تفکر کی اہمیت اور غفلت سے بچنے کے عوامل کے تحفظ کی ضرورت

”یَا َبَاذَرٍّ! ِخْفِضْ صَوْتَکَ عِنْدَ الْجَنَائِزِ وَ عِنْدَ الْقِتَالِ وَ عِنْدَ الْقُرآنِ۔ 

”یٰا َبَاذَرٍّ!اِذَا تَبِعْتَ جَنَازَةً فَلْیَکُنْ عَقْلُکَ فِیْہَا مَشْغُولاً بِالتَّفَکُّرِ وَالْخُشُوعِ وَ اعْلَمْ اِنَّکَ لاَ حِق بِہِ

یَا اَبَاذَرٍّ! اِعْلَمْ اَنَّ کُلَّ شَیئٍ اِذَافَسَدَ فَالْمِلْحُ دَوَاؤُہ وَِذَافَسَدَ الْمِلْحُ فَلَیسَ لَہُ دَوَائ وَاعْلَمْ اَنَّ فِیکُمْ خُلْقَینِ الضِّحْکُ مِنْ غَیرِ عَجَبٍ وَالْکَسَلَ مِنْ غَیْرِ سَہْوٍ یَا َبَاذَرٍّ! رَکْعَتٰانِ مُقْتَصِدَتَانِ فِی تَفَکَُّرٍ خَیْرمِنْ قِیَامِ لَیْلَةٍ وَالْقَلْبُ سٰاہٍ”

اس سے پہلے انسان میں خوف وخشیت پیدا ہو نے کے اسباب و عوامل پر بحث ہوئی۔ کہا گیا کہ من جملہ عوامل کہ جو انسان میں خوف خدا پیدا کرتے ہیں ، قیامت کے دن جہنم کے عذاب کے بزرگ ہونے اور بہشت کی نعمتوں کی اہمیت و وسعت پر توجہ کرنا ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیانات کے اس حصہ کا گزشتہ مطالب سے اس لحاظ سے ربط ہے کہ قلبی اور اندرونی حالات، جیسے، خوف، خشیت، شوق، امید، محبت و انس یہ سب چیزیں صرف اس صورت میں پیدا ہوسکتی ہیں کہ جب انسان توجہ دے اور اس کا دل بیدارا ور آگاہ ہو، لیکن اگر انسان غافل ہے اور اس کی توجہ ضعیف ہے اس صورت میں یہ حالات یا بالکل اس کے اندر پیدا نہیں ہوںگے یا ضعیف اور کم رنگ صورت میں رو نما ہوں گے۔

جب انسان غفلت یا سنگدلی اور بے رحمی میں مبتلا ہوتا ہے اور خودبہ خود ان رذائل اخلاقی کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اس کی اس پست حالت سے باہر آنے کے لئے، کچھ عوامل و اسباب مد نظر رکھے گئے ہیں،ان عوامل و اسباب میں سے کچھ انسان کے اندر سے جاری ہوتے ہیں اور ان میں سے کچھ خارجی ہیں، کبھی خارج میں کوئی حادثہ پیش آتا ہے، کوئی بات سننے میں آتی ہے یا ایسے شرائط پیدا ہوجاتے ہیں جو انسان کے لئے متنبہ اور بیدار ہو کر غفلت سے نجات پانے کا سبب بن جاتے ہیں۔ البتہ یہ تاثیر توفیقات الہٰی کے زمرہ میں ہے اور ان فرصتوں کی قدردانی کی جانی چاہیے اور انسان کو شکر گزار بننا چاہیے۔ تاکہ خدا کی مہر بانیوں اور توفیقات میں اضافہ ہوجائے، اگر ان فرصتوں سے استفادہ نہیں کیا گیااور قدر دانی نہیں کی گئی تو انسان کی غفلت اور بے رحمی میں اضافہ ہوئے گا، اس سلسلہ میں پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:

”یَا َبَاذَرٍّ: ِخْفِضْ صَوْتَکَ عِنْدَ الْجَنَائِزِ وَ عِنْدَ الْقِتَالِ وَ عِنْدَ الْقُرآنِ۔ 

”اے ابوذر! جنازوں کے پاس، دین کے دشمنوں سے جنگ کے دوران اور تلاوت قرآن مجید کے وقت آہستہ گفتگو کرو؟

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حدیث کے اس حصہ میں اخلاق، تربیت اور حفاظت سے مربوط تین نصیحتیں فرماتے ہیں:

 

