تفسیر “فصل الخطاب” سے اقتباسات (حصہ پنجم)

اعجاز قرآن کے مختلف رخ

اعجاز قرآن کے مزید چار پہلوؤں کا جائزہ لیتے ھیں

نمبر(1) تاریخی حیثیت سے

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوکوئی ویسا فرض کرلےجیساانکےدشمن کہتےتہے کہ انہوں نےتوریت اور انجیل کےمندرجہ واقعات افواہی حیثیت سے عام اشخاص سےسنے اور انہیں قرآن میں درج کردیا.
اسکا نتیجہ کیاہوناچاہیئےتہا؟؟یہ کہ توریت وانجیل میں جس طرح واقعات کاتذکرہ ہواہے.اسکے قرآن کےمندرجہ واقعات میں ایسےاضافے، اختلافات اور حواشی ہوتے، جن میں واقعیت کےمتانت واستحکام کاپتہ نہ ہوتااورافواہی باتوں کی خرافت آمیز داستانوں کااثربہت نمایاں ہوتا یعنی توریت و انجیل کےمندرجہ واقعات میں اگر خلاف عقل وفطرت اور منافئ اصول دینیہ باتیں نہ تہیں تواس میں نظرآتیں اوراگرتہیں تو اس میں بہت بڑہ جاتیں.
لیکن جب ہم توریت و انجیل کےمندرجہ واقعات اورپہر قرآن مجید میں انہی واقعات کےتذکرہ کودیکہتےہیں تویہ نظرآتا ہےکہ بائبل کےواقعات میں اس درجہ دوراذکار اورخرافت آمیز روایات کی بہرمارہےکہ کسی طرح عقل و مذہب کی رو سےانہیں صحت کی سند کادیاجاناممکن نہیں ہےاور قرآن انہی واقعات کوتمام ان خرافتوں اور دوراذکار باتوں کوحذف کرکےایسے صحیح اورموافق فطرت اندازسے پیش کرتاہے جسے عقل اصلیت کی سند دینے پرمجبور ہے.
ملاحظہ ہو توریت کتاب پیدائش فصل نمبر4 میں حضرت آدم علیہ السلام کے ممنوعہ درخت سے تناول فرمانے کا قصہ اور اس میں جو کچہہ دوراذکار باتیں ہیں جن سے خداکی طرف غلط بیانی اورفریب کاری کاالزام عائد ہوتاہے. (معاذاللہ)
فصل نمبر15 میں ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ کہ انکو خدا کےوعدہ میں شک ہوا شام میں زمین عطاکئےجانے کےمتعلق (معاذاللہ)
اور
فصل نمبر18/19 میں ملائکہ کےآنےکا تذکرہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس ولادت اسحاق علیہ السلام کی خوشخبری لےکر
اور
کتاب خروج فصل نمبر3 میں خداوندعالم کاخطاب موسی علیہ السلام سےدرخت کےذریعہ سےاوراسکاوہ ضمیمہ جس سے پتہ چلتاہےکہ خداکی تعلیم موسی علیہ السلام کوشروع ہوئی تہی غلط بیانی کے سبق کےساتہہ. (معاذاللہ)
اور
فصل نمبر32 میں ہارون علیہ السلام کاقصہ کہ انہوں نے گوسالہ تیار کرایاتہاجو خدائےبنی اسرائیل کی حیثیت سے قراردیاجائےاور انہوں نےاس کےلئےقربانی اورعبادت کےطریقےمقرر کئےتہے. (معاذاللہ)
ان تمام واقعات کاایک دفعہ توریت میں مطالعہ کیجئےاوردیکہئےکہ انمیں کیاکیاباتیں ایسی ہیں جوکسی طرح عقل ودین کی روشنی میں صحیح تسلیم کئے جانےکے قابل نہیں ہیں.جن سےجلال الہی اور طہارت انبیاء پر دہبہ آتاہےاور بہت سے اصول عقلیہ کودہچکاپہنچتاہہاورپہرانہی واقعات کو قرآن مجید میں نکال کر ملاحظہ کیجئے معلوم ہوگاکہ قرآن مجید میں تمام وہ زوائد حذف ہیں جو مذکورہ بالا حیثیت سےناقابل قبول تہے اور اسمیں تمام واقعات ایسے انداز سےبیان ہوئےہیں جو کسی طرح شان حضرت الہی اور شاب انبیاء و مرسلین علیہم السلام کےخلاف نہیں ہیں.
ملحقات توریت میں جوواقعات مذکورہیں وہ بہی کچہہ کم افسوسناک نہیں ہیں.حضرت ایوب علیہ السلام کی طرف انتہائی جزع و قزع اور خدا سے شکوہ بلکہ اس پر اعتراض کی نسبت.حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف زناکاری کی شرمناک نسبت، حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف کفر و شرک کےرواج دینےکی نسبت وغیرہ وغیرہ ایسے واقعات ہیں جوایک لحظہ کےلئےبہی تسلیم نہیں کئےجاسکتے. (معاذاللہ)
بلکہ توریت اور اسکے ملحقات میں مذکورہ بالا امور سے بڑہ کربعض باتیں ملتی ہیں جیسے حضرت لوط علیہ السلام کی طرف شراب خوری اور نشہ شراب میں اپنی دونوں لڑکیوں کےساتہہ زناکاری، حضرت یعقوب علیہ السلام کی خدا کےساتہہ کشتی، حضرت یعقوب علیہ السلام کی اپنے والد کےساتہہ فریب کاری، خدا کا مشورہ آسمانی فرشتوں کےساتہہ کہ آخاب بادشاہ بنی اسرائیل کو گمراہ کیاجائےاور اسکےعلاوہ بہت سی باتیں جن سےپرانے عہدنامہ کے صفحات پورے طور پرمملو نظر آتےہیں. (معاذاللہ)
انجیل مقدس جوحضرت مسیح علیہ السلام کی تاریخ زندگی ہےاسمیں بہی اختصاروکمی صفحات کےباوجود حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف ایسےواقعات کی نسبت موجود ہےجوکسی طرح انکی شان کےلائق نہیں ہے جیسے شراب خوری، غلط بیانی، ماں اور بہائیوں کےساتہہ بداخلاقی اور نامحرموں کےساتہہ اخلاق سوز بےباکی. (معاذاللہ)
بلاشبہہ قرآن مجیدکےزمانےمیں اوراس سے قبل انبیاء و مرسلین کےتاریخی معلومات کےلئےیہودونصاری کی تعلیمات کے سوا کوئی سرچشمہ نہ تہااور توریت و انجیل ہی کےمندرجات تہے جو احبار،یہود و قسیسین نصاری کی نوک زبان تہے.
تورسول اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےاگر ان تعلیمات کویہود و نصاری کےعلماء سےحاصل کیا ہوتا تو وہ تمام خرافات جوانکی کتابوں میں تہے اس حدتک تو آپ(ص) کےیہاں بہی ملتےجوعام عیسائی علماء کےیہاں ازقبیل مسلمات تہےاوراگر آپ (ص) انکوصرف افواہی حیثیت سےصرف عوام کی زبانی سن کرنقل کرتےجیساکہ عام عیسائی مؤ لفین ظاہرکرناضروری سمجہتےہیں تو عام نظام عادت کےمطابق اسمیں توریت اور انجیل کےاصل مندرجات سےبدرجہازیادہ خرافات اور دوراذکار کی باتیں آجاتیں لیکن اسکےبرخلاف ہم دیکہتےہیں کہ قرآن نےان واقعات کو جو بائبل میں واقعیت کی شان کےبالکل خلاف تہےبالکل ذکر ہی نہیں کیااورجن واقعات کا بائبل نےذکرکیا انکو ان تمام اضافوں سے الگ کرکےجو اس واقعہ کو واقعیت کی حدود سے الگ پہینکنےکے ذمہ دار تہے.
اس سےایک غیرجانبدارانسان کی عقل کوصاف اس نتیجہ تک پہنچناچاہیئےکہ درحقیقت واقعات کی مسخ شدہ صورت وہ تہی جو توریت و انجیل میں رائج ہوگئی تہی اور خدائےقدوس نےجسکاکام بندگان خدا کی ہدائت ہے اپنےاس رسول (ص) کوجو خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہےان تمام صحیح واقعات کی اصل صورت میں تعلیم دی تاکہ توریت و انجیل میں پڑی ہوئی خرابیوں کی اصلاح ہوجائےاور گمراہ کن خیالات کاجو جلال الہی اور شان انبیاء علیہم السلام کےمنافی واقعات کی وجہ سےپیدا ہوتے ہیں قلع قمع اور آئیندہ کےلئے سدباب ہوجائے.

