تفسیر “سورہ البقرة ” (آیات 51 تا 55)

تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 51 تا 55)

وَاِذْ وَ عَدْنَا مُوْسٰی اَرْبَعِیْنَ  لَیْلَةً ثُمَ اتَخَذْتُمْ الْعِجْلَ مِن بَعْدِه وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ(51)

اورجب ھم نے موسی کیلیے چالیس راتوں کی میعاد مقرر کی اورپھر تم نےان کے بعد گوسالہ تیارکرلیااوریہ تمہارا
بےمحل قدم تھا
؛؛؛
فرعونی حکومت سے نجات پانے کے بعد جب بنی اسرائیل کو آزادی کی کھلی فضا میں سانس لینے کا موقع حاصل ھوگیا تو حکمتِ الہی کا اقتضاء ھوا کہ ان کیلیے ایک مکمل نظامِ شریعت مقرر کیا جائے.اس کیلیے حضرت موسٰی علیہ السلام کو حکم ھوا کہ وہ کوہِ طور پر آکر تیس دن دعاء و مناجات اور عبادت میں مصروف رھیں تو ان کو وہ آسمانی کتاب جو ان کیلیے ایک دستورِحیات کی حیثیت رکھتی ھوگی عطا کردی جائیگی.اس میعاد میں بعد میں دس دن اور بڑھا دیئے گئے.اس تبدیلی کا ذکر دوسری جگہ قرآن مجید میں موجود ھے.

ووعدنا موسٰی ثلٰثین لیلة واتمنٰها بعشر” (الاعراف#142)
یہ اسی قسم کی تبدیلی تھی جسکو اصطلاحِ مذھب میں ‘بَدَا’ کہا جاتا ھے.
زیرِتحریر آیت میں قرآن مجید نے دونوں میعادوں کا مجموعہ بیان کیا ھے جو علمِ الہی میں ابتدا ھی سے مقرر تھا جسے سورہ اعراف والی آیت میں پہلے وعدہ اور اس میں اضافہ کے بعد اس طرح ذکر کیا ھے :
فتم میقات ربه اربعین لیلة
اس طرح ان کےپروردگارکی  طرف کی میعاد چالیس راتوں کی پوری ھوگئی
یہی ‘بداء’ کی عمومًا حقیقت ھوتی ھے کہ مصلحت کا موتضا شروع میں مختم نتیجہ کا اظہار نہیں ھوتا.لہذا جس حد تک اس وقت مصلحت ھوتی ھے اتنا اس وقت بتایا جاتا ھے.پھر بعد میں اس میں تبدیلی نمایاں ھوتی ھے جو ظاھر میں تبدیلی ھوتی ھے لیکن حقیقت میں وھی اصل تقدیرِالہی ھوا کرتی ھے جو علمِ باری میں مختتم طور پر شروع ھی سے مقرر ھے.سورہ اعراف میں تبدیلی کے ذکر کرنے کے ساتھ یہاں اُسی اصلِ تقدیر کو بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا ھے.(1)
یہی تبدیلی قومِ موسٰی (علیہ السلام) کیلیے ذریعہ ابتلاء ھوگئی.انہوں نے بےصبری سے کام لیا اور باوجودیکہ ھارون علیہ السلام جنہیں حضرت موسٰی علیہ السلام اپنا جانشین بناکر چھوڑ گئے تھے منع کرتے رھے قوم کی ایک بہت بڑی تعداد سامری کے کہنے میں آکر اس گوسالہ کو جسے اس نے سونے چاندی سے بنایا تھا خدا مان کر اُسکی پرستش میں مصروف ھوگئی.اس واقعہ کی بہت سی کڑیاں قرآن مجید میں متفقہ طور پر مذکور ھیں جنکی تشریح اُن ھی آیات کے ذیل میں آئیگی.
ظاھر ھے کہ یہ انکا عمل صریحی طور پر “شرک” تھا اور شرک کو قرآن میں کہا گیا ھے :
ان الشرك لظلم عظیم” (لقمان#13)
اس اعتبار سے بھی “وانتم ظالمون” کا فقرہ ان کیلیے بالکل درست ھے.پھر خصوصی طور پر وہ جتنے قدرتِ ربانی کے مظاھرے دیکھ چکے تھے اور جو اُن پر حضرت موسٰی علیہ السلام کے احسانات تھے ان کے باوجود انکا خدا اور رسول (ع) کے وعدہ پر بھروسہ نہ کرنا اور ان کے نائب حضرت ھارون علیہ السلام کے حکم سے سرتابی کرنا ایک شدید قسم کی زیادتی تھی جسکی ھرگز کسی حق شناس جماعت سے توقع نہ کی جانا چاھیئے.
**