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تین نصیحتیں:

الف۔ تشییع جنازہ کے وقت آہستہ گفتگو کرنا:

بہت مناسب ہے انسان آہستہ بات کرے اور بلند گفتگو نہ کرے یہ ایک شائستہ ادب ہے جس کے بارے میں حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی ہے: 

(وَاغْضُضْ مِنْ صَوتِکَ اِنَّ اَنْکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوتُ الْحَمِیرِ)(لقمان١٩) 

آہستہ گفتگو کرو اوراپنی آواز دھیمی رکھنو کہ سب سے بدتر آواز گدہے کی ہوتی ہے۔

اگر چہ عادی مواقع پر آہستہ بات کرنا مطلوب ہے، لیکن بعض مواقع پر متعارف اور معمول کی حد سے بھی بہت آہستہ بات کرنی چاہیے یا خاموشی اختیار کی جانی چاہیے۔ مثال کے طور پر جب انسان کو اپنی فکر اور توجہ کو کسی امر کے لئے متمرکز کرناہے تو وہ دوسرے امور کو چھوڑ کر اس امر کی طرف توجہ کرتا ہے، اور یہ فطری بات ہے کہ من جملہ مواقع میں سے کہ جہاں پر انسان کو فکر و اندیشہ میں غرق ہو کر عبرت حاصل کرنی چاہیے وہ تشییع جنازہ میں شرکت کا وقت ہے، یہاں پر انسان کو توجہ رکھنی چاہیے کہ کبھی یہ موت اسکے پیچھے بھی آنے والی ہے۔

اس بناپر دنیوی امور کے بارے میں بات کرنے سے وہ پرہیز کرتا ہے اور اس کی توجہ اس انسان کی تقدیر پر متمر کز ہوتی ہے جس کا جنازہ لوگوں کے کا ندھوں پر ہوتا ہے تاکہ عبرت حاصل کرے، افسوس کہ ہم اس مطلب کی طرف توجہ نہیں کرتے ، حتی تشییع جنازہ کے دوران بھی آداب کی رعایت نہیں کرتے ہیں اور عبرت حاصل کرنے کی فکر میں نہیں ہوتے ہیں، یہ اس صورت میں ہے جب کہ تاکید کی گئی ہے کہ تشییع جنازہ کے وقت خاموشی، آرام، وقار اور اطمینان سے راستہ چلو اور تمہاری توجہ صرف جنازہ کی طرف مبذول ہو، لہٰذا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

”یٰا َبَاذَرٍّ:اِذَا تَبِعْتَ جَنَازَةً فَلْیَکُنْ عَقْلُکَ فِیْہَا مَشْغُولاً بِالتَّفَکُّرِ وَالْخُشُوعِ وَ اعْلَمْ اِنَّکَ لاَ حِق بِہِ”

اے ابوذر! جنازہ کے پیچھے چلتے وقت اپنی عقل کو تفکر اور خشوع میں مشغول رکھواور یہ جان لو! کہ تم بھی اس سے ملحق ہونے والے ہو۔

من جملہ امور جو انسان کو غفلت سے باہر لاسکتے ہیں، ایک ایسے مومن کے جنازہ کا مشاہدہ کرنا ہے کہ جس نے ایک عمر تلاش اور دنیا کی نعمتوں سے بہرہ مند اور کامیاب ہو کر وفات پائی ہے اور اس کے جنازہ کو قبرستان کی طرف لے جارہے ہیں،یقینا انسان کو اس غمناک منظر کا مشاہدہ غفلت سے نکالتا ہے، کیونکہ دنیا اور اس کی ( دل فریب) رعنائیوں کی طرف متوجہ ہونا اور اس میں گرفتار ہوجانا غفلت کا سبب بنتے ہیں اور جو چیز انسان کو آخرت کی طرف متوجہ کرے، وہی غفلت سے بیداری اور اس سے دوری کا سبب بنتی ہے،اس لحاظ سے بیداری اور غفلت سے دور ہونے کا بہترین وسیلہ یہ ہے کہ انسان آنکھیں کھول کر دیکھے کہ ایک شخص نے ایک عرصہ تک سعی و کوشش کے بعد اپنی زندگی کو مکمل کیا ہے اور اب وہ عالم آخرت کی طرف کوچ کر رہا ہے۔ گرچہ انسان جانتا ہے کہ موت قطعی ہے اور سب مرر ہے ہیں، لیکن دنیا سے رخصت ہونے والے کا مشاہدہ کرنا، اسے جاننے سے زیادہ اثر رکھتا ہے۔