نمبر(2)استدلالی حیثیت سے

قرآن کےمحل نزول پرغورکیجئے عرب کی جہالت، کفر و شرک کا دوردورہ، گمراہی کی شدت، عقلوں کی کوتاہ نگاہوں کی ظاہر بینی، علوم وفنون سےاجنبیت اور منطق و فلسفہ سے بالکل ناشناسی، اس سبکودیکہئےاورپہر قرآن مجید کےمعارف و حقائق سےبہری ہوئی آیات کامطالعہ کیجئے،ان آیات کے عمق کو دیکہئے باریک بیں، دقیق فلسفی نگاہوں سےانکےمعانی پر غور کیجئےتو معلوم ہوگاکہ وہ کس کا کلام ہےاور ذہن فیصلہ کرےگا کہ عقل و عادت، فطرت و طبیعت کی رو سے اس طرف میں پیدا ہونے والےکسی انسان کا کلام نہیں ہوسکتا.
اسکےساتہہ بائبل کےان استدلالوں پر نظرڈالئےجو حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف منسوب کئے گئےہیں تومحسوس ہوگا کہ ان طریقوں سےاثبات مطلب کی ناکام کوشش کسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے شایان شان نہیں ہے.
یہاں تک کہ بعض مقامات پر تعداد “الہ اور شرک” تک کانتیجہ برآمد ہوتا ہے.ایسی کمزوریوں سے قرآن “منزہ و مبرا” ہے.

