تفکّر

فرزند! ہمیشہ غور و فکر سے کام لو کہ یہ نفس کی بیداری اور قلب کی پاکیزگی کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس سے کدورتیں دور ہوتی ہیں۔ خواہشات ٹوٹ جاتی ہیں اور انسان دنیا سے دوری اختیار کر کے آخرت کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔

تفکر راس و رئیس عبادات ہے۔ یہ روح و جانِ بندگی ہے۔ بہترین عبادات، اللہ اور اس کی قدرت کے بارے میں غور و فکر ہے۔[1]

علماء نے اس حدیث کی توجیہ یہ کی ہے کہ عبادت انسان کو ثواب تک پہونچاتی ہے اور فکر خود خدا تک پہونچاتی ہے اور ظاہر ہے خدا کا مرتبہ ثواب سے بالاتر ہے۔ اس کے علاوہ عبادت اعضا کا عمل ہے اور فکر دل کا عمل ہے اور دل کا مرتبہ اعضاء و جوارح سے بالاتر ہے۔ اس لئے ایک ساعت کی فکر کو ایک سال کی عبادت سے بہتر قرار دیا گیا ہے اور بعض روایات میں ساٹھ، ستّر سال کی عبادت سے بہتر بھی وارد ہوا ہے۔[2]

فکر، انسان کو جہنم سے بھی بچا سکتی ہے جس طرح حضرت حر بن یزید ریاحی نے ایک ساعت فکر کی اور نجات کا انتظام کر لیا ورنہ زندگی بھر عبادت کرتے رہتے تو کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ ایسی ہی ایک ساعت کی فکر ۷۰! سال کی عبادت سے بھی بہتر ہے اور ایسی ہی فکر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ عبادت نماز و روزہ کا نام نہیں ہے عبادت اللہ کے بارے میں غور و فکر کرنے کا نام ہے۔

فرزند! کبھی گذشتگان کے بارے میں فکر کرو کہ وہ کہاں سے آئے تھے اور کہاں چلے گئے، کیا لے گئے اور کیا چھوڑ گئے؟ کیا کرتے رہے اور کس طرح سارا کاروبار چھوڑ کر روانہ ہو گئے؟ جو لوگ زمین پر قدم نہیں رکھتے تھے مخمل کے فرش پر آرام کرتے تھے، زمین پر اکڑ کر چلتے تھے اور اب اپنی دولت سے الگ عیال و اطفال سے دور، قصر و محلات، حشم و خدم سے جدا کفن پہنے خاک پر پڑے ہوئے ہیں۔ نرم و نازک رخسار مٹی میں ہیں اور کیڑے سانپ بچھو ان کے گرد ہیں۔ قبر کا کونہ ہے اور تنہائی ہے۔[3]

 کبھی موت کے بارے میں سوچو کہ یہ اچانک آجاتی ہے اور ایک منٹ کی مہلت نہیں دیتی۔ ہر آن اس سے ہوشیار رہو اور ہر وقت اپنے کو آمادہ رکھو۔ توبہ و عمل میں تساہلی سے کام نہ لو اور کسی وقت بھی غافل نہ رہو۔ کتنے انسان ہیں جو اچانک چلے گئے اور انھیں توبہ و استغفار کی مہلت بھی نہ ملی۔ خبردار تمہارا شمار ایسے حسرت و ندامت والے افراد میں نہیں ہو اور تمہیں یہ نہ کہنا پڑے کہ پروردگار ایک مرتبہ اور واپس کردے۔[4]

کبھی اس بات پر غور کرنا کہ دنیا صرف محل تعب و رنج و مشقت و محنت ہے۔ اس کی صفائی میں گندگی ملی ہوئی ہے اور اس کی راحت میں بھی رنج کی آمیزش ہے۔ یہاں خالص آرام پیدا ہی نہیں ہوا جیسا کہ حدیث قدسی میں ارشاد ہوتا ہے کہ وہ لوگ ہم سے دنیا میں راحت طلب کرتے ہیں حالانکہ ہم نے یہاں راحت پیدا ہی نہیں کی اور جہاں پیدا کی ہے وہاں تلاش نہیں کرتے۔

فرزند! ان مسائل پر غور کرو گے تو دنیا کی تکلیفیں آسان ہو جائینگی اور آخرت کی طرف رغبت پیدا ہوگی۔ دنیا کی زحمتوں کو آخرت کے لئے اختیار کرنا بہترین اور آسان ترین عمل ہے۔

کبھی عالم مستقبل کے بارے میں فکر کرو کہ تمہارے سامنے قبر، برزخ، حشر، نشر، نامۂ اعمال ، حساب، کتاب، صراط و میزان، جنت و جہنم کا مرحلہ ہے۔

 کبھی اس بات پر غور کرو کہ مرنے کے بعد وہی مال کام آئے گا جو راہِ خدا میں دے دیا ہے۔ ساتھ جانے والا صرف کفن ہے۔ اولاد و اطفال و احباب و اعزا صرف خاک میں لٹانا جانتے ہیں اور پھر اعمال کے حوالے کر دیتے ہیں۔ کام آنے والے یہی اعمال ہیں جو تمہارے ساتھ رہیں گے اور تم سے جدا نہ ہوں گے۔ ان مسائل پر غور کرو گے تو نیک اعمال کروگے۔ نیت میں خلوص پیدا ہوگا اور وقت گزرنے سے پہلے آنے والے کل کی فکر کرو گے۔

  روایات میں وارد ہوا ہے کہ دنیا میں بہترین زہد یادِ موت ہے اور بہترین عبادت ذکر موت ہے۔ بہترین فکر بھی فکر موت ہے۔[5]

ذکر موت سے غفلت برتنے والا بے معنی اعمال میں عمر ضائع کرتا ہے۔ اور موت کو یاد رکھنے والا بہترین اعمال میں وقت صرف کرتا ہے۔ موت بہترین واعظ اور بہترین ناصح ہے۔ ذکر موت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ تنگیٔ حالات کو آسان بنا دیتی ہے۔ مالدار کو سخاوت پر آمادہ کرتی ہے۔ انسان کو بے فائدہ کاموں سے روک دیتی ہے۔ اور بقول بعض مصیبتوں کو آسان بنانے والی قیامت کے فائدہ کی طرف زغبت دلانے والی، توبہ پر آمادہ کرنے والی، تلافی پر تیار کرنے والی، امیدوں کو قطع کرنے والی اور لیت و لعل سے دل بہلا نے کو روکنے والی موت ہی ہے۔

 

تبصرے
Loading...