ایک مومن کے تشییع جنازہ میں شرکت کی فرصت کو اپنے نفس کی اصلاح، نفسانی خواہشات سے اجتناب اور اصلاح کے لئے غنیمت جاننا چاہیے اور فکر وہواس کو ادھر اُدھر، پر اکندہ ہونے سے دوری اختیار کرنی چاہیے اور صرف اپنی عافیت کے بارے میں فکر کرنی چاہیے ،سوچنا چاہئے کہ یہ وہ راہ ہے جسے دیر یاجلد ہمیں بھی طے کرنا ہے، پس کیا یہ دنیا کی چند روزہ زندگی یہ اہمیت رکھتی ہے کہ ہم بے پرو ا ہو کر اس کے لئے تلاش کریں؟ ہمیں چاہئے کہ ہم اس بارے میں غور و فکر کریں کہ، کیا ہم نے آخرت کی زندگی کے بارے میں صحیح کوشش کی ہے یا نہیں؟

موت کے بارے میں تفکر کرنا جیسا کہ روایتوں میں اس کی تاکید کی گئی ہے با اثر ترین عوامل میں سے ہے، جو شیطان سے دوری اور صحیح راستہ پر گامزن ہونے کا سبب بن سکتا ہے، انسان کو فکر کرنی چاہیے کہ شاید ایک گھنٹہ بعد زندہ نہیں رہے گا کیونکہ کوئی شخص مطمئن نہیں ہے وہ کب تک زندہ ہے، لہٰذا لمبی آرزئوں کے مقابل جو غفلت اور قساوت کا سبب بنتی ہیں، موت کی طرف توجہ کرنا انسان کے لئے غفلت سے دوری اور بیداری کا سبب بنتا ہے، اور ممکن ہے یہ تفکر واندیشہ اور یہ شیوئہ عمل انسان اور اس کی تقدیر کو بدل کے رکھدے۔

یہ فطری بات ہے، جب انسان اپنے انجام کے بارے میں غور کرے گا اور اپنے آپ کو خدائے متعال کی عظمت کے سامنے مغلوب پائیگاتواس کے دل میں ناکامی، ذلت اور خشوع کی حالت پیدا ہوگی اور اس کے آثار ظاہر میں بھی نمایاں ہوں گے چنانچہ جب مومن نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور اپنے مقابل میں خدا کی عظمت کو پاتا ہے، تو اس میں خضوع و خشوع پیدا ہوتا ہے، البتہ یہ ایک ایسا امر ہے جس کی تاکید کی گئی ہے اور مومن کی واضح ترین خصوصیت کے طور پر ذکر ہوئی ہے، جو اس کے لئے کامیابی کا سبب بنتی ہے: 

(قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ ھُمْ فِی صَلَاتِھِمْ خَاشِعُونَ) (مومنون١۔٢)

”یقینا صاحبان ایمان کا میاب ہوگئے جو اپنی نمازوں میں گڑ گڑانے والے ہیں”

(اس کے مقابل جو خدا کی عظمت کو نہیں دیکھتے اور نماز کے مفہوم پر غور و فکر نہیں کرتے ہیں، ان میںخضوع و خشوع پیدا نہیں ہوتا ہے)

چنانچہ ہم نے کہا کی خشوع دل میں پیدا ہوتا ہے اور اس کے آثار انسان کے اعضاوجوارح سے آنکھوں میں ظاہر ہوتے ہیں، لیکن کبھی خشوع کے بارے میں بعض اعضائے بدن سے بھی نسبت دی جاتی ہے، چنانچہ خدائے متعال فرماتا ہے: 

(وَخَشَعَتِ الْاَصْوَاتُ لِلرَّحْمَٰنِ فَلاَ تَسْمَعُ اِلَّاہَمْساً) (طہ ١٠٨) ”(قیامت کے دن) ساری آواز یں رحمن کے سامنے خاشع ہوں گی اور تم سنسناہٹ کے علاوہ کچھ نہیں سن سکو گے۔”

ایک دوسری جگہ فرماتا ہے: 

(خَاشِعَةً َبْصَارُھُمْ تَرْھَقُھُمْ ذِلَّة وَ قَدْ کَانُوا یُدْ عَونَ اِلیَ السُّجُودِ وَھُمْ سَالِمُونَ) (قلم ٤٣)