نمبر(3)تشریعی حیثیت سے

اسکاعام ذہن پورا اندازہ تونہیں کرسکتے مگر بہت سےصحیح ذوق اور پختہ عقل رکہنے والے افرادجنہوں نےدنیاکے قوانین واصول انتظامی کا انتقادی نظر سے مطالعہ کی اہے موازنہ کر کے دوقسم کی تعلیموں میں اتنا ضرور سمجہہ سکتے ہیں کی ان میں سے کون روح انتظامی کے ساتہہ زیادہ موافق اور مفاد اجتماعی کے مطابق اورکہاں تک عملی ہے اورفطرت کے ساتہہ سازگار اسکے علاوہ اسکاسمجہہ لینا تو ہر شخص کےلئے آسان ہے کہ کس قانون میں جامعیت پائی جاتی ہےاورشخصی و نوعی، انفرادی و اجتماعی ہرقسم کےاحکام پرحاوی ہے.
بلاشبہہ قرآن مجید کےنزول کےزمانہ میں ایک شریعت موجود تہی “شریعت موسویہ” جو یہود و نصاری کے نزدیک مسلم تہی اور حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف نسبت رکہنےوالا ایک آئین تہاجواگرچہ اس اعلان کی بناء پر کہ زمین و آسمان ٹل جائیں مگر شریعت موسی علیہ السلام کاایک شوشہ بہی نہیں ٹل سکتا.شریعت موسوی کےمقابلہ میں کوئی چیزنہیں ہوناچاہیئےلیکن وہ عملی طور پرشریعت موسویہ کےخلاف ایک مستقل چیزبن گیاتہا.
اسکےعلاوہ ایران میں زردشتی مذہب کی تعلیمات تہیں اور زردشت کی ایک مستقل شریعت تہی جو زندہ حیثیت رکہتی تہی اور ہزاروں آدمیوں کواپنا پابند بنائے ہوئےتہی.
کوئی بہی دین اگر اساسی حیثیت سےصحیح ہے تواس کی شریعت کےاجزاء اصلی یقینا وہی ہوسکتے ہیں جو خدائے قدوس کےنازل کردہ ہیں.یہ اوربات ہےکہ بعد کی تراش خراش نے ان میں تبدیلی کردی ہواور طرح طرح سے مسخ کردیاہو.
شریعت موسوی اور عیسوی اسکی یقینی مثال ہے
زردشت کےمتعلق چونکہ قرآن نےنبوت کی گواہی نہیں دی ہےلہذا اسےقطعی حیثیت حاصل نہیں ہے لیکن قرائن اور بعض اخبار و آثار کی بناء پربہت سےلوگ نبوت کے قائل ہیں جسکی نفی کےلئےبہی قطعی کوئی وجہ نہیں ہے.
اس صورت میں اگر ان شریعتوں میں کچہہ ایسے احکام موجود ہوں جوقرآنی احکام کےساتہہ متحد ہیں تو اس میں کوئی اعتراض کی بات نہیں ہےلیکن دیکہنےکاامر یہ ہے کہ قرآن میں ان مشترک احکام سےبہت زیادہ اور زندگی کے بہت سے ایسے شعبوں کے متعلق کتنے ایسے احکام و قوانین ہیں جنکا مذکورہ بالا شریعتوں میں صراحة وجود کے ساتہہ اشارہ بہی نہ تہا.اس سےبےلوث ضمیر کواس نتیجہ پرپہنچناچاہیئے کہ شریعت کوطویل عمرزمانہ کی ضروریات کے مطابق اسی خدا نےنازل کیاہےجسنےان شریعتوں کو ان کے محدود زمانہ کےلحاظ سے محدود احکام پر مشتمل نازل کیا تہااور اسی لئےآخر عمردنیاتک اسمیں تبدیلی کی کوئی ضرورت نہیں ہے.

نمبر(4)اخلاقی حیثیت سے

بلاشبہہ علم اور تربیت کاانسان کےاخلاق پر بڑا اثر پڑتاہے جہالت اور علوم صحیحہ سے ناواقفیت بڑی سے بڑی بداخلاقیوں کاسرچشمہ ہوتی ہےاور اخلاق کی جان جو کچہہ بہی ہے وہ ملکات نفسیہ اور قوائے طبعیہ میں اعتدال کے نقطہ کی پابندی اور افراط و تفریط سے کنارہ کشی ہے.
بڑےبڑے معلم کی تعلیمات اس وقت بےقیمت ہیں جب وہ یاتو تفریط کی وجہ سےاس حد تک کمزور ہوں کہ ان سےامن و انتظام اور تحفظ و تہذیب و شائستگی کا مقصد حاصل ہی نہ ہوتاہو اور یا افراط کےلحاظ سےاس درجہ زیادہ ہوں کہ وہ نفسانی فطرت کےتقاضوں کی بناء پر کبہی ممنون عمل بن ہی نہ سکیں.
توریت اور انجیل مروجہ کی اخلاقی تعلیمات کی نوعیت انہی دونوں راستوں میں تقسیم ہے.اول الذکر افراط اور ثانی الذکر تفریط کےلحاظ سےاعتدال سے علیحدہ ہیں.
لیکن قرآن مجید کی تعلیم ہرشعبہ حیات میں حد وسط کا درجہ رکہتی ہے.وہ افراط و تفریط دونوں سےمبرا ہےاور اس لئے ہر شخص کےلئے ممکن العمل اور تہذیب و شائستگی کی تکمیل کا ذریعہ ہے.
یہ خصوصیت بہی قرآن مجید کی وہ ہےجواسکو تمام کتب ادیان میں ممتاز درجہ عطاکرتی ہےاور اسکےساتہہ جب عرب کی جہالت اور رسول عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ماحول کو سامنے رکہہ کر دیکہا جائےگا تو ماننا پڑےگا کہ وہ الہامی حیثیت رکہتی ہے اور یقینا خداوندعالم کی جانب سےنازل شدہ ہے.

