوذھے اور خبیث، ذلیل، سركش، متمرد، گمراہ اور گمراہ كرنے كے معنی میں آیا ھے، چاھے یہ انسانوں میں سے ھو یا جنوں میں سے ۔

قرآن مجید اور اس كی تفسیر و توضیح میں حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے بیان ھونے والی احادیث وروایات میں شیطان جنّ وانس كی خصوصیات كو اس طرح سے بیان كیا گیا ھے:

قسم كھایا ھوا اور كھلم كھلا دشمن، برائی اور فحشاء و منكر كا حكم كرنے والا، خداوندعالم كی طرف ناروا نسبت دینے والا، صاحبان حیثیت كو ڈرانے والا كہ كھیں نیك كام میںخرچ كرنے سے فقیر نہ بن جائیں، انسانوں كو لغزشوں میں ڈالنے والا، گمراھی میں پھنسانے والا تاكہ لوگ سعادت و خوشبختی سے كوسوں دور چلے جائیں، شراب پلانے كا راستہ ھموار كرنے والا، جوا كھیلنے، حرام شرط لگانے اور لوگوں كے دلوں میں ایك دوسرے كی نسبت كینہ و دشمنی ایجاد كرنے والا، برے كام كو اچھا بناكر پیش كرنے والا، جھوٹے وعدے دینے والا، انسان میں غرور پیدا كرنے والا، اور اسے ذلت كی طرف ڈھكیلنے والا، راہ حق میں ركاوٹ پیدا كرنے اور جہنم میں پہنچانے والے كاموں كی دعوت دینے والا، میاں بیوی كو طلاق كی منزل تك پہنچانے والا، لوگوںمیں گناھوں اور برائیوںكا راستہ فراھم كرنے او رانھیں دنیا كا اسیر بنانے والا، انسان كو توبہ كی امید میں گناھوں پر اُكسانے والا، خودپسندی ایجاد كرنے والا، بخل، غیبت، جھوٹ اور شھوت كو تحریك كرنے والا، كھلم كھلا گناہ كرنے كی ترغیب كرنے والا، غصہ اور غضب كو بھڑكانے والا ۔

جب تك انسان شیاطین جن و انس كے جال میں پھنسا رھتا ھے تو پھر وہ حقیقی طور پر توبہ نھیں كرسكتا، كیونكہ جب تك اس كے دل پر شیطان كی حكومت رھے گی، تو توبہ كے بعد شیطان پھر گناہ كرنے كے لئے وسوسہ پیدا كردے گا، اور توبہ كے ذریعہ كئے گئے عہد كو توڑنے اور اپنی اطاعت كرنے پر مجبور كردے گا ۔

توبہ كرنے والے كو چاہئے كہ خداوندعالم سے توفیق طلب كرتے ھوئے گناھوں سے ھمیشہ پرھیز كرے اور شیطان سے سخت بیزار رھے، تاكہ آہستہ آہستہ اس خبیث وجود كے نفوذ كو اپنے وجود سے ختم كردے، اور اس كی حكومت كا بالكل خاتمہ كردے، تاكہ انسان كے دل میںتوبہ و استغفار كی حقیقت باقی رھے، اور اس نورانی عہدو پیمان كو ظلمت كے حملے توڑ نہ سكےں ۔

2۔ دنیا

تمام مادی عناصر اور انسانی زندگی كی ضروری اشیاء سے رابطہ ھی انسان كی دنیا ھے ۔

اگر یہ رابطہ خداوندعالم كی مرضی كے مطابق ھو تو بے شك انسان كی یہ دنیا قابل حمد و ثنا ھے، اور اُخروی سعادت كی ضامن ھے، لیكن اگر انسان كا یھی رابطہ مادی اور ھوائے نفس كی بنا پر ھو جھاں پر كسی طرح كی كوئی حد و حدود نہ ھو تو اس وقت انسان كی یہ دنیا مذموم اور آخرت میں ذلت كا باعث ھوگی۔

بے شك اگر ھوائے نفس كی بنیاد اور بے لگام خواہشات كے ساتھ مادی چیزوں سے لگاؤ ھو تو یقینا انسان گناھوں كے دلدل میں پھنس جاتا ھے ۔

اسی ناجائز رابطہ كی بنا پر انسان شھوت اور مال و دولت كا عاشق بن جاتا ھے، اور اس راستہ كے ذریعہ خدا كے حلال و حرام كی مخالفت كرتا ھوا نظر آتا ھے ۔

اس طرح كے رابطہ كے ذریعہ انسان ؛مادی چیزوں اور شھوت پرستی میں كھوجاتا ھے، جس كا بھت زیادہ نقصان ھوتا ھے، اور جس كی بدولت آخرت میں سخت خسارہ اٹھانا پڑے گا ۔

حضرت علی علیہ السلام اس سلسلہ میں بیان فرماتے ھیں:

“اَلدُّنْیَا تَغُرُّ وَ تَضُرُّوَ تَمُرُّ۔ ۔ ۔ “۔ 31

“دنیا، مغرور كرتی ھے، نقصان پہنچاتی ھے اور گزرجاتی ھے”۔

خداوندعالم نے اپنے محبوب رسول(ص) كو شب معراج اس مذموم دنیا میں گرفتار لوگوں كی خصوصیت كے بارے میں اس طرح فرمایا:” اھل دنیا وہ لوگ ھوتے ھیں جن كا كھانا پینا، ہنسنا، رونا اور غصہ زیادہ ھوتا ھے، خدا كی عنایت پر بھت كم خوشنود ھوتے ھیں، لوگوں سے كم راضی رھتے ھیں، لوگوں كی شان میں بدی كرنے كے بعد عذر خواھی نھیں كرتے، اور نہ ھی دوسروں كی عذر خواھی كو قبول كرتے ھیں، اطاعت كے وقت سست و كاھل اور گناہ كے وقت شجاع او رطاقتور ھوتے ھیں، ان كی آرزوئیں طولانی ھوتی ھیں، ان كی گفتگو زیادہ، عذاب جہنم كا خوف كم ھوتا ھے اور كھانے پینے كے وقت بھت زیاہ خوش و خرم نظر آتے ھیں ۔

یہ لوگ چین و سكون كے وقت شكر اور بلاء و مصیبت میں صبر نھیں كرتے، دوسروں كو ذلیل سمجھتے ھیں، نہ كئے ھوئے كام پر اپنی تعریفیں كرتے ھیں، جن چیزوں كے مالك نھیں ھوتے ان كی ملكیت كے بارے میں دعویٰ كرتے ھیں، اپنی بے جا آرزوٴں كو دوسروں سے بیان كرتے ھیں، لوگوں كی برائیوں كو اچھالتے ھیں.

 

تبصرے
Loading...