ثُمَ عَفَوْنَا عَنْکُمْ مِنْ م بَعْدِ  ذٰلِكَ لَعَلَکُمْ تَشْکُرُوْنَ(52).
پھر اس کے بعد بھی ھم نے تمہیں معاف کردیاکہ شایداب تم شکرگزاری کرو
؛؛؛
گوسالہ کی عبادت کے جرم میں سوا ھارون علیہ السلام کے جو منع کررھے تھے تمام قوم ھی شریک تھی کچھ اصل اس عمل کے مرتکب ھونے کی صورت سے اور کچھ اس پر راضی رہ کر خاموشی اختیار کرنے کی صورت سے.اس بنا پر اس جرم کی پاداش میں اگر پوری قوم پر عذاب نازل ھوجاتا تو کچھ بعید نہ تھا مگر اس کے بعد کی آیت میں جیسا کہ ذکر آئیگا خداوندِعالم نے ایک خاص صورت سے سزا دینے اور اس کے ذیل میں تھوڑی جماعت کے ھلاک کردیئے جانے کے بعد عذاب کو برطرف کرلیا.یہی وہ معافی ھے جسکا یہاں ذکر ھے.
**

وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسیَ الَکِتٰبَ  وَالْفُرْقَانَ لَعَلَکُمْ تَهتَدُوْنَ(53).
اوراس وقت جب ھمنےموسی کو نوشتہ اور تفرقہ امتیاز کا  سامان عطا کیا شاید کہ تم  هدایت حاصل کرو
؛؛؛
یہ نوشتہ اور حق و باطل کے تفرقہ کا سامان دو چیزیں نہیں بلکہ وھی توریت جو میعادِمقرر کے پوری ھونے پر الواح کی صورت میں حضرت موسٰی علیہ السلام کو عطا ھوئی کتاب بھی تھی اور وھی معارف کے لحاظ سے حق و باطل اور اعمال کے اعتبار سے صحیح و غلط اور جائز و ناجائز میں تفرقہ و امتیاز کا سامان بھی تھی.(2)
**

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِه یٰقَوْمِ  اِنَکُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَکُمْ بِاتِخَاذِکُمُ  الْعِجْلَ فَتُوْبُوْآ اِلٰی بَارِئِکُمْ  فَاقَتُلُوْآاَنْفَسَکُمْ^ذٰلِکُمْ خَیْرّلَکُمْ عِنْدَ بَارِئِکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ ^اِنَه  هوَاالتَوَابّ الرَحِیْمّ(54).
اوراس وقت جب موسی نےاپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم بلاشبہ تم نے گوسالہ بناکراپنے ساتھ بڑی زیادتی کی ھے، لہذا اپنےخالق سے توبہ کرو،اسطرح کہ اپنےآدمیوں کو خود قتل کرو اس میں تمہارے خالق کےنزدیک
تمہاری بہتری ھے تواس صورت سے اس نے تمہاری توبہ قبول کی بےشک وہ بڑا توبہ قبول  کرنیوالا مہربان ھے
؛؛؛
توریت سے ظاھر ھوتا ھے کہ قتل کیا جانا شریعتِ موسوی میں شرک کی قانونی سزا تھی.چنانچہ مشرک و مشرکہ کیلیے یہ حکم درج ھے کہ
اس مرد یا عورت پر یہاں تک پتھراؤ کیجیو کہ وہ مر جائیں” (استثناء 5:17)
اس سے ثابت ھوتا ھے کہ گوسالہ پرستوں کیلیے یہ حکم خصوصی سزا کی حیثیت نہ رکھتا تھا بلکہ وہ حدِشرعی تھی جو ان پر جاری ھونا ھی چاھیئے تھی.ھاں اس کے جاری کرنیکا حکم ان لوگوں کو جو اس جرم سے عملاً الگ رھے تھے مگر خاموشی کے ساتھ دیکھتے رھنے کے مرتکب تھے اب انکی استقامت و اطاعت کا ایک امتحان تھا جس کے بعد انکی اس چشم پوشی کے گناہ کو معاف کردیا گیا.اس امتحان کے نقطہ نظر سے “فاقتلواانفسکم” کی یہ تشریح بالکل درست معلوم ھوتی ھے کہ ھر شخص کیلیے اپنے عزیز کو کو اس جرم کا مرتکب ھوا ھو اپنے ھاتھ سے قتل کرنے کا حکم تھا.(3)
یہ اپنےعزیزوں کوقتل کرناوقتی طور پر طبیعتوں پر جتنا بار تھا وہ ظاھر ھے اسی لیے اس ناگواری کو یہ کہہ کر دور کیاگیا کہ اس میں تمہارے خالق کے نزدیک تمہاری بہتری ھے، اس لیے بھی کہ اس طرح تم اُس ذمہ داری سے سبکدوش ھوجاؤ گے جو ان مشرکین کے عمل سے بے تعلقی کے فرض کے لحاظ سے تم پر عائد تھی اور اس لیے آئندہ کیلیے تمہاری وفاداری پایہ ثبوت کو پہنچ جائیگی اور نیز آخرت میں تمہیں اسکا اجر و ثواب بھی عطا ھوگا.
**