بلاغت کا مفہوم

کسی کتاب کی خوبی یہ ہےکہ وہ ایسی صاف اور سادہ زبان میں ہو کہ پڑہنے والا لکہنے والے کے مطلب کو سمجہہ سکے.
سوال یہ ہےکہ پڑہنے والا کون؟؟ ہر پڑہنے والا خواہ وہ زبان داں ہو یا غیر زبان داں سمجہہ دار ہو یا ناسمجہہ؟؟ حاضرالذہن ہو یا پریشان دماغ؟؟؟
اگر بلاغت کا معیار یہ ہے اور کسی کتاب کی خوبی یہی ہے تو عالم امکان میں کوئی کتاب بلکہ کسی متکلم کا ایک جملہ بہی اس معیار پر ٹہیک نہیں اترتا.
جبت تک دنیا میں زبانیں مختلف ہیں جب تک دل و دماغ کی طاقتیں جداگانہ ہیں، جب تک سننےوالوں کی کیفیتوں میں اختلاف ہے اس وقت تک تو یہ ناممکن ہے کہ کسی کلام سے ہر پڑہنے والا پورا فائدہ اٹہا سکے اسلئے کم از کم آپکو یہ قید تو لگانا ہی پڑے گی کہ جس زبان میں وہ کلام ہے اس زبان کے واقف کار اس کلام کو سمجہہ سکیں اور اس قید کے لگانے کی وجہ سے ہی قرآن کی اس آسانی سے اردو داں طبقہ کی محرومی ظاہر ہے.
خود ایک زبان میں مختلف مقامات کے محاوروں اتنا فرق ہوتا ہے کہ ایک کلام سب کیلئے مساوی نہیں ہوسکتا.مختلف شہروں کی زبان جدا ، شہر اور دیہات کی زبان بالکل الگ الگ، بلند اور سفید پوش طبقہ اور بازاری لوگوں کی زبان علیحدہ اور مردوں ، عورتوں کی زبان مختلف ہوتی ہے.اس لئے زبان کے اکثر فقرےایسے ہوں گے جو کسی لحاظ سے آسان اور کسی لحاظ سے مشکل ہوں. نتیجہ صاف ہے کہ سب کےلئے انکی آسانی قائم نہیں رہ سکتی. اب نہیں سمجہا جا سکتا کہ بلاغت کے مذکورہ معیار پر وہ کون سا کلام ہوگا جو بلیغ کہا جاسکے.
کہاجاسکتاھےکہ بلیغ کلام وہ ھےجو مخصوص مخاطبین کے لحاظ سے جنکو براہِ راست متوجہ کر کے وہ کلام کیا جارھاھے دشوارگزار نہ ھو مگر اس صورت میں یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ وہ ھر شخص کے کئے آسان ھی ھوگا اور کسی کو اسکے سمجھنے کے لئے شرح اور تفسیر کی ضرورت نہ ھوگی.
پھر اگر قرآن کی وہ حیثیت ھےجیسا کہ معترض نے کہا ھے کہ وہ لیکچروں کا مجموعہ اور ان لیکچروں کے ضمن میں جو خاص سوالات ھوتے ھیں انکا جواب بھی ھے تو بالکل ظاھر ھے کہ لیکچر کے ماحول حاضرالوقت اشخاص کے معیار فہم اور سائلین کی ذھنیت کا لحاظ ضروری ھے یہی بلاغت کا حقیقی تقاضا ھے اس سے عمومی آسانی کا نتیجہ کہیں برآمد ھوسکتاھے.
اس پر غور کرلیجئے کہ زبان میں زمانہ کے امتداد سے کتنے انقلابات ھوجاتے ھیں.قرآن کی تنزیل کو تقریباً ساڑھے چودہ سو برس ھوئے ھیں غیرممکن ھے کہ اس مدت میں تمام محاورات اپنی اصل حالت پر باقی رھیں. نتیجہ یہ ھے کہ موجودہ زمانہ کے خالص عرب اھلِ زبان بھی قرآن کے معانی کو صرف اپنی زبان دانی کے بھروسے پر نہیں سمجھہ سکتے بلکہ انہیں بھی قدیم محاوراتِ عرب کے تتبع، قدیم ذخیرہ ادب پر عبور اور آیات و احادیث کے مختلف استعمالات میں غوروخوض کی ضرورت ھے اور اس لحاظ سے قرآن کےلئے بھی بالکل آسان نہیں ھے.
