تقلید اہل سنت والجماعت کی نظر میں

جب ہم اس موضوع ، تقلید و مرجعیت اہل سنت کی نظر میں سے بحث کرتے ہیں تو متحیر رہ جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنا سلسلہ رسول(ص) سے جوڑتے ہیں لیکن ہم سب ہی جانتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت کے ائمہ اربعہ ، ابوحنیفہ، مالک، شافعی اور ابن حنبل کی تقلید کرتے ہیں اور یہ چاروں رسول(ص) کو  نہیں پہچانتے تھے اور نہ ہی ان کی صحبت میں رہے تھے۔
جبکہ علی ابن ابی طالب(ع) کی تقلید کرتے ہیں کہ جو ہمیشہ رسول(ص) کی خدمت میں رہے اور علی(ع) کے بعد جوانانِ جنت کے سردار امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) فرزندانِ نبی(ص) کی تقلید کرتے ہیں۔ پھر امام زین العابدین(ع) کی ان کے بعد ان کے فرزند باقر(ع) کی اور ان کے بعد ان کے لختِ جگر صادق(ص) کی تقلید کرتے ہیں، اس زمانہ میں اہل سنت والجماعت کا کہیں وجود بھی نہیں تھا اور نہ ہی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اس وقت اہل سنت والجماعت کہاں تھے اور ان کا امام کون تھا کہ جس کی تقلید کرتے تھے اور شریعت کے حلال و حرام احکام کے سلسلہ میں نبی(ص) کی وفات سے لے کر ان مذاہب اربعہ کے وجود میں آنے تک وہ کس کی طرف رجوع کرتے تھے؟
اس کے بعد مذاہبِ اربعہ ائمہ کی زندگی کا محور بھی واضح ہو جاتا ہے ۔ اگر چہ بنی عباس کے حکام کے حسبِ منشا ائمہ اربعہ کے زمانہ میں تفاوت ہے جیسا کہ ہم گذشتہ صفحات میں بیان کرچکے ہیں۔
اس کےبعد یہ بھی ظاہر ہوجاتا ہے چاروں مذاہب ایک بڑے ہی دلفریب نعرہ “اہلِ سنت والجماعت”  کے نیچے جمع ہوگئے۔ اور ہر دشمنِ علی(ع) آکر ان ہی میں شامل ہوگیا اور خلفاء ثلاثہ اور بنی امیہ و بنی عباس کے حکام کا شیدائی بھی ان میں مل گیا۔ پس لوگوں نے زبردستی بادلِ نخواستہ اس مذہب کی ترویج کررہے تھے۔ پھر لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر چلتے ہیں۔
پھر ہم اہلِ سنت والجماعت کو ائمہ اربعہ کی موت کے بعد اپنے علما پر دروازہ اجتہاد بند کرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ پس وہ مردہ لوگوں ہی کی تقلید کرسکتے ہیں۔
شاید ان کے حکام و امراء ہی نے ان کے لئے دروازہ اجتہاد اس خوف سے بند کردیا تھا کہ کہیں لوگ فکری آزادی حاصل نہ کرلیں اور ہماری حکومت و نظام کے لئے چیلنج نہ بن جائیں لہذا انھوں نے نقد و تبصرہ کا حق بھی علما سے چھین لیا۔
لہذا اہلِ سنت والجماعت ایک ایسے مردہ شخص کے مقلد اور  کے پابند ہوکے رہ گئے کہ جس سے ان کی دید و شنید اور شناسائی تک نہیں ہے کہ جس سے اس کے عدل و ورع اور علم سے مطمئن ہوجاتے وہ صرف اسلاف کے سلسلہ میں حسنِ ظن رکھتے ہیں ان میں سے ہر فریق اپنے امام کے خیالی مناقب بیان کرتا ہے جبکہ ان کے ائمہ کے فضائل خواب و خیال یا ظن و وہم کی پیداوار ہیں ہر ایک گروہ اپنی ہی چیز پر خوش ہے۔