”ان کی نگاہیں شرم سے جھکی (خاشع) ہوں گی، ذلت ان پر چھائی ہوگی اور انھیں اس سے پہلے بھی سجدوں کی دعوت دی گئی تھی جب وہ بالکل صحیح و سالم تھے۔”

جو کچھ بیان ہوا اس کی بنا پر، تشییع جنازہ میں شرکت اور اس شخص کے انجام پر توجہ کرنا جو اس دنیا سے رخصت ہوا ہے اور قیامت کے منظر پر توجہ کرنا اور اس کے حالات اپنی آگاہی کے مطابق ذہن میںتصور کرنا، خضوع، خشوع اور غفلت سے دوری کا سبب ہے، لیکن اگر انسان اس وقت بھی اسی طرح بے فکر رہے جیسے کہ کچھ بھی نہیں ہوا ہے اور صرف دنیا کی فکر اور باتوں میں مشغول ہو، تو اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

جب کوئی شخص اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو بعض لوگ اس کی موت سے استفادہ کرنے کی فکر میں ہوتے ہیں، اگر وہ پر و فیسر تھا، تو اس فکر میں ہیں کہ اس کی جگہ پر گامزن ہو جائیں، اگر رئیس تھا توخوشحال ہیں کہ اس کا عہدہ انھیں ملے گا، اگر کوئی ڈاکٹر مرگیا ہے تو دوسرے اس فکر میں ہیں کہ اس کی حیثیت و موقعیت کو حاصل کریں، افسوس اور شرم کی بات ہے! جو حادثہ انسان کے لئے قیامت اور اس کی زندگی کے انجام پر توجہ کرنے کا سبب ہونا چاہیے تھا، برعکس اسے دنیا میں غرق کرڈالتا ہے۔ جہاں پر انسان کو عبرت حاصل کر کے بیداری کے عامل کو اپنے اندارفراہم کرکے زندگی گزارنا چاہیے تاکہ فرضیات اور اوہام سے دوری اختیار کرے ،اس کے برعکس بعض لوگ غفلت اور بے رحمی سے دوچار ہونے کی وجہ سے بیشتر اوہام اور مفروضات میں پھنس جاتے ہیںنیز انھیں جھینجھوڑنے اور بیدار کرنے والے مناظر نہ صرف انہیں بیدار نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کی بے رحمی اور سنگدلی میں اضافہ کرتے ہیں۔ اسی لئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب ابوذر کو گوش گزار فرماتے ہیں کہ منجملہ مواقع جو انسان کے لئے خوف، خشیت، خضوع و خشوع پیدا کر سکیں، تشییع جنازہ میں شرکت کرنا ہے، اس شرط پر کہ باتوجہ ہو، اپنے ہوش و حواس کو قابو میں رکھے اور شورشرابہ سے پرہیز کرے، صرف اپنی طرف توجہ کرے اور آہستہ آہستہ بات کرے تاکہ فکر واندیشہ کو جاری رکھ سکے، کیونکہ بلند آواز میں بولنا حتی بات کرنا، انسان کے دل کو مشغول کر دیتا ہے اور اسے حضور قلب کی طرف توجہ کرنے سے روکتا ہے۔

ایک دن تہران میں ایک شخص نے علامہ طباطبائی سے پوچھا، میں کیا کروں تاکہ نماز میں مجھے حضور قلب پیدا ہو؟ علامہ نے جواب میں فرمایا: باتیں کم کرو، شاید ہم اس پر تعجب کریں کہ باتیں کرنے سے نماز میں حضور قلبکا پیدا نہ ہونا یہ کیوں کر ہوسکتا ہے،(اتفاقاً وہ شخص باتونی تھا) یقینا بولنے اور باتیں کرنے سے انسان کی فکری، روحی اور نفسیاتی طاقت صرف ہوتی ہے، بالخصوص اگر بولنا رسمی ہو یعنی موعظہ، تقریر و تدریس ہو، جب بعض لوگ انسان کی تقریر سنتے ہیں تو وہ احتیاط کرتے ہیںکہ کوئی غلط بات نہ کہیں، اس لحاظ سے ان کی پوری توجہ اس کی تقریر کی طرف متمرکز ہوتی ہے اور یہ چیز اسے اپنے بارے میں فکر کرنے سے روکتی ہے، اس لئے باتیں کم کرنا اورآہستہ آواز میں بولنا انسان کو اپنی طرف زیادہ توجہ کرنے کا سبب بنتا ہے، اور وہ فکر پر اکندگی سے دوری اختیار کرتا ہے۔

تشییع جنازہ میں شرکت کرتے وقت پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حالت کے بارے میں ایک حدیث میں آیا ہے:

”کَانَ النَّبِیُ اِذَاتَبِعَ جَنَازَةً غَلَبَتْہُ کَآبَةً وَاَکْثَرَ حَدِیثَ النَّفْسِ وَاَقَّلَ الْکَلاَمَ” ١

”تشییع جنازہ کے دوران پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرانتہائی غم واندوہ کا عالم طاری ہوتاتھا ،آپ بیشتر غور و فکر میں ہوتے تھے اور باتیں کم کرتے تھے۔”

…………..