اسکے علاوہ جہاں تک فصاحت اور سلامت کا تعلق ھے وہ الفاظ کے لغوی معانی اور کلام کے عرفی مفاھیم ھوسکتے ھیں لیکن جو کسی خاص شعبہ کے اصطلاحات ھوتے ھیں وہ بہرحال اس شعبہ کے ماھرین کی تشریح پر موقوف ھوں گے.
قرآن ایک خاص شریعت کا ترجمان بن کر آیا تھا.اسلئے اسمیں اس قسم کے الفاظ اور معانی کی کمی نہیں ھے. صلوٰة، زکوٰة، صیام، خمس، انفال، جہاد وغیرہ سب اصطلاحی الفاظ ھیں.انکی تشریح ھرگز صرف زبان دانی کی بناء نہیں ھوسکتی اس کےلئے ماھرین شریعت کی تفسیر کی ضرورت ھوگی.اس صورت میں کیونکر کہا جاسکتا ھے کہ قرآن بالکل آسان ھے اور اسے ھر شخص سمجھہ سکتا ھے.
پھر اب غور کیجئے کہ کلام کا مشکل ھونا جو بلاغت کے خلاف ھے اور جسکے لحاظ سے کلام آسان ھونا چاھیئے وہ کیا ھے؟؟
اسکا مطلب صرف یہ ھے کہ کلام میں عام اصول محاورہ کے خلاف کوئی ایسا الجھاؤ جسکی وجہ سے اصولِ محاورہ سے واقف اھلِ زبان اسکے معانی نہ سمجھہ سکیں خواہ وہ الجھاؤ ترکیب نحوی کے لحاظ سے ھو.اسکو اصطلاحاً ‘تعقیدِ لفظی’ کہتے ھیں یا بعید از ذھن استعارات و کنایات کے استعمال سے ھو اسکو ‘تعقیدِ معنوی’ کہتے ھیں یا الفاظ ایسے صرف کئےگئے ھوں جنکےاس مفہوم کے لئے جو متکلم نے مراد لیاھے عام طور پر فصحائے اھلِ زبان کچھہ دوسرے الفاظ استعمال کرتے ھیں اور ان الفاظ سے وہ واقف نہیں ھیں اسکو ” غرابت ” کہتے ھیں.لیکن اگر کلام بجائے خود اصول محاورہ کے مطابق ھے اور انہی الفاظ پر مشتمل ھے جو اسکے دورِ ورود میں فصحاء کی زبانوں پر چڑھے ھوئے تھے مگر اب ھمارے لئے مشکل ھے اس وجہ سے کہ ھم اس زبان سے اس دور کی زبان کی خصوصیات سے ناواقف ھوگئے ھیں تو اس طرح مشکل ھونا ھرگز کلام کا عیب نہ ھوگا بلکہ ھمارا نقص ھوگا کہ ھم اسکے سمجھنے کے لائق نہیں ھیں.
اسکے بعد یہ دیکھئے کہ ایک ھوتے ھیں کلام کے لفظی معانی ، یہ تو ایک کلام سے جو کہ سلیس زبان میں ھے ھر زبان داں جو ان محاورات سے واقف ھو سمجھہ لےگا اور اگر نہ سمجھے تو خیر مان لیجئے کہ کلام کا نقص ھے لیکن ایک ھوتے ھیں وہ مطالب جو لفظی معانی کی تہوں میں پوشیدہ ھوتے ھیں جنکا نتیجہ یہ ھے کہ جتنا غور کیا جائے اتنے نتائج اور حقائق کلام سے زیادہ منکشف ھوتے جائیں. یہ وہ چیز ھے کہ جو متکلم کی بلندی اور قابلیت کے لحاظ سے گہری ھوتی چلی جاتی ھے اور کلام کے اس حیثیت سے سمجھنے کے لحاظ سے انسانی جماعت کا مجمع اتنا ھی چھٹتا جاتا ھے جتنے بلند متکلم کا وہ کلام ھے.
اب اگر یہ صحیح ھے کہ قرآن ایک غیرمعمولی درجہ کا کلام ھے تو ضرور اسمیں یہ بلندی موجود ھوگی اور یقیناً انسانی دماغ کی ایک بلند سطح ھی وہ ھوگی جو اسکے معانی و نکات کا اچھی طرح ادراک کرسکے. اور اگر اسمیں یہ بات نہیں ھے اور وہ بالکل ھی سطحی باتوں پر مشتمل ھے جنکو ھر معمولی انسان پوری طرح سمجھہ لیتاھے اور اسکے آگے اسمیں کچھہ نہیں ھے تو یہ آسانی یقیناً اسکا نقص ھے.