اگر آج اہلِ سنت والجماعت کے ذہین و روشن فکر ان نے ہودگیوں کو دیکھیں کہ جو ان کے بزرگوں نے بیان کی ہیں یا ان کے اقوال میں موجود اس تناقض کا جائزہ لیں کہ  جس کے نتیجہ میں ایک دوسرے کو کافر کہنے لگا اور جنگ و جدال کا سلسلہ شروع ہوگیا، تو وہ ضرور ان ائمہ کو چھوڑ دیں گے اور ہدایت پا جائیں گے۔
پھر ایک مسلمان دورِ حاضر میں اس شخص کی کیسے تقلید کرسکتا ہے کہ جو زمانہ کی جدتوں اور ایجاد کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور نہ ہی کسی مسئلہ سے واقف ہے۔
طے شدہ بات ہےکہ مالک اور ابوحنیفہ اور اہلِ سنت سے قیامت کے روز اظہار برائت کریں گے اور کہیں گے۔ پروردگارا ان چیزوں کے بارے میں ہماری گرفت نہ فرما جن کے ہ مرتکب ہوئے ہین ہم تو انھیں جانتے بھی نہیں ہیں اور یہ بھی ہمیں نہیں جانتے اور ہم نے کبھی ان سے یہ نہیں کہا کہ ہماری تقلید واجب ہے۔
مجھے نہیں معلوم اہلِ سنت والجماعت اس روز کیا جواب دیں گے جب خداوندِ عالم ثقلین کے بارے میں سوال کرے گا؟ پھر اس کے لئے رسول(ص) کو گواہی میں پیش کرے گا اور اہلسنت رسول(ص) کی گواہی نہیں جھٹلا سکیں گے ۔ خواہ یہ  عذر ہی کیوں نہ پیش کریں کہ ہم نے اپنے سرداروں کی اطاعت میں ایسا کیا ہے۔
اور جب ان سے خدا یہ سوال کرےگا کیا تم نے میری کتاب یا میرے رسول(ص) کی سنت میں مذاہبِ اربعہ کے اتباع میں کوئی عہد وپیمان یا محبت دیکھی ہے؟
اس کا جواب معروف ہے اس کے لئے مزید علم کی ضرورت نہیں ہے۔ کتابِ خدا  اور سنت رسول(ص) میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔ کتابِ خدا اور سنت رسول(ص) میں صاف طور پر عترتِ طاہرہ(ع) سے تمسک کا حکم ہے اور ان سے روگردانی ۔ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ شاید وہ کہیں گے۔
پروردگارا ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا تو ہمیں ایک مرتبہ پھر لوٹا دے تاکہ ہم نیک کام کریں اب تو ہم کو پورا یقین آگیا ہے۔(سجدہ ۱۲)
لیکن ان کی بات قبول نہ کی جائے گی اور کہا جائے گا کہ یہ تو تم پہلے بھی کہا کرتے تھے ۔ اور رسول(ص) فرمائیں گے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑدیا۔ میں نے انھیں اپنی عترت کے بارے میں وصیت کی اور اپنے قرابتداروں کے متعلق ان تک تیرا حکم پہنچادیا ، لیکن انھوں نے میری بیعت توڑ ڈالی اور مجھ سے قطع رحم کیا میرے بیٹوں کو ذبح کر ڈالا اور میری حرمت کو مباح سمجھا۔ انھیں میری شفاعت نصیب نہ ہو۔
ایک مرتبہ پھر ہم پر یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ ” اہل سنت والجماعت نے نہ رسول(ص) کے ساتھ صلہ رحم کیا اور نہ ان کی آل سے محبت کی اور جس نے عترت کو چھوڑدیا اس نے قرآن کو  چھوڑدیا اور جس نے قرآن کو چھوڑدیا  اللہ اس کا سرپرست و مددگار نہیں ہے۔
اور جس روز ظالم اپنے ہاتھ کاٹنے لگیگا اور کہے گا اے کاش میں
 بھی رسول(ص) کے ساتھ ہوگیا ہوتا ہائے افسوس ! کاش میں فلاں
 کو دوست نہ بناتا یقینا اس نے میرے پاس نصیحت آنے کے بعد
مجھے بہکایا اور شیطان تو انسان کو رسوا کرنے والا ہے۔(الفرقان ۲۷/۲۹)

تبصرے
Loading...