 

.”وَاِذْقُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَن نُؤْمِنُ  لَكَ حَتٰی نَرَی الله جَهرَةً  فَاَخَذَتْکُمُ الصٰعِقَةُ وَ اَنْتُمْ  تَنْظُرُوْنَ(55)
اور وہ وقت جب تم نے کہا اے موسٰی! ھم آپ کی بات ھرگز نہیں مانیں گے جبتک کہ ھم  ظاھر بظاھر دیکھ نہ لیں اس پر  تمہیں بجلی نےاپنی گرفت میں  لےلیا اس حالت میں کہ تم اپنی  آنکھوں سے دیکھ رھے تھے
؛؛؛
یہ اس وقت کا ذکر ھے جب قوم نے مطالبہ کیا کہ ھم آپ کے پیغمبرِالہی ھونے اور شرفِ مکالمہ سے مشرف ھونے کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرسکتے جبتک خود اپنے کانوں سے کلامِ الہی نہ سن لیں.اس پر حضرت موسٰی علیہ السلام نے ستر بزرگانِ قوم منتخب کیے جنہیں لیکر وہ کوہ طور پر گئے.اسکا ذکر قرآن کی دوسری آیت میں اس طرح ھے :
واختارموسٰی قومه سبعین رجلا لمیقالنا
موسٰی نے اپنی قوم میں سے سترآدمیوں کومنتخب کیاھماری طرف کی وعدہ گاہ پر لےجانے
کے لیے” (الاعراف#155(
آپ انہیں دامنِ کوہ میں چھوڑ کر خود آگے بڑھ گئے اور خالق سے مناجات و مکالمہ کے شرف سے مشرف ھوئے جسکی آواز ان سب لوگوں نے صاف صاف سنی مگر اب انہوں نے یہ کہا کہ ھم آپکا یہ کہنا کہ آپکی اللہ سے گفتگو ھوئی جبتک اپنی آنکھوں سے اسکا دیدار بھی نہ کرلیں(4). اس پر عتابِ الہی نازل ھوا اور بجلی نے گرکر اُن سب کو ھلاک کردیا.
اس جلال و غضب کے مظاھرہ سے نمایاں ھے کہ یہ مطالبہ عظمت و شانِ الہی کے خلاف تھا جب ھی اس پر اتنا سخت عتاب ھوا(5).پھر جبکہ یہ ایک محال امر ھے اور عظمت و قدوسیت خالق کے منافی ھے تو اس میں دنیا و آخرت کی تفریق کیسی؟اسکا جلال و عظمت جس طرح یہاں ھے ویسے ھی وھاں، جیسے آج ویسے ھی کل.
اگر جنت میں دیدار ھونے والا ھوتا تو بجائے غضب و عتاب کے یہ تسکین دھانی مناسب قرار پاتی کہ ابھی صبر کرو آخرت میں جب جنت میں داخل ھونا تب دیدار کرلینا.مگر چونکہ آنکھوں سے کسی چیز کا مشاھدہ جسمیت کا متقاضی ھے اور اللہ جسم نہیں رکھتا اس لیے اسکی رویت بلا فرقِ زمان و مکام محال و غیرمعقول ھے.
**

_____________________________________
(1).
اربعین لیلة باعتبارمحموع العددين الوعدالاول وهو ثلاثون ليلة والثانی وهواتمامها بعشرکمافی سورة الاعراف (البلاغی)
(2). یعنی الجامع بین کونه كتابا منزل او فرقانا بين يفرق بين الحق والباطل يعنی التوراة نحورأیت الغیث واللیث یریدالرجل الجامع بین الجود والجرأة (نیشاپوری)
(3). الظاهرانه لیس المرادان یتحرواویقتل کل انسان نفسه بل قتل النفوس المضافة الیهم بالقرابة والرحم الماسة (البلاغی)

(4). روی ابن بابویه فی العیون عن الرضا علیه السلام ماملخصان بنی اسرائیل قالوالموسٰی (علیه السلام) لن نؤمن لك بان الله ارسلك وكلمك حتٰی نسمع کلام الله فاختار منهم سبعین رجلا فلما سمعوا کلام الله من الجهات الست قالوا لن نؤمن بانه کلام الله حتٰی نری الله جهرة (البلاغی)
(5). لفرط العنادوالتعنت وطلب المستحیل (بیضاوی(

تبصرے
Loading...