معجزہ اور اثبات حقانیت

یہ امر ایک حد تک محل بحث رھا ھے کہ معجزہ سے کسی نبی کی سچائی پر کیونکر روشنی پڑتی ھے؟؟؟
بہت سےلوگ معجزہ کی حقیقت کو صرف ایک غیرمعمولی عجیب وغریب کرتب میں منحصر سمجھہ کر یہ کہہ دیتے ھیں کہ ایسی باتیں تو اکثر جادوگر،شعبدہ باز بھی پیش کردیتے ھیں یا بعض غیرمعمولی طاقت کےانسان اکثرایسےکام کرتے ھیں جن سے عام افراد قاصر نظر آتے ھیں تو کیا انمیں سے ھر ایک کو معجزہ سمجھاجائیگا اور اگر نہیں تو اس میں اور معجزات انبیاء میں کیا فرق ھے؟؟؟
یہ سوال حقیقۃً دلیلِ اعجاز کے متعلق ناسمجھی پر مبنی ھے
اعجاز کی بنیاد ایک باریک خصوصیت پر ھے جسکی وجہ سے ایک قسم کا عجیب و غریب مظاھرہ ایک مدعئ نبوت کےلئے دلیلِ اعجاز اور سبب ثبوتِ نبوت ھوتاھے اور اسی قسم کا مظاھرہ ایک ساحر اور جادوگر کا یا کسی غیرمعمولی انسان کا کوئی مخصوص کمال اسکا معجزہ نہیں ھوتا اور دلیلِ نبوت قرار نہیں پاتا.
غور سے ملاحظہ ھو حضرت حق عزاسمہ حکیم علی الاطلاق نقص و عیب سے بری اور ظلم و دروغ باطل کی حمایت سے بلند و برتر ھے اس کے دامنِ حکمت پر کسی باطل پروری اور ناحق کوشی کی حمایت کا دھبہ نہیں پڑسکتا.
ھمارے ایسے عام افراد میں کوئی ھماری جانب سے ایک غلط بات کی اشاعت کرے ھمارا نام لے کر کسی غلط اَمر کا اِدعا کرے اور ھناری طرف سے کوئی شناخت ثبوت میں پیش بھی کرے جس سے عام اشخاص کا دھوکا کھا جانا اصولِ فطرت کے لحاظ سے حق بجانب ھو تو ھمارا فرض بنتا ھے کہ ھم حقیقت کا اظہار اور واقعیت کا اعلان کردیں اوراپنی ذمہ داری کو اس سلسلہ میں پوراکریں.
ایک گندم نما جو فروش، ریاکاروظاھردار، زھدوتقویٰ کا بیوپاری اور بناوٹی ورع و تقویٰ کا دوکاندار میری طرف سے اجازہ اجتہاد یا پیش نمازی میرے جعلی دستط اور مہر سے بنا کر اطراف و جوانب، شہر و دیہات میں جاتا خلق خدا کی گمراھی کا سامان مہیا کرتا ھے.اس صورت میں لوگوں کا تو یہ فرض بنتا ھے کہ جب وہ میری طرف نسبت دے کر اپنی اشتہاری پیش نمازی یا اجتہاد کی دعوت دے تو وہ اس سے دلیل اور سند کا مطالبہ کریں لیکن جب اس نے اس مطالبہ کے جواب میں دستخطی و مہری سند پیش کردی تو عوام کا فرض ختم ھوچکا اب اگر مجھے اطلاع ھو تو میرا فریضہ یہ ھے کہ میں اسکا اعلان کردوں کہ یہ میرے دستخط اور مہر نہیں ھیں میری طرف اُن کی نسبت غلط ھے اور اگر میں سکوت کرتا ھوں تو اس کے معانی یہ ھوں گے کہ میں اس کے دعویٰ کی تصدیق کرتا اور عملی حیثیت سے اسکی تائید کرتا ھوں.
اب میرے یہاں تو یہ ممکن ھے کہ میں باوجود اس فریضہ کے عاید ھونے کے اپنے فرض کو محسوس نہ کروں یا احساس ھونے کے باوجود کسی روپہلی ، سنہری مصلحت کی وجہ سے اس فرض کی ادائیگی میں کوتاھی کر کے حمایتِ باطل اور گمراھئ خلق کی ذمہ داری اپنے سر لے لوں لیکن خداوندِ عالم کے یہاں تو یہ ممکن نہیں ھے.
جب خدا کی طرف سے ایک شخص نے کسی منصب کا دعویٰ کیا جو رھنمائی اور پیشوائی خلق کی نوعیت رکھتا ھے مثلاً اسنے اظہار کیا کہ مجھے خدا نے نبوت و رسالت کے شرف سے ممتاز کیا اور سفارت کے عہدہ جلیلہ سے سرفراز کیا تو عامہ خلائق کا فرض ھے کہ وہ اس سےدلیل کا مطالبہ کریں اور ثبوتِ نبوت کےلئےایسی کسی خاص بات کے پیش کرنے کی خواھش کریں جس سے دوسرے قاصر ھیں.اب اگر اسنے عام انسانوں کے طاقت و اقتدار سے بالاتر اور عام بشری دائرہ قدرت سے باھر کوئی ایسا امر پیش کردیا جس سے انسانی کمال کا ھاتھہ کوتاہ نظر آیا اور اس نے کہا کہ یہ طاقت مجھے خدا کی طرف سے عطا ھوئی ھے اور یہ میری سچائی کا ثبوت ھے.
اسکے بعد اگر خدا ھمارے جیسا شخص ھوتا جس پر بےخبری اور سہو و نسیان وغیرہ کا امکان ھوتا تو ممکن ھے عرصہ تک اسکی خاموشی بےخبری کے سبب حق بجانب قرار پاسکتی لیکن عالِم و حکیم خدا حاضر و ناضر خدا اور نظام کائنات کا مدبر خدا اگر اسکے بعد خاموش رھا یعنی اس کے دعوٰی کو برقرار رھنے دیا اس طرح کہ نہ اس کے ادعائے بےمثالی کو توڑنے کےلئے خود اسکی طاقت سلب کی اور نہ اسکے مقابلہ کسی دوسرے کو طاقت عطا کی تو سمجھنا پڑے گا کہ اسنے اسکی نمائندگی کا امضا، سفارت کا اقرار اور عہدہ کی تائید اور اسکے دعوائے نبوت و رسالت وغیرہ کی عملی طور پر تصدیق کردی ھے جسکا لازمی تقاضا یہ ھے کہ وہ سچا صاحبِ منصب ھے اگر ایسا نہیں تو اللہ پر حمایتِ باطل، گمراھئ خلق اور پامالئ حق کا الزام آتا ھے جو کسی طرح اسکی شان جلال وکمال کےلئے جائز نہیں ھے.
اس طرح معلوم ھوتا ھے کہ معجزہ میں جو روحِ اعجاز دوڑتی ھے وہ اس روحانی پیشوائی کے دعوٰی کی بناء پر ھے جو قدرت نمائی کا انتساب خدا کی طرف کردیتا ھے اور جسکے بعد خالق پر ذمہ داری عاید ھو جاتی ھے. لیکن اگر کوئی ایسا دعوٰی نہیں ھے تو لاکھہ عجائبات پیش کرے اور حیرت انگیز کام انجام دے ھر موقع پر اللہ کا یہ فرض تھوڑی ھے کہ ھر بات کے مقابلہ میں ایک بات اور ھر چیز کے جواب میں ایک چیز پیش کرتا رھے آخر اس صورت میں یہ سلسلہ کہیں پر ختم بھی تو ھوگا تو وہ آخری چیز لاجواب ھی ھوگی کیونکہ اسکی کوئی مثال موجود ھی نہ ھوگی.
ان عجیب مظاھروں، حیرت انگیزکرتبوں اور تعجب خیز کارگزاریوں سے جب خدا پر کوئی ذمہ داری عاید نہیں ھوتی تو ان عجیب کارناموں کا برقرار رھنا کسی خاص حقیقت کی دلیل قرار نہیں پاتا.
مذکورہ بالا بیان کی بناء پر معجزہ کی بنیاد حسب ذیل ارکان پر ھے جنکے بغیر کوئی چیز معجزہ سمجھی نہیں جاسکتی.