١۔بحارالانوار(طبع بیروت )ج٧٨،ص٢٦٤

 

ب) جنگ کے دوران آہستہ گفتگو کرنا:

حملہ اور جنگ کے دوران سپاہیوں کی حالت اور عسکری اسرار کے پنہان ہونے کے پیش نظر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنگ کے دوران آہستہ بات کرنے کی تاکید فرماتے ہیں، جنگ میں ایسے شرائط پیش آتے ہیں،بالخصوص جنگی حکمت عملی اور جنگی علاقوں سے معلومات حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کے وقت، جن کے پیش نظر ضروری ہو جاتا ہے کہ جنگی اسرار کی حفاظت اور دشمن کی نظر سے اپنے سپاہیوںکی 

پوزیشن چھپائے رکھنے پردقت کی جائے، ممکن ہے کبھی بلند آواز میں گفتگو کرنا اور نامناسب حرکات اس امر کا سبب بن جائے کہ دشمنجنگی حکمت عملی اور حملے کے منصوبہ سے آگاہ ہوجائے جن کے نتیجہ میں مجاہدین کی جان بھی خطرے میں پڑے اورحملے کا منصوبہ اور پلان بھی ناکام ہوجائے۔

ہمارے مجاہدین نے اس حقیقت کو آٹھ سالہ جنگ کے دوران اچھی طرح تجربہ کیا ہے: یعنی بعض اوقات پوزیشن ایسی خطرناک، نازک اور حساس ہوتی تھی کہ ان کی ایک رفتاربھی فیصلہ کن ہوتی تھی، انہیں ایسی راہ پرچلنا پڑتا تھا کہ پائوںکے کھسکنے کی آواز بھی بلند نہیں ہونی چاہیے تھی، حقیقت میں جنگی منصوبوں کو عملی جامہ پہنا نے میں دشمن کے غافلگیرہونے کے اصول سے استفادہ کرتے تھے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس نصیحت میں ایک اور نکتہ یہ ہے کہ جنگ اور عملیات کی اہمیت و حساسیت کے تقاضا کے مطابق فوج کو عسکری اہداف کے حصول کے لئے اپنی تمام تر طاقت کو بروئے کارلانا چاہیے،اس نقطہ نظر کے مطابق خاموشی، آرام اور حواس کومتمر کزکرنے سے اپنی اندرونی اور پوشیدہ طاقت کو ہماہنگ کر کے پوری قوت و طاقت اور انتہائی صلاحیت کے ساتھ دشمن سے نبرد آزما ہو اور ایسی چیزوں سے قطعا پرہیز کریں جو ان کی فکر اور طاقت کو جنگ و حملہ سے منصرف کرنے کا سبب ہو،اسی اہمیت کے پیش نظر حضرت علی علیہ السلام جنگ جمل میں اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ سے عسکری نصیحت کے طور پر فرماتے ہیں:

” تزول الجبال ولا تزل عضَّ علی ناجذک أَعراﷲ جمجحتک تِدْ فی الارض قدمک اِرْمِ ببصرک اقصی القوم وغُضَّ بصرک وَاعلم ان النصر من عند اﷲ سبحانہ ” ١

پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائے لیکن تم اپنی جگہ سے نہ ہلنا،اپنیجبڑون کو مضبوطی سے دبائے رکھنا، اپنے سر کو خدا کی راہ میں عاریہ دے دینا، اپنے پیروں کومیخ کے مانند زمین میں نصب کردینا، اپنی نظر کو دشمن کے آخری نقطہ پر متمرکزر کھنا اور دوسری جانب چشم پوشی کرنا، جان لو کہ خدا کی طرف سے کامیابی اور فتح تمھارے نصیب ہوگی۔

١۔ نہج البلاغہ ” ترجمہ فیض الاسلام” کلام ١١ص٦٢

 

تبصرے
Loading...