نمبر(1)

منصب روحانی مثلاً نبوت کا اِدعاء

نمبر(2)

غیرمعمولی امر ھونا جو اس حلقہ میں کہ جو دعوائے منصب کا مخاطب ھے تمام افراد کے دائرہ اقتدار سے باھر ھو اسلئے کہ اگر ایسا امر ھوا جس پر دوسرے اشخاص بھی قدرر رکھتے ھیں تو وہ کسی مرتبہ و عہدہ کی دلیل نہیں بن سکتا.

نمبر(3)

اس دعوٰی کے بعد کسی ایسے شخص کا پیدا نہ ھونا جو اس دعوٰی کو توڑ کر اسے باطل کرسکے.

نمبر(4)

حالات اور خصوصیات کی بناء پر کسی ایسے امر کا موجود نہ ھونا جو اس مدعئ نبوت کے دعوٰی کا قطعی بطلان کرنے کےلئے کافی ھو. اسلئے کہ اگر ایسا ھوا یعنی کوئی ایسا امر پایا گیا جو اسکے دعوٰی کو باطل ثابت کرنے کےلئے کافی ھو. جیسے:: مستند تسلیم شدہ نبئ سابق کا اعلان کہ میرے بعد آنے والا مدعئ نبوت غلط گو ھوگا یا یہ اعلان کہ میرے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ھے یا خود اس شخص کا جو مدعئ منصب ھے فاسق و فاجر اور اپنی سابقہ زندگی کے لحاظ سے بالکل ناکارہ ھونا جس کے ساتھہ اسکا بعہدہ نبوت وغیرہ منتخب قطعی دلائل عقلیہ اور خداوند عالم کے مواعید یقینیہ کے خلاف ھے تو ایسے شخص کا مدعی ھونے کے ساتھہ کسی غیرمعمولی امر کا اظہار بھی اسکی نبوت کے ثبوت کےلئے کافی نہیں ھے اس لئے کہ ثبوتِ نبوت تو خداوند عالم پر ذمہ داری عاید ھونے کی بنیاد پر تھا اور یہاں اسکی ذمہ داری نبئ سابق کے اعلان یا ان قطعی دلائل سے جو ایسے شخص کی نبوت کے منافی ھیں پوری ھوچکی ھے جو خدا کی طرف سے حجت تمام ھونے اور خلق کو گمراھی سے محفوظ رکھنے کے لئے کافی ھے. لہذا اب خداوندِ عالم کو اس مدعئ نبوت کے دعوٰی کو خصوصی طور پر کسی طریقہ سے باطل کرنے کی ضرورت نہیں ھے.
 
معجزہ کا سحر اور غیرمعمولی انسانی کمالات سے تفرقہ

معجزہ کے ارکان میں سے پہلا اورتیسرا رکن وہ ھے جو معجزہ کو سحر اور جادو سے الگ کردیتا ھے یقیناً جادو میں بھی ایک حیرت انگیز صورت کا مظاھرہ ھوتا ھے لیکن یا تو اس کے ساتھہ دعوائے نبوت وغیرہ ھوتا نہیں اس لئے خداوندِعالم پر کوئی ذمہ داری عاید نہیں ھوتی یا اگر دعوائے نبوت و رسالت کے ساتھہ یا کسی سچے نبی کے دعوائے نبوت اور معجزہ کے مقابلہ میں ھو تو اللہ اس کے ابطال کا سامان پیدا کردیتا ھے جیسا کہ ساحرانِ فرون کے قصہ میں واقع ھوا.
بہت سے وہ اشخاص جنہوں نے حقیقتِ معجزہ اور دلیلِ اعجاز پر غور نہیں کیا ھے اعجازِ نبوت کے مقابلہ میں بہت سے اشخاص کے ذاتی کمالات کو پیش کردیتے ھیں. مثلاً یہ کہتے ھیں کہ قرآن بحیثیت فصاحت و بلاغت اگر اس لئے معجزہ ھے کہ اسکا مثل کوئی نہیں لا سکا تو بہت سے علمی و ادبی آثار مختلف ادباء کے مختلف زبانوں میں ایسے ھیں جن کی مثل و نظیر اب تک باوجود کوشش و کاوش کے وجود میں نہیں آسکی. جیسے: شاھنامہ فردوسی اور گلستان سعدی، اردو میں مثنوی میرحسن اور مَراثیِ میرانیس، انگریزی میں شیکسپئر وغیرہ کے آثارِقلمی اور ادبی کارنامے اس کا جواب مذکورہ بالا بیانات سے ظاھر ھے.
اول تو مذکورہ مظاھرات کا موقع ظہور اس وقت ھے کہ جب ختمِ نبوت کے اعلان اور آئمہ دین کے نام بنام تعین نے کسی مدعئ منصبِ الہی کےلئے دروازہ بند کردیا ھے.اس لئے چوتھے رکن کی بناء پر دلیلِ اعجاز مکمل نہیں ھے اور ان مظاھرات سے حقیقتِ اعجاز پر کوئی اثر نہیں پڑتا. پھر یہ کہ فردوسی، سعدی، میرحسن اور شیکسپئر وغیرہ کے کارناموں کے ساتھہ کوئی دعوٰی وابستہ نہیں ھے جس کے ابطال کی اللہ کو ضرورت ھو.
دنیا میں مختلف طرح کے کلام ھوتے ھیں کچھہ معمولی کچھہ غیرمعمولی، اللہ کو کیا لازم ھے کہ وہ ھمیشہ ان کاموں میں ناکامی پیدا کرتا رھے آخر یہ دل و دماغ بھی تو اسی کے خلق کردہ ھیں جن سے یہ غیرمعمولی کارنامے ھورھے ھیں پھر وہ اپنی پیدا کی ھوئی صلاحیتوں کے جوھروں کو روبکار آنے سے کس لئے مانع ھو؟؟؟
سحر بھی عالمِ اسباب کے ماتحت ھے دنیا میں جتنے اسباب کارفرما ھیں سب اللہ کے خلق کردہ ھیں یہ اور بات ھے کہ بعض اسباب سے کوئی خاص کام لینے میں عام حالات میں اس نے روکا ھو. چنانچہ سحر ایسی ھی چیز ھے جو ممنوع قرار دی گئی ھے لیکن اسے بےاثر بنانا ھر حال میں اللہ پر لازم ھو اسکی کوئی وجہ نہیں ھے.
جب ھم کہتے ھیں کہ غیرمعمولی چیز یا خارقِ عادت تو اس کے معانی یہ ھوتے ھیں کہ وہ اس عام دستور کے خلاف ھے جو ھماری آنکھوں نے قانونِ قدرت کے ماتحت عام طور سے دیکھا ھے لیکن اکثر عام اسباب کے سلسلہ میں نتائج ایسے غیرمعمولی ھوجاتے ھیں جن کو دنیا بےمثال کہنے پر مجبور ھوتی ھے.ایک طبیب بعض اوقات ایسے مریضوں کو اچھا کردیتا ھے جن جا اچھا ھونا اس کے قبل دنیا نے نہیں دیکھا تھا. ایک انشاءپرداز بسااوقات ایسی تحریر لکھہ دیتا ھے جس کی نظیر اس سے پہلے آنکھوں کے سامنے نہیں آئی تھی. ایک شاعر بسااوقات ایسا شعر کہہ جاتا ھے جیسا شعر اس سے قبل نہیں ھوا تھا ایک کاتب کے ھاتھہ سے بسااوقات ایسے نقوش نکک جاتے ھیں جن کے مثل آنکھوں نے پہلے نہیں دیکھے تھے.
ھو سکتا ھے کہ اس طبیب، انشاءپرداز، شاعر یا کاتب کو اپنے اس نتیجہ عمل پر پورا بھروسہ بھی ھو اور وہ دنیا کو دعوت بھی دے کہ اگر کوئی میرا مدِمقابل ھو تو اس کے مثل بنا کر پیش کرے.
سعدی اپنی گلستان پر، یاقوت مستعصمی اپنے کتبوں پر اور میرانیس اپنے مرثیوں پر بجاطور سے فخر کرسکتے تھے اور بےنظیر ھونے کا دعوٰی بھی اپنی حدود میں درست تھا. اللہ کو کیا ضرورت کہ وہ انمیں سے ھر ایک کے دعوٰی کو غلط ثابت کرے.اس لئے کہ بہرحال وہ نتیجہ کملا ھے اسی کی خلق کردہ ایک مخلوق کا اور اسی کی عطا کردہ طاقتوں کا کرشمہ ھے.وہ اگر اس کے دعوائے کمال کو باطل کرنے کےلئے ایک کو پیدا کرے تو پھر ضرورت ھے کہ اسکی بےمثالی باطل کرنے کےلئے ایک اور پیدا کیا جائے اور پھر اس کےلئے تیسرا، یہ سلسلہ چلتا رھے تو کہیں پر تو ختم ھو ھی گا تو جو آخر میں ھوگا اس کا دعوٰی پھر لاجواب رھے گا.
پھر اگر پہلے صاحبِ کمال ھی کے اِدعائے بےمثالی کو برقرار رھنے دیا جاتا تو کیا حرج تھا.لہذا بلاشبہہ ھر دور میں ایسی قابلیت کے اشخاص پیدا ھوسکتے ھیں جنکی ایسی قابلیت ان کے غیر میں مفقود ھے اور ایسے کمال کے نمونے سامنے آسکتے ھیں جنکا مثل و نظیر موجود نہ ھو.
مگر یہ سب اسی وقت ٹھیک ھے جب تک اس کے ساتھہ کوئی دعوٰی کسی خداوندی منصب کا نہیں ھے لیکن اگر کوئی اپنے نتیجہ کمال جو یہ کہہ کر پیش کرے کہ اللہ نے مجھے اس عہدہ پر مقرر کیا ھے اور یہ میرا کارنامہ اسکا ثبوت ھے تو اللہ پر لازم ھے کہ وہ کسی کو اتنی قوت عطا کردے کہ وہ اس کے خلاف مظاھرہ کرکے باطل کردے.
“قرآن معجزہ” ھے اس لئے کہ وہ ثبوتِ نبوت میں پیش کیا گیا ھے اور پھر دنیا کو دعوت دی گئی ھے کہ اگر وہ اس رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رسالت میں شک رکھتی ھے تو اس کی مثال پیش کرے.اس کے بعد بھی جب دنیا قاصر رھی تو معلوم ھوا کہ وہ حقیقۃً انسانی طاقت سے خارج خدا کی خاص قوت و قدرت کا کرشمہ مخصوص امتیاز اور روحانی اختصاص ھے اور یہ “معجزہ” ھے جسے ثبوتِ نبوت کےلئے خالق نے اپنے رسول آخرالزماں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عطا کیا ھے.

تبصرے